The Noble Qur'an Encyclopedia
Towards providing reliable exegeses and translations of the meanings of the Noble Qur'an in the world languagesThe Spider [Al-Ankaboot] - Urdu Translation
Surah The Spider [Al-Ankaboot] Ayah 69 Location Maccah Number 29
الم.
کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان ﻻئے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟.(1)
ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا(1) ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں.
کیا جو لوگ برائیاں کر رہے ہیں انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وه ہمارے قابو سے باہر ہو جائیں گے(1) ، یہ لوگ کیسی بری تجویزیں کر رہے ہیں.(1)
مَن كَانَ يَرۡجُواْ لِقَآءَ ٱللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ ٱللَّهِ لَأٓتٖۚ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡعَلِيمُ [٥]
جسے اللہ کی ملاقات کی امید ہو پس اللہ کا ٹھہرایا ہوا وقت یقیناً آنے واﻻ ہے(1) ، وه سب کچھ سننے واﻻ، سب کچھ جاننے واﻻ ہے.(2)
اور ہر ایک کوشش کرنے واﻻ اپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےنیاز ہے.(1)
اور جن لوگوں نے یقین کیا اور مطابق سنت کام کیے ہم ان کے تمام گناہوں کو ان سے دور کر دیں گے اور انہیں ان کے نیک اعمال کے بہترین بدلے دیں گے.(1)
ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے(1) ہاں اگر وه یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیئے(2)، تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے پھر میں ہر اس چیز سے جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوں گا.
اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کیے انہیں میں اپنے نیک بندوں میں شمار کر لوں گا.(1)
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے ہیں لیکن جب اللہ کی راه میں کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو لوگوں کی ایذا دہی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح بنا لیتے ہیں(1) ، ہاں اگر اللہ کی مدد آجائے(2) تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھی ہی ہیں(3) کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اس سے اللہ تعالیٰ دانا نہیں ہے؟(4)
جو لوگ ایمان ﻻئے اللہ انہیں بھی ﻇاہر کرکے رہے گا اور منافقوں کو بھی ﻇاہر کرکے رہے گا.(1)
کافروں نے ایماں والوں سے کہا کہ تم ہماری راه کی تابعداری کرو تمہارے گناه ہم اٹھا لیں گے(1) ، حاﻻنکہ وه ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی نہیں اٹھانے والے، یہ تو محض جھوٹے ہیں.(2)
البتہ یہ اپنے بوجھ ڈھولیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ ہی اور بوجھ بھی(1) ۔ اور جو کچھ افترا پردازیاں کر رہے ہیں ان سب کی بابت ان سے باز پرس کی جائے گی.
اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وه ان میں ساڑھے نو سو سال تک رہے(1) ، پھر تو انہیں طوفان نے دھر پکڑا اور وه تھے بھی ﻇالم.
پھر ہم نے انہیں اور کشتی والوں کو نجات دی اور اس واقعہ کو ہم نے تمام جہان کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا.
اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اوراس سے ڈرتے رہو، اگر تم میں دانائی ہے تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے.
تم تو اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہو اور جھوٹی باتیں دل سے گھڑ لیتے ہو(1) ۔ سنو! جن جنکی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کر رہے ہو وه تو تمہاری روزی کے مالک نہیں پس تمہیں چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری(2) کرو اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے.(3)
اور اگر تم جھٹلاؤ تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی جھٹلایا ہے(1) ، رسول کے ذمہ تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہی ہے.(2)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ مخلوق کی ابتدا کس طرح اللہ نے کی پھر اللہ اس کا اعاده کرے گا(1) ، یہ تو اللہ تعالیٰ پر بہت ہی آسان ہے.(2)
کہہ دیجئے! کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی(1) کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداءً پیدائش کی۔ پھر اللہ تعالیٰ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.
جسے چاہے عذاب کرے جس پر چاہے رحم کرے، سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے.(1)
تم نہ تو زمین میں اللہ تعالیٰ کو عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں، اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی والی ہے نہ مددگار.
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور اس کی ملاقات کو بھلاتے ہیں وه میری رحمت سے ناامید ہو جائیں(1) اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے.
ان کی قوم کا جواب بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے کہ اسے مار ڈالو یا اسے جلا دو(1) ۔ آخر اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا(2)، اس میں ایمان والے لوگوں کے لیے تو بہت سی نشانیاں ہیں.
(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے) کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اللہ کے سوا کی ہے انہیں تم نے اپنی آپس کی دنیوی دوستی کی بنا ٹھہرا لی ہے(1) ، تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگو گے(2) اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے۔ اور تمہارا سب کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا.
پس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حضرت لوط (علیہ السلام) ایمان ﻻئے(1) اور کہنے لگے کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے واﻻ ہوں(2)۔ وه بڑا ہی غالب اور حکیم ہے.
اور ہم نے انھیں (ابراہیم کو) اسحاق ویعقوب (علیہما السلام) عطا کیے اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اوﻻد میں ہی کر دی(1) اور ہم نے دنیا میں بھی اسے ﺛواب دیا (2)اور آخرت میں تو وه صالح لوگوں میں سے ہیں.(3)
اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا بھی ذکر کرو جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم تو اس بدکاری پر اتر آئے(1) ہو جسے تم سے پہلے دنیا بھر میں سے کسی نے نہیں کیا.
کیا تم مردوں کے پاس بدفعلی کے لیے آتے ہو(1) اور راستے بند کرتے ہو(2) اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائیوں کا کام کرتے ہو(3)؟ اس کے جواب میں اس کی قوم نے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہا کہ بس(4) جا اگر سچا ہے تو ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آ.
حضرت لوط (علیہ السلام) نے دعا کی(1) کہ پروردگار! اس مفسد قوم پر میری مدد فرما.
اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بشارت لے کر پہنچے کہنے لگے کہ اس بستی والوں کو ہم ہلاک کرنے والے ہیں(1) ، یقیناً یہاں کے رہنے والے گنہگار ہیں.
(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے) کہا اس میں تو لوط (علیہ السلام) ہیں، فرشتوں نے کہا یہاں جو ہیں ہم انہیں بخوبی جانتے ہیں(1) ۔ لوط (علیہ السلام) کو اور اس کے خاندان کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچالیں گے، البتہ وه عورت پیچھے ره جانے والوں میں سے ہے.(2)
پھر جب ہمارے قاصد لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو وه ان کی وجہ سے غمگین ہوئے اور دل ہی دل میں رنج کرنے لگے(1) ۔ قاصدوں نے کہا آپ نہ خوف کھایئے نہ آزرده ہوں، ہم آپ کو مع آپ کے متعلقین کے بچالیں گے مگر آپ کی(2) بیوی کہ وه عذاب کے لیے باقی ره جانے والوں میں سے ہوگی.
ہم اس بستی والوں پر آسمانی عذاب نازل کرنے والے ہیں(1) اس وجہ سے کہ یہ بےحکم ہو رہے ہیں.
البتہ ہم نے اس بستی کو صریح عبرت کی نشانی بنا دیا(1) ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں.(2)
اور مدین کی طرف(1) ہم نے ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو قیامت کے دن کی توقع رکھو(2) اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو.(3)
پھر بھی انہوں نے انہیں جھٹلایا آخر انہیں زلزلے نے پکڑ لیا اور وه اپنے گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے مرده ہو کر ره گئے.(1)
اور ہم نے عادیوں اور ﺛمودیوں کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ﻇاہر ہیں(1) اور شیطان نے انہیں ان کی بداعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راه سے روک دیا تھا باوجودیکہ یہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے.(2)
اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی، ان کے پاس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے(1) پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے.(2)
پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناه کے وبال میں گرفتار کر لیا(1) ، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا(2) اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا(3) اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا(4) اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا(5)، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ﻇلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے تھے.(6)
جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وه بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حاﻻنکہ تمام گھروں سے زیاده بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے(1) ، کاش! وه جان لیتے.
اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جنہیں وه اس کے سوا پکار رہے ہیں، وه زبردست اور ذی حکمت ہے
ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان فرما رہے ہیں(1) انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں.(2)
اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو مصلحت اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے(1) ، ایمان والوں کے لیے تو اس میں بڑی بھاری دلیل ہے.(2)
جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے(1) اور نماز قائم کریں(2)، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے(3)، بیشک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے(4)، تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے.
اور اہل کتاب کے ساتھ بحﺚ ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمده ہو(1) مگر ان کے ساتھ جو ان میں ﻇالم ہیں(2) اور صاف اعلان کر دو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے اور جو ہم پر اتاری گئی ہے اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی(3)، ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں.
اور ہم نے اسی طرح آپ کی طرف اپنی کتاب نازل فرمائی ہے، پس جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وه اس پر ایمان ﻻتے ہیں(1) اور ان (مشرکین) میں سے بعض اس پر ایمان رکھتے ہیں(2) اور ہماری آیتوں کا انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں.
اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے(1) اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے(2) تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک وشبہ میں پڑتے.(3)
بلکہ یہ (قرآن) تو روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں(1) ، ہماری آیتوں کا منکر بجز ﻇالموں کے اور کوئی نہیں.
انہوں نے کہا کہ اس پر کچھ نشانیاں (معجزات) اس کے رب کی طرف سے کیوں نہیں اتارے گئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں(1) میں تو صرف کھلم کھلا آگاه کر دینے واﻻ ہوں.
کیا انہیں یہ کافی نہیں؟ کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرما دی جو ان پر پڑھی جا رہی ہے(1) ، اس میں رحمت (بھی) ہے اور نصیحت (بھی) ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان والے ہیں.(2)
کہہ دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ تعالیٰ گواه ہونا کافی ہے(1) وه آسمان وزمین کی ہر چیز کا عالم ہے، جو لوگ باطل کے ماننے والے اور اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے والے(2) ہیں وه زبردست نقصان اور گھاٹے میں ہیں.(3)
یہ لوگ آپ سے عذاب کی جلدی کر رہے ہیں(1) ۔ اگر میری طرف سے مقرر کیا ہوا وقت نہ ہوتا تو ابھی تک ان کے پاس عذاب آچکا ہوتا(2)، یہ یقینی بات ہے کہ اچانک ان کی بے خبری میں ان کے پاس عذاب آپہنچے گا.(3)
یہ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں اور (تسلی رکھیں) جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے.(1)
اس دن ان کے اوپر تلے سے عذاب ڈھانﭗ رہا ہوگا اور اللہ تعالیٰ(1) فرمائے گا کہ اب اپنے (بد) اعمال کا مزه چکھو.
اے میرے ایمان والے بندو! میری زمین بہت کشاده ہے سو تم میری ہی عبادت کرو.(1)
ہر جاندار موت کا مزه چکھنے واﻻ ہےاور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے.(1)
اور جولوگ ایمان ﻻئے اور نیک کام کیے انہیں ہم یقیناً جنت کے ان باﻻ خانوں میں جگہ دینگے جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں(1) جہاں وه ہمیشہ رہیں گے(2)، کام کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے.
وه جنہوں نے صبر کیا(1) ، اور اپنے رب تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں.(2)
اور بہت سے(1) جانور ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے(2)، ان سب کو اور تمہیں بھی اللہ تعالیٰ ہی روزی دیتا ہے(3)، وه بڑا ہی سننے جاننے واﻻ ہے.(4)
اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین وآسمان کا خالق اور سورج چاند کو کام میں لگانے واﻻ کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ(1) ، پھر کدھر الٹے جا رہے ہیں.(2)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ(1) ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے واﻻ ہے.(2)
اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زنده کس نے کیا؟ تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا اللہ تعالیٰ نے۔ آپ کہہ دیں کہ ہر تعریف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے، بلکہ ان میں سے اکثر بے عقل ہیں.(1)
اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے(1) البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے(2)، کاش! یہ جانتے ہوتے.(3)
پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وه انہیں خشکی کی طرف بچا ﻻتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں.(1)
تاکہ ہماری دی ہوئی نعمتوں سے مکرتے رہیں اور برتتے رہیں(1) ۔ ابھی ابھی پتہ چل جائے گا.
کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو با امن بنا دیا ہے حاﻻنکہ ان کے اردگرد سے لوگ اچک لیے جاتے ہیں(1) ، کیا یہ باطل پر تو یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ناشکری کرتے ہیں.(2)
اور اس سے بڑا ﻇالم کون ہوگا؟ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے(1) یا جب حق اس کے پاس آجائے وه اسے(2) جھٹلائے، کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہ ہوگا؟
اور جو لوگ ہماری راه میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں(1) ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے(2)۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے.(3)