The Noble Qur'an Encyclopedia
Towards providing reliable exegeses and translations of the meanings of the Noble Qur'an in the world languagesThe heights [Al-Araf] - Urdu Translation
Surah The heights [Al-Araf] Ayah 206 Location Maccah Number 7
المص
یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ سے ڈرائیں، سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو(1) اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔
تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے(1) اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔
اور بہت بستیوں کو ہم نے تباه کردیا اور ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت پہنچا یا ایسی حالت میں کہ وه دوپہر کے وقت آرام میں تھے۔(1)
سو جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا اس وقت ان کے منھ سے بجز اس کے اور کوئی بات نہ نکلی کہ واقعی ہم ﻇالم تھے۔(1)
پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے اور ہم پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے۔(1)
پھر ہم چونکہ پوری خبر رکھتے ہیں ان کے روبرو بیان کردیں گے(1) ۔ اور ہم کچھ بے خبر نہ تھے۔
وَٱلۡوَزۡنُ يَوۡمَئِذٍ ٱلۡحَقُّۚ فَمَن ثَقُلَتۡ مَوَٰزِينُهُۥ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ [٨]
اور اس روز وزن بھی برحق ہے پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہوں گے۔
اور جس شخص کا پلا ہلکا ہوگا سو یہ وه لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ﻇلم کرتے تھے۔(1)
اور بے شک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان رزق پیدا کیا، تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔
اور ہم نے تم کو پیدا کیا(1) ، پھر ہم ہی نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو سو سب نے سجده کیا بجز ابلیس کے، وه سجده کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔
حق تعالیٰ نے فرمایا تو جو سجده نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے(1) ، جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا، کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے۔(2)
حق تعالیٰ نے فرمایا آسمان سے اتر(1) تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں ره کر تکبر کرے سو نکل بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔(2)
اس نے کہا کہ مجھ کو مہلت دیجئے قیامت کے دن تک۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ کو مہلت دی گئی۔(1)
اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراه کیا ہے(1) میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راه پر بیٹھوں گا۔
پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی(1) اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیے گا۔(2)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل وخوار ہوکر نکل جا جو شخص ان میں سے تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھردوں گا۔
اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ، اور اس درخت کے پاس مت جاؤ(1) ورنہ تم دونوں ﻇالموں میں سے ہوجاؤ گے۔
پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ(1) ڈاﻻ تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیده تھیں دونوں کے روبرو بے پرده(2) کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زنده رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔
اور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانیئے میں تم دونوں کا خیر خواه ہوں>(1)
سو ان دونوں کو فریب سے نیچے(1) لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پرده ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے(2) اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟(3)
دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔(1)
حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک۔
فرمایا تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے۔
اے آدم (علیہ السلام) کی اوﻻد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے(1) اور تقوے کا لباس(2)، یہ اس سے بڑھ کر ہے(3)۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔
اے اوﻻد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرا دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وه ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ وه اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو(1) ۔ ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں ﻻتے۔(2)
اور وه لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتایا ہے۔ آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ فحش بات کی تعلیم نہیں دیتا، کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے؟(1)
آپ کہہ دیجیئے کہ میرے رب نے حکم دیا ہے انصاف کا(1) اور یہ کہ تم ہر سجده کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھا کرو(2) اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خالص اللہ ہی کے واسطے رکھو۔ تم کو اللہ نے جس طرح شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم دوباره پیدا ہوگے۔
بعض لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی ہے اور بعض پر گمراہی ﺛابت ہوگئی ہے۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنالیا ہے اور خیال رکھتے ہیں کہ وه راست پر ہیں۔
اے اوﻻد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو(1) ۔ اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بےشک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(2)
آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں(1) ۔ ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں۔
آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں(1) اور جو پوشیده ہیں اور ہر گناه کی بات کو اور ناحق کسی پر ﻇلم کرنے کو(2) اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں۔
اور ہر گروه کے لئے ایک میعاد معین(1) ہے سو جس وقت ان کی میعاد معین آجائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔
اے اوﻻد آدم! اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم ہی میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے۔(1)
اور جو لوگ ہمارے ان احکام کو جھٹلائیں اور ان سے تکبر کریں وه لوگ دوزخ والے ہوں گے وه اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔(1)
سو اس شخص سے زیاده ﻇالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتائے، ان لوگوں کے نصیب کا جو کچھ کتاب سے ہے وه ان کو مل جائے گا(1) ، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ وه کہاں گئے جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، وه کہیں گے کہ ہم سے سب غائب ہوگئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو فرقے تم سے پہلے گزر چکے ہیں(1) جنات میں سے بھی اور آدمیوں میں سے بھی، ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جاؤ۔ جس وقت بھی کوئی جماعت داخل ہوگی اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی(2) یہاں تک کہ جب اس میں سب جمع ہوجائیں گے(3) تو پچھلے لوگ پہلے لوگوں کی نسبت کہیں گے(4) کہ ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراه کیا تھا سو ان کو دوزخ کا عذاب دو گنا دے(5)۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ سب ہی کا دوگنا ہے(6)، لیکن تم کو خبر نہیں۔
اور پہلے لوگ پچھلے لوگوں سے کہیں گے کہ پھر تم کو ہم پر کوئی فوقیت نہیں سو تم بھی اپنی کمائی کے بدلے میں عذاب کامزه چکھو۔
جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے(1) اور وه لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے(2) اور ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔
ان کے لئے آتش دوزخ کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر (اسی کا) اوڑھنا ہوگا(1) اور ہم ایسے ﻇالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔
اور جو لوگ ایمان ﻻئے اور انہوں نے نیک کام کئے ہم کسی شخص کو اس کی قدرت سے زیاده کسی کا مکلف نہیں بناتے(1) وہی لوگ جنت والے ہیں اور وه اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
اور جو کچھ ان کے دلوں میں (کینہ) تھا ہم اس کو دور کردیں گے(1) ۔ ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اور وه لوگ کہیں گے کہ اللہ کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتا(2)۔ واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لے کر آئے تھے۔ اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ اس جنت کے تم وارث بنائے گئے ہو اپنے اعمال کے بدلے۔(3)
اور اہل جنت اہل دوزخ کو پکاریں گے کہ ہم سے جو ہمارے رب نے وعده فرمایا تھا ہم نے تو اس کو واقعہ کے مطابق پایا، سو تم سے جو تمہارے رب نے وعده کیا تھا تم نے بھی اس کو واقعہ کے مطابق پایا(1) وه کہیں گے ہاں، پھر ایک پکارنے واﻻ دونوں کے درمیان میں پکارے گا کہ اللہ کی مار ہو ان ﻇالموں پر۔
جو اللہ کی راه سے اعراض کرتے تھے اور اس میں کجی تلاش کرتے تھے اور وه لوگ آخرت کے بھی منکر تھے۔
اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی(1) اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہوں گے وه لوگ(2)، ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے(3) اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے، السلام علیکم! ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کے امیدوار ہوں گے۔(4)
اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھریں گی تو کہیں گے اے ہمارے رب! ہم کو ان ﻇالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر۔
اور اہل اعراف بہت سے آدمیوں کو جن کو کہ ان کے قیافہ سے پہچانیں گے پکاریں گے کہیں گے کہ تمہاری جماعت اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا تمہارے کچھ کام نہ آیا۔(1)
کیا یہ وہی ہیں جن کی نسبت تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان پر(1) رحمت نہ کرے گا، ان کو یوں حکم ہوگا کہ جاؤ جنت میں تم پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ تم مغموم ہوگے۔
اور دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے، کہ ہمارےاوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو یا اور ہی کچھ دے دو، جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے۔ جنت والے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کی کافروں کے لئے بندش کردی ہے۔(1)
جنہوں نے دنیا میں اپنے دین کو لہو ولعب بنا رکھا تھا اور جن کو دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا۔ سو ہم (بھی) آج کے روز ان کا نام بھول جائیں گے جیسا کہ وه اس دن کو بھول گئے(1) اور جیسا یہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔
وَلَقَدۡ جِئۡنَٰهُم بِكِتَٰبٖ فَصَّلۡنَٰهُ عَلَىٰ عِلۡمٍ هُدٗى وَرَحۡمَةٗ لِّقَوۡمٖ يُؤۡمِنُونَ [٥٢]
اور ہم نے ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچادی ہے جس کو ہم نے اپنے علم کامل سے بہت واضح کر کے بیان کردیا ہے(1) ، وه ذریعہ ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان ﻻئے ہیں۔
ان لوگوں کو اور کسی بات کا انتظار نہیں صرف اس کے اخیر نتیجہ کا انتظار ہے(1) ، جس روز اس کا اخیر نتیجہ پیش آئے گا اور اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یوں کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی سچی باتیں ﻻئے تھے، سو اب کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے کہ وه ہماری سفارش کردے یا کیا ہم پھر واپس بھیجے جاسکتے ہیں تاکہ ہم لوگ ان اعمال کے، جن کو ہم کیا کرتے تھے برخلاف دوسرے اعمال کریں۔ بےشک ان لوگوں نے اپنے آپ کو خساره میں ڈال دیا اور یہ جو جو باتیں تراشتے تھے سب گم ہوگئیں۔(2)
بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے(1) ، پھر عرش پر قائم ہوا(2)۔ وه شب سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وه شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے(3) اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔
تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی۔ واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔
اور دنیا میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کردی گئی ہے، فساد مت پھیلاؤ اور تم اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے۔(1)
اور وه ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وه خوش کر دیتی ہیں(1) ، یہاں تک کہ جب وه ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں(2)، تو ہم اس بادل کو کسی خشک سرزمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں، پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں(3)۔ یوں ہی ہم مردوں کو نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم سمجھو۔(4)
اور جو ستھری سرزمین ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے(1) ، اسی طرح ہم دﻻئل کو طرح طرح سے بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لئے جو شکر کرتے ہیں۔
ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا توانہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں، مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
ان کی قوم کے بڑے لوگوں نے کہا کہ ہم تم کو صریح غلطی میں دیکھتے ہیں۔(1)
انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ میں تو ذرا بھی گمراہی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا رسول ہوں۔
تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں۔
اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت، جو تمہاری ہی جنس کا ہے، کوئی نصیحت کی بات آگئی تاکہ وه شخص تم کو ڈرائے اور تاکہ تم ڈرجاؤ(1) اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
سو وه لوگ ان کی تکذیب ہی کرتے رہے تو ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور ان کو جو ان کےساتھ کشتی میں تھے، بچالیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو ہم نے غرق کردیا۔ بے شک وه لوگ اندھے ہورہے تھے۔(1)
اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو بھیجا(1) ۔ انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، سو کیا تم نہیں ڈرتے
ان کی قوم میں جو بڑے لوگ کافر تھے انہوں نے کہا ہم تم کو کم عقلی میں دیکھتے ہیں(1) ۔ اور ہم بے شک تم کو جھوٹے لوگوں میں سمجھتے ہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ میں ذرا بھی کم عقلی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں۔
تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا امانتدار خیرخواه ہوں۔
اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت، جو تمہاری ہی جنس کاہے کوئی نصیحت کی بات آگئی تاکہ وه شخص تم کو ڈرائے اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ نے تم کو قوم نوح کے بعد جانشین بنایا اور ڈیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ زیاده دیا(1) ، سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم کو فلاح ہو۔
انہوں نے کہا کہ کیا آپ ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ان کو چھوڑ دیں(1) ، پس ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو۔(2)
انہوں نے فرمایا کہ بس اب تم پر اللہ کی طرف سے عذاب(1) اور غضب آیا ہی چاہتا ہے کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے باب میں جھگڑتے ہو(2) جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ٹھہرالیا ہے؟ ان کے معبود ہونے کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں بھیجی۔ سو تم منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۔
غرض ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچالیا اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی، جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وه ایمان ﻻنے والے نہ تھے۔(1)
اور ہم نے ﺛمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو بھیجا(1) ۔ انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے۔ یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آپکڑے۔
اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو عاد کے بعد جانشین بنایا اور تم کو زمین پر رہنے کا ٹھکانا دیا کہ نرم زمین پر محل بناتے ہو(1) اور پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں گھر بناتے ہو(2)، سو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ۔(3)
ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے پوچھا، کیا تم کواس بات کا یقین ہے کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بےشک ہم تو اس پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ان کو دے کر بھیجا گیا ہے۔(1)
وه متکبر لوگ کہنے لگے کہ تم جس بات پر یقین ﻻئے ہوئے ہو، ہم تو اس کے منکر ہیں۔(1)
پس انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈاﻻ اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے کہ اے صالح! جس کی آپ ہم کو دھمکی دیتے تھے اس کو منگوائیے اگر آپ پیغمبر ہیں۔
پس ان کو زلزلہ نے آپکڑا(1) اور وه اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے ره گئے۔
اس وقت (صالح علیہ السلام) ان سے منھ موڑ کر چلے، اور فرمانے لگے(1) کہ اے میری قوم! میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچادیا تھا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم لوگ خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے۔
اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو بھیجا(1) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔
تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو(1) عورتوں کو چھوڑ کر(2)، بلکہ تم تو حد ہی سے گزر گئے ہو۔(3)
اور ان کی قوم سے کوئی جواب نہ بن پڑا، بجز اس کے کہ آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔(1)
سو ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ وه ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں ره گئے تھے۔(1)
اور ہم نے ان پر خاص طرح کا مینہ(1) برسایا پس دیکھو تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟(2)
اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا(1) ۔ انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے۔ پس تم ناپ اور تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے مت(2) دو اور روئے زمین میں، اس کے بعد کہ اس کی درستی کردی گئی، فساد مت پھیلاؤ، یہ تمہارے لئے نافع ہے اگر تم تصدیق کرو۔
اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان ﻻنے والے کو دھمکیاں دو اور اللہ کی راه سے روکو اور اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو(1) ۔ اور اس حالت کو یاد کرو جب کہ تم کم تھے پھر اللہ نے تم کو زیاده کردیا اور دیکھو کہ کیسا انجام ہوا فساد کرنے والوں کا۔
اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس حکم پر، جس کو دے کر مجھ کو بھیجا گیا، ایمان لے آئے ہیں اور کچھ ایمان نہیں ﻻئے ہیں تو ذرا ٹھہر جاؤ! یہاں تک کہ ہمارے درمیان اللہ فیصلہ کئے دیتا ہے اور وه سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔(1)
ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور جو آپ کے ہمراه ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الّا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ(1) ۔ شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروه ہی سمجھتے ہوں۔(2)
ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہو جائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی(1) اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں، لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو(2)۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے، ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں(3)۔ اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کر دے اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے واﻻ ہے۔(4)
اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا کہ اگر تم شعیب (علیہ السلام) کی راه پر چلو گے تو بےشک بڑا نقصان اٹھاؤ گے۔(1)
پس ان کو زلزلے نے آپکڑا سو وه اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے ره گئے۔(1)
جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے(1) ۔ جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی وہی خسارے میں پڑ گئے۔(2)
اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منھ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں۔(1)
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا کہ وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہو، تاکہ وه گڑ گڑائیں۔(1)
پھر ہم نے اس بدحالی کی جگہ خوش حالی بدل دی، یہاں تک کہ ان کو خوب ترقی ہوئی اور کہنے لگے کہ ہمارے آباواجداد کو بھی تنگی اور راحت پیش آئی تھی تو ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا(1) اور ان کو خبر بھی نہ تھی۔
اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔
کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وه سوتے ہوں۔
اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے جس وقت کہ وه اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں۔
کیا پس وه اللہ کی اس پکڑ سے بےفکر ہوگئے۔ سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بےفکر نہیں ہوتا۔(1)
اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکوره نے) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگا دیں، پس وه نہ سن سکیں۔(1)
ان بستیوں کے کچھ کچھ قصے ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں اور ان سب کے پاس ان کے پیغمبر معجزات لے کر آئے(1) ، پھر جس چیز کو انہوں نے ابتدا میں جھوٹا کہہ دیا یہ بات نہ ہوئی کہ پھر اس کو مان لیتے(2)، اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے۔
اور اکثر لوگوں میں ہم نے وفائے عہد نہ دیکھا(1) اور ہم نے اکثر لوگوں کو بےحکم ہی پایا۔
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے دﻻئل دے کر فرعون اور اس کے امرا کے پاس بھیجا(1) ، مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا۔ سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا؟(2)
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے فرعون! میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں۔
میرے لیے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل بھی ﻻیا ہوں(1) ، سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔(2)
فرعون نے کہا، اگر آپ کوئی معجزه لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے! اگر آپ سچے ہیں۔
پس آپ نے اپنا عصا ڈال دیا، سو دفعتاً وه صاف ایک اﮊدھا بن گیا۔
اور اپنا ہاتھ باہر نکالا سو وه یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہو گیا۔(1)
قوم فرعون میں جو سردار لوگ تھے انہوں نے کہا کہ واقعی یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے۔(1)
یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہاری سرزمین سے باہر کر دے سو تم لوگ کیا مشوره دیتے ہو۔
انہوں نے کہا کہ آپ ان کو اور ان کے بھائی کو مہلت دیجئے اور شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیجئے۔
کہ وه سب ماہر جادو گروں کو آپ کے پاس ﻻ کر حاضر کر دیں۔(1)
اور وه جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے، کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آئے تو ہم کو کوئی بڑا صلہ ملے گا؟۔
فرعون نے کہا کہ ہاں اور تم مقرب لوگوں میں داخل ہو جاؤ گے۔(1)
ان ساحروں نے عرض کیا کہ اے موسیٰ! خواه آپ ڈالئے اور یا ہم ہی ڈالیں؟(1)
(موسیٰ علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم ہی ڈالو(1) ، پس جب انہوں نے ڈاﻻ تو لوگوں کی نظر بندی کر دی اور ان پر ہیبت غالب کر دی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھلایا۔(2)
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنا عصا ڈال دیجئے! سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا۔(1)
پس حق ﻇاہر ہوگیا اور انہوں نے جو کچھ بنایا تھا سب جاتا رہا۔
پس وه لوگ اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکر پھرے۔
اور وه جو ساحر تھے سجده میں گر گئے۔
کہنے لگے کہ ہم ایمان ﻻئے رب العالمین پر۔(1)
جو موسیٰ اور ہارون کا بھی رب ہے۔(1)
فرعون کہنے لگا کہ تم موسیٰ پر ایمان ﻻئے ہو بغیر اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں؟ بےشک یہ سازش تھی جس پر تمہارا عمل درآمد ہوا ہے اس شہر میں تاکہ تم سب اس شہر سے یہاں کے رہنے والوں کو باہر نکال دو۔ سو اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے۔(1)
میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا۔ پھر تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا۔(1)
انہوں نے جواب دیا کہ ہم (مر کر) اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے۔(1)
اور تو نے ہم میں کونسا عیب دیکھا ہے بجز اس کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لے آئے(1) ، جب وه ہمارے پاس آئے۔ اے ہمارے رب! ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما(2) اور ہماری جان حالت اسلام پر نکال۔(3)
اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وه ملک میں فساد کرتے پھریں(1) ، اور وه آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کئے رہیں(2)۔ فرعون نے کہا کہ ہم ابھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے اور عورتوں کو زنده رہنے دیں گے اور ہم کو ان پر ہر طرح کا زور ہے۔(3)
موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالیٰ کا سہارا حاصل کرو اور صبر کرو، یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وه مالک بنا دے اور اخیر کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔(1)
قوم کے لوگ کہنے لگے کہ ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے، آپ کی تشریف آوری سے قبل بھی(1) اور آپ کی تشریف آوری کے بعد بھی(2)۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور بجائے ان کے تم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنا دے گا پھر تمہارا طرز عمل دیکھے گا۔(3)
اور ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میں، تاکہ وه نصیحت قبول کریں۔(1)
سو جب ان پر خوشحالی آجاتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارے لیے ہونا ہی چاہئے اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے(1) ۔ یاد رکھو کہ ان کی نحوست اللہ تعالیٰ کے پاس ہے(2)، لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اور یوں کہتے کیسی ہی بات ہمارے سامنے لاؤ کہ ان کے ذریعہ سے ہم پر جادو چلاؤ جب بھی ہم تمہاری بات ہر گز نہ مانیں گے۔(1)
پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون، کہ یہ سب کھلے کھلے معجزے تھے(1) ۔ سو وه تکبر کرتے رہے اور وه لوگ کچھ تھے ہی جرائم پیشہ۔
اور جب ان پر کوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے کہ اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس بات کی دعا کر دیجئے! جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے، اگر آپ اس عذاب کو ہم سے ہٹا دیں تو ہم ضرور ضرور آپ کے کہنے سے ایمان لے آئیں گے اور ہم بنی اسرائیل کو بھی (رہا کر کے) آپ کے ہمراه کر دیں گے۔
پھر جب ان سے اس عذاب کو ایک خاص وقت تک کہ اس تک ان کو پہنچنا تھا ہٹا دیتے، تو وه فوراً ہی عہد شکنی کرنے لگتے۔(1)
پھر ہم نے ان سے بدلہ لیا یعنی ان کو دریا میں غرق کر دیا اس سبب سے کہ وه ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے بالکل ہی غفلت کرتے تھے۔(1)
اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے(1) ۔ اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنا دیا، جس میں ہم نے برکت رکھی ہے(2) اور آپ کے رب کا نیک وعده، بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا(3) اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وه اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے، سب کو درہم برہم کر دیا۔(4)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا۔ پس ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں سے لگے بیٹھے تھے، کہنے لگے اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے! جیسے ان کے یہ معبود ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے۔(1)
یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں یہ تباه کیا جائے گا اور ان کا یہ کام محض بےبنیاد ہے۔(1)
فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو تمہارا معبود تجویز کردوں؟ حاﻻنکہ اس نے تم کو تمام جہان والوں پر فوقیت دی ہے۔(1)
اور وه وقت یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے بچا لیا جو تم کو بڑی سخت تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زنده چھوڑ دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزمائش تھی۔(1)
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعده کیا اور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا۔ سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہوگیا(1) ۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میرے بعد ان کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بدنظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا۔(2)
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے(1) لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وه اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ (علیہ السلام) بےہوش ہوکر گر پڑے(2)۔ پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا، بےشک آپ کی ذات منزه ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان ﻻنے واﻻ ہوں۔(3)
ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ! میں نے پیغمبری اور اپنی ہمکلامی سے اور لوگوں پر تم کو امتیاز دیا ہے تو جو کچھ تم کو میں نے عطا کیا ہے اس کو لو اور شکر کرو۔(1)
اور ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل ان کو لکھ کر دی(1) ، تم ان کو پوری طاقت سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں(2)، اب بہت جلد تم لوگوں کو ان بے حکموں کا مقام دکھلاتا ہوں۔(3)
میں ایسے لوگوں کو اپنے احکام سے برگشتہ ہی رکھوں گا جو دنیا میں تکبر کرتے ہیں، جس کا ان کو کوئی حق حاصل نہیں اور اگر تمام نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وه ان پر ایمان نہ ﻻئیں،(1) اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا طریقہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں(2)۔ یہ اس سبب سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے۔(3)
اور یہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور قیامت کے پیش آنے کو جھٹلایا ان کے سب کام غارت گئے۔ ان کو وہی سزا دی جائے گی جو کچھ یہ کرتے تھے۔(1)
اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وه ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ ان کو کوئی راه بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا۔(1)
اور جب نادم ہوئے(1) اور معلوم ہوا کہ واقعی وه لوگ گمراہی میں پڑ گئے تو کہنے لگے کہ اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمارا گناه معاف نہ کرے تو ہم بالکل گئے گزرے ہو جائیں گے۔
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟ کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کرلی، اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں(1) اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے۔ ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے ماں جائے!(2) ان لوگوں نے مجھ کو بےحقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں(3) تو تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ(4) اور مجھ کو ان ﻇالموں کے ذیل میں مت شمار کرو۔(5)
قَالَ رَبِّ ٱغۡفِرۡ لِي وَلِأَخِي وَأَدۡخِلۡنَا فِي رَحۡمَتِكَۖ وَأَنتَ أَرۡحَمُ ٱلرَّٰحِمِينَ [١٥١]
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے رب! میری خطا معاف فرما اور میرے بھائی کی بھی اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیاده رحم کرنے واﻻ ہے۔
بےشک جن لوگوں نے گوسالہ پرستی کی ہے ان پر بہت جلد ان کے رب کی طرف سے غضب اور ذلت اس دنیوی زندگی ہی میں پڑے گی(1) اور ہم افترا پردازوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔(2)
اور جن لوگوں نے گناه کے کام کئے پھر وه ان کے بعد توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو تمہارا رب اس توبہ کے بعد گناه معاف کر دینے واﻻ، رحمت کرنے واﻻ ہے۔(1)
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرد ہوا تو ان تختیوں کو اٹھا لیا اور ان کے مضامین میں(1) ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ہدایت اور رحمت تھی۔(2)
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ستر آدمی اپنی قوم میں سے ہمارے وقت معین کے لیے منتخب کئے، سو جب ان کو زلزلہ نے آپکڑا(1) تو موسیٰ (علیہ السلام) عرض کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار! اگر تجھ کو یہ منظور ہوتا تو اس سے قبل ہی ان کو اور مجھ کو ہلاک کر دیتا۔ کیا تو ہم میں سے چند بے وقوفوں کی حرکت پر سب کو ہلاک کردے گا؟ یہ واقعہ محض تیری طرف سے ایک امتحان ہے، ایسے امتحانات سے جس کو تو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے ہدایت پر قائم رکھے۔ تو ہی تو ہمارا کارساز ہے پس ہم پر مغفرت اور رحمت فرما اور تو سب معافی دینے والوں سے زیاده اچھا ہے۔(2)
اور ہم لوگوں کے نام دنیا میں بھی نیک حالی لکھ دے اور آخرت میں بھی، ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں(1) ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنا عذاب اسی پر واقع کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے(2)۔ تو وه رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان ﻻتے ہیں۔
جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وه لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں(1) ۔ وه ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں(2) اور پاکیزه چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے(3) ان کو دور کرتے ہیں۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان ﻻتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں۔(1)
آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے ﻻئق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راه پر آجاؤ۔(1)
اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق انصاف بھی کرتی ہے۔(1)
اور ہم نے ان کو باره خاندانوں میں تقسیم کرکے سب کی الگ الگ جماعت مقرر کر دی(1) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا جب کہ ان کی قوم نے ان سے پانی مانگا کہ اپنے عصا کو فلاں پتھر پر مارو پس فوراً اس سے باره چشمے پھوٹ نکلے۔ ہر ہر شخص نے اپنے پانی پینے کا موقع معلوم کر لیا۔ اور ہم نے ان پر ابر کو سایہ فگن کیا اور ان کو من وسلوی (ترنجبین اور بٹیریں) پہنچائیں، کھاؤ نفیس چیزوں سے جو کہ ہم نے تم کو دی ہیں اور انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے۔
اور جب ان کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ اس آبادی میں جاکر رہو اور کھاؤ اس سے جس جگہ تم رغبت کرو اور زبان سے یہ کہتے جانا کہ توبہ ہے اور جھکے جھکے دروازه میں داخل ہونا ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے۔ جو لوگ نیک کام کریں گے ان کو مزید برآں اور دیں گے۔
سو بدل ڈاﻻ ان ﻇالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس کی ان سے فرمائش کی گئی تھی، اس پر ہم نے ان پر ایک آفت سماوی بھیجی اس وجہ سے کہ وه حکم کو ضائع کرتے تھے۔(1)
اور آپ ان لوگوں سے(1) ، اس بستی والوں کا(2) جو کہ دریائے (شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھئے! جب کہ وه ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ﻇاہر ہو ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں، اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں، ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وه بےحکمی کیا کرتے تھے۔(1)
اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے واﻻ ہے یا ان کو سخت سزا دینے واﻻ ہے؟(1) انہو ں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذر کرنے کے لیے اور اس لیے کہ شاید یہ ڈر جائیں۔
سو جب وه اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا(1) تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وه بےحکمی کیا کرتے تھے۔(2)
یعنی جب وه، جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گئے تو ہم نے ان کو کہہ دیا تم ذلیل بندر بن جاؤ۔(1)
اور وه وقت یاد کرنا چاہیئے کہ آپ کے رب نے یہ بات بتلا دی کہ وه ان یہود پر قیامت تک ایسے شخص کو ضرور مسلط کرتا رہے گا(1) جو ان کو سزائے شدید کی تکلیف پہنچاتا رہے گا، بلاشبہ آپ کا رب جلدی ہی سزا دے دیتا ہے اور بلاشبہ وه واقعی بڑی مغفرت اور بڑی رحمت واﻻ ہے۔(2)
اور ہم نے دنیا میں ان کی مختلف جماعتیں کر دیں۔ بعض ان میں نیک تھے اور بعض ان میں اور طرح تھے اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بدحالیوں سے آزماتے رہے کہ شاید باز آجائیں۔(1)
پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کے جانشین ہوئے(1) کہ کتاب کو ان سے حاصل کیا وه اس دنیائے فانی کا مال متاع لے لیتے ہیں(2) اور کہتے ہیں کہ ہماری ضرور مغفرت ہو جائے گی(3) حاﻻنکہ اگر ان کے پاس ویسا ہی مال متاع آنے لگے تو اس کو بھی لے لیں گے۔ کیا ان سے اس کتاب کے اس مضمون کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ کی طرف بجز حق بات کے اور کسی بات کی نسبت نہ کریں(4)، اور انہوں نے اس کتاب میں جو کچھ تھا اس کو پڑھ لیا(4) اور آخرت واﻻ گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو تقویٰ رکھتے ہیں، پھر کیا تم نہیں سمجھتے۔
اور جو لوگ کتاب کے پابند ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں، ہم ایسے لوگوں کا جو اپنی اصلاح کریں ﺛواب ضائع نہ کریں گے۔(1)
اور وه وقت بھی قابل ذکر ہے جب ہم نے پہاڑ کو اٹھا کر سائبان کی طرح ان کے اوپر معلق کر دیا اور ان کو یقین ہوگیا کہ اب ان پر گرا اور کہا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اسے مضبوطی کے ساتھ قبول کرو اور یاد رکھو جو احکام اس میں ہیں اس سے توقع ہے کہ تم متقی بن جاؤ۔(1)
اور جب آپ کے رب نے اوﻻد آدم کی پشت سے ان کی اوﻻد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواه بنتے ہیں(1) ۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔
یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راه والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟(1)
ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں اور تاکہ وه باز آجائیں۔
اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وه ان سے بالکل ہی نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وه گمراه لوگوں میں شامل ہوگیا۔(1)
اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وه تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی ہانپے یا اس کو چھوڑ دے تب بھی ہانپے(1) ، یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ سو آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وه لوگ کچھ سوچیں۔(2)
ان لوگوں کی حالت بھی بری حالت ہے(1) جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اور وه اپنا نقصان کرتے ہیں۔
جس کو اللہ ہدایت کرتا ہے سو ہدایت پانے واﻻ وہی ہوتا ہے اور جس کو وه گمراه کر دے سو ایسے ہی لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں۔(1)
اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کئے ہیں(1) ، جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیاده گمراه ہیں(2)۔ یہی لوگ غافل ہیں۔
اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو(1) اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں(2)، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔
اور ہماری مخلوق میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتی ہے اور اس کے موافق انصاف بھی کرتی ہے۔
اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج (گرفت میں) لئے جارہے ہیں اس طور پر کہ ان کو خبر بھی نہیں۔
اور ان کو مہلت دیتا ہوں بےشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔(1)
کیا ان لوگوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ ان کے ساتھی کو ذرا بھی جنون نہیں وه تو صرف ایک صاف صاف ڈرانے والے ہیں۔(1)
اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کی ہیں اور اس بات میں کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آ پہنچی ہو(1) ۔ پھر قرآن کے بعد کون سی بات پر یہ لوگ ایمان ﻻئیں گے؟(2)
جس کو اللہ تعالیٰ گمراه کر دے اس کو کوئی راه پر نہیں ﻻ سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیتا ہے۔
یہ لوگ آپ سے قیامت(1) کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟(2) آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے(3)، اس کے وقت پر اس کو سوا اللہ کے کوئی اور ﻇاہر نہ کرے گا۔ وه آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادﺛہ) ہوگا(4) وه تم پر محض اچانک آپڑے گی۔ وه آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں(5)۔ آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے واﻻ اور بشارت دینے واﻻ ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔(1)
وه اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا(1) اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا(2) تاکہ وه اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے(3) پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو(4) اس کو حمل ره گیا ہلکا سا۔ سو وه اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی(5)، پھر جب وه بوجھل ہوگئی تو دونوں میاں بیوی اللہ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم اوﻻد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے۔(6)
سو جب اللہ نے دونوں کو صحیح سالم اوﻻد دے دی تو اللہ کی دی ہوئی چیز میں وه دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے(1) ، سو اللہ پاک ہے ان کے شرک سے۔
کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہ کر سکیں اور وه خود ہی پیدا کئے گئے ہوں۔
اور وه ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور وه خود بھی مدد نہیں کرسکتے۔
اور اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں(1) تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواه تم ان کو پکارو یا تم خاموش رہو۔
واقعی تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وه بھی تم ہی جیسے بندے ہیں(1) سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو۔
کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وه چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وه کسی چیز کو تھام سکیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وه دیکھتے ہوں، یا ان کے کان ہیں جن سے وه سنتے ہیں(1) آپ کہہ دیجئے! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو۔(2)
یقیناً میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وه نیک بندوں کی مدد کرتا ہے۔
وَٱلَّذِينَ تَدۡعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسۡتَطِيعُونَ نَصۡرَكُمۡ وَلَآ أَنفُسَهُمۡ يَنصُرُونَ [١٩٧]
اور تم جن لوگوں کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وه تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ وه اپنی مدد کرسکتے ہیں۔(1)
اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں(1) اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وه آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وه کچھ بھی نہیں دیکھتے۔
آپ درگزر کو اختیار کریں(1) نیک کام کی تعلیم دیں(2) اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں۔(3)
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ ٱلشَّيۡطَٰنِ نَزۡغٞ فَٱسۡتَعِذۡ بِٱللَّهِۚ إِنَّهُۥ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [٢٠٠]
اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناه مانگ لیا کیجئے(1) بلاشبہ وه خوب سننے واﻻ خوب جاننے واﻻ ہے۔
یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطره شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وه یاد میں لگ جاتے ہیں، سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔(1)
اور جو شیاطین کے تابع ہیں وه ان کو گمراہی میں کھینچے لے جاتے ہیں پس وه باز نہیں آتے۔(1)
اور جب آپ کوئی معجزه ان کے سامنے ﻇاہر نہیں کرتے تو وه لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزه کیوں نہ ﻻئے؟(1) آپ فرما دیجئے! کہ میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے یہ گویا بہت سی دلیلیں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔(2)
اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔(1)
اور(اے پیغمبر ) اپنے رب کي یاد کیا کراپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے مت ہونا۔
یقیناً جو تیرے رب کے نزدیک ہیں وه اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس کو سجده کرتے ہیں۔