Setting
Surah Joseph [Yusuf] in Urdu
الٓر ۚ تِلْكَ ءَايَٰتُ ٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ ﴿١﴾
یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں
ا، ل، ر یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے
یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں
الٓرا۔ یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں
الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں،
آلر-یہ کتاب مبین کی آیتیں ہیں
الرٰ، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں
الف، لام، را۔ یہ ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔
إِنَّآ أَنزَلْنَٰهُ قُرْءَٰنًا عَرَبِيًّۭا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٢﴾
ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں تمہارے سمجھنے کے لیے نازل کیا
ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم (اہل عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو
بیشک ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو،
ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو
بیشک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو،
ہم نے اسے عربی قرآن بناکر نازل کیا ہے کہ شاید تم لوگوں کو عقل آجائے
یقیناً ہم نے اس کو قرآن عربی نازل فرمایا ہے کہ تم سمجھ سکو
بے شک ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ ٱلْقَصَصِ بِمَآ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلْغَٰفِلِينَ ﴿٣﴾
ہم تیرے پاس بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں اس واسطے کہ ہم نے تیری طرف یہ قرآن بھیجا ہے اور تو اس سے پہلے البتہ بے خبروں میں سے تھا
اے محمدؐ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزو ں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے
ہم تمہیں سب اچھا بیان سناتے ہیں اس لیے کہ ہم نے تمہاری طرف اس قرآن کی وحی بھیجی اگرچہ بیشک اس سے پہلے تمہیں خبر نہ تھی،
(اے پیغمبر) ہم اس قرآن کے ذریعے سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے تمہیں ایک نہایت اچھا قصہ سناتے ہیں اور تم اس سے پہلے بےخبر تھے
(اے حبیب!) ہم آپ سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں اس قرآن کے ذریعہ جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے، اگرچہ آپ اس سے قبل (اس قصہ سے) بے خبر تھے،
پیغمبر ہم آپ کے سامنے ایک بہترین قصہ بیان کررہے ہیں جس کی وحی اس قرآن کے ذریعہ آپ کی طرف کی گئی ہے اگرچہ اس سے پہلے آپ اس کی طرف سے بے خبر لوگوں میں تھے
ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے
(اے رسول(ص)) ہم اس قرآن کے ذریعہ سے جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں اگرچہ اس سے پہلے آپ غافلوں میں سے تھے۔
إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَٰٓأَبَتِ إِنِّى رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِى سَٰجِدِينَ ﴿٤﴾
جس وقت یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے باپ میں گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو خواب میں دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں
یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا \"ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں\"
یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا
جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ ابا میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے۔ دیکھتا (کیا) ہوں کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں
(وہ قصّہ یوں ہے) جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا: اے میرے والد گرامی! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے،
اس وقت کو یاد کرو جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ بابا میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور آفتاب و ماہتاب کو دیکھا ہے اور یہ دیکھا ہے کہ یہ سب میرے سامنے سجدہ کررہے ہیں
جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیاره ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وه سب مجھے سجده کر رہے ہیں
(اس وقت کو یاد کرو) جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا کہ میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کو دیکھا ہے کہ میرے سامنے سجدہ کر رہے ہیں (جھک رہے ہیں)۔
قَالَ يَٰبُنَىَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلَىٰٓ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا۟ لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ ٱلشَّيْطَٰنَ لِلْإِنسَٰنِ عَدُوٌّۭ مُّبِينٌۭ ﴿٥﴾
کہا اے بیٹا اپنا خواب بھائیوں کے سامنے بیان مت کرنا وہ تیرے لیے کوئی نہ کوئی فریب بنا دیں گے شیطان انسان کا صریح دشمن ہے
جواب میں اس کے باپ نے کہا، \"بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے
کہا اے میرے بچے اپنا خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا وہ تیرے ساتھ کوئی چا ل چلیں گے بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے
انہوں نے کہا کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا نہیں تو وہ تمہارے حق میں کوئی فریب کی چال چلیں گے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے
انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا، ورنہ وہ تمہارے خلاف کوئی پُر فریب چال چلیں گے۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے،
یعقوب نے کہا کہ بیٹا خبردار اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا کہ وہ لوگ الٹی سیدھی تدبیروں میں لگ جائیں گے کہ شیطان انسان کا بڑا کھلا ہوا دشمن ہے
یعقوب علیہ السلام نے کہا پیارے بچے! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ وه تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں، شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے
آپ (ع) نے کہا اے میرے بیٹے! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا کہیں وہ (تمہیں تکلیف پہنچانے کے لئے) کوئی سازش نہ کرنے لگ جائیں بے شک شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔
وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ ٱلْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكَ وَعَلَىٰٓ ءَالِ يَعْقُوبَ كَمَآ أَتَمَّهَا عَلَىٰٓ أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْحَٰقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌۭ ﴿٦﴾
اوراسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدہ کرے گا اور تجھےخواب کی تعبیر سکھائے گا اور اپنی نعمتیں تجھ پر اور یعقوب کے گھرانے پر پوری کرے گا جس طرح کہ اس سے پہلے تیرے باپ دادا ابراھیم اور اسحاق پر پوری کر چکا ہےبے شک تیرا رب جاننے والا حکمت والا ہے
اور ایسا ہی ہوگا (جیسا تو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا رب تجھے (اپنے کام کے لیے) منتخب کرے گا اور تجھے باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھائے گا اور تیرے اوپر اور آل یعقوبؑ پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ پر کر چکا ہے، یقیناً تیرا رب علیم اور حکیم ہے\"
اور اسی طرح تجھے تیرا رب چن لے گا اور تجھے باتوں کا انجام نکا لنا سکھائے گا اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا اور یعقوب کے گھر والوں پر جس طرح تیرے پہلے دنوں باپ دادا ابراہیم ؑ اور اسحق ؑ پر پوری کی بیشک تیرا رب علم و حکمت والا ہے،
اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ (وممتاز) کرے گا اور (خواب کی) باتوں کی تعبیر کا علم سکھائے گا۔ اور جس طرح اس نے اپنی نعمت پہلے تمہارے دادا، پردادا ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی اسی طرح تم پر اور اولاد یعقوب پر پوری کرے گا۔ بےشک تمہارا پروردگار (سب کچھ) جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
اسی طرح تمہارا رب تمہیں (بزرگی کے لئے) منتخب فرما لے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی خوابوں کی تعبیر کا علم) سکھائے گا اور تم پر اور اولادِ یعقوب پر اپنی نعمت تمام فرمائے گا جیسا کہ اس نے اس سے قبل تمہارے دونوں باپ (یعنی پردادا اور دادا) ابراہیم اور اسحاق (علیھما السلام) پر تمام فرمائی تھی۔ بیشک تمہارا رب خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں منتخب کرے گا اور تمہیں باتوں کی تاویل سکھائے گا اور تم پر اور یعقوب کی دوسری اولاد پر اپنی نعمت کو تمام کرے گا جس طرح تمہارے دادا پرداد ابراہیم اور اسحاق پر تمام کرچکا ہے بیشک تمہارا پروردگار بڑا جاننے والا ہے اور صاحب هحکمت ہے
اور اسی طرح تجھے تیرا پروردگار برگزیده کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) بھی سکھائے گا اور اپنی نعمت تجھے بھرپور عطا فرمائے گا اور یعقوب کے گھر والوں کو بھی، جیسے کہ اس نے اس سے پہلے تیرے دادا اور پردادا یعنی ابراہیم واسحاق کو بھی بھرپور اپنی نعمت دی، یقیناً تیرا رب بہت بڑے علم واﻻ اور زبردست حکمت واﻻ ہے
اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں منتخب کرے گا اور تمہیں تعبیرِ خواب کا علم عطا فرمائے گا اور تم پر نیز یعقوب(ع) کے خانوادہ پر اسی طرح اپنی نعمت پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے تمہارے دادا، پردادا ابراہیم و اسحاق پر اپنی نعمت پوری کر چکا ہے بے شک آپ کا پروردگار بڑا علم والا، بڑا حکمت والا ہے۔
۞ لَّقَدْ كَانَ فِى يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِۦٓ ءَايَٰتٌۭ لِّلسَّآئِلِينَ ﴿٧﴾
البتہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والو ں کے لیے نشانیاں ہیں
حقیقت یہ ہے کہ یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں
بیشک یوسف اور اس کے بھائیوں میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں
ہاں یوسف اور ان کے بھائیوں (کے قصے) میں پوچھنے والوں کے لیے (بہت سی) نشانیاں ہیں
بیشک یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں (کے واقعہ) میں پوچھنے والوں کے لئے (بہت سی) نشانیاں ہیں،
یقینا یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعہ میں سوال کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں
یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں
بے شک یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والوں کے لیے (غیب کی) بڑی نشانیاں ہیں۔
إِذْ قَالُوا۟ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰٓ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِى ضَلَٰلٍۢ مُّبِينٍ ﴿٨﴾
جب انہوں نے کہا البتہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارا ہے حالانکہ ہم طاقتور جماعت ہیں بے شک ہمارا باپ صریح غلطی پر ہے
یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا \"یہ یوسفؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان با لکل ہی بہک گئے ہیں
جب بولے کہ ضرور یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں اور ہم ایک جماعت ہیں بیشک ہمارے باپ صراحةً ان کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں
جب انہوں نے (آپس میں) تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم جماعت (کی جماعت) ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں
(وہ وقت یاد کیجئے) جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے کہا کہ واقعی یوسف (علیہ السلام) اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم (دس افراد پر مشتمل) زیادہ قوی جماعت ہیں۔ بیشک ہمارے والد (ان کی محبت کی) کھلی وارفتگی میں گم ہیں،
جب ان لوگوں نے کہا کہ یوسف اور ان کے بھائی (ابن یامین)ہمارے باپ کی نگاہ میں زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہماری ایک بڑی جماعت ہے یقیناہمارے ماں باپ ایک کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں
جب کہ انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی بہ نسبت ہمارے، باپ کو بہت زیاده پیارے ہیں حاﻻنکہ ہم (طاقتور) جماعت ہیں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ابا صریح غلطی میں ہیں
جب انہوں (یوسف کے سوتیلے بھائیوں) نے آپس میں کہا کہ باوجودیکہ ہم پوری جماعت ہیں مگر یوسف اور اس کا (سگا) بھائی (بن یامین) ہمارے باپ کو زیادہ پیارے ہیں بے شک ہمارے باپ کھلی ہوئی غلطی پر ہیں۔
ٱقْتُلُوا۟ يُوسُفَ أَوِ ٱطْرَحُوهُ أَرْضًۭا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا۟ مِنۢ بَعْدِهِۦ قَوْمًۭا صَٰلِحِينَ ﴿٩﴾
یوسف کو مار ڈالو یا کسی ملک میں پھینک دو تاکہ باپ کی توجہ اکیلے تم پر رہے اور اس کے بعد نیک آدمی ہو جانا
چلو یوسفؑ کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا\"
یوسف کو مار ڈالو یا کہیں زمین میں پھینک آؤ کہ تمہارے باپ کا منہ صرف تمہاری ہی طرف رہے اور اس کے بعد پھر نیک ہوجانا
تو یوسف کو (یا تو جان سے) مار ڈالو یا کسی ملک میں پھینک آؤ۔ پھر ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہوجائے گی۔ اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجاؤ گے
(اب یہی حل ہے کہ) تم یوسف (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالو یا دور کسی غیر معلوم علاقہ میں پھینک آؤ (اس طرح) تمہارے باپ کی توجہ خالصتًا تمہاری طرف ہو جائے گی اور اس کے بعد تم (توبہ کر کے) صالحین کی جماعت بن جانا،
تم لوگ یوسف کو قتل کردو یا کسی زمین میں پھینک دو تو باپ کا رخ تمہاری ہی طرف ہوجائے گا اور تم سب ان کے بعد صالح قوم بن جاؤ گے
یوسف کو تو مار ہی ڈالو یا اسے کسی (نامعلوم) جگہ پھینک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری طرف ہی ہو جائے۔ اس کے بعد تم نیک ہو جانا
یوسف کو قتل کر دو یا کسی اور سرزمین پر پھینک دو۔ تاکہ تمہارے باپ کا رخ (توجہ) صرف تمہاری طرف ہو جائے اس کے بعد تم بھلے آدمی ہو جاؤگے (تمہارے سب کام بن جائیں گے)۔
قَالَ قَآئِلٌۭ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا۟ يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِى غَيَٰبَتِ ٱلْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ ٱلسَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَٰعِلِينَ ﴿١٠﴾
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرواور اسے گمنام کنوئیں میں ڈال دو کہ اسے کوئی مسافر اٹھا لے جائے اگر تم کرنے ہی والے ہو
اس پر ان میں سے ایک بولا \"یوسفؑ کو قتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا\"
ان میں ایک کہنے والا بولا یوسف کو مارو نہیں اور اسے اندھے کنویں میں ڈال دو کہ کوئی چلتا اسے آکر لے جائے اگر تمہیں کرنا ہے
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو کسی گہرے کنویں میں ڈال دو کہ کوئی راہگیر نکال (کر اور ملک میں) لے جائے گا۔ اگر تم کو کرنا ہے (تو یوں کرو)
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: یوسف (علیہ السلام) کو قتل مت کرو اور اسے کسی تاریک کنویں کی گہرائی میں ڈال دو اسے کوئی راہ گیر مسافر اٹھا لے جائے گا اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو (تو یہ کرو)،
ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو بلکہ کسی اندھے کنویں میں ڈال دو تاکہ کوئی قافلہ اٹھالے جائے اگر تم کچھ کرنا ہی چاہتے ہو
ان میں سے ایک نے کہا یوسف کو قتل تو نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں (کی تہ) میں ڈال آؤ کہ اسے کوئی (آتا جاتا) قافلہ اٹھا لے جائے اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یوں کرو
ان (برادرانِ یوسف) میں سے ایک نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو البتہ اگر کچھ کرنا ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو۔ مسافروں کا کوئی قافلہ اسے اٹھا لے جائے گا۔
قَالُوا۟ يَٰٓأَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَ۫نَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُۥ لَنَٰصِحُونَ ﴿١١﴾
انہوں نے کہااےباپ کیا بات ہے کہ تو یوسف پر ہمارا اعتبار نہیں کرتا اور ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں
اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا \"ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یوسفؑ کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں؟
بولے اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہوا کہ یوسف کے معامل ہ میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے اور ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں،
(یہ مشورہ کر کے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ اباجان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیرخواہ ہیں
انہوں نے کہا: اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہوگیا ہے آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم یقینی طور پر اس کے خیر خواہ ہیں،
ان لوگوں نے یعقوب سے کہا کہ بابا کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں حالانکہ ہم ان پر شفقت کرنے والے ہیں
انہوں نے کہا ابا! آخر آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ہم تو اس کے خیر خواه ہیں
(اس قرارداد کے بعد) انہوں نے کہا اے ہمارے والد! کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم تو اس کے بڑے خیرخواہ ہیں۔
أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًۭا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَٰفِظُونَ ﴿١٢﴾
کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دے کہ وہ کھائے اور کھیلے اوربےشک ہم ا سکے نگہبان ہیں
کل اسے ہمارے ساتھ بھیج د یجیے، کچھ چر چگ لے گا اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں\"
کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ میوے کھائے اور کھیلے اور بیشک ہم اس کے نگہبان ہیں
کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیئے کہ خوب میوے کھائے اور کھیلے کودے۔ ہم اس کے نگہبان ہیں
آپ اسے کل ہمارے ساتھ بھیج دیجئے وہ خوب کھائے اور کھیلے اور بیشک ہم اس کے محافظ ہیں،
کل ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کچھ کھائے پئے اور کھیلے اور ہم تو اس کی حفاظت کرنے والے موجود ہی ہیں
کل آپ اسے ضرور ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ خوب کھائے پئے اور کھیلے، اس کی حفاﻇت کے ہم ذمہ دار ہیں
وہ کچھ کھائے پیئے اور کھیلے کودے ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔
قَالَ إِنِّى لَيَحْزُنُنِىٓ أَن تَذْهَبُوا۟ بِهِۦ وَأَخَافُ أَن يَأْكُلَهُ ٱلذِّئْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَٰفِلُونَ ﴿١٣﴾
اس نے کہا مجھے اس سے غم ہوتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ اور اس سے ڈرتا ہوں کہ اسے بھیڑیا کھا جائے اورتم اس سے بے خبر رہو
باپ نے کہا \"تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھا ئے جبکہ تم اس سے غافل ہو\"
بولا بیشک مجھے رنج دے گا کہ اسے لے جاؤ اور ڈرتا ہوں کہ اسے بھیڑیا کھالے اور تم اس سے بے خبر رہو
انہوں نے کہا کہ یہ امر مجھے غمناک کئے دیتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ (یعنی وہ مجھ سے جدا ہوجائے) اور مجھے یہ خوف بھی ہے کہ تم (کھیل میں) اس سے غافل ہوجاؤ اور اسے بھیڑیا کھا جائے
انہوں نے کہا: بیشک مجھے یہ خیال مغموم کرتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ اور میں (اس خیال سے بھی) خوف زدہ ہوں کہ اسے بھیڑیا کھا جائے اور تم اس (کی حفاظت) سے غافل رہو،
یعقوب نے کہا کہ مجھے اس کالے جانا تکلیف پہنچاتا ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھاجائے اور تم غافل ہی رہ جاؤ
(یعقوب علیہ السلام نے) کہا اسے تمہارا لے جانا مجھے تو سخت صدمہ دے گا اور مجھے یہ بھی کھٹکا لگا رہے گا کہ تمہاری غفلت میں اسے بھیڑیا کھا جائے
آپ (ع) نے کہا تمہارا اسے اپنے ہمراہ لے جانا مجھے غمگین کرتا ہے اور مجھے یہ اندیشہ بھی ہے کہ تم غفلت کرو اور اسے کوئی بھیڑیا کھا جائے۔
قَالُوا۟ لَئِنْ أَكَلَهُ ٱلذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّآ إِذًۭا لَّخَٰسِرُونَ ﴿١٤﴾
انہوں نے کہا اگر اسے بھیڑیا کھا گیا اور ہم ایک طاقتور جماعت ہیں بے شک ہم اس وقت البتہ نقصان اٹھانے والے ہوں گے
انہوں نے جواب دیا \"اگر ہمارے ہوتے اسے بھڑ یے نے کھا لیا، جبکہ ہم ایک جتھا ہیں، تب تو ہم بڑے ہی نکمے ہوں گے\"
بولے اگر اسے بھیڑیا کھا جائے اور ہم ایک جماعت ہیں جب تو ہم کسی مصرف کے نہیں
وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں، اسے بھیڑیا کھا گیا تو ہم بڑے نقصان میں پڑگئے
وہ بولے: اگر اسے بھیڑیا کھا جائے حالانکہ ہم ایک قوی جماعت بھی (موجود) ہوں تو ہم تو بالکل ناکارہ ہوئے،
اور ان لوگوں نے کہا کہ اگر اسے بھیڑیا کھاگیا اور ہم سب اس کے بھائی ہی ہیں تو ہم بڑے خسارہ والوں میں ہوجائیں گے
انہوں نے جواب دیا کہ ہم جیسی (زور آور) جماعت کی موجودگی میں بھی اگر اسے بھیڑیا کھا جائے تو ہم بالکل نکمے ہی ہوئے
انہوں نے کہا کہ اگر اسے بھیڑیا کھا جائے جبکہ ہماری پوری جماعت (حفاظت کے لئے) موجود ہے تو پھر تو ہم گھاٹا اٹھانے والے (اور بالکل گئے گزرے) ہوں گے۔
فَلَمَّا ذَهَبُوا۟ بِهِۦ وَأَجْمَعُوٓا۟ أَن يَجْعَلُوهُ فِى غَيَٰبَتِ ٱلْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿١٥﴾
جب اسے لے کر چلے اور متفق ہوئے کہ اسے گمنام کنوئیں میں ڈالیں تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ تو ضرور انہیں ایک دن آگاہ کرے گا ان کے اس کام سے اور وہ تجھے نہ پہچانیں گے
اِس طرح اصرار کر کے جب وہ اُسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنویں میں چھوڑ دیں، تو ہم نے یوسفؑ کو وحی کی کہ \"ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں\"
پھر جب اسے لے گئے اور سب کی رائے یہی ٹھہری کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے اسے وحی بھیجی کہ ضرور تو انہیں ان کا یہ کام جتادے گا ایسے وقت کہ وہ نہ جانتے ہوں گے
غرض جب وہ اس کو لے گئے اور اس بات پر اتفاق کرلیا کہ اس کو گہرے کنویں میں ڈال دیں۔ تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ) تم ان کے اس سلوک سے آگاہ کرو گے اور ان کو (اس وحی کی) کچھ خبر نہ ہوگی
پھر جب وہ اسے لے گئے اور سب اس پر متفق ہوگئے کہ اسے تاریک کنویں کی گہرائی میں ڈال دیں تب ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی: (اے یوسف! پریشان نہ ہونا ایک وقت آئے گا) کہ تم یقینًا انہیں ان کا یہ کام جتلاؤ گے اور انہیں (تمہارے بلند رتبہ کا) شعور نہیں ہوگا،
اس کے بعد جب وہ سب یوسف کو لے گئے اور یہ طے کرلیا کہ انہیں اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی کردی کہ عنقریب تم ان کو اس سازش سے باخبر کرو گے اور انہیں خیال بھی نہ ہوگا
پھر جب اسے لے چلے اور سب نے مل کر ٹھان لیا کہ اسے غیر آباد گہرے کنوئیں کی تہ میں پھینک دیں، ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ یقیناً (وقت آرہا ہے کہ) تو انہیں اس ماجرا کی خبر اس حال میں دے گا کہ وه جانتے ہی نہ ہوں
پھر جب وہ (اصرار کرکے) اسے لے گئے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال دیں (چنانچہ ایسا ہی کیا)۔ اور ہم نے (اس وقت) اس (یوسف) کی طرف وحی کی کہ (ایک وقت آئے گا کہ) تم ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتاؤگے جبکہ انہیں اس کا شعور نہیں ہوگا۔
وَجَآءُوٓ أَبَاهُمْ عِشَآءًۭ يَبْكُونَ ﴿١٦﴾
اور کچھ رات گئی اپنےباپ کے پاس روتے ہوئے آئے
شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے
اور رات ہوئے اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے
(یہ حرکت کرکے) وہ رات کے وقت باپ کے پاس روتے ہوئے آئے
اور وہ (یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک کر) اپنے باپ کے پاس رات کے وقت (مکاری کا رونا) روتے ہوئے آئے،
اور وہ لوگ رات کے وقت باپ کے پاس روتے پیٹے آئے
اور عشا کے وقت (وه سب) اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے پہنچے
اور وہ شام کے وقت اپنے والد کے پاس روتے ہوئے آئے۔
قَالُوا۟ يَٰٓأَبَانَآ إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَٰعِنَا فَأَكَلَهُ ٱلذِّئْبُ ۖ وَمَآ أَنتَ بِمُؤْمِنٍۢ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَٰدِقِينَ ﴿١٧﴾
کہا اے ہمارے باپ ہم تو آپس میں دوڑنے میں مصروف ہوئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے تب اسے بھیڑیا کھا گیا او رتو ہمارے کہنے پر یقین نہیں کرے گا اگرچہ ہم سچےہی ہوں
اور کہا \"ابا جان، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یوسفؑ کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آ کر اُسے کھا گیا آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں\"
بولے اے ہمارے باپ ہم دوڑ کرتے نکل گئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑا تو اسے بھیڑیا کھا گیا اور آپ کسی طرح ہمارا یقین نہ کریں گے اگرچہ ہم سچے ہوں
(اور) کہنے لگے کہ اباجان ہم تو دوڑنے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے
کہنے لگے: اے ہمارے باپ! ہم لوگ دوڑ میں مقابلہ کرنے چلے گئے اور ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو اسے بھیڑئیے نے کھا لیا، اور آپ (تو) ہماری بات کا یقین (بھی) نہیں کریں گے اگرچہ ہم سچے ہی ہوں،
کہنے لگے بابا ہم دوڑ لگانے چلے گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو ایک بھیڑیا آکر انہیں کھاگیا اور آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم کتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں
اور کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف (علیہ السلام) کو ہم نے اسباب کے پاس چھوڑا پس اسے بھیڑیا کھا گیا، آپ تو ہماری بات نہیں مانیں گے، گو ہم بالکل سچے ہی ہوں
اور کہا اے ہمارے والد! ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے بس ایک بھیڑیا آیا اور اسے کھا گیا۔ اور اگرچہ ہم سچے ہی ہوں مگر آپ تو ہماری بات کا یقین نہیں کرتے۔
وَجَآءُو عَلَىٰ قَمِيصِهِۦ بِدَمٍۢ كَذِبٍۢ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًۭا ۖ فَصَبْرٌۭ جَمِيلٌۭ ۖ وَٱللَّهُ ٱلْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ﴿١٨﴾
اور اسی کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا لائے اس نے کہا نہیں بلکہ تم نے دل سے ایک بات بنائی ہے اب صبر ہی بہتر ہے اورالله ہی سے مدد مانگتا ہوں اس بات پر جو تم بیان کر تے ہو
اور وہ یوسفؑ کے قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کر آئے تھے یہ سن کر ان کے باپ نے کہا \"بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا اچھا، صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا، جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے\"
اور اس کے کر ُتے پر ایک جھوٹا خون لگا لائے کہا بلکہ تمہارے دلوں نے ایک بات تمہارے واسطے بنالی ہے تو صبر اچھا، اور اللہ ہی مدد چاہتا ہوں ان باتوں پر جو تم بتارہے ہو
اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔ یعقوب نے کہا (کہ حقیقت حال یوں نہیں ہے) بلکہ تم اپنے دل سے (یہ) بات بنا لائے ہو۔ اچھا صبر (کہ وہی) خوب (ہے) اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے
اور وہ اس کے قمیض پر جھوٹا خون (بھی) لگا کر لے آئے، (یعقوب علیہ السلام نے) کہا: (حقیقت یہ نہیں ہے) بلکہ تمہارے (حاسد) نفسوں نے ایک (بہت بڑا) کام تمہارے لئے آسان اور خوشگوار بنا دیا (جو تم نے کر ڈالا)، پس (اس حادثہ پر) صبر ہی بہتر ہے، اور اﷲ ہی سے مدد چاہتا ہوں اس پر جو کچھ تم بیان کر رہے ہو،
اور یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگاکر لے آئے -یعقوب نے کہا کہ یہ بات صرف تمہارے دل نے گڑھی ہے لہذا میرا راستہ صبر جمیل کا ہے اور اللہ تمہارے بیان کے مقابلہ میں میرا مددگارہے
اور یوسف کے کرتے کو جھوٹ موٹ کے خون سے خون آلود بھی کر ﻻئے تھے، باپ نے کہا یوں نہیں، بلکہ تم نے اپنے دل ہی سے ایک بات بنا لی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے
اور وہ اس (یوسف (ع)) کے کُرتے پر جھوٹا خون لگا کر لائے۔ آپ (ع) نے کہا (یہ جھوٹ ہے) بلکہ تمہارے نفسوں نے (اپنے بچاؤ کیلئے) یہ بات گھڑ کر تمہیں خوشنما دکھا دی ہے (بہرحال اس سانحہ پر) صبر کرنا ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اس سلسلہ میں اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے۔
وَجَآءَتْ سَيَّارَةٌۭ فَأَرْسَلُوا۟ وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُۥ ۖ قَالَ يَٰبُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَٰمٌۭ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَٰعَةًۭ ۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِمَا يَعْمَلُونَ ﴿١٩﴾
اور ایک قافلہ آیا پھر انہوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا اس نے اپنا ڈول لٹکایا کہا کیا خوشی کی بات ہے یہ ایک لڑکا ہے اور اسے تجارت کا مال سمجھ کر چھپا لیا اور الله خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کر رہے تھے
ادھر ایک قافلہ آیا اور اُس نے اپنے سقے کو پانی لانے کے لیے بھیجا سقے نے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو (یوسفؑ کو دیکھ کر) پکار اٹھا \"مبارک ہو، یہاں تو ایک لڑکا ہے\" ان لوگوں نے اس کو مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اس سے باخبر تھا
اور ایک قافلہ آیا انہوں نے اپنا پانی لانے والا بھیجا تو اس نے اپنا ڈول ڈال بولا آہا کیسی خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے اور اسے ایک پونجی بناکر چھپالیا اور اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں،
(اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب) ایک قافلہ آوارد ہوا اور انہوں نے (پانی کے لیے) اپنا سقا بھیجا۔ اس نے کنویں میں ڈول لٹکایا (تو یوسف اس سے لٹک گئے) وہ بولا زہے قسمت یہ تو (نہایت حسین) لڑکا ہے۔ اور اس کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے خدا کو سب معلوم تھا
اور (ادھر) راہ گیروں کا ایک قافلہ آپہنچا تو انہوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا سو اس نے اپنا ڈول (اس کنویں میں) لٹکایا، وہ بول اٹھا: خوشخبری ہو یہ ایک لڑکا ہے، اور انہوں نے اسے قیمتی سامانِ تجارت سمجھتے ہوئے چھپا لیا، اور اﷲ ان کاموں کو جو وہ کر رہے تھے خوب جاننے والا ہے،
اور وہاں ایک قافلہ آیا جس کے پانی نکالنے والے نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو آواز دی ارے واہ یہ تو بچہ ہے اور اسے ایک قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپالیا اور اللہ ان کے اعمال سے خوب باخبر ہے
اور ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے پانی ﻻنے والے کو بھیجا اس نے اپنا ڈول لٹکا دیا، کہنے لگا واه واه خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے، انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چھپا دیا اور اللہ تعالیٰ اس سے باخبر تھا جو وه کر رہے تھے
اور ایک قافلہ آیا (اور وہاں اترا) تو انہوں نے (پانی لانے کیلئے) اپنا سقا بھیجا۔ پس اس نے جونہی اپنا ڈول ڈالا۔ (تو یوسف اس میں بیٹھ گئے جب ڈول کھینچا) تو پکار اٹھا۔ مبارک باد یہ تو ایک لڑکا ہے اور ان لوگوں نے اسے سرمایۂ تجارت سمجھ کر چھپا رکھا اور وہ لوگ جو کچھ کر رہے تھے اللہ اس سے خوب واقف تھا۔
وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍۭ بَخْسٍۢ دَرَٰهِمَ مَعْدُودَةٍۢ وَكَانُوا۟ فِيهِ مِنَ ٱلزَّٰهِدِينَ ﴿٢٠﴾
اسے بھائی ناقص قیمت پر بیچ آئے گنتی کی چونیوں پر اور اس سے بیزار ہو رہے تھے
آخر کار انہوں نے اس کو تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا اور وہ اس کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہ تھے
اور بھائیوں نے اسے کھوٹے داموں گنتی کے روپوں پر بیچ ڈالا اور انہیں اس میں کچھ رغبت نہ تھی
اور اس کو تھوڑی سی قیمت (یعنی) معدودے چند درہموں پر بیچ ڈالا۔ اور انہیں ان (کے بارے) میں کچھ لالچ نہ تھا
اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے (جو موقع پر آگئے تھے اسے اپنا بھگوڑا غلام کہہ کر انہی کے ہاتھوں) بہت کم قیمت گنتی کے چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا کیونکہ وہ راہ گیر اس (یوسف علیہ السلام کے خریدنے) کے بارے میں (پہلے ہی) بے رغبت تھے (پھر راہ گیروں نے اسے مصر لے جا کر بیچ دیا)،
اور ان لوگوں نے یوسف کو معمولی قیمت پر بیچ ڈالا چند درہم کے عوض اور وہ لوگ تو ان سے بیزار تھے ہی
اور انہوں نے اسے بہت ہی ہلکی قیمت پر گنتی کے چند درہموں پر ہی بیچ ڈاﻻ، وه تو یوسف کے بارے میں بہت ہی بے رغبت تھے
اور (ادھر برادرانِ یوسف بھی آپہنچے اور یوسف کو اپنا غلام ظاہر کرکے) بالکل کم قیمت پر یعنی گنتی کے چند درہموں کے عوض بیج ڈالا۔ اور ان (بھائیوں) کو اس میں کوئی دلچسپی نہ تھی (بلکہ اس سے بیزار تھے)۔
وَقَالَ ٱلَّذِى ٱشْتَرَىٰهُ مِن مِّصْرَ لِٱمْرَأَتِهِۦٓ أَكْرِمِى مَثْوَىٰهُ عَسَىٰٓ أَن يَنفَعَنَآ أَوْ نَتَّخِذَهُۥ وَلَدًۭا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِى ٱلْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُۥ مِن تَأْوِيلِ ٱلْأَحَادِيثِ ۚ وَٱللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰٓ أَمْرِهِۦ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٢١﴾
اور جس نے اسے مصر میں خرید کیا اس نے اپنی عورت سے کہا اس کی عزت کر شاید ہمارے کام آئے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اس طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں جگہ دی اور تاکہ ہم اسے خواب کی تعبیر سکھائیں اور الله اپنا کام جیت کر رہتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
مصر کے جس شخص نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا \"اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں\" اس طرح ہم نے یوسفؑ کے لیے اُس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا انہیں عزت سے رکھو شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ان کو ہم بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ (رہنے کا ٹھکانا) دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں ۰ف۵۳) اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے،
اور مصر میں جس شخص نے اس کو خریدا اس نے اپنی بیوی سے (جس کا نام زلیخا تھا) کہا کہ اس کو عزت واکرام سے رکھو عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں۔ اس طرح ہم نے یوسف کو سرزمین (مصر) میں جگہ دی اور غرض یہ تھی کہ ہم ان کو (خواب کی) باتوں کی تعبیر سکھائیں اور خدا اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا تھا (اس کا نام قطفیر تھا اور وہ بادشاہِ مصر ریان بن ولید کا وزیر خزانہ تھا اسے عرف عام میں عزیزِ مصر کہتے تھے) اس نے اپنی بیوی (زلیخا) سے کہا: اسے عزت و اکرام سے ٹھہراؤ! شاید یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں، اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین (مصر) میں استحکام بخشا اور یہ اس لئے کہ ہم اسے باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی علمِ تعبیرِ رؤیا) سکھائیں، اور اﷲ اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،
اور مصر کے جس شخص نے انہیں خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہاکہ اسے عزّت و احترام کے ساتھ رکھو شاید یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا فرزند بنالیں اور اس طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اقتدار دیا اور تاکہ اس طرح انہیں خوابوں کی تعبیر کا علم سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غلبہ رکھنے والا ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے
مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے بہت عزت واحترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائده پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں، یوں ہم نے مصر کی سرزمین میں یوسف کا قدم جما دیا کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں
اور پھر (اس قافلہ والوں سے) مصر کے جس شخص (عزیزِ مصر) نے اسے (دوبارہ) خریدا تھا اس نے اپنی بیوی (زلیخا) سے کہا اسے عزت کے ساتھ رکھنا ہو سکتا ہے کہ ہمیں کچھ فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں! اور اسی طرح (حکمتِ عملی سے) ہم نے اس (یوسف (ع)) کو سر زمینِ مصر میں تمکین دی (زمین ہموار کی تاکہ اسے اقتدار کیلئے منتخب کریں) اور خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کریں اور اللہ اپنے ہر کام پر غالب ہے (اور اس کے انجام دینے پر قادر ہے) لیکن اکثر لوگ (یہ حقیقت) نہیں جانتے۔
وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُۥٓ ءَاتَيْنَٰهُ حُكْمًۭا وَعِلْمًۭا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿٢٢﴾
اور جب اپنی جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے حکم اور علم دیا اور نیکوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں
اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا، اِس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں
اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو،
اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم بخشا۔ اور نیکوکاروں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں
اور جب وہ اپنے کمالِ شباب کو پہنچ گیا (تو) ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علمِ (تعبیر) عطا فرمایا، اور اسی طرح ہم نیکوکاروں کو صلہ بخشا کرتے ہیں،
اور جب یوسف اپنی جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے انہیں حکم اور علم عطا کردیا کہ ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں
اور جب (یوسف) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم دیا، ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں
اور جب وہ (یوسف) پوری جوانی کو پہنچا۔ تو ہم نے اس کو حکمت اور علم عطا کیا اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔
وَرَٰوَدَتْهُ ٱلَّتِى هُوَ فِى بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِۦ وَغَلَّقَتِ ٱلْأَبْوَٰبَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ ٱللَّهِ ۖ إِنَّهُۥ رَبِّىٓ أَحْسَنَ مَثْوَاىَ ۖ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلظَّٰلِمُونَ ﴿٢٣﴾
اورجس عورت کے گھر میں تھا وہ اسے پھسلا نے لگی اور دروازے بند کر لیے اور کہنے لگی لو آؤ اس نے کہا الله کی پناہ وہ تو میرا آقا ہے جس نے مجھے عزت سے رکھا ہے بے شک ظالم نجات نہیں پاتے
جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی \"آ جا\" یوسفؑ نے کہا \"خدا کی پناہ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں!) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے\"
اور وہ جس عورت کے گھر میں تھا اس نے اسے لبھایا کہ اپنا آپا نہ روکے اور دروازے سب بند کردیے اور بولی آؤ تمہیں سے کہتی ہوں کہا اللہ کی پناہ وہ عزیز تو میرا رب یعنی پرورش کرنے والا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا بیشک ظالموں کا بھلا نہیں ہوتا،
تو جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور دروازے بند کرکے کہنے لگی (یوسف) جلدی آؤ۔ انہوں نے کہا کہ خدا پناہ میں رکھے (وہ یعنی تمہارے میاں) تو میرے آقا ہیں انہوں نے مجھے اچھی طرح سے رکھا ہے (میں ایسا ظلم نہیں کرسکتا) بےشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے
اور اس عورت (زلیخا) نے جس کے گھر وہ رہتے تھے آپ سے آپ کی ذات کی شدید خواہش کی اور اس نے دروازے (بھی) بند کر دیئے اور کہنے لگی: جلدی آجاؤ (میں تم سے کہتی ہوں)۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اﷲ کی پناہ! بیشک وہ (جو تمہارا شوہر ہے) میرا مربّی ہے اس نے مجھے بڑی عزت سے رکھا ہے۔ بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے،
اور اس نے ان سے اظہار همحبتّ کیا جس کے گھر میں یوسف رہتے تھے اور دروازے بند کردیئے اور کہنے لگی لو آؤ یوسف نے کہا کہ معاذ اللہ وہ میرا مالک ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے اور ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے
اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وه اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازے بند کرکے کہنے لگی لو آجاؤ یوسف نے کہا اللہ کی پناه! وه میرا رب ہے، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا
اور پھر وہ (یوسف) جس عورت کے گھر میں تھا وہ اپنی مطلب براری کے لئے اس پر ڈورے ڈالنے لگی (چنانچہ) ایک دن سب دروازے بند کر دیے اور کہا بس آجاؤ! یوسف نے کہا معاذ اللہ! (اللہ کی پناہ) وہ (تیرا شوہر) میرا مربی و محسن ہے اس نے مجھے بڑی عزت سے (اپنے گھر میں) ٹھہرایا ہے تو اس کے بدلے میں اس کی امانت میں خیانت کروں؟ (اے معاذ اللہ) بے شک ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔
وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِۦ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ أَن رَّءَا بُرْهَٰنَ رَبِّهِۦ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ ٱلسُّوٓءَ وَٱلْفَحْشَآءَ ۚ إِنَّهُۥ مِنْ عِبَادِنَا ٱلْمُخْلَصِينَ ﴿٢٤﴾
اور البتہ اس عورت نے تو اس پر ارادہ کر لیا تھا اور اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا تو اس کا اردہ کر لیتا اسی طرح ہوا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ٹال دیں بے شک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا
وہ اُس کی طرف بڑھی اور یوسفؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں، در حقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا
اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یوں ہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہے
اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا۔ اگر وہ اپنے پروردگار کی نشانی نہ دیکھتے (تو جو ہوتا ہوتا) یوں اس لیے (کیا گیا) کہ ہم ان سے برائی اور بےحیائی کو روک دیں۔ بےشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے
(یوسف علیہ السلام نے انکار کر دیا) اور بیشک اس (زلیخا) نے (تو) ان کا ارادہ کر (ہی) لیا تھا، (شاید) وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر انہوں نے اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھا ہوتا۔٭ اس طرح (اس لئے کیا گیا) کہ ہم ان سے تکلیف اور بے حیائی (دونوں) کو دور رکھیں، بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے (برگزیدہ) بندوں میں سے تھے، ٭ (یا انہوں نے بھی اس کو طاقت سے دور کرنے کا قصد کر لیا تھا۔ اگر وہ اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھ لیتے تو اپنے دفاع میں سختی کر گزرتے اور ممکن ہے اس دوران ان کا قمیض آگے سے پھٹ جاتا جو بعد ازاں ان کے خلاف شہادت اور وجہ تکلیف بنتا، سو اﷲ کی نشانی نے انہیں سختی کرنے سے روک دیا۔)
اور یقینااس عورت نے ان سے برائی کا ارادہ کیااور وہ بھی ارادہ کربیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے یہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کیا کہ ان سے برائی اور بدکاری کا رخ موڑ دیں کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے
اس عورت نے یوسف کی طرف قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وه اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھتے، یونہی ہوا اس واسطے کہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی دور کر دیں۔ بے شک وه ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا
اس عورت (زلیخا) نے گناہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اور وہ مرد (یوسف) بھی اس کا ارادہ کرتا اگر اپنے پروردگار کا برہان نہ دیکھ لیتا ایسا ہوا تاکہ ہم اس (یوسف) سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں بے شک وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھا۔
وَٱسْتَبَقَا ٱلْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُۥ مِن دُبُرٍۢ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا ٱلْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَآءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوٓءًا إِلَّآ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ﴿٢٥﴾
اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور عورت نے اس کا کرتہ پیچھے سےپھاڑ ڈالا اور دونوں نے عور ت کے خاوند کو دروازے کے پاس پایا کہنے لگی کہ جو تیرے گھر کے لوگوں سے برااردہ کرے اس کی تو یہی سزا ہے کہ قید کیا جائے یا سخت سزا دی جائے
آخر کار یوسفؑ اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اس نے پیچھے سے یوسفؑ کا قمیص (کھینچ کر) پھاڑ دیا دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی، \"کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیت خراب کرے؟ اِس کے سوا اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے\"
اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور عورت نے اس کا کر ُتا پیچھے سے چیر لیا اور دونوں کو عورت کا میاں دروازے کے پاس ملا بولی کیا سزا ہے اس کی جس نے تیری گھر والی سے بدی چاہی مگر یہ کہ قید کیا جائے یا دکھ کی مار
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا تو عورت بولی کہ جو شخص تمہاری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی اس کے سوا کیا سزا ہے کہ یا تو قید کیا جائے یا دکھ کا عذاب دیا جائے
اور دونوں دروازے کی طرف (آگے پیچھے) دوڑے اور اس (زلیخا) نے ان کا قمیض پیچھے سے پھاڑ ڈالا اور دونوں نے اس کے خاوند (عزیزِ مصر) کو دروازے کے قریب پا لیا وہ (فورًا) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا (اسے) درد ناک عذاب (دیا جائے)،
اور دونوں نے دروازے کی طرف سبقت کی اور اس نے ان کا کرتا پیچھے سے پھاڑ دیا اور دونوں نے اس کے سردار کو دروازہ ہی پر دیکھ لیا -اس نے گھبرا کر فریاد کی کہ جو تمہاری عورت کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اس کی سزا اس کے علاوہ کیا ہے کہ اسے قیدی بنادیاجائے یا اس پر دردناک عذاب کیا جائے
دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتا پیچھے کی طرف سے کھینچ کر پھاڑ ڈاﻻ اور دروازے کے پاس ہی عورت کا شوہر دونوں کو مل گیا، تو کہنے لگی جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا اراده کرے بس اس کی سزا یہی ہے کہ اسے قید کر دیا جائے یا اور کوئی دردناک سزا دی جائے۔
اور وہ دونوں ایک دوسرے سے پہلے دروازہ تک پہنچنے کے لئے دوڑے اور اس عورت نے اس مرد (یوسف) کا کرتہ پیچھے سے (کھینچ کر) پھاڑ دیا اور پھر دونوں نے اس عورت کے خاوند کو دروازے کے پاس (کھڑا ہوا) پایا۔ اسے دیکھتے ہی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اس عورت نے بات بنائی اور کہا جو شخص تمہاری بیوی کے ساتھ بدکاری کرنے کا ارادہ کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ اسے قید کر دیا جائے یا کوئی دردناک عذاب دیا جائے۔
قَالَ هِىَ رَٰوَدَتْنِى عَن نَّفْسِى ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌۭ مِّنْ أَهْلِهَآ إِن كَانَ قَمِيصُهُۥ قُدَّ مِن قُبُلٍۢ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ ٱلْكَٰذِبِينَ ﴿٢٦﴾
کہا یہی مجھ سے اپنا مطلب نکالنے کو پھسلاتی تھی اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہے تو عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے
یوسفؑ نے کہا \"یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی\" اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی کہ \"اگر یوسفؑ کا قمیص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا
کہا اس نے مجھ کو لبھایا کہ میں اپنی حفاظت نہ کروں اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی اگر ان کا کر ُتا آگے سے چرا ہے تو عورت سچی ہے اور انہوں نے غلط کہا
یوسف نے کہا اسی نے مجھ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا۔ اس کے قبیلے میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا کہ اگر اس کا کرتا آگے سے پھٹا تو یہ سچی اور یوسف جھوٹا
یوسف (علیہ السلام) نے کہا: (نہیں بلکہ) اس نے خود مجھ سے مطلب براری کے لئے مجھے پھسلانا چاہا اور (اتنے میں خود) اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے (جو شیر خوار بچہ تھا) گواہی دی کہ اگر اس کا قمیض آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹوں میں سے ہے،
یوسف نے کہا کہ اس نے خود مجھ سے اظہار محبت ّکیا ہے اور اس پر اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی بھی دے دی کہ اگر ان کا دامن سامنے سے پھٹا ہے تو وہ سچی ہے اور یہ جھوٹوں میں سے ہیں
یوسف نے کہا یہ عورت ہی مجھے پھسلا رہی تھی، اور عورت کے قبیلے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی کہ اگر اس کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے اور یوسف جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے
یوسف (ع) نے کہا (حقیقت یہ ہے کہ) خود اسی نے اپنی مطلب برآری کے لئے مجھ پر ڈورے ڈالے اور مجھے پھسلانا چاہا اس پر اس عورت کے کنبہ والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر یوسف کا کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہے تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا۔
وَإِن كَانَ قَمِيصُهُۥ قُدَّ مِن دُبُرٍۢ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ ﴿٢٧﴾
اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹاہوا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور وہ سچا ہے
اور اگر اس کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچا\"
اور اگر ان کا کر ُتا پیچھے سے چاک ہوا تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے
اور اگر کرتا پیچھے سے پھٹا ہو تو یہ جھوٹی اور وہ سچا ہے
اور اگر اس کا قمیض پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور وہ سچوں میں سے ہے،
اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو وہ جھوٹی ہے یہ سچوں میںسے ہیں
اور اگر اس کا کرتا پیچھے کی جانب سے پھاڑا گیاہے تو عورت جھوٹی ہے اور یوسف سچوں میں سے ہے
اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور وہ سچا۔
فَلَمَّا رَءَا قَمِيصَهُۥ قُدَّ مِن دُبُرٍۢ قَالَ إِنَّهُۥ مِن كَيْدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌۭ ﴿٢٨﴾
پھر جب عزیز نے اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا کہابے شک یہ تم عورتوں کا ایک فریب ہے بے شک تمہارا فریب بڑا ہوتا ہے
جب شوہر نے دیکھا کہ یوسفؑ کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس نے کہا \"یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑ ے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں
پھر جب عزیز نے اس کا کر ُتا پیچھے سے چرا دیکھا بولا بیشک یہ تم عورتوں کا چرتر (فریب) ہے بیشک تمہارا چرتر (فریب) بڑا ہے
اور جب اس کا کرتا دیکھا (تو) پیچھے سے پھٹا تھا (تب اس نے زلیخا سے کہا) کہ یہ تمہارا ہی فریب ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ تم عورتوں کے فریب بڑے (بھاری) ہوتے ہیں
پھر جب اس (عزیزِ مصر) نے ان کا قمیض دیکھا (کہ) وہ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا تو اس نے کہا: بیشک یہ تم عورتوں کا فریب ہے۔ یقیناً تم عورتوں کا فریب بڑا (خطرناک) ہوتا ہے،
پھر جو دیکھاکہ ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے توا س نے کہا کہ یہ تم عورتوں کی مّکاری ہے تمہارا مکر بہت عظیم ہوتا ہے
خاوند نے جو دیکھا کہ یوسف کا کرتا پیٹھ کی جانب سے پھاڑا گیا ہے تو صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم عورتوں کی چال بازی ہے، بیشک تمہاری چال بازی بہت بڑی ہے۔
پس جب اس (خاوند) نے یوسف کا کرتہ دیکھا کہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو عورت سے کہا یہ تمہاری مکاریوں سے ایک مکاری ہے بے شک تمہاری مکاریاں بڑی سخت ہوتی ہیں۔
يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۚ وَٱسْتَغْفِرِى لِذَنۢبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ ٱلْخَاطِـِٔينَ ﴿٢٩﴾
یوسف تو اس سے درگزر کر اور تو اے عورت اپنے گنا ہ کی معافی مانگ کیوں کہ تو ہی خطا کار ہے
یوسفؑ، اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت، تو اپنے قصور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطا کار تھی\"
اے یوسف! تم اس کا خیال نہ کرو اور اے عورت! تو اپنے گناہ کی معافی مانگ بیشک تو خطاواروں میں ہے
یوسف اس بات کا خیال نہ کر۔ اور (زلیخا) تو اپنے گناہوں کی بخشش مانگ، بےشک خطا تیری ہے
اے یوسف! تم اس بات سے درگزر کرو اور (اے زلیخا!) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، بیشک تو ہی خطاکاروں میں سے تھی،
یوسف اب تم اس سے اعراض کرو اور زلیخا تو اپنے گناہ کے لئے استغفار کر کہ تو خطاکاروں میں ہے
یوسف اب اس بات کو آتی جاتی کرو اور (اے عورت) تو اپنے گناه سے توبہ کر، بیشک تو گنہگاروں میں سے ہے۔
پھر یوسف (ع) سے کہا اے یوسف! اس بات سے درگزر کر (اسے جانے دے) اور بیوی سے کہا اپنے گناہ کی معافی مانگ یقینا تو خطاکاروں میں سے ہے۔
۞ وَقَالَ نِسْوَةٌۭ فِى ٱلْمَدِينَةِ ٱمْرَأَتُ ٱلْعَزِيزِ تُرَٰوِدُ فَتَىٰهَا عَن نَّفْسِهِۦ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَىٰهَا فِى ضَلَٰلٍۢ مُّبِينٍۢ ﴿٣٠﴾
اورعوتوں نے شہر میں چرچا کیا کہ عزیز کی عورت اپنے غلام کو چاہتی ہے بے شک اس کی محبت میں فریفتہ ہوگئی ہے ہم تو اسے صریح غلطی پر دیکھتے ہیں
شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ \"عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبت نے اس کو بے قابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے\"
اور شہر میں کچھ عورتیں بولیں کہ عزیز کی بی بی اپنے نوجوان کا دل لبھاتی ہ ے بیشک ان کی محبت اس کے دل میں پَیر گئی (سماگئی) ہے ہم تو اسے صر یح خود رفتہ پاتے ہیں
اور شہر میں عورتیں گفتگوئیں کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے۔ اور اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے۔ ہم دیکھتی ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہے
اور شہر میں (اُمراء کی) کچھ عورتوں نے کہنا (شروع) کر دیا کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اس سے مطلب براری کے لئے پھسلاتی ہے، اس (غلام) کی محبت اس کے دل میں گھر کر گئی ہے، بیشک ہم اسے کھلی گمراہی میں دیکھ رہی ہیں،
اور پھر شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کردیا کہ عزیز مصر کی عورت اپنے جوان کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور اسے اس کی محبت نے مدہوش بنادیا تھا ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ عورت بالکل ہی کھلی ہوئی گمراہی میں ہے
اور شہر کی عورتوں میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز کی بیوی اپنے (جوان) غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لئے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے، ان کے دل میں یوسف کی محبت بیٹھ گئی ہے، ہمارے خیال میں تو وه صریح گمراہی میں ہے
پھر (جب اس واقعہ کا چرچا ہوا تو) شہر کی عورتیں کہنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان پر اپنی مطلب براری کے لئے ڈورے ڈال رہی ہے اس کی محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی ہے ہم تو اسے صریح غلطی میں مبتلا دیکھتی ہیں۔
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَـًۭٔا وَءَاتَتْ كُلَّ وَٰحِدَةٍۢ مِّنْهُنَّ سِكِّينًۭا وَقَالَتِ ٱخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُۥٓ أَكْبَرْنَهُۥ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَٰشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَآ إِلَّا مَلَكٌۭ كَرِيمٌۭ ﴿٣١﴾
پھر جب عزیز کی بیوی نے ان کی ملامت سنی تو انہیں بھلا بھیجا اور ان کے واسطے ایک مجلس تیار کی اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دی اور کہا ان کے سامنے نکل آ پھر جب انہوں نےاسے دیکھا تو حیرت میں رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور کہا الله پاک ہے یہ انسان تو نہیں ہے یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے
اس نے جو اُن کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو اُن کو بلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک چھری رکھ دی (پھر عین اس وقت جبکہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یوسفؑ کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پکا ر اٹھیں \"حاشاللّٰہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے\"
تو جب زلیخا نے ان کا چرچا سنا تو ان عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کے لیے مسندیں تیار کیں اور ان میں ہر ایک کو ایک چھری دی اور یوسف سے کہا ان پر نکل آؤ جب عورتوں نے یوسف کو دیکھا اس کی بڑائی بولنے لگیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بولیں اللہ کو پاکی ہے یہ تو جنس بشر سے نہیں یہ تو نہیں مگر کوئی معزز فرشتہ،
جب زلیخا نے ان عورتوں کی (گفتگو جو حقیقت میں دیدار یوسف کے لیے ایک) چال (تھی) سنی تو ان کے پاس (دعوت کا) پیغام بھیجا اور ان کے لیے ایک محفل مرتب کی۔ اور (پھل تراشنے کے لیے) ہر ایک کو ایک چھری دی اور (یوسف سے) کہا کہ ان کے سامنے باہر آؤ۔ جب عورتوں نے ان کو دیکھا تو ان کا رعب (حسن) ان پر (ایسا) چھا گیا کہ (پھل تراشتے تراشتے) اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بےساختہ بول اٹھیں کہ سبحان الله (یہ حسن) یہ آدمی نہیں کوئی بزرگ فرشتہ ہے
پس جب اس (زلیخا) نے ان کی مکارانہ باتیں سنیں (تو) انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لئے مجلس آراستہ کی (پھر ان کے سامنے پھل رکھ دیئے) اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دے دی اور (یوسف علیہ السلام سے) درخواست کی کہ ذرا ان کے سامنے سے (ہوکر) نکل جاؤ (تاکہ انہیں بھی میری کیفیت کا سبب معلوم ہو جائے)، سو جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام کے حسنِ زیبا) کو دیکھا تو اس (کے جلوۂ جمال) کی بڑائی کرنے لگیں اور وہ (مدہوشی کے عالم میں پھل کاٹنے کے بجائے) اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور (دیکھ لینے کے بعد بے ساختہ) بول اٹھیں: اﷲ کی پناہ! یہ تو بشر نہیں ہے، یہ تو بس کوئی برگزیدہ فرشتہ (یعنی عالمِ بالا سے اترا ہوا نور کا پیکر) ہے،
پھر جب زلیخا نے ان عورتوں کی مکاری اور تشہیر کا حال سنا تو بلا بھیجا اور ان کے لئے پرتکلف دعوت کا انتطام کرکے مسند لگادی اور سب کو ایک ایک چھری دے دی اور یوسف سے کہا کہ تم ان کے سامنے سے نکل جاؤ پھر جیسے ہی ان لوگوں نے دیکھا تو بڑا حسین و جمیل پایا اور اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور کہا کہ ماشائ اللہ یہ تو آدمی نہیں ہے بلکہ کوئی محترم فرشتہ ہے
اس نے جب ان کی اس پر فریب غیبت کا حال سنا تو انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لئے ایک مجلس مرتب کی اور ان میں سے ہر ایک کو چھری دی۔ اور کہا اے یوسف! ان کے سامنے چلے آؤ، ان عورتوں نے جب اسے دیکھا تو بہت بڑا جانا اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے، اور زبان سے نکل گیا کہ حاشاللہ! یہ انسان تو ہرگز نہیں، یہ تو یقیناً کوئی بہت ہی بزرگ فرشتہ ہے
جب زلیخا نے ان عورتوں کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو اس نے انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لئے مسندیں لگا دیں اور ہر ایک کو (پھل کاٹنے کیلئے) ایک چھری دے دی۔ (پھر جب وہ پھل کاٹ کر کھانے لگیں تو) اس نے یوسف (ع) سے کہا ذرا ان کے سامنے نکل آ پس جب انہوں نے دیکھا تو (حسن و جمال میں) انہیں بڑھا ہوا پایا (لہٰذا حیران رہ گئیں اور پھل کی بجائے) اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں (اور احساس تک نہ ہوا) اور (بے ساختہ) کہہ اٹھیں ماشاء اللہ۔ یہ انسان نہیں ہے بلکہ کوئی معزز فرشتہ ہے۔
قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ ٱلَّذِى لُمْتُنَّنِى فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَٰوَدتُّهُۥ عَن نَّفْسِهِۦ فَٱسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَآ ءَامُرُهُۥ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًۭا مِّنَ ٱلصَّٰغِرِينَ ﴿٣٢﴾
کہا یہی وہ ہے کہ جس کے معاملہ میں تم نے مجھےملامت کی تھی اور البتہ تحقیق میں نے اس سے دلی خواہش ظاہر کی تھی پھر اس نے اپنے آپ کو روک لیا اور اگر وہ میرا کہنا نہ مانے گا تو ضرور قید کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کررہے گا
عزیز کی بیوی نے کہا \"دیکھ لیا! یہ ہے یہ وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں بے شک میں نے اِسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا
زلیخا نے کہا تو يہ ہیں وہ جن پر مجھے طعنہ دیتی تھیں اور بیشک میں نے ان کا جِی لبھانا چاہا تو انہوں نے اپنے آپ کو بچا یا اور بیشک اگر وہ یہ کام نہ کریں گے جو میں ان سے کہتی ہوں تو ضرور قید میں پڑیں گے اور وہ ضرور ذلت اٹھائیں گے
تب زلیخا نے کہا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے طعنے دیتی تھیں۔ اور بےشک میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا مگر یہ بچا رہا۔ اور اگر یہ وہ کام نہ کرے گا جو میں اسے کہتی ہوں تو قید کردیا جائے گا اور ذلیل ہوگا
(زلیخا کی تدبیر کامیاب ہوگئی تب) وہ بولی: یہی وہ (پیکرِ نور) ہے جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں اور بیشک میں نے ہی (اپنی خواہش کی شدت میں) اسے پھسلانے کی کوشش کی مگر وہ سراپا عصمت ہی رہا، اور اگر (اب بھی) اس نے وہ نہ کیا جو میں اسے کہتی ہوں تو وہ ضرور قید کیا جائے گا اور وہ یقینًا بے آبرو کیا جائے گا،
زلیخا نے کہا کہ یہی وہ ہے جس کے بارے میں تم لوگوں نے میری ملامت کی ہے اور میں نے اسے کھینچنا چاہا تھا کہ یہ بچ کر نکل گیا اور جب میری بات نہیں مانی تو اب قید کیا جائے گا اور ذلیل بھی ہوگا
اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے کہا، یہی ہے جن کے بارے میں تم مجھے طعنے دے رہی تھیں، میں نے ہر چند اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہا لیکن یہ بال بال بچا رہا، اور جو کچھ میں اس سے کہہ رہی ہوں اگر یہ نہ کرے گا تو یقیناً یہ قید کر دیا جائے گا اور بیشک یہ بہت ہی بے عزت ہوگا
عزیز کی بیوی نے کہا یہی وہ ہے جس کے بارے میں تم میری ملامت کرتی تھیں بے شک میں نے اس پر ڈورے ڈالے اور پھسلانے کی کوشش کی۔ مگر وہ بچا ہی رہا۔ (ہاں البتہ اب برملا کہتی ہوں کہ) اگر اس نے وہ نہ کیا جس کا میں اسے حکم دیتی ہوں تو پھر اسے ضرور قید کر دیا جائے گا۔ اور ضرور ذلیل بھی ہوگا۔
قَالَ رَبِّ ٱلسِّجْنُ أَحَبُّ إِلَىَّ مِمَّا يَدْعُونَنِىٓ إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّى كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ ٱلْجَٰهِلِينَ ﴿٣٣﴾
یوسف نے کہا اے میرے رب میرے لیے قید حانہ بہتر ہے اس کام سے کہ جس کی طرف مجھے بلا رہی ہیں اوراگر تو مجھ سے ان کا فریب دفع نہ کرے گا تو ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور جاہلوں میں سے ہو جاؤں گا
یوسفؑ نے کہا \"اے میرے رب، قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا
یوسف نے عرض کی اے میرے رب! مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کا مکر نہ پھیرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوں گا اور نادان بنوں گا،
یوسف نے دعا کی کہ پروردگار جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اس کی نسبت مجھے قید پسند ہے۔ اور اگر تو مجھ سے ان کے فریب کو نہ ہٹائے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤں گا
(اب زنانِ مصر بھی زلیخا کی ہم نوا بن گئی تھیں) یوسف (علیہ السلام) نے (سب کی باتیں سن کر) عرض کیا: اے میرے رب! مجھے قید خانہ اس کام سے کہیں زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو نے ان کے مکر کو مجھ سے نہ پھیرا تو میں ان کی (باتوں کی) طرف مائل ہو جاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہو جاؤں گا،
یوسف نے کہا کہ پروردگار یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو ان کے مکر کو میری طرف سے موڑ نہ دے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوسکتا ہوں اور میرا شمار بھی جاہلوں میں ہوسکتا ہے
یوسف نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے، اگر تو نے ان کا فن فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں تو ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور بالکل نادانوں میں جا ملوں گا
یوسف (ع) نے (بات سن کر کہا) اے میرے پروردگار! اس کام کی نسبت جس کی یہ مجھے دعوت دے رہی ہیں مجھے قیدخانہ پسند ہے اور اگر تو مجھ سے ان کے مکر و فریب کو دور نہ کرے تو ہو سکتا ہے کہ میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں اور اس طرح جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔
فَٱسْتَجَابَ لَهُۥ رَبُّهُۥ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ ﴿٣٤﴾
پھر اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی پس ان کا فریب ان سے دور کر دیا گیا کیوں کہ وہی سننے والا جاننے والا ہے
اس کے رب نے اس کی دعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں، بے شک وہی ہے جو سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے
تو اس کے رب نے اس کی سن لی اور اس سے عورتوں کا مکر پھیردیا، بیشک وہی سنتا جانتا ہے
تو خدا نے ان کی دعا قبول کرلی اور ان سے عورتوں کا مکر دفع کر دیا۔ بےشک وہ سننے (اور) جاننے والا ہے
سو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی اور عورتوں کے مکر و فریب کو ان سے دور کر دیا۔ بیشک وہی خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے،
تو ان کے پروردگار نے ان کی بات قبول کرلی اور ان عورتوں کے مکر کو پھیر دیا کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا جاننے والا ہے
اس کے رب نے اس کی دعا قبول کر لی اور ان عورتوں کے داؤ پیچ اس سے پھیر دیے، یقیناً وه سننے واﻻ جاننے واﻻ ہے
پس اس کے پروردگار نے اس کی دعا قبول کر لی اور اس سے ان عورتوں کے مکر و فریب کو دور کر دیا بے شک وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّنۢ بَعْدِ مَا رَأَوُا۟ ٱلْءَايَٰتِ لَيَسْجُنُنَّهُۥ حَتَّىٰ حِينٍۢ ﴿٣٥﴾
ان لوگو ں کو نشانیاں دیکھنے کے بعد یوں سمجھ میں آیا کہ اسے ایک مدت تک قید کر دیں
پھر ان لوگوں کو یہ سوجھی کہ ایک مدت کے لیے اسے قید کر دیں حالانکہ وہ (اس کی پاکدامنی اور خود اپنی عورتوں کے برے اطوار کی) صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے
پھر سب کچھ نشانیاں دیکھ دکھا کر پچھلی مت انہیں یہی آئی کہ ضرور ایک مدت تک اسے قیدخانہ میں ڈالیں
پھر باوجود اس کے کہ وہ لوگ نشان دیکھ چکے تھے ان کی رائے یہی ٹھہری کہ کچھ عرصہ کے لیے ان کو قید ہی کردیں
پھر انہیں (یوسف علیہ السلام کی پاک بازی کی) نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی یہی مناسب معلوم ہوا کہ اسے ایک مدت تک قید کر دیں (تاکہ عوام میں اس واقعہ کا چرچا ختم ہو جائے)،
اس کے بعد ان لوگوں کو تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی یہ خیال آگیا کہ کچھ مدّت کے لئے یوسف کو قیدی بنا دیں
پھر ان تمام نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد بھی انہیں یہی مصلحت معلوم ہوئی کہ یوسف کو کچھ مدت کے لئے قید خانہ میں رکھیں
پھر ایسا ہوا کہ باوجودیکہ وہ (یوسف کی پاکدامنی کی) نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ تاہم انہیں یہی مناسب معلوم ہوا کہ ایک مدت تک اسے قید کر دیں۔
وَدَخَلَ مَعَهُ ٱلسِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَآ إِنِّىٓ أَرَىٰنِىٓ أَعْصِرُ خَمْرًۭا ۖ وَقَالَ ٱلْءَاخَرُ إِنِّىٓ أَرَىٰنِىٓ أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِى خُبْزًۭا تَأْكُلُ ٱلطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِۦٓ ۖ إِنَّا نَرَىٰكَ مِنَ ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿٣٦﴾
اور اس کے ساتھ دو جوان قید خانہ میں داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرے نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹی اٹھا رہا ہوں کہ اس میں سے جانور کھاتے ہیں ہمیں اس کی تعبیر بتلا ہم تجھے نیکو کار سمجھتے ہیں
قید خانہ میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے ایک روز اُن میں سے ایک نے اُس سے کہا \"میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں\" دوسرے نے کہا \"میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں\" دونوں نے کہا \"ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں\"
اور اس کے ساتھ قیدخانہ میں دو جوان داخل ہوئے ان میں ایک بولا میں نے خواب میں دیکھا کہ شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرا بولا میں نے خواب دیکھا کہ میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے پرند کھاتے ہیں، ہمیں اس کی تعبیر بتایے، بیشک ہم آپ کو نیکو کار دیکھتے ہیں
اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی داخل زندان ہوئے۔ ایک نے ان میں سے کہا کہ (میں نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ شراب (کے لیے انگور) نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ (میں نے بھی خواب دیکھا ہے) میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور جانور ان میں سے کھا رہے (ہیں تو) ہمیں ان کی تعبیر بتا دیجیئے کہ ہم تمہیں نیکوکار دیکھتے ہیں
اور ان کے ساتھ دو جوان بھی قید خانہ میں داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا ہے کہ میں (انگور سے) شراب نچوڑ رہا ہوں، اور دوسرے نے کہا: میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں، اس میں سے پرندے کھا رہے ہیں۔ (اے یوسف!) ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، بیشک ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھ رہے ہیں،
اور قید خانہ میں ان کے ساتھ دو جوان اور داخل ہوئے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے اور دوسرے نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں لادے ہوں اور پرندے اس میں سے کھارہے ہیں -ذرا اس کی تاوہل تو بتاؤ کہ ہماری نظر میں تم نیک کردار معلوم ہوتے ہو
اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتایئے، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں
اور یوسف (ع) کے ساتھ دو اور جوان آدمی بھی قید خانہ میں داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب (بنانے کے لیے انگور کا رس) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوں۔ جن میں سے پرندے کھا رہے ہیں ہمیں ذرا اس کی تعبیر بتائیے ہم تمہیں نیکوکاروں میں سے دیکھتے ہیں۔
قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌۭ تُرْزَقَانِهِۦٓ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِۦ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِى رَبِّىٓ ۚ إِنِّى تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍۢ لَّا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَهُم بِٱلْءَاخِرَةِ هُمْ كَٰفِرُونَ ﴿٣٧﴾
کہا جو کھانا تمہیں دیا جاتا ہے وہ ابھی آنے نہ پائے گا کہ اس سے پہلے میں تمہیں اس کی تعبیر بتلا دوں گا یہ ان چیزو ں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائی ہیں بے شک میں نے اس قوم کا مذہب ترک کر دیا ہے جو الله پرایمان نہیں لاتی اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں
یوسفؑ نے کہا: \"یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں اِن خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا یہ علم اُن علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیے ہیں واقعہ یہ ہے کہ میں نے اُن لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں
یوسف نے کہا جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے وہ تمہارے پاس نہ آنے پائے گا کہ میں اس کی تعبیر اس کے آنے سے پہلے تمہیں بتادوں گا یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے، بیشک میں نے ان لوگوں کا دین نہ مانا جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت سے منکر ہیں،
یوسف نے کہا کہ جو کھانا تم کو ملنے والا ہے وہ آنے نہیں پائے گا کہ میں اس سے پہلے تم کو اس کی تعبیر بتادوں گا۔ یہ ان (باتوں) میں سے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے سکھائی ہیں جو لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے اور روز آخرت سے انکار کرتے ہیں میں ان کا مذہب چھوڑے ہوئے ہوں
یوسف (علیہ السلام) نے کہا: جو کھانا (روز) تمہیں کھلایا جاتا ہے وہ تمہارے پاس آنے بھی نہ پائے گا کہ میں تم دونوں کو اس کی تعبیر تمہارے پاس اس کے آنے سے قبل بتا دوں گا، یہ (تعبیر) ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائے ہیں۔ بیشک میں نے اس قوم کا مذہب (شروع ہی سے) چھوڑ رکھا ہے جو اﷲ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں،
یوسف نے کہا کہ جو کھانا تم کو دیا جاتا ہے وہ نہ آنے پائے گا اور میں تمہیں تعبیر بتادوں گا -یہ تعبیر مجھے میرے پروردگار نے بتائی ہے اور میں نے اس قوم کے راستے کو چھوڑ دیا ہے جس کا ایمان اللہ پر نہیں ہے اور وہ روز هآخرت کا بھی انکار کرنے والی ہے
یوسف ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس کی تعبیر بتلا دوں گا۔ یہ سب اس علم کی بدولت ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے، میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں
یوسف (ع) نے کہا جو (مقررہ) کھانا تمہیں دیا جاتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں تمہارے خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ (تعبیرِ خواب) بھی منجملہ ان علوم کے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے تعلیم دیے ہیں۔ میں ان لوگوں کا دین و مذہب چھوڑے ہوئے ہوں جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں۔
وَٱتَّبَعْتُ مِلَّةَ ءَابَآءِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَآ أَن نُّشْرِكَ بِٱللَّهِ مِن شَىْءٍۢ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ ٱللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى ٱلنَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴿٣٨﴾
اور میں اپنے باپ دادا ابراھیم اور اسحاق اور یعقوب کے مذہب کا تابع ہو گیا ہوں ہمیں یہ جائز نہیں کی اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کریں یہ ہم پر اور سب لوگوں پر اللہ کا فضل ہے لیکن بہت لوگ شکر نہیں کرتے
اپنے بزرگوں، ابراہیمؑ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم ؑ اور اسحق ؑ اور یعقوب کا دین اختیار کیا ہمیں نہیں پہنچتا کہ کسی چیز کو اللہ کا شریک ٹھہرائیں، یہ اللہ کا ایک فضل ہے ہم پر اور لوگوں پر مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
اور اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے مذہب پر چلتا ہوں۔ ہمیں شایاں نہیں ہے کہ کسی چیز کو خدا کے ساتھ شریک بنائیں۔ یہ خدا کا فضل ہے ہم پر بھی اور لوگوں پر بھی ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
اور میں نے تو اپنے باپ دادا، ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب (علیھم السلام) کے دین کی پیروی کر رکھی ہے، ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم کسی چیز کو بھی اﷲ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، یہ (توحید) ہم پر اور لوگوں پر اﷲ کا (خاص) فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے،
میں اپنے باپ دادا ابراہیم -اسحاق اور یعقوب کے طریقے کا پیرو ہوں -میرے لئے ممکن نہیں ہے کہ میں کسی چیز کو بھی خدا کا شریک بناؤں -یہ تو میرے اوپر اور تمام انسانوں پر خدا کا فضل و کرم ہے لیکن انسانوں کی اکثریت شکر خدا نہیں کرتی ہے
میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں، یعنی ابراہیم واسحاق اور یعقوب کے دین کا، ہمیں ہرگز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کریں، ہم پر اور تمام اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں
اور میں تو اپنے باپ دادا ابراہیم (ع)، اسحاق(ع) اور یعقوب(ع) کے مذہب کا پیرو ہوں۔ ہمیں یہ زیبا نہیں ہے کہ ہم کسی چیز کو بھی خدا کا شریک ٹھہرائیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جو اس نے ہم اور سب لوگوں پر کیا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔
يَٰصَىٰحِبَىِ ٱلسِّجْنِ ءَأَرْبَابٌۭ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ ﴿٣٩﴾
اے قید خانہ کے رفیقو کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا الله جو زبردست ہے
اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب غالب ہے؟
اے میرے قیدخانہ کے دونوں ساتھیو! کیا جدا جدا رب اچھے یا ایک اللہ جو سب پر غالب،
میرے جیل خانے کے رفیقو! بھلا کئی جدا جدا آقا اچھے یا (ایک) خدائے یکتا وغالب؟
اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! (بتاؤ) کیا الگ الگ بہت سے معبود بہتر ہیں یا ایک اﷲ جو سب پر غالب ہے،
میرے قید خانے کے ساتھیو !ذرا یہ تو بتاؤ کہ متفرق قسم کے خدا بہتر ہوتے ہیں یا ایک خدائے واحدُ و قہار
اے میرے قید خانے کے ساتھیو! کیا متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں؟ یا ایک اللہ زبردست طاقتور؟
اے قید خانہ کے میرے دونوں ساتھیو (یہ بتاؤ) آیا بہت سے جدا جدا خدا اچھے ہیں یا اللہ جو یگانہ بھی ہے اور سب پر غالب بھی؟
مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِۦٓ إِلَّآ أَسْمَآءًۭ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ ۚ إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا۟ إِلَّآ إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٤٠﴾
تم اس کے سوا کچھ نہیں پوجتے مگر چند ناموں کو جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے مقرر کر لیے ہیں الله نے ان کے متعلق کوئی سند نہیں اتاری حکومت سوا الله کے کسی کی نہیں ہے اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا راستہ ہے لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے
اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
تم اس کے سوا نہیں پوجتے مگر نرے نام (فرضی نام) جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے تراش لیے ہیں اللہ نے ان کی کوئی سند نہ اتاری، حکم نہیں مگر اللہ کا اس نے فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو یہ سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ خدا نے ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ (سن رکھو کہ) خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
تم (حقیقت میں) اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ہو مگر چند ناموں کی جو خود تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (اپنے پاس سے) رکھ لئے ہیں، اﷲ نے ان کی کوئی سند نہیں اتاری۔ حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے، اسی نے حکم فرمایا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہی سیدھا راستہ (درست دین) ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،
تم اس خدا کو چھوڑ کر صرف ان ناموں کی پرستش کرتے ہو جنہیں تم نے خود رکھ لیا ہے یا تمہارے آبائ و اجداد نے -اللہ نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے جب کہ حکم کرنے کا حق صرف خدا کو ہے اور اسی نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے کہ یہی مستحکم اور سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے ہیں
اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وه سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
اللہ کو چھوڑ کر تم جن کی پرستش کرتے ہو ان کی حقیقت اس کے سوا اور کیا ہے؟ کہ وہ چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نہیں اتاری ہے حکم و حکومت کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے اسی نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی دینِ مستقیم (سیدھا دین) ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
يَٰصَىٰحِبَىِ ٱلسِّجْنِ أَمَّآ أَحَدُكُمَا فَيَسْقِى رَبَّهُۥ خَمْرًۭا ۖ وَأَمَّا ٱلْءَاخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ ٱلطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِۦ ۚ قُضِىَ ٱلْأَمْرُ ٱلَّذِى فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ ﴿٤١﴾
اے قید خانہ کے رفیقو تم دونوں میں سے ایک جو ہے وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا جو دوسرا ہے وہ سولی دیا جائے گا پھر اس کے سر میں سے پرندے کھائیں گے اس کام کا فیصلہ ہو گیا ہے جس کی تم تحقیق چاہتے تھے
اے زنداں کے ساتھیو، تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب (شاہ مصر) کو شراب پلائے گا، رہا دوسرا تو اسے سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے فیصلہ ہو گیا اُس بات کا جو تم پوچھ رہے تھے\"
اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں ایک تو اپنے رب (بادشاہ) کو شراب پلائے گا رہا دوسرا وہ سو ُلی دیا جائے گا تو پرندے اس کا سر کھائیں گے حکم ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے تھے
میرے جیل خانے کے رفیقو! تم میں سے ایک (جو پہلا خواب بیان کرنے والا ہے وہ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا اور جو دوسرا ہے وہ سولی دیا جائے گا اور جانور اس کا سر کھا جائیں گے۔ جو امر تم مجھ سے پوچھتے تھے وہ فیصلہ ہوچکا ہے
اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک (کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ) اپنے مربّی (یعنی بادشاہ) کو شراب پلایا کرے گا، اور رہا دوسرا (جس نے سر پر روٹیاں دیکھی ہیں) تو وہ پھانسی دیا جائے گا پھر پرندے اس کے سر سے (گوشت نوچ کر) کھائیں گے، (قطعی) فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہو،
میرے قید خانے کے ساتھیو تم سے ایک اپنے مالک کو شراب پلائے گا اور دوسرا سولی پر لٹکادیا جائے گا اور پرندے اس کے سر سے نوچ نوچ کر کھائیں گے یہ اس بات کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے جس کے بارے میں تم سوال کررہے ہو
اے میرے قیدخانے کے رفیقو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاه کو شراب پلانے پر مقرر ہو جائے گا، لیکن دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سرنوچ نوچ کھائیں گے، تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کردیا گیا
اے قید خانہ کے میرے دونوں ساتھیو! (اب اپنے خوابوں کی تعبیر سنو) تم میں سے ایک (پہلا) تو وہ ہے جو اپنے مالک (شاہِ مصر) کو شراب پلائے گا اور جو دوسرا ہے اسے سولی پر لٹکایا جائے گا اور پرندے اس کے سر کو (نوچ نوچ کر) کھائیں گے اس بات کا فیصلہ ہو چکا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہو۔
وَقَالَ لِلَّذِى ظَنَّ أَنَّهُۥ نَاجٍۢ مِّنْهُمَا ٱذْكُرْنِى عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَىٰهُ ٱلشَّيْطَٰنُ ذِكْرَ رَبِّهِۦ فَلَبِثَ فِى ٱلسِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ ﴿٤٢﴾
اوران دونو ں میں سے جسے شیطان نے اسے اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا پھر قید میں کئی برس رہا
پھر اُن میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یوسفؑ نے کہا کہ \"اپنے رب (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا\" مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب (شاہ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھول گیا اور یوسفؑ کئی سال قید خانے میں پڑا رہا
اور یوسف نے ان دونوں میں سے جسے بچتا سمجھا اس سے کہا اپنے رب (بادشاہ) کے پاس میرا ذکر کرنا تو شیطان نے اسے بھلا دیا کہ اپنے رب (بادشاہ) کے سامنے یوسف کا ذکر کرے تو یوسف کئی برس اور جیل خانہ میں رہا
اور دونوں شخصوں میں سے جس کی نسبت (یوسف نے) خیال کیا کہ وہ رہائی پا جائے گا اس سے کہا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر بھی کرنا لیکن شیطان نے ان کا اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف کئی برس جیل خانے میں رہے
اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجۃً یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہے،
اور پھر جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ نجات پانے والا ہے اس سے کہا کہ ذرا اپنے مالک سے میرا بھی ذکر کردینا لیکن شیطان نے اسے مالک سے ذکر کرنے کو بھلا دیا اور یوسف چند سال تک قید خانے ہی میں پڑے رہے
اور جس کی نسبت یوسف کا گمان تھا کہ ان دونوں میں سے یہ چھوٹ جائے گا اس سے کہا کہ اپنے بادشاه سے میرا ذکر بھی کر دینا، پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاه سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف نے کئی سال قیدخانے میں ہی کاٹے
اور یوسف (ع) نے اس شخص سے کہا جس کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان دنوں میں سے رہا ہو جائے گا۔ کہ اپنے مالک سے میرا تذکرہ بھی کر دینا لیکن شیطان نے اسے اپنے مالک سے یہ تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ پس یوسف کئی سال قید خانہ میں پڑا رہا۔
وَقَالَ ٱلْمَلِكُ إِنِّىٓ أَرَىٰ سَبْعَ بَقَرَٰتٍۢ سِمَانٍۢ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌۭ وَسَبْعَ سُنۢبُلَٰتٍ خُضْرٍۢ وَأُخَرَ يَابِسَٰتٍۢ ۖ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْمَلَأُ أَفْتُونِى فِى رُءْيَٰىَ إِن كُنتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُونَ ﴿٤٣﴾
اور بادشاہ نے کہا میں خواب دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں انہیں سات دبلی گائی ں کھاتی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات خشک اے دربار والو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتلاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دینے والے ہو
ایک روز بادشاہ نے کہا \"میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دوسری سات سوکھی اے اہل دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو\"
اور بادشاہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھیں سات گائیں فربہ کہ انہیں سات دُبلی گائیں کھارہی ہیں اور سات بالیں ہری اور دوسری سات سوکھی اے درباریو! میرے خواب کا جواب دو اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہو،
اور بادشاہ نے کہا کہ میں (نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے سبز ہیں اور (سات) خشک۔ اے سردارو! اگر تم خوابوں کی تعبیر دے سکتے ہو تو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ
اور (ایک روز) بادشاہ نے کہا: میں نے (خواب میں) سات موٹی تازی گائیں دیکھی ہیں، انہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے (دیکھے) ہیں اور دوسرے (سات ہی) خشک، اے درباریو! مجھے میرے خواب کا جواب بیان کرو اگر تم خواب کی تعبیر جانتے ہو،
اور پھر ایک دن بادشاہ نے لوگوں سے کہا کہ میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات پتلی گائیں کھائے جارہی ہیں اور سات ہری تازی بالیاں دیکھی ہیں اور سات خشک بالیاں دیکھی ہیں تم سب میرے خواب کے بارے میں رائے دو اگر تمہیں خواب کی تعمبیر دینا آتا ہو تو
بادشاه نے کہا، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی فربہ گائیں ہیں جن کو سات ﻻغر دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہیں ہری ہری اور دوسری سات بالکل خشک۔ اے درباریو! میرے اس خواب کی تعبیر بتلاؤ اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو
(کچھ مدت کے بعد) بادشاہ نے کہا میں نے (خواب میں) سات موٹی تازی گائیں دیکھی ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی اے سردارو (درباریو) اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو تو پھر مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ۔
قَالُوٓا۟ أَضْغَٰثُ أَحْلَٰمٍۢ ۖ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ ٱلْأَحْلَٰمِ بِعَٰلِمِينَ ﴿٤٤﴾
انہوں نے کہا یہ خیالی خواب ہیں اور ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے
لوگوں نے کہا \"یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں اور ہم اس طرح کے خوابوں کا مطلب نہیں جانتے\"
بولے پریشان خوابیں ہیں اور ہم خواب کی تعبیر نہیں جانتے،
انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں۔ اور ہمیں ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں آتی
انہوں نے کہا: (یہ) پریشاں خوابیں ہیں، اور ہم پریشاں خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے،
ان لوگوں نے کہا کہ یہ تو ایک خوابِ پریشاں ہے اور ہم ایسے خوابوں کی تاویل سے باخبر نہیں ہیں
انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو اڑتے اڑاتے پریشان خواب ہیں اور ایسے شوریده پریشان خوابوں کی تعبیر جاننے والے ہم نہیں
انہوں نے کہا یہ تو پریشان خواب و خیالات ہیں (جن کی کوئی خاص تعبیر نہیں ہوتی) اور ہم خوابہائے پریشان کی تعبیر نہیں جانتے۔
وَقَالَ ٱلَّذِى نَجَا مِنْهُمَا وَٱدَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَا۠ أُنَبِّئُكُم بِتَأْوِيلِهِۦ فَأَرْسِلُونِ ﴿٤٥﴾
اور وہ بولا جو ان دونو ں میں سے بچا تھا اور اسے مدت کے بعد یاد آ گیا میں تمہیں اس کی تعبیر بتلاؤں گا سو تم مجھے بھیج دو
اُن دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اُسے ایک مدت دراز کے بعد اب بات یاد آئی، اُس نے کہا \"میں آپ حضرات کو اس کی تاویل بتاتا ہوں، مجھے ذرا (قید خانے میں یوسفؑ کے پاس) بھیج دیجیے\"
اور بولا وہ جو ان دونوں میں سے بچا تھا اور ایک مدت بعد اسے یاد آیا میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا مجھے بھیجو
اب وہ شخص جو دونوں قیدیوں میں سے رہائی پا گیا تھا اور جسے مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی بول اٹھا کہ میں آپ کو اس کی تعبیر (لا) بتاتا ہوں مجھے (جیل خانے) جانے کی اجازت دے دیجیئے
اور وہ شخص جو ان دونوں میں سے رہائی پا چکا تھا بولا، اور (اب) اسے ایک مدت کے بعد (یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا ہوا وعدہ) یاد آگیا: میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا سو تم مجھے (یوسف علیہ السلام کے پاس) بھیجو،
اور پھر دونوں قیدیوں میں سے جو بچ گیا تھا اور جسے ایک مدت کے بعد یوسف کا پیغام یاد آیا اس نے کہا کہ میں تمہیں اس کی تعبیر سے باخبر کرتا ہوں لیکن ذرا مجھے بھیج تو دو
ان دو قیدیوں میں سے جو رہا ہوا تھا اسے مدت کے بعد یاد آگیا اور کہنے لگامیں تمہیں اس کی تعبیر بتلا دوں گا مجھے جانے کی اجازت دیجئے
اس وقت وہ شخص جو ان دو قیدیوں میں رہا ہوا تھا اور مدت کے بعد اسے (یوسف (ع) کا پیغام) یاد آیا تھا بولا میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتاتا ہوں ذرا مجھے (ایک جگہ) بھیج تو دو۔
يُوسُفُ أَيُّهَا ٱلصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِى سَبْعِ بَقَرَٰتٍۢ سِمَانٍۢ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌۭ وَسَبْعِ سُنۢبُلَٰتٍ خُضْرٍۢ وَأُخَرَ يَابِسَٰتٍۢ لَّعَلِّىٓ أَرْجِعُ إِلَى ٱلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٤٦﴾
اے یوسف اے سچے ہمیں اس کی تعبیر بتلا کہ سات موٹی گایوں کو سات دبلی کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشےہیں اور سات خشک تاکہ میں لوگو ں کے پاس لے جاؤں شاید وہ سمجھ جائیں
اس نے جا کر کہا \"یوسفؑ، اے سراپا راستی، مجھے اس خواب کا مطلب بتا کہ سات موٹی گائیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی شاید کہ میں اُن لوگوں کے پاس جاؤں اور شاید کہ وہ جان لیں\"
اے یوسف! اے صدیق! ہمیں تعبیر دیجئے سات فربہ گایوں کی جنہیں سات دُبلی کھاتی ہیں اور سات ہری بالیں اور دوسری سات سوکھی شاید میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں شاید وہ آگاہ ہوں
(غرض وہ یوسف کے پاس آیا اور کہنے لگا) یوسف اے بڑے سچے (یوسف) ہمیں اس خواب کی تعبیر بتایئے کہ سات موٹی گائیوں کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔ اور سات خوشے سبز ہیں اور سات سوکھے تاکہ میں لوگوں کے پاس واپس جا (کر تعبیر بتاؤں) ۔ عجب نہیں کہ وہ (تمہاری قدر) جانیں
(وہ قید خانہ میں پہنچ کر کہنے لگا:) اے یوسف، اے صدقِ مجسّم! آپ ہمیں (اس خواب کی) تعبیر بتا دیں کہ سات فربہ گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور دوسرے سات خشک؛ تاکہ میں (یہ تعبیر لے کر) واپس لوگوں کے پاس جاؤں شاید انہیں (آپ کی قدر و منزلت) معلوم ہو جائے،
یوسف اے مرد صدیق !ذرا ان سات موٹی گایوں کے بارے میں جنہیں سات دبلی گائیں کھارہی ہیں اور سات ہری بالیوں اور سات خشک بالیوں کے بارے میں اپنی رائے تو بتاؤ شاید میں لوگوں کے پاس باخبر واپس جاؤں تو شاید انہیں بھی علم ہوجائے
اے یوسف! اے بہت بڑے سچے یوسف! آپ ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلایئے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالکل سبز خوشے ہیں اور سات ہی دوسرے بالکل خشک ہیں، تاکہ میں واپس جاکر ان لوگوں سے کہوں کہ وه سب جان لیں
(چنانچہ وہ سیدھا قید خانہ گیا اور کہا) اے یوسف! اے بڑے سچے! ذرا ہمیں اس خواب کی تعبیر بتاؤ کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیاں ہری ہیں اور سات سوکھی تاکہ میں ان لوگوں کے پاس جاؤں (اور انہیں جا کر بتاؤں) شاید وہ (تمہاری قدر و منزلت یا تعبیر) جان لیں۔
قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًۭا فَمَا حَصَدتُّمْ فَذَرُوهُ فِى سُنۢبُلِهِۦٓ إِلَّا قَلِيلًۭا مِّمَّا تَأْكُلُونَ ﴿٤٧﴾
کہا تم سات برس لگاتار کھیتی کرو گے پھر جو کاٹو تو اسے اس کے خوشوں میں رہن ے دو مگر تھوڑا سا جو تم کھاؤ
یوسفؑ نے کہا \"سات بر س تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو اُن میں سے بس تھوڑا ساحصہ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکالو اور باقی کو اس کی بالوں ہی میں رہنے دو
کہا تم کھیتی کرو گے سات برس لگارتار تو جو کاٹو اسے اس کی بال میں رہنے دو مگر تھوڑا جتنا کھالو
انہوں نے کہا کہ تم لوگ سات سال متواتر کھیتی کرتے رہوگے تو جو (غلّہ) کاٹو تو تھوڑے سے غلّے کے سوا جو کھانے میں آئے اسے خوشوں میں ہی رہنے دینا
یوسف (علیہ السلام) نے کہا: تم لوگ دائمی عادت کے مطابق مسلسل سات برس تک کاشت کرو گے سو جو کھیتی تم کاٹا کرو گے اسے اس کے خوشوں (ہی) میں (ذخیرہ کے طور پر) رکھتے رہنا مگر تھوڑا سا (نکال لینا) جسے تم (ہر سال) کھا لو،
یوسف نے کہا کہ تم لوگ سات برس تک مسلسل زراعت کرو گے تو جو غلہ پیدا ہو اسے بالیوں سمیت رکھ دینا علاوہ تھوڑی مقدار کے کہ جو تمہارے کھانے کے کام میں آئے
یوسف نے جواب دیا کہ تم سات سال تک پے درپے لگاتار حسب عادت غلہ بویا کرنا، اور فصل کاٹ کر اسے بالیوں سمیت ہی رہنے دینا سوائے اپنے کھانے کی تھوڑی سی مقدار کے
یوسف (ع) نے کہا (اس خواب کی تعبیر یہ ہے) کہ تم متواتر سات سال کاشتکاری کروگے پھر جو فصل کاٹو اسے اس کی بالی میں رہنے دو ہاں البتہ تھوڑا سا حصہ نکال لو جسے تم کھاؤ۔
ثُمَّ يَأْتِى مِنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ سَبْعٌۭ شِدَادٌۭ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلَّا قَلِيلًۭا مِّمَّا تُحْصِنُونَ ﴿٤٨﴾
پھر اس کے بعد سات برس سختی کے آئيں گے جو تم نے ان کے لیے رکھا تھا کھا جائیں گے مگر تھوڑا سا جوتم بیج کے واسطے روک رکھو گے
پھر سات برس بہت سخت آئیں گے اُس زمانے میں وہ سب غلہ کھا لیا جائے گا جو تم اُس وقت کے لیے جمع کرو گے اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو
پھر اس کے بعد سات برس کرّے (سخت تنگی والے) آئیں گے کہ کھا جائیں گے جو تم نے ان کے لیے پہلے جمع کر رکھا تھا مگر تھوڑا جو بچالو
پھر اس کے بعد (خشک سالی کے) سات سخت (سال) آئیں گے کہ جو (غلّہ) تم نے جمع کر رکھا ہوگا وہ اس سب کو کھا جائیں گے۔ صرف وہی تھوڑا سا رہ جائے گا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے
پھر اس کے بعد سات (سال) بہت سخت (خشک سالی کے) آئیں گے وہ اس (ذخیرہ) کو کھا جائیں گے جو تم ان کے لئے پہلے جمع کرتے رہے تھے مگر تھوڑا سا (بچ جائے گا) جو تم محفوظ کر لوگے،
اس کے بعد سات سخت سال آئیں گے جو تمہارے سارے ذخیرہ کو کھاجائیں گے علاوہ اس تھوڑے مال کے جو تم نے بچا کر رکھا ہے
اس کے بعد سات سال نہایت سخت قحط آئیں گے وه اس غلے کو کھا جائیں گے، جو تم نے ان کے لئے ذخیره رکھ چھوڑا تھا، سوائے اس تھوڑے سے کے جو تم روک رکھتے ہو
پھر اس کے بعد سات بڑے سخت سال آئیں گے جو وہ سب کچھ کھا جائیں گے جو تم نے ان کے لئے ذخیرہ کیا تھا مگر تھوڑا سا بچے گا جسے تم محفوظ کر لوگے۔
ثُمَّ يَأْتِى مِنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ عَامٌۭ فِيهِ يُغَاثُ ٱلنَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ ﴿٤٩﴾
پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا اس میں لوگوں پر مینہ برسے گا اسمیں رس نچوڑیں گے
اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں باران رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑیں گے\"
پھر ان کے بعد ایک برس آئے گا جس میں لوگوں کو مینھ دیا جائے گا اور اس میں رس نچوڑیں گے
پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا کہ خوب مینہ برسے گا اور لوگ اس میں رس نچوڑیں گے
پھر اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو (خوب) بارش دی جائے گی اور (اس سال اس قدر پھل ہوں گے کہ) لوگ اس میں (پھلوں کا) رس نچوڑیں گے،
اس کے بعد ایک سال آئے گاجس میں لوگوں کی فریاد رسی اور بارش ہوگی اور لوگ خوب انگورنچوڑیں گے
اس کے بعد جو سال آئے گا اس میں لوگوں پر خوب بارش برسائی جائے گی اور اس میں (شیرہٴ انگور بھی) خوب نچوڑیں گے
پھر اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں پر خوب بارش برسائی جائے گی اور اس کے ذریعہ سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی۔ اور جس میں وہ (پھلوں کا رس) نچوڑیں گے۔
وَقَالَ ٱلْمَلِكُ ٱئْتُونِى بِهِۦ ۖ فَلَمَّا جَآءَهُ ٱلرَّسُولُ قَالَ ٱرْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَسْـَٔلْهُ مَا بَالُ ٱلنِّسْوَةِ ٱلَّٰتِى قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّى بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌۭ ﴿٥٠﴾
اور بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لے آؤ پھر جب اس کے پاس قاصد پہنچا کہا اپنے آقا کے ہاں واپس جا اور اس سے پوچھ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے بے شک میرا رب ان کے فریب سے خوب واقف ہے
بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ مگر جب شاہی فرستادہ یوسفؑ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا \"اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکاری سے واقف ہی ہے\"
اور بادشاہ بولا کہ انہیں میرے پاس لے آؤ تو جب اس کے پاس ایلچی آیا کہا اپنے رب (بادشاہ) کے پاس پلٹ جا پھر اس سے پوچھ کیا حال ہے اور عورتوں کا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے، بیشک میرا رب ان کا فریب جانتا ہے
(یہ تعبیر سن کر) بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف کو میرے پاس لے آؤ۔ جب قاصد ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ بےشک میرا پروردگار ان کے مکروں سے خوب واقف ہے
اور (یہ تعبیر سنتے ہی) بادشاہ نے کہا: یوسف (علیہ السلام) کو (فورًا) میرے پاس لے آؤ، پس جب یوسف (علیہ السلام) کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے کہا: اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ) پوچھ (کہ) ان عورتوں کا (اب) کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے؟ بیشک میرا رب ان کے مکر و فریب کو خوب جاننے والا ہے،
تو بادشاہ نے یہ سن کر کہا کہ ذرا اسے یہاں تو لے آؤ پس جب نمائندہ آیا تو یوسف نے کہا کہ اپنے مالک کے پاس پلٹ کر جاؤ اور پوچھو کہ ان عورتوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے کہ میرا پروردگار ان کے مکر سے خوب باخبر ہے
اور بادشاه نے کہا یوسف کو میرے پاس لاؤ، جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا، اپنے بادشاه کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے، تھے؟ ان کے حیلے کو (صحیح طور پر) جاننے واﻻ میرا پروردگار ہی ہے
(یہ تعبیر سن کر) بادشاہ نے کہا اس شخص (یوسف) کو میرے پاس لاؤ۔ پس جب قاصد اس کے پاس آیا تو اس نے کہا اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کے معاملہ کی حقیقت کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے؟ بے شک میرا پروردگار ان کے مکر و فریب سے خوب واقف ہے۔
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَٰوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِۦ ۚ قُلْنَ حَٰشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوٓءٍۢ ۚ قَالَتِ ٱمْرَأَتُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْـَٰٔنَ حَصْحَصَ ٱلْحَقُّ أَنَا۠ رَٰوَدتُّهُۥ عَن نَّفْسِهِۦ وَإِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ ﴿٥١﴾
کہاتمہارا کیا واقعہ تھا جب تم نے یوسف کو پھسلایا تھا انہوں نے کہا الله پاک ہے ہمیں اس میں کوئی برائی معلوم نہیں ہوئی عزیز کی عورت بولی اب سچی بات ظاہر ہو گئی میں نے ہی اسے پھسلانا چاہا تھا اور وہ سچا ہے
اس پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت کیا \"تمہارا کیا تجربہ ہے اُس وقت کا جب تم نے یوسفؑ کو رجھانے کی کوشش کی تھی؟\" سب نے یک زبان ہو کر کہا \"حاشاللہ، ہم نے تو اُس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا\" عزیز کی بیوی بول اٹھی \"اب حق کھل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ بالکل سچا ہے\"
بادشاہ نے کہا اے عورتو! تمہارا کیا کام تھا جب تم نے یوسف کا دل لبھانا چاہا، بولیں اللہ کو پاکی ہے ہم نے ان میں کوئی بدی نہیں پائی عزیز کی عورت بولی اب اصلی بات کھل گئی، میں نے ان کا جی لبھانا چاہا تھا اور وہ بیشک سچے ہیں
بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا کہ بھلا اس وقت کیا ہوا تھا جب تم نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ سب بول اٹھیں کہ حاش َللهِ ہم نے اس میں کوئی برائی معلوم نہیں کی۔ عزیز کی عورت نے کہا اب سچی بات تو ظاہر ہو ہی گئی ہے۔ (اصل یہ ہے کہ) میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور بےشک وہ سچا ہے
بادشاہ نے (زلیخا سمیت عورتوں کو بلا کر) پوچھا: تم پر کیا بیتا تھا جب تم (سب) نے یوسف (علیہ السلام) کو ان کی راست روی سے بہکانا چاہا تھا (بتاؤ وہ معاملہ کیا تھا)؟ وہ سب (بہ یک زبان) بولیں: اﷲ کی پناہ! ہم نے (تو) یوسف (علیہ السلام) میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیزِ مصر کی بیوی (زلیخا بھی) بول اٹھی: اب تو حق آشکار ہو چکا ہے (حقیقت یہ ہے کہ) میں نے ہی انہیں اپنی مطلب براری کے لئے پھسلانا چاہا تھا اور بیشک وہی سچے ہیں،
بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت کیا کہ آخر تمہارا کیا معاملہ تھا جب تم نے یوسف سے اظہار تعلق کیا تھا ان لوگوں نے کہا کہ ماشائ اللہ ہم نے ہرگز ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی -تو عزیز مصر کی بیوی نے کہا کہ اب حق بالکل واضح ہوگیا ہے کہ میں نے خود انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ صادقین میں سے ہیں
بادشاه نے پوچھا اے عورتو! اس وقت کا صحیح واقعہ کیا ہے جب تم داؤ فریب کر کے یوسف کو اس کی دلی منشا سے بہکانا چاہتی تھیں، انہوں نے صاف جواب دیا کہ معاذ اللہ ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی، پھر تو عزیز کی بیوی بھی بول اٹھی کہ اب تو سچی بات نتھر آئی۔ میں نے ہی اسے ورغلایا تھا، اس کے جی سے، اور یقیناً وه سچوں میں سے ہے
(چنانچہ بادشاہ نے ان سب عورتوں کو بلایا اور) پوچھا۔ تمہارا کیا معاملہ تھا جب تم نے اپنی مطلب براری کے لئے یوسف پر ڈورے ڈالے تھے اور اسے پھسلانا چاہا تھا؟ سب نے (بیک زبان) کہا حاشا ﷲ! ہمیں تو اس کی ذرا بھر کوئی برائی معلوم نہیں ہوئی (اس وقت) عزیزِ مصر کی بیوی نے کہا اب جبکہ حق ظاہر ہوگیا (اور حقیقتِ حال بالکل آشکارا ہوگئی) تو وہ میں تھی جس نے اس (یوسف) پر ڈورے ڈالے تھے بے شک وہ سچے لوگوں میں سے ہے۔
ذَٰلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّى لَمْ أَخُنْهُ بِٱلْغَيْبِ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى كَيْدَ ٱلْخَآئِنِينَ ﴿٥٢﴾
یہ اس لیے کیا تاکہ عزیز معلوم کر لے کہ میں نے اس کی غائبانہ خیانت نہیں کی تھی اوربے شک الله خیانت کرنے والوں کے فریب کو چلنے نہیں دیتا
(یوسفؑ نے کہا) \"اِس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیز) یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی، اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا
یوسف نے کہا یہ میں نے اس لیے کیا کہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہ کی اور اللہ دغا بازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا،
(یوسف نے کہا کہ میں نے) یہ بات اس لیے (پوچھی ہے) کہ عزیز کو یقین ہوجائے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی (امانت میں خیانت نہیں کی) اور خدا خیانت کرنے والوں کے مکروں کو روبراہ نہیں کرتا
(یوسف علیہ السلام نے کہا: میں نے) یہ اس لئے (کیا ہے) کہ وہ (عزیزِ مصر جو میرا محسن و مربّی تھا) جان لے کہ میں نے اس کی غیابت میں (پشت پیچھے) اس کی کوئی خیانت نہیں کی اور بیشک اﷲ خیانت کرنے والوں کے مکر و فریب کو کامیاب نہیں ہونے دیتا،
یوسف نے کہا کہ یہ ساری بات اس لئے ہے کہ بادشاہ کو یہ معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں کوئی خیانت نہیں کی ہے اور خدا خیانت کاروں کے مکر کو کامیاب نہیں ہونے دیتا
(یوسف علیہ السلام نے کہا) یہ اس واسطے کہ (عزیز) جان لے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی اور یہ بھی کہ اللہ دغابازوں کے ہتھکنڈے چلنے نہیں دیتا
(یوسف نے کہا) یہ سب کچھ اس لئے کیا تاکہ وہ عزیز مصر کو (مزید) علم ہو جائے کہ میں نے اس کی پس پشت (اس کی امانت میں) خیانت نہیں کی اور یقینا اللہ خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔
۞ وَمَآ أُبَرِّئُ نَفْسِىٓ ۚ إِنَّ ٱلنَّفْسَ لَأَمَّارَةٌۢ بِٱلسُّوٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىٓ ۚ إِنَّ رَبِّى غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿٥٣﴾
اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا بے شک نفس تو برائی سکھاتاہے مگر جس پرمیرا رب مہربانی کرے بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے
میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے\"
اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے
اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ (انسان کو) برائی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے گا۔ بےشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے
اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
اور میں اپنے نفس کو بھی بری نہیں قرار دیتا کہ نفس بہرحال برائیوں کا حکم دینے والا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے کہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے
میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا۔ بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے واﻻ ہی ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے، یقیناً میرا پالنے واﻻ بڑی بخشش کرنے واﻻ اور بہت مہربانی فرمانے واﻻ ہے
میں اپنے نفس کو (بھی) بری قرار نہیں دیتا بے شک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا (اور اس پر اکسانے والا) ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار (کسی کے حال پر) رحم کرے یقینا میرا پروردگار بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا۔
وَقَالَ ٱلْمَلِكُ ٱئْتُونِى بِهِۦٓ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِى ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُۥ قَالَ إِنَّكَ ٱلْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌۭ ﴿٥٤﴾
اور بادشاہ نے کہا کہ اسے میرے پاس لے آؤ تاکہ اسے خاص اپنے پاس رکھوں پھر جب اس سے بات چیت کی کہا بے شک تو آج سے ہمارے ہاں تو بڑا معزز اور معتبر ہے
بادشاہ نے کہا \"اُنہیں میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کر لوں\" جب یوسفؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا \"اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے\"
اور بادشاہ بولا انہيں میرے پاس لے آؤ کہ میں انہیں اپنے لیے چن لوں پھر جب اس سے بات کی کہا بیشک آج آپ ہمارے یہاں معزز معتمد ہیں
بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لاؤ میں اسے اپنا مصاحب خاص بناؤں گا۔ پھر جب ان سے گفتگو کی تو کہا کہ آج سے تم ہمارے ہاں صاحب منزلت اور صاحبِ اعتبار ہو
اور بادشاہ نے کہا: انہیں میرے پاس لے آؤ کہ میں انہیں اپنے لئے (مشیرِ) خاص کر لوں، سو جب بادشاہ نے آپ سے (بالمشافہ) گفتگو کی (تو نہایت متاثر ہوا اور) کہنے لگا: (اے یوسف!) بیشک آپ آج سے ہمارے ہاں مقتدر (اور) معتمد ہیں (یعنی آپ کو اقتدار میں شریک کر لیا گیا ہے)،
اور بادشاہ نے کہا کہ ذرا انہیں لے آؤ میں اپنے ذاتی امور میں ساتھ رکھوں گا اس کے بعد جب ان سے بات کی تو کہا کہ تم آج سے ہمارے دربار میں باوقار امین کی حیثیت سے رہو گے
بادشاه نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کر لوں، پھر جب اس سے بات چیت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں آج سے ذی عزت اور امانت دار ہیں
اور بادشاہ نے کہا کہ اسے میرے پاس بلاؤ تاکہ میں اسے اپنے (ذاتی کاموں کی انجام دہی) کے لیے مخصوص کر لوں۔ پس جب (یوسف آئے اور) بادشاہ نے اس سے گفتگو کی تو (متاثر ہوکر) کہا آج سے تم ہمارے ہاں صاحب مرتبہ اور امانت دار ہو۔
قَالَ ٱجْعَلْنِى عَلَىٰ خَزَآئِنِ ٱلْأَرْضِ ۖ إِنِّى حَفِيظٌ عَلِيمٌۭ ﴿٥٥﴾
کہا مجھے ملکی خزانوں پر مامور کر دو بے شک میں خوب حفاظت کرنے والا جاننے والا ہوں
یوسفؑ نے کہا، \"ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں\"
یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں
(یوسف نے) کہا مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیئے کیونکہ میں حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں
یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بیشک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوں،
یوسف نے کہا کہ مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو کہ میں محافظ بھی ہوں اور صاحب هعلم بھی
(یوسف نے) کہا آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے، میں حفاﻇت کرنے واﻻ اور باخبر ہوں
آپ (ع) نے کہا مجھے (اس) زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے میں یقیناً (مال کی) حفاظت کرنے والا اور اس کام کا جاننے والا بھی ہوں۔
وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِى ٱلْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَآءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَآءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿٥٦﴾
اور ہم نے اس طور پر یوسف کو اس ملک میں بااختیار بنا دیا کہ اس میں جہاں چاہے رہےہم جس پر چاہیں اپنی رحمت متوجہ کر دیں اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے
اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسفؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا
اور یوں ہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ (اَجر) ضائع نہیں کرتے،
اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے۔ ہم اپنی رحمت جس پر چاہتے ہیں کرتے ہیں اور نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے
اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا (تاکہ) اس میں جہاں چاہیں رہیں۔ ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرماتے ہیں اور نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے،
اور اس طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ وہ جہاں چاہیں رہیں -ہم اپنی رحمت سے جس کو بھی چاہتے ہیں مرتبہ دے دیتے ہیں اور کسی نیک کردار کے اجر کو ضائع نہیں کرتے
اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا۔ کہ وه جہاں کہیں چاہے رہے سہے، ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں۔ ہم نیکو کاروں کا ﺛواب ضائع نہیں کرتے
اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں اختیار و اقتدار دیا کہ وہ اس میں جہاں چاہے رہے ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے نوازتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔
وَلَأَجْرُ ٱلْءَاخِرَةِ خَيْرٌۭ لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَكَانُوا۟ يَتَّقُونَ ﴿٥٧﴾
اور آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور پرہیزگاری میں رہے
اور آخرت کا اجر اُن لوگو ں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے
اور بیشک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے
اور جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے رہے ان کے لیے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے
اور یقیناً آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو ایمان لائے اور روشِ تقوٰی پر گامزن رہے،
اور آخرت کا اجر تو ان لوگوں کے لئے بہترین ہے جو صاحبانِ ایمان ہیں اور خدا سے ڈرنے والے ہیں
یقیناً ایمان داروں اور پرہیز گاروں کا اخروی اجر بہت ہی بہتر ہے
اور البتہ جو لوگ ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا ان کے لئے آخرت کا اجر و ثواب یقیناً (اس سے) بہتر ہے۔
وَجَآءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا۟ عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُۥ مُنكِرُونَ ﴿٥٨﴾
اور یوسف کے بھائی آئے پھر اس کے ہاں داخل ہوئے تواس نے انہیں پہچان لیا اور وہ پہچان نہیں سکے
یوسفؑ کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے نا آشنا تھے
اور یوسف کے بھائی آئے تو اس کے پاس حاضر ہوئے تو یوسف نے انہیں پہچان لیا اور وہ اس سے انجان رہے
اور یوسف کے بھائی (کنعان سے مصر میں غلّہ خریدنے کے لیے) آئے تو یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے
اور (قحط کے زمانہ میں) یوسف (علیہ السلام) کے بھائی (غلہ لینے کے لئے مصر) آئے تو ان کے پاس حاضر ہوئے پس یوسف (علیہ السلام) نے انہیں پہچان لیا اور وہ انہیں نہ پہچان سکے،
اور جب یوسف کے بھائی مصر آئے اور یوسف کے پاس پہنچے تو انہوں نے سب کو پہچان لیا اور وہ لوگ نہیں پہچان سکے
یوسف کے بھائی آئے اور یوسف کے پاس گئے تو اس نے انہیں پہچان لیا اور انہوں نے اسے نہ پہچانا
اور (قحط سالی کے دنوں میں غلہ خریدنے) یوسف کے بھائی (مصر) آئے اور (یوسف) کے پاس گئے تو اس نے انہیں پہچان لیا جبکہ وہ اسے نہ پہچان سکے۔
وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ٱئْتُونِى بِأَخٍۢ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ ۚ أَلَا تَرَوْنَ أَنِّىٓ أُوفِى ٱلْكَيْلَ وَأَنَا۠ خَيْرُ ٱلْمُنزِلِينَ ﴿٥٩﴾
اور جب انہیں ان کا سامان تیار کر دیا کہا میرے پاس وہ بھائی بھی لے آنا جو تمہارے باپ کی طرف سے ہے تم نہیں دیکھتے میں ناپ پورا دیتا ہوں اوربڑا مہمان نواز ہوں
پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروا دیا تو چلتے وقت ان سے کہا، \"اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں
اور جب ان کا سامان مہیا کردیا کہ اپنا سوتیلا بھائی میرے پاس لے آؤ کیا نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور میں سب سے بہتر مہمان نواز ہوں،
جب یوسف نے ان کے لیے ان کا سامان تیار کر دیا تو کہا کہ (پھر آنا تو) جو باپ کی طرف سے تمہارا ایک اور بھائی ہے اسے بھی میرے پاس لیتے آنا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں ناپ بھی پوری پوری دیتا ہوں اور مہمانداری بھی خوب کرتا ہوں
اور جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (زاد و متاع) انہیں مہیا کر دیا (تو) فرمایا: اپنے پدری بھائی (بنیامین) کو میرے پاس لے آؤ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں (کس قدر) پورا ناپتا ہوں اور میں بہترین مہمان نواز (بھی) ہوں،
پھر جب ان کا سامان تیار کردیا تو ان سے کہا کہ تمہارا ایک بھائی اور بھی ہے اسے بھی لے آؤ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ میں سامان کی ناپ تول بھی برابر رکھتا ہوں اور مہمان نوازی بھی کرنے والا ہوں
جب انہیں ان کا اسباب مہیا کر دیا تو کہا کہ تم میرے پاس اپنے اس بھائی کو بھی ﻻنا جو تمہارے باپ سے ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں پورا ناپ کر دیتا ہوں اور میں ہوں بھی بہترین میزبانی کرنے والوں میں
اور جب یوسف نے ان کی (خوراک) کا سامان تیار کروا دیا تو (جاتے وقت) کہا (اب کی بار) اپنے (سوتیلے) پدری بھائی کو بھی میرے پاس لیتے آنا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا پورا ناپ (تول) کر (غلہ) دیتا ہوں اور میں کتنا اچھا مہمان نواز ہوں۔
فَإِن لَّمْ تَأْتُونِى بِهِۦ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِندِى وَلَا تَقْرَبُونِ ﴿٦٠﴾
پھر اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو نہ تمہیں میرے ہاں سے پیمانہ ملے گا اور نہ تم میرے پاس آنا
اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا\"
پھر اگر اسے لیکر میرے پاس نہ آؤ تو تمہارے لیے میرے یہاں ماپ نہیں اور میرے پاس نہ پھٹکنا،
اور اگر تم اسے میرے پاس نہ لاؤ گے تو نہ تمہیں میرے ہاں سے غلّہ ملے گا اور نہ تم میرے پاس ہی آسکو گے
پس اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو (آئندہ) تمہارے لئے میرے پاس (غلہ کا) کوئی پیمانہ نہ ہوگا اور نہ (ہی) تم میرے قریب آسکو گے،
اب اگر اسے نہ لے آئے تو آئندہ تمہیں بھی غلہ نہ دوں گا اور نہ میرے پاس آنے پاؤ گے
پس اگر تم اسے لے کر پاس نہ آئے تو میری طرف سے تمہیں کوئی ناپ بھی نہ ملے گا بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا
اور اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو پھر تمہارے لئے نہ میرے پاس تولنے کے لئے (غلہ) ہوگا اور نہ ہی میرے قریب آنا۔
قَالُوا۟ سَنُرَٰوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَٰعِلُونَ ﴿٦١﴾
انہوں نے کہا اس کے باپ سے خواہش کریں گے اور ہم یہ کر کے ہی رہیں گے
انہوں نے کہا، \"ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر ر اضی ہو جائیں، اور ہم ایسا ضرور کریں گے\"
بولے ہم اس کی خواہش کریں گے اس کے باپ سے اور ہمیں یہ ضرور کرنا،
انہوں نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں اس کے والد سے تذکرہ کریں گے اور ہم (یہ کام) کرکے رہیں گے
وہ بولے: ہم اس کے بھیجنے سے متعلق اس کے باپ سے ضرور تقاضا کریں گے اور ہم یقیناً (ایسا) کریں گے،
ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے باپ سے بات چیت کریں گے اور ضرور کریں گے
انہوں نے کہا اچھا ہم اس کے باپ کو اس کی بابت پھسلائیں گے اور پوری کوشش کریں گے
ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے باپ پر ڈورے ڈالیں گے کہ وہ (آمادہ ہو جائیں) اور ہم ضرور ایسا کریں گے۔
وَقَالَ لِفِتْيَٰنِهِ ٱجْعَلُوا۟ بِضَٰعَتَهُمْ فِى رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَآ إِذَا ٱنقَلَبُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿٦٢﴾
اور اپنے خدمتگاروں سے کہہ دیا کہ ان کی پونجی ان کے اسباب میں رکھ دو تاکہ وہ اسے پہچانیں جب وہ لوٹ کر اپنےگھر جائیں شاید وہ پھر آجائیں
یوسفؑ نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ \"اِن لوگوں نے غلے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو\" یہ یوسفؑ نے اِس امید پر کیا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہوا مال پہچان جائیں گے (یا اِس فیاضی پر احسان مند ہوں گے) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں
اور یوسف نے اپنے غلاموں سے کہا ان کی پونجی ان کی خورجیوں میں رکھ دو شاید وہ اسے پہچانیں جب اپنے گھر کی طرف لوٹ کر جائیں شاید وہ واپس آئیں،
(اور یوسف نے) اپنے خدام سے کہا کہ ان کا سرمایہ (یعنی غلّے کی قیمت) ان کے شلیتوں میں رکھ دو عجب نہیں کہ جب یہ اپنے اہل وعیال میں جائیں تو اسے پہچان لیں (اور) عجب نہیں کہ پھر یہاں آئیں
اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے غلاموں سے فرمایا: ان کی رقم (جو انہوں نے غلہ کے عوض اد اکی تھی واپس) ان کی بوریوں میں رکھ دو تاکہ جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹیں تو اسے پہچان لیں (کہ یہ رقم تو واپس آگئی ہے) شاید وہ (اسی سبب سے) لوٹ کر آجائیں،
اور یوسف نے اپنے جوانوں سے کہا کہ ان کی پونجی بھی ان کے سامان میں رکھ دو شاید جب گھر پلٹ کر جائیں تو اسے پہچان لیں اور اس طرح شاید دوبارہ پلٹ کر ضرور آئیں
اپنے خدمت گاروں سے کہا کہ ان کی پونجی انہی کی بوریوں میں رکھ دو کہ جب لوٹ کر اپنے اہل وعیال میں جائیں اور پونجیوں کو پہچان لیں تو بہت ممکن ہے کہ یہ پھر لوٹ کر آئیں
اور یوسف نے اپنے جوانوں (غلاموں) سے کہا کہ ان کی پونجی (جس کے عوض غلہ خریدا ہے) ان کے سامان میں رکھ دو۔ تاکہ جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جائیں تو اسے پہچانیں (اور) شاید دوبارہ آئیں۔
فَلَمَّا رَجَعُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَبِيهِمْ قَالُوا۟ يَٰٓأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا ٱلْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَآ أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَٰفِظُونَ ﴿٦٣﴾
پھر جب اپنے باپ کے ہاں پہنچے کہا اے باپ! ہمارا پیمانہ روک لیا گیا پس آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیج دیجیئے کہ ہم پیمانہ لائیں اور بے شک ہم اس کا نگہبان ہیں
جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا \"ابا جان، آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تاکہ ہم غلہ لے کر آئیں اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں\"
پھر جب وہ اپنے باپ کی طرف لوٹ کر گئے بولے اے ہمارے باپ ہم سے غلہ روک دیا گیا ہے تو ہمارے بھائی کو ہمارے پاس بھیج دیجئے کہ غلہ لائیں اور ہم ضرور اس کی حفاظت کریں گے،
جب وہ اپنے باپ کے پاس واپس گئے تو کہنے لگے کہ ابّا (جب تک ہم بنیامین کو ساتھ نہ لے جائیں) ہمارے لیے غلّے کی بندش کر دی گئی ہے تو ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیج دے تاکہ ہم پھر غلّہ لائیں اور ہم اس کے نگہبان ہیں
سو جب وہ اپنے والد کی طرف لوٹے (تو) کہنے لگے: اے ہمارے باپ! (آئندہ کے لئے) ہم پر غلہ بند کر دیا گیا ہے (سوائے اس کے کہ بنیامین ہمارے ساتھ جائے) پس ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیج دیں (تاکہ) ہم (مزید) غلہ لے آئیں اور ہم یقیناً اس کے محافظ ہوں گے،
اب جو پلٹ کر باپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ بابا جان آئندہ ہمیں غلہ سے روک دیا گیا ہے لہذا ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھی بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ حاصل کرلیں اور اب ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں
جب یہ لوگ لوٹ کر اپنے والد کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ ہم سے تو غلہ کا ناپ روک لیا گیا۔ اب آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیجئے کہ ہم پیمانہ بھر کر ﻻئیں ہم اس کی نگہبانی کے ذمہ دار ہیں
اور جب وہ لوگ لوٹ کر اپنے والد کے پاس گئے تو کہا اے ہمارے باپ! ہمارے لئے (ناپ تول کر) غلہ دیا جانا بند کر دیا گیا ہے (جب تک بھائی کو ہمراہ نہ لے جائیں) اس لئے ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیجئے تاکہ ہم غلہ لا سکیں اور ہم یقیناً اس کی (پوری) حفاظت کریں گے۔
قَالَ هَلْ ءَامَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَآ أَمِنتُكُمْ عَلَىٰٓ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ۖ فَٱللَّهُ خَيْرٌ حَٰفِظًۭا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ ٱلرَّٰحِمِينَ ﴿٦٤﴾
کہا میں تمہارا اس پرکیا اعتبارکروں مگر وہی جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی پر اعتبار کیا تھا سو الله بہتر نگہبان ہے اور وہ سب مہربانوں سے مہربان ہے
باپ نے جواب دیا \"کیا میں اُس کے معاملہ میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اِس سے پہلے اُس کے بھائی کے معاملہ میں کر چکا ہوں؟ اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے\"
کہا کیا اس کے بارے میں تم پر ویسا ہی اعتبار کرلوں جیسا پہلے اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھا تو اللہ سب سے بہتر نگہبان اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان،
(یعقوب نے) کہا کہ میں اس کے بارے میں تمہارا اعتبار نہیں کرتا مگر ویسا ہی جیسا اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھا۔ سو خدا ہی بہتر نگہبان ہے۔ اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں اس کے بارے میں (بھی) تم پر اسی طرح اعتماد کر لوں جیسے اس سے قبل میں نے اس کے بھائی (یوسف علیہ السلام) کے بارے میں تم پر اعتماد کر لیا تھا؟ تو اﷲ ہی بہتر حفاظت فرمانے والا ہے اور وہی سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے،
یعقوب نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں تمہارے اوپر اسی طرح بھروسہ کریں جس طرح پہلے اس کے بھائی یوسف کے بارے میں کیا تھا -خیر خدا بہترین حفاظت کرنے والا ہے اور وہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
(یعقوب علیہ السلام نے) کہا کہ مجھے تو اس کی بابت تمہارا بس ویسا ہی اعتبار ہے جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں تھا، بس اللہ ہی بہترین حافﻆ ہے اور وه سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے
آپ (ع) نے کہا کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھا؟ بہرحال اللہ سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور وہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
وَلَمَّا فَتَحُوا۟ مَتَٰعَهُمْ وَجَدُوا۟ بِضَٰعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا۟ يَٰٓأَبَانَا مَا نَبْغِى ۖ هَٰذِهِۦ بِضَٰعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍۢ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌۭ يَسِيرٌۭ ﴿٦٥﴾
اورجب انہوں نے اپنا اسباب کھولا انہوں نے اپنی پونجی پائی جو انہیں واپس کر دی گئی تھی کہا اے ہمارے باپ! ہمیں اور کیا چاہیئے یہ ہماری پونجی ہمیں واپس کر دی گئی ہے اور اپنے گھر والوں کے لیے غلہ لائیں گے او راپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے اور یہ بوجھ ملنا آسان ہے
پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کا مال بھی انہیں واپس کر دیا گیا ہے یہ دیکھ کر وہ پکار اٹھے \"ابا جان، اور ہمیں کیا چاہیے، دیکھیے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیا گیا ہے بس اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رسد لے آئیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بارشتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے، اتنے غلہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا\"
اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا اپنی پونجی پائی کہ ان کو پھیر دی گئی ہے، بولے اے ہمارے باپ اب اور کیا چاہیں، یہ ہے ہماری پونجی ہمیں واپس کردی گئی اور ہم اپنے گھر کے لیے غلہ لائیں اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ پائیں، یہ دنیا بادشاہ کے سامنے کچھ نہیں
اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو دیکھا کہ ان کا سرمایہ واپس کر دیا گیا ہے۔ کہنے لگے ابّا ہمیں (اور) کیا چاہیئے (دیکھیے) یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کر دی گئی ہے۔ اب ہم اپنے اہل وعیال کے لیے پھر غلّہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی نگہبانی کریں گے اور ایک بار شتر زیادہ لائیں گے (کہ) یہ غلّہ جو ہم لائے ہیں تھوڑا ہے
جب انہوں نے اپنا سامان کھولا (تو اس میں) اپنی رقم پائی (جو) انہیں لوٹا دی گئی تھی، وہ کہنے لگے: اے ہمارے والد گرامی! ہمیں اور کیا چاہئے؟ یہ ہماری رقم (بھی) ہماری طرف لوٹا دی گئی ہے اور (اب تو) ہم اپنے گھر والوں کے لئے (ضرور ہی) غلہ لائیں گے اور ہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے، اور یہ (غلہ جو ہم پہلے لائے ہیں) تھوڑی مقدار (میں) ہے،
پھر جب ان لوگوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کی بضاعت (قیمت)واپس کردی گئی ہے تو کہنے لگا بابا جان اب ہم کیا چاہتے ہیں یہ ہماری پونجی بھی واپس کردی گئی ہے اب ہم اپنے گھر والوں کے لئے غلّہ ضرور لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک اونٹ کا بار اور بڑھوالیں گے کہ یہ بات اس کی موجودگی میں آسان ہے
جب انہوں نے اپنا اسباب کھوﻻ تو اپنا سرمایہ موجود پایا جو ان کی جانب لوٹا دیا گیا تھا۔ کہنے لگے اے ہمارے باپ ہمیں اور کیا چاہیئے۔ دیکھئے تو یہ ہمارا سرمایہ بھی ہمیں واپس لوٹا دیا گیا ہے۔ ہم اپنے خاندان کو رسد ﻻدیں گے اور اپنے بھائی کی نگرانی رکھیں گے اور ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ زیاده ﻻئیں گے۔ یہ ناپ تو بہت آسان ہے
اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کی پونجی انہیں واپس کر دی گئی ہے تو کہنے لگے ابا جان! ہمیں اور کیا چاہیئے؟ (دیکھے) یہ ہماری پونجی ہے جو ہمیں واپس کر دی گئی ہے (اب کی بار جو بھائی کو اپنے ساتھ لے جائیں گے) تو جہاں اپنے گھر والوں کے لیے رسد لائیں گے اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے (وہاں) ایک اونٹ کا بار اور زیادہ بھی لائیں گے اور یہ غلہ (جو اب کی بار ہم لائے ہیں) بہت تھوڑا ہے۔
قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُۥ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًۭا مِّنَ ٱللَّهِ لَتَأْتُنَّنِى بِهِۦٓ إِلَّآ أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّآ ءَاتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ ٱللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌۭ ﴿٦٦﴾
کہا اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا یہاں تک کہ مجھے الله کا عہد دو کہ البتہ اسے میرے ہاں ضرور پہنچا دویں گے مگر یہ کہ تم سب گھر جاؤ پھر جب سب نے اسے عہد دیا کہا ہماری باتوں کا الله شاہد ہے
ان کے باپ نے کہا \"میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو کہ اِسے میرے پا س ضرور واپس لے کر آؤ گے الا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ\" جب انہوں نے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دیے تو اس نے کہا \"دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے\"
کہا میں ہرگز اسے تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک تم مجھے کا اللہ کا یہ عہد نہ دے دو کہ ضرور اسے لے کر آ ؤ گے مگر یہ کہ تم گھِر جاؤ پھر انہوں نے یعقوب کو عہد دے دیا کہا اللہ کا ذمہ ہے ان باتوں پر جو کہہ رہے ہیں،
(یعقوب نے) کہا جب تک تم خدا کا عہد نہ دو کہ اس کو میرے پاس (صحیح سالم) لے آؤ گے میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجنے کا۔ مگر یہ کہ تم گھیر لیے جاؤ (یعنی بےبس ہوجاؤ تو مجبوری ہے) جب انہوں نے ان سے عہد کرلیا تو (یعقوب نے) کہا کہ جو قول وقرار ہم کر رہے ہیں اس کا خدا ضامن ہے
یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا یہاں تک کہ تم اﷲ کی قسم کھا کر مجھے پختہ وعدہ دو کہ تم اسے ضرور میرے پاس (واپس) لے آؤ گے سوائے اس کے کہ تم (سب) کو (کہیں) گھیر لیا جائے (یا ہلاک کر دیا جائے)، پھر جب انہوں نے یعقوب (علیہ السلام) کو اپنا پختہ عہد دے دیا تو یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس پر اﷲ نگہبان ہے،
یعقوب نے کہا کہ میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ خدا کی طرف سے عہد نہ کرو گے کہ اسے واپس ضرور لاؤ گے مگر یہ کہ تم ہی کو گھیر لیا جائے -اس کے بعد جب ان لوگوں نے عہد کرلیا تو یعقوب نے کہا کہ اللہ ہم لوگوں کے قول و قرار کا نگراں اور ضامن ہے
یعقوب (علیہ السلام) نے کہا! میں تو اسے ہرگز ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کو بیچ میں رکھ کر مجھے قول وقرار نہ دو کہ تم اسے میرے پاس پہنچا دو گے، سوائے اس ایک صورت کے کہ تم سب گرفتار کر لئے جاؤ۔ جب انہوں نے پکا قول قرار دے دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے
آپ (ع) نے کہا میں اسے کبھی تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک اللہ کی قسم کھا کر مجھ سے عہد و پیمان نہ کرو کہ تم اسے ضرور اپنے ساتھ لاؤگے سوا اس کے کہ تم سب ہی گھیر لئے جاؤ (اور بے بس ہو جاؤ) پھر جب انہوں نے قسم کھا کر اپنا قول و قرار دے دیا تو آپ نے کہا اللہ ہمارے قول قرار پر نگہبان ہے۔
وَقَالَ يَٰبَنِىَّ لَا تَدْخُلُوا۟ مِنۢ بَابٍۢ وَٰحِدٍۢ وَٱدْخُلُوا۟ مِنْ أَبْوَٰبٍۢ مُّتَفَرِّقَةٍۢ ۖ وَمَآ أُغْنِى عَنكُم مِّنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍ ۖ إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُتَوَكِّلُونَ ﴿٦٧﴾
اور کہا اے میرے بیٹو! ایک دروازے سے داخل نہ ہونا اور مختلف دروازوں سے داخل ہونا اور میں تمہیں الله کی کیسی بات سے بچا نہیں سکتا الله کے سوا کسی کا حکم نہیں ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اوربھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے
پھر اس نے کہا \"میرے بچو، مصر کے دارالسطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے\"
اور کہا اے میرے بیٹوں! ایک دروازے سے نہ داخل ہونا اور جدا جدا دروا زوں سے جانا میں تمہیں اللہ سے بچا نہیں سکتا حکم تو سب اللہ ہی کا ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ چاہیے،
اور ہدایت کی کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا۔ اور میں خدا کی تقدیر کو تم سے نہیں روک سکتا۔ بےشک حکم اسی کا ہے میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں۔ اور اہلِ توکل کو اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے
اور فرمایا: اے میرے بیٹو! (شہر میں) ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے (تقسیم ہو کر) داخل ہونا، اور میں تمہیں اﷲ (کے اَمر) سے کچھ نہیں بچا سکتا کہ حکم (تقدیر) صرف اﷲ ہی کے لئے ہے۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے،
اور پھر کہا کہ میرے فرزندو د یکھو سب ایک دروازے سے داخل نہ ہونا اور متفرق دروازوں سے داخل ہونا کہ میں خدا کی طرف سے آنے والی بلاؤں میں تمہارے کام نہیں آسکتا حکم صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسی پر سارے توکل کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہئے
اور (یعقوب علیہ السلام) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا۔ میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا۔ حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے۔ میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے
اور آپ (ع) نے کہا اے میرے بیٹو (جب مصر پہنچو) تو ایک دروازے سے (شہر میں) داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا اور میں تمہیں اللہ (کی مشیت اور اس کی قضا و قدر) سے بچا تو نہیں سکتا (ہر قسم کا) حکم (اور فیصلہ) اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی پر سب بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیئے (میں نے تو صرف احتیاط کے طور پر یہ تدبیر بنائی ہے)۔
وَلَمَّا دَخَلُوا۟ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِى عَنْهُم مِّنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍ إِلَّا حَاجَةًۭ فِى نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَىٰهَا ۚ وَإِنَّهُۥ لَذُو عِلْمٍۢ لِّمَا عَلَّمْنَٰهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٦٨﴾
اور جب کہ اسی طرح داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے حکم دیا تھا انہیں الله کی کسی بات سے کچھ نہ بچا سکتا تھا مگر یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا اور وہ تو ہمارے سکھلانے سے علم والا تھا لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے
اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی ہاں بس یعقوبؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کر لی بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں
اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے حکم دیا تھا وہ کچھ انہیں کچھ انہیں اللہ سے بچا نہ سکتا ہاں یعقوب کے جی کی ایک خواہش تھی جو اس نے پوری کرلی، اور بیشک وہ صاحب علم ہے ہمارے سکھائے سے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے
اور جب وہ ان ان مقامات سے داخل ہوئے جہاں جہاں سے (داخل ہونے کے لیے) باپ نے ان سے کہا تھا تو وہ تدبیر خدا کے حکم کو ذرا بھی نہیں ٹال سکتی تھی ہاں وہ یعقوب کے دل کی خواہش تھی جو انہوں نے پوری کی تھی۔ اور بےشک وہ صاحبِ علم تھے کیونکہ ہم نے ان کو علم سکھایا تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
اور جب وہ (مصر میں) داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، وہ (حکم) انہیں اﷲ (کی تقدیر) سے کچھ نہیں بچا سکتا تھا مگر یہ یعقوب (علیہ السلام) کے دل کی ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا، اور (اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا، تمہیں کیا خبر!) بیشک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے،
اور جب وہ لوگ اسی طرح داخل ہوئے جس طرح ان کے والد نے کہا تھا اگرچہ وہ خدائی بلا کو ٹال نہیں سکتے تھے لیکن یہ ایک خواہش تھی جو یعقوب کے دل میں پیدا ہوئی جسے انہوں نے پورا کرلیا اور وہ ہمارے دئیے ہوئے علم کی بنا پر صاحبِ علم بھی تھے اگرچہ اکثر لوگ اس حقیقت سے بھی ناواقف ہیں
جب وه انہی راستوں سے جن کا حکم ان کے والد نے انہیں دیا تھا، گئے۔ کچھ نہ تھا کہ اللہ نے جو بات مقرر کر دی ہے وه اس سے انہیں ذرا بھی بچا لے۔ مگر یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں ایک خیال (پیدا ہوا) جسے اس نے پورا کر لیا، بلاشبہ وه ہمارے سکھلائے ہوئے علم کا عالم تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
اور جب وہ لوگ (مصر میں) اسی طرح داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا ان کا اس طرح داخل ہونا انہیں خدا (کی مشیت اور اس کی تقدیر) سے بچا تو نہیں سکتا تھا مگر یہ (احتیاطی تدبیر) یعقوب کے دل میں ایک تمنا تھی جسے انہوں نے پورا کر لیا بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحبِ علم تھا لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے۔
وَلَمَّا دَخَلُوا۟ عَلَىٰ يُوسُفَ ءَاوَىٰٓ إِلَيْهِ أَخَاهُ ۖ قَالَ إِنِّىٓ أَنَا۠ أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿٦٩﴾
اور جب وہ یوسف کے پاس گئے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی کہا کہ بے شک میں تیرا بھائی ہوں پس جو کچھ یہ کرتے رہے ہیں اس پر غم نہ کر
یہ لوگ یوسفؑ کے حضور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ \"میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھویا گیا تھا) اب تو اُن باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں\"
اور جب وہ یوسف کے پاس گئے اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی کہا یقین جان میں ہی تیرا بھائی ہوں تو یہ جو کچھ کرتے ہیں اس کا غم نہ کھا
اور جب وہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو جو سلوک یہ (ہمارے ساتھ) کرتے رہے ہیں اس پر افسوس نہ کرنا
اور جب وہ یوسف (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے تو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی (بنیامین) کو اپنے پاس جگہ دی (اسے آہستہ سے) کہا: بیشک میں ہی تیرا بھائی (یوسف) ہوں پس تو غمزدہ نہ ہو ان کاموں پر جو یہ کرتے رہے ہیں،
اور جب وہ لوگ یوسف کے سامنے حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس پناہ دی اور کہا کہ میں تمہارا بھائی «یوسف,, ہوں لہذا جو برتاؤ یہ لوگ کرتے رہے ہیں اب اس کی طرف سے رنج نہ کرنا
یہ سب جب یوسف کے پاس پہنچ گئے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں، پس یہ جو کچھ کرتے رہے اس کا کچھ رنج نہ کر
اور جب یہ لوگ یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے (حقیقی) بھائی (بنیامین) کو اپنے پاس جگہ دی (اور آہستگی سے) کہا میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں بس تو اس پر غمگین نہ ہو جو کچھ یہ لوگ سلوک کرتے رہے ہیں۔
فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ ٱلسِّقَايَةَ فِى رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا ٱلْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَٰرِقُونَ ﴿٧٠﴾
پھر جب یوسف نے اس کا سامان تیار کر دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں کٹورا رکھ دیا پھر پکارے نے والے نے پکارا اے قافلہ والو! بے شک تم البتہ چور ہو
جب یوسفؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا پھر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا \"اے قافلے والو، تم لو گ چور ہو\"
پھر جب ان کا سامان مہیا کردیا پیالہ اپنے بھائی کے کجاوے میں رکھ دیا پھر ایک منادی نے ندا کی اے قافلہ والو! بیشک تم چور ہو،
جب ان کا اسباب تیار کر دیا تو اپنے بھائی کے شلیتے میں گلاس رکھ دیا اور پھر (جب وہ آبادی سے باہر نکل گئے تو) ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ قافلے والو تم تو چور ہو
پھر جب (یوسف علیہ السلام نے) ان کا سامان انہیں مہیا کر دیا تو (شاہی) پیالہ اپنے بھائی (بنیامین) کی بوری میں رکھ دیا بعد ازاں پکارنے والے نے آواز دی: اے قافلہ والو! (ٹھہرو) یقیناً تم لوگ ہی چور (معلوم ہوتے) ہو،
اس کے بعد جب یوسف نے ان کا سامان تیار کرادیا تو پیالہ کو اپنے بھائی کے سامان میں رکھوادیا اس کے بعد منادی نے آواز دی کہ قافلے والو تم سب چور ہو
پھر جب انہیں ان کا سامان اسباب ٹھیک ٹھاک کرکے دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں پانی پینے کا پیالہ رکھ دیا۔ پھر ایک آواز دینے والے نے پکار کر کہا کہ اے قافلے والو! تم لوگ تو چور ہو
پھر جب اس (یوسف) نے ان کا سامان تیار کرایا تو پانی پینے کا کٹورا اپنے (سگے) بھائی کے سامان میں رکھوا دیا پھر ایک منادی نے ندا دی کہ اے قافلہ والو! تم چور ہو۔
قَالُوا۟ وَأَقْبَلُوا۟ عَلَيْهِم مَّاذَا تَفْقِدُونَ ﴿٧١﴾
اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے
انہوں نے پلٹ کر پوچھا \"تمہاری کیا چیز کھوئی گئی؟ \"
بولے اور ان کی طرف متوجہ ہوئے تم کیا نہیں پاتے،
وہ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے تمہاری کیا چیز کھوئی گئی ہے
وہ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے،
ان لوگوں نے مڑ کر دیکھا اور کہا کہ آخر تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے
انہوں نے ان کی طرف منھ پھیر کر کہا کہ تمہاری کیا چیز کھوئی گئی ہے؟
وہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور (پریشان ہوکر) کہا تم نے کون سی چیز گم کی ہے؟
قَالُوا۟ نَفْقِدُ صُوَاعَ ٱلْمَلِكِ وَلِمَن جَآءَ بِهِۦ حِمْلُ بَعِيرٍۢ وَأَنَا۠ بِهِۦ زَعِيمٌۭ ﴿٧٢﴾
انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ کا کٹورا نہیں ملتا جو اسے لا ئےگا ایک اونٹ بھر کا غلہ پائے گا اور میں اس کا ضامن ہوں
سرکاری ملازموں نے کہا \"بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا\" (اور ان کے جمعدار نے کہا) \"جو شخص لا کر دے گا اُس کے لیے ایک بارشتر انعام ہے، اس کا میں ذمہ لیتا ہوں\"
بولے، بادشاہ کا پیمانہ نہیں ملتا اور جو اسے لائے گا اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ ہے اور میں اس کا ضامن ہوں،
وہ بولے کہ بادشاہ (کے پانی پینے) کا گلاس کھویا گیا ہے اور جو شخص اس کو لے آئے اس کے لیے ایک بار شتر (انعام) اور میں اس کا ضامن ہوں
وہ (درباری ملازم) بولے: ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں مل رہا اور جو کوئی اسے (ڈھونڈ کر) لے آئے اس کے لئے ایک اونٹ کا غلہ (انعام) ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں،
ملازمین نے کہا کہ بادشاہ کا پیالہ نہیں مل رہا ہے اور جو اسے لے کر آئے گا اسے ایک اونٹ کا بار غلہ انعام ملے گا اور میں اس کا ذمہ دار ہوں
جواب دیا کہ شاہی پیمانہ گم ہے جو اسے لے آئےاسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا۔ اس وعدے کا میں ضامن ہوں
انہوں نے کہا کہ ہم نے بادشاہ کے پینے کا (قیمتی) کٹورا گم کیا ہے اور جو اسے لائے گا اسے ایک بار شتر (غلہ) انعام دیا جائے گا اور میں (منادی) اس بات کا ضامن ہوں۔
قَالُوا۟ تَٱللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَٰرِقِينَ ﴿٧٣﴾
انہوں نے کہا الله کی قسم تمہیں معلوم ہے ہم اس ملک میں شرارت کرنے کے لیے نہیں آئے اور نہ ہم کبھی چور تھے
ان بھائیوں نے کہا \"خدا کی قسم، تو لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں\"
بولے خدا کی قسم! تمہیں خوب معلوم ہے کہ ہم زمین میں فساد کرنے نہ آئے اور نہ ہم چور ہیں،
وہ کہنے لگے کہ خدا کی قسم تم کو معلوم ہے کہ ہم (اس) ملک میں اس لیے نہیں آئے کہ خرابی کریں اور نہ ہم چوری کیا کرتے ہیں
وہ کہنے لگے: اﷲ کی قسم! بیشک تم جان گئے ہو (گے) ہم اس لئے نہیں آئے تھے کہ (جرم کا ارتکاب کر کے) زمین میں فساد بپا کریں اور نہ ہی ہم چور ہیں،
ان لوگوں نے کہا کہ خدا کی قسم تمہیں تو معلوم ہے کہ ہم زمین میں فساد کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں اور نہ ہم چور ہیں
انہوں نے کہا اللہ کی قسم! تم کو خوب علم ہے کہ ہم ملک میں فساد پھیلانے کے لئے نہیں آئے اور نہ ہم چور ہیں
انہوں نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ ہم اس لئے نہیں آئے کہ زمین میں فساد برپا کریں اور نہ ہی ہم چور ہیں۔
قَالُوا۟ فَمَا جَزَٰٓؤُهُۥٓ إِن كُنتُمْ كَٰذِبِينَ ﴿٧٤﴾
انہوں نے کہا پھر اس کی کیا سزا ہے اگر تم جھوٹے نکلو
اُنہوں نے کہا \"اچھا، اگر تمہاری بات جھوٹی نکلی تو چور کی کیا سزا ہے؟\"
بولے پھر کیا سزا ہے اس کی اگر تم جھوٹے ہو
بولے کہ اگر تم جھوٹے نکلے (یعنی چوری ثابت ہوئی) تو اس کی سزا کیا
وہ (ملازم) بولے: (تم خود ہی بتاؤ) کہ اس (چور) کی کیا سزا ہوگی اگر تم جھوٹے نکلے،
ملازموں نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو اس کی سزا کیا ہے
انہوں نے کہا اچھا چور کی کیا سزا ہے اگر تم جھوٹے ہو؟
انہوں (ملازمین) نے کہا اگر تم جھوٹے نکلے تو اس (چور) کی سزا کیا ہے؟
قَالُوا۟ جَزَٰٓؤُهُۥ مَن وُجِدَ فِى رَحْلِهِۦ فَهُوَ جَزَٰٓؤُهُۥ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿٧٥﴾
انہوں نے کہا اس کی سزا یہ ہے کہ جس کےاسباب میں سے پایا جائے پس وہی اس کے بدلہ میں جائے ہم ظالموں کو یہی سزا دیتے ہیں
اُنہوں نے کہا \"اُس کی سزا؟ جس کے سامان میں سے چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے، ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے\"
بولے اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے اسباب میں ملے وہی اس کے بدلے میں غلام بنے ہمارے یہاں ظالموں کی یہی سزا ہے
انہوں نے کہا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے شلیتے میں وہ دستیاب ہو وہی اس کا بدل قرار دیا جائے ہم ظالموں کو یہی سزا دیا کرتے ہیں
انہوں نے کہا: اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں سے وہ (پیالہ) برآمد ہو وہ خود ہی اس کا بدلہ ہے (یعنی اسی کو اس کے بدلہ میں رکھ لیا جائے)، ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں،
ان لوگوں نے کہا کہ اس کی سزا خود وہ شخص ہے جس کے سامان میں سے پیالہ برآمد ہو ہم اسی طرح ظلم کرنے والوں کو سزادیتے ہیں
جواب دیا کہ اس کی سزا یہی ہے کہ جس کے اسباب میں سے پایا جائے وہی اس کا بدلہ ہے۔ ہم تو ایسے ﻇالموں کو یہی سزا دیا کرتے ہیں
انہوں نے کہا اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان سے مل جائے وہ خود ہی اس کی سزا ہے ہم اسی طرح ظلم کرنے والوں کو سزا دیتے ہیں۔
فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَآءِ أَخِيهِ ثُمَّ ٱسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَآءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِى دِينِ ٱلْمَلِكِ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَٰتٍۢ مَّن نَّشَآءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِى عِلْمٍ عَلِيمٌۭ ﴿٧٦﴾
پھر یوسف نے اپنے بھائی کے اسباب سے پہلےان کے اسباب دیکھنے شروع کیے پھر وہ کٹورا اپنے بھائی کے اسباب سے نکالا ہم نے یوسف کو ایسی تدبیر بتائی تھی بادشاہ کے قانون سے تو وہ اپنے بھائی کو ہرگز نہ لے سکتا تھا مگر یہ کہ الله چاہے ہم جس کے چاہیں درجے بلند کرتے ہیں اور ہر ایک دانا سے بڑھ کر دوسرا دانا ہے
تب یوسفؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کر لی اِس طرح ہم نے یوسفؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا الا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب علم سے بالا تر ہے
تو اول ان کی خرُجیوں سے تلاشی شروع کی اپنے بھائی کی خرُجی سے پہلے پھر اسے اپنے بھائی کی خرُجی سے نکال لیا ہم نے یوسف کو یہی تدبیر بتائی بادشاہی قانون میں اسے نہیں پہنچتا تھا کہ اپنے بھائی کو لے لے مگر یہ کہ خدا چاہے ہم جسے چاہیں درجوں بلند کریں اور ہر علم والے اوپر ایک علم والا ہے
پھر یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شروع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی (ورنہ) بادشاہ کے قانون کے مطابق وہ مشیتِ خدا کے سوا اپنے بھائی کو لے نہیں سکتے تھے۔ ہم جس کے لیے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں۔ اور ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے
پس یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کی بوری سے پہلے ان کی بوریوں کی تلاشی شروع کی پھر (بالآخر) اس (پیالے) کو اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کی بوری سے نکال لیا۔ یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو تدبیر بتائی۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہِ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اﷲ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے،
اس کے بعد بھائی کے سامان سے پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی اور آخر میں بھائی کے سامان میں سے پیالہ نکال لیا .... اور اس طرح ہم نے یوسف کے حق میں تدبیر کی کہ وہ بادشاہ کے قانون سے اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ خدا خود چاہے ہم جس کو چاہتے ہیں اس کے درجات کو بلند کردیتے ہیں اور ہر صاحب هعلم سے برتر ایک صاحب هعلم ہوتا ہے
پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاشی شروع کی، اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان (زنبیل) سے نکالا۔ ہم نے یوسف کے لئے اسی طرح یہ تدبیر کی۔ اس بادشاه کے قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے سکتا تھا مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو۔ ہم جس کے چاہیں درجے بلند کر دیں، ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے واﻻ دوسرا ذی علم موجود ہے
تب یوسف (ع) نے اپنے (سگے) بھائی کی خرجین سے پہلے دوسروں کی خرجینوں کی تلاشی لینا شروع کی پھر اپنے بھائی کی خرجین سے وہ گم شدہ کٹورا نکال لیا ہم نے اس طرح (بنیامین کو اپنے پاس رکھنے) کیلئے یوسف کے لیے تدبیر کی کیونکہ وہ (مصر کے) بادشاہ کے قانون میں اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا ہم جس کے چاہتے ہیں مرتبے بلند کر دیتے ہیں اور ہر صاحبِ علم سے بڑھ کر ایک عالم ہوتا ہے۔
۞ قَالُوٓا۟ إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌۭ لَّهُۥ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِى نَفْسِهِۦ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّۭ مَّكَانًۭا ۖ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ ﴿٧٧﴾
انہوں نے کہا اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی تب یوسف نے اپنے دل میں آہستہ سے کہا اور انہیں نہیں جتایا کہا تم درجے میں بدتر ہو اور الله خوب جانتا ہے جو کچھ تم بیان کرتے ہو
ان بھائیوں نے کہا \"یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات بھی نہیں، اس سے پہلے اس کا بھائی (یوسفؑ) بھی چوری کر چکا ہے\" یوسفؑ ان کی یہ بات سن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی بس (زیر لب) اتنا کہہ کر رہ گیا کہ \"بڑے ہی برے ہو تم لوگ، (میرے منہ در منہ مجھ پر) جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے\"
بھائی بولے اگر یہ چوری کرے تو بیشک اس سے پہلے اس کا بھائی چوری کرچکا ہے تو یوسف نے یہ بات اپنے دل میں رکھی اور ان پر ظاہر نہ کی، جی میں کہا تم بدتر جگہ ہو اور اللہ خوب جانتا ہے جو باتیں بناتے ہو،
(برادران یوسف نے) کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہو تو (کچھ عجب نہیں کہ) اس کے ایک بھائی نے بھی پہلے چوری کی تھی یوسف نے اس بات کو اپنے دل میں مخفی رکھا اور ان پر ظاہر نہ ہونے دیا (اور) کہا کہ تم بڑے بدقماش ہو۔ اور جو تم بیان کرتے ہو خدا اسے خوب جانتا ہے
انہوں نے کہا: اگر اس نے چوری کی ہے (تو کوئی تعجب نہیں) بیشک اس کا بھائی (یوسف) بھی اس سے پہلے چوری کر چکا ہے، سو یوسف (علیہ السلام) نے یہ بات اپنے دل میں (چھپائی) رکھی اور اسے ان پر ظاہر نہ کیا، (دل میں ہی) کہا: تمہارا حال نہایت برا ہے، اور اﷲ خوب جانتا ہے جو کچھ تم بیان کر رہے ہو،
ان لوگوں نے کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو کیا تعجب ہے اس کا بھائی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے -یوسف نے اس بات کو اپنے دل میں حُھپالیا اور ان پر اظہار نہیں کیا .... کہاکہ تم بڑے برے لوگ ہو اور اللہ تمہارے بیانات کے بارے میں زیادہ بہتر جاننے والا ہے
انہوں نے کہا کہ اگر اس نے چوری کی (تو کوئی تعجب کی بات نہیں) اس کابھائی بھی پہلے چوری کر چکا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا اور ان کے سامنے بالکل ﻇاہر نہ کیا۔ کہا کہ تم بدتر جگہ میں ہو، اور جو تم بیان کرتے ہو اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے
ان لوگوں (برادرانِ یوسف(ع)) نے کہا اگر اس نے چوری کی ہے تو اس پر کیا تعجب اس سے پہلے اس کے ایک حقیقی بھائی نے بھی چوری کی تھی یوسف نے اس بات کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور ان پر ظاہر نہیں کیا (البتہ صرف اتنا) کہا تم بہت ہی برے لوگ ہو اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
قَالُوا۟ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْعَزِيزُ إِنَّ لَهُۥٓ أَبًۭا شَيْخًۭا كَبِيرًۭا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُۥٓ ۖ إِنَّا نَرَىٰكَ مِنَ ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿٧٨﴾
انہوں نے کہا اے عزیز! بے شک اس کا باپ بوڑھا بڑی عمر کا ہے سو اسکی جگہ ہم میں سے ایک کو رکھ لے ہم تم کو احسان کرنے والا دیکھتے ہیں
انہوں نے کہا \"اے سردار ذی اقتدار (عزیز)، اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں\"
بولے اے عزیز! اس کے ایک باپ ہیں بوڑھے بڑے تو ہم میں اس کی جگہ کسی کو لے لو، بیشک ہم تمہارے احسان دیکھ رہے ہیں،
وہ کہنے لگے کہ اے عزیز اس کے والد بہت بوڑھے ہیں (اور اس سے بہت محبت رکھتے ہیں) تو (اس کو چھوڑ دیجیےاور) اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ احسان کرنے والے ہیں
وہ بولے: اے عزیزِ مصر! اس کے والد بڑے معمر بزرگ ہیں، آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیں، بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والوں میں پاتے ہیں،
ان لوگوں نے کہا کہ اے عزیز مصر اس کے والد بہت ضعیف العمر ہیں لہذا ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ پر لے لیجئے اور اسے چھوڑ دیجئے کہ ہم آپ کو احسان کرنے والا سمجھتے ہیں
انہوں نے کہا کہ اے عزیز مصر! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں۔ آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں
انہوں نے کہا اے عزیز (مصر) اس کا ایک بہت بوڑھا باپ ہے (وہ اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکے گا) اس لئے اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے ہم آپ کو احسان کرنے والوں میں سے دیکھتے ہیں۔
قَالَ مَعَاذَ ٱللَّهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَٰعَنَا عِندَهُۥٓ إِنَّآ إِذًۭا لَّظَٰلِمُونَ ﴿٧٩﴾
کہا الله کی پناہ کہ ہم بجز اس کے جس کے پاس اپنا اسباب پایا کسی اور کو پکڑیں تب تو ہم بڑے ظالم ہیں
یوسفؑ نے کہا \"پناہ بخدا، دوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے\"
کہا خدا کی پناہ کہ ہم میں مگر اسی کو جس کے پاس ہمارا مال ملا جب تو ہم ظالم ہوں گے،
(یوسف نے) کہا کہ خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا کسی اور کو پکڑ لیں ایسا کریں تو ہم (بڑے) بےانصاف ہیں
یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اﷲ کی پناہ کہ ہم نے جس کے پاس اپنا سامان پایا اس کے سوا کسی (اور) کو پکڑ لیں تب تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے،
یوسف نے کہا کہ خدا کی پناہ کہ ہم جس کے پاس اپنا سامان پائیں اس کے علاوہ کسی دوسرے کو گرفت میں لے لیں اور اس طرح ظالم ہوجائیں
یوسف (علیہ السلام) نے کہا ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا دوسرے کی گرفتاری کرنے سے اللہ کی پناه چاہتے ہیں، ایسا کرنے سے تو ہم یقیناً ناانصافی کرنے والے ہو جائیں گے
یوسف (ع) نے کہا معاذ اللہ (اللہ کی پناہ) کہ ہم اس آدمی کے سوا جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے کسی اور شخص کو پکڑیں اس صورت میں تو ہم ظالم قرار پائیں گے۔
فَلَمَّا ٱسْتَيْـَٔسُوا۟ مِنْهُ خَلَصُوا۟ نَجِيًّۭا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوٓا۟ أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًۭا مِّنَ ٱللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِى يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ ٱلْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِىٓ أَبِىٓ أَوْ يَحْكُمَ ٱللَّهُ لِى ۖ وَهُوَ خَيْرُ ٱلْحَٰكِمِينَ ﴿٨٠﴾
پھر جب اس سےناامید ہوئے مشورہ کرنے کے لیے اکیلے ہو بیٹھے ان میں سے بڑے نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے الله کا عہد لیا تھا اور پہلے جویوسف کے حق میں قصور کر چکے ہو سو میں تو اس ملک سے ہرگز نہیں جاؤں گا یہاں تک کہ میرا با پ مجھے حکم دے یا میرے لیے الله کوئی حکم فرمائے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
جب وہ یوسفؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا \"تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر کیا عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دیں، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
پھر جب اس سے نا امید ہوئے الگ جاکر سرگوشی کرنے لگے، ان کا بڑا بھائی بولا کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لے لیا تھا اور اس سے پہلے یوسف کے حق میں تم نے کیسی تقصیر کی تو میں یہاں سے نہ ٹلوں گا یہاں تک کہ میرے باپ اجازت دیں یا اللہ مجھے حکم فرمائے اور اس کا حکم سب سے بہتر،
جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہو کر صلاح کرنے لگے۔ سب سے بڑے نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے والد نے تم سے خدا کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں قصور کر چکے ہو تو جب تک والد صاحب مجھے حکم نہ دیں میں تو اس جگہ سے ہلنے کا نہیں یا خدا میرے لیے کوئی اور تدبیر کرے۔ اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
پھر جب وہ یوسف (علیہ السلام) سے مایوس ہوگئے تو علیحدگی میں (باہم) سرگوشی کرنے لگے، ان کے بڑے (بھائی) نے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اﷲ کی قسم اٹھوا کر پختہ وعدہ لیا تھا اور اس سے پہلے تم یوسف کے حق میں جو زیادتیاں کر چکے ہو (تمہیں وہ بھی معلوم ہیں)، سو میں اس سرزمین سے ہرگز نہیں جاؤں گا جب تک مجھے میرا باپ اجازت (نہ) دے یا میرے لئے اﷲ کوئی فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے،
اب جب وہ لوگ یوسف کی طرف سے مایوس ہوگئے تو الگ جاکر مشورہ کرنے لگے تو سب سے بڑے نے کہا کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے باپ نے تم سے خدائی عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں کوتاہی کرحُکے ہو تو اب میں تو اس سرزمین کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ والد محترم اجازت دے دیں یا خدا میرے حق میں کوئی فیصلہ کردے کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
جب یہ اس سے مایوس ہو گئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشوره کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ قول قرار لیا ہے اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کر چکے ہو۔ پس میں تو اس سرزمین سے نہ ٹلوں گا جب تک کہ والد صاحب خود مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ تعالیٰ میرے معاملے کا فیصلہ کر دے، وہی بہترین فیصلہ کرنے واﻻ ہے
پھر جب وہ لوگ اس (یوسف) سے مایوس ہوگئے تو علیٰحدہ جاکر باہم سرگوشی (مشورہ) کرنے لگے جو ان میں (سب سے) بڑا تھا اس نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ (بنیامین کے بارے میں) خدا کے نام پر تم سے عہد و پیمان لے چکے ہیں اور اس سے پہلے یوسف(ع) کے بارے میں جو تقصیر تم کر چکے ہو (وہ بھی تم جانتے ہو) اس لئے میں تو اس سر زمین کو نہیں چھوڑوں گا جب تک میرا باپ مجھے اجازت نہ دے یا پھر اللہ میرے لئے کوئی فیصلہ نہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
ٱرْجِعُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَبِيكُمْ فَقُولُوا۟ يَٰٓأَبَانَآ إِنَّ ٱبْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَآ إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَٰفِظِينَ ﴿٨١﴾
تم اپنے باپ کے پاس لوٹ جاؤ اور کہو اے ہمارے باپ! تیرے بیٹے نے چوری کی اور ہم نے وہی کہا تھا جس کا ہمیں علم تھا اور ہمیں غیب کی خبر نہ تھی
تم جا کر اپنے والد سے کہو کہ \"ابا جان، آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں، اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کر سکتے تھے
اپنے باپ کے پاس لوٹ کر جاؤ پھر عرض کرو اے ہمارے باپ بیشک آپ کے بیٹے نے چوری کی اور ہم تو اتنی ہی بات کے گواہ ہوئے تھے جتنی ہمارے علم میں تھی اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے
تم سب والد صاحب کے پاس واپس جاؤ اور کہو کہ ابا آپ کے صاحبزادے نے (وہاں جا کر) چوری کی۔ اور ہم نے اپنی دانست کے مطابق آپ سے (اس کے لے آنے کا) عہد کیا تھا مگر ہم غیب کی باتوں کو جاننے اور یاد رکھنے والے تو نہیں تھے
تم اپنے باپ کی طرف لوٹ جاؤ پھر (جا کر) کہو: اے ہمارے باپ! بیشک آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے (اس لئے وہ گرفتار کر لیا گیا) اور ہم نے فقط اسی بات کی گواہی دی تھی جس کا ہمیں علم تھا اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے،
ہاں تم لوگ باپ کی خدمت میں جاؤ اور عرض کرو کہ آپ کے فرزند نے چوری کی ہے اور ہم اسی بات کی گواہی دے رہے ہیں جس کا ہمیں علم ہے اور ہم غیب کی حفاظت کرنے والے نہیں ہیں
تم سب والد صاحب کی خدمت میں واپس جاؤ اور کہو کہ اباجی! آپ کے صاحبزادے نے چوری کی اور ہم نے وہی گواہی دی تھی جو ہم جانتے تھے۔ ہم کچھ غیب کی حفاﻇت کرنے والے نہ تھے
لہٰذا تم لوگ اپنے باپ کے پاس واپس جاؤ۔ اور جاکر کہو اے ہمارے باپ! آپ کے بیٹے (بنیامین) نے چوری کی ہے اور ہم نے اسی بات کی گواہی دی ہے۔ جس کا ہمیں علم ہے اور ہم غیب کی نگہبانی کرنے والے نہیں ہیں (غیبی باتوں کی ہمیں خبر نہیں ہے)۔
وَسْـَٔلِ ٱلْقَرْيَةَ ٱلَّتِى كُنَّا فِيهَا وَٱلْعِيرَ ٱلَّتِىٓ أَقْبَلْنَا فِيهَا ۖ وَإِنَّا لَصَٰدِقُونَ ﴿٨٢﴾
اوراس گاؤں سے پوچھ لیجیئے جس میں ہم تھے اور اس قافلہ سے بھی جس میں ہم آئے ہیں اور بے شک ہم سچے ہیں
آپ اُس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجیے جہاں ہم تھے اُس قافلے سے دریافت کر لیجیے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں\"
اور اس بستی سے پوچھ دیکھئے جس میں ہم تھے اور اس قافلہ سے جس میں ہم آئے، اور ہم بیشک سچے ہیں
اور جس بستی میں ہم (ٹھہرے) تھے وہاں سے (یعنی اہل مصر سے) اور جس قافلے میں آئے ہیں اس سے دریافت کر لیجیئے اور ہم اس بیان میں بالکل سچے ہیں
اور (اگر آپ کو اعتبار نہ آئے تو) اس بستی (والوں) سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے اور اس قافلہ (والوں) سے (معلوم کر لیں) جس میں ہم آئے ہیں، اور بیشک ہم (اپنے قول میں) یقیناً سچے ہیں،
آپ اس بستی سے دریافت کرلیں جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے پوچھ لیں جس میں ہم آئے ہیں اور ہم بالکل سچےّ ہیں
آپ اس شہر کے لوگوں سے دریافت فرما لیں جہاں ہم تھے اور اس قافلہ سے بھی پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں، اور یقیناً ہم بالکل سچے ہیں
اور آپ اس بستی (مصر) کے لوگوں سے پوچھ لیجئے جس میں ہم تھے اور قافلہ والوں سے دریافت کیجئے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں اور بے شک ہم سچے ہیں۔
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًۭا ۖ فَصَبْرٌۭ جَمِيلٌ ۖ عَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِيَنِى بِهِمْ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ ﴿٨٣﴾
کہا بلکہ تم نے دل سے ایک بات بنا لی ہے اب صبر ہی بہتر ہے الله سے امید ہے کہ شاید الله ان سب کو میرے پاس لے آئے وہی جاننے والا حکمت والا ہے
باپ نے یہ داستان سن کر کہا \"دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا اچھا اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا کیا بعید ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا ملا ئے، وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں\"
کہا تمہارے نفس نے تمہیں کچھ حیلہ بنادیا، تو اچھا صبر ہے، قریب ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا، ملائے بیشک وہی علم و حکمت والا ہے،
(جب انہوں نے یہ بات یعقوب سے آ کر کہی تو) انہوں نے کہا کہ (حقیقت یوں نہیں ہے) بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے بنالی ہے تو صبر ہی بہتر ہے۔ عجب نہیں کہ خدا ان سب کو میرے پاس لے آئے۔ بےشک وہ دانا (اور) حکمت والا ہے
یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: (ایسا نہیں) بلکہ تمہارے نفسوں نے یہ بات تمہارے لئے مرغوب بنا دی ہے، اب صبر (ہی) اچھا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان سب کو میرے پاس لے آئے، بیشک وہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے،
یعقوب نے کہا کہ یہ تمہارے دل نے ایک نئی بات گڑھ لی ہے میں پھر بھی صبرجمیل اختیار کروں گا کہ شائد خدا ان سب کو لے آئے کہ وہ ہر شئے کا جاننے والا اور صاحب هحکمت ہے
(یعقوب علیہ السلام نے) کہا یہ تو نہیں، بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنالی، پس اب صبر ہی بہتر ہے۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو میرے پاس ہی پہنچا دے۔ وه ہی علم وحکمت واﻻ ہے
آپ (ع) نے (یہ قصہ سن کر) کہا (ایسا نہیں ہے) بلکہ تمہارے نفسوں نے یہ بات تمہارے لئے گھڑ لی ہے (اور خوشنما کرکے سجھائی ہے) تو اب (میرے لئے) صبرِ جمیل ہی اولیٰ ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو میرے پاس لائے گا بے شک وہ بڑا علم والا، بڑا حکمت والا ہے۔
وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَٰٓأَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَٱبْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ ٱلْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌۭ ﴿٨٤﴾
اور اس نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف! اور غم سے اس کی آنکھیں سفید ہو گئیں پس وہ سخت غمگین ہوا
پھر وہ ان کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ \"ہا ئے یوسف!\" وہ دل ہی دل میں غم سے گھٹا جا رہا تھا اور اس کی آنکھیں سفید پڑ گئی تھیں
اور ان سے منہ پھیرا اور کہا ہائے افسوس! یوسف کی جدائی پر اور اس کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں وہ غصہ کھا تا رہا،
پھر ان کے پاس سے چلے گئے اور کہنے لگے ہائے افسوس یوسف (ہائے افسوس) اور رنج والم میں (اس قدر روئے کہ) ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں اور ان کا دل غم سے بھر رہا تھا
اور یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: ہائے افسوس! یوسف (علیہ السلام کی جدائی) پر اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں سو وہ غم کو ضبط کئے ہوئے تھے،
ےہ کہہ کر انہوں نے سب سے منھ پھےر لیااور کہا کہ افسوس ہے یوسف کے حال پر اوراتناروئے کہ آنکھیں سفیدہو گئیںاور غم کے گھونٹ پیتے رہے
پھر ان سے منھ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف! ان کی آنکھیں بوجہ رنج وغم کے سفید ہو چکی تھیں اور وه غم کو دبائے ہوئے تھے
(یہ کہہ کر) ان لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف (ہائے یوسف) اور رنج و غم (کی شدت) سے (رو رو کر) ان کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئیں اور وہ (باوجود مصیبت زدہ ہونے) کے بڑے ضبط کرنے والے اور خاموش تھے۔
قَالُوا۟ تَٱللَّهِ تَفْتَؤُا۟ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّىٰ تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ ٱلْهَٰلِكِينَ ﴿٨٥﴾
انہوں نے کہا الله کی قسم تو یوسف کی یاد کو نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ نکما ہو جائے یا ہلاک ہوجائے
بیٹوں نے کہا \"خدارا! آپ تو بس یوسف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں نوبت یہ آ گئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے\"
بولے خدا کی قسم! آپ ہمیشہ یوسف کی یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ گور کنارے جا لگیں یا جان سے گزر جائیں،
بیٹے کہنے لگے کہ والله اگر آپ یوسف کو اسی طرح یاد ہی کرتے رہیں گے تو یا تو بیمار ہوجائیں گے یا جان ہی دے دیں گے
وہ بولے: اﷲ کی قسم! آپ ہمیشہ یوسف (ہی) کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ قریب مرگ ہو جائیں گے یا آپ وفات پا جائیں گے،
ان لوگوں نے کہا کہ آپ اسی طرح یوسف کویاد کرتے رہیںگے یہاں تک کہ بیمار ہوجائیں یا ہلاک ہونے والوںمیں شامل ہو جائیں
بیٹوں نے کہا واللہ! آپ ہمیشہ یوسف کی یاد ہی میں لگے رہیں گے یہاں تک کہ گھل جائیں یا ختم ہی ہو جائیں
ان لوگوں (بیٹوں) نے کہا خدا کی قسم معلوم ہوتا ہے کہ آپ برابر یوسف (ع) کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ سخت بیمار ہو جائیں گے یا ہلاک ہو جائیں گے۔
قَالَ إِنَّمَآ أَشْكُوا۟ بَثِّى وَحُزْنِىٓ إِلَى ٱللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨٦﴾
کہا میں تو اپنی پریشانی اور غم کا اظہار الله ہی کے سامنے کرتا ہوں اور الله کی طرف سے میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
اُس نے کہا \"میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو
کہا میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں اور مجھے اللہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے
انہوں نے کہا کہ میں اپنے غم واندوہ کا اظہار خدا سے کرتا ہوں۔ اور خدا کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
انہوں نے فرمایا: میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اﷲ کے حضور کرتا ہوں اور میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،
یعقوب نے کہا کہ میں اپنے حزن و غم اور اپنی بےقراری کی فریاد اللہ کی بارگاہ میں کر رہا ہوں اورا س کی طرف سے وہ سب جانتا ہوںجو تم نہیں جانتے ہو
انہوں نے کہا کہ میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں، مجھے اللہ کی طرف سے وه باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے
آپ (ع) نے کہا کہ میں اپنے رنج و غم کی شکایت بس اللہ ہی سے کر رہا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
يَٰبَنِىَّ ٱذْهَبُوا۟ فَتَحَسَّسُوا۟ مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَا۟يْـَٔسُوا۟ مِن رَّوْحِ ٱللَّهِ ۖ إِنَّهُۥ لَا يَا۟يْـَٔسُ مِن رَّوْحِ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلْكَٰفِرُونَ ﴿٨٧﴾
اے میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور الله کی رحمت سے نا امید نہ ہو بے شک الله کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں
میرے بچو، جا کر یوسفؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں\"
اے بیٹو! جا ؤ یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ
بیٹا (یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ کہ خدا کی رحمت سے بےایمان لوگ ناامید ہوا کرتے ہیں
اے میرے بیٹو! جاؤ (کہیں سے) یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی خبر لے آؤ اور اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اﷲ کی رحمت سے صرف وہی لوگ مایوس ہوتے ہیں جو کافر ہیں،
میرے فرزندو جاؤ یوسف اور ان کے بھائی کو خوب تلاش کرو اور رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا کہ اس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتا ہے
میرے پیارے بچو! تم جاؤ اور یوسف (علیہ السلام) کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یقیناً رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں
اے میرے بیٹو! (ایک بار پھر مصر) جاؤ اور یوسف (ع) اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو بے شک اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔
فَلَمَّا دَخَلُوا۟ عَلَيْهِ قَالُوا۟ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا ٱلضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَٰعَةٍۢ مُّزْجَىٰةٍۢ فَأَوْفِ لَنَا ٱلْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَآ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ يَجْزِى ٱلْمُتَصَدِّقِينَ ﴿٨٨﴾
پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو کہا اے عزیز! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو قحط کی وجہ سے بڑی تکلیف ہے اور کچھ نکمی چیز لائے ہیں سو آپ پورا غلہ بھر دیجیئے اورخیرات دیجئے بے شک الله خیرات دینے والوں کو ثواب دیتا ہے
جب یہ لوگ مصر جا کر یوسفؑ کی پیشی میں داخل ہوئے تو انہوں نے عرض کیا کہ \"اے سردار با اقتدار، ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مبتلا ہیں اور ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں، آپ ہمیں بھر پور غلہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں، اللہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے\"
پھر جب وہ یوسف کے پاس پہنچے بولے اے عزیز ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو مصیبت پہنچی اور ہم بے قدر پونجی لے کر آئے ہیں تو آپ ہمیں پورا ناپ دیجئے اور ہم پر خیرات کیجئے بیشک اللہ خیرات والوں کو صلہ دیتا ہے
جب وہ یوسف کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ عزیز ہمیں اور ہمارے اہل وعیال کو بڑی تکلیف ہو رہی ہے اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں آپ ہمیں (اس کے عوض) پورا غلّہ دے دیجیئے اور خیرات کیجیئے۔ کہ خدا خیرات کرنے والوں کو ثواب دیتا ہے
سو جب وہ (دوبارہ) یوسف (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے تو کہنے لگے: اے عزیزِ مصر! ہم پر اور ہمارے گھر والوں پر مصیبت آن پڑی ہے (ہم شدید قحط میں مبتلا ہیں) اور ہم (یہ) تھوڑی سی رقم لے کر آئے ہیں سو (اس کے بدلے) ہمیں (غلہ کا) پورا پورا ناپ دے دیں اور (اس کے علاوہ) ہم پر (کچھ) صدقہ (بھی) کر دیں۔ بیشک اﷲ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے،
اب جو وہ لوگ دوبارہ یوسف کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ اے عزیز ہم کو اور ہمارے گھر والوں کو بڑی تکلیف ہے اور ہم ایک حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں آپ ہمیں پورا پورا غلہ دے دیں اور ہم پر احسان کریں کہ خدا کا»خیر کرنے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے
پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو کہنے لگے کہ اے عزیز! ہم کو اور ہمارے خانداں کو دکھ پہنچا ہے۔ ہم حقیر پونجی ﻻئے ہیں پس آپ ہمیں پورے غلہ کا ناپ دیجئے اور ہم پر خیرات کیجئے، اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کو بدلہ دیتا ہے
(چنانچہ حسب الحکم) جب یہ لوگ (مصر گئے) اور یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو کہنے لگے اے عزیزِ مصر! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو بڑی تکلیف پہنچی ہے (اس لئے اب کی بار) ہم بالکل حقیر سی پونجی لائے ہیں (اسے قبول کریں اور) ہمیں پیمانہ پورا ناپ کر دیجیئے (بھرپور غلہ دیجئے) اور (مزید برآں) ہم کو صدقہ و خیرات بھی دیجئے بے شک اللہ صدقہ خیرات کرنے والوں کو جزاءِ خیر دیتا ہے۔
قَالَ هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنتُمْ جَٰهِلُونَ ﴿٨٩﴾
کہا تمہیں یاد ہے جو کچھ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا تھا جب تمہیں سمجھ نہ تھی
(یہ سن کریوسفؑ سے نہ رہا گیا) اُس نے کہا \"تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوسفؑ اور اُس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جبکہ تم نادان تھے\"
بولے کچھ خبر ہے تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کِیا تھا جب تم نادان تھے
(یوسف نے) کہا تمہیں معلوم ہے جب تم نادانی میں پھنسے ہوئے تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا
یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا (سلوک) کیا تھا کیا تم (اس وقت) نادان تھے،
اس نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے جب کہ تم بالکل جاہل تھے
یوسف نے کہا جانتے بھی ہو کہ تم نے یوسف اوراس کے بھائی کے ساتھ اپنی نادانی کی حالت میں کیا کیا؟
آپ (ع) نے کہا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے (سگے) بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جبکہ تم جاہل و نادان تھے؟
قَالُوٓا۟ أَءِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا۠ يُوسُفُ وَهَٰذَآ أَخِى ۖ قَدْ مَنَّ ٱللَّهُ عَلَيْنَآ ۖ إِنَّهُۥ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿٩٠﴾
کہا کیا تو ہی یوسف ہے کہا میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے الله نے ہم پر احسان کیابے شک جو ڈرتا ہے اور صبر کتا ہے تو الله بھی نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا
وہ چونک کر بولے \"کیا تم یوسفؑ ہو؟\" اُس نے کہا، \"ہاں، میں یوسفؑ ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہم پر احسان فرمایا حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا\"
بولے کیا سچ مچ آپ ہی یوسف ہیں، کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی، بیشک اللہ نے ہم پر احسان کیا بیشک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ (اجر) ضائع نہیں کرتا
وہ بولے کیا تم ہی یوسف ہو؟ انہوں نے کہا ہاں میں ہی یوسف ہوں۔ اور (بنیامین کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے) یہ میرا بھائی ہے خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ جو شخص خدا سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے تو خدا نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا
وہ بولے: کیا واقعی تم ہی یوسف ہو؟ انہوں نے فرمایا: (ہاں) میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے بیشک اﷲ نے ہم پر احسان فرمایا ہے، یقیناً جو شخص اﷲ سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے تو بیشک اﷲ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا،
ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں?انہوں نے کہا کہ بیشک میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے -اللہ نے ہمارے اوپر احسان کیا ہے اور جو کوئی بھی تقوٰی اور صبر اختیار کرتاہے اللہ نیک عمل کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے
انہوں نے کہا کیا (واقعی) تو ہی یوسف (علیہ السلام) ہے۔ جواب دیا کہ ہاں میں یوسف (علیہ السلام) ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر فضل وکرم کیا، بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا
اس پر وہ لوگ چونکے اور کہا کیا تم یوسف ہو؟ کہا ہاں میں یوسف (ع) ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو پرہیزگاری اختیار کرتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے (وہ بالآخر ضرور کامیاب ہوتا ہے کیونکہ) اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
قَالُوا۟ تَٱللَّهِ لَقَدْ ءَاثَرَكَ ٱللَّهُ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَٰطِـِٔينَ ﴿٩١﴾
انہوں نے کہا الله کی قسم البتہ تحقیق الله نے تمہیں ہم پر بزرگی دی اوربے شک ہم غلط کار تھے
انہوں نے کہا \"بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطا کار تھے\"
بولے خدا کی قسم! بیشک اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی اور بیشک ہم خطاوار تھے
وہ بولے خدا کی قسم خدا نے تم کو ہم پر فضیلت بخشی ہے اور بےشک ہم خطاکار تھے
وہ بول اٹھے: اﷲ کی قسم! بیشک اﷲ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور یقیناً ہم ہی خطاکار تھے،
ان لوگوں نے کہا کہ خدا کی قسم خدا نے آپ کو فضیلت اور امتیاز عطا کیا ہے اور ہم سب خطاکار تھے
انہوں نے کہا اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ ہم خطا کار تھے
انہوں (بھائیوں) نے (شرمسار ہوکر) کہا بے شک اللہ نے تمہیں ہم پر برتری عطا فرمائی ہے اور بے شک ہم خطاکار ہیں۔
قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ ٱلْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ ٱللَّهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ ٱلرَّٰحِمِينَ ﴿٩٢﴾
کہا آج تم پر کوئی الزام نہیں الله تمہیں بخشے اور وہ سب سے زیادہ مہربان ہے
اس نے جواب دیا، \"آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے
کہا آج تم پر کچھ ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے
(یوسف نے) کہا کہ آج کے دن سے تم پر کچھ عتاب (وملامت) نہیں ہے۔ خدا تم کو معاف کرے۔ اور وہ بہت رحم کرنے والا ہے
یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: آج کے دن تم پر کوئی ملامت (اور گرفت) نہیں ہے، اﷲ تمہیں معاف فرما دے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے،
یوسف نے کہا کہ آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیںہے .خدا تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے
جواب دیا آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اللہ تمہیں بخشے، وه سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے
آپ (ع) نے کہا آج تم پر کوئی الزام (اور لعنت ملامت) نہیں ہے اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ بڑا رحم کرنے والا (مہربان) ہے۔
ٱذْهَبُوا۟ بِقَمِيصِى هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِى يَأْتِ بَصِيرًۭا وَأْتُونِى بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩٣﴾
یہ کرتہ میرا لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دو کہ وہ بینا ہوجائے اور میرے پاس اپنے سب کنبے کو لے آؤ
جاؤ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، اُن کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ\"
میرا یہ کرتا لے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پر ڈالو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اپنے سب گھر بھر کو میرے پاس لے آ ؤ،
یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔ اور اپنے تمام اہل وعیال کو میرے پاس لے آؤ
میرا یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہو جائیں گے، اور (پھر) اپنے سب گھر والوں کو میرے پاس لے آؤ،
جاؤ میری قمیض لے کر جاؤ اور بابا کے چہرہ پر ڈال دو کہ ان کی بصارت پلٹ آئے گی اور اس مرتبہ اپنے تمام گھر والوں کو ساتھ لے کر آنا
میرا یہ کرتا تم لے جاؤ اور اسے میرے والد کے منھ پر ڈال دو کہ وه دیکھنے لگیں، اور آجائیں اور اپنے تمام خاندان کو میرے پاس لےآؤ
(بعد ازاں) کہا میری قمیص لے جاؤ اور اسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دو ان کی بینائی پلٹ آئے گی (وہ بینا ہو جائیں گے) اور پھر اپنے سب اہل و عیال کو (یہاں) میرے پاس لے آؤ۔
وَلَمَّا فَصَلَتِ ٱلْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّى لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ۖ لَوْلَآ أَن تُفَنِّدُونِ ﴿٩٤﴾
اور جب قافلہ روانہ ہوا تو ان کے باپ نے کہا بے شک میں یوسف کی بو پاتا ہوں اگر مجھے دیوانہ نہ بناؤ
جب یہ قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا \"میں یوسفؑ کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں، تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں\"
جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں ان کے باپ نے کہا بیشک میں یوسف کی خوشبو پا تا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سٹھ (بہک) گیا ہے،
اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے والد کہنے لگے کہ اگر مجھ کو یہ نہ کہو کہ (بوڑھا) بہک گیا ہے تو مجھے تو یوسف کی بو آ رہی ہے
اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا ان کے والد (یعقوب علیہ السلام) نے (کنعان میں بیٹھے ہی) فرما دیا: بیشک میں یوسف کی خوشبو پا رہا ہوں اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا خیال نہ کرو،
اب جو قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو ان کے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں یوسف کی خوشبو محسوس کررہا ہوں اگر تم لوگ مجھے سٹھیایا ہوا نہ کہو
جب یہ قافلہ جدا ہوا تو ان کے والد نے کہا کہ مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے اگر تم مجھے سٹھیایا ہوا قرار نہ دو
اور جب (مصر سے) قافلہ روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا اگر تم مجھے مخبوط الحواس نہ سمجھو تو میں یوسف (ع) کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔
قَالُوا۟ تَٱللَّهِ إِنَّكَ لَفِى ضَلَٰلِكَ ٱلْقَدِيمِ ﴿٩٥﴾
لوگو ں نے کہا الله کی قسم بے شک تو البتہ اپنی گمراہی میں مبتلا ہے
گھر کے لوگ بولے \"خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اسی پرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں\"
بیٹے بولے خدا کی قسم! آپ اپنی اسی پرانی خود رفتگی میں ہیں
وہ بولے کہ والله آپ اسی قدیم غلطی میں (مبتلا) ہیں
وہ بولے: اﷲ کی قسم یقیناً آپ اپنی (اسی) پرانی محبت کی خود رفتگی میں ہیں،
ان لوگوں نے کہا کہ خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنی پرانی گمراہی میں مبتلا ہیں
وه کہنے لگے کہ واللہ آپ اپنے اسی پرانے خبط میں مبتلا ہیں
ان (گھر والوں) نے کہا خدا کی قسم آپ اپنی پرانی غلطی میں مبتلا ہیں۔
فَلَمَّآ أَن جَآءَ ٱلْبَشِيرُ أَلْقَىٰهُ عَلَىٰ وَجْهِهِۦ فَٱرْتَدَّ بَصِيرًۭا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّىٓ أَعْلَمُ مِنَ ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٩٦﴾
پھر جب خوشخبری دینے والا آیا اس نے وہ کرتہ اس کے منہ پر ڈال دیا تو بینا ہو گیا کہا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں الله کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
پھر جب خو ش خبری لانے والا آیا تو اس نے یوسفؑ کا قمیص یعقوبؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکا یک اس کی بینائی عود کر آئی تب اس نے کہا \"میں تم سے کہتا نہ تھا؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے\"
پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ کرتا یعقوب کے منہ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں (دیکھنے لگیں) کہ میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اللہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے
جب خوشخبری دینے والا آ پہنچا تو کرتہ یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور وہ بینا ہو گئے (اور بیٹوں سے) کہنے لگے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں خدا کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیض یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،
اس کے بعد جب بشیر نے آکر قمیض کو یعقوب کے چہرہ پر ڈال دیا تو دوبارہ صاحب هبصارت ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں خدا کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو
جب خوشخبری دینے والے نے پہنچ کر ان کے منھ پر وه کرتا ڈاﻻ اسی وقت وه پھر سے بینا ہوگئے۔ کہا! کیا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وه باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
پھر جب خوشخبری دینے والا آیا (اور) وہ قمیص ان کے چہرہ پر ڈالی تو وہ فوراً بینا ہوگئے اور کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
قَالُوا۟ يَٰٓأَبَانَا ٱسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَآ إِنَّا كُنَّا خَٰطِـِٔينَ ﴿٩٧﴾
انہوں نے کہا اے ہمارے باپ! ہمارے گناہ بحشوا دیجیئے بے شک ہم ہی غلط کار تھے
سب بول اٹھے \"ابا جان، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کریں، واقعی ہم خطا کار تھے\"
بولے اے ہمارے باپ! ہمارے گناہوں کی معافی مانگئے بیشک ہم خطاوار ہیں،
بیٹوں نے کہا کہ ابا ہمارے لیے ہمارے گناہ کی مغفرت مانگیئے۔ بےشک ہم خطاکار تھے
وہ بولے: اے ہمارے باپ! ہمارے لئے (اﷲ سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کیجئے، بیشک ہم ہی خطاکار تھے،
ان لوگوں نے کہا بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے
انہوں نے کہا ابا جی! آپ ہمارے لئے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے بیشک ہم قصور وار ہیں
انہوں (بیٹوں) نے کہا اے ہمارے باپ (خدا سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کریں یقینا ہم خطاکار تھے۔
قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّىٓ ۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ ﴿٩٨﴾
کہا عنقریب اپنے رب سے تمہارے لی معافی مانگوں گا بے شک وہ غفور رحیم ہے
اُس نے کہا \"میں اپنے رب سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کروں گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے\"
کہا جلد میں تمہاری بخشش اپنے رب سے چاہو ں گا، بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے
انہوں نے کہا کہ میں اپنے پروردگار سے تمہارے لیے بخشش مانگوں گا۔ بےشک وہ بخشنے والا مہربان ہے
یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں عنقریب تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا، بیشک وہی بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
انہوں نے کہا کہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے
کہا اچھا میں جلد ہی تمہارے لئے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا، وه بہت بڑا بخشنے واﻻ اور نہایت مہربانی کرنے وﻻ ہے
آپ (ع) نے کہا میں عنقریب تمہارے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کروں گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
فَلَمَّا دَخَلُوا۟ عَلَىٰ يُوسُفَ ءَاوَىٰٓ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ٱدْخُلُوا۟ مِصْرَ إِن شَآءَ ٱللَّهُ ءَامِنِينَ ﴿٩٩﴾
پھر جب یوسف کے پاس آئے تو اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہو جاؤ اگر الله نے چاہا تو امن سے رہو گے
پھر جب یہ لوگ یوسفؑ کے پاس پہنچے تو اُس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور (اپنے سب کنبے والوں سے) کہا \"چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے\"
پھر جب وہ سب یوسف کے پاس پہنچے اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہو اللہ چاہے تو امان کے ساتھ
جب یہ (سب لوگ) یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا مصر میں داخل ہو جائیے خدا نے چاہا تو جمع خاطر سے رہیئے گا
پھر جب وہ (سب اَفرادِ خانہ) یوسف (علیہ السلام) کے پاس آئے (تو) یوسف (علیہ السلام) نے (شہر سے باہر آکر ہزارہا سواریوں، فوجیوں اور لوگوں کے ہمراہ شاہی جلوس کی صورت میں ان کا استقبال کیا اور) اپنے ماں باپ کو تعظیماً اپنے قریب جگہ دی (یا انہیں اپنے گلے سے لگا لیا) اور (خوش آمدید کہتے ہوئے) فرمایا: آپ مصر میں داخل ہو جائیں اگر اﷲ نے چاہا (تو) امن و عافیت کے ساتھ (یہیں قیام کریں)،
اس کے بعد جب وہ لوگ سب یوسف کے یہاں حاضر ہوئے تو انہوں نے ماں باپ کو اپنے پہلو میں جگہ دی اور کہا کہ آپ لوگ مصر میں انشائ اللہ بڑے اطمینان و سکون کے ساتھ داخل ہوں
جب یہ سارا گھرانہ یوسف کے پاس پہنچ گیا تو یوسف نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا کہ اللہ کو منظور ہے تو آپ سب امن وامان کے ساتھ مصر میں آؤ
جب وہ سب لوگ کنعان سے روانہ ہو کر یوسف (ع)کے پاس (مصر میں) پہنچے تو انہوں نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا (اب) مصر میں داخل ہو خدا نے چاہا تو یہاں امن و اطمینان سے رہوگے۔
وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى ٱلْعَرْشِ وَخَرُّوا۟ لَهُۥ سُجَّدًۭا ۖ وَقَالَ يَٰٓأَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُءْيَٰىَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّۭا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِىٓ إِذْ أَخْرَجَنِى مِنَ ٱلسِّجْنِ وَجَآءَ بِكُم مِّنَ ٱلْبَدْوِ مِنۢ بَعْدِ أَن نَّزَغَ ٱلشَّيْطَٰنُ بَيْنِى وَبَيْنَ إِخْوَتِىٓ ۚ إِنَّ رَبِّى لَطِيفٌۭ لِّمَا يَشَآءُ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ ﴿١٠٠﴾
اور اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور اس کے آگے سب سجدہ میں گر پڑے اور کہا اےباپ میرے اس پہلے خواب کی یہ تعبیر ہے اسے میرے رب نے سچ کر دکھایا اوراس نے مجھ پر احسان کیا جب مجھے قید خانے سے نکالا اور تمہیں گاؤں سے لے آیا اس کے بعد کہ شیطان مجھ میں اورمیرے بھائیوں میں جھگڑا ڈال چکا بے شک میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے مہربانی فرماتا ہے بے شک وہی جاننے والا حکمت والا ہے
(شہر میں داخل ہونے کے بعد) اس نے اپنے والدین کو اٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھک گئے یوسفؑ نے کہا \"ابا جان، یہ تعبیر ہے میرے اُس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے حقیقت بنا دیا اس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے، بے شک و ہ علیم اور حکیم ہے
اور اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب اس کے لیے سجدے میں گرے اور یوسف نے کہا اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بیشک اسے میرے رب نے سچا کیا، اور بیشک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا بعد اس کے کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کرادی تھی، بیشک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے بیشک وہی علم و حکمت والا ہے
اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسفؑ کے آگے سجدہ میں گر پڑے اور (اس وقت) یوسف نے کہا ابا جان یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے (بچپن میں) دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اسے سچ کر دکھایا اور اس نے مجھ پر (بہت سے) احسان کئے ہیں کہ مجھ کو جیل خانے سے نکالا۔ اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا۔ آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بےشک میرا پروردگار جو چاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے
اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو اوپر تخت پر بٹھا لیا اور وہ (سب) یوسف (علیہ السلام) کے لئے سجدہ میں گر پڑے، اور یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اے ابا جان! یہ میرے (اس) خواب کی تعبیر ہے جو (بہت) پہلے آیا تھا (اکثر مفسرین کے نزدیک اسے چالیس سال کا عرصہ گزر گیا تھا) اور بیشک میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا ہے، اور بیشک اس نے مجھ پر (بڑا) احسان فرمایا جب مجھے جیل سے نکالا اور آپ سب کو صحرا سے (یہاں) لے آیا اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد پیدا کر دیا تھا، اور بیشک میرا رب جس چیز کو چاہے (اپنی) تدبیر سے آسان فرما دے، بیشک وہی خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
اور انہوں نے والدین کو بلند مقام پر تخت پر جگہ دی اور سب لوگ یوسف کے سامنے سجدہ میں گر پڑے یوسف نے کہا کہ بابا یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے جسے میرے پروردگار نے سچ کر دکھایا ہے اور اس نے میرے ساتھ احسان کیا ہے کہ مجھے قید خانہ سے نکال لیا اور آپ لوگوں کو گاؤں سے نکال کر مصر میں لے آیا جب کہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد پیدا کرچکا تھا -بیشک میرا پروردگار اپنے ارادوں کی بہترین تدبیر کرنے والا اور صاحب هعلم اور صاحب هحکمت ہے
اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اس کے سامنے سجدے میں گر گئے۔ تب کہا کہ اباجی! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا، اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جب کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحرا سے لے آیا اس اختلاف کے بعد جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا تھا۔ میرا رب جو چاہے اس کے لئے بہترین تدبیر کرنے واﻻ ہے۔ اور وه بہت علم وحکمت واﻻ ہے
اور (دربار میں پہنچ کر) اپنے ماں باپ کو تختِ شاہی پر (اونچا) بٹھایا اور سب اس کے سامنے سجدہ (شکر) میں جھک گئے (اس وقت) یوسف (ع) نے کہا اے بابا یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو (بہت عرصہ) پہلے میں نے دیکھا تھا جسے میرے پروردگار نے سچ کر دکھایا ہے اور اس نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ مجھے قید خانہ سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحراء (گاؤں) سے یہاں (شہر میں) لایا۔ بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان اختلاف و فساد ڈال دیا تھا بے شک میرا پروردگار جو کام کرنا چاہتا ہے اس کی بہترین تدبیر کرنے والا ہے بلاشبہ وہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔
۞ رَبِّ قَدْ ءَاتَيْتَنِى مِنَ ٱلْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِى مِن تَأْوِيلِ ٱلْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ أَنتَ وَلِىِّۦ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِى مُسْلِمًۭا وَأَلْحِقْنِى بِٱلصَّٰلِحِينَ ﴿١٠١﴾
اے میرے رب تو نے مجھےکچھ حکومت دی ہے اور مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بھی سکھلایا ہے اے آسمانو ں اور زمین کے بنانے والے! دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا کارساز ہے تو مجھے اسلام پر موت دے اور مجھے نیک بختوں میں شامل کر دے
اے میرے رب، تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا\"
اے میرے رب بیشک تو نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا، اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے تو میرا کام بنانے والا ہے دنیا اور آخرت میں، مجھے مسلمان اٹھا اور ان سے مِلا جو تیرے قرب خاص کے لائق ہیں
(جب یہ سب باتیں ہولیں تو یوسف نے خدا سے دعا کی کہ) اے میرے پروردگار تو نے مجھ کو حکومت سے بہرہ دیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے۔ تو مجھے (دنیا سے) اپنی اطاعت (کی حالت) میں اٹھائیو اور (آخرت میں) اپنے نیک بندوں میں داخل کیجیو
اے میرے رب! بیشک تو نے مجھے سلطنت عطا فرمائی اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کے علم سے نوازا، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے والے! تو دنیا میں (بھی) میرا کارساز ہے اور آخرت میں (بھی)، مجھے حالتِ اسلام پر موت دینا اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دے،
پروردگار تو نے مجھے ملک بھی عطا کیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی دیا -تو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور دنیا وآخرت میں میرا ولی اور سرپرست ہے مجھے دنیا سے فرمانبردار اٹھانا اور صالحین سے ملحق کردینا
اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی۔ اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے
اے میرے پروردگار! تو نے مجھے سلطنت عطا فرمائی ہے اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی تو نے ہی مجھے بخشا ہے اے آسمانوں اور زمین کے خالق تو دنیا و آخرت میں میرا سرپرست اور کارساز ہے میرا خاتمہ (حقیقی) اسلام اور فرمانبرداری پر کر اور مجھے اپنے نیکوکار بندوں میں داخل فرما۔
ذَٰلِكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوٓا۟ أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ ﴿١٠٢﴾
یہ غیب کی خبریں کہیں جو ہم تیرے ہاں بھیجتے ہیں اور تو ان کے پاس نہیں تھا جب کہ انہوں نے اپنا ارادہ پکا کر لیا اور وہ تدبیریں کر رہے تھے
اے محمدؐ، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ورنہ تم اُس وقت موجود نہ تھے جب یوسفؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی
یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اور تم ان کے پاس نہ تھے جب انہوں نے اپنا کام پکا کیا تھا اور وہ داؤں چل رہے تھے
(اے پیغمبر) یہ اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں اور جب برادران یوسف نے اپنی بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ فریب کر رہے تھے تو تم ان کے پاس تو نہ تھے
(اے حبیبِ مکرّم!) یہ (قصّہ) غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں، اور آپ (کوئی) ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ (برادرانِ یوسف) اپنی سازشی تدبیر پر جمع ہو رہے تھے اور وہ مکر و فریب کر رہے تھے،
پیغمبر !سب غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم وحی کے ذریعہ آپ تک پہنچا رہے ہیں ورنہ آپ تو اس وقت نہ تھے جب وہ لوگ اپنے کام پر اتفاق کررہے تھے اور یوسف کے بارے میں بفِی تدبیریں کررہے تھے
یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وه فریب کرنے لگے تھے
(اے پیغمبر(ص)) یہ (داستان) غیب کی خبروں میں سے ہے جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں اور آپ ان (برادرانِ یوسف (ع)) کے پاس اس وقت موجود نہیں تھے جب کہ وہ آپس میں اتفاق کرکے یوسف کے خلاف سازش کر رہے تھے۔
وَمَآ أَكْثَرُ ٱلنَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ ﴿١٠٣﴾
اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں خواہ تو کتنا ہی چاہے
مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو اِن میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں
اور اکثر آدمی تم کتنا ہی چاہو ایمان نہ لائیں گے،
اور بہت سے آدمی گو تم (کتنی ہی) خواہش کرو ایمان لانے والے نہیں ہیں
اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں اگرچہ آپ (کتنی ہی) خواہش کریں،
اور آپ کسی قدر کیوں نہ چاہیں انسانوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے
گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان دار نہ ہوں گے
اور آپ کتنا ہی حرص کریں (اور کتنا ہی چاہیں) مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔
وَمَا تَسْـَٔلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌۭ لِّلْعَٰلَمِينَ ﴿١٠٤﴾
اور آپ اس پر ان سے کوئی مزدوری بھی تو نہیں مانگتے یہ تو صرف تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے
حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے ہو یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے
اور تم اس پر ان سے کچھ اجرت نہ مانگتے یہ تو نہیں مگر سارے جہان کو نصیحت،
اور تم ان سے اس (خیر خواہی) کا کچھ صلا بھی تو نہیں مانگتے۔ یہ قرآن اور کچھ نہیں تمام عالم کے لیے نصیحت ہے
اور آپ ان سے اس (دعوت و تبلیغ) پر کوئی صلہ تو نہیں مانگتے، یہ قرآن جملہ جہان والوں کے لئے نصیحت ہی تو ہے،
اور آپ ان سے تبلیغ رسالت کی اجرت تو نہیں مانگتے ہیں یہ قرآن تو عالمین کے لئے ایک ذکر اور نصیحت ہے
آپ ان سے اس پر کوئی اجرت طلب نہیں کر رہے ہیں۔ یہ تو تمام دنیا کے لئے نری نصیحت ہی نصیحت ہے
حالانکہ آپ اس بات (تبلیغِ رسالت) پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے یہ (قرآن) تو تمام جہانوں کے لئے یاددہانی اور پند و موعظہ ہے۔
وَكَأَيِّن مِّنْ ءَايَةٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ ﴿١٠٥﴾
اور آسمانوں اور زمین میں بہتی سی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ گزرتے ہیں اوران سے منہ پھیر لیتے ہیں
زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے
اور کتنی نشانیاں ہیں آسمانوں اور زمین میں کہ اکثر لوگ ان پر گزرتے ہیں اور ان سے بے خبر رہتے ہیں،
اور آسمان و زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن پر یہ گزرتے ہیں اور ان سے اعراض کرتے ہیں
اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان سے صرفِ نظر کئے ہوئے ہیں،
اور زمین و آسمان میں بہت سی نشانیاں ہیں جن سے لوگ گزر جاتے ہیں اور کنارہ کش ہی رہتے ہیں
آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ جن سے یہ منھ موڑے گزر جاتے ہیں
اور آسمانوں اور زمین میں (خدا کے وجود اور اس کی قدرت کی) کتنی ہی نشانیاں موجود ہیں مگر یہ لوگ ان سے روگردانی کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں (اور کوئی توجہ نہیں کرتے)۔
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ ﴿١٠٦﴾
اوران میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جو الله کو مانتے بھی ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں
ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شر یک ٹھیراتے ہیں
اور ان میں اکثر وہ ہیں کہ اللہ پر یقین نہیں لاتے مگر شرک کرتے ہوئے
اور یہ اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ مگر (اس کے ساتھ) شرک کرتے ہیں
اور ان میں سے اکثر لوگ اﷲ پر ایمان نہیں رکھتے مگر یہ کہ وہ مشرک ہیں،
اور ان میںکی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ
ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں
اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں تو اس حالت میں کہ (عملی طور پر) برابر شرک بھی کئے جاتے ہیں۔
أَفَأَمِنُوٓا۟ أَن تَأْتِيَهُمْ غَٰشِيَةٌۭ مِّنْ عَذَابِ ٱللَّهِ أَوْ تَأْتِيَهُمُ ٱلسَّاعَةُ بَغْتَةًۭ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿١٠٧﴾
کیا اس سے بے خوف ہو چکے ہیں کہ انہیں الله کے عذاب کی ایک آفت آپہنچے یا اچانک قیامت ان پر آ جائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو
کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آ جائے گی؟
کیا اس سے نڈر ہو بیٹھے کہ اللہ کا عذاب انہیں آکر گھیر لے یا قیامت ان پر اچانک آجائے اور انہیں خبر نہ ہو،
کیا یہ اس (بات) سے بےخوف ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہو کر ان کو ڈھانپ لے یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو
کیا وہ اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان پر اﷲ کے عذاب کی چھا جانے والی آفت آجائے یا ان پر اچانک قیامت آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو،
تو کیا یہ لوگ اس بات کی طرف سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ کہیں ان پر عذاب الٰہی آکر چھاجائے یا اچانک قیامت آجائے اور یہ غافل ہی رہ جائیں
کیا وه اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے عذابوں میں سے کوئی عام عذاب آجائے یا ان پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑے اور وه بے خبر ہی ہوں
کیا وہ اس بات سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ ان پر کوئی عذابِ الٰہی آجائے اور چھا جائے یا اچانک ان کے سامنے اس حال میں قیامت آجائے کہ انہیں خبر بھی نہ ہو۔
قُلْ هَٰذِهِۦ سَبِيلِىٓ أَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِى ۖ وَسُبْحَٰنَ ٱللَّهِ وَمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ﴿١٠٨﴾
کہہ دو میرا اور میرے تابعداروں کا بصیرت کے ساتھ یہ راستہ ہے کہ میں لوگوں کو الله کی طرف بلا رہا ہوں اور الله پا ک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں
تم ان سے صاف کہہ دو کہ \"میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں\"
تم فرماؤ یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں اور جو میرے قدموں پرچلیں دل کی آنکھیں رکھتے ہیں ۰ف۲۳۳) اور اللہ کو پاکی ہے اور میں شریک کرنے والا نہیں،
کہہ دو میرا رستہ تو یہ ہے میں خدا کی طرف بلاتا ہوں (از روئے یقین وبرہان) سمجھ بوجھ کر میں بھی (لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی۔ اور خدا پاک ہے۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں
(اے حبیبِ مکرّم!) فرما دیجئے: یہی میری راہ ہے، میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اﷲ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں،
آپ کہہ دیجئے کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے اور خدا پاک و بے نیازہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں
آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں
(اے پیغمبر) آپ کہہ دیجئے! کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اور جو میرا (حقیقی) پیروکار ہے ہم اللہ کی طرف بلاتے ہیں اس حال میں کہ ہم واضح دلیل پر ہیں اور اللہ ہر نقص و عیب سے پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًۭا نُّوحِىٓ إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰٓ ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ ٱلْءَاخِرَةِ خَيْرٌۭ لِّلَّذِينَ ٱتَّقَوْا۟ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿١٠٩﴾
ااور تجھ سے پہلے ہم نے جتنے پیغمبر بھیجے وہ سب بستیو ں کے رہنے و الے مرد ہی تھے ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے پھر وہ زمین میں سیر کر کے کیوں نہیں دیکھتے کہ ان لوگو ں کا انجام کیا ہوا جوان سے پہلے تھے اور البتہ آخرت کا گھر پرہیز کرنے والوں کے لیے بہتر ہے پھر تم کیوں نہیں سمجھتے
اے محمدؐ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے، اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام انہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقیناً آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقویٰ کی روش اختیار کی کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے جنہیں ہم وحی کرتے اور سب شہر کے ساکن تھے تو یہ لوگ زمین پرچلے نہیں تو دیکھتے ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوا اور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر تو کیا تمہیں عقل نہیں،
اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں کے رہنے والوں میں سے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر (وسیاحت) نہیں کی کہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا۔ اور متّقیوں کے لیے آخرت کا گھر بہت اچھا ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی (مختلف) بستیوں والوں میں سے مَردوں ہی کو بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی فرماتے تھے، کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ (خود) دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا، اور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاری اختیار کرنے والوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے،
اور ہم نے آپ سے پہلے ان ہی مذِدوں کو رسول بنایا ہے جو آبادیوں میں رہنے والے تھے اور ہم نے ان کی طرف وحی بھی کی ہے تو کیا یہ لوگ زمین میں سیر نہیں کرتے کہ دیکھیں کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ہے اور دا» آخرت صرف صاحبانِ تقوٰی کے لئے بہترین منزل ہے -کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ہو
آپ سے پہلے ہم نے بستی والوں میں جتنے رسول بھیجے ہیں سب مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے گئے۔ کیا زمین میں چل پھر کر انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا کیسا کچھ انجام ہوا؟ یقیناً آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لئے بہت ہی بہتر ہے، کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے
(اے رسول(ص)) ہم نے آپ سے پہلے جن کو بھی رسول بنا کر بھیجا وہ مرد تھے اور آبادیوں کے باشندے تھے جن کی طرف ہم وحی کیا کرتے تھے کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے یقینا آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لئے بہتر ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
حَتَّىٰٓ إِذَا ٱسْتَيْـَٔسَ ٱلرُّسُلُ وَظَنُّوٓا۟ أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا۟ جَآءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّىَ مَن نَّشَآءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ ٱلْقَوْمِ ٱلْمُجْرِمِينَ ﴿١١٠﴾
یہاں تک کہ جب رسول ناامید ہونے لگے اورخیال کیا کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا تب انہیں ہماری مدد پہنچی پھر جنہیں ہم نے چاہا بچا لیا اور ہمارے عذاب کو نافرمانوں سے کوئی بھی روک نہیں سکتا
(پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھوٹ بولا گیا تھا، تو یکا یک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی پھر جب ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا
یہاں تک جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ رسولوں نے غلط کہا تھا اس وقت ہماری مدد آئی تو جسے ہم نے چاہا بچالیا گیا اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھیرا نہیں جاتا،
یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی (اس میں) وہ سچے نہ نکلے تو ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔ پھر جسے ہم نے چاہا بچا دیا۔ اور ہمارا عذاب (اتر کر) گنہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا
یہاں تک کہ جب پیغمبر (اپنی نافرمان قوموں سے) مایوس ہوگئے اور ان منکر قوموں نے گمان کر لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے (یعنی ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا) تو ان رسولوں کو ہماری مدد آپہنچی پھر ہم نے جسے چاہا (اسے) نجات بخش دی، اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پھیرا نہیں جاتا،
یہاں تک کہ جب ان کے انکار سے مرسلین مایوس ہونے لگے اور ان لوگوں نے سمجھ لیاکہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے تو ہماری مدد مرسلین کے پاس آگئی اور ہم نے جن لوگوں کو چاہا انہیں نجات دے دی اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پلٹایا نہیں جاسکتا ہے
یہاں تک کہ جب رسول ناامید ہونے لگے اور وه (قوم کے لوگ) خیال کرنے لگے کہ انہیں جھوٹ کہا گیا۔ فوراً ہی ہماری مدد ان کے پاس آپہنچی جسے ہم نے چاہا اسے نجات دی گئی۔ بات یہ ہے کہ ہمارا عذاب گناهگاروں سے واپس نہیں کیا جاتا
یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہونے لگے اور خیال کرنے لگے کہ (شاید) ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تو (اچانک) ان کے پاس ہماری مدد پہنچ گئی پس جسے ہم نے چاہا وہ نجات پا گیا اور مجرموں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔
لَقَدْ كَانَ فِى قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌۭ لِّأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًۭا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ ٱلَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَىْءٍۢ وَهُدًۭى وَرَحْمَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ ﴿١١١﴾
البتہ ان لوگو ں کے حالات میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے کوئی بنائی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ اس کلام کے موافق ہے جو اس سے پہلے ہے اور ہر چیز کا بیان اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لاتے ہیں
اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت
بیشک ان کی خبروں سے عقل مندوں کی آنکھیں کھلتی ہیں یہ کوئی بناوٹ کی بات نہیں لیکن اپنوں سے اگلے کاموں کی تصدیق ہے اور ہر چیز کا مفصل بیان اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت،
ان کے قصے میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ (قرآن) ایسی بات نہیں ہے جو (اپنے دل سے) بنائی گئی ہو بلکہ جو (کتابیں) اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں ان کی تصدیق (کرنے والا) ہے اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے
بیشک ان کے قصوں میں سمجھ داروں کے لئے عبرت ہے، یہ (قرآن) ایسا کلام نہیں جو گھڑ لیا جائے بلکہ (یہ تو) ان (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ہدایت ہے اور رحمت ہے اس قوم کے لئے جو ایمان لے آئے،
یقینا ان کے واقعات میں صاحبانِ عقل کے لئے سامان هعبرت ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے گڑھ لیا جائے یہ قرآن پہلے کی تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور یہ صاحبِ ایمان قوم کے لئے ہدایت اور رحمت بھی ہے
ان کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے، یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ یہ تصدیق ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے کی ہیں، کھول کھول کر بیان کرنے واﻻ ہے ہر چیز کو اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان دار لوگوں کے لئے
یقیناً ان لوگوں کے (عروج و زوال کے) قصہ میں صاحبانِ عقل کے لئے بڑی عبرت و نصیحت ہے وہ (قرآن) کوئی گھڑی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے موجود ہے اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے (سراسر) ہدایت و رحمت ہے۔