Setting
Surah Sad [Sad] in Urdu
صٓ ۚ وَٱلْقُرْءَانِ ذِى ٱلذِّكْرِ ﴿١﴾
قرآن کی قسم ہے جو سراسر نصیحت ہے
ص، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی
اس نامور قرآن کی قسم
ص۔ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے (کہ تم حق پر ہو)
ص (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، ذکر والے قرآن کی قسم،
ص ۤ نصیحت والے قرآن کی قسم
ص! اس نصیحت والے قرآن کی قسم
ص! قَسم ہے نصیحت والے قرآن کی۔
بَلِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فِى عِزَّةٍۢ وَشِقَاقٍۢ ﴿٢﴾
بلکہ جو لوگ منکر ہیں وہ محض تکبر اور مخالفت میں پڑے ہیں
بلکہ یہی لوگ، جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے، سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں
بلکہ کافر تکبر اور خلاف میں ہیں
مگر جو لوگ کافر ہیں وہ غرور اور مخالفت میں ہیں
بلکہ کافر لوگ (ناحق) حمیّت و تکبّر میں اور (ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) مخالفت و عداوت میں (مبتلا) ہیں،
حقیقت یہ ہے کہ یہ کفاّر غرور اور اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں
بلکہ کفار غرور ومخالفت میں پڑے ہوئے ہیں
آپ(ص) کی (نبوت برحق ہے) بلکہ وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ تکبر اور مخالفت میں مبتلا ہیں۔
كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍۢ فَنَادَوا۟ وَّلَاتَ حِينَ مَنَاصٍۢ ﴿٣﴾
ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کر دی ہیں سو انہوں نے بڑی ہائے پکار کی اور وہ وقت خلاصی کا نہ تھا
اِن سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں (اور جب اُن کی شامت آئی ہے) تو وہ چیخ اٹھے ہیں، مگر وہ وقت بچنے کا نہیں ہوتا
ہم نے ان سے پہلے کتنی سنگتیں کھپائیں تو اب وہ پکاریں اور چھوٹنے کا وقت نہ تھا
ہم نے ان سے پہلے بہت سی اُمتوں کو ہلاک کردیا تو وہ (عذاب کے وقت) لگے فریاد کرنے اور وہ رہائی کا وقت نہیں تھا
ہم نے کتنی ہی امّتوں کو اُن سے پہلے ہلاک کر دیا تو وہ (عذاب کو دیکھ کر) پکارنے لگے حالانکہ اب خلاصی (اور رہائی) کا وقت نہیں رہا تھا،
ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلوں کو تباہ کردیا ہے پھر انہوں نے فریاد کی لیکن کوئی چھٹکارا ممکن نہیں تھا
ہم نے ان سے پہلے بھی بہت سی امتوں کو تباه کر ڈاﻻ انہوں نے ہر چند چیﺦ وپکار کی لیکن وه وقت چھٹکارے کا نہ تھا
ہم نے ان سے پہلے کتنی قومیں ہلاک کر دیں۔ پس (عذاب کے وقت) وہ پکارنے لگیں مگر وہ وقت خلاصی کا نہ تھا۔
وَعَجِبُوٓا۟ أَن جَآءَهُم مُّنذِرٌۭ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ ٱلْكَٰفِرُونَ هَٰذَا سَٰحِرٌۭ كَذَّابٌ ﴿٤﴾
اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہیں میں سے ڈرانے والا آیا اور منکروں نے کہا کہ یہ تو ایک بڑا جھوٹا جادوگر ہے
اِن لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود اِنہی میں سے آگیا منکرین کہنے لگے کہ \"یہ ساحرہے، سخت جھوٹا ہے
اور انہیں اس کا اچنبھا ہوا کہ ان کے پاس انہیں میں کا ایک ڈر سنانے والا تشریف لایا اور کافر بولے یہ جادوگر ہے بڑا جھوٹا،
اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس ان ہی میں سے ہدایت کرنے والا آیا اور کافر کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر ہے جھوٹا
اور انہوں نے اس بات پر تعجب کیا کہ ان کے پاس اُن ہی میں سے ایک ڈر سنانے والا آگیا ہے۔ اور کفّار کہنے لگے: یہ جادوگر ہے، بہت جھوٹا ہے،
اور انہیں تعجب ہے کہ ان ہی میں سے کوئی ڈرانے والا کیسے آگیا اور کافروں نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے
اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان ہی میں سے ایک انہیں ڈرانے واﻻ آگیا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے
اور وہ اس بات پر تعجب کر رہے ہیں کہ ان کے پاس ایک ڈرانے والا (پیغمبر(ص)) انہی میں سے آیا ہے اور کافر کہتے ہیں کہ یہ (شخص) جادوگر (اور) بڑا جھوٹا ہے۔
أَجَعَلَ ٱلْءَالِهَةَ إِلَٰهًۭا وَٰحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ عُجَابٌۭ ﴿٥﴾
کیا اس نے کئی معبودوں کو صرف ایک معبود بنایا ہے بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے
کیا اِس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے\"
کیا اس نے بہت خداؤں کا ایک خدا کردیا بیشک یہ عجیب بات ہے،
کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے
کیا اس نے سب معبودوں کو ایک ہی معبود بنا رکھا ہے؟ بے شک یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے،
کیا اس نے سارے خداؤں کو جوڑ کر ایک خدا بنادیا ہے یہ تو انتہائی تعجب خیز بات ہے
کیا اس نےاتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے
کیا اس نے بہت سے خداؤں کو ایک خدا بنا دیا؟ بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے۔
وَٱنطَلَقَ ٱلْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ ٱمْشُوا۟ وَٱصْبِرُوا۟ عَلَىٰٓ ءَالِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌۭ يُرَادُ ﴿٦﴾
اور ان میں سے سردار یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو بے شک اس میں کچھ غرض ہے
اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ \"چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جا رہی ہے
اور ان میں کے سردار چلے کہ اس کے پاس سے چل دو اور اپنے خداؤں پر صابر رہو بیشک اس میں اس کا کوئی مطلب ہے،
تو ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے (اور بولے) کہ چلو اور اپنے معبودوں (کی پوجا) پر قائم رہو۔ بےشک یہ ایسی بات ہے جس سے (تم پر شرف وفضلیت) مقصود ہے
اور اُن کے سردار (ابوطالب کے گھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کر) چل کھڑے ہوئے (باقی لوگوں سے) یہ کہتے ہوئے کہ تم بھی چل پڑو، اور اپنے معبودوں (کی پرستش) پر ثابت قدم رہو، یہ ضرور ایسی بات ہے جس میں کوئی غرض (اور مراد) ہے،
اور ان میں سے ایک گروہ یہ کہہ کر چل دیا چلو اپنے خداؤں پر قائم رہو کہ اس میں ان کی کوئی غرض پائی جاتی ہے
ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چلے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے رہو، یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض ہے
اور ان کے بڑے لوگ (سردار) یہ کہتے ہوئے (آپ(ص) کے پاس سے) اٹھ کھڑے ہوئے (اور قوم سے کہا) چلو اور اپنے معبودوں (کی عبادت) پر صبر و ثبات سے قائم رہو (ڈٹے رہو) یقیناً اس بات میں (اس شخص کی) کوئی غرض ہے۔
مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِى ٱلْمِلَّةِ ٱلْءَاخِرَةِ إِنْ هَٰذَآ إِلَّا ٱخْتِلَٰقٌ ﴿٧﴾
ہم نے یہ بات اپنے پچھلے دین میں نہیں سنی یہ تو ایک بنائی ہوئی بات ہے
یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات
یہ تو ہم نے سب سے پہلے دینِ نصرانیت میں بھی نہ سنی یہ تو نری نئی گڑھت ہے،
یہ پچھلے مذہب میں ہم نے کبھی سنی ہی نہیں۔ یہ بالکل بنائی ہوئی بات ہے
ہم نے اس (عقیدۂ توحید) کو آخری ملّتِ (نصرانی یا مذہبِ قریش) میں بھی نہیں سنا، یہ صرف خود ساختہ جھوٹ ہے،
ہم نے تو اگلے دور کی امتوّں میں یہ باتیں نہیں سنی ہیں اور یہ کوئی خود ساختہ بات معلوم ہوتی ہے
ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی، کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے
ہم نے تو یہ بات (کسی) پچھلے مذہب (عیسائیت) میں (بھی) نہیں سنی یہ تو محض ایک من گھڑت بات ہے۔
أَءُنزِلَ عَلَيْهِ ٱلذِّكْرُ مِنۢ بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِى شَكٍّۢ مِّن ذِكْرِى ۖ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا۟ عَذَابِ ﴿٨﴾
کیا ہم میں سے اسی پر نصیحت اتاری گئی بلکہ انہیں تو میری نصیحت میں بھی شک ہے بلکہ انہوں نے میرا ابھی عذاب بھی نہیں چکھا
کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کر دیا گیا؟\" اصل بات یہ ہے کہ یہ میرے \"ذکر\"پر شک کر رہے ہیں، اور یہ ساری باتیں اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزا چکھا نہیں ہے
کیا ان پر قرآن اتارا گیا ہم سب میں سے بلکہ وہ شک میں ہیں میری کتاب سے بلکہ ابھی میری مار نہیں چکھی ہے
کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت (کی کتاب) اُتری ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ میری نصیحت کی کتاب سے شک میں ہیں۔ بلکہ انہوں نے ابھی میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا
کیا ہم سب میں سے اسی پر یہ ذکر (یعنی قرآن) اتارا گیا ہے؟ بلکہ وہ میرے ذکر کی نسبت شک میں (گرفتار) ہیں، بلکہ انہوں نے ابھی میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا،
کیا ہم سب کے درمیان تنہا ا ن ہی پر کتاب نازل ہوگئی ہے حقیقت یہ ہے کہ انہیں ہماری کتاب میں شک ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ ابھی انہوں نے عذاب کا مزہ ہی نہیں چکھا ہے
کیا ہم سب میں سے اسی پر کلام الٰہی نازل کیا گیا ہے؟ دراصل یہ لوگ میری وحی کی طرف سے شک میں ہیں، بلکہ (صحیح یہ ہے کہ) انہوں نے اب تک میرا عذاب چکھا ہی نہیں
کیا ہم میں سے صرف اسی شخص پر الذکر (قرآن) اتارا گیا ہے؟ دراصل یہ لوگ میرے ذکر (کتاب) کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں بلکہ انہوں نے ابھی میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔
أَمْ عِندَهُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ ٱلْعَزِيزِ ٱلْوَهَّابِ ﴿٩﴾
کیا ان کے پاس تیرے خدائے غالب فیاض کی رحمت کے خزانے ہیں
کیا تیرے داتا اور غالب پروردگار کی رحمت کے خزانے اِن کے قبضے میں ہیں؟
کیا وہ تمہارے رب کی رحمت کے خزانچی ہیں وہ عزت والا بہت عطا فرمانے والا ہے
کیا ان کے پاس تمہارے پروردگار کی رحمت کے خزانے ہیں جو غالب اور بہت عطا کرنے والا ہے
کیا ان کے پاس آپ کے رب کی رحمت کے خزانے ہیں جو غالب ہے بہت عطا فرمانے والا ہے؟،
کیا ان کے پاس آپ کے صاحبِ عزت و عطا پروردگار کی رحمت کا کوئی خزانہ ہے
یا کیا ان کے پاس تیرے زبردست فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں
کیا تمہارے غالب اور فیاض پروردگار کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں؟
أَمْ لَهُم مُّلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا۟ فِى ٱلْأَسْبَٰبِ ﴿١٠﴾
یا انہیں آسمانوں اور زمین کی حکومت اور جو کچھ ان کے درمیان ہے حاصل ہے تو سیڑھیاں لگا کر چڑھ جائیں
کیا یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کے مالک ہیں؟ اچھا تو یہ عالم اسباب کی بلندیوں پر چڑھ کر دیکھیں!
کیا ان کے لیے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، تو رسیاں لٹکا کر چڑھ نہ جائیں
یا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان (سب) پر ان ہی کی حکومت ہے۔ تو چاہیئے کہ رسیاں تان کر (آسمانوں) پر چڑھ جائیں
یا اُن کے پاس آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ اِن دونوں کے درمیان ہے اس کی بادشاہت ہے؟ (اگر ہے) تو انہیں چاہئے کہ رسّیاں باندھ کر (آسمان پر) چڑھ جائیں،
یا ان کے پاس زمین و آسمان اور اس کے مابین کا اختیار ہے تو یہ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائیں
یا کیا آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کی بادشاہت ان ہی کی ہے، تو پھر یہ رسیاں تان کر چڑھ جائیں
یا کیا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کی حکومت ان کیلئے ہے (اگر ایسا ہے) تو پھر انہیں چاہیے کہ سیڑھیاں لگا کر چڑھ جائیں۔
جُندٌۭ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُومٌۭ مِّنَ ٱلْأَحْزَابِ ﴿١١﴾
وہاں ان کے لشکر شکست پائیں گے
یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اِسی جگہ شکست کھانے والا ہے
یہ ایک ذلیل لشکر ہے انہیں لشکروں میں سے جو وہیں بھگادیا جائے گا
یہاں شکست کھائے ہوئے گروہوں میں سے یہ بھی ایک لشکر ہے
(کفّار کے) لشکروں میں سے یہ ایک حقیر سا لشکر ہے جو اسی جگہ شکست خوردہ ہونے والا ہے،
تمام گروہوں میں سے ایک گروہ یہاں بھی شکست کھانے والا ہے
یہ بھی (بڑے بڑے) لشکروں میں سے شکست پایا ہوا (چھوٹا سا) لشکر ہے
یہ (کفار کے) لشکروں میں سے ایک لشکر ہے جسے وہاں (بمقامِ بدر) شکست ہوگی۔
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍۢ وَعَادٌۭ وَفِرْعَوْنُ ذُو ٱلْأَوْتَادِ ﴿١٢﴾
ان سے پہلے قوم نوح اور عاد اور میخوں والا فرعون
اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور عاد، اور میخوں والا فرعون
ان سے پہلے جھٹلا چکے ہیں نوح کی قوم اور عاد اور چومیخا کرنے والے فرعون
ان سے پہلے نوح کی قوم اور عاد اور میخوں والا فرعون (اور اس کی قوم کے لوگ) بھی جھٹلا چکے ہیں
اِن سے پہلے قومِ نوح نے اور عاد نے اور بڑی مضبوط حکومت والے (یا میخوں سے اذیّت دینے والے) فرعون نے (بھی) جھٹلایا تھا،
اس سے پہلے قوم نوح علیھ السّلام قوم عاد علیھ السّلام اور میخوں والا فرعون سب گزر چکے ہیں
ان سے پہلے بھی قوم نوح اور عاد اور میخوں والے فرعون نے جھٹلایا تھا
اور ان سے پہلے قومِ نوح و عاد اور میخوں والا فرعون۔
وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍۢ وَأَصْحَٰبُ لْـَٔيْكَةِ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلْأَحْزَابُ ﴿١٣﴾
اور ثمود اور لوط کی قوم اور بن والے بھی جھٹلا چکے ہیں یہی وہ لشکر ہیں
اور ثمود، اور قوم لوط، اور اَیکہ والے جھٹلا چکے ہیں جتھے وہ تھے
اور ثمود اور لوط کی قوم اور بن والے یہ ہیں وہ گروہ
اور ثمود اور لوط کی قوم اور بن کے رہنے والے بھی۔ یہی وہ گروہ ہیں
اور ثمود نے اور قومِ لوط نے اور اَیکہ (بَن) کے رہنے والوں نے (یعنی قومِ شعیب نے) بھی (جھٹلایا تھا)، یہی وہ بڑے لشکر تھے،
اور ثمود, قوم لوط علیھ السّلام, جنگل والے لوگ یہ سب گروہ گزر چکے ہیں
اور ﺛمود نے اور قوم لوط نے اور ایکہ کے رہنے والوں نے بھی، یہی (بڑے) لشکر تھے
اور ثمود اور قومِ لوط(ع) اور ایکہ والے (اپنے نبیوں کو) جھٹلا چکے ہیں یہ لوگ بڑے بڑے گروہ تھے۔
إِن كُلٌّ إِلَّا كَذَّبَ ٱلرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ ﴿١٤﴾
ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تھا پس میرا عذاب آ موجود ہوا
ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا اور میری عقوبت کا فیصلہ اس پر چسپاں ہو کر رہا
ان میں کوئی ایسا نہیں جس نے رسولوں کو نہ جھٹلایا ہو تو میرا عذاب لازم ہوا
(ان) سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا تو میرا عذاب (ان پر) آ واقع ہوا
(اِن میں سے) ہر ایک گروہ نے رسولوں کو جھٹلایا تو (اُن پر) میرا عذاب واجب ہو گیا،
ان میں سے ہر ایک نے رسول کی تکذیب کی تو ان پر ہمارا عذاب ثابت ہوگیا
ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے رسولوں کی تکذیب نہ کی ہو پس میری سزا ان پر ﺛابت ہوگئی
ان سب نے رسولوں(ع) کو جھٹلایا تو ہمارے عذاب کے مستوجب ہوئے۔
وَمَا يَنظُرُ هَٰٓؤُلَآءِ إِلَّا صَيْحَةًۭ وَٰحِدَةًۭ مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍۢ ﴿١٥﴾
اور یہ ایک ہی چیخ کے منتظر ہیں جسے کچھ دیر نہیں لگے گی
یہ لوگ بھی بس ایک دھماکے کے منتظر ہیں جس کے بعد کوئی دوسرا دھماکا نہ ہوگا
اور یہ راہ نہیں دیکھتے مگر ایک چیخ کی جسے کوئی پھیر نہیں سکتا،
اور یہ لوگ تو صرف ایک زور کی آواز کا جس میں (شروع ہوئے پیچھے) کچھ وقفہ نہیں ہوگا، انتظار کرتے ہیں
اور یہ سب لوگ ایک نہایت سخت آواز (چنگھاڑ) کا انتظار کر رہے ہیں جس میں کچھ بھی توقّف نہ ہوگا،
یہ صرف اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ ایک ایسی چنگھاڑ بلند ہوجائے جس سے ادنیٰ مہلت بھی نہ مل سکے
انہیں صرف ایک چیﺦ کا انتظار ہے جس میں کوئی توقف (اور ڈھیل) نہیں ہے
اور یہ لوگ بس ایک چنگھاڑ (دوسری نَفَخ) کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد کچھ دیر نہ ہوگی۔
وَقَالُوا۟ رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ ٱلْحِسَابِ ﴿١٦﴾
اور کہتے ہیں اے رب ہمارے! ہمارا حصہ ہمیں حساب کے دن سے پہلے ہی دے دے
اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، یوم الحساب سے پہلے ہی ہمارا حصہ ہمیں جلدی سے دے دے
اور بولے اے ہمارے رب ہمارا حصہ ہمیں جلد دے دے حساب کے دن سے پہلے
اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ہمارا حصہ حساب کے دن سے پہلے ہی دے دے
اور وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! روزِ حساب سے پہلے ہی ہمارا حصّہ ہمیں جلد دے دے،
اور یہ کہتے ہیں کہ پروردگار ہمارا قسمت کا لکھا ہوا روزِ حساب سے پہلے ہی ہمیں دیدے
اور انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب! ہماری سرنوشت تو ہمیں روز حساب سے پہلے ہی دے دے
اور وہ (ازراہِ مذاق) کہتے ہیں کہ ہمارے پروردگار کے (عذاب میں سے) ہمارا حصہ ہمیں حساب کے دن (قیامت) سے پہلے دے دے۔
ٱصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَٱذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُۥدَ ذَا ٱلْأَيْدِ ۖ إِنَّهُۥٓ أَوَّابٌ ﴿١٧﴾
ان کی اِن باتوں پر صبر کر اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کر جو بڑا طاقتور تھا بے شک وہ رجوع کرنے والا تھا
اے نبیؐ، صبر کرو اُن باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں، اور اِن کے سامنے ہمارے بندے داؤدؑ کا قصہ بیان کرو جو بڑی قوتوں کا مالک تھا ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا
تم ان کی باتوں پر صبر کرو اور ہمارے بندے داؤد نعمتوں والے کو یاد کرو بیشک وہ بڑا رجوع کرنے والا ہے
(اے پیغمبر) یہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کرو۔ اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو جو صاحب قوت تھے (اور) بےشک وہ رجوع کرنے والے تھے
(اے حبیبِ مکرّم!) جو کچھ وہ کہتے ہیں آپ اس پر صبر جاری رکھیئے اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کا ذکر کریں جو بڑی قوت والے تھے، بے شک وہ (ہماری طرف) بہت رجوع کرنے والے تھے،
آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد علیھ السّلام کو یاد کریں جو صاحب طاقت بھی تھے اور بیحد رجوع کرنے والے بھی تھے
آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کریں جو بڑی قوت واﻻ تھا، یقیناً وه بہت رجوع کرنے واﻻ تھا
(اے میرے رسول(ص)) جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کیجئے! اور ہمارے بندے داؤد(ع) کو یاد کیجئے جو قوت والے تھے بے شک وہ ہر معاملہ میں (اللہ کی طرف) بڑے رجوع کرنے والے تھے۔
إِنَّا سَخَّرْنَا ٱلْجِبَالَ مَعَهُۥ يُسَبِّحْنَ بِٱلْعَشِىِّ وَٱلْإِشْرَاقِ ﴿١٨﴾
بے شک ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر دیا تھا کہ وہ شام اور صبح کو تسبیح کرتے تھے
ہم نے پہاڑوں کو اس کے ساتھ مسخر کر رکھا تھا کہ صبح و شام وہ اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے
بیشک ہم نے اس کے ساتھ پہاڑ مسخر فرمادیے کہ تسبیح کرتے شام کو اور سورج چمکتے
ہم نے پہاڑوں کو ان کے زیر فرمان کردیا تھا کہ صبح وشام ان کے ساتھ (خدائے) پاک (کا) ذکر کرتے تھے
بے شک ہم نے پہاڑوں کو اُن کے زیرِ فرمان کر دیا تھا، جو (اُن کے ساتھ مل کر) شام کو اور صبح کو تسبیح کیا کرتے تھے،
ہم نے ان کے لئے پہاڑوں کو لَسّخر کردیا تھا کہ ان کے ساتھ صبح و شام تسبیح پروردگار کریں
ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر رکھا تھا کہ اس کے ساتھ شام کو اور صبح کو تسبیح خوانی کریں
ہم نے پہاڑوں کو ان کے ساتھ مسخر کر دیا تھا جو شام اور صبح کے وقت ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔
وَٱلطَّيْرَ مَحْشُورَةًۭ ۖ كُلٌّۭ لَّهُۥٓ أَوَّابٌۭ ﴿١٩﴾
اور پرندوں کو بھی جو جمع ہوجاتے تھے ہر ایک اس کے تابع تھا
پرندے سمٹ آتے اور سب کے سب اُس کی تسبیح کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے
اور پرندے جمع کیے ہوئے سب اس کے فرمانبردار تھے
اور پرندوں کو بھی کہ جمع رہتے تھے۔ سب ان کے فرمانبردار تھے
اور پرندوں کو بھی جو (اُن کے پاس) جمع رہتے تھے، ہر ایک ان کی طرف (اطاعت کے لئے) رجوع کرنے والا تھا،
اور پرندوں کو ان کے گرد جمع کردیا تھا سب ان کے فرمانبردار تھے
اور پرندوں کو بھی جمع ہو کر سب کے سب اس کے زیر فرمان رہتے
اور پرندوں کو بھی (جو تسبیح کے وقت) جمع ہو جاتے تھے (اور) سب (پہاڑ و پرند) ان کے فرمانبردار تھے (اور ان کی آواز پر آواز ملاتے تھے)۔
وَشَدَدْنَا مُلْكَهُۥ وَءَاتَيْنَٰهُ ٱلْحِكْمَةَ وَفَصْلَ ٱلْخِطَابِ ﴿٢٠﴾
اورہم نے اس کی سلطنت کو مضبوھ کر دیا تھا اور ہم نے اسے نبوت دی تھی اور مقدمات کے فیصلے کرنے کا سلیقہ (دیا تھا)
ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کر دی تھے، اس کو حکمت عطا کی تھے اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بخشی تھی
اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کیا اور اسے حکمت اور قولِ فیصل دیا
اور ہم نے ان کی بادشاہی کو مستحکم کیا اور ان کو حکمت عطا کی اور (خصومت کی) بات کا فیصلہ (سکھایا)
اور ہم نے اُن کے ملک و سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور ہم نے انہیں حکمت و دانائی اور فیصلہ کن اندازِ خطاب عطا کیا تھا،
اور ہم نے ان کے ملک کو مضبوط بنادیا تھا اور انہیں حکمت اور صحیح فیصلہ کی قوت عطا کردی تھی
اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور اسے حکمت دی تھی اور بات کا فیصلہ کرنا
اور ہم نے ان کی حکومت کو مضبوط کر دیا تھا اور ان کو حکمت و دانائی اور فیصلہ کُن بات کرنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔
۞ وَهَلْ أَتَىٰكَ نَبَؤُا۟ ٱلْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا۟ ٱلْمِحْرَابَ ﴿٢١﴾
اور کیا آپ کو دو جھگڑنے والوں کی خبر بھی پہنچی جب وہ عبادت خانہ کی دیوار پھاند کر آئے
پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے اُن مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اُس کے بالا خانے میں گھس آئے تھے؟
اور کیا تمہیں اس دعوے والوں کی بھی خبر آئی جب وہ دیوار کود کر داؤد کی مسجد میں آئے
بھلا تمہارے پاس ان جھگڑنے والوں کی بھی خبر آئی ہے جب وہ دیوار پھاند کر عبادت خانے میں داخل ہوئے
اور کیا آپ کے پاس جھگڑنے والوں کی خبر پہنچی؟ جب وہ دیوار پھاند کر (داؤد علیہ السلام کی) عبادت گاہ میں داخل ہو گئے،
اور کیا آپ کے پاس ان جھگڑا کرنے والوں کی خبر آئی ہے جو محراب کی دیوار پھاند کر آگئے تھے
اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی (بھی) خبر ملی؟ جبکہ وه دیوار پھاند کر محراب میں آگئے
(اے رسول(ص)) کیا آپ تک مقدمہ والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر (ان کے) محرابِ عبادت میں داخل ہوگئے۔
إِذْ دَخَلُوا۟ عَلَىٰ دَاوُۥدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ ۖ قَالُوا۟ لَا تَخَفْ ۖ خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍۢ فَٱحْكُم بَيْنَنَا بِٱلْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَٱهْدِنَآ إِلَىٰ سَوَآءِ ٱلصِّرَٰطِ ﴿٢٢﴾
جب وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرایا کہا ڈر نہیں دو جھگڑنے والے ہیں ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے پس آپ ہمارے درمیا ن انصاف کا فیصلہ کیجیئے اور بات کو دور نہ ڈالیئے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلائیے
جب وہ داؤدؑ کے پاس پہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر گھبرا گیا انہوں نے کہا \"ڈریے نہیں، ہم دو فریق مقدمہ ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجیے، بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں راہ راست بتائیے
جب وہ داؤد پر داخل ہوئے تو وہ ان سے گھبرا گیا انہوں نے عرض کی ڈریے نہیں ہم دو فریق ہیں کہ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے تو ہم میں سچا فیصلہ فرمادیجئے اور خلافِ حق نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ بتایے،
جس وقت وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرا گئے انہوں نے کہا کہ خوف نہ کیجیئے۔ ہم دونوں کا ایک مقدمہ ہے کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے تو آپ ہم میں انصاف کا فیصلہ کر دیجیئے اور بےانصافی نہ کیجیئے گا اور ہم کو سیدھا رستہ دکھا دیجیئے
جب وہ داؤد (علیہ السلام) کے پاس اندر آگئے تو وہ اُن سے گھبرائے، انہوں نے کہا: گھبرائیے نہیں، ہم (ایک) مقدّمہ میں دو فریق ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔ آپ ہمارے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیں اور حد سے تجاوز نہ کریں اور ہمیں سیدھی راہ کی طرف رہبری کر دیں،
کہ جب وہ داؤد علیھ السّلام کے سامنے حاضر ہوئے تو انہوں نے خوف محسوس کیا اور ان لوگوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں ہم دو فریق ہیں جس میں ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے آپ حق کے ساتھ فیصلہ کردیں اور ناانصافی نہ کریں اور ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت کردیں
جب یہ (حضرت) داؤد (علیہ السلام) کے پاس پہنچے، پس یہ ان سے ڈر گئے، انہوں نے کہا خوف نہ کیجئے! ہم دو فریق مقدمہ ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، پس آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے اور ناانصافی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راه بتا دیجئے
جب وہ اس طرح (اچانک اندر) جنابِ داؤد(ع) کے پاس پہنچ گئے تو وہ ان سے گھبرا گئے انہوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں ہم دو فریقِ مقدمہ ہیں ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے اور بے انصافی نہ کیجئے اور راہِ راست کی طرف ہماری راہنمائی کیجئے۔
إِنَّ هَٰذَآ أَخِى لَهُۥ تِسْعٌۭ وَتِسْعُونَ نَعْجَةًۭ وَلِىَ نَعْجَةٌۭ وَٰحِدَةٌۭ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِى فِى ٱلْخِطَابِ ﴿٢٣﴾
بے شک یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے پس اس نے کہا مجھے وہ بھی دے دے اور اس نے مجھے گفتگو میں دبا لیا ہے
یہ میرا بھائی ہے، اِس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی دُنبی ہے اِس نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک دنبی بھی میرے حوالے کر دے اور اس نے گفتگو میں مجھے دبا لیا\"
بیشک یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دُنبی، اب یہ کہتا ہے وہ بھی مجھے حوالے کردے اور بات میں مجھ پر زور ڈالتا ہے،
(کیفیت یہ ہے کہ) یہ میرا بھائی ہے اس کے (ہاں) ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے (پاس) ایک دُنبی ہے۔ یہ کہتا ہے کہ یہ بھی میرے حوالے کردے اور گفتگو میں مجھ پر زبردستی کرتا ہے
بے شک یہ میرا بھائی ہے، اِس کی ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دُنبی ہے، پھر کہتا ہے یہ (بھی) میرے حوالہ کر دو اور گفتگو میں (بھی) مجھے دبا لیتا ہے،
یہ ہمارا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے رَنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے یہ کہتا ہے کہ وہ بھی میرے حوالے کردے اور اس بات میں سختی سے کام لیتا ہے
(سنیے) یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس نناوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے لیکن یہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ اپنی یہ ایک بھی مجھ ہی کو دے دے اور مجھ پر بات میں بڑی سختی برتتا ہے
(وجۂ نزاع یہ ہے کہ) یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے اس پر بھی وہ کہتا ہے کہ یہ ایک دنبی بھی میرے حوالے کر دے اور گفتگو میں مجھے دباتا ہے۔
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِۦ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلْخُلَطَآءِ لَيَبْغِى بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَقَلِيلٌۭ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُۥدُ أَنَّمَا فَتَنَّٰهُ فَٱسْتَغْفَرَ رَبَّهُۥ وَخَرَّ رَاكِعًۭا وَأَنَابَ ۩ ﴿٢٤﴾
کہا البتہ اس نے تجھ پر ظلم کیا جو تیری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملانے کا سوال کیا گور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کیا کرتے ہیں مگر جو ایماندار ہیں اور انہوں نے نیک کام بھی کیے اور وہ بہت ہی کم ہیں اور داؤد سمجھ گیا کہ ہم نے اسے آزمایا ہے پھر اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدہ میں گر پڑا اور توبہ کی
داؤدؑ نے جواب دیا: \"اِس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقیناً تجھ پر ظلم کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں\" (یہ بات کہتے کہتے) داؤدؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا
داؤد نے فرمایا بیشک یہ تجھ پر زیادتی کرتا ہے کہ تیری دُنبی اپنی دُنبیوں میں ملانے کو مانگتا ہے، اور بیشک اکثر ساجھے والے ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور وہ بہت تھوڑے ہیں اب داؤد سمجھا کہ ہم نے یہ اس کی جانچ کی تھی تو اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر پڑا اور رجوع لایا، (السجدة ۱۰)
انہوں نے کہا کہ یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملالے بےشک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔ اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔ ہاں جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ اور داؤد نے خیال کیا کہ (اس واقعے سے) ہم نے ان کو آزمایا ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت مانگی اور جھک کر گڑ پڑے اور (خدا کی طرف) رجوع کیا
داؤد (علیہ السلام) نے کہا: تمہاری دُنبی کو اپنی دُنبیوں سے ملانے کا سوال کر کے اس نے تم سے زیادتی کی ہے اور بیشک اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ اور داؤد (علیہ السلام) نے خیال کیا کہ ہم نے (اس مقدّمہ کے ذریعہ) اُن کی آزمائش کی ہے، سو انہوں نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی اور سجدہ میں گر پڑے اور توبہ کی،
داؤد علیھ السّلام نے کہا کہ اس نے تمہاری رَنبی کا سوال کرکے تم پر ظلم کیاہے اور بہت سے شرکائ ایسے ہی ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے پر ظلم کرتا ہے علاوہ ان لوگوں کے جو صاحبان هایمان و عمل صالح ہیں اور وہ بہت کم ہیں .... اور داؤد علیھ السّلام نے یہ خیال کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا ہے لہٰذا انہوں نے اپنے رب سے استغفار کیا اور سجدہ میں گر پڑے اور ہماری طرف سراپا توجہ بن گئے
آپ نے فرمایا! اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ﻇلم ہے اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہی ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پر ﻇلم کرتے ہیں، سوائے ان کے جو ایمان ﻻئے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں اور (حضرت) داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور (پوری طرح) رجوع کیا
داؤد(ع) نے کہا اس شخص نے اتنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملانے کا مطالبہ کرکے تجھ پر ظلم کیا ہے اور اکثر شرکاء اسی طرح ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے ان کے جو ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت کم ہیں اور (یہ بات کہتے ہوئے) داؤد (ع) نے خیال کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کی اور اس کے حضور جھک گئے اور توبہ و انابہ کرنے لگے۔
فَغَفَرْنَا لَهُۥ ذَٰلِكَ ۖ وَإِنَّ لَهُۥ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَـَٔابٍۢ ﴿٢٥﴾
پھر ہم نے اس کی یہ غلطی معاف کر دی اور اس کے لیے ہمارے ہاں مرتبہ اور اچھا ٹھکانہ ہے
تب ہم نے اس کا وہ قصور معاف کیا اور یقیناً ہمارے ہاں اس کے لیے تقرب کا مقام اور بہتر انجام ہے
تو ہم نے اسے یہ معاف فرمایا، اور بیشک اس کے لیے ہماری بارگاہ میں ضرور قرب اور اچھا ٹھکانا ہے،
تو ہم نے ان کو بخش دیا۔ اور بےشک ان کے لئے ہمارے ہاں قرب اور عمدہ مقام ہے
تو ہم نے اُن کو معاف فرما دیا، اور بے شک اُن کے لئے ہماری بارگاہ میں قربِ خاص ہے اور (آخرت میں) اَعلیٰ مقام ہے،
تو ہم نے اس بات کو معاف کردیا اور ہمارے نزدیک ان کے لئے تقرب اور بہترین بازگشت ہے
پس ہم نے بھی ان کا وه (قصور) معاف کر دیا، یقیناً وه ہمارے نزدیک بڑے مرتبہ والے اور بہت اچھے ٹھکانے والے ہیں
اور ہم نے انہیں معاف کر دیا اور بے شک ان کیلئے ہمارے ہاں (خاص) تقرب اور اچھا انجام ہے۔
يَٰدَاوُۥدُ إِنَّا جَعَلْنَٰكَ خَلِيفَةًۭ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱحْكُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ بِٱلْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ ٱلْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌۭ شَدِيدٌۢ بِمَا نَسُوا۟ يَوْمَ ٱلْحِسَابِ ﴿٢٦﴾
اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں بادشاہ بنایا ہے پس تم لوگو ں میں انصاف سے فیصلہ کیا کرو اور نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں الله کی راہ سے ہٹا دے گی بے شک جو الله کی راہ سے گمراہ ہوتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اس لیے کہ وہ حساب کے دن کوبھول گئے
(ہم نے اس سے کہا) \"اے داؤدؑ، ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہش نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقیناً اُن کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے\"
اے داؤد بیشک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی، بیشک وہ جو اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اس پر کہ وہ حساب کے دن کو بھول بیٹھے
اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا ہے تو لوگوں میں انصاف کے فیصلے کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ خدا کے رستے سے بھٹکتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب (تیار) ہے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا
اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا سو تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے (یا حکومت) کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ورنہ (یہ پیروی) تمہیں راہِ خدا سے بھٹکا دے گی، بے شک جو لوگ اﷲ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اُن کے لئے سخت عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ یومِ حساب کو بھول گئے،
اے داؤد علیھ السّلامہم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنایا ہے لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راسِ خدا سے منحرف کردیں بیشک جو لوگ راہ هخدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے کہ انہوں نے روزِ حساب کو یکسر نظرانداز کردیا ہے
اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وه تمہیں اللہ کی راه سے بھٹکا دے گی، یقیناً جو لوگ اللہ کی راه سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اس لئے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے
اے داؤد(ع)! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے پس حق و انصاف کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کیا کرو اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی اور جو اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کیلئے سخت عذاب ہے اس لئے انہوں نے یوم الحساب (قیامت) کو بھلا دیا ہے۔
وَمَا خَلَقْنَا ٱلسَّمَآءَ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَٰطِلًۭا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۚ فَوَيْلٌۭ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنَ ٱلنَّارِ ﴿٢٧﴾
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے بیکار تو پیدا نہیں کیا یہ تو ان کا خیال ہے جو کافر ہیں پھرکافروں کے لیے ہلاکت ہے جو آگ ہے
ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کر دیا ہے یہ تو اُن لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے، اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار نہ بنائے، یہ کافروں کا گمان ہے تو کافروں کی خرابی ہے آگ سے،
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کائنات ان میں ہے اس کو خالی از مصلحت نہیں پیدا کیا۔ یہ ان کا گمان ہے جو کافر ہیں۔ سو کافروں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے
اور ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کائنات دونوں کے درمیان ہے اسے بے مقصد و بے مصلحت نہیں بنایا۔ یہ (بے مقصد یعنی اتفاقیہ تخلیق) کافر لوگوں کا خیال و نظریہ ہے۔ سو کافر لوگوں کے لئے آتشِ دوزخ کی ہلاکت ہے،
اور ہم نے آسمان اور زمین اور اس کے درمیان کی مخلوقات کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے یہ تو صرف کافروں کا خیال ہے اور کافروں کے لئے جہّنم میں ویل کی منزل ہے
اور ہم نے آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا، یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی۔
اور ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بے فائدہ پیدا نہیں کیا یہ ان لوگوں کا گمان ہے جو کافر ہیں پس کافروں کیلئے دوزخ کی بربادی ہے۔
أَمْ نَجْعَلُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ كَٱلْمُفْسِدِينَ فِى ٱلْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ ٱلْمُتَّقِينَ كَٱلْفُجَّارِ ﴿٢٨﴾
کیا ہم کردیں گے ان کو جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ان کی طرح جو زمین میں فساد کرتے ہیں یا ہم پرہیز گاروں کو بدکاروں کی طرح کر دیں گے
کیا ہم اُن لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں اور اُن کو جو زمین میں فساد کرنے والے ہیں یکساں کر دیں؟ کیا متقیوں کو ہم فاجروں جیسا کر دیں؟
کیا ہم انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان جیسا کردیں جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یا ہم پرہیزگاروں کو شریر بے حکموں کے برابر ٹھہرادیں
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے۔ کیا ان کو ہم ان کی طرح کر دیں گے جو ملک میں فساد کرتے ہیں۔ یا پرہیزگاروں کو بدکاروں کی طرح کر دیں گے
کیا ہم اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجا لائے اُن لوگوں جیسا کر دیں گے جو زمین میں فساد بپا کرنے والے ہیں یا ہم پرہیزگاروں کو بدکرداروں جیسا بنا دیں گے،
کیا ہم ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والوں کو زمین میں فساد برپا کرنے والوں جیسا قرار دیدیں یا صاحبانِ تقویٰ کو فاسق و فاجر افراد جیسا قرار دیدیں
کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دینگے؟
کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان لوگوں کی مانند بنا دیں گے جو زمین میں فساد کرتے ہیں؟ یا کیا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟
كِتَٰبٌ أَنزَلْنَٰهُ إِلَيْكَ مُبَٰرَكٌۭ لِّيَدَّبَّرُوٓا۟ ءَايَٰتِهِۦ وَلِيَتَذَكَّرَ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ ﴿٢٩﴾
ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی بڑی برکت والی تاکہ وہ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ عقلمند نصحیت حاصل کریں
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں
یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقلمند نصیحت مانیں،
(یہ) کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں
یہ کتاب برکت والی ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانش مند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں،
یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور صاحبانِ عقل نصیحت حاصل کریں
یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں
یہ وہ بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ عقل و فہم نصیحت حاصل کریں۔
وَوَهَبْنَا لِدَاوُۥدَ سُلَيْمَٰنَ ۚ نِعْمَ ٱلْعَبْدُ ۖ إِنَّهُۥٓ أَوَّابٌ ﴿٣٠﴾
اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا کیسا اچھا بندہ تھا بےشک وہ رجوع کرنے والا تھا
اور داؤدؑ کو ہم نے سلیمانؑ (جیسا بیٹا) عطا کیا، بہترین بندہ، کثرت سے اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا
اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا فرمایا، کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا
اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کئے۔ بہت خوب بندے (تھے اور) وہ (خدا کی طرف) رجوع کرنے والے تھے
اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو (فرزند) سلیمان (علیہ السلام) بخشا، وہ کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا ہے،
اور ہم نے داؤد علیھ السّلام کو سلیمان علیھ السّلام جیسا فرزند عطا کیا جو بہترین بندہ اور ہماری طرف رجوع کرنے والا تھا
اور ہم نے داؤد کو سلیمان (نامی فرزند) عطا فرمایا، جو بڑا اچھا بنده تھا اور بے حد رجوع کرنے واﻻ تھا
اور ہم نے داؤد(ع) کو سلیمان(ع) (جیسا بیٹا) عطا کیا وہ بہت اچھا بندہ (اور اللہ کی طرف) بڑا رجوع کرنے والا تھا۔
إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِٱلْعَشِىِّ ٱلصَّٰفِنَٰتُ ٱلْجِيَادُ ﴿٣١﴾
جب اس کے سامنے شام کے وقت تیز رو گھوڑے حاضر کیے گئے
قابل ذکر ہے وہ موقع جب شام کے وقت اس کے سامنے خوب سدھے ہوئے تیز رو گھوڑے پیش کیے گئے
جبکہ اس پر پیش کیے گئے تیسرے پہر کو کہ روکئے تو تین پاؤں پر کھڑے ہوں چوتھے سم کا کنارہ زمین پر لگائے ہوئے اور چلائے تو ہوا ہوجائیں
جب ان کے سامنے شام کو خاصے کے گھوڑے پیش کئے گئے
جب اُن کے سامنے شام کے وقت نہایت سُبک رفتار عمدہ گھوڑے پیش کئے گئے،
جب ان کے سامنے شام کے وقت بہترین اصیل گھوڑے پیش کئے گئے
جب ان کے سامنے شام کے وقت تیز رو خاصے گھوڑے پیش کیے گئے
(اور وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) جب شام (سہ پہر) کے وقت میں عمدہ گھوڑے (معائنہ کیلئے) ان پر پیش کئے گئے۔
فَقَالَ إِنِّىٓ أَحْبَبْتُ حُبَّ ٱلْخَيْرِ عَن ذِكْرِ رَبِّى حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِٱلْحِجَابِ ﴿٣٢﴾
تو کہا میں نے مال کی محبت کو یاد الہیٰ سے عزیز سمجھا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا
تو اس نے کہا \"میں نے اس مال کی محبت اپنے رب کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے\" یہاں تک کہ جب وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہو گئے
تو سلیمان نے کہا مجھے ان گھوڑوں کی محبت پسند آئی ہے اپنے رب کی یاد کے لیے پھر انہیں چلانے کا حکم دیا یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چھپ گئے
تو کہنے لگے کہ میں نے اپنے پروردگار کی یاد سے (غافل ہو کر) مال کی محبت اختیار کی۔ یہاں تک کہ (آفتاب) پردے میں چھپ گیا
تو انہوں نے (اِنابۃً) کہا: میں مال (یعنی گھوڑوں) کی محبت کو اپنے رب کے ذکر سے بھی (زیادہ) پسند کر بیٹھا ہوں یہاں تک کہ (سورج رات کے) پردے میں چھپ گیا،
تو انہوں نے کہا کہ میں ذکر خدا کی بنا پر خیر کو دوست رکھتا ہوں یہاں تک کہ وہ گھوڑے دوڑتے دوڑتے نگاہوں سے اوجھل ہوگئے
تو کہنے لگے میں نے اپنے پروردگار کی یاد پر ان گھوڑوں کی محبت کو ترجیح دی، یہاں تک کہ (آفتاب) چھﭗ گیا
تو انہوں نے کہا کہ میں مال (گھوڑوں) کی محبت میں اپنے پروردگار کی یاد سے غافل ہوگیا یہاں تک کہ وہ (آفتاب) پردہ میں چھپ گیا۔
رُدُّوهَا عَلَىَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًۢا بِٱلسُّوقِ وَٱلْأَعْنَاقِ ﴿٣٣﴾
ان کو میرے پاس لوٹا لاؤ پس پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار) پھیرنے لگا
تو (اس نے حکم دیا کہ) انہیں میرے پاس واپس لاؤ، پھر لگا ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے
پھر حکم دیا کہ انہیں میرے پاس واپس لاؤ تو ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگا
(بولے کہ) ان کو میرے پاس واپس لے آؤ۔ پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے
انہوں نے کہا: اُن (گھوڑوں) کو میرے پاس واپس لاؤ، تو انہوں نے (تلوار سے) اُن کی پنڈلیاں اور گردنیں کاٹ ڈالیں (یوں اپنی محبت کو اﷲ کے تقرّب کے لئے ذبح کر دیا)،
تو انہوں نے کہا کہ اب انہیں واپس پلٹاؤ اس کے بعد ان کی پنڈلیوں اور گردنوں کو ملنا شروع کردیا
ان (گھوڑوں) کو دوباره میرے سامنے ﻻؤ! پھر تو پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا
(حکم دیا) ان (گھوڑوں) کو میرے پاس واپس لاؤ اور وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے (قطع کرنا شروع کیا)۔
وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَٰنَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِۦ جَسَدًۭا ثُمَّ أَنَابَ ﴿٣٤﴾
اور ہم نے سلیمان کو آزمایا تھا اور اس کی کرسی پر ایک دھڑ ڈال دیا تھا پھر وہ رجوع ہوا
اور (دیکھو کہ) سلیمانؑ کو بھی ہم نے آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا پھر اس نے رجوع کیا
اور بیشک ہم نے سلیمان کو جانچا اور اس کے تخت پر ایک بے جان بدن ڈال دیا پھر رجوع لایا
اور ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور ان کے تخت پر ایک دھڑ ڈال دیا پھر انہوں نے (خدا کی طرف) رجوع کیا
اور بے شک ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کی (بھی) آزمائش کی اور ہم نے اُن کے تخت پر ایک (عجیب الخلقت) جسم ڈال دیا پھر انہوں نے دوبارہ (سلطنت) پا لی،
اور ہم نے سلیمان علیھ السّلام کا امتحان لیا جب ان کی کرسی پر ایک بے جان جسم کو ڈال دیا تو پھر انہوں نے خدا کی طرف توجہ کی
اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کی اور ان کے تخت پر ایک جسم ڈال دیا پھر اس نے رجوع کیا
اور ہم نے سلیمان(ع) کو (اس طرح) آزمائش میں ڈالا کہ ان کے تخت پر ایک (بے جان) جسم ڈال دیا پھر انہوں نے (ہماری طرف) رجوع کیا۔
قَالَ رَبِّ ٱغْفِرْ لِى وَهَبْ لِى مُلْكًۭا لَّا يَنۢبَغِى لِأَحَدٍۢ مِّنۢ بَعْدِىٓ ۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْوَهَّابُ ﴿٣٥﴾
کہا اے میرے رب! مجھے معاف کر اور مجھے ایسی حکومت عنایت فرما کہ کسی کو میرے بعد شایاں نہ ہو بے شک تو بہت بڑا عنایت کرنے والا ہے
اور کہا کہ \"اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو ہی اصل داتا ہے\"
عرض کی اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر کہ میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو بیشک تو ہی بڑی دین والا،
(اور) دعا کی کہ اے پروردگار مجھے مغفرت کر اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد کسی کو شایاں نہ ہو۔ بےشک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے
عرض کیا: اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو میسّر نہ ہو، بیشک تو ہی بڑا عطا فرمانے والا ہے،
اور کہا کہ پروردگار مجھے معاف فرما اور ایک ایسا ملک عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لئے سزاوار نہ ہو کہ تو بہترین عطا کرنے والا ہے
کہا کہ اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا فرما جو میرے سوا کسی (شخص) کے ﻻئق نہ ہو، تو بڑا ہی دینے واﻻ ہے
(اور) کہا اے میرے پروردگار مجھے معاف کر اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر جو میرے بعد کسی کیلئے زیبا نہ ہو۔ بیشک تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔
فَسَخَّرْنَا لَهُ ٱلرِّيحَ تَجْرِى بِأَمْرِهِۦ رُخَآءً حَيْثُ أَصَابَ ﴿٣٦﴾
پھر ہم نے ہوا کو اس کے تابع کر دیا کہ وہ اس کے حکم سے بڑی نرمی سے چلتی تھی جہاں اسے پہنچنا ہوتا تھا
تب ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا
تو ہم نے ہوا اس کے بس میں کردی کہ اس کے حکم سے نرم نرم چلتی جہاں وہ چاہتا،
پھر ہم نے ہوا کو ان کے زیرفرمان کردیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے ان کے حکم سے نرم نرم چلنے لگتی
پھر ہم نے اُن کے لئے ہوا کو تابع کر دیا، وہ اُن کے حکم سے نرم نرم چلتی تھی جہاں کہیں (بھی) وہ پہنچنا چاہتے،
تو ہم نے ہواؤں کو لَسخّر کردیا کہ ان ہی کے حکم سے جہاں جانا چاہتے تھے نرم رفتار سے چلتی تھیں
پس ہم نے ہوا کو ان کے ماتحت کر دیا اور آپ کے حکم سے جہاں آپ چاہتے نرمی سے پہنچا دیا کرتی تھی
اور ہم نے ان کیلئے ہوا کو مسخر کر دیا تھا جو ان کے حکم سے جہاں وہ چاہتے تھے آرام سے چلتی تھی۔
وَٱلشَّيَٰطِينَ كُلَّ بَنَّآءٍۢ وَغَوَّاصٍۢ ﴿٣٧﴾
اور شیطان کو جو سب معمار اور غوطہ زن تھے
اور شیاطین کو مسخر کر دیا، ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور
اور دیو بس میں کردیے ہر معمار اور غوطہ خور
اَور دیووں کو بھی (ان کے زیرفرمان کیا) وہ سب عمارتیں بنانے والے اور غوطہ مارنے والے تھے
اور کل جنّات (و شیاطین بھی ان کے تابع کر دیئے) اور ہر معمار اور غوطہ زَن (بھی)،
اور شیاطین میں سے تمام معماروں اور غوطہ خوروں کو تابع بنادیا
اور (طاقت ور) جنات کو بھی (ان کا ماتحت کر دیا) ہر عمارت بنانے والے کو اور غوطہ خور کو
اور شیاطین بھی (مسخر کر دیئے) جو کچھ معمار تھے اور اور کچھ غوطہ خور۔
وَءَاخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِى ٱلْأَصْفَادِ ﴿٣٨﴾
اور دوسروں کو جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے
اور دوسرے جو پابند سلاسل تھے
اور دوسرے اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے
اور اَوروں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے
اور دوسرے (جنّات) بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے،
اور ان شیاطین کو بھی جو سرکشی کی بنا پر زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے
اور دوسرے جنات کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے
اور ان کے علاوہ (کچھ ایسے سرکش بھی تھے) جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔
هَٰذَا عَطَآؤُنَا فَٱمْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍۢ ﴿٣٩﴾
یہ ہماری بخشش ہے پس احسان کر یا اپنے پاس رکھ کوئی حساب نہیں
(ہم نے اُس سے کہا) \"یہ ہماری بخشش ہے، تجھے اختیار ہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے، کوئی حساب نہیں\"
یہ ہماری عطا ہے اب تو چاہے تو احسان کر یا روک رکھ تجھ پر کچھ حساب نہیں،
(ہم نے کہا) یہ ہماری بخشش ہے (چاہو) تو احسان کرو یا (چاہو تو) رکھ چھوڑو (تم سے) کچھ حساب نہیں ہے
(ارشاد ہوا:) یہ ہماری عطا ہے (خواہ دوسروں پر) احسان کرو یا (اپنے تک) روکے رکھو (دونوں حالتوں میں) کوئی حساب نہیں،
یہ سب میری عطا ہے اب چاہے لوگوں کو دیدو یا اپنے پاس رکھو تم سے حساب نہ ہوگا اور ان کے لئے ہمارے یہاں تقرب کا درجہ ہے اور بہترین بازگشت ہے
یہ ہے ہمارا عطیہ اب تو احسان کر یا روک رکھ، کچھ حساب نہیں
یہ ہماری عطا ہے (آپ(ع) کو اختیار ہے) جسے چاہے عطا کر اور جس سے چاہے روک رکھ۔
وَإِنَّ لَهُۥ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَـَٔابٍۢ ﴿٤٠﴾
اور البتہ (سلیمان) کے لیے ہمارے پاس مرتبہ اورعمدہ مقام ہے
یقیناً اُس کے لیے ہمارے ہاں تقرب کا مقام اور بہتر انجام ہے
اور بیشک اس کے لیے ہماری بارگاہ میں ضرور قرب اور اچھا ٹھکانا ہے،
اور بےشک ان کے لئے ہمارے ہاں قُرب اور عمدہ مقام ہے
اور بے شک اُن کے لئے ہماری بارگاہ میں خصوصی قربت اور آخرت میں عمدہ مقام ہے،
یہ سب میری عطا ہے اب چاہے لوگوں کو دیدو یا اپنے پاس رکھو تم سے حساب نہ ہوگا اور ان کے لئے ہمارے یہاں تقرب کا درجہ ہے اور بہترین بازگشت ہے
ان کے لئے ہمارے پاس بڑا تقرب ہے اور بہت اچھا ٹھکانا ہے
اور بے شک ان (سلیمان(ع)) کیلئے ہمارے ہاں (خاص) قرب حاصل ہے اور بہتر انجام ہے۔
وَٱذْكُرْ عَبْدَنَآ أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُۥٓ أَنِّى مَسَّنِىَ ٱلشَّيْطَٰنُ بِنُصْبٍۢ وَعَذَابٍ ﴿٤١﴾
اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کر جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور عذاب پہنچایا ہے
اور ہمارے بندے ایوبؑ کا ذکر کرو، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے
اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا لگادی،
اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ (بار الہٰا) شیطان نے مجھ کو ایذا اور تکلیف دے رکھی ہے
اور ہمارے بندے ایّوب (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے بڑی اذیّت اور تکلیف پہنچائی ہے،
اور ہمارے بندے ایوب علیھ السّلام کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ شیطان نے مجھے بڑی تکلیف اور اذیت پہنچائی ہے
اور ہمارے بندے ایوب (علیہ السلام) کا (بھی) ذکر کر، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے
اور ہمارے بندۂ (خاص) ایوب(ع) کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سختی اور اذیت پہنچائی ہے۔
ٱرْكُضْ بِرِجْلِكَ ۖ هَٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌۭ وَشَرَابٌۭ ﴿٤٢﴾
اپنا پاؤں (زمین پر مار) یہ ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو ہے
(ہم نے اُسے حکم دیا) اپنا پاؤں زمین پر مار، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے کے لیے اور پینے کے لیے
ہم نے فرمایا زمین پر اپنا پاؤں مار یہ ہے ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو
(ہم نے کہا کہ زمین پر) لات مارو (دیکھو) یہ (چشمہ نکل آیا) نہانے کو ٹھنڈا اور پینے کو (شیریں)
(ارشاد ہوا:) تم اپنا پاؤں زمین پر مارو، یہ (پانی کا) ٹھنڈا چشمہ ہے نہانے کے لئے اور پینے کے لئے،
تو ہم نے کہا کہ زمین پر پیروں کو رگڑو دیکھو یہ نہانے اور پینے کے لئے بہترین ٹھنڈا پانی ہے
اپنا پاؤں مارو، یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے
(ہم نے حکم دیا کہ) اپنا پاؤں (زمین پر) مارو۔ یہ ٹھنڈا پانی ہے نہانے کیلئے اور پینے کیلئے۔
وَوَهَبْنَا لَهُۥٓ أَهْلَهُۥ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةًۭ مِّنَّا وَذِكْرَىٰ لِأُو۟لِى ٱلْأَلْبَٰبِ ﴿٤٣﴾
اور ہم نے ان کو ان کے اہل و عیال اور کتنے ہی اور بھی اپنی مہربانی سے عنایت فرمائے اور عقلمندوں کے لیے نصیحت ہے
ہم نے اُسے اس کے اہل و عیال واپس دیے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور، اپنی طرف سے رحمت کے طور پر، اور عقل و فکر رکھنے والوں کے لیے درس کے طور پر
اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے برابر اور عطا فرمادیے اپنی رحمت کرنے اور عقلمندوں کی نصیحت کو،
اور ہم نے ان کو اہل و عیال اور ان کے ساتھ ان کے برابر اور بخشے۔ (یہ) ہماری طرف سے رحمت اور عقل والوں کے لئے نصیحت تھی
اور ہم نے اُن کو اُن کے اہل و عیال اور اُن کے ساتھ اُن کے برابر (مزید اہل و عیال) عطا کر دیئے، ہماری طرف سے خصوصی رحمت کے طور پر، اور دانش مندوں کے لئے نصیحت کے طور پر،
اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال عطا کردیئے اور اتنے ہی اور بھی دیدئے یہ ہماری رحمت اور صاحبانِ عقل کے لئے عبرت و نصیحت ہے
اور ہم نے اسے اس کا پورا کنبہ عطا فرمایا بلکہ اتنا ہی اور بھی اسی کے ساتھ اپنی (خاص) رحمت سے، اور عقلمندوں کی نصیحت کے لئے
اور ہم نے اپنی خاص رحمت اور صاحبانِ عقل و فکر کیلئے بطورِ نصیحت انہیں نہ صرف ان کے اہل و عیال واپس دیئے (بلکہ) اتنے ہی اور بڑھا دیئے۔
وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًۭا فَٱضْرِب بِّهِۦ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَٰهُ صَابِرًۭا ۚ نِّعْمَ ٱلْعَبْدُ ۖ إِنَّهُۥٓ أَوَّابٌۭ ﴿٤٤﴾
اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو کا مٹھا لے کر مارے اور قسم نہ توڑ بے شک ہم نے ایوب کو صابر پایا وہ بڑے اچھے بندے الله کی طرف رجوع کرنے والے تھے
(اور ہم نے اس سے کہا) تنکوں کا ایک مٹھا لے اور اُس سے مار دے، اپنی قسم نہ توڑ ہم نے اُسے صابر پایا، بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا
اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دے اور قسم نہ توڑ بے ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے،
اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو۔ بےشک ہم نے ان کو ثابت قدم پایا۔ بہت خوب بندے تھے بےشک وہ رجوع کرنے والے تھے
(اے ایوب!) تم اپنے ہاتھ میں (سَو) تنکوں کی جھاڑو پکڑ لو اور (اپنی قسم پوری کرنے کے لئے) اس سے (ایک بار اپنی زوجہ کو) مارو اور قسم نہ توڑو، بے شک ہم نے اسے ثابت قدم پایا، (ایّوب علیہ السلام) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ (ہماری طرف) بہت رجوع کرنے والا تھا،
اور ایوب علیھ السّلام تم اپنے ہاتھوں میں سینکوں کا مٹھا لے کر اس سے مار دو اور قسم کی خلاف ورزی نہ کرو - ہم نے ایوب علیھ السّلامکو صابر پایا ہے - وہ بہترین بندہ اور ہماری طرف رجوع کرنے والا ہے
اور اپنے ہاتھوں میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو) لے کر مار دے اور قسم کے خلاف نہ کر، سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اسے بڑا صابر بنده پایا، وه بڑا نیک بنده تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے واﻻ
اور (ہم نے کہا) اپنے ہاتھ میں (شاخوں کا) ایک مُٹھا لو اور اس سے مارو اور قَسم نہ توڑو۔ بے شک ہم نے انہیں صبر کرنے والا پایا بڑا اچھا بندہ (اور ہماری طرف) بڑا رجوع کرنے والا۔
وَٱذْكُرْ عِبَٰدَنَآ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ أُو۟لِى ٱلْأَيْدِى وَٱلْأَبْصَٰرِ ﴿٤٥﴾
اور ہمارے بندوں ابراھیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کر جو ہاتھو ں اور آنکھوں والے تھے
اور ہمارے بندوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا ذکر کرو بڑی قوت عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے
اور یاد کرو ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب قدرت اور علم والوں کو
اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کرو جو ہاتھوں والے اور آنکھوں والے تھے
اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب (علیھم السلام) کا ذکر کیجئے جو بڑی قوّت والے اور نظر والے تھے،
اور پیغمبر علیھ السّلام ہمارے بندے ابراہیم علیھ السّلام, اسحاق علیھ السّلام اور یعقوب علیھ السّلام کا ذکر کیجئے جو صاحبانِ قوت اور صاحبانِ بصیرت تھے
ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کا بھی لوگوں سے ذکر کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے
اور ہمارے (خاص) بندوں ابراہیم(ع)، اسحاق(ع) اور یعقوب(ع) کو یاد کرو جو قوت و بصیرت والے تھے۔
إِنَّآ أَخْلَصْنَٰهُم بِخَالِصَةٍۢ ذِكْرَى ٱلدَّارِ ﴿٤٦﴾
بے شک ہم نے انہیں ایک خاص فضیلت دی یعنی ذکر آخرت کے لیے چن لیا تھا
ہم نے اُن کو ایک خالص صفت کی بنا پر برگزیدہ کیا تھا، اور وہ دار آخرت کی یاد تھی
بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے امتیاز بخشا کہ وہ اس گھر کی یاد ہے
ہم نے ان کو ایک (صفت) خاص (آخرت کے) گھر کی یاد سے ممتاز کیا تھا
بے شک ہم نے اُن کو آخرت کے گھر کی یاد کی خاص (خصلت) کی وجہ سے چن لیا تھا،
ہم نے ان کو آخرت کی یاد کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا
ہم نے انہیں ایک خاص بات یعنی آخرت کی یاد کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا
اور ہم نے ان کو ایک خاص صفت کے ساتھ مخصوص کیا تھا اور وہ آخرت کی یاد تھی۔
وَإِنَّهُمْ عِندَنَا لَمِنَ ٱلْمُصْطَفَيْنَ ٱلْأَخْيَارِ ﴿٤٧﴾
اور بے شک وہ ہمارے نزدیک برگزیدہ بندوں میں سے تھے
یقیناً ہمارے ہاں ان کا شمار چنے ہوئے نیک اشخاص میں ہے
اور بیشک وہ ہمارے نزدیک چُنے ہوئے پسندیدہ ہیں،
اور ہمارے نزدیک منتخب اور نیک لوگوں میں سے تھے
اور بے شک وہ ہمارے حضور بڑے منتخب و برگزیدہ (اور) پسندیدہ بندوں میں سے تھے،
اور وہ ہمارے نزدیک منتخب اور نیک بندوں میں سے تھے
یہ سب ہمارے نزدیک برگزیده اور بہترین لوگ تھے
اور وہ یقیناً ہمارے نزدیک برگزیدہ (اور) نیکوکار لوگوں میں سے تھے۔
وَٱذْكُرْ إِسْمَٰعِيلَ وَٱلْيَسَعَ وَذَا ٱلْكِفْلِ ۖ وَكُلٌّۭ مِّنَ ٱلْأَخْيَارِ ﴿٤٨﴾
اور اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو بھی یاد کر اور یہ سب نیک لوگو ں میں سے تھے
اور اسماعیلؑ اور الیسع اور ذوالکفلؑ کا ذکر کرو، یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے
اور یاد کرو اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو اورسب اچھے ہیں،
اور اسمٰعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو یاد کرو۔ وہ سب نیک لوگوں میں سے تھے
اور آپ اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل (علیھم السلام) کا (بھی) ذکر کیجئے، اور وہ سارے کے سارے چنے ہوئے لوگوں میں سے تھے،
اور اسماعیل علیھ السّلاماور الیسع علیھ السّلام اور ذوالکفل علیھ السّلام کو بھی یاد کیجئے اور یہ سب نیک بندے تھے
اسماعیل، یسع اور ذوالکفل (علیہم السلام) کا بھی ذکر کر دیجئے۔ یہ سب بہترین لوگ تھے
اور اسماعیل(ع)، الیسع(ع) اور ذوالکفل(ع) کو یاد کرو یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔
هَٰذَا ذِكْرٌۭ ۚ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَـَٔابٍۢ ﴿٤٩﴾
یہ نصیحت ہے اور بے شک پرہیز گاروں کے لئے اچھا ٹھکانا ہے
یہ ایک ذکر تھا (اب سنو کہ) متقی لوگوں کے لیے یقیناً بہترین ٹھکانا ہے
یہ نصیحت ہے اور بیشک پرہیزگاروں کا ٹھکانا،
یہ نصیحت ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو عمدہ مقام ہے
یہ (وہ) ذکر ہے (جس کا بیان اس سورت کی پہلی آیت میں ہے)، اور بے شک پرہیزگاروں کے لئے عمدہ ٹھکانا ہے،
یہ ایک نصیحت ہے اور صاحبانِ تقویٰ کے لئے بہترین بازگشت ہے
یہ نصیحت ہے اور یقین مانو کہ پرہیزگاروں کی بڑی اچھی جگہ ہے
یہ ایک نصیحت ہے اور بے شک پرہیزگاروں کیلئے اچھا ٹھکانہ ہے۔
جَنَّٰتِ عَدْنٍۢ مُّفَتَّحَةًۭ لَّهُمُ ٱلْأَبْوَٰبُ ﴿٥٠﴾
ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں ان کے لئے ان کے دروازے کھولے جائیں گے
ہمیشہ رہنے والی جنتیں جن کے دروازے اُن کے لیے کھلے ہوں گے
بھلا بسنے کے باغ ان کے لیے سب دروازے کھلے ہوئے،
ہمیشہ رہنے کے باغ جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوں گے
(جو) دائمی اِقامت کے لئے باغاتِ عدن ہیں جن کے دروازے اُن کے لئے کھلے ہوں گے،
ہمیشگی کی جنتیں جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہوں گے
(یعنی ہمیشگی والی) جنتیں جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں
(یعنی) ہمیشہ رہنے والے (سدابہار) باغات جن کے سب دروازے ان کیلئے کھلے ہوں گے۔
مُتَّكِـِٔينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَٰكِهَةٍۢ كَثِيرَةٍۢ وَشَرَابٍۢ ﴿٥١﴾
وہاں تکیہ لگا کر بیٹھیں گے وہاں بہت سے میوے اور شراب طلب کریں گے
ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، خوب خوب فواکہ اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے
ان میں تکیہ لگائے ان میں بہت سے میوے اور شراب مانگتے ہیں،
ان میں تکیٴے لگائے بیٹھے ہوں گے اور (کھانے پینے کے لئے) بہت سے میوے اور شراب منگواتے رہیں گے
وہ اس میں (مَسندوں پر) تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اس میں (وقفے وقفے سے) بہت سے عمدہ پھل اور میوے اور (لذیذ) شربت طلب کرتے رہیں گے،
وہاں تکیہ لگائے چین سے بیٹھے ہوں گے اور طرح طرح کے میوے اور شراب طلب کریں گے
جن میں بافراغت تکیے لگائے بیٹھے ہوئے طرح طرح کے میوے اور قسم قسم کی شرابوں کی فرمائشیں کر رہے ہیں
وہ ان میں تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اور وہ وہاں بہت سے میوے اور مشروبات طلب کرتے ہوں گے۔
۞ وَعِندَهُمْ قَٰصِرَٰتُ ٱلطَّرْفِ أَتْرَابٌ ﴿٥٢﴾
اور ان کے پاس نیچی نگاہ والی ہم عمر عورتیں ہوں گی
اور ان کے پاس شرمیلی ہم سن بیویاں ہوں گی
اور ان کے پاس وہ بیبیاں ہیں کہ اپنے شوہر کے سوا اور کی طرف آنکھ نہیں اٹھاتیں، ایک عمر کی
اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی (اور) ہم عمر (عورتیں) ہوں گی
اور اُن کے پاس نیچی نگاہوں والی (باحیا) ہم عمر (حوریں) ہوں گی،
اور ان کے پہلو میں نیچی نظر والی ہمسن بیبیاں ہوں گی
اور ان کے پاس نیچی نظروں والی ہم عمر حوریں ہوں گی
اور ان کے پاس نیچی نگاہوں والی ہم عمر بیویاں ہوں گی۔
هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِيَوْمِ ٱلْحِسَابِ ﴿٥٣﴾
یہی ہے جس کا تم سے حساب کے دن کے لیے وعدہ کیا جاتا ہے
یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں حساب کے دن عطا کرنے کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے
یہ ہے وہ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے حساب کے دن،
یہ وہ چیزیں ہیں جن کا حساب کے دن کے لئے تم سے وعدہ کیا جاتا تھا
یہ وہ نعمتیں ہیں جن کا روزِ حساب کے لئے تم سے وعدہ کیا جاتا ہے،
یہ وہ چیزیں ہیں جن کا روز قیامت کے لئے تم سے وعدہ کیا گیا ہے
یہ ہے جس کا وعده تم سے حساب کے دن کے لئے کیا جاتا تھا
یہ وہ (نعمت) ہے جن کا حساب کے دن تمہیں عطا کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
إِنَّ هَٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُۥ مِن نَّفَادٍ ﴿٥٤﴾
بے شک یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا
یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں
بیشک یہ ہمارا رزق ہے کہ کبھی ختم نہ ہوگا
یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا
بیشک یہ ہماری بخشش ہے اسے کبھی بھی ختم نہیں ہونا،
یہ ہمارا رزق ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے
بیشک روزیاں (خاص) ہمارا عطیہ ہیں جن کا کبھی خاتمہ ہی نہیں
یہ ہمارا (خاص) رزق ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے۔
هَٰذَا ۚ وَإِنَّ لِلطَّٰغِينَ لَشَرَّ مَـَٔابٍۢ ﴿٥٥﴾
یہی بات ہے اور بے شک سرکشوں کے لیے برا ٹھکانا ہے
یہ تو ہے متقیوں کا انجام اور سرکشوں کے لیے بدترین ٹھکانا ہے
ان کو تو یہ ہے اور بیشک سرکشوں کا برا ٹھکانا،
یہ (نعمتیں تو فرمانبرداروں کے لئے ہیں) اور سرکشوں کے لئے برا ٹھکانا ہے
یہ (تو مومنوں کے لئے ہے)، اور بے شک سرکشوں کے لئے بہت ہی برا ٹھکانا ہے،
یہ ایک طرف ہے اور سرکشوں کے لئے بدترین بازگشت ہے
یہ تو ہوئی جزا، (یاد رکھو کہ) سرکشوں کے لئے بڑی بری جگہ ہے
یہ بات تو ہو چکی (کہ پرہیزگاروں کا انجام یہ ہے) اور سرکش کا انجام بہت برا ہے۔
جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ ﴿٥٦﴾
یعنی دوزخ جس میں وہ گریں گے پس وہ کیسی بری جگہ ہے
جہنم جس میں وہ جھلسے جائیں گے، بہت ہی بری قیام گاہ
جہنم کہ اس میں جائیں گے تو کیا ہی برا بچھونا
(یعنی) دوزخ۔ جس میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بری آرام گاہ ہے
(وہ) دوزخ ہے، اس میں وہ داخل ہوں گے، سو بہت ہی بُرا بچھونا ہے،
جہّنم ہے جس میں یہ وارد ہوں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے
دوزخ ہے جس میں وه جائیں گے (آه) کیا ہی برا بچھونا ہے
(یعنی) دوزخ جس میں داخل ہوں گے پس وہ بہت ہی برا بچھونا ہے۔
هَٰذَا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌۭ وَغَسَّاقٌۭ ﴿٥٧﴾
یہ ہے پھر وہ اس کو چکھیں جو کھولتا ہوا پانی اور پیپ ہے
یہ ہے اُن کے لیے، پس وہ مزا چکھیں کھولتے ہوئے پانی اور پیپ لہو
ان کو یہ ہے تو اسے چکھیں کھولتا پانی اور پیپ
یہ کھولتا ہوا گرم پانی اور پیپ (ہے) اب اس کے مزے چکھیں
یہ (عذاب ہے) پس انہیں یہ چکھنا چاہئے کھولتا ہوا پانی ہے اور پیپ ہے،
یہ ہے عذاب اس کا مزہ چکھیں گرم پانی ہے اور پیپ
یہ ہے، پس اسے چکھیں، گرم پانی اور پیﭗ
یہ (حاضر ہے) کھولتا ہوا پانی اور پیپ پس چاہیے کہ وہ اسے چکھیں۔
وَءَاخَرُ مِن شَكْلِهِۦٓ أَزْوَٰجٌ ﴿٥٨﴾
اور اس کی شکل اور بھی کئی طرح کی چیزیں ہوں گی
اور اسی قسم کی دوسری تلخیوں کا
اور اسی شکل کے اور جوڑے
اور اسی طرح کے اور بہت سے (عذاب ہوں گے)
اور اسی شکل میں اور بھی طرح طرح کا (عذاب) ہے،
اور اسی قسم کی دوسری چیزیں بھی ہیں
اس کے علاوه اور طرح طرح کے عذاب
اور اس کے علاوہ اسی قسم کی دوسری چیزیں بھی ہوں گی۔
هَٰذَا فَوْجٌۭ مُّقْتَحِمٌۭ مَّعَكُمْ ۖ لَا مَرْحَبًۢا بِهِمْ ۚ إِنَّهُمْ صَالُوا۟ ٱلنَّارِ ﴿٥٩﴾
یہ ایک جماعت ہے جو تمہارے ساتھ دوزخ میں داخل ہونے والی ہے (متبوع کہیں گے) ان پر خدا کی مار یہ بھی دوزخ ہی میں آ رہے ہیں
(وہ جہنم کی طرف اپنے پیروؤں کو آتے دیکھ کر آپس میں کہیں گے) \"یہ ایک لشکر تمہارے پاس گھسا چلا آ رہا ہے، کوئی خوش آمدید اِن کے لیے نہیں ہے، یہ آگ میں جھلسنے والے ہیں\"
ان سے کہا جائے گا یہ ایک اور فوج تمہارے ساتھ دھنسی پڑتی ہے جو تمہاری تھی وہ کہیں گے ان کو کھلی جگہ نہ ملیو آگ میں تو ان کو جانا ہی ہے،
یہ ایک فوج ہے جو تمہارے ساتھ داخل ہوگی۔ ان کو خوشی نہ ہو یہ دوزخ میں جانے والے ہیں
(دوزخ کے داروغے یا پہلے سے موجود جہنمی کہیں گے:) یہ ایک (اور) فوج ہے جو تمہارے ساتھ (جہنم میں) گھستی چلی آرہی ہے، انہیں کوئی خوش آمدید نہیں، بیشک وہ (بھی) دوزخ میں داخل ہونے والے ہیں،
یہ تمہاری فوج ہے اسے بھی تمہارے ہمرا ہ جہّنم میں ٹھونس دیا جائے گا خدا ان کا بھلا نہ کرے اور یہ سب جہّنم میں جلنے والے ہیں
یہ ایک قوم ہے جو تمہارے ساتھ (آگ میں) جانے والی ہے، کوئی خوش آمدید ان کے لئے نہیں ہے یہی تو جہنم میں جانے والے ہیں
یہ ایک اور فوج ہے جو تمہارے ساتھ (جہنم میں) داخل ہو رہی ہے ان کیلئے کوئی خوش آمدید نہیں ہے یہ بھی جہنم میں داخل ہونے والے ہیں۔
قَالُوا۟ بَلْ أَنتُمْ لَا مَرْحَبًۢا بِكُمْ ۖ أَنتُمْ قَدَّمْتُمُوهُ لَنَا ۖ فَبِئْسَ ٱلْقَرَارُ ﴿٦٠﴾
(تابع ہونے والے) کہیں گے بلکہ تم پر خدا کی مار تم ہی تو اس بلا کو ہمارے سامنے لائے جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے
وہ اُن کو جواب دیں گے \"نہیں بلکہ تم ہی جھلسے جا رہے ہو، کوئی خیر مقدم تمہارے لیے نہیں تم ہی تو یہ انجام ہمارے آگے لائے ہو، کیسی بری ہے یہ جائے قرار\"
وہاں بھی تنگ جگہ میں رہیں تابع بولے بلکہ تمہیں کھلی جگہ نہ ملیو، یہ مصیبت تم ہمارے آگے لائے تو کیا ہی برا ٹھکانا
کہیں گے بلکہ تم ہی کو خوشی نہ ہو۔ تم ہی تو یہ (بلا) ہمارے سامنے لائے سو (یہ) برا ٹھکانا ہے
وہ (آنے والے) کہیں گے: بلکہ تم ہی ہو کہ تمہیں کوئی فراخی نصیب نہ ہو، تم ہی نے یہ (کفر اور عذاب) ہمارے سامنے پیش کیا، سو (یہ) بری قرارگاہ ہے،
پھر مرید اپنے پیروں سے کہیں گے تمہارا بھلا نہ ہو تم نے اس عذاب کو ہمارے لئے مہیاّ کیا ہے لہٰذا یہ بدترین ٹھکانا ہے
وه کہیں گے بلکہ تم ہی ہو جن کے لئے کوئی خوش آمدید نہیں ہے تم ہی نے تو اسے پہلے ہی سے ہمارے سامنے ﻻ رکھا تھا، پس رہنے کی بڑی بری جگہ ہے
وہ (ان کے جواب میں کہیں گے) تمہارے لئے خوش آمدید نہ ہو تم ہی یہ (دن) ہمارے سامنے لائے ہو! تو (جہنم) کیا برا ٹھکانا ہے۔
قَالُوا۟ رَبَّنَا مَن قَدَّمَ لَنَا هَٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًۭا ضِعْفًۭا فِى ٱلنَّارِ ﴿٦١﴾
تابع کہیں گے اے ہمارے رب! جو اس بلا کو آگے لایا اسے آگ میں دگنا عذاب دے
پھر وہ کہیں گے \"اے ہمارے رب، جس نے ہمیں اس انجام کو پہنچانے کا بندوبست کیا اُس کو دوزخ کا دوہرا عذاب دے\"
وہ بولے اے ہمارے رب جو یہ مصیبت ہمارے آگے لایا اسے آگ میں دُونا عذاب بڑھا،
وہ کہیں گے اے پروردگار جو اس کو ہمارے سامنے لایا ہے اس کو دوزخ میں دونا عذاب دے
وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! جس نے یہ (کفر یا عذاب) ہمارے لئے پیش کیا تھا تو اسے دوزخ میں دوگنا عذاب بڑھا دے،
پھر مزید کہیں گے کہ خدایا جس نے ہم کو آگے بڑھایا ہے اس کے عذاب کو جہّنم میں دوگنا کردے
وه کہیں گے اے ہمارے رب! جس نے (کفر کی رسم) ہمارے لئے پہلے سے نکالی ہو اس کے حق میں جہنم کی دگنی سزا کر دے
پھر وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! جو (کمبخت) روزِ بد ہمارے آگے لایا ہے اسے دوزخ میں عذاب دے۔
وَقَالُوا۟ مَا لَنَا لَا نَرَىٰ رِجَالًۭا كُنَّا نَعُدُّهُم مِّنَ ٱلْأَشْرَارِ ﴿٦٢﴾
اور کہیں گے کہ جن لوگوں کو ہم دنیا میں برا سمجھتے تھے ہمیں دکھائی کیوں نہیں دیتے
اور وہ آپس میں کہیں گے \"کیا بات ہے، ہم اُن لوگوں کو کہیں نہیں دیکھتے جنہیں ہم دنیا میں برا سمجھتے تھے؟
اور بولے ہمیں کیا ہوا ہم ان مردوں کو نہیں دیکھتے جنہیں برا سمجھتے تھے
اور کہیں گے کیا سبب ہے کہ (یہاں) ہم ان شخصوں کو نہیں دیکھتے جن کو بروں میں شمار کرتے تھے
اور وہ کہیں گے: ہمیں کیا ہوگیا ہے ہم (اُن) اشخاص کو (یہاں) نہیں دیکھتے جنہیں ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے،
پھر خود ہی کہیں گے کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنہیں شریر لوگوں میں شمار کرتے تھے
اور جہنمی کہیں گے کیا بات ہے کہ وه لوگ ہمیں دکھائی نہیں دیتے جنہیں ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے
وہ کہیں گے کہ کیا بات ہے ہم یہاں ان لوگوں کو نہیں دیکھ رہے جن کو ہم (دنیا میں) برے لوگوں میں شمار کرتے تھے؟
أَتَّخَذْنَٰهُمْ سِخْرِيًّا أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ ٱلْأَبْصَٰرُ ﴿٦٣﴾
کیا ہم ان سے (ناحق) تمسخر کرتے تھے یا ان سے ہماری نگاہیں پھر گئی ہیں
ہم نے یونہی ان کا مذاق بنا لیا تھا، یا وہ کہیں نظروں سے اوجھل ہیں؟\"
کیا ہم نے انہیں ہنسی بنالیا یا آنکھیں ان کی طرف سے پھر گئیں
کیا ہم نے ان سے ٹھٹھا کیا ہے یا (ہماری) آنکھیں ان (کی طرف) سے پھر گئی ہیں؟
کیا ہم ان کا (ناحق) مذاق اڑاتے تھے یا ہماری آنکھیں انہیں (پہچاننے) سے چوک گئی تھیں (یہ عمّار، خباب، صُہیب، بلال اور سلمان رضی اللہ عنھما جیسے فقراء اور درویش تھے)،
ہم نے ناحق ان کا مذاق اڑایا تھا یا اب ہماری نگاہیں ان کی طرف سے پلٹ گئی ہیں
کیا ہم نے ہی ان کا مذاق بنا رکھا تھا یا ہماری نگاہیں ان سے ہٹ گئی ہیں
کیا ہم نے بلاوجہ ان کا مذاق اڑایا تھا یا نگاہیں ان کی طرف سے چوک رہی ہیں؟
إِنَّ ذَٰلِكَ لَحَقٌّۭ تَخَاصُمُ أَهْلِ ٱلنَّارِ ﴿٦٤﴾
بے شک یہ دوزخیوں کا آپس میں جھگڑنا بالکل سچی بات ہے
بے شک یہ بات سچی ہے، اہل دوزخ میں یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں
بیشک یہ ضرور حق ہے دوزخیوں کا باہم جھگڑ،
بےشک یہ اہل دوزخ کا جھگڑنا برحق ہے
بے شک یہ اہلِ جہنم کا آپس میں جھگڑنا یقیناً حق ہے،
یہ اہل جہنمّ کا باہمی جھگڑا ایک امر برحق ہے
یقین جانو کہ دوزخیوں کا یہ جھگڑا ضرور ہی ہوگا
یہ بات بالکل سچی ہے کہ دوزخ والے آپس میں جھگڑیں گے۔
قُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ مُنذِرٌۭ ۖ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ ﴿٦٥﴾
کہہ دو میں تو ایک ڈرانے والا ہوں اور الله کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے ایک ہے بڑا غالب
(اے نبیؐ) اِن سے کہو، \"میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں کوئی حقیقی معبود نہیں مگر اللہ، جو یکتا ہے، سب پر غالب
تم فرماؤ میں ڈر سنانے والا ہی ہوں اور معبود کوئی نہیں مگر ایک اللہ سب پر غالب،
کہہ دو کہ میں تو صرف ہدایت کرنے والا ہوں۔ اور خدائے یکتا اور غالب کے سوا کوئی معبود نہیں
فرما دیجئے: میں تو صرف ڈر سنانے والا ہوں، اور اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا سب پر غالب ہے،
آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف ڈرانے والا ہوں اور خدائے واحد و قہار کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے
کہہ دیجئے! کہ میں تو صرف خبردار کرنے واﻻ ہوں اور بجز اللہ واحد غالب کے اور کوئی ﻻئق عبادت نہیں
آپ کہہ دیجئے! کہ میں تو صرف (عذابِ خدا سے) ایک ڈرانے والا ہوں اور اللہ کے سوا جو یکتا اور غالب ہے اور کوئی خدا نہیں ہے۔
رَبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ٱلْعَزِيزُ ٱلْغَفَّٰرُ ﴿٦٦﴾
آسمانوں اور زمین کا پرودگار اورجو کچھ ان کے درمیان ہے غالب بڑا معاف کرنے والا ہے
آسمانوں اور زمین کا مالک اور اُن ساری چیزوں کا مالک جو ان کے درمیان ہیں، زبردست اور درگزر کرنے والا\"
مالک آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے صاحب عزت بڑا بخشنے والا،
جو آسمانوں اور زمین اور جو مخلوق ان میں ہے سب کا مالک ہے غالب (اور) بخشنے والا
آسمانوں اور زمین کا اور جو کائنات اِن دونوں کے درمیان ہے (سب) کا رب ہے بڑی عزت والا، بڑا بخشنے والا ہے،
وہی آسمان و زمین اور ان کی درمیانی مخلوقات کا پروردگار اور صاحبِ عزت اور بہت زیادہ بخشنے والا ہے
جو پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، وه زبردست اور بڑا بخشنے واﻻ ہے
وہی آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کا پروردگار ہے (اور وہ) بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔
قُلْ هُوَ نَبَؤٌا۟ عَظِيمٌ ﴿٦٧﴾
کہہ دو یہ ایک بڑی خبر ہے
اِن سے کہو \"یہ ایک بڑی خبر ہے
تم فرماؤ وہ بڑی خبر ہے،
کہہ دو کہ یہ ایک بڑی (ہولناک چیز کی) خبر ہے
فرما دیجئے: وہ (قیامت) بہت بڑی خبر ہے،
کہہ دیجئے کہ یہ قرآن بہت بڑی خبر ہے
آپ کہہ دیجئے کہ یہ بہت بڑی خبر ہے
کہیے وہ (قرآن یا قیامت) بہت بڑی خبر ہے۔
أَنتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ ﴿٦٨﴾
تم اس سے منہ پھیرنے والے ہو
جس کو سن کر تم منہ پھیرتے ہو\"
تم اس سے غفلت میں ہو
جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے
تم اس سے منہ پھیرے ہوئے ہو،
تم اس سے اعراض کئے ہوئے ہو
جس سے تم بے پرواه ہو رہے ہو
جس سے تم منہ پھیرتے ہو۔
مَا كَانَ لِىَ مِنْ عِلْمٍۭ بِٱلْمَلَإِ ٱلْأَعْلَىٰٓ إِذْ يَخْتَصِمُونَ ﴿٦٩﴾
مجھے فرشتو ں کے متعلق کوئی علم نہیں تھا جب کہ وہ جھگڑ رہے تھے
(ان سے کہو) \"مجھے اُس وقت کی کوئی خبر نہ تھی جب ملاء اعلیٰ میں جھگڑا ہو رہا تھا
مجھے عالم بالا کی کیا خبر تھی جب وہ جھگڑتے تھے
مجھ کو اوپر کی مجلس (والوں) کا جب وہ جھگڑتے تھے کچھ بھی علم نہ تھا
مجھے تو (اَزخود) عالمِ بالا کی جماعتِ (ملائکہ) کی کوئی خبر نہ تھی جب وہ (تخلیقِ آدم کے بارے میں) بحث و تمحیص کر رہے تھے،
مجھے کیا علم ہوتا کہ عالم بالا میں کیا بحث ہورہی تھی
مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی (بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں جبکہ وه تکرار کر رہے تھے
مجھے تو ملاءِ اعلیٰ (عالمِ بالا) کی کوئی خبر نہ تھی جبکہ وہ (فرشتے) آپس میں بحث کر رہے تھے۔
إِن يُوحَىٰٓ إِلَىَّ إِلَّآ أَنَّمَآ أَنَا۠ نَذِيرٌۭ مُّبِينٌ ﴿٧٠﴾
مجھے تو یہی وحی کیا گیا ہے کہ میں تمہیں صاف صاف ڈراؤں
مجھ کو تو وحی کے ذریعہ سے یہ باتیں صرف اس لیے بتائی جاتی ہیں کہ میں کھلا کھلا خبردار کرنے والا ہوں\"
مجھے تو یہی وحی ہوتی ہے کہ میں نہیں مگر روشن ڈر سنانے والا
میری طرف تو یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں کھلم کھلا ہدایت کرنے والا ہوں
مجھے تو (اﷲ کی طرف سے) وحی کی جاتی ہے مگر یہ کہ میں صاف صاف ڈر سنانے والا ہوں،
میری طرف تو صرف یہ وحی آتی ہے کہ میں ایک کھلا ہوا عذاب الہٰی سے ڈرانے والا انسان ہوں
میری طرف فقط یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں تو صاف صاف آگاه کر دینے واﻻ ہوں
میری طرف اس لئے وحی کی جاتی ہے کہ میں ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔
إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّى خَٰلِقٌۢ بَشَرًۭا مِّن طِينٍۢ ﴿٧١﴾
جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک انسان مٹی سے بنانے والا ہوں
جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا \"میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں
جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا
جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں
(وہ وقت یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں (گیلی) مٹی سے ایک پیکرِ بشریت پیدا فرمانے والا ہوں،
انہیں یاد دلائیے جب آپ کے پروردگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں گیلی مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں
جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے واﻻ ہوں
(وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں گیلی مٹی سے ایک بشر (انسان) پیدا کرنے والا ہوں۔
فَإِذَا سَوَّيْتُهُۥ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُوا۟ لَهُۥ سَٰجِدِينَ ﴿٧٢﴾
پھرجب میں اسے پورے طور پر بنا لوں اور اس میں اپنی رو ح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا
پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ\"
پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرنا،
جب اس کو درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا
پھر جب میں اس (کے ظاہر) کو درست کر لوں اور اس (کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس (کی تعظیم) کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنا،
جب اسے درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب سجدہ میں گر پڑنا
سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا
جب میں اسے تیار کر لوں اور اس میں اپنی خاص روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا۔
فَسَجَدَ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ﴿٧٣﴾
پھر سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا
اس حکم کے مطابق فرشتے سب کے سب سجدے میں گر گئے
تو سب فرشتو ں نے سجدہ کیا ایک ایک نے کہ کوئی باقی نہ رہا،
تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا
پس سب کے سب فرشتوں نے اکٹھے سجدہ کیا،
تو تمام ملائکہ نے سجدہ کرلیا
چنانچہ تمام فرشتوں نے سجده کیا
تو (حسب الحکم) سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔
إِلَّآ إِبْلِيسَ ٱسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿٧٤﴾
مگر ابلیس نے نہ کیا تکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا
مگر ابلیس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا
مگر ابلیس نے اس نے غرور کیا اور وہ تھا ہی کافروں میں
مگر شیطان اکڑ بیٹھا اور کافروں میں ہوگیا
سوائے ابلیس کے، اس نے (شانِ نبوّت کے سامنے) تکبّر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا،
علاوہ ابلیس کے کہ وہ اکڑ گیا اور کافروں میں ہوگیا
مگر ابلیس نے (نہ کیا)، اس نے تکبر کیا اور وه تھا کافروں میں سے
سوائے ابلیس کے کہ اس نے تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔
قَالَ يَٰٓإِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَىَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ ٱلْعَالِينَ ﴿٧٥﴾
فرمایا اے ابلیس! تمہیں اس کےے سجدہ کرنے سے کس نے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا کیا تو نے تکبر کیا یا تو بڑوں میں سے تھا
رب نے فرمایا \"اے ابلیس، تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟ تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے؟\"
فرمایا اے ابلیس تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لیے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تجھے غرور آگیا یا تو تھا ہی مغروروں میں
خدا نے) فرمایا کہ اے ابلیس جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا۔ کیا تو غرور میں آگیا یا اونچے درجے والوں میں تھا؟
(اﷲ نے) ارشاد فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس نے اس (ہستی) کو سجدہ کرنے سے روکا ہے جسے میں نے خود اپنے دستِ (کرم) سے بنایا ہے، کیا تو نے (اس سے) تکبّر کیا یا تو (بزعمِ خویش) بلند رتبہ (بنا ہوا) تھا،
تو خدا نے کہا اے ابلیس تیرے لئے کیا شے مانع ہوئی کہ تو اسے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے تو نے غرور اختیار کیا یا تو واقعا بلند لوگوں میں سے ہے
(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجده کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔ کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے
ارشاد ہوا اے ابلیس! تجھے کس چیز نے روکا کہ اس کے سامنے سجدہ کرے جسے میں نے اپنی طاقت و قدرت سے پیدا کیا ہے؟ کیا تو نے تکبر کیا ہے یا تو سرکشوں میں سے ہوگیا ہے؟
قَالَ أَنَا۠ خَيْرٌۭ مِّنْهُ ۖ خَلَقْتَنِى مِن نَّارٍۢ وَخَلَقْتَهُۥ مِن طِينٍۢ ﴿٧٦﴾
اس نے عرض کی میں اس سے بہتر ہوں مجھے تو نے آگ سے بنایااور اسے مٹی سے بنایا
اُس نے جواب دیا \"میں اُس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے\"
بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا،
بولا کہ میں اس سے بہتر ہوں (کہ) تو نے مجھ کو کو آگ سے پیدا کیا اور اِسے مٹی سے بنایا
اس نے (نبی کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہوئے) کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور تو نے اِسے مٹی سے بنایا ہے،
اس نے کہا کہ میں ان سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور انہیں خاک سے پیدا کیا ہے
اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا، اور اسے مٹی سے بنایا ہے
اس نے کہا میں اس (آدم(ع)) سے بہتر ہوں (کیونکہ) تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے۔
قَالَ فَٱخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌۭ ﴿٧٧﴾
فرمایا پھر تو یہاں سے نکل جاکیوں نکہ تو راندہ گیا ہے
فرمایا \"اچھا تو یہاں سے نکل جا، تو مردود ہے
فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندھا (لعنت کیا) گیا
فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہے
ارشاد ہوا: سو تو (اِس گستاخئ نبوّت کے جرم میں) یہاں سے نکل جا، بے شک تو مردود ہے،
ارشاد ہوا کہ یہاں سے نکل جا تو مررَود ہے
ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا
ارشاد ہوا تو یہاں (جنت) سے نکل جا کیونکہ تو راندۂ درگاہ ہے۔
وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِىٓ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلدِّينِ ﴿٧٨﴾
اور تجھ پر قیامت تک میری لعنت ہے
اور تیرے اوپر یوم الجزاء تک میری لعنت ہے\"
اور بیشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک
اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت (پڑتی) رہے گی
اور بے شک تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت رہے گی،
اور یقینا تیرے اوپر قیامت کے دن تک میری لعنت ہے
اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت وپھٹکار ہے
اور یقیناً قیامت تک تجھ پر میری لعنت ہے۔
قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِىٓ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿٧٩﴾
عرض کی اے میرے رب! پھر مجھے مردوں کے زندہ ہونے تک مہلت دے
وہ بولا \"ا ے میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس وقت تک کے لیے مہلت دے دے جب یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے\"
بولا اے میرے رب ایسا ہے تو مجھے مہلت دے اس دن تک کہ اٹھائے جائیں
کہنے لگا کہ میرے پروردگار مجھے اس روز تک کہ لوگ اٹھائے جائیں مہلت دے
اس نے کہا: اے پروردگار! پھر مجھے اس دن تک (زندہ رہنے کی) مہلت دے جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے،
اس نے کہا پروردگار مجھے روز قیامت تک کی مہلت بھی دیدے
کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے
اس نے کہا اے پروردگار! مجھے اس دن تک مہلت دے جب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔
قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ ٱلْمُنظَرِينَ ﴿٨٠﴾
فرمایا پس تمہیں مہلت ہے
فرمایا، \"اچھا، تجھے اُس روز تک کی مہلت ہے
فرمایا تو تُو مہلت والوں میں ہے،
فرمایا کہ تجھ کو مہلت دی جاتی ہے
ارشاد ہوا: (جا) بے شک تو مہلت والوں میں سے ہے،
ارشاد ہوا کہ تجھے مہلت دیدی گئی ہے
(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے
ارشاد ہوا (جا) تجھے مہلت دی گئی ہے۔
إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْوَقْتِ ٱلْمَعْلُومِ ﴿٨١﴾
وقت معین کے دن تک
جس کا وقت مجھے معلوم ہے\"
اس جانے ہوئے وقت کے دن تک
اس روز تک جس کا وقت مقرر ہے
اس وقت کے دن تک جو مقرّر (اور معلوم) ہے،
مگر ایک معّین وقت کے دن تک
متعین وقت کے دن تک
مگر اس دن تک جس کا وقت (تجھے) معلوم ہے۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٨٢﴾
عرض کی تیری عز ت کی قسم! میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا
اس نے کہا \"تیری عزت کی قسم، میں اِن سب لوگو ں کو بہکا کر رہوں گا
بولا تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کردوں گا،
کہنے لگا کہ مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا
اس نے کہا: سو تیری عزّت کی قسم! میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا،
اس نے کہا تو پھر تیری عزّت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا
کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا
ابلیس نے کہا تیری عزت کی قسم! میں سب لوگوں کو گمراہ کروں گا۔
إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ ٱلْمُخْلَصِينَ ﴿٨٣﴾
مگر ان میں جو تیرے خالص بندے ہوں گے
بجز تیرے اُن بندوں کے جنہیں تو نے خالص کر لیا ہے\"
مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں،
سوا ان کے جو تیرے خالص بندے ہیں
سوائے تیرے اُن بندوں کے جو چُنیدہ و برگزیدہ ہیں،
علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنالیا ہے
بجز تیرے ان بندوں کے جو چیده اور پسندیده ہوں
سوائے تیرے منتخب اور برگزیدہ بندوں کے۔
قَالَ فَٱلْحَقُّ وَٱلْحَقَّ أَقُولُ ﴿٨٤﴾
فرمایا حق بات یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں
فرمایا \"تو حق یہ ہے، اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں
فرمایا تو سچ یہ ہے اور میں سچ ہی فرماتا ہوں،
فرمایا سچ (ہے) اور میں بھی سچ کہتا ہوں
ارشاد ہوا: پس حق (یہ) ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں،
ارشاد ہوا تو پھر حق یہ ہے اور میں تو حق ہی کہتا ہوں
فرمایا سچ تو یہ ہے، اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوں
ارشاد ہوا کہ پھر حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں۔
لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٨٥﴾
میں تجھ سے اوران میں سے جو تیرے تابع ہوں گے سب سے جہنم بھر دوں گا
کہ میں جہنم کو تجھ سے اور اُن سب لوگوں سے بھر دوں گا جو اِن انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے\"
بیشک میں ضرور جہنم بھردوں گا تجھ سے اور ان میں سے جتنے تیری پیروی کریں گے سب سے،
کہ میں تجھ سے اور جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے سب سے جہنم کو بھر دوں گا
کہ میں تجھ سے اور جو لوگ تیری (گستاخانہ سوچ کی) پیروی کریں گے اُن سب سے دوزخ کو بھر دوں گا،
کہ میں جہنمّ کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دوں گا
کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں سے میں (بھی) جہنم کو بھر دوں گا
کہ میں بھی دوزخ بھر دوں گا تجھ سے اور ان لوگوں سے جو تیری پیروی کریں گے۔
قُلْ مَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍۢ وَمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلْمُتَكَلِّفِينَ ﴿٨٦﴾
کہہ دو میں اس پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں ہوں
(اے نبیؐ) اِن سے کہہ دو کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، اور نہ میں بناوٹی لوگوں میں سے ہوں
تم فرماؤ میں اس قرآن پر تم سے کچھ اجر نہیں مانگتا اور میں بناوٹ والوں سے نہیں،
اے پیغمبر کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں
فرما دیجئے: میں تم سے اِس (حق کی تبلیغ) پر کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں،
اور پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا غلط بیان ہوں
کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں
آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ اس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا اور نہ ہی میں بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔
إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌۭ لِّلْعَٰلَمِينَ ﴿٨٧﴾
یہ قرآن تو تمام جہان کے لیے نصیحت ہے
یہ تو ایک نصیحت ہے تمام جہان والوں کے لیے
وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہان کے لیے،
یہ قرآن تو اہل عالم کے لئے نصیحت ہے
یہ (قرآن) تو سارے جہان والوں کے لئے نصیحت ہی ہے،
یہ قرآن تو عالمین کے لئے ایک نصیحت ہے
یہ تو تمام جہان والوں کے لئے سراسر نصیحت (وعبرت) ہے
یہ (قرآن) نہیں ہے مگر سب جہانوں کیلئے نصیحت۔
وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُۥ بَعْدَ حِينٍۭ ﴿٨٨﴾
اور تم کچھ مدت کے بعد اس کا حال ضرور جان لوگے
اور تھوڑی مدت ہی گزرے گی کہ تمہیں اس کا حال خود معلوم ہو جائے گا
اور ضرور ایک وقت کے بعد تم اس کی خبر جانو گے
اور تم کو اس کا حال ایک وقت کے بعد معلوم ہوجائے گا
اور تمہیں تھوڑے ہی وقت کے بعد خود اِس کا حال معلوم ہو جائے گا،
اور کچھ دنوں کے بعد تم سب کو اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی
یقیناً تم اس کی حقیقت کو کچھ ہی وقت کے بعد (صحیح طور پر) جان لو گے
اور تمہیں کچھ مدت کے بعد اس کی خبر معلوم ہو جائے گی۔