Setting
Surah The victory [Al-Fath] in Urdu
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًۭا مُّبِينًۭا ﴿١﴾
بے شک ہم نے آپ کو کھلم کھلا فتح دی
اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی
بیشک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح دی
(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو فتح دی۔ فتح بھی صریح وصاف
(اے حبیبِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرما دیا (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدّ و جہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہوجائے)،
بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے
بیشک (اے نبی) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے
(اے رسول(ص)) بےشک ہم نے آپ(ص) کو ایک فتحِ مبین (نمایاں فتح) عطا کی ہے۔
لِّيَغْفِرَ لَكَ ٱللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنۢبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَٰطًۭا مُّسْتَقِيمًۭا ﴿٢﴾
تاکہ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے اور اپنی نعمت آپ پر تمام کر دے اور تاکہ آپ کو سیدھے راستہ پر چلائے
تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے
تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردے اور تمہیں سیدھی راہ دکھادے
تاکہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کردے اور تمہیں سیدھے رستے چلائے
تاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امت (کے اُن تمام اَفراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے٭ (جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کیے اور قربانیاں دیں) اور (یوں اسلام کی فتح اور امت کی بخشش کی صورت میں) آپ پر اپنی نعمت (ظاہراً و باطناً) پوری فرما دے اور آپ (کے واسطے سے آپ کی امت) کو سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھے، ٭ یہاں حذفِ مضاف واقع ہوا ہے۔ مراد ”ما تقدم من ذنب أمتک و ما تاخر“ ہے، کیونکہ آگے اُمت ہی کے لئے نزولِ سکینہ، دخولِ جنت اور بخششِ سیئات کی بشارت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مضمون آیت نمبر ۱ سے ۵ تک ملا کر پڑھیں تو معنی خود بخود واضح ہو جائے گا؛ اور مزید تفصیل تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ جیسا کہ سورۃ المؤمن کی آیت نمبر ۵۵ کے تحت مفسرین کرام نے بیان کیا ہے کہ ”لِذَنبِکَ“ میں ”امت“ مضاف ہے جو کہ محذوف ہے۔ لہٰذا اس بناء پر یہاں وَاستَغفِر لِذَنبِکَ سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ امام نسفی، امام قرطبی اور علامہ شوکانی نے یہی معنی بیان کیا ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ کریں:-۱: (وَاستَغفِر لِذَنبِکَ) أی لذنب أمتک یعنی اپنی امت کے گناہوں کی بخشش طلب کیجئے۔ (نسفی، مدارک التنزیل و حقائق التاویل، ۴: ۳۵۹)۔۲: (وَاستَغفِر لِذَنبِکَ) قیل: لذنب أمتک حذف المضاف و أقیم المضاف الیہ مقامہ۔ ”واستغفر لذنبک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ یہاں مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ کو اس کا قائم مقام کر دیا گیا۔“ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۵: ۳۲۴)۔ ۳: وَ قیل لذنبک لذنب أمتک فی حقک ”یہ بھی کہا گیا ہے کہ لذنبک یعنی آپ اپنے حق میں امت سے سرزد ہونے والی خطاؤں کی بخشش طلب کیجئے۔“ (ابن حیان اندلسی، البحر المحیط، ۷: ۴۷۱)۔ ۴: (وَاستَغفِر لِذَنبِکَ) قیل: المراد ذنب أمتک فھو علی حذف المضاف ”کہا گیا ہے کہ اس سے مراد امت کے گناہ ہیں اور یہ معنی مضاف کے محذوف ہونے کی بناء پر ہے۔“ (علامہ شوکانی، فتح القدیر، ۴: ۴۹۷)۔
تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کردے اور آپ پر اپنی نعمت کو تمام کردے اور آپ کو سیدھے راستہ کی ہدایت د ے د ے
تاکہ جو کچھ تیرے گناه آگے ہوئے اور جو پیچھے سب کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، اور تجھ پر اپنا احسان پورا کر دے اور تجھے سیدھی راه چلائے
تاکہ اللہ ان (لوگوں کی نظر میں) آپ(ص) کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور آپ پر اپنی نعمت تام و تمام کرے اور آپ(ص) کو منزلِ مقصود تک پہنچا ئے۔
وَيَنصُرَكَ ٱللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًا ﴿٣﴾
اور تاکہ الله آپ کی زبردست مدد کرے
اور تم کو زبردست نصرت بخشے
اور اللہ تمہاری زبردست مدد فرمائے
اور خدا تمہاری زبردست مدد کرے
اور اﷲ آپ کو نہایت باعزت مدد و نصرت سے نوازے،
اور زبردست طریقہ سے آپ کی مدد کرے
اور آپ کو ایک زبردست مدد دے
اور تاکہ اللہ آپ کی زبردست مدد کرے۔
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ فِى قُلُوبِ ٱلْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوٓا۟ إِيمَٰنًۭا مَّعَ إِيمَٰنِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًۭا ﴿٤﴾
وہی تو ہے جس نے ایمانداروں کے دلو ں میں اطمینان اتارا تاکہ ان کا ایمان اور زیادہ ہو جائے اور آسمانوں اور زمین کے لشکر سب الله ہی کے ہیں اور الله خبردار حکمت والا ہے
وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے
وہی ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں اطمینان اتارا تاکہ انہیں یقین پر یقین بڑھے اور اللہ ہی کی ملک ہیں تمام لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ علم و حکمت والا ہے
وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے۔ اور آسمانوں اور زمین کے لشکر (سب) خدا ہی کے ہیں۔ اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں تسکین نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان پر مزید ایمان کا اضافہ ہو (یعنی علم الیقین، عین الیقین میں بدل جائے)، اور آسمانوں اور زمین کے سارے لشکر اﷲ ہی کے لئے ہیں، اور اﷲ خوب جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے،
وہی خدا ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون نازل کیا ہے تاکہ ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوجائے اور اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کے سارے لشکر ہیں اور وہی تمام باتوں کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے
وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون (اور اطیمنان) ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں، اور آسمانوں اور زمین کے ﴿کل﴾ لشکر اللہ ہی کے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ دانا باحکمت ہے
وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اہلِ ایمان کے دلوں میں سکون و اطمینان اتارا تاکہ وہ اپنے (پہلے) ایمان کے ساتھ ایمان میں اور بڑھ جائیں اور آسمانوں اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔
لِّيُدْخِلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتِ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّـَٔاتِهِمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عِندَ ٱللَّهِ فَوْزًا عَظِيمًۭا ﴿٥﴾
تاکہ ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ان میں ہمیشہ رہیں گے اور ان پر سے ان کے گناہ دور کر دے گا اور الله کے ہاں یہ بڑی کامیابی ہے
(اُس نے یہ کام اِس لیے کیا ہے) تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی برائیاں اُن سے دور کر دے اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے
تاکہ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں اور انکی برائیاں ان سے اتار دے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے،
(یہ) اس لئے کہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناہوں کو دور کردے۔ اور یہ خدا کے نزدیک بڑی کامیابی ہے
(یہ سب نعمتیں اس لئے جمع کی ہیں) تاکہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بہشتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اور (مزید یہ کہ) وہ ان کی لغزشوں کو (بھی) ان سے دور کر دے (جیسے اس نے ان کی خطائیں معاف کی ہیں)۔ اور یہ اﷲ کے نزدیک (مومنوں کی) بہت بڑی کامیابی ہے،
تاکہ مومن مرد اور مومنہ عورتوں کو ان جنتوں میں داخل کردے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان ہی میں ہمیشہ رہیں اور ان کی برائیوں کو ان سے دور کردے اور یہی اللہ کے نزدیک عظیم ترین کامیابی ہے
تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ان جنتوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں جہاں وه ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناه دور کر دے، اور اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی کامیابی ہے
(یہ اس لئے ہے) تاکہ وہ مؤمن مَردوں اور مؤمن عورتوں کو ایسے بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ ان کی برائیاں ان سے دور کر دے (ان کا کفارہ کر دے) اور یہ اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے۔
وَيُعَذِّبَ ٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱلْمُنَٰفِقَٰتِ وَٱلْمُشْرِكِينَ وَٱلْمُشْرِكَٰتِ ٱلظَّآنِّينَ بِٱللَّهِ ظَنَّ ٱلسَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَآئِرَةُ ٱلسَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًۭا ﴿٦﴾
اور تاکہ منافق مردوں اور عورتوں کواور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب دے جو الله کے بارے میں براگمان رکھتے ہیں انہیں پر بری گردش ہے اور الله نے ان پر غضب نازل کیا اور ان پر لعنت کی اوران کے لیے دوزخ تیار کر رکھا ہےاور وہ برا ٹھکانہ ہے
اور اُن منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آ گئے، اللہ کا غضب ان پر ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم مہیا کر دی جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے
اور عذاب دے منافق مَردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مَردوں اور مشرک عورتوں کو جو اللہ پر گمان رکھتے ہیں انہیں پر ہے بری گردش اور اللہ نے اُن پر غضب فرمایا اور انہیں لعنت کی اور ان کے لیے جہنم تیار فرمایا، اور وہ کیا ہی برا انجام ہے،
اور (اس لئے کہ) منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو خدا کے حق میں برے برے خیال رکھتے ہیں عذاب دے۔ ان ہی پر برے حادثے واقع ہوں۔ اور خدا ان پر غصے ہوا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی۔ اور وہ بری جگہ ہے
اور (اس لئے بھی کہ ان) منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو اﷲ کے ساتھ بُری بدگمانیاں رکھتے ہیں، انہی پر بُری گردش (مقرر) ہے، اور ان پر اﷲ نے غضب فرمایا اور ان پر لعنت فرمائی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی، اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے،
اور منافق مرد, منافق عورتیں اور مشرک مرد و عورت جو خدا کے بارے میں برے برے خیالات رکھتے ہیں ان سب پر عذاب نازل کرے ان کے سر عذاب کی گردش ہے اور ان پر اللہ کا غضب ہے خدا نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے جہّنم کو مہیاّ کیا ہے جو بدترین انجام ہے
اور تاکہ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں، (دراصل) انہیں پر برائی کا پھیرا ہے، اللہ ان پر ناراض ہوا اور انہیں لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی اور وه (بہت) بری لوٹنے کی جگہ ہے
اور تاکہ وہ (اللہ) منافق مَردوں اور منافق عورتوں، مشرک مَردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے بارے میں برے گمان کرتے ہیں برائی کی گردش انہی پر ہے اللہ ان پر غضبناک ہے اور ان پر لعنت کی ہے اور ان کیلئے جہنم تیار کر رکھی ہے اور وہ بہت برا انجام ہے۔
وَلِلَّهِ جُنُودُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿٧﴾
اور الله ہی کے سب لشکر آسمانوں اور زمین میں ہیں اور الله بڑا غالب حکمت والا ہے
زمین اور آسمانوں کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے
اور اللہ ہی کی ملک ہیں آسمانوں اور زمین کے سب لشکر، اور اللہ عزت و حکمت والا ہے،
اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں۔ اور خدا غالب (اور) حکمت والا ہے
اور آسمانوں اور زمین کے سب لشکر اﷲ ہی کے لئے ہیں، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے،
اور اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کے سارے لشکر ہیں اور وہ صاحبِ عزت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے
اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں اور اللہ غالب اور حکمت واﻻ ہے
اور آسمانوں اور زمین کے تمام لشکر اللہ ہی کے ہیں اور خدا (سب پر) غالب اور بڑا حکمت والا ہے۔
إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ شَٰهِدًۭا وَمُبَشِّرًۭا وَنَذِيرًۭا ﴿٨﴾
بے شک ہم نے آپ کو گواہ بناکر بھیجا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا
اے نبیؐ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کر دینے والا بنا کر بھیجا ہے
بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا
اور ہم نے (اے محمدﷺ) تم کو حق ظاہر کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خوف دلانے والا (بنا کر) بھیجا ہے
بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لئے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے،
پیغمبر ہم نے آپ کو گواہی دینے والا بشارت دینے والا اور عذاب الٰہٰی سے ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے
یقیناً ہم نے تجھے گواہی دینے واﻻ اور خوشخبری سنانے واﻻ اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے
(اے رسول(ص)) بےشک ہم نے آپ(ص) کو گواہ بنا کر اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
لِّتُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةًۭ وَأَصِيلًا ﴿٩﴾
تاکہ تم الله پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی عزت کرو اور صبح اور شام اس کی پاکی بیان کرو
تاکہ اے لوگو، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اُس کا ساتھ دو، اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو
تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو
تاکہ (مسلمانو) تم لوگ خدا پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کو بزرگ سمجھو۔ اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو
تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو،
تاکہ تم سب اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا احترام کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو
تاکہ (اے مسلمانو)، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ﻻؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو اور اللہ کی پاکی بیان کرو صبح وشام
تاکہ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول(ص) پر ایمان لاؤ اور رسول(ص) کی مدد کرو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو اورصبح و شام اس (اللہ) کی تسبیح کرو۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّهَ يَدُ ٱللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِۦ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَٰهَدَ عَلَيْهُ ٱللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًۭا ﴿١٠﴾
بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ الله ہی سے بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں پر الله کا ہاتھ ہے پس جو اس عہد کو) تو ڑ دے گا سو توڑنے کا وبال خود اسی پر ہو گا اور جو وہ عہد پورا کرے گا جو اس نے الله سے کیا ہے سو عقریب وہ اسے بہت بڑا اجر دے گا
اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا
وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے، تو جس نے عہد توڑا اس نے اپنے بڑے عہد کو توڑا اور جس نے پورا کیا وہ عہد جو اس نے اللہ سے کیا تھا تو بہت جلد اللہ اسے بڑا ثواب دے گا
جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا
(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا،
بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اور جو عہد الٰہٰی کو پورا کرتا ہے خدا عنقریب اسی کو اجر عظیم عطا کرے گا
جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وه یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے، تو جو شخص عہد شکنی کرے وه اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا
(اے رسول(ص)) جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ (دراصل) اللہ کی بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے پس جو (اس عہد کو) توڑے گا تو اس کے توڑنے کا وبال اسی کی ذات پر ہوگا اور جو اس عہد کو پورا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے تو اللہ اسے بڑا اجر عطا کرے گا۔
سَيَقُولُ لَكَ ٱلْمُخَلَّفُونَ مِنَ ٱلْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ أَمْوَٰلُنَا وَأَهْلُونَا فَٱسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِى قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًۢا ۚ بَلْ كَانَ ٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًۢا ﴿١١﴾
عنقریب آ پ سے وہ لوگ کہیں گے جو بدویوں میں سے پیچھے رہ گئے تھے کہ ہمیں ہمارے اور اہل و عیال نے مشغول رکھا ہے آپ ہمارے لیے مغفرت مانگیئے وہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے کہدو وہ کون ہے جو الله کے سامنے تمہارے لیے کسی چیز کا (کچھ بھی) اختیار رکھتا ہوگا اگر الله تمہیں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانا چاہے بلکہ الله تمہارے سب اعمال پر خبردار ہے
اے نبیؐ، بدوی عربوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ \"ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں\" یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ان سے کہنا \"اچھا، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے
اب تم سے کہیں گے جو گنوار (اعرابی) پیچھے رہ گئے تھے کہ ہمیں ہمارے مال اور ہمارے گھر والوں نے مشغول رکھا اب حضور ہماری مغفرت چاہیں اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں تم فرماؤ تو اللہ کے سامنے کسے تمہارا کچھ اختیار ہے اگر وہ تمہارا برا چاہے یا تمہاری بھلائی کا ارادہ فرمائے، بلکہ اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے،
جو گنوار پیچھے رہ گئے وہ تم سے کہیں گے کہ ہم کو ہمارے مال اور اہل وعیال نے روک رکھا آپ ہمارے لئے (خدا سے) بخشش مانگیں۔ یہ لوگ اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے۔ کہہ دو کہ اگر خدا تم (لوگوں) کو نقصان پہنچانا چاہے یا تمہیں فائدہ پہنچانے کا ارادہ فرمائے تو کون ہے جو اس کے سامنے تمہارے لئے کسی بات کا کچھ اختیار رکھے (کوئی نہیں) بلکہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے واقف ہے
عنقریب دیہاتیوں میں سے وہ لوگ جو (حدیبیہ میں شرکت سے) پیچھے رہ گئے تھے آپ سے (معذرۃً یہ) کہیں گے کہ ہمارے اموال اور اہل و عیال نے ہمیں مشغول کر رکھا تھا (اس لئے ہم آپ کی معیت سے محروم رہ گئے) سو آپ ہمارے لئے بخشش طلب کریں۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ (باتیں) کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں۔ آپ فرما دیں کہ کون ہے جو تمہیں اﷲ کے (فیصلے کے) خلاف بچانے کا اختیار رکھتا ہو اگر اس نے تمہارے نقصان کا ارادہ فرما لیا ہو یا تمہارے نفع کا ارادہ فرما لیا ہو، بلکہ اﷲ تمہارے کاموں سے اچھی طرح باخبر ہے،
عنقریب یہ پیچھے رہ جانے والے گنوار آپ سے کہیں گے کہ ہمارے اموال اور اولاد نے مصروف کرلیا تھا لہٰذا آپ ہمارے حق میں استغفار کردیں. یہ اپنی زبان سے وہ کہہ رہے ہیں جو یقینا ان کے دل میں نہیں ہے تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر خدا تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یا فائدہ ہی پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اس کے مقابلہ میں تمہارے امور کا اختیار رکھتا ہے .حقیقت یہ ہے کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے
دیہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے وه اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے ره گئے پس آپ ہمارے لئے مغفرت طلب کیجئے۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وه کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ آپ جواب دے دیجئے کہ تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی اختیار کون رکھتا ہے اگر وه تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہے تو، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے
صحرائی عربوں میں سے جو (سفرِ حدیبیہ میں) پیچھے چھوڑ دئیے گئے تھے وہ عنقریب کہیں گے کہ ہمارے مال اور اہل و عیال نے ہمیں مشغول رکھا (اس لئے آپ(ص) کے ہمراہ نہ جا سکے) تو آپ(ص) ہمارے لئے (خدا سے) بخشش کی دعا کیجئے! وہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے آپ(ص) کہیے! کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں تمہارے لئے کچھ اختیار رکھتا ہے؟ اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یانفع پہنچانا چاہے بلکہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔
بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ ٱلرَّسُولُ وَٱلْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰٓ أَهْلِيهِمْ أَبَدًۭا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِى قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ ٱلسَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًۢا بُورًۭا ﴿١٢﴾
بلکہ تم نے خیال کیا تھا کہ رسول الله اور مسلمان اپنے گھر والوں کی طرف کبھی بھی واپس نہ لوٹیں گے اور تمہارے دلوں میں یہ بات اچھی معلوم ہوئی اور تم نے بہت برا گمان کیا اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے
(مگر اصل بات وہ نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو) بلکہ تم نے یوں سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں ہرگز پلٹ کر نہ آ سکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو بہت بھلا لگا اور تم نے بہت برے گمان کیے اور تم سخت بد باطن لوگ ہو\"
بلکہ تم تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ رسول اور مسلمان ہرگز گھروں کو واپس نہ آئیں گے اور اسی کو اپنے دلوں میں بھلا سمجھیں ہوئے تھے اور تم نے برا گمان کیا اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے
بات یہ ہے کہ تم لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ پیغمبر اور مومن اپنے اہل وعیال میں کبھی لوٹ کر آنے ہی کے نہیں۔ اور یہی بات تمہارے دلوں کو اچھی معلوم ہوئی۔ اور (اسی وجہ سے) تم نے برے برے خیال کئے اور (آخرکار) تم ہلاکت میں پڑ گئے
بلکہ تم نے یہ گمان کیا تھا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہلِ ایمان (یعنی صحابہ رضی اللہ عنھم) اب کبھی بھی پلٹ کر اپنے گھر والوں کی طرف نہیں آئیں گے اور یہ (گمان) تمہارے دلوں میں (تمہارے نفس کی طرف سے) خُوب آراستہ کر دیا گیا تھا اور تم نے بہت ہی برا گمان کیا، اور تم ہلاک ہونے والی قوم بن گئے،
اصل میں تمہارا خیال یہ تھا کہ رسول اور صاحبانِ ایمان اب اپنے گھر والوں تک پلٹ کر نہیں آسکتے ہیں اور اس بات کو تمہارے دلوں میں خوب سجا دیا گیا تھا اور تم نے بدگمانی سے کام لیا اور تم ہلاک ہوجانے والی قوم ہو
(نہیں) بلکہ تم نے تو یہ گمان کر رکھا تھا کہ پیغمبر اور مسلمانوں کا اپنے گھروں کی طرف لوٹ آنا قطعاً ناممکن ہے اور یہی خیال تمہارے دلوں میں رچ بس گیا تھا اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا۔ دراصل تم لوگ ہو بھی ہلاک ہونے والے
(اصل بات یہ ہے کہ) تم نے خیال کیا تھا کہ رسول(ص) اور اہلِ ایمان اب کبھی بھی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے بہت برے گمان کئے (اسی طرح) تم برباد ہو نے والی جماعت بن گئے۔
وَمَن لَّمْ يُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ فَإِنَّآ أَعْتَدْنَا لِلْكَٰفِرِينَ سَعِيرًۭا ﴿١٣﴾
اورجو لوگ الله اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لائے سو ہم نے ایسے کافروں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے
اللہ اور اس کے رسول پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے
اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بیشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے،
اور جو شخص خدا پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان نہ لائے تو ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے
اور جو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائے تو ہم نے کافروں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے،
اور جو بھی خدا و رسول پر ایمان نہ لائے گا ہم نے ایسے کافرین کے لئے جہّنم کا انتظام کر رکھا ہے
اور جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہ ﻻئے تو ہم نے بھی ایسے کافروں کے لئے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول(ص) پر ایمان نہ لائے تو ہم نے ان کافروں کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ (دوزخ) تیار کر رکھی ہے۔
وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا ﴿١٤﴾
اور آسمانوں اور زمین کی حکومت الله ہی کے لیے ہے وہ جسے چاہے بخشے اورجسے چاہے عذاب دے اور الله بخشنے والا بڑا مہربان ہے
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے، اور وہ غفور و رحیم ہے
اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت، جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی خدا ہی کی ہے۔ وہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
اور آسمانوں اور زمین کی باشاہت اﷲ ہی کے لئے ہے، وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے،
اور اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کا ملک ہے وہ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے عذاب کرتا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا مہربان ہے
اور زمین اور آسمانوں کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے۔ اور اللہ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے
اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کیلئے ہے جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
سَيَقُولُ ٱلْمُخَلَّفُونَ إِذَا ٱنطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا۟ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ ٱللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا۟ لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًۭا ﴿١٥﴾
عنقریب کہیں گے وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے جب تم غنیمتوں کی طرف ان کے لینے کے لیے جانے لگو گے کہ ہمیں چھوڑو ہم تمہارے ساتھ چلیں وہ چاہتے ہیں کہ الله کا حکم بدل دیں کہہ دو کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہ چلو گے الله نے اس سے پہلے ہی ایسا فرما دیا ہے پس وہ کہیں گے کہ (نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو بلکہ وہ لوگ بات ہی کم سمجھتے ہیں
جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں اِن سے صاف کہہ دینا کہ \"تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے\" یہ کہیں گے کہ \"نہیں، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو\" (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں
اب کہیں گے پیچھے بیٹھ رہنے والے جب تم غنیمتیں لینے چلو تو ہمیں بھی اپنے پیچھے آنے دو وہ چاہتے ہیں اللہ کا کلام بدل دیں تم فرماؤ ہرگز ہمارے ساتھ نہ آؤ اللہ نے پہلے سے یونہی فرمادیا تو اب کہیں گے بلکہ تم ہم سے جلتے ہو بلکہ وہ بات نہ سمجھتے تھے مگر تھوڑی
جب تم لوگ غنیمتیں لینے چلو گے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ کہیں گے ہمیں بھی اجازت دیجیئے کہ آپ کے ساتھ چلیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے قول کو بدل دیں۔ کہہ دو کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسی طرح خدا نے پہلے سے فرما دیا ہے۔ پھر کہیں گے (نہیں) تم تو ہم سے حسد کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہی نہیں مگر بہت کم
جب تم (خیبر کے) اَموالِ غنیمت کو حاصل کرنے کی طرف چلو گے تو (سفرِ حدیبیہ میں) پیچھے رہ جانے والے لوگ کہیں گے: ہمیں بھی اجازت دو کہ ہم تمہارے پیچھے ہو کر چلیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اﷲ کے فرمان کو بدل دیں۔ فرما دیجئے: تم ہرگز ہمارے پیچھے نہیں آسکتے اسی طرح اﷲ نے پہلے سے فرما دیا تھا۔ سو اب وہ کہیں گے: بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، بات یہ ہے کہ یہ لوگ (حق بات کو) بہت ہی کم سمجھتے ہیں،
عنقریب یہ پیچھے رہ جانے والے تم سے کہیں گے جب تم مال غنیمت لینے کے لئے جانے لگو گے کہ اجازت دو ہم بھی تمہارے ساتھ چلے چلیں یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو تبدیل کر دیں تو تم کہہ دو کہ تم لو گ ہمارے ساتھ نہیں آسکتے ہو اللہ نے یہ بات پہلے سے طے کردی ہے پھر یہ کہیں گے کہ تم لوگ ہم سے حسد رکھتے ہو حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بات کو بہت کم سمجھ پاتے ہیں
جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، وه چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل دیں آپ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے، وه اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، (اصل بات یہ ہے) کہ وه لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں
جب تم (جنگِ خیبر میں) غنیمتیں حاصل کرنے کیلئے چلوگے تو جو پیچھے چھوڑ دئیے گئے وہ ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اجازت دو کہ ہم آپ کے پیچھے آئیں وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی بات کو بدل دیں۔ آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ تم اب کبھی ہمارے پیچھے نہیں آسکتے! اللہ پہلے ہی ایسی بات کہہ چکا ہے اس پر وہ ضرور کہیں گے کہ بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو بلکہ یہ (کم عقل) بہت ہی کم بات سمجھتے ہیں۔
قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ ٱلْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُو۟لِى بَأْسٍۢ شَدِيدٍۢ تُقَٰتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا۟ يُؤْتِكُمُ ٱللَّهُ أَجْرًا حَسَنًۭا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا۟ كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًۭا ﴿١٦﴾
ان پیچھے رہ جکانے والے بدوؤں سے کہہ دو کہ بہت جلد تمہیں ایک سخت جنگجو قوم سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا تم ان سے لڑو گے یا وہ اطاعت قبول کر لے گی پھر اگر تم نے حکم مان لیا تو الله تمہیں بہت ہی اچھا انعام دے گا اور اگر تم پھر گئے جیسا کہ پہلے پھر گئے تھے تو تمہیں سخت عذاب دے گا
اِن پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ \"عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں تم کو ان سے جنگ کرنی ہوگی یا وہ مطیع ہو جائیں گے اُس وقت اگر تم نے حکم جہاد کی اطاعت کی تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا، اور اگر تم پھر اُسی طرح منہ موڑ گئے جس طرح پہلے موڑ چکے ہو تو اللہ تم کو دردناک سزا دے گا
ان پیچھے رہ گئے ہوئے گنواروں سے فرماؤ عنقریب تم ایک سخت لڑائی والی قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ ان سے لڑو یا وہ مسلمان ہوجائیں، پھر اگر تم فرمان مانو گے اللہ تمہیں اچھا ثواب دے گا، ور اگر پھر گے جیسے پہلے پھر گئے تو تمھیں درد ناک عذاب دے گا،
جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم ایک سخت جنگجو قوم کے (ساتھ لڑائی کے) لئے بلائے جاؤ گے ان سے تم (یا تو) جنگ کرتے رہو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے۔ اگر تم حکم مانو گے تو خدا تم کو اچھا بدلہ دے گا۔ اور اگر منہ پھیر لو گے جیسے پہلی دفعہ پھیرا تھا تو وہ تم کو بری تکلیف کی سزا دے گا
آپ دیہاتیوں میں سے پیچھے رہ جانے والوں سے فرما دیں کہ تم عنقریب ایک سخت جنگ جو قوم (سے جہاد) کی طرف بلائے جاؤ گے تم ان سے جنگ کرتے رہو گے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے، سو اگر تم حکم مان لوگے تو اﷲ تمہیں بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ اور اگر تم رُوگردانی کرو گے جیسے تم نے پہلے رُوگردانی کی تھی تو وہ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا کر دے گا،
آپ ان پیچھے رہ جانے والوں سے کہہ دیں کہ عنقریب تمہیں ایک ایسی قوم کی طرف بلایا جائے گا جو انتہائی سخت جنگجو قوم ہوگی کہ تم ان سے جنگ ہی کرتے رہو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے تو اگر تم خدا کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں بہترین اجر عنایت کرے گا اور اگر پھر منہ پھیر لو گے جس طرح پہلے کیا تھا تو تمہیں دردناک عذاب کے ذریعہ سزا دے گا
آپ پیچھے چھوڑے ہوئے بدویوں سے کہہ دو کہ عنقریب تم ایک سخت جنگجو قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ تم ان سے لڑوگے یا وه مسلمان ہوجائیں گے پس اگر تم اطاعت کرو گے تو اللہ تمہیں بہت بہتر بدلہ دے گا اور اگر تم نے منھ پھیر لیا جیسا کہ اس سے پہلے تم منھ پھیر چکے ہو تو وه تمہیں دردناک عذاب دے گا
آپ(ص) ان پیچھے والے صحرائی عربوں سے کہیے! عنقریب تمہیں ایک سخت جنگجو قوم کے خلاف جہاد کیلئے بلایا جائے گا تم ان سے لڑوگےیا وہ اسلام لائیں گے پس اگر تم نے اطاعت کی تو اللہ تمہیں بہت اچھا اجر عطا کرے گا۔ اور اگر تم نے اسی طرح منہ موڑا جس طرح پہلے منہ موڑا تھا تو وہ تمہیں (دردناک) عذاب دے گا۔
لَّيْسَ عَلَى ٱلْأَعْمَىٰ حَرَجٌۭ وَلَا عَلَى ٱلْأَعْرَجِ حَرَجٌۭ وَلَا عَلَى ٱلْمَرِيضِ حَرَجٌۭ ۗ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ يُدْخِلْهُ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ ۖ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًۭا ﴿١٧﴾
نہ اندھے پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے ہی پرکچھ گناہ ہے اور نہ بیمار ی پرکچھ گناہے ہے اور جوکوئی الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو اسے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جو نافرمانی کرے گا اسے سخت سزا دے گا
اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا\"
اندھے پر تنگی نہیں اور نہ لنگڑے پر مضائقہ اور نہ بیمار پر مواخذہ اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے اللہ اسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں رواں اور جو پھر جائے گا اسے دردناک عذاب فرمائے گا،
نہ تو اندھے پر گناہ ہے (کہ سفر جنگ سے پیچھے رہ جائے) اور نہ لنگڑے پر گناہ ہے اور نہ بیمار پر گناہ ہے۔ اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر کے فرمان پر چلے گا خدا اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور جو روگردانی کرے گا اسے برے دکھ کی سزا دے گا
(جہاد سے رہ جانے میں) نہ اندھے پر کوئی گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی گناہ ہے اور نہ (ہی) بیمار پر کوئی گناہ ہے، اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے گا وہ اسے بہشتوں میں داخل فرما دے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی، اور جو شخص (اطاعت سے) منہ پھیرے گا وہ اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کردے گا،
اندھے آدمی کے لئے کوئی گناہ نہیں ہے اور لنگڑے آدمی کے لئے بھی کوئی گناہ نہیں ہے اورمریض کی بھی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا خدا اس کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جو روگردانی کرے گا وہ اسے دردناک عذاب کی سزا دے گا
اندھے پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے، جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اسے اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جس کے (درختوں) تلے نہریں جاری ہیں اور جو منھ پھیر لے اسے دردناک عذاب (کی سزا) دے گا
اندھے پر کوئی مضائقہ نہیں ہے اورنہ ہی لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی گناہ اور جو خدا اور رسول(ص) کی اطاعت کرے گا۔ تو اللہ اسے ان بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں اور جو رُوگردانی کرے گا تو اسے دردناک عذاب دے گا۔
۞ لَّقَدْ رَضِىَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَٰبَهُمْ فَتْحًۭا قَرِيبًۭا ﴿١٨﴾
بے شک الله مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پھر اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلو ں میں تھا پس اس نے ان پر اطمینان نازل کر دیا اور انہیں جلد ہی فتح دے دی
اللہ مومنوں سے خوش ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی
بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا
(اے پیغمبر) جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا۔ اور جو (صدق وخلوص) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا۔ تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی
بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو جو (جذبۂ صِدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کر لیا تو اﷲ نے ان (کے دلوں) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیا،
یقینا خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی
یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وه درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی
بےشک اللہ مؤمنین سے راضی ہوا جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ(ص) سے بیعت کر رہے تھے تو اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا۔ پس اس نے ان پر سکون و اطمینان نازل کیا اور انہیں انعام میں ایک قریبی فتح عنا یت فرمائی۔
وَمَغَانِمَ كَثِيرَةًۭ يَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًۭا ﴿١٩﴾
اوربہت سی غنیمتیں بھی دے گا جنہیں وہ لیں گے اور الله زبردست حکمت والا ہے
اور بہت سا مال غنیمت انہیں عطا کر دیا جسے وہ (عنقریب) حاصل کریں گے اللہ زبردست اور حکیم ہے
اور بہت سی غنیمتیں جن کو لیں، اور اللہ عزت و حکمت والا ہے،
اور بہت سی غنیمتیں جو انہوں نے حاصل کیں۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے
اور بہت سے اموالِ غنیمت (بھی) جو وہ حاصل کر رہے ہیں، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے،
اور بہت سے منافع بھی دے دیئے جنہیں وہ حاصل کریں گے اور اللہ ہر ایک پر غالب آنے والا اور صاحب هحکمت ہے
اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وه حاصل کریں گے اور اللہ غالب حکمت واﻻ ہے
اور بہت سی غنیمتیں بھی جن کو وہ (عنقریب) حاصل کریں گے اللہ (ہر چیز) پرغالب ہے، بڑا حکمت والا ہے۔
وَعَدَكُمُ ٱللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةًۭ تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَٰذِهِۦ وَكَفَّ أَيْدِىَ ٱلنَّاسِ عَنكُمْ وَلِتَكُونَ ءَايَةًۭ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَٰطًۭا مُّسْتَقِيمًۭا ﴿٢٠﴾
الله نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے پھر تمہیں اس نے یہ جلدی دےدی اوراس نےتم سے لوگوں کے ہاتھ روک دیئے اور تاکہ ایمان لانے والوں کے لیے یہ ایک نشان ہو اور تاکہ تم سیدھے راستہ پر چلائے
اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے، تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے
اور اللہ نے تم سے وعدہ کیا ہے بہت سی غنیمتوں کا کہ تم لو گے تو تمہیں یہ جلد عطا فرمادی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے اور اس لیے کہ ایمان والوں کے لیے نشانی ہو اور تمہیں سیدھی راہ دکھائے
خدا نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا کہ تم ان کو حاصل کرو گے سو اس نے غنیمت کی تمہارے لئے جلدی فرمائی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے۔ غرض یہ تھی کہ یہ مومنوں کے لئے (خدا کی) قدرت کا نمونہ ہو اور وہ تم کو سیدھے رستے پر چلائے
اور اﷲ نے (کئی فتوحات کے نتیجے میں) تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے جو تم آئندہ حاصل کرو گے مگر اس نے یہ (غنیمتِ خیبر) تمہیں جلدی عطا فرما دی اور (اہلِ مکہّ، اہلِ خیبر، قبائل بنی اسد و غطفان الغرض تمام دشمن) لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے، اور تاکہ یہ مومنوں کے لئے (آئندہ کی کامیابی و فتح یابی کی) نشانی بن جائے۔ اور تمہیں (اطمینانِ قلب کے ساتھ) سیدھے راستہ پر (ثابت قدم اور)گامزن رکھے،
اس نے تم سے بہت سے فوائد کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے پھر اس غنیمت هخیبر کو فورا عطا کردیا اور لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا اور تاکہ یہ صاحبانِ ایمان کے لئے ایک قدرت کی نشانی بنے اور وہ تمہیں سیدھے راستہ کی ہدایت دے دے
اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت ساری غنیمتوں کا وعده کیا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے پس یہ تو تمہیں جلدی ہی عطا فرما دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے، تاکہ مومنوں کے لئے یہ ایک نشانی ہو جائے اور (تاکہ) وه تمہیں سیدھی راه چلائے
اللہ نے تم سے (اور بھی) بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جن کو تم حاصل کرو گے پس یہ (فتحِ خیبر) تو اس نے فوری طور پر تمہیں دے دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے تاکہ یہ مؤمنین کیلئے (ہماری قدرت و نصرت) کی ایک نشانی ہو جائے اور وہ تمہیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرے (اس پر چلائے)۔
وَأُخْرَىٰ لَمْ تَقْدِرُوا۟ عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ ٱللَّهُ بِهَا ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرًۭا ﴿٢١﴾
اور بھی فتوحات ہیں کہ جو (اب تک) تمہارے بس میں نہیں آئیں البتہ الله کے بس میں ہیں اور الله ہر چیز پر قادر ہے
اِس کے علاوہ دوسرے اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے
اور ایک اور جو تمہارے بل (بس) کی نہ تھی وہ اللہ کے قبضہ میں ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے،
اور اَور (غنیمتیں دیں) جن پر تم قدرت نہیں رکھتے تھے (اور) وہ خدا ہی کی قدرت میں تھیں۔ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
اور دوسری (مکّہ، ہوازن اور حنین سے لے کر فارس اور روم تک کی بڑی فتوحات) جن پر تم قادر نہ تھے بیشک اﷲ نے (تمہارے لئے) ان کا بھی احاطہ فرما لیا ہے، اور اﷲ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے،
اور دوسری غنیمتیں جن پر تم قادر نہیں ہوسکے خدا ان پر بھی حاوی ہے اور خدا تو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے
اور تمہیں اور (غنیمتیں) بھی دے جن پر اب تک تم نے قابو نہیں پایا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے قابو میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
اور غنیمتیں بھی ہیں جن پر تم ابھی قادر نہیں ہوئے اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے (اس کے قبضہ میں ہیں) اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
وَلَوْ قَٰتَلَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَوَلَّوُا۟ ٱلْأَدْبَٰرَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّۭا وَلَا نَصِيرًۭا ﴿٢٢﴾
اور اگر کافر تم سے لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑتے پھر نہ کوئی حمایتی پاتے نہ کوئی مددگار
یہ کافر لوگ اگر اِس وقت تم سے لڑ گئے ہوتے تو یقیناً پیٹھ پھیر جاتے اور کوئی حامی و مددگار نہ پاتے
اور اگر کافر تم سے لڑیں تو ضرور تمہارے مقابلہ سے پیٹھ پھیردیں گے پھر کوئی حمایتی نہ پائیں گے نہ مددگار،
اور اگر تم سے کافر لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے پھر کسی کو دوست نہ پاتے اور نہ مددگار
اور (اے مومنو!) اگر کافر لوگ (حدیبیہ میں) تم سے جنگ کرتے تو وہ ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے، پھر وہ نہ کوئی دوست پاتے اور نہ مددگار (مگر اﷲ کو صرف یہ ایک ہی نہیں بلکہ کئی فتوحات کا دروازہ تمہارے لئے کھولنا مقصود تھا)،
اور اگر یہ کفاّر تم سے جنگ کرتے تو یقینا منہ پھیر کر بھاگ جاتے اور پھر انہیں کوئی سرپرست اور مددگار نصیب نہ ہوتا
اور اگر تم سے کافر جنگ کرتے تو یقیناً پیٹھ دکھا کر بھاگتے پھر نہ تو کوئی کار ساز پاتے نہ مددگار
اور اگر (یہ) کافر لوگ تم سے جنگ کرتے تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور پھر وہ (اپنے لئے) کوئی حامی و مددگار نہ پاتے۔
سُنَّةَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ ٱللَّهِ تَبْدِيلًۭا ﴿٢٣﴾
الله کا قدیم دستور پہلے سے یونہی چلا آتا ہے اور تو اس کے دستور کو بدلا ہوا نہ پائے گا
یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے
اللہ کا دستور ہے کہ پہلے سے چلا آتا ہے اور ہرگز تم اللہ کا دستور بدلتا نہ پاؤ گے،
(یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے۔ اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے
(یہ) اﷲ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے، اور آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے،
یہ اللہ کی ایک سنّت ہے جو پہلے بھی گزر چکی ہے اور تم اللہ کے طریقہ میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے
اللہ کے اس قاعدے کے مطابق جو پہلے سے چلا آیا ہے، تو کبھی بھی اللہ کے قاعدے کو بدلتا ہوا نہ پائے گا
یہی اللہ کا دستور ہے جوپہلے سے چلا آرہا ہے اور تم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔
وَهُوَ ٱلَّذِى كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنۢ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا ﴿٢٤﴾
اوروہی ہے جس نے وادی مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے اس کے بعد اس نے تمہیں ان پر غالب کر دیا تھا اور الله ان سب باتوں کو جو تم کر رہے تھے دیکھ رہا تھا
وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں اُن کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ اُن سے روک دیے، حالانکہ وہ اُن پر تمہیں غلبہ عطا کر چکا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے دیکھ رہا تھا
اور وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے وادی مکہ میں بعد اس کے کہ تمہیں ان پر قابو دے دیا تھا، اور اللہ تمہارے کام دیکھتا ہے،
اور وہی تو ہے جس نے تم کو ان (کافروں) پر فتحیاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے
اور وہی ہے جس نے سرحدِ مکّہ پر (حدیبیہ کے قریب) ان (کافروں) کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان (کے گروہ) پر غلبہ بخش دیا تھا۔ اور اﷲ ان کاموں کو جو تم کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے،
وہی خدا ہے جس نے کفاّر کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے سرحد مکہ کے اندر تمہارے فتح پاجانے کے بعد بھی روک دیا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے
وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا، اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے
اور وہ (اللہ) وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں روک دئیے تھے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے بعد اس کے کہ تمہیں ان پر غلبہ عطا کر دیا تھا اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔
هُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَصَدُّوكُمْ عَنِ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ وَٱلْهَدْىَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُۥ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌۭ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَآءٌۭ مُّؤْمِنَٰتٌۭ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَـُٔوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍۢ ۖ لِّيُدْخِلَ ٱللَّهُ فِى رَحْمَتِهِۦ مَن يَشَآءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا۟ لَعَذَّبْنَا ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٢٥﴾
وہ تو وہی ہیں جنہوں نے انکار کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو روکے رکھا اس سے کہ وہ اپنی قربان گاہ تک پہنچیں اور اگر کچھ مرد ایمان والے اور عورتیں ایمان والی نہ ہوتیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے کہ تم انہیں پامال کر دیتے پھر ان کی طرف سے تم پر نادانستگی سے الزام آتا (تو تمہیں لڑنے سے نہ روکا جاتا) تاکہ الله اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرے اگر وہ ٹل گئے ہوتے تو ہم ان میں سے جو کافر ہیں انہیں دردناک عذاب دیتے
وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور ہدی کے اونٹوں کو اُن کی قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انہیں پامال کر دو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کر لے وہ مومن الگ ہو گئے ہوتے تو (اہل مکہ میں سے) جو کافر تھے ان کو ہم ضرور سخت سزا دیتے
وہ وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجدِ حرام سے روکا اور قربانی کے جانور رُکے پڑے اپنی جگہ پہنچنے سے اور اگر یہ نہ ہوتا کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں جن کی تمہیں خبر نہیں کہیں تم انہیں روند ڈالو تو تمہیں ان کی طرف سے انجانی میں کوئی مکروہ پہنچے تو ہم تمہیں ان کی قتال کی اجازت دیتے ان کا یہ بچاؤ اس لیے ہے کہ اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے جسے چاہے، اگر وہ جدا ہوجاتے تو ہم ضرور ان میں کے کافروں کو دردناک عذاب دیتے
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روک دیا اور قربانیوں کو بھی کہ اپنی جگہ پہنچنے سے رکی رہیں۔ اور اگر ایسے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم جانتے نہ تھے کہ اگر تم ان کو پامال کر دیتے تو تم کو ان کی طرف سے بےخبری میں نقصان پہنچ جاتا۔ (تو بھی تمہارے ہاتھ سے فتح ہوجاتی مگر تاخیر) اس لئے (ہوئی) کہ خدا اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔ اور اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان ہم دکھ دینے والا عذاب دیتے
یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجدِ حرام سے روک دیا اور قربانی کے جانوروں کو بھی، جو اپنی جگہ پہنچنے سے رکے پڑے رہے، اور اگر کئی ایسے مومن مرد اور مومن عورتیں (مکہّ میں موجود نہ ہوتیں) جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو کہ تم انہیں پامال کر ڈالو گے اور تمہیں بھی لاعلمی میں ان کی طرف سے کوئی سختی اور تکلیف پہنچ جائے گی (تو ہم تمہیں اِسی موقع پر ہی جنگ کی اجازت دے دیتے۔ مگر فتحِ مکّہ کو مؤخّر اس لئے کیا گیا) تاکہ اﷲ جسے چاہے (صلح کے نتیجے میں) اپنی رحمت میں داخل فرما لے۔ اگر (وہاں کے کافر اور مسلمان) الگ الگ ہو کر ایک دوسرے سے ممتاز ہو جاتے تو ہم ان میں سے کافروں کو دردناک عذاب کی سزا دیتے،
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر اختیار کیا اور تم کو مسجد الحرام میں داخل ہونے سے روک دیا اور قربانی کے جانوروں کو روک دیا کہ وہ اپنی منزل پر پہنچنے سے رکے رہے اور اگر صاحبِ ایمان مرد اور باایمان عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور نادانستگی میں انہیں بھی پامال کر ڈالنے کا خطرہ تھا اور اس طرح تمہیں لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچ جاتا تو تمہیں روکا بھی نہ جاتا - روکا اس لئے تاکہ خدا جسے چاہے اسے اپنی رحمت میں داخل کرلے کہ یہ لوگ الگ ہوجاتے تو ہم کفّار کو دردناک عذاب میں مبتلا کردیتے
یہی وه لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے لئے موقوف جانور کو اس کی قربان گاه میں پہنچنے سے (روکا)، اور اگر ایسے (بہت سے) مسلمان مرد اور (بہت سی) مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر نہ تھی یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بے خبری میں ضرر پہنچتا، (تو تمہیں لڑنے کی اجازت دے دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا) تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر یہ الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے ہم ان کو درد ناک سزا دیتے
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد الحرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی روکے رکھا کہ وہ اپنی قربانی کی جگہ نہ پہنچ سکے اور اگر (مکہ میں) ایسے مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم نہیں جانتے (اور یہ خوف نہ ہوتا کہ) تم انہیں لاعلمی میں روند ڈالوگے اور پھر ان کی وجہ سے تم پر الزام آتا (تو جنگ نہ روکی جاتی) مگر روکی اس لئے گئی تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے اگر وہ (اہلِ ایمان) الگ ہو جاتے تو ہم ان (اہلِ مکہ) میں سے کافروں کو دردناک سزا دیتے۔
إِذْ جَعَلَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ ٱلْجَٰهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ ٱللَّهُ سَكِينَتَهُۥ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ وَعَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ ٱلتَّقْوَىٰ وَكَانُوٓا۟ أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمًۭا ﴿٢٦﴾
جب کہ کافروں نے اپنے دل میں سخت جوش پیدا کیا تھا جہالت کا جوش تھا پھر الله نے بھی اپنی تسکین اپنے رسول اور ایمان والوں پر نازل کر دی اور ان کو پرہیزگاری کی بات پر قائم رکھا اور وہ اسی کے لائق اور قابل بھی تھے اور الله ہر چیز کو جانتا ہے
(یہی وجہ ہے کہ) جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلانہ حمیت بٹھا لی تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکینت نازل فرمائی اور مومنوں کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھا کہ وہی اُس کے زیادہ حق دار اور اُس کے اہل تھے اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے
جبکہ کافروں نے اپنے دلوں میں اَڑ رکھی وہی زمانہٴ جاہلیت کی اَڑ (ضد) تو اللہ نے اپنا اطمینان اپنے رسول اور ایمان والوں پر اتارا اور پرہیزگاری کا کلمہ ان پر لازم فرمایا اور وہ اس کے زیادہ سزاوار اور اس کے اہل تھے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے
جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد کی اور ضد بھی جاہلیت کی۔ تو خدا نے اپنے پیغمبر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور ان کو پرہیزگاری کی بات پر قائم رکھا اور وہ اسی کے مستحق اور اہل تھے۔ اور خدا ہر چیز سے خبردار ہے
جب کافر لوگوں نے اپنے دلوں میں متکبّرانہ ہٹ دھرمی رکھ لی (جو کہ) جاہلیت کی ضِد اور غیرت (تھی) تو اﷲ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں پر اپنی خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں کلمہء تقوٰی پر مستحکم فرما دیا اور وہ اسی کے زیادہ مستحق تھے اور اس کے اہل (بھی) تھے، اور اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے،
یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی کہ تم کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے تو اللہ نے اپنے رسول اور صاحبانِ ایمان پر سکون نازل کردیا اور انہیں کلمہ تقویٰ پر قائم رکھا اور وہ اسی کے حقدار اور اہل بھی تھے اور اللہ تو ہر شے کا جاننے والا ہے
جب کہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں حمیت کو جگہ دی اور حمیت بھی جاہلیت کی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا اور وه اس کے اہل اور زیاده مستحق تھے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے
(وہ وقت یاد کرو) جب کافروں نے اپنے دلوں میں عصبیت پیدا کی اور عصبیت بھی جاہلیت والی اللہ نے اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول(ص) اور اہلِ ایمان پر نازل فرمایا اور انہیں پرہیزگاری کی بات کا پابند رکھا کہ وہی اس کے زیادہ حقدار تھے اور اس کے اہل بھی اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔
لَّقَدْ صَدَقَ ٱللَّهُ رَسُولَهُ ٱلرُّءْيَا بِٱلْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ ٱلْمَسْجِدَ ٱلْحَرَامَ إِن شَآءَ ٱللَّهُ ءَامِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا۟ فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًۭا قَرِيبًا ﴿٢٧﴾
بے شک الله نے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایا کہ اگر الله نے چاہا تو تم امن کے ساتھ مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے اپنے سر منڈاتے ہوئے اور بال کتراتے ہوئے بے خوف و خطر ہوں گے پس جس بات کو تم نہ جانتے تھے اس نے اسے جان لیا تھا پھر اس نے اس سے پہلےہی ایک فتح بہت جلدی کر دی
فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھا یا تھا جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق تھا انشاءاللہ تم ضرور مسجد حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہو گے، اپنے سر منڈواؤ گے اور بال ترشواؤ گے، اور تمہیں کوئی خوف نہ ہو گا وہ اُس بات کو جانتا تھا جسے تم نہ جانتے تھے اس لیے وہ خواب پورا ہونے سے پہلے اُس نے یہ قریبی فتح تم کو عطا فرما دی
بیشک اللہ نے سچ کردیا اپنے رسول کا سچا خواب بیشک تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے اگر اللہ چاہے امن و امان سے اپنے سروں کے بال منڈاتے یا ترشواتے بے خوف، تو اس نے جانا جو تمہیں معلوم نیں تو اس سے پہلے ایک نزدیک آنے والی فتح رکھی
بےشک خدا نے اپنے پیغمبر کو سچا (اور) صحیح خواب دکھایا۔ کہ تم خدا نے چاہا تو مسجد حرام میں اپنے سر منڈوا کر اور اپنے بال کتروا کر امن وامان سے داخل ہوگے۔ اور کسی طرح کا خوف نہ کرو گے۔ جو بات تم نہیں جانتے تھے اس کو معلوم تھی سو اس نے اس سے پہلے ہی جلد فتح کرادی
بیشک اﷲ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقیقت کے عین مطابق سچا خواب دکھایا تھا کہ تم لوگ، اگر اﷲ نے چاہا تو ضرور بالضرور مسجدِ حرام میں داخل ہو گے امن و امان کے ساتھ، (کچھ) اپنے سر منڈوائے ہوئے اور (کچھ) بال کتروائے ہوئے (اس حال میں کہ) تم خوفزدہ نہیں ہو گے، پس وہ (صلح حدیبیہ کو اس خواب کی تعبیر کے پیش خیمہ کے طور پر) جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے سو اس نے اس (فتحِ مکہ) سے بھی پہلے ایک فوری فتح (حدیبیہ سے پلٹتے ہی فتحِ خیبر) عطا کر دی (اور اس سے اگلے سال فتحِ مکہ اور داخلۂ حرم عطا فرما دیا)،
بیشک خدا نے اپنے رسول کو بالکل سچا خوب دکھلایا تھا کہ خدا نے چاہا تو تم لوگ مسجد الحرام میں امن و سکون کے ساتھ سر کے بال منڈا کر اور تھوڑے سے بال کاٹ کر داخل ہوگے اور تمہیں کسی طرح کا خوف نہ ہوگا تو اسے وہ بھی معلوم تھا جو تمہیں نہیں معلوم تھا تو اس نے فتح مکہّ سے پہلے ایک قریبی فتح قرار دے دی
یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو خواب سچا دکھایا کہ انشاءاللہ تم یقیناً پورے امن وامان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوگے سرمنڈواتے ہوئے اور سر کے بال کترواتے ہوئے (چین کے ساتھ) نڈر ہو کر، وه ان امور کو جانتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے، پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی
(اللہ) اس بات کو جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے تو اس نے اس (تعبیرِ خواب) سے پہلے تمہیں ایک قریبی فتح عطا کر دی۔
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدًۭا ﴿٢٨﴾
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر ایک دین پر غالب کرے اور الله کی شہادت کافی ہے
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اِس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اللہ کافی ہے گواہ
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت (کی کتاب) اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور حق ظاہر کرنے کے لئے خدا ہی کافی ہے
وہی ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و حقانیت پر) اﷲ ہی گواہ کافی ہے،
وہی وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان عالم پر غالب بنائے اور گواہی کے لئے بس خدا ہی کافی ہے
وہی ہے جس نےاپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کرے، اور اللہ تعالیٰ کافی ہے گواہی دینے واﻻ
وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اپنے رسول(ص) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے اور (اس بات کی) گواہی کیلئے اللہ کافی ہے۔
مُّحَمَّدٌۭ رَّسُولُ ٱللَّهِ ۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَىٰهُمْ رُكَّعًۭا سُجَّدًۭا يَبْتَغُونَ فَضْلًۭا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٰنًۭا ۖ سِيمَاهُمْ فِى وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ ٱلسُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِى ٱلْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْـَٔهُۥ فَـَٔازَرَهُۥ فَٱسْتَغْلَظَ فَٱسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِۦ يُعْجِبُ ٱلزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ ٱلْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةًۭ وَأَجْرًا عَظِيمًۢا ﴿٢٩﴾
محمد الله کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع و سجود کر رہے ہیں الله کا فضل اوراس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں ان کی شناخت ان کے چہرو ں میں سجدہ کا نشان ہے یہی وصف ان کا تو رات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اسے قوی کر دیا پھر موٹی ہوگئی پھر اپنے تنہ پر کھڑی ہوگئی کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ الله ان کی وجہ سے کفار کو غصہ دلائے الله ان میں سے ایمان داروں اورنیک کام کرنے والوں کے لیے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں اِس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے
محمد اللہ کے رسول ہیں، اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے، ان کی علامت ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے، اور ان کی صفت انجیل میں جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں، اللہ نے وعدہ کیا ان سے جو ان میں ایمان اور اچھے کاموں والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا،
محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں۔ اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے (جو بصورتِ نور نمایاں ہے)۔ ان کے یہ اوصاف تورات میں (بھی مذکور) ہیں اور ان کے (یہی) اوصاف انجیل میں (بھی مرقوم) ہیں۔ وہ (صحابہ ہمارے محبوبِ مکرّم کی) کھیتی کی طرح ہیں جس نے (سب سے پہلے) اپنی باریک سی کونپل نکالی، پھر اسے طاقتور اور مضبوط کیا، پھر وہ موٹی اور دبیز ہوگئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی (اور جب سرسبز و شاداب ہو کر لہلہائی تو) کاشتکاروں کو کیا ہی اچھی لگنے لگی (اﷲ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اسی طرح ایمان کے تناور درخت بنایا ہے) تاکہ اِن کے ذریعے وہ (محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلنے والے) کافروں کے دل جلائے، اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے،
محمد(ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میںانتہائی رحمدل ہیں تم انہیں دیکھوگے کہ بارگاہ ِاحدیّت میںسر خم کئے ہوئے سجدہ ریز ہیںاور اپنے پروردگارسے فضل وکرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں ،کثرتِ سجود کی بنا پر ان کے چہروں پر سجدہ کے نشانات پائے جاتے ہیںیہی ان کی مثال تورےت میں ہے اور یہی ان کی صفت انجیل میں ہے جیسے کوئی کھیتی ہو جو پہلے سوئی نکالے پھر اسے مضبوط بنائے پھر وہ موٹی ہو جائے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے کہ کاشتکاروں کو خوش کرنے لگے تاکہ ان کے ذریعہ کفار کو جلایا جائے اور اللہ نے صاحبانِ ایمان وعمل صالح سے مغفرت اور عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اﺛر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وه موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ﺛواب کا وعده کیا ہے
محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں تم انہیں دیکھو گے کہ وہ (کبھی) رکوع (اور کبھی) سجود کر رہے ہیں (اور) اللہ کے فضل و کرم اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں ان کی علامت ان کے چہروں پر سجدہ کے نشان سے نمایاں ہے ان کی توراۃ میں اور انجیل میں توصیف یوں ہے جیسے ایک کھیتی جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اس کو تقویت دی اور وہ مضبوط و موٹی ہوئی پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی وہ کسانوں کو خوش کرتی ہے تاکہ ان کے ذریعہ سے کفار کے دل جلائے اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، مغفرت اور بڑے اجرو ثواب کا وعدہ کر رکھا ہے۔