Setting
Surah The Pen [Al-Qalam] in Urdu
نٓ ۚ وَٱلْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ ﴿١﴾
نون! قَسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ لوگ لکھتے ہیں۔
مَآ أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍۢ ﴿٢﴾
کہ آپ(ص) اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے دیوانے نہیں ہیں۔
وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍۢ ﴿٣﴾
اور بےشک آپ(ص) کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم ہو نے والانہیں ہے۔
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍۢ ﴿٤﴾
اور بےشک آپ(ص) خلقِ عظیم کے مالک ہیں۔
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ ﴿٥﴾
عنقریب آپ بھی دیکھیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔
بِأَييِّكُمُ ٱلْمَفْتُونُ ﴿٦﴾
کہ تم میں سے کون جُنون میں مبتلا ہے۔
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِۦ وَهُوَ أَعْلَمُ بِٱلْمُهْتَدِينَ ﴿٧﴾
بےشک آپ(ص) کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ اس کی راہ سے بھٹکا ہواکون ہے؟ اور وہی انہیں خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں۔
فَلَا تُطِعِ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿٨﴾
تو آپ(ص) جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانیں۔
وَدُّوا۟ لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴿٩﴾
وہ (کفار) تو چاہتے ہیں کہ آپ(ص) (اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں) ڈھیلے پڑجائیں تو وہ بھی (مخالفت میں) ڈھیلے ہو جائیں۔
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍۢ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾
اور آپ(ص) ہرگز ہر اس شخص کا کہنا نہ مانیں جو بہت (جھوٹی) قَسمیں کھانے والا ہے (اور) ذلیل ہے۔
هَمَّازٍۢ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِيمٍۢ ﴿١١﴾
جو بڑی نکتہ چینی کرنے والا (اور) چلتا پھرتا چغل خور ہے۔
مَّنَّاعٍۢ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾
کارِ خیر سے بڑا منع کرنے والا، حد سے بڑھنے والا (اور) بڑا گنہگار ہے۔
عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿١٣﴾
سخت مزاج ہے اور ان (سب بری صفتوں) کے علاوہ وہ بداصل بھی ہے۔
أَن كَانَ ذَا مَالٍۢ وَبَنِينَ ﴿١٤﴾
یہ سب کچھ اس بناء پر ہے کہ وہ مالدار اور اولاد والا ہے۔
إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ءَايَٰتُنَا قَالَ أَسَٰطِيرُ ٱلْأَوَّلِينَ ﴿١٥﴾
جب اس کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔
سَنَسِمُهُۥ عَلَى ٱلْخُرْطُومِ ﴿١٦﴾
ہم عنقریب اس کی سونڈ (نا ک) پر داغ لگائیں گے۔
إِنَّا بَلَوْنَٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ أَصْحَٰبَ ٱلْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا۟ لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ﴿١٧﴾
ہم نے ان (کفارِ مکہ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا جب انہوں نے قَسم کھائی تھی کہ وہ صبح سویرے ضرور اس کا پھل توڑ لیں گے۔
وَلَا يَسْتَثْنُونَ ﴿١٨﴾
اور انہوں نے کوئی استثناء نہیں کیا تھا (انشاء اللہ نہیں کہا تھا)۔
فَطَافَ عَلَيْهَا طَآئِفٌۭ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَآئِمُونَ ﴿١٩﴾
پھر (راتوں رات) جب کہ وہ لوگ ابھی سوئے ہوئے تھے آپ(ص) کے پروردگار کی طرف سے ایک آفت چکر لگا گئی۔
فَأَصْبَحَتْ كَٱلصَّرِيمِ ﴿٢٠﴾
تو وہ (باغ) کٹی ہوئی فصل کی طرح ہوگیا۔
فَتَنَادَوْا۟ مُصْبِحِينَ ﴿٢١﴾
پس انہوں نے صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو آواز دی۔
أَنِ ٱغْدُوا۟ عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰرِمِينَ ﴿٢٢﴾
کہ اگر تم نے پھل توڑنا ہے تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف چلو۔
فَٱنطَلَقُوا۟ وَهُمْ يَتَخَٰفَتُونَ ﴿٢٣﴾
تو وہ اس حال میں چل پڑے کہ چپکے چپکے ایک دوسرے سے کہتے جاتے تھے۔
أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا ٱلْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌۭ ﴿٢٤﴾
کہ خبردار! آج تمہارے پاس اس باغ میں کوئی مسکین نہ آنے پا ئے۔
وَغَدَوْا۟ عَلَىٰ حَرْدٍۢ قَٰدِرِينَ ﴿٢٥﴾
اور وہ اس (مسکین کو کچھ نہ دینے) پر قادر سمجھ کر نکلے۔
فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوٓا۟ إِنَّا لَضَآلُّونَ ﴿٢٦﴾
اور جب باغ کو (برباد) دیکھا تو کہا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔
بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ﴿٢٧﴾
بلکہ ہم محروم ہو گئے ہیں۔
قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ ﴿٢٨﴾
جو ان میں سے بہتر آدمی تھا اس نے کہا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ (خدا کی) تسبیح کیوں نہیں کرتے؟
قَالُوا۟ سُبْحَٰنَ رَبِّنَآ إِنَّا كُنَّا ظَٰلِمِينَ ﴿٢٩﴾
(تب) انہوں نے کہا کہ پاک ہے ہمارا پروردگار بےشک ہم ظالم تھے۔
فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۢ يَتَلَٰوَمُونَ ﴿٣٠﴾
پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم لعنت ملامت کرنے لگے۔
قَالُوا۟ يَٰوَيْلَنَآ إِنَّا كُنَّا طَٰغِينَ ﴿٣١﴾
(اور) کہنے لگے وائے ہو ہم پر! بےشک ہم سرکش ہو گئے تھے۔
عَسَىٰ رَبُّنَآ أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًۭا مِّنْهَآ إِنَّآ إِلَىٰ رَبِّنَا رَٰغِبُونَ ﴿٣٢﴾
امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہمیں اس (باغ) کے بدلے اس سے بہتر باغ عطا کر دے ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
كَذَٰلِكَ ٱلْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ ٱلْءَاخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ﴿٣٣﴾
اسی طرح عذاب آتا ہے اور آخرت کا عذاب تو (اس سے بھی) بہت بڑا ہے کاش کہ یہ لوگ جانتے۔
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّٰتِ ٱلنَّعِيمِ ﴿٣٤﴾
بےشک پرہیزگاروں کیلئے ان کے پروردگار کے ہاں نعمت و آسائش کے باغات ہیں۔
أَفَنَجْعَلُ ٱلْمُسْلِمِينَ كَٱلْمُجْرِمِينَ ﴿٣٥﴾
کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی مانند کر دیں گے؟
مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿٣٦﴾
تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟
أَمْ لَكُمْ كِتَٰبٌۭ فِيهِ تَدْرُسُونَ ﴿٣٧﴾
کیا تمہارے پاس کوئی (آسمانی) کتاب ہے جس میں تم (یہ) پڑھتے ہو؟
إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ ﴿٣٨﴾
کہ تمہارے لئے اس میں وہ کچھ ہے جو تم پسند کرتے ہو؟
أَمْ لَكُمْ أَيْمَٰنٌ عَلَيْنَا بَٰلِغَةٌ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۙ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ ﴿٣٩﴾
یا کیا تم نے ہم سے کچھ قَسمیں لی ہیں کہ قیامت میں تمہارے لئے وہی کچھ ہے جس کا تم حکم لگاؤ گے (فیصلہ کرو گے؟)
سَلْهُمْ أَيُّهُم بِذَٰلِكَ زَعِيمٌ ﴿٤٠﴾
ان سے پوچھئے کہ ان میں سے کون ان (بےبنیاد باتوں) کا ضامن ہے؟
أَمْ لَهُمْ شُرَكَآءُ فَلْيَأْتُوا۟ بِشُرَكَآئِهِمْ إِن كَانُوا۟ صَٰدِقِينَ ﴿٤١﴾
یا انکے کچھ آدمی (ہمارے) شریک ہیں؟ تو اگر وہ سچے ہیں تو پھر اپنے وہ شریک پیش کریں۔
يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍۢ وَيُدْعَوْنَ إِلَى ٱلسُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ ﴿٤٢﴾
(وہ دن یاد کرنے کے لائق ہے) جب پنڈلی کھولی جائے گی (یعنی سخت وقت ہوگا) اور ان (کافروں) کو سجدہ کیلئے بلایا جائے گا تو (اس وقت) وہ سجدہ نہیں کر سکیں گے۔
خَٰشِعَةً أَبْصَٰرُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌۭ ۖ وَقَدْ كَانُوا۟ يُدْعَوْنَ إِلَى ٱلسُّجُودِ وَهُمْ سَٰلِمُونَ ﴿٤٣﴾
ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی (اور) ان پر ذلت چھائی ہوگی حالانکہ انہیں اس وقت (بھی دنیا میں) سجدہ کی دعوت دی جاتی تھی جب وہ صحیح و سالم تھے۔
فَذَرْنِى وَمَن يُكَذِّبُ بِهَٰذَا ٱلْحَدِيثِ ۖ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٤٤﴾
پس (اے رسول(ص)) آپ(ص) مجھے اور اس کو چھوڑ دیں جو اس کتاب کو جھٹلاتا ہے ہم انہیں اس طرح بتدریج تباہی کی طرف لے جائیںگے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔
وَأُمْلِى لَهُمْ ۚ إِنَّ كَيْدِى مَتِينٌ ﴿٤٥﴾
اور میں انہیں مہلت دے رہا ہوں۔ بےشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔
أَمْ تَسْـَٔلُهُمْ أَجْرًۭا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍۢ مُّثْقَلُونَ ﴿٤٦﴾
کیا آپ(ص) ان سے کوئی اجرت طلب کرتے ہیں کہ وہ اس تاوان کے بوجھ تلے دبےجاتے ہیں؟
أَمْ عِندَهُمُ ٱلْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ ﴿٤٧﴾
یا کیا ان کے پاس غیب ہے سو جسے وہ لکھ رہے ہیں؟
فَٱصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ ٱلْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌۭ ﴿٤٨﴾
پس آپ(ص) اپنے پروردگار کے فیصلے تک صبر کریں اور مچھلی والے (جنابِ یونس(ع)) کی طرح نہ ہوں جب انہوں نے اس حال میں (اپنے پروردگار کو) پکارا کہ وہ غم و غصہ سے بھرے ہوۓ تھے (یا مغموم تھے)۔
لَّوْلَآ أَن تَدَٰرَكَهُۥ نِعْمَةٌۭ مِّن رَّبِّهِۦ لَنُبِذَ بِٱلْعَرَآءِ وَهُوَ مَذْمُومٌۭ ﴿٤٩﴾
اگر ان کے پروردگار کا فضل و کرم ان کے شاملِ حال نہ ہوتا تو انہیں اس حال میں چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا کہ وہ مذموم ہوتے۔
فَٱجْتَبَٰهُ رَبُّهُۥ فَجَعَلَهُۥ مِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ﴿٥٠﴾
مگر ان کے پروردگار نے انہیں منتخب کر لیا اور انہیں (اپنے) نیکوکار بندوں سے بنا دیا۔
وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَٰرِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا۟ ٱلذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُۥ لَمَجْنُونٌۭ ﴿٥١﴾
اور جب کافر ذکر (قرآن) سنتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی (تیز و تند) نظروں سے آپ(ص) کو (راہِ راست) سے پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ ضرور دیوانہ ہے۔
وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌۭ لِّلْعَٰلَمِينَ ﴿٥٢﴾
حالانکہ وہ (قرآن) تو تمام جہانوں کیلئے نصیحت ہے۔