Main pages

Surah Ornaments of Gold [Az-Zukhruf] in Urdu

Surah Ornaments of Gold [Az-Zukhruf] Ayah 89 Location Maccah Number 43

حمٓ ﴿١﴾

حا، میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،

وَٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ ﴿٢﴾

قسم ہے روشن کتاب کی،

إِنَّا جَعَلْنَٰهُ قُرْءَٰنًا عَرَبِيًّۭا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٣﴾

بیشک ہم نے اسے عربی (زبان) کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ سمجھ سکو،

وَإِنَّهُۥ فِىٓ أُمِّ ٱلْكِتَٰبِ لَدَيْنَا لَعَلِىٌّ حَكِيمٌ ﴿٤﴾

بیشک وہ ہمارے پاس سب کتابوں کی اصل (لوحِ محفوظ) میں ثَبت ہے یقیناً (یہ سب کتابوں پر) بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے،

أَفَنَضْرِبُ عَنكُمُ ٱلذِّكْرَ صَفْحًا أَن كُنتُمْ قَوْمًۭا مُّسْرِفِينَ ﴿٥﴾

اور کیا ہم اس نصیحت کو تم سے اِس بنا پر روک دیں کہ تم حد سے گزر جانے والی قوم ہو،

وَكَمْ أَرْسَلْنَا مِن نَّبِىٍّۢ فِى ٱلْأَوَّلِينَ ﴿٦﴾

اور پہلے لوگوں میں ہم نے کتنے ہی پیغمبر بھیجے تھے،

وَمَا يَأْتِيهِم مِّن نَّبِىٍّ إِلَّا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ ﴿٧﴾

اور کوئی نبی اُن کے پاس نہیں آتا تھا مگر وہ اُس کا مذاق اڑایا کرتے تھے،

فَأَهْلَكْنَآ أَشَدَّ مِنْهُم بَطْشًۭا وَمَضَىٰ مَثَلُ ٱلْأَوَّلِينَ ﴿٨﴾

اور ہم نے اِن (کفّارِ مکہ) سے زیادہ زور آور لوگوں کو ہلاک کر دیا اور اگلے لوگوں کا حال (کئی جگہ پہلے) گزر چکا،

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ ٱلْعَزِيزُ ٱلْعَلِيمُ ﴿٩﴾

اور اگر آپ اُن سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کِس نے پیدا کیا تو وہ یقیناً کہیں گے کہ انہیں غالب، علم والے (رب) نے پیدا کیا ہے،

ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ مَهْدًۭا وَجَعَلَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًۭا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٠﴾

جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا اور اس میں تمہارے لئے راستے بنائے تاکہ تم منزلِ مقصود تک پہنچ سکو،

وَٱلَّذِى نَزَّلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍۢ فَأَنشَرْنَا بِهِۦ بَلْدَةًۭ مَّيْتًۭا ۚ كَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ ﴿١١﴾

اور جس نے آسمان سے اندازۂ (ضرورت) کے مطابق پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے مُردہ شہر کو زندہ کر دیا، اسی طرح تم (بھی مرنے کے بعد زمین سے) نکالے جاؤ گے،

وَٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْأَزْوَٰجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْفُلْكِ وَٱلْأَنْعَٰمِ مَا تَرْكَبُونَ ﴿١٢﴾

اور جس نے تمام اقسام و اصناف کی مخلوق پیدا کی اور تمہارے لئے کشتیاں اور بحری جہاز بنائے اور چوپائے بنائے جن پر تم (بحر و بر میں) سوار ہوتے ہو،

لِتَسْتَوُۥا۟ عَلَىٰ ظُهُورِهِۦ ثُمَّ تَذْكُرُوا۟ نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا ٱسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا۟ سُبْحَٰنَ ٱلَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُۥ مُقْرِنِينَ ﴿١٣﴾

تاکہ تم ان کی پشتوں (یا نشستوں) پر درست ہو کر بیٹھ سکو، پھر تم اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو، جب تم سکون سے اس (سواری کی نشست) پر بیٹھ جاؤ تو کہو: پاک ہے وہ ذات جس نے اِس کو ہمارے تابع کر دیا حالانکہ ہم اِسے قابو میں نہیں لا سکتے تھے،

وَإِنَّآ إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ ﴿١٤﴾

اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں،

وَجَعَلُوا۟ لَهُۥ مِنْ عِبَادِهِۦ جُزْءًا ۚ إِنَّ ٱلْإِنسَٰنَ لَكَفُورٌۭ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾

اور اُن (مشرکوں) نے اس کے بندوں میں سے (بعض کو اس کی اولاد قرار دے کر) اس کے جزو بنا دیئے، بیشک انسان صریحاً بڑا ناشکر گزار ہے،

أَمِ ٱتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنَاتٍۢ وَأَصْفَىٰكُم بِٱلْبَنِينَ ﴿١٦﴾

(اے کافرو! اپنے پیمانۂ فکر کے مطابق یہی جواب دو کہ) کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے (خود اپنے لئے تو) بیٹیاں بنا رکھی ہیں اور تمہیں بیٹوں کے ساتھ مختص کر رکھا ہے،

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَٰنِ مَثَلًۭا ظَلَّ وَجْهُهُۥ مُسْوَدًّۭا وَهُوَ كَظِيمٌ ﴿١٧﴾

حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اُس (کے گھر میں بیٹی کی پیدائش) کی خبر دی جاتی ہے جسے انہوں نے (خدائے) رحمان کی شبیہ بنا رکھا ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور غم و غصّہ سے بھر جاتا ہے،

أَوَمَن يُنَشَّؤُا۟ فِى ٱلْحِلْيَةِ وَهُوَ فِى ٱلْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍۢ ﴿١٨﴾

اور کیا (اللہ اپنے امور میں شراکت و معاونت کے لئے اسے اولاد بنائے گا) جو زیور و زینت میں پرورش پائے اور (نرمیٔ طبع اور شرم و حیاء کے باعث) جھگڑے میں واضح (رائے کا اظہار کرنے والی بھی) نہ ہو،

وَجَعَلُوا۟ ٱلْمَلَٰٓئِكَةَ ٱلَّذِينَ هُمْ عِبَٰدُ ٱلرَّحْمَٰنِ إِنَٰثًا ۚ أَشَهِدُوا۟ خَلْقَهُمْ ۚ سَتُكْتَبُ شَهَٰدَتُهُمْ وَيُسْـَٔلُونَ ﴿١٩﴾

اور انہوں نے فرشتوں کو جو کہ (خدائے) رحمان کے بندے ہیں عورتیں قرار دیا ہے، کیا وہ اُن کی پیدائش پر حاضر تھے؟ (نہیں، تو) اب اُن کی گواہی لکھ لی جائے گی اور (روزِ قیامت) اُن سے باز پُرس ہوگی،

وَقَالُوا۟ لَوْ شَآءَ ٱلرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَٰهُم ۗ مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ﴿٢٠﴾

اور وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم اِن (بتوں) کی پرستش نہ کرتے، انہیں اِس کا (بھی) کچھ علم نہیں ہے وہ محض اَٹکل سے جھوٹی باتیں کرتے ہیں،

أَمْ ءَاتَيْنَٰهُمْ كِتَٰبًۭا مِّن قَبْلِهِۦ فَهُم بِهِۦ مُسْتَمْسِكُونَ ﴿٢١﴾

کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی کتاب دے رکھی ہے کہ جسے وہ سند کے طور پر تھامے ہوئے ہیں،

بَلْ قَالُوٓا۟ إِنَّا وَجَدْنَآ ءَابَآءَنَا عَلَىٰٓ أُمَّةٍۢ وَإِنَّا عَلَىٰٓ ءَاثَٰرِهِم مُّهْتَدُونَ ﴿٢٢﴾

(نہیں) بلکہ وہ کہتے ہیں: بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک ملّت (و مذہب) پر پایا اور یقیناً ہم انہی کے نقوشِ قدم پر (چلتے ہوئے) ہدایت یافتہ ہیں،

وَكَذَٰلِكَ مَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِى قَرْيَةٍۢ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَآ إِنَّا وَجَدْنَآ ءَابَآءَنَا عَلَىٰٓ أُمَّةٍۢ وَإِنَّا عَلَىٰٓ ءَاثَٰرِهِم مُّقْتَدُونَ ﴿٢٣﴾

اور اسی طرح ہم نے کسی بستی میں آپ سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں بھیجا مگر وہاں کے وڈیروں اور خوشحال لوگوں نے کہا: بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ و مذہب پر پایا اور ہم یقیناً انہی کے نقوشِ قدم کی اقتداء کرنے والے ہیں،

۞ قَٰلَ أَوَلَوْ جِئْتُكُم بِأَهْدَىٰ مِمَّا وَجَدتُّمْ عَلَيْهِ ءَابَآءَكُمْ ۖ قَالُوٓا۟ إِنَّا بِمَآ أُرْسِلْتُم بِهِۦ كَٰفِرُونَ ﴿٢٤﴾

(پیغمبر نے) کہا: اگرچہ میں تمہارے پاس اُس (طریقہ) سے بہتر ہدایت کا (دین اور) طریقہ لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا تھا، تو انہوں نے کہا: جو کچھ (بھی) تم دے کر بھیجے گئے ہو ہم اُس کے منکر ہیں،

فَٱنتَقَمْنَا مِنْهُمْ ۖ فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿٢٥﴾

سو ہم نے اُن سے بدلہ لے لیا پس آپ دیکھئے کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا،

وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِۦٓ إِنَّنِى بَرَآءٌۭ مِّمَّا تَعْبُدُونَ ﴿٢٦﴾

اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے (حقیقی چچا مگر پرورش کی نسبت سے) باپ اور اپنی قوم سے فرمایا: بیشک میں اُن سب چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم پوجتے ہو،

إِلَّا ٱلَّذِى فَطَرَنِى فَإِنَّهُۥ سَيَهْدِينِ ﴿٢٧﴾

بجز اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا، سو وہی مجھے عنقریب راستہ دکھائے گا،

وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةًۭ فِى عَقِبِهِۦ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿٢٨﴾

اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اس (کلمۂ توحید) کو اپنی نسل و ذریّت میں باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کرتے رہیں،

بَلْ مَتَّعْتُ هَٰٓؤُلَآءِ وَءَابَآءَهُمْ حَتَّىٰ جَآءَهُمُ ٱلْحَقُّ وَرَسُولٌۭ مُّبِينٌۭ ﴿٢٩﴾

بلکہ میں نے انہیں اور اِن کے آباء و اجداد کو (اسی ابراہیم علیہ السلام کے تصدّق اور واسطہ سے اِس دنیا میں) فائدہ پہنچایا ہے یہاں تک کہ اِن کے پاس حق (یعنی قرآن) اور واضح و روشن بیان والا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آیا،

وَلَمَّا جَآءَهُمُ ٱلْحَقُّ قَالُوا۟ هَٰذَا سِحْرٌۭ وَإِنَّا بِهِۦ كَٰفِرُونَ ﴿٣٠﴾

اور جب اُن کے پاس حق آپہنچا تو کہنے لگے: یہ جادو ہے اور ہم اس کے منکر ہیں،

وَقَالُوا۟ لَوْلَا نُزِّلَ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانُ عَلَىٰ رَجُلٍۢ مِّنَ ٱلْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ﴿٣١﴾

اور کہنے لگے: یہ قرآن (مکّہ اور طائف کی) دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی (یعنی کسی وڈیرے، سردار اور مال دار) پر کیوں نہیں اتارا گیا،

أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍۢ دَرَجَٰتٍۢ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًۭا سُخْرِيًّۭا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌۭ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴿٣٢﴾

کیا آپ کے رب کی رحمتِ (نبوّت) کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں، (کیا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں (یہ غربت کا تمسخر ہے کہ تم اس وجہ سے کسی کو رحمتِ نبوت کا حق دار ہی نہ سمجھو)، اور آپ کے رب کی رحمت اس (دولت) سے بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے (اور گھمنڈ کرتے) ہیں،

وَلَوْلَآ أَن يَكُونَ ٱلنَّاسُ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ لَّجَعَلْنَا لِمَن يَكْفُرُ بِٱلرَّحْمَٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًۭا مِّن فِضَّةٍۢ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ ﴿٣٣﴾

اور اگر یہ نہ ہوتا کہ سب لوگ (کفر پر جمع ہو کر) ایک ہی ملّت بن جائیں گے تو ہم (خدائے) رحمان کے ساتھ کفر کرنے والے تمام لوگوں کے گھروں کی چھتیں (بھی) چاندی کی کر دیتے اور سیڑھیاں (بھی) جن پر وہ چڑھتے ہیں،

وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْوَٰبًۭا وَسُرُرًا عَلَيْهَا يَتَّكِـُٔونَ ﴿٣٤﴾

اور (اسی طرح) اُن کے گھروں کے دروازے (بھی چاندی کے کر دیتے) اور تخت (بھی) جن پر وہ مسند لگاتے ہیں،

وَزُخْرُفًۭا ۚ وَإِن كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَٰعُ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا ۚ وَٱلْءَاخِرَةُ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٣٥﴾

اور (چاندی کے اوپر) سونے اور جواہرات کی آرائش بھی (کر دیتے)، اور یہ سب کچھ دنیوی زندگی کی عارضی اور حقیر متاع ہے، اور آخرت (کا حُسن و زیبائش) آپ کے رب کے پاس ہے (جو) صرف پرہیزگاروں کے لئے ہے،

وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ ٱلرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُۥ شَيْطَٰنًۭا فَهُوَ لَهُۥ قَرِينٌۭ ﴿٣٦﴾

اور جو شخص (خدائے) رحمان کی یاد سے صرف نظر کر لے تو ہم اُس کے لئے ایک شیطان مسلّط کر دیتے ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے،

وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ ٱلسَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٣٧﴾

اور وہ (شیاطین) انہیں (ہدایت کے) راستہ سے روکتے ہیں اور وہ یہی گمان کئے رہتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں،

حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَنَا قَالَ يَٰلَيْتَ بَيْنِى وَبَيْنَكَ بُعْدَ ٱلْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ ٱلْقَرِينُ ﴿٣٨﴾

یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو (اپنے ساتھی شیطان سے) کہے گا: اے کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا فاصلہ ہوتا پس (تو) بہت ہی برا ساتھی تھا،

وَلَن يَنفَعَكُمُ ٱلْيَوْمَ إِذ ظَّلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِى ٱلْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ ﴿٣٩﴾

اور آج کے دن تمہیں (یہ آرزو کرنا) سود مند نہیں ہوگا جبکہ تم (عمر بھر) ظلم کرتے رہے، (آج) تم سب عذاب میں شریک ہو،

أَفَأَنتَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ أَوْ تَهْدِى ٱلْعُمْىَ وَمَن كَانَ فِى ضَلَٰلٍۢ مُّبِينٍۢ ﴿٤٠﴾

پھر کیا آپ بہروں کو سنائیں گے یا اندھوں کو اور اُن لوگوں کو جو کھلی گمراہی میں ہیں راہِ ہدایت دکھائیں گے،

فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُم مُّنتَقِمُونَ ﴿٤١﴾

پس اگر ہم آپ کو (دنیا سے) لے جائیں تو تب بھی ہم اِن سے بدلہ لینے والے ہیں،

أَوْ نُرِيَنَّكَ ٱلَّذِى وَعَدْنَٰهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِم مُّقْتَدِرُونَ ﴿٤٢﴾

یا ہم آپ کو وہ (عذاب ہی) دکھا دیں جس کا ہم نے اُن سے وعدہ کیا ہے، سو بے شک ہم اُن پر کامل قدرت رکھنے والے ہیں،

فَٱسْتَمْسِكْ بِٱلَّذِىٓ أُوحِىَ إِلَيْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍۢ ﴿٤٣﴾

پس آپ اس (قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رکھیئے جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے، بیشک آپ سیدھی راہ پر (قائم) ہیں،

وَإِنَّهُۥ لَذِكْرٌۭ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْـَٔلُونَ ﴿٤٤﴾

اور یقیناً یہ (قرآن) آپ کے لئے اور آپ کی امت کے لئے عظیم شرف ہے، اور (لوگو!) عنقریب تم سے پوچھا جائے گا (کہ تم نے قرآن کے ساتھ کتنا تعلق استوار کیا)،

وَسْـَٔلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَآ أَجَعَلْنَا مِن دُونِ ٱلرَّحْمَٰنِ ءَالِهَةًۭ يُعْبَدُونَ ﴿٤٥﴾

اور جو رسول ہم نے آپ سے پہلے بھیجے آپ اُن سے پوچھئے کہ کیا ہم نے (خدائے) رحمان کے سوا کوئی اور معبود بنائے تھے کہ اُن کی پرستش کی جائے،

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِـَٔايَٰتِنَآ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَإِي۟هِۦ فَقَالَ إِنِّى رَسُولُ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿٤٦﴾

اور یقیناً ہم نے موسٰی(علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا: بیشک میں سب جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں،

فَلَمَّا جَآءَهُم بِـَٔايَٰتِنَآ إِذَا هُم مِّنْهَا يَضْحَكُونَ ﴿٤٧﴾

پھر جب وہ ہماری نشانیاں لے کر اُن کے پاس آئے تو وہ اسی وقت ان (نشانیوں) پر ہنسنے لگے،

وَمَا نُرِيهِم مِّنْ ءَايَةٍ إِلَّا هِىَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا ۖ وَأَخَذْنَٰهُم بِٱلْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿٤٨﴾

اور ہم انہیں کوئی نشانی نہیں دکھاتے تھے مگر (یہ کہ) وہ اپنے سے پہلی مشابہ نشانی سے کہیں بڑھ کر ہوتی تھی اور (بالآخر) ہم نے انہیں (کئی بار) عذاب میں پکڑا تاکہ وہ باز آجائیں،

وَقَالُوا۟ يَٰٓأَيُّهَ ٱلسَّاحِرُ ٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ ﴿٤٩﴾

اور وہ کہنے لگے: اے جادوگر! تو اپنے رب سے ہمارے لئے اُس عہد کے مطابق دعا کر جو اُس نے تجھ سے کر رکھا ہے (تو) بیشک ہم ہدایت یافتہ ہو جائیں گے،

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ ٱلْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ ﴿٥٠﴾

پھر جب ہم نے (دعائے موسٰی سے) وہ عذاب اُن سے ہٹا دیا تو وہ فوراً عہد شکنی کرنے لگے،

وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِى قَوْمِهِۦ قَالَ يَٰقَوْمِ أَلَيْسَ لِى مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ ٱلْأَنْهَٰرُ تَجْرِى مِن تَحْتِىٓ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿٥١﴾

اور فرعون نے اپنی قوم میں (فخر سے) پکارا (اور) کہا: اے میری قوم! کیا ملکِ مصر میرے قبضہ میں نہیں ہے اور یہ نہریں جو میرے (محلّات کے) نیچے سے بہہ رہی ہیں (کیا میری نہیں ہیں؟) سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو،

أَمْ أَنَا۠ خَيْرٌۭ مِّنْ هَٰذَا ٱلَّذِى هُوَ مَهِينٌۭ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ ﴿٥٢﴾

کیا (یہ حقیقت نہیں کہ) میں اِس شخص سے بہتر ہوں جو حقیر و بے وقعت ہے اور صاف طریقے سے گفتگو بھی نہیں کر سکتا؟،

فَلَوْلَآ أُلْقِىَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌۭ مِّن ذَهَبٍ أَوْ جَآءَ مَعَهُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ مُقْتَرِنِينَ ﴿٥٣﴾

پھر (اگر یہ سچا رسول ہے تو) اِس پر (پہننے کے لئے) سونے کے کنگن کیوں نہیں اتارے جاتے یا اِس کے ساتھ فرشتے جمع ہو کر (پے در پے) کیوں نہیں آجاتے؟،

فَٱسْتَخَفَّ قَوْمَهُۥ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا۟ قَوْمًۭا فَٰسِقِينَ ﴿٥٤﴾

پس اُس نے (اِن باتوں سے) اپنی قوم کو بے وقوف بنا لیا، سو اُن لوگوں نے اُس کا کہنا مان لیا، بیشک وہ لوگ ہی نافرمان قوم تھے،

فَلَمَّآ ءَاسَفُونَا ٱنتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَٰهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٥٥﴾

پھر جب انہوں نے (موسٰی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کر کے) ہمیں شدید غضبناک کر دیا (تو) ہم نے اُن سے بدلہ لے لیا اور ہم نے اُن سب کو غرق کر دیا،

فَجَعَلْنَٰهُمْ سَلَفًۭا وَمَثَلًۭا لِّلْءَاخِرِينَ ﴿٥٦﴾

سو ہم نے انہیں گیا گزرا کر دیا اور پیچھے آنے والوں کے لئے نمونۂ عبرت بنا دیا،

۞ وَلَمَّا ضُرِبَ ٱبْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ ﴿٥٧﴾

اور جب (عیسٰی) ابنِ مریم (علیہما السلام) کی مثال بیان کی جائے تو اس وقت آپ کی قوم (کے لوگ) اس سے (خوشی کے مارے) ہنستے ہیں،

وَقَالُوٓا۟ ءَأَٰلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًۢا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ﴿٥٨﴾

اور کہتے ہیں: آیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ (عیسٰی علیہ السلام)، وہ آپ سے یہ بات محض جھگڑنے کے لئے کرتے ہیں، بلکہ وہ لوگ بڑے جھگڑالو ہیں،

إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَٰهُ مَثَلًۭا لِّبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ﴿٥٩﴾

وہ (عیسٰی علیہ السلام) محض ایک (برگزیدہ) بندہ تھے جن پر ہم نے انعام فرمایا اور ہم نے انہیں بنی اسرائیل کے لئے (اپنی قدرت کا) نمونہ بنایا تھا،

وَلَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنكُم مَّلَٰٓئِكَةًۭ فِى ٱلْأَرْضِ يَخْلُفُونَ ﴿٦٠﴾

اور اگر ہم چاہتے تو ہم تمہارے بدلے زمین میں فرشتے پیدا کر دیتے جو تمہارے جانشین ہوتے،

وَإِنَّهُۥ لَعِلْمٌۭ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَٱتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَٰطٌۭ مُّسْتَقِيمٌۭ ﴿٦١﴾

اور بیشک وہ (عیسٰی علیہ السلام جب آسمان سے نزول کریں گے تو قربِ) قیامت کی علامت ہوں گے، پس تم ہرگز اس میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرتے رہنا، یہ سیدھا راستہ ہے،

وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ ٱلشَّيْطَٰنُ ۖ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّۭ مُّبِينٌۭ ﴿٦٢﴾

اور شیطان تمہیں ہرگز (اس راہ سے) روکنے نہ پائے، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،

وَلَمَّا جَآءَ عِيسَىٰ بِٱلْبَيِّنَٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِٱلْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ ٱلَّذِى تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ﴿٦٣﴾

اور جب عیسٰی (علیہ السلام) واضح نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے کہا: یقیناً میں تمہارے پاس حکمت و دانائی لے کر آیا ہوں اور (اس لئے آیا ہوں) کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو تمہارے لئے خوب واضح کر دوں، سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،

إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ رَبِّى وَرَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَٰطٌۭ مُّسْتَقِيمٌۭ ﴿٦٤﴾

بیشک اللہ ہی میرا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے، پس اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے،

فَٱخْتَلَفَ ٱلْأَحْزَابُ مِنۢ بَيْنِهِمْ ۖ فَوَيْلٌۭ لِّلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ أَلِيمٍ ﴿٦٥﴾

پس اُن کے درمیان (آپس میں ہی) مختلف فرقے ہو گئے، سو جن لوگوں نے ظلم کیا اُن کے لئے دردناک دن کے عذاب کی خرابی ہے،

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا ٱلسَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةًۭ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٦٦﴾

یہ لوگ کیا انتظار کر رہے ہیں (بس یہی) کہ قیامت اُن پر اچانک آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو،

ٱلْأَخِلَّآءُ يَوْمَئِذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا ٱلْمُتَّقِينَ ﴿٦٧﴾

سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)،

يَٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ ٱلْيَوْمَ وَلَآ أَنتُمْ تَحْزَنُونَ ﴿٦٨﴾

(اُن سے فرمایا جائے گا): اے میرے (مقرّب) بندو! آج کے دن تم پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم غم زدہ ہو گے،

ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَا وَكَانُوا۟ مُسْلِمِينَ ﴿٦٩﴾

(یہ) وہ لوگ ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور ہمیشہ (ہمارے) تابعِ فرمان رہے،

ٱدْخُلُوا۟ ٱلْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَٰجُكُمْ تُحْبَرُونَ ﴿٧٠﴾

تم اور تمہارے ساتھ جڑے رہنے والے ساتھی٭ (سب) جنت میں داخل ہو جاؤ (جنت کی نعمتوں، راحتوں اور لذّتوں کے ساتھ) تمہاری تکریم کی جائے گی، ٭ مفسرین کرام نے آیتِ کریمہ میں اَزوَاجُکُم کا معنی بیویوں کے علاوہ ”قریبی ساتھی“ بھی کیا ہے جیسے امام قرطبی نے تفسیر ”الجامع لاحکام القرآن (۱۶: ۱۱۱ )“ میں، امام ابن کثیر نے ”تفسیر القرآن العظیم (۴: ۱۳۴)“ میں، اور امام شوکانی نے تفسیر ”فتح القدیر (۴: ۵۶۳)“ میں یہ معنی بیان کیا ہے۔ اسی بناء پر یہاں اَزوَاج کا معنی بیویوں کی بجائے ”ساتھ جڑے رہنے والے ساتھی“ کیا گیا ہے۔

يُطَافُ عَلَيْهِم بِصِحَافٍۢ مِّن ذَهَبٍۢ وَأَكْوَابٍۢ ۖ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ ٱلْأَنفُسُ وَتَلَذُّ ٱلْأَعْيُنُ ۖ وَأَنتُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ ﴿٧١﴾

ان پر سونے کی پلیٹوں اور گلاسوں کا دور چلایا جائے گا اور وہاں وہ سب چیزیں (موجود) ہوں گی جن کو دل چاہیں گے اور (جن سے) آنکھیں راحت پائیں گی اور تم وہاں ہمیشہ رہو گے،

وَتِلْكَ ٱلْجَنَّةُ ٱلَّتِىٓ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٧٢﴾

اور (اے پرہیزگارو!) یہ وہ جنت ہے جس کے تم مالک بنا دیئے گئے ہو، اُن (اعمال) کے صلہ میں جو تم انجام دیتے تھے،

لَكُمْ فِيهَا فَٰكِهَةٌۭ كَثِيرَةٌۭ مِّنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿٧٣﴾

تمہارے لئے اس میں بکثرت پھل اور میوے ہیں تم ان میں سے کھاتے رہو گے،

إِنَّ ٱلْمُجْرِمِينَ فِى عَذَابِ جَهَنَّمَ خَٰلِدُونَ ﴿٧٤﴾

بیشک مجرم لوگ دوزخ کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں،

لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ ﴿٧٥﴾

جو اُن سے ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں ناامید ہو کر پڑے رہیں گے،

وَمَا ظَلَمْنَٰهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا۟ هُمُ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿٧٦﴾

اور ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی ظلم کرنے والے تھے،

وَنَادَوْا۟ يَٰمَٰلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۖ قَالَ إِنَّكُم مَّٰكِثُونَ ﴿٧٧﴾

اور وہ (داروغۂ جہنّم کو) پکاریں گے: اے مالک! آپ کا رب ہمیں موت دے دے (تو اچھا ہے)۔ وہ کہے گا کہ تم (اب اِسی حال میں ہی) ہمیشہ رہنے والے ہو،

لَقَدْ جِئْنَٰكُم بِٱلْحَقِّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَٰرِهُونَ ﴿٧٨﴾

بیشک ہم تمہارے پاس حق لائے لیکن تم میں سے اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے تھے،

أَمْ أَبْرَمُوٓا۟ أَمْرًۭا فَإِنَّا مُبْرِمُونَ ﴿٧٩﴾

کیا انہوں نے (یعنی کفّارِ مکہ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کوئی تدبیر) پختہ کر لی ہے تو ہم (بھی) پختہ فیصلہ کرنے والے ہیں،

أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَىٰهُم ۚ بَلَىٰ وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ ﴿٨٠﴾

کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کی پوشیدہ باتیں اور اُن کی سرگوشیاں نہیں سنتے؟ کیوں نہیں (ضرور سنتے ہیں)! اور ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے بھی اُن کے پاس لکھ رہے ہوتے ہیں،

قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدٌۭ فَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلْعَٰبِدِينَ ﴿٨١﴾

فرما دیجئے کہ اگر (بفرضِ محال) رحمان کے (ہاں) کوئی لڑکا ہوتا (یا اولاد ہوتی) تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتا،

سُبْحَٰنَ رَبِّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ رَبِّ ٱلْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿٨٢﴾

آسمانوں اور زمین کا پروردگار، عرش کا مالک پاک ہے اُن باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں،

فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا۟ وَيَلْعَبُوا۟ حَتَّىٰ يُلَٰقُوا۟ يَوْمَهُمُ ٱلَّذِى يُوعَدُونَ ﴿٨٣﴾

سو آپ انہیں چھوڑ دیجئے، بے کار بحثوں میں پڑے رہیں اور لغو کھیل کھیلتے رہیں حتٰی کہ اپنے اس دن کو پا لیں گے جس کا اُن سے وعدہ کیا جا رہا ہے،

وَهُوَ ٱلَّذِى فِى ٱلسَّمَآءِ إِلَٰهٌۭ وَفِى ٱلْأَرْضِ إِلَٰهٌۭ ۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْعَلِيمُ ﴿٨٤﴾

اور وہی ذات آسمان میں معبود ہے اور زمین میں (بھی) معبود ہے، اور وہ بڑی حکمت والا بڑے علم والا ہے،

وَتَبَارَكَ ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِندَهُۥ عِلْمُ ٱلسَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٨٥﴾

اور وہ ذات بڑی بابرکت ہے جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور (اُن کی بھی) جو کچھ اِن کے درمیان ہے، اور (وقتِ) قیامت کا علم (بھی) اس کے پاس ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے،

وَلَا يَمْلِكُ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ ٱلشَّفَٰعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِٱلْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٨٦﴾

اور جن کی یہ (کافر لوگ) اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں وہ (تو) شفاعت کا (کوئی) اختیار نہیں رکھتے مگر (ان کے برعکس شفاعت کا اختیار ان کو حاصل ہے) جنہوں نے حق کی گواہی دی اور وہ اسے (یقین کے ساتھ) جانتے بھی تھے،

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿٨٧﴾

اور اگر آپ اِن سے دریافت فرمائیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے: اللہ نے، پھر وہ کہاں بھٹکتے پھرتے ہیں،

وَقِيلِهِۦ يَٰرَبِّ إِنَّ هَٰٓؤُلَآءِ قَوْمٌۭ لَّا يُؤْمِنُونَ ﴿٨٨﴾

اور اُس (حبیبِ مکرّم) کے (یوں) کہنے کی قسم کہ یا ربّ! بیشک یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان (ہی) نہیں لاتے،

فَٱصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَٰمٌۭ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿٨٩﴾

سو (میرے محبوب!) آپ اُن سے چہرہ پھیر لیجئے اور (یوں) کہہ دیجئے: (بس ہمارا) سلام، پھر وہ جلد ہی (اپنا حشر) معلوم کر لیں گے،