Setting
Surah The Star [An-Najm] in Urdu
وَٱلنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ﴿١﴾
قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے،
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ﴿٢﴾
تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے،
وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ ﴿٣﴾
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے،
إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌۭ يُوحَىٰ ﴿٤﴾
اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے،
عَلَّمَهُۥ شَدِيدُ ٱلْقُوَىٰ ﴿٥﴾
ان کو بڑی قوّتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازا،
ذُو مِرَّةٍۢ فَٱسْتَوَىٰ ﴿٦﴾
جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوۂ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا،
وَهُوَ بِٱلْأُفُقِ ٱلْأَعْلَىٰ ﴿٧﴾
اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)،
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا٭، ٭ یہ معنی امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے الجامع الصحیح میں روایت کیا ہے، مزید حضرت عبد اﷲ بن عباس، امام حسن بصری، امام جعفر الصادق، محمد بن کعب القرظی التابعی، ضحّاک رضی اللہ عنہم اور دیگر کئی ائمہِ تفسیر کا قول بھی یہی ہے۔
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿٩﴾
پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)،
فَأَوْحَىٰٓ إِلَىٰ عَبْدِهِۦ مَآ أَوْحَىٰ ﴿١٠﴾
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی،
مَا كَذَبَ ٱلْفُؤَادُ مَا رَأَىٰٓ ﴿١١﴾
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا،
أَفَتُمَٰرُونَهُۥ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ﴿١٢﴾
کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا،
وَلَقَدْ رَءَاهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿١٣﴾
اور بیشک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)٭، ٭ یہ معنی ابن عباس، ابوذر غفاری، عکرمہ التابعی، حسن البصری التابعی، محمد بن کعب القرظی التابعی، ابوالعالیہ الریاحی التابعی، عطا بن ابی رباح التابعی، کعب الاحبار التابعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ عنہم اور دیگر ائمہ کے اَقوال پر ہے۔
عِندَ سِدْرَةِ ٱلْمُنتَهَىٰ ﴿١٤﴾
سِدرۃ المنتہٰی کے قریب،
عِندَهَا جَنَّةُ ٱلْمَأْوَىٰٓ ﴿١٥﴾
اسی کے پاس جنت الْمَاْوٰى ہے،
إِذْ يَغْشَى ٱلسِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ﴿١٦﴾
جب نورِ حق کی تجلیّات سِدرَۃ (المنتہٰی) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیں٭، ٭ یہ معنی بھی امام حسن بصری رضی اللہ عنہ و دیگر ائمہ کے اقوال پر ہے۔
مَا زَاغَ ٱلْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ﴿١٧﴾
اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)،
لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ ءَايَٰتِ رَبِّهِ ٱلْكُبْرَىٰٓ ﴿١٨﴾
بیشک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں،
أَفَرَءَيْتُمُ ٱللَّٰتَ وَٱلْعُزَّىٰ ﴿١٩﴾
کیا تم نے لات اور عزٰی (دیویوں) پر غور کیا ہے،
وَمَنَوٰةَ ٱلثَّالِثَةَ ٱلْأُخْرَىٰٓ ﴿٢٠﴾
اور اُس تیسری ایک اور (دیوی) منات کو بھی (غور سے دیکھا ہے؟ تم نے انہیں اﷲ کی بیٹیاں بنا رکھا ہے؟)،
أَلَكُمُ ٱلذَّكَرُ وَلَهُ ٱلْأُنثَىٰ ﴿٢١﴾
(اے مشرکو!) کیا تمہارے لئے بیٹے ہیں اور اس (اﷲ) کے لئے بیٹیاں ہیں،
تِلْكَ إِذًۭا قِسْمَةٌۭ ضِيزَىٰٓ ﴿٢٢﴾
(اگر تمہارا تصور درست ہے) تب تو یہ تقسیم بڑی ناانصافی ہے،
إِنْ هِىَ إِلَّآ أَسْمَآءٌۭ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَمَا تَهْوَى ٱلْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَآءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ ٱلْهُدَىٰٓ ﴿٢٣﴾
مگر (حقیقت یہ ہے کہ) وہ (بت) محض نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اﷲ نے ان کی نسبت کوئی دلیل نہیں اتاری، وہ لوگ محض وہم و گمان کی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں حالانکہ اُن کے پاس اُن کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے،
أَمْ لِلْإِنسَٰنِ مَا تَمَنَّىٰ ﴿٢٤﴾
کیا انسان کے لئے وہ (سب کچھ) میسّر ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے،
فَلِلَّهِ ٱلْءَاخِرَةُ وَٱلْأُولَىٰ ﴿٢٥﴾
پس آخرت اور دنیا کا مالک تو اﷲ ہی ہے،
۞ وَكَم مِّن مَّلَكٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ لَا تُغْنِى شَفَٰعَتُهُمْ شَيْـًٔا إِلَّا مِنۢ بَعْدِ أَن يَأْذَنَ ٱللَّهُ لِمَن يَشَآءُ وَيَرْضَىٰٓ ﴿٢٦﴾
اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں (کہ کفّار و مشرکین اُن کی عبادت کرتے اور ان سے شفاعت کی امید رکھتے ہیں) جِن کی شفاعت کچھ کام نہیں آئے گی مگر اس کے بعد کہ اﷲ جسے چاہتا ہے اور پسند فرماتا ہے اُس کے لئے اِذن (جاری) فرما دیتا ہے،
إِنَّ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْءَاخِرَةِ لَيُسَمُّونَ ٱلْمَلَٰٓئِكَةَ تَسْمِيَةَ ٱلْأُنثَىٰ ﴿٢٧﴾
بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کر دیتے ہیں،
وَمَا لَهُم بِهِۦ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ ۖ وَإِنَّ ٱلظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ ٱلْحَقِّ شَيْـًۭٔا ﴿٢٨﴾
اور انہیں اِس کا کچھ بھی علم نہیں ہے، وہ صرف گمان کے پیچھے چلتے ہیں، اور بیشک گمان یقین کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا،
فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّىٰ عَن ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا ﴿٢٩﴾
سو آپ اپنی توجّہ اس سے ہٹا لیں جو ہماری یاد سے رُوگردانی کرتا ہے اور سوائے دنیوی زندگی کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا،
ذَٰلِكَ مَبْلَغُهُم مِّنَ ٱلْعِلْمِ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِۦ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ ٱهْتَدَىٰ ﴿٣٠﴾
اُن لوگوں کے علم کی رسائی کی یہی حد ہے، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اُس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جِس نے ہدایت پا لی ہے،
وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ لِيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ أَسَٰٓـُٔوا۟ بِمَا عَمِلُوا۟ وَيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ أَحْسَنُوا۟ بِٱلْحُسْنَى ﴿٣١﴾
اور اﷲ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ جن لوگوں نے برائیاں کیں انہیں اُن کے اعمال کا بدلہ دے اور جن لوگوں نے نیکیاں کیں انہیں اچھا اجر عطا فرمائے،
ٱلَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَٰٓئِرَ ٱلْإِثْمِ وَٱلْفَوَٰحِشَ إِلَّا ٱللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَٰسِعُ ٱلْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌۭ فِى بُطُونِ أُمَّهَٰتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوٓا۟ أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ ٱتَّقَىٰٓ ﴿٣٢﴾
جو لوگ چھوٹے گناہوں (اور لغزشوں) کے سوا بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، بیشک آپ کا رب بخشش کی بڑی گنجائش رکھنے والا ہے، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہاری زندگی کی ابتداء اور نشو و نما زمین (یعنی مٹی) سے کی تھی اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جَنیِن (یعنی حمل) کی صورت میں تھے، پس تم اپنے آپ کو بڑا پاک و صاف مَت جتایا کرو، وہ خوب جانتا ہے کہ (اصل) پرہیزگار کون ہے،
أَفَرَءَيْتَ ٱلَّذِى تَوَلَّىٰ ﴿٣٣﴾
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے (حق سے) منہ پھیر لیا،
وَأَعْطَىٰ قَلِيلًۭا وَأَكْدَىٰٓ ﴿٣٤﴾
اور اس نے (راہِ حق میں) تھوڑا سا (مال) دیا اور (پھر ہاتھ) روک لیا،
أَعِندَهُۥ عِلْمُ ٱلْغَيْبِ فَهُوَ يَرَىٰٓ ﴿٣٥﴾
کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے،
أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِى صُحُفِ مُوسَىٰ ﴿٣٦﴾
کیا اُسے اُن (باتوں) کی خبر نہیں دی گئی جو موسٰی (علیہ السلام) کے صحیفوں میں (مذکور) تھیں،
وَإِبْرَٰهِيمَ ٱلَّذِى وَفَّىٰٓ ﴿٣٧﴾
اور ابراہیم (علیہ السلام) کے (صحیفوں میں تھیں) جنہوں نے (اﷲ کے ہر امر کو) بتمام و کمال پورا کیا،
أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌۭ وِزْرَ أُخْرَىٰ ﴿٣٨﴾
کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾
اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)،
وَأَنَّ سَعْيَهُۥ سَوْفَ يُرَىٰ ﴿٤٠﴾
اور یہ کہ اُس کی ہر کوشش عنقریب دکھا دی جائے گی (یعنی ظاہر کر دی جائے گی)،
ثُمَّ يُجْزَىٰهُ ٱلْجَزَآءَ ٱلْأَوْفَىٰ ﴿٤١﴾
پھر اُسے (اُس کی ہر کوشش کا) پورا پورا بدلہ دیا جائے گا،
وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ ٱلْمُنتَهَىٰ ﴿٤٢﴾
اور یہ کہ (بالآخر سب کو) آپ کے رب ہی کی طرف پہنچنا ہے،
وَأَنَّهُۥ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَىٰ ﴿٤٣﴾
اور یہ کہ وہی (خوشی دے کر) ہنساتا ہے اور (غم دے کر) رُلاتا ہے،
وَأَنَّهُۥ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْيَا ﴿٤٤﴾
اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جِلاتا ہے،
وَأَنَّهُۥ خَلَقَ ٱلزَّوْجَيْنِ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰ ﴿٤٥﴾
اور یہ کہ اُسی نے نَر اور مادہ دو قِسموں کو پیدا کیا،
مِن نُّطْفَةٍ إِذَا تُمْنَىٰ ﴿٤٦﴾
نطفہ (ایک تولیدی قطرہ) سے جبکہ وہ (رَحمِ مادہ میں) ٹپکایا جاتا ہے،
وَأَنَّ عَلَيْهِ ٱلنَّشْأَةَ ٱلْأُخْرَىٰ ﴿٤٧﴾
اور یہ کہ (مرنے کے بعد) دوبارہ زندہ کرنا (بھی) اسی پر ہے،
وَأَنَّهُۥ هُوَ أَغْنَىٰ وَأَقْنَىٰ ﴿٤٨﴾
اور یہ کہ وہی (بقدرِ ضرورت دے کر) غنی کر دیتا ہے اور وہی (ضرورت سے زائد دے کر) خزانے بھر دیتا ہے،
وَأَنَّهُۥ هُوَ رَبُّ ٱلشِّعْرَىٰ ﴿٤٩﴾
اور یہ کہ وہی شِعرٰی (ستارے) کا رب ہے (جس کی دورِ جاہلیت میں پوجا کی جاتی تھی)،
وَأَنَّهُۥٓ أَهْلَكَ عَادًا ٱلْأُولَىٰ ﴿٥٠﴾
اور یہ کہ اسی نے پہلی (قومِ) عاد کو ہلاک کیا،
وَثَمُودَا۟ فَمَآ أَبْقَىٰ ﴿٥١﴾
اور (قومِ) ثمود کو (بھی)، پھر (ان میں سے کسی کو) باقی نہ چھوڑا،
وَقَوْمَ نُوحٍۢ مِّن قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا۟ هُمْ أَظْلَمَ وَأَطْغَىٰ ﴿٥٢﴾
اور اس سے پہلے قومِ نوح کو (بھی ہلاک کیا)، بیشک وہ بڑے ہی ظالم اور بڑے ہی سرکش تھے،
وَٱلْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَىٰ ﴿٥٣﴾
اور (قومِ لُوط کی) الٹی ہوئی بستیوں کو (اوپر اٹھا کر) اُسی نے نیچے دے پٹکا،
فَغَشَّىٰهَا مَا غَشَّىٰ ﴿٥٤﴾
پس اُن کو ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا (یعنی پھر اُن پر پتھروں کی بارش کر دی گئی)،
فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارَىٰ ﴿٥٥﴾
سو (اے انسان!) تو اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں میں شک کرے گا،
هَٰذَا نَذِيرٌۭ مِّنَ ٱلنُّذُرِ ٱلْأُولَىٰٓ ﴿٥٦﴾
یہ (رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی) اگلے ڈر سنانے والوں میں سے ایک ڈر سنانے والے ہیں،
أَزِفَتِ ٱلْءَازِفَةُ ﴿٥٧﴾
آنے والی (قیامت کی گھڑی) قریب آپہنچی،
لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ ٱللَّهِ كَاشِفَةٌ ﴿٥٨﴾
اﷲ کے سوا اِسے کوئی ظاہر (اور قائم) کرنے والا نہیں ہے،
أَفَمِنْ هَٰذَا ٱلْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ ﴿٥٩﴾
پس کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو،
وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ ﴿٦٠﴾
اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو،
وَأَنتُمْ سَٰمِدُونَ ﴿٦١﴾
اور تم (غفلت کی) کھیل میں پڑے ہو،
فَٱسْجُدُوا۟ لِلَّهِ وَٱعْبُدُوا۟ ۩ ﴿٦٢﴾
سو اﷲ کے لئے سجدہ کرو اور (اُس کی) عبادت کرو،