صفحات الموقع

سورة يوسف الآية ٧٦

فَبَدَأَ بِأَوۡعِیَتِهِمۡ قَبۡلَ وِعَاۤءِ أَخِیهِ ثُمَّ ٱسۡتَخۡرَجَهَا مِن وِعَاۤءِ أَخِیهِۚ كَذَ ٰ⁠لِكَ كِدۡنَا لِیُوسُفَۖ مَا كَانَ لِیَأۡخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ ٱلۡمَلِكِ إِلَّاۤ أَن یَشَاۤءَ ٱللَّهُۚ نَرۡفَعُ دَرَجَـٰتࣲ مَّن نَّشَاۤءُۗ وَفَوۡقَ كُلِّ ذِی عِلۡمٍ عَلِیمࣱ ﴿٧٦﴾

التفسير

تفسير المیسر

ورجعوا بإخوة يوسف إليه، فقام بنفسه يفتش أمتعتهم، فبدأ بأمتعتهم قبل متاع شقيقه؛ إحكامًا لما دبَّره لاستبقاء أخيه معه، ثم انتهى بوعاء أخيه، فاستخرج الإناء منه، كذلك يسَّرنا ليوسف هذا التدبير الذي توصَّل به لأخذ أخيه، وما كان له أن يأخذ أخاه في حكم مَلِك "مصر"؛ لأنه ليس من دينه أن يتملك السارق، إلا أن مشيئة الله اقتضت هذا التدبير والاحتكام إلى شريعة إخوة يوسف القاضية برِقِّ السارق. نرفع منازل مَن نشاء في الدنيا على غيره كما رفعنا منزلة يوسف. وفوق كل ذي علمٍ من هو أعلم منه، حتى ينتهي العلم إلى الله تعالى عالم الغيب والشهادة.

تفسير الجلالين

«فبدأ بأوعيتهم» ففتشها «قبل وعاء أخيه» لئلا يتهم «ثم استخرجها» أي السقاية «من وعاء أخيه» قال تعالى: «كذلك» الكيد «كدنا ليوسف» علمناه الاحتيال في أخذ أخيه «ما كان» يوسف «ليأخذ أخاه» رقيقا عن السرقة «في دين الملك» حكم ملك مصر لأن جزاءه عنده الضرب وتغريم مثلي المسروق لا الاسترقاق «إلا أن يشاء الله» أخذه بحكم أبيه أي لم يتمكن من أخذه إلا بمشيئة الله بإلهامه سؤال إخوته وجوابهم بسنتهم «نرفع درجاتِ من نشاء» بالإضافة والتنوين في العلم كيوسف «وفوق كل ذي علم» من المخلوقين «عليم» أعلم منه حتى ينتهي إلى الله تعالى.

غريب الآية
فَبَدَأَ بِأَوۡعِیَتِهِمۡ قَبۡلَ وِعَاۤءِ أَخِیهِ ثُمَّ ٱسۡتَخۡرَجَهَا مِن وِعَاۤءِ أَخِیهِۚ كَذَ ٰ⁠لِكَ كِدۡنَا لِیُوسُفَۖ مَا كَانَ لِیَأۡخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ ٱلۡمَلِكِ إِلَّاۤ أَن یَشَاۤءَ ٱللَّهُۚ نَرۡفَعُ دَرَجَـٰتࣲ مَّن نَّشَاۤءُۗ وَفَوۡقَ كُلِّ ذِی عِلۡمٍ عَلِیمࣱ ﴿٧٦﴾
ذَ ٰ⁠لِكَأي: ما قُلْتُه في تنزيهِ يوسفَ، واعترافي بإغرائه.
كَذَ ٰ⁠لِكَ كِدۡنَا لِیُوسُفَۖيَسَّرْنا له هذا التدبيرَ الخَفِيَّ للتوصُّلِ إلى غَرَضِه.
دِینِ ٱلۡمَلِكِشريعةِ مَلِكِ مصرَ.
ذَ ٰ⁠لِكَما ذُكِرَ من قصةِ يوسفَ وإخوانِه.
مَا كَانَأي: هذا القرآنُ.
الإعراب

إعراب سورة يوسف الآية ٧٦

(فَبَدَأَ)
"الْفَاءُ" حَرْفُ عَطْفٍ مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ، وَ(بَدَأَ) : فِعْلٌ مَاضٍ مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ، وَالْفَاعِلُ ضَمِيرٌ مُسْتَتِرٌ تَقْدِيرُهُ "هُوَ".
(بِأَوْعِيَتِهِمْ)
"الْبَاءُ" حَرْفُ جَرٍّ مَبْنِيٌّ عَلَى الْكَسْرِ، وَ(أَوْعِيَتِ) : اسْمٌ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْكَسْرَةُ الظَّاهِرَةُ، وَ"هَاءُ الْغَائِبِ" ضَمِيرٌ مُتَّصِلٌ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ فِي مَحَلِّ جَرٍّ مُضَافٌ إِلَيْهِ.
(قَبْلَ)
ظَرْفُ زَمَانٍ مَنْصُوبٌ وَعَلَامَةُ نَصْبِهِ الْفَتْحَةُ الظَّاهِرَةُ.
(وِعَاءِ)
مُضَافٌ إِلَيْهِ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْكَسْرَةُ الظَّاهِرَةُ.
(أَخِيهِ)
مُضَافٌ إِلَيْهِ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْيَاءُ لِأَنَّهُ مِنَ الْأَسْمَاءِ الْخَمْسَةِ، وَ"هَاءُ الْغَائِبِ" ضَمِيرٌ مُتَّصِلٌ مَبْنِيٌّ عَلَى الْكَسْرِ فِي مَحَلِّ جَرٍّ مُضَافٌ إِلَيْهِ.
(ثُمَّ)
حَرْفُ عَطْفٍ مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحٍ.
(اسْتَخْرَجَهَا)
فِعْلٌ مَاضٍ مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ، وَ"هَاءُ الْغَائِبِ" ضَمِيرٌ مُتَّصِلٌ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ فِي مَحَلِّ نَصْبٍ مَفْعُولٌ بِهِ، وَالْفَاعِلُ ضَمِيرٌ مُسْتَتِرٌ تَقْدِيرُهُ "هُوَ".
(مِنْ)
حَرْفُ جَرٍّ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ.
(وِعَاءِ)
اسْمٌ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْكَسْرَةُ الظَّاهِرَةُ.
(أَخِيهِ)
مُضَافٌ إِلَيْهِ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْيَاءُ لِأَنَّهُ مِنَ الْأَسْمَاءِ الْخَمْسَةِ، وَ"هَاءُ الْغَائِبِ" ضَمِيرٌ مُتَّصِلٌ مَبْنِيٌّ عَلَى الْكَسْرِ فِي مَحَلِّ جَرٍّ مُضَافٌ إِلَيْهِ.
(كَذَلِكَ)
"الْكَافُ" حَرْفُ جَرٍّ مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ، وَ(ذَلِكَ) : اسْمُ إِشَارَةٍ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ فِي مَحَلِّ جَرٍّ بِالْحَرْفِ، وَشِبْهُ الْجُمْلَةِ فِي مَحَلِّ نَصْبٍ نَائِبٌ عَنِ الْمَفْعُولِ الْمُطْلَقِ لِـ(كِدْنَا) :.
(كِدْنَا)
فِعْلٌ مَاضٍ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ لِاتِّصَالِهِ بِنَا الْفَاعِلِينَ، وَ(نَا) : ضَمِيرٌ مُتَّصِلٌ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ فِي مَحَلِّ رَفْعٍ فَاعِلٌ.
(لِيُوسُفَ)
"اللَّامُ" حَرْفُ جَرٍّ مَبْنِيٌّ عَلَى الْكَسْرِ، وَ(يُوسُفَ) : اسْمٌ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْفَتْحَةُ الظَّاهِرَةُ لِأَنَّهُ مَمْنُوعٌ مِنَ الصَّرْفِ.
(مَا)
حَرْفُ نَفْيٍ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ.
(كَانَ)
فِعْلٌ مَاضٍ نَاسِخٌ مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ، وَاسْمُ كَانَ ضَمِيرٌ مُسْتَتِرٌ تَقْدِيرُهُ "هُوَ".
(لِيَأْخُذَ)
"اللَّامُ" حَرْفُ جَرٍّ مَبْنِيٌّ عَلَى الْكَسْرِ، وَ(يَأْخُذَ) : فِعْلٌ مُضَارِعٌ مَنْصُوبٌ بِأَنْ مُضْمَرَةٍ وَعَلَامَةُ نَصْبِهِ الْفَتْحَةُ الظَّاهِرَةُ، وَالْفَاعِلُ ضَمِيرٌ مُسْتَتِرٌ تَقْدِيرُهُ "هُوَ"، وَالْجُمْلَةُ فِي مَحَلِّ نَصْبٍ خَبَرُ كَانَ.
(أَخَاهُ)
مَفْعُولٌ بِهِ مَنْصُوبٌ وَعَلَامَةُ نَصْبِهِ الْأَلِفُ لِأَنَّهُ مِنَ الْأَسْمَاءِ الْخَمْسَةِ، وَ"هَاءُ الْغَائِبِ" ضَمِيرٌ مُتَّصِلٌ مَبْنِيٌّ عَلَى الضَّمِّ فِي مَحَلِّ جَرٍّ مُضَافٌ إِلَيْهِ.
(فِي)
حَرْفُ جَرٍّ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ.
(دِينِ)
اسْمٌ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْكَسْرَةُ الظَّاهِرَةُ.
(الْمَلِكِ)
مُضَافٌ إِلَيْهِ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْكَسْرَةُ الظَّاهِرَةُ.
(إِلَّا)
حَرْفُ اسْتِثْنَاءٍ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ.
(أَنْ)
حَرْفُ نَصْبٍ وَمَصْدَرِيَّةٍ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ.
(يَشَاءَ)
فِعْلٌ مُضَارِعٌ مَنْصُوبٌ وَعَلَامَةُ نَصْبِهِ الْفَتْحَةُ الظَّاهِرَةُ.
(اللَّهُ)
اسْمُ الْجَلَالَةِ فَاعِلٌ مَرْفُوعٌ وَعَلَامَةُ رَفْعِهِ الضَّمَّةُ الظَّاهِرَةُ.
(نَرْفَعُ)
فِعْلٌ مُضَارِعٌ مَرْفُوعٌ وَعَلَامَةُ رَفْعِهِ الضَّمَّةُ الظَّاهِرَةُ، وَالْفَاعِلُ ضَمِيرٌ مُسْتَتِرٌ تَقْدِيرُهُ "نَحْنُ".
(دَرَجَاتٍ)
تَمْيِيزٌ مَنْصُوبٌ وَعَلَامَةُ نَصْبِهِ الْكَسْرَةُ الظَّاهِرَةُ لِأَنَّهُ جَمْعُ مُؤَنَّثٍ سَالِمٌ.
(مَنْ)
اسْمٌ مَوْصُولٌ مَبْنِيٌّ عَلَى السُّكُونِ فِي مَحَلِّ نَصْبٍ مَفْعُولٌ بِهِ.
(نَشَاءُ)
فِعْلٌ مُضَارِعٌ مَرْفُوعٌ وَعَلَامَةُ رَفْعِهِ الضَّمَّةُ الظَّاهِرَةُ، وَالْفَاعِلُ ضَمِيرٌ مُسْتَتِرٌ تَقْدِيرُهُ "نَحْنُ"، وَالْجُمْلَةُ صِلَةُ الْمَوْصُولِ لَا مَحَلَّ لَهَا مِنَ الْإِعْرَابِ.
(وَفَوْقَ)
"الْوَاوُ" حَرْفُ عَطْفٍ مَبْنِيٌّ عَلَى الْفَتْحِ، وَ(فَوْقَ) : ظَرْفُ مَكَانٍ مَنْصُوبٌ وَعَلَامَةُ نَصْبِهِ الْفَتْحَةُ الظَّاهِرَةُ، وَشِبْهُ الْجُمْلَةِ فِي مَحَلِّ رَفْعٍ خَبَرٌ مُقَدَّمٌ.
(كُلِّ)
مُضَافٌ إِلَيْهِ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْكَسْرَةُ الظَّاهِرَةُ.
(ذِي)
مُضَافٌ إِلَيْهِ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْيَاءُ لِأَنَّهُ مِنَ الْأَسْمَاءِ الْخَمْسَةِ.
(عِلْمٍ)
مُضَافٌ إِلَيْهِ مَجْرُورٌ وَعَلَامَةُ جَرِّهِ الْكَسْرَةُ الظَّاهِرَةُ.
(عَلِيمٌ)
مُبْتَدَأٌ مُؤَخَّرٌ مَرْفُوعٌ وَعَلَامَةُ رَفْعِهِ الضَّمَّةُ الظَّاهِرَةُ.
الترجمة

Urdu - احمد علی

پھر یوسف نے اپنے بھائی کے اسباب سے پہلےان کے اسباب دیکھنے شروع کیے پھر وہ کٹورا اپنے بھائی کے اسباب سے نکالا ہم نے یوسف کو ایسی تدبیر بتائی تھی بادشاہ کے قانون سے تو وہ اپنے بھائی کو ہرگز نہ لے سکتا تھا مگر یہ کہ الله چاہے ہم جس کے چاہیں درجے بلند کرتے ہیں اور ہر ایک دانا سے بڑھ کر دوسرا دانا ہے

ابوالاعلی مودودی

تب یوسفؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کر لی اِس طرح ہم نے یوسفؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا الا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب علم سے بالا تر ہے

احمد رضا خان

تو اول ان کی خرُجیوں سے تلاشی شروع کی اپنے بھائی کی خرُجی سے پہلے پھر اسے اپنے بھائی کی خرُجی سے نکال لیا ہم نے یوسف کو یہی تدبیر بتائی بادشاہی قانون میں اسے نہیں پہنچتا تھا کہ اپنے بھائی کو لے لے مگر یہ کہ خدا چاہے ہم جسے چاہیں درجوں بلند کریں اور ہر علم والے اوپر ایک علم والا ہے

جالندہری

پھر یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شروع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی (ورنہ) بادشاہ کے قانون کے مطابق وہ مشیتِ خدا کے سوا اپنے بھائی کو لے نہیں سکتے تھے۔ ہم جس کے لیے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں۔ اور ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے

طاہر القادری

پس یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کی بوری سے پہلے ان کی بوریوں کی تلاشی شروع کی پھر (بالآخر) اس (پیالے) کو اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کی بوری سے نکال لیا۔ یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو تدبیر بتائی۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہِ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اﷲ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے،

علامہ جوادی

اس کے بعد بھائی کے سامان سے پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی اور آخر میں بھائی کے سامان میں سے پیالہ نکال لیا .... اور اس طرح ہم نے یوسف کے حق میں تدبیر کی کہ وہ بادشاہ کے قانون سے اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ خدا خود چاہے ہم جس کو چاہتے ہیں اس کے درجات کو بلند کردیتے ہیں اور ہر صاحب هعلم سے برتر ایک صاحب هعلم ہوتا ہے

محمد جوناگڑھی

پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاشی شروع کی، اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان (زنبیل) سے نکالا۔ ہم نے یوسف کے لئے اسی طرح یہ تدبیر کی۔ اس بادشاه کے قانون کی رو سے یہ اپنے بھائی کو نہ لے سکتا تھا مگر یہ کہ اللہ کو منظور ہو۔ ہم جس کے چاہیں درجے بلند کر دیں، ہر ذی علم پر فوقیت رکھنے واﻻ دوسرا ذی علم موجود ہے

محمد حسین نجفی

تب یوسف (ع) نے اپنے (سگے) بھائی کی خرجین سے پہلے دوسروں کی خرجینوں کی تلاشی لینا شروع کی پھر اپنے بھائی کی خرجین سے وہ گم شدہ کٹورا نکال لیا ہم نے اس طرح (بنیامین کو اپنے پاس رکھنے) کیلئے یوسف کے لیے تدبیر کی کیونکہ وہ (مصر کے) بادشاہ کے قانون میں اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا ہم جس کے چاہتے ہیں مرتبے بلند کر دیتے ہیں اور ہر صاحبِ علم سے بڑھ کر ایک عالم ہوتا ہے۔