Setting
Surah Hud [Hud] in Urdu
الٓر ۚ كِتَٰبٌ أُحْكِمَتْ ءَايَٰتُهُۥ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ ﴿١﴾
یہ ایسی کتاب ہےکہ جس کی آیتیں حکیم خبردار کی طرف سے مستحکم کر دی گئی ہیں پھر مفصل بیان کی گئی ہیں
ا ل ر فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے
یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں پھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کی طرف سے،
الٓرا۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہے
الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں، یہ وہ) کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم بنا دی گئی ہیں، پھر حکمت والے باخبر (رب) کی جانب سے وہ مفصل بیان کر دی گئی ہیں،
الۤر - یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ہیں اور ایک صاحبِ علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں
الرٰ، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے
الف، لام، را، یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم اور مضبوط بنائی گئی ہیں اور پھر تفصیل کے ساتھ کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں یہ اس کی طرف سے ہے جو بڑا حکمت والا، بڑا باخبر ہے۔
أَلَّا تَعْبُدُوٓا۟ إِلَّا ٱللَّهَ ۚ إِنَّنِى لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌۭ وَبَشِيرٌۭ ﴿٢﴾
یہ کہ الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو میں تمہارے لیے اس کی طرف سے ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں
کہ تم بندگی نہ کرو مگر صرف اللہ کی میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی
کہ بندگی نہ کرو مگر اللہ کی بیشک میں تمہارے لیے اس کی طرف سے ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں
(وہ یہ) کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تم کو ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں
یہ کہ اللہ کے سوا تم کسی کی عبادت مت کرو، بیشک میں تمہارے لئے اس (اللہ) کی جانب سے ڈر سنانے والا اور بشارت دینے والا ہوں،
کہ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو -میں اسی کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں
یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے واﻻ اور بشارت دینے واﻻ ہوں
(اس کا خلاصہ یہ ہے کہ) اللہ کے سوا کسی کی عبادت (بندگی) نہ کرو بلاشبہ میں اس کی طرف سے تمہیں ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔
وَأَنِ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَٰعًا حَسَنًا إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِى فَضْلٍۢ فَضْلَهُۥ ۖ وَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍۢ كَبِيرٍ ﴿٣﴾
اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی مانگو پھراس کی طرف رجوع کرو تاکہ تمہیں ایک وقت مقرر تک اچھا فائدپہنچائے اورجس نے بڑھ کر نیکی کی ہو اس کو بڑھ کر بدلہ دے اور اگر تم پھر جاؤ گے تو میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا (فائدہ اٹھانا) دے گا ایک ٹھہرائے وعدہ تک اور ہر فضیلت والے کو اس کا فضل پہنچائے گا اور اگر منہ پھیرو تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں،
اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو وہ تو تم کو ایک وقت مقررہ تک متاع نیک سے بہرہ مند کرے گا اور ہر صاحب بزرگ کو اس کی بزرگی (کی داد) دے گا۔ اور اگر روگردانی کرو گے تو مجھے تمہارے بارے میں (قیامت کے) بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے
اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور (صدقِ دل سے) توبہ کرو وہ تمہیں وقتِ معین تک اچھی متاع سے لطف اندوز رکھے گا اور ہر فضیلت والے کو اس کی فضیلت کی جزا دے گا (یعنی اس کے اَعمال و ریاضت کی کثرت کے مطابق اَجر و درجات عطا فرمائے گا)، اور اگر تم نے روگردانی کی تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف رکھتا ہوں،
اور اپنے رب سے استغفار کرو پھر اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ وہ تم کو مقررہ مدّت میں بہترین فائدہ عطا کرے گا اور صاحبِ فضل کو اس کے فضل کا حق دے گا اور میں تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب سے خوفزدہ ہوں
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناه اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو، وه تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی) دے گا اور ہر زیاده عمل کرنے والے کو زیاده ﺛواب دے گا۔ اور اگر تم لوگ اعراض کرتے رہے تو مجھ کو تمہارے لیے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے
اور یہ کہ اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو (اس کی طرف رجوع کرو) وہ تمہیں مقررہ مدت (تک زندگی کے) اچھے فوائد سے بہرہ مند کرے گا۔ اور ہر صاحبِ فضل (زیادہ عمل کرنے والے) کو اس کے درجہ کے مطابق عطا فرمائے گا اور اگر تم نے روگردانی کی تو میں تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
إِلَى ٱللَّهِ مَرْجِعُكُمْ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ ﴿٤﴾
تمہیں الله کی طرف لوٹ کر جانا ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے
تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے
تمہیں اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے اور وہ ہر شے پر قادر
تم (سب) کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
تمہیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے، اور وہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے،
تم سب کی بازگشت خدا ہی کی طرف ہے اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے
تم کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اور وه ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے
تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
أَلَآ إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا۟ مِنْهُ ۚ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُۥ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ ﴿٥﴾
خبردار جس وقت وہ کپڑے ڈھانکتے ہیں وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپا کر اور ظاہر کر کے کرتے ہیں بےشک وہ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے
دیکھو! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں خبردار! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی، وہ تو اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں
سنو وہ اپنے سینے دوہرے کرتے (منہ چھپاتے) ہیں کہ اللہ سے پردہ کریں سنو جس وقت وہ اپنے کپڑوں سے سارا بدن ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے بیشک وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے،
دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوھرا کرتے ہیں تاکہ خدا سے پردہ کریں۔ سن رکھو جس وقت یہ کپڑوں میں لپٹ کر پڑتے ہیں (تب بھی) وہ ان کی چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے۔ وہ تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے
جان لو! بیشک وہ (کفار) اپنے سینوں کو دُہرا کر لیتے ہیں تاکہ وہ اس (خدا) سے (اپنے دلوں کا حال) چھپا سکیں، خبردار! جس وقت وہ اپنے کپڑے (جسموں پر) اوڑھ لیتے ہیں (تو اس وقت بھی) وہ ان سب باتوں کو جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ آشکار کرتے ہیں، بیشک وہ سینوں کی (پوشیدہ) باتوں کو خوب جاننے والا ہے،
آگاہ ہوجاؤ کہ یہ لوگ اپنے سینوں کو دہرائے لے رہے ہیں کہ اس طرح پیغمبر سے چھپ جائیں تو آگاہ رہیں کہ یہ جب اپنے کپڑوں کو خوب لپیٹ لیتے ہیں تو اس وقت بھی وہ ان کے ظاہر و باطن دونوں کو جانتا ہے کہ وہ تمام سینوں کے رازوں کا جاننے والا ہے
یاد رکھو وه لوگ اپنے سینوں کو دہرا کیے دیتے ہیں تاکہ اپنی باتیں (اللہ) سے چھپا سکیں۔ یاد رکھو کہ وه لوگ جس وقت اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں وه اس وقت بھی سب جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وه ﻇاہر کرتے ہیں۔ بالیقین وه دلوں کے اندر کی باتیں جانتا ہے
آگاہ ہو جاؤ یہ (منافق) لوگ اپنے سینوں کو دوہرا کر رہے ہیں تاکہ اس (اللہ یا رسول) سے چھپ جائیں مگر یاد رکھو جب یہ لوگ اپنے (سارے) کپڑے اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں تو (تب بھی) وہ (اللہ) وہ بھی جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور وہ بھی جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں (کیونکہ) بے شک وہ تو ان رازوں سے بھی خوف واقف ہے جو سینوں کے اندر ہیں۔
۞ وَمَا مِن دَآبَّةٍۢ فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّۭ فِى كِتَٰبٍۢ مُّبِينٍۢ ﴿٦﴾
ارو زمین پر کوئی چلنے والا نہیں مگر اس کی روزی الله پر ہے اور جانتا ہے جہاں وہ ٹھیرتا ہے اور جہاں وہ سونپا جاتا ہے سب کچھ واضح کتاب میں ہے
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے
اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہٴ کرم پر نہ ہو اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد ہوگا سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں ہے،
اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے وہ جہاں رہتا ہے، اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی۔ یہ سب کچھ کتاب روشن میں (لکھا ہوا) ہے
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے، ہر بات کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے،
اور زمین پر چلنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جس کا رزق خدا کے ذمہ نہ ہو -وہ ہر ایک کے سونپے جانے کی جگہ اور اس کے قرار کی منزل کو جانتا ہے اور سب کچھ کتاب مبین میں محفوظ ہے
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہےاور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا جانور نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رزق خدا کے ذمے ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کا مستقل ٹھکانہ کہاں ہے اور اس کے سونپے جانے (کم رہنے) کی جگہ کہاں ہے؟ سب کچھ ایک واضح کتاب میں محفوظ ہے۔
وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ وَكَانَ عَرْشُهُۥ عَلَى ٱلْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًۭا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِنۢ بَعْدِ ٱلْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ إِنْ هَٰذَآ إِلَّا سِحْرٌۭ مُّبِينٌۭ ﴿٧﴾
اور وہی ہےجس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے اور اس کا تخت پانی پر تھا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتا ہے اور اگر تو کہے کہ مرنے کے بعد اٹھو گے تو منکرین یہ کہیں گے کہ یہ تو صریح جادو ہے
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے اب اگر اے محمدؐ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے، تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو گری ہے
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا کہ تمہیں آزمائے تم میں کس کا کام اچھا ہے، اور اگر تم فرماؤ کہ بیشک تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو کافر ضرور کہیں گے کہ یہ تو نہیں مگر کھلا جادو
اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔ (تمہارے پیدا کرنے سے) مقصود یہ ہے کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور اگر تم کہو کہ تم لوگ مرنے کے بعد (زندہ کرکے) اٹھائے جاؤ گے تو کافر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے
اور وہی (اﷲ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی و زیریں کائناتوں) کو چھ روز (یعنی تخلیق و اِرتقاء کے چھ اَدوار و مراحل) میں پیدا فرمایا اور (تخلیقِ اَرضی سے قبل) اس کا تختِ اقتدار پانی پر تھا (اور اس نے اس سے زندگی کے تمام آثار کو اور تمہیں پیدا کیا) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہتر ہے؟ اور اگر آپ یہ فرمائیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد (زندہ کر کے) اٹھائے جاؤ گے تو کافر یقینًا (یہ) کہیں گے کہ یہ تو صریح جادو کے سوا کچھ (اور) نہیں ہے،
اور وہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے اور اس کا تخت اقتدار پانی پر تھا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے اور اگر آپ کہیں گے کہ تم لوگ موت کے بعد پھر اٹھائے جانے والے ہو تو یہ کافر کہیں گے کہ یہ تو صرف ایک کھلا ہوا جادو ہے
اللہ ہی وه ہے جس نے چھ دن میں آسمان وزمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وه تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل واﻻ کون ہے، اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے کہ یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے
اور وہی وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور (اس سے پہلے) اس کا عرش پانی پر تھا (یہ سب کچھ کیوں پیدا کیا؟) تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے؟ اور (اے رسول(ص)) اگر آپ ان سے کہیں کہ تم مرنے کے بعد (دوبارہ) اٹھائے جاؤگے تو کافر لوگ ضرور کہیں گے۔ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔
وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ ٱلْعَذَابَ إِلَىٰٓ أُمَّةٍۢ مَّعْدُودَةٍۢ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُۥٓ ۗ أَلَا يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ ﴿٨﴾
اور اگر ہم ایک مدت معلوم تک ان سے عذاب کو روک رکھیں توضرور کہیں گے کس چیر نے عذاب کو روک دیا خبردار جس دن ان پر عذاب آئے گا ان سے نہ پھیرا جائے گا اور انہیں وہ چیز گھیرے گی جس پر ٹھٹایا کیاکرتے تھے
اور اگر ہم ایک خاص مدت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اُسے روک رکھا ہے؟ سنو! جس روز اُس سزا کا وقت آگیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں
اور اگر ہم ان سے عذاب کچھ گنتی کی مدت تک ہٹادیں تو ضرور کہیں گے کس چیز نے روکا ہے سن لو جس دن ان پر آئے گا ان سے پھیرا نہ جائے گا، اور انہیں گھیرے گا وہی عذاب جس کی ہنسی اڑاتے تھے
اور اگر ایک مدت معین تک ہم ان سے عذاب روک دیں تو کہیں گے کہ کون سی چیز عذاب روکے ہوئے ہے۔ دیکھو جس روز وہ ان پر واقع ہوگا (پھر) ٹلنے کا نہیں اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ہیں وہ ان کو گھیر لے گی
اور اگر ہم ان سے چند مقررہ دنوں تک عذاب کو مؤخر کردیں تو وہ یقینًا کہیں گے کہ اسے کس چیز نے روک رکھا ہے، خبردار! جس دن وہ (عذاب) ان پر آئے گا (تو) ان سے پھیرا نہ جائے گا اور وہ (عذاب) انہیں گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے،
اور اگر ہم ان کے عذاب کو ایک معینہ مدّت کے لئے ٹال دیں تو طنز کریں گے کہ عذاب کو کس چیز نے روک لیا ہے -آگاہ ہوجاؤ کہ جس دن عذاب آجائے گا تو پھر پلٹنے والا نہیں ہے اور پھر وہ عذاب ان کو ہر طرف سے گھیر لے گا جس کا یہ مذاق اڑا رہے تھے
اور اگر ہم ان سے عذاب کو گنی چنی مدت تک کے لئے پیچھے ڈال دیں تو یہ ضرور پکار اٹھیں گے کہ عذاب کو کون سی چیز روکے ہوئے ہے، سنو! جس دن وه ان کے پاس آئے گا پھر ان سے ٹلنے واﻻ نہیں پھر تو جس چیز کی ہنسی اڑا رہے تھے وه انہیں گھیر لے گی
اور اگر ہم ان پر عذاب نازل کرنے میں ایک مقررہ مدت تک تاخیر بھی کر دیں تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ کون سی چیز نے اسے روک رکھا ہے؟ یاد رکھو جس دن ان پر وہ (عذاب) آئے گا تو پھر اسے پھیرا نہ جا سکے گا۔ اور انہیں وہ (عذاب) گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔
وَلَئِنْ أَذَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ مِنَّا رَحْمَةًۭ ثُمَّ نَزَعْنَٰهَا مِنْهُ إِنَّهُۥ لَيَـُٔوسٌۭ كَفُورٌۭ ﴿٩﴾
اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھا کر پھر اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ ناامید ناشکرا ہو جاتا ہے
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے
اور اگر ہم آدمی کو اپنی کسی رحمت کا مزہ دیں پھر اسے اس سے چھین لیں ضرور وہ بڑا ناامید ناشکرا ہے
اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں پھر اس سے اس کو چھین لیں تو ناامید (اور) ناشکرا (ہوجاتا) ہے
اور اگر ہم انسان کو اپنی جانب سے رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں پھر ہم اسے (کسی وجہ سے) اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ نہایت مایوس (اور) ناشکرگزار ہو جاتا ہے،
اور اگر ہم انسان کو رحمت دے کر چھین لیتے ہیں تو مایوس ہوجاتا ہے اور کفر کرنے لگتا ہے
اور اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وه بہت ہی ناامید اور بڑا ہی ناشکرا بن جاتا ہے
اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت کا مزہ چکھائیں (کسی نعمت سے نوازیں) اور پھر اسے اس سے چھین لیں تو وہ بڑا مایوس اور بڑا ناشکرا ہو جاتا ہے۔
وَلَئِنْ أَذَقْنَٰهُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ ٱلسَّيِّـَٔاتُ عَنِّىٓ ۚ إِنَّهُۥ لَفَرِحٌۭ فَخُورٌ ﴿١٠﴾
اور اگر مصیبت پہنچنے کے بعد نعمتوں کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میری سختیاں جاتی رہیں کیوں کہ وہ اترانے والا شیخی خورا ہے
اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دلدر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے
اور اگر ہم اسے نعمت کا مزہ دیں اس مصیبت کے بعد جس اسے پہنچی تو ضرور کہے گا کہ برائیاں مجھ سے دور ہوئیں بیشک وہ خوش ہونے والا بڑائی مارنے والا ہے
اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد آسائش کا مزہ چکھائیں تو (خوش ہو کر) کہتا ہے کہ (آہا) سب سختیاں مجھ سے دور ہوگئیں۔ بےشک وہ خوشیاں منانے والا (اور) فخر کرنے والا ہے
اور اگر ہم اسے (کوئی) نعمت چکھاتے ہیں اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو ضرور کہہ اٹھتا ہے کہ مجھ سے ساری تکلیفیں جاتی رہیں، بیشک وہ بڑا خوش ہونے والا (اور) فخر کرنے والا (بن جاتا) ہے،
اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد نعمت اور آرام کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ اب تو ہماری ساری برائیاں چلی گئیں اور وہ خوش ہوکر اکڑنے لگتا ہے
اور اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وه کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں، یقیناً وه بڑا ہی اترانے واﻻ شیخی خور ہے
اور اگر ہم کسی سختی و تکلیف کے پہنچنے کے بعد کسی نعمت و راحت کا مزہ چکھائیں تو (غافل ہوکر) کہہ اٹھتا ہے کہ میری تمام برائیاں چلی گئیں (دکھ درد دور ہوگئے)۔ بالیقین وہ (انسان) بڑا خوش ہونے والا، بڑا اترانے والا ہے۔
إِلَّا ٱلَّذِينَ صَبَرُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌۭ وَأَجْرٌۭ كَبِيرٌۭ ﴿١١﴾
مگر جو لوگ صابر ہیں اور نیکیاں کرتے ہیں ان کے لیے بخشش اوربڑا ثواب ہے
اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی
مگر جنہوں نے صبر کیا اور اچھے کام کیے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے،
ہاں جنہوں نے صبر کیا اور عمل نیک کئے۔ یہی ہیں جن کے لیے بخشش اور اجرعظیم ہے
سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کرتے رہے، (تو) ایسے لوگوں کے لئے مغفرت اور بڑا اجر ہے،
علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں کہ ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر بھی ہے
سوائے ان کے جو صبر کرتے ہیں اور نیک کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ انہی لوگوں کے لئے بخشش بھی ہے اور بہت بڑا نیک بدلہ بھی
مگر ہاں جو لوگ صبر کرتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں (وہ ایسے نہیں ہیں بلکہ) یہی وہ ہیں جن کے لئے بخشش ہے اور بہت بڑا اجر ہے۔
فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوحَىٰٓ إِلَيْكَ وَضَآئِقٌۢ بِهِۦ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا۟ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَآءَ مَعَهُۥ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَآ أَنتَ نَذِيرٌۭ ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ وَكِيلٌ ﴿١٢﴾
پھر شاید آپ اس میں سے کچھ چھوڑ بیٹھیں گے جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے اور ان کے اس کہنے سے آپ کا دل تنگ ہوگا کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتر آیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا آپ تو محض ڈرانے والے ہیں اور الله ہر چیز کا ذمہ دار ہے
تو اے پیغمبرؐ! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اُن چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کر نے سے) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں اور اِس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے \"اس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا\" یا یہ کہ \"اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا\" تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے
تو کیا جو وحی تمہاری طرف ہوتی ہے اس میں سے کچھ تم چھوڑ دو گے اور اس پر دل تنگ ہوگے اس بناء پر کہ وہ کہتے ہیں ان کے ساتھ کوئی خزانہ کیوں نہ اترا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ آتا، تم تو ڈر سنانے والے ہو اور اللہ ہر چیز پر محافظ ہے،
شاید تم کچھ چیز وحی میں سے جو تمہارے پاس آتی ہے چھوڑ دو اور اس (خیال) سے کہ تمہارا دل تنگ ہو کہ (کافر) یہ کہنے لگیں کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ نازل ہوا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا۔ اے محمدﷺ! تم تو صرف نصیحت کرنے والے ہو۔ اور خدا ہر چیز کا نگہبان ہے
بھلا کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس میں سے کچھ چھوڑ دیں جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے اور اس سے آپ کا سینہء (اَطہر) تنگ ہونے لگے (اس خیال سے) کہ کفار یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا، (ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اے رسولِ معظم!) آپ تو صرف ڈر سنانے والے ہیں (کسی کو دنیوی لالچ یا سزا دینے والے نہیں)، اور اﷲ ہر چیز پر نگہبان ہے،
پس کیا تم ہماری وحی کے بعض حصوں کو اس لئے ترک کرنے والے ہو یا اس سے تمہارا سینہ اس لئے تنگ ہوا ہے کہ یہ لوگ کہیں گے کہ ان کے اوپر خزانہ کیوں نہیں نازل ہوا یا ان کے ساتھ َمُلک کیوں نہیں آیا ...تو آپ صرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر شئے کا نگراں اور ذمہ دار ہے
پس شاید کہ آپ اس وحی کے کسی حصے کو چھوڑ دینے والے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی جاتی ہے اور اس سے آپ کا دل تنگ ہے، صرف ان کی اس بات پر کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اترا؟ یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہی آتا، سن لیجئے! آپ تو صرف ڈرانے والے ہی ہیں اور ہر چیز کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے
(اے پیغمبر(ص)) آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے تو کیا آپ (کفار کی باتوں سے متاثر ہوکر) اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیں گے اور کیا آپ کا سینہ تنگ ہو جائے گا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ان پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ یا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ (آپ ہرگز ایسا نہیں کر سکتے اور نہ ہی کرنا چاہیئے کیونکہ) آپ تو بس (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَىٰهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا۟ بِعَشْرِ سُوَرٍۢ مِّثْلِهِۦ مُفْتَرَيَٰتٍۢ وَٱدْعُوا۟ مَنِ ٱسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ ﴿١٣﴾
کیا کہتے ہیں کہ تو نے قرآن خود بنا لیا ہے کہہ دو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاؤ اور الله کے سوا جس کو بلا سکو بلا لو اگر تم سچے ہو
کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو، \"اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو
کیا یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسے جی سے بنالیا، تم فرماؤ کہ تم ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور اللہ کے سوا جو مل سکیں سب کو بلالو اگر تم سچے ہو
یہ کیا کہتے ہیں کہ اس نے قرآن ازخود بنا لیا ہے؟ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاؤ اور خدا کے سوا جس جس کو بلاسکتے ہو، بلا بھی لو
کیا کفار یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے، فرما دیجئے: تم (بھی) اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور اﷲ کے سوا (اپنی مدد کے لئے) جسے بھی بلا سکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہو،
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورہ گڑھ کر تم بھی لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلالو اگر تم اپنی بات میں سچے ہو
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کی مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو
یا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس شخص (آپ) نے یہ (قرآن) خود گھڑ لیا ہے؟ آپ فرمائیے اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو تم بھی اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں لے آؤ۔ اور بے شک اللہ کے سوا جس کو (اپنی مدد کیلئے) بلانا چاہتے ہو بلا لو۔
فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا۟ لَكُمْ فَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّمَآ أُنزِلَ بِعِلْمِ ٱللَّهِ وَأَن لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٤﴾
پھر اگر تمہارا کہنا پورا نہ کریں تو جان لو کہ قرآن الله کے علم سے نازل کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس کیا تم فرمانبرداری کرنے والے ہو
اب اگر وہ (تمہارے معبود) تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے پھر کیا تم (اس امر حق کے آگے) سر تسلیم خم کر تے ہو؟\"
تو اے مسلمانو اگر وہ تمہاری اس بات کا جواب نہ دے سکیں تو سمجھ لو کہ وہ اللہکے علم ہی سے اترا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں تو کیا اب تم مانو گے
اگر وہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ وہ خدا کے علم سے اُترا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو تمہیں بھی اسلام لے آنا چاہئیے
(اے مسلمانو!) سو اگر وہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو یقین رکھو کہ قرآن فقط اﷲ کے علم سے اتارا گیا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس کیا (اب) تم اسلام پر (ثابت قدم) رہو گے،
پھر اگر یہ آپ کی بات قبول نہ کریں تو تم سب سمجھ لو کہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے سب خدا کے علم سے ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو کیا اب تم اسلام لانے والے ہو
پھر اگر وه تمہاری اس بات کو قبول نہ کریں تو تم یقین سے جان لو کہ یہ قرآن اللہ کے علم کے ساتھ اتارا گیا ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پس کیا تم مسلمان ہوتے ہو؟
(اے مسلمانو) اب اگر وہ (کفار) تمہاری دعوت پر لبیک نہ کہیں تو پھر سمجھ لو کہ جو کچھ (قرآن) نازل کیا گیا ہے وہ اللہ کے علم و قدرت سے اتارا گیا ہے اور یہ بھی (سمجھ لو) کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے (اے کفار بتاؤ) کیا اب اسلام لاؤگے۔ اور یہ حقیقت تسلیم کروگے؟
مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَٰلَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴿١٥﴾
جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتا ہے تو انکے اعمال ہم یہیں پورے کر دیتے ہیں اور انہیں کچھ نقصان نہیں دیا جاتا
جو لوگ بس اِسی دنیا کی زندگی اور اس کی خو ش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی
جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو ہم اس میں ان کا پورا پھل دے دیں گے اور اس میں کمی نہ دیں گے،
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی
جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور انہیں اس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتی،
جو شخص زندگانی دنیا اور اس کی زینت ہی چاہتا ہے ہم اس کے اعمال کا پورا پورا حساب یہیں کردیتے ہیں اور کسی طرح کی کمی نہیں کرتے ہیں
جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہی بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی
اور جو صرف دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتے ہیں تو ہم انہیں ان کی سعی و عمل کی پوری پوری جزا دیتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔
أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِى ٱلْءَاخِرَةِ إِلَّا ٱلنَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا۟ فِيهَا وَبَٰطِلٌۭ مَّا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿١٦﴾
یہ وہی ہیں جن کیلئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہوگیا جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا تھا اور خراب ہو گیا جو کچھ کمایا تھا
مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے
یہ ہیں وہ جن کے لیے آخرت میں کچھ نہیں مگر آ گ اور اکارت گیا جو کچھ وہاں کرتے تھے اور نابود ہوئے جو ان کے عمل تھے
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا کوئی چیز نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کئے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے، سب ضائع
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں کچھ (حصہ) نہیں سوائے آتشِ (دوزخ) کے، اور وہ سب (اَعمال اپنے اُخروی اَجر کے حساب سے) اکارت ہوگئے جو انہوں نے دنیا میں انجام دیئے تھے اور وہ (سب کچھ) باطل و بے کار ہوگیا جو وہ کرتے رہے تھے (کیونکہ ان کا حساب پورے اجر کے ساتھ دنیا میں ہی چکا دیا گیا ہے اور آخرت کے لئے کچھ نہیں بچا)،
اور یہی وہ ہیں جن کے لئے آخرت میں جہنم ّکے علاوہ کچھ نہیں ہے اور ان کے سارے کاروبار برباد ہوگئے ہیں اور سارے اعمال باطل و بے اثر ہوگئے ہیں
ہاں یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کےاعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں
یہ وہ (بدنصیب) لوگ ہیں جن کیلئے آخرت (کی زندگی) میں دوزخ کی آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور انہوں نے اس (دنیا) میں جو کچھ کیا تھا وہ سب اکارت ہو جائے گا اور وہ جو کچھ کرتے تھے وہ سب باطل ہو جائے گا۔
أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍۢ مِّن رَّبِّهِۦ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌۭ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِۦ كِتَٰبُ مُوسَىٰٓ إِمَامًۭا وَرَحْمَةً ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِۦ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِۦ مِنَ ٱلْأَحْزَابِ فَٱلنَّارُ مَوْعِدُهُۥ ۚ فَلَا تَكُ فِى مِرْيَةٍۢ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿١٧﴾
بھلا وہ شخص جو اپنے رب کے صاف راستہ پر ہو اور اس کے ساتھ الله کی طرف سے ایک گواہ بھی ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گواہ تھی جو امام اور رحمت تھی یہی لوگ قرآن کو مانتے ہیں اور جو کوئی سب فرقوں میں سے اس کا منکر ہوتو اس کا ٹھکانا دوزخ ہے سو تو قرآ ن کی طرف سے شبہ میں نہ رہ بے شک یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آ گیا، اور پہلے موسیٰؑ کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کرسکتا ہے؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے پس اے پیغمبرؐ، تم اِس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے
تو کیا وہ جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس پر اللہ کی طرف سے گواہ آئے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، اور جو اس کا منکر ہو سارے گروہوں میں تو آگ اس کا وعدہ ہے تو اے سننے والے! تجھے کچھ اس میں شک نہ ہو، بیشک وہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے لیکن بہت آدمی ایمان نہیں رکھتے،
بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے (روشن) دلیل رکھتے ہوں اور ان کے ساتھ ایک (آسمانی) گواہ بھی اس کی جانب سے ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب ہو جو پیشوا اور رحمت ہے (تو کیا وہ قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے) یہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی اور فرقوں میں سے اس سے منکر ہو تو اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔ تو تم اس (قرآن) سے شک میں نہ ہونا۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے
وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہے اور اﷲ کی جانب سے ایک گواہ (قرآن) بھی اس شخص کی تائید و تقویت کے لئے آگیا ہے اور اس سے قبل موسٰی (علیہ السلام) کی کتاب (تورات) بھی جو رہنما اور رحمت تھی (آچکی ہو) یہی لوگ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں، کیا (یہ) اور (کافر) فرقوں میں سے وہ شخص جو اس (قرآن) کا منکر ہے (برابر ہوسکتے ہیں) جبکہ آتشِ دوزخ اس کا ٹھکانا ہے، سو (اے سننے والے!) تجھے چاہئے کہ تو اس سے متعلق ذرا بھی شک میں نہ رہے، بیشک یہ (قرآن) تیرے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے،
کیا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل رکھتا ہے اور اس کے پیچھے اس کا گواہ بھی ہے اور اس کے پہلے موسٰی کی کتاب گواہی دے رہی ہے جو قوم کے لئے پیشوا اور رحمت تھی -وہ افترا کرے گا بیشک صاحبانِ ایمان اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان کاٹھکانہ جہنم ّہے تو خبردار تم اس قرآن کی طرف سے شک میں مبتلا نہ ہونا -یہ خدا کی طرف سے برحق ہے اگرچہ اکثر لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے ہیں
کیا وه شخص جو اپنے رب کے پاس کی دلیل پر ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف کا گواه ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (گواه ہو) جو پیشوا اور رحمت ہے (اوروں کے برابر ہو سکتا ہے؟) یہی لوگ ہیں جو اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور تمام فرقوں میں سے جو بھی اس کا منکر ہو اس کے آخری وعدے کی جگہ جہنم ہے، پس تو اس میں کسی قسم کے شبہ میں نہ ره، یقیناً یہ تیرے رب کی جانب سے سراسر برحق ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان ﻻنے والے نہیں ہوتے
کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے (اپنی صداقت کی) کھلی ہوئی دلیل رکھتا ہے اور جس کے پیچھے ایک گواہ بھی ہے جو اسی کا جزء ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (توراۃ) بھی رحمت و راہنمائی کے طور پر آچکی ہے (اور اس کی تصدیق بھی کر رہی ہے) یہ لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور جو مختلف گروہوں میں سے اس کا انکار کرے گا اس کی وعدہ گاہ آتشِ دوزخ ہے خبردار تم! اس کے بارے میں شک میں نہ پڑنا وہ آپ کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے مگر اکثر لوگ (حق پر) ایمان نہیں لاتے۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ ٱلْأَشْهَٰدُ هَٰٓؤُلَآءِ ٱلَّذِينَ كَذَبُوا۟ عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿١٨﴾
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو الله پر جھوٹ باندھے وہ لوگ اپنے رب کے روبر پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے کہ یہی ہیں کہ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا خبرادر ظالموں پر الله کی لعنت ہے
اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے؟ ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ گھڑا تھا سنو! خدا کی لعنت ہے ظالموں پر
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے یہ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا، ارے ظا لموں پر خدا کی لعنت
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے ایسے لوگ خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور گواہ کہیں گے کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا تھا۔ سن رکھو کہ ظالموں پر الله کی لعنت ہے
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اﷲ پر جھوٹا بہتان باندھتا ہے، ایسے ہی لوگ اپنے رب کے حضور پیش کئے جائیں گے اور گواہ کہیں گے: یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا، جان لو کہ ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہے،
اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹا الزام لگاتا ہے. یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو سارے گواہ گواہی دیں گے کہ ان لوگوں نے خدا کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے تو آگاہ ہوجاؤ کہ ظالمین پر خدا کی لعنت ہے
اس سے بڑھ کر ﻇالم کون ہوگا جو اللہ پرجھوٹ باندھے یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور سارے گواه کہیں گے کہ یہ وه لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا، خبردار ہو کہ اللہ کی لعنت ہے ﻇالموں پر
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے ایسے لوگ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے۔ اور گواہ گواہی دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹا بہتان باندھا۔ خبردار ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
ٱلَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًۭا وَهُم بِٱلْءَاخِرَةِ هُمْ كَٰفِرُونَ ﴿١٩﴾
جو الله کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں اوروہی آخرت کے منکر ہیں
اُن ظالموں پر جو خدا کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں، اس کے راستے کو ٹیٹرھا کرنا چاہتے ہیں اور آخرت کا انکار کرتے ہیں
جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی چاہتے ہیں، اور وہی آخرت کے منکر ہیں،
جو خدا کے رستے سے روکتے ہیں اور اس میں کجی چاہتے ہیں اور وہ آخرت سے بھی انکار کرتے ہیں
جو لوگ (دوسروں کو) اﷲ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں، اور وہی لوگ آخرت کے منکر ہیں،
جو راسِ خدا سے روکتے ہیں اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور آخرت کے بارے میں کفر اور انکار کرنے والے ہیں
جو اللہ کی راه سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کر لیتے ہیں۔ یہی آخرت کے منکر ہیں
جو اللہ کی راہ سے (اس کے بندوں کو) روکتے ہیں اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔
أُو۟لَٰٓئِكَ لَمْ يَكُونُوا۟ مُعْجِزِينَ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ۘ يُضَٰعَفُ لَهُمُ ٱلْعَذَابُ ۚ مَا كَانُوا۟ يَسْتَطِيعُونَ ٱلسَّمْعَ وَمَا كَانُوا۟ يُبْصِرُونَ ﴿٢٠﴾
یہ لوگ زمین میں عاجز کرنے والے نہیں تھے اور ان کے لیے سوا الله کے کوئی دوست نہ تھا انہیں دگنا عذاب کیا جائے گا یہ لوگ نہ سن سکتے تھے اور نہ دیکھتے تھے
وہ زمین میں اللہ کو بے بس کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی ان کا حامی تھا انہیں اب دوہرا عذاب دیا جائے گا وہ نہ کسی کی سن ہی سکتے تھے اور نہ خود ہی انہیں کچھ سوجھتا تھا
وہ تھکانے والے نہیں زمین میں اور نہ اللہ سے جدا ان کے کوئی حمایتی انہیں عذاب پر عذاب ہوگا وہ نہ سن سکتے تھے اور نہ دیکھتے
یہ لوگ زمین میں (کہیں بھاگ کر خدا کو) نہیں ہرا سکتے اور نہ خدا کے سوا کوئی ان کا حمایتی ہے۔ (اے پیغمبر) ان کو دگنا عذاب دیا جائے گا کیونکہ یہ (شدت کفر سے تمہاری بات) نہیں سن سکتے تھے اور نہ (تم کو) دیکھ سکتے تھے
یہ لوگ (اﷲ کو) زمین میں عاجز کر سکنے والے نہیں اور نہ ہی ان کے لئے اﷲ کے سوا کوئی مددگار ہیں۔ ان کے لئے عذاب دوگنا کر دیا جائے گا (کیونکہ) نہ وہ (حق بات) سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ (حق کو) دیکھ ہی سکتے تھے،
یہ لوگ نہ روئے زمین میں خدا کو عاجز کرسکتے ہیں اور نہ خد اکے علاوہ ان کا کوئی ناصر و مددگار ہے ان کا عذاب دگنا کردیا جائے گا کہ یہ نہ حق بات سن سکتے تھے اور نہ اس کے منظر عام کو دیکھ سکتے تھے
نہ یہ لوگ دنیا میں اللہ کو ہرا سکے اور نہ ان کا کوئی حمایتی اللہ کے سوا ہوا، ان کے لئے عذاب دگنا کیا جائے گا نہ یہ سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ یہ دیکھتے ہی تھے
یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں تھے اور نہ خدا کے علاوہ ان کا کوئی مددگار اور کارساز تھا۔ ان کو دوگنا عذاب ہوگا۔ (کیونکہ) یہ نہ (حق بات) سن سکتے ہیں۔ اور نہ (حقیقت) دیکھ سکتے تھے۔
أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا۟ يَفْتَرُونَ ﴿٢١﴾
انہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا اور ان سے ضائع ہوگیا جو جھوٹ وہ باندھتے تھے
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خود گھاٹے میں ڈالا اور وہ سب کچھ ان سے کھویا گیا جو انہوں نے گھڑ رکھا تھا
وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں اور ان سے کھوئی گئیں جو باتیں جوڑتے تھے خواہ نخواہ
یہی ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خسارے میں ڈالا اور جو کچھ وہ افتراء کیا کرتے تھے ان سے جاتا رہا
یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان پہنچایا اور جو بہتان وہ باندھتے تھے وہ (سب) ان سے جاتے رہے،
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود اپنے نفس کو خسارہ میں مبتلا کیا اور ان سے وہ بھی گم ہوگئے جن کا افترا کیا کرتے تھے
یہی ہیں جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر لیا اور وه سب کچھ ان سے کھو گیا، جو انہوں نے گھڑ رکھا تھا
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کیا اور وہ (خلافِ حق) جو افترا پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب ان سے گم ہوگئیں۔
لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِى ٱلْءَاخِرَةِ هُمُ ٱلْأَخْسَرُونَ ﴿٢٢﴾
بے شک یہی لوگ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان میں ہوں گے
نا گزیر ہے کہ وہی آخرت میں سب سے بڑھ کر گھاٹے میں رہیں
(ضرور) وہی آخرت میں سب سے زیادہ نقصان میں ہیں
بلاشبہ یہ لوگ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان پانے والے ہیں
یہ بالکل حق ہے کہ یقینًا وہی لوگ آخرت میں سب سے زیادہ خسارہ اٹھانے والے ہیں،
یقینا یہ لوگ آخرت میں بہت بڑا گھاٹا اٹھانے والے ہیں
بیشک یہی لوگ آخرت میں زیاں کار ہوں گے
بلاشبہ یہی لوگ آخرت میں سب سے زیادہ گھاٹا اٹھانے والے ہوں گے۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَأَخْبَتُوٓا۟ إِلَىٰ رَبِّهِمْ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ ﴿٢٣﴾
البتہ جولوگ ایمان لائے اورنیک کام کیے اور اپنے رب کے سامنے عاجزی کی وہ جنت میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہو کر رہے، تو یقیناً وہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے
بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور اپنے رب کی طرف رجوع لائے وہ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے اور اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی۔ یہی صاحب جنت ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اپنے رب کے حضور عاجزی کرتے رہے یہی لوگ اہلِ جنت ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں،
بیشک جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دئیے اور اپنے رب کی بارگاہ میں عاجزی سے پیش آئے وہی اہل جّنت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
یقیناً جو لوگ ایمان ﻻئے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے اور اپنے پالنے والے کی طرف جھکتے رہے، وہی جنت میں جانے والے ہیں، جہاں وه ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور عجز و نیاز کے ساتھ اپنے پروردگار کے حضور جھک گئے یہی لوگ جنتی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
۞ مَثَلُ ٱلْفَرِيقَيْنِ كَٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْأَصَمِّ وَٱلْبَصِيرِ وَٱلسَّمِيعِ ۚ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿٢٤﴾
دونوں فریق کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا اوربہرا ہو اور دوسرا دیکھنے والا اور سننے والاکیا دونوں کا حال برابر ہے پھر تم کیوں نہیں سمجھتے
اِن دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سننے والا، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟ کیا تم (اِس مثال سے) کوئی سبق نہیں لیتے؟
دونوں فریق کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا اور دوسرا دیکھتا اور سنتا کيا ان دونوں حال کا ايک سا ہے تو کياتم دہيان نہيں کرتے
دونوں فرقوں (یعنی کافرومومن) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا ہو اور ایک دیکھتا سنتا۔ بھلا دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟
(کافر و مسلم) دونوں فریقوں کی مثال اندھے اور بہرے اور (اس کے برعکس) دیکھنے والے اور سننے والے کی سی ہے۔ کیا دونوں کا حال برابر ہے؟ کیا تم پھر (بھی) نصیحت قبول نہیں کرتے،
کافر اور مسلمان کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے سننے والے کی ہے تو کیا یہ دونوں مثال کے اعتبار سے برابر ہوسکتے ہیں تمہیں ہوش کیوں نہیں آتا ہے
ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے، بہرے اور دیکھنے، سننے والے جیسی ہے۔ کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں؟ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟
ان دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا، بہرا ہو اور دوسرا آنکھ و کان والا۔ (بتاؤ) یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے (اور نصیحت حاصل نہیں کرتے؟)
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦٓ إِنِّى لَكُمْ نَذِيرٌۭ مُّبِينٌ ﴿٢٥﴾
اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا بے شک میں تمہیں صاف ڈرانے والا ہوں
(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا تھا (اُس نے کہا) \"میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں
اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھيجا کہ میں تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (تو انہوں نے ان سے کہا) کہ میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے اور پیغام پہنچانے آیا ہوں
اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، (انہوں نے ان سے کہا:) میں تمہارے لئے کھلا ڈر سنانے والا (بن کر آیا) ہوں،
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجاکہ میں تمہارے لئے کھلے ہوئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ہوں
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ میں تمہیں صاف صاف ہوشیار کر دینے واﻻ ہوں
بے شک ہم نے نوح(ع) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (انہوں نے کہا لوگو!) میں تمہیں کھلا ہوا (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والا ہوں۔
أَن لَّا تَعْبُدُوٓا۟ إِلَّا ٱللَّهَ ۖ إِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍۢ ﴿٢٦﴾
کہ الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو بے شک میں تم پر دردناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا\"
کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو، بیشک میں تم پر ایک مصیبت والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مجھے تمہاری نسبت عذاب الیم کا خوف ہے
کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، میں تم پر دردناک دن کے عذاب (کی آمد) کا خوف رکھتا ہوں،
اور یہ کہ خبردار تم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا کہ میں تمہارے بارے میں دردناک دن کے عذاب کا خوف رکھتا ہوں
کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو، مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے
اور یہ کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو (ورنہ) میں تمہارے بارے میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
فَقَالَ ٱلْمَلَأُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِن قَوْمِهِۦ مَا نَرَىٰكَ إِلَّا بَشَرًۭا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَىٰكَ ٱتَّبَعَكَ إِلَّا ٱلَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِىَ ٱلرَّأْىِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍۭ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَٰذِبِينَ ﴿٢٧﴾
پھر اس کی قوم کے جو کافر سردار تھے وہ بولے ہمیں تو تم ہم جیسے ہی ایک آدمی نظر آتے ہو اور ہمیں تو تمہارے پیرو وہی نظر آتے ہیں جو ہم میں سے رذیل ہیں وہ بھی سرسری نظر سے اورہم تم میں اپنے سے کوئی فضیلت بھی نہیں پاتے بلکہ تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں
جواب میں اُس کی قوم کے سردار، جنہوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا تھا، بولے \"ہماری نظر میں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس اُن لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں\"
تو اس کی قوم کے سردار جو کافر ہوئے تھے بولے ہم تو تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری پیروی کسی نے کی ہو مگر ہمارے کمینوں نے سرسری نظر سے اور ہم تم میں اپنے اوپر کوئی بڑائی نہیں پاتے بلکہ ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں،
تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ ہم تم کو اپنے ہی جیسا ایک آدمی دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیرو وہی لوگ ہوئے ہیں جو ہم میں ادنیٰ درجے کے ہیں۔ اور وہ بھی رائے ظاہر سے (نہ غوروتعمق سے) اور ہم تم میں اپنے اوپر کسی طرح کی فضیلت نہیں دیکھتے بلکہ تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں
سو ان کی قوم کے کفر کرنے والے سرداروں اور وڈیروں نے کہا: ہمیں تو تم ہمارے اپنے ہی جیسا ایک بشر دکھائی دیتے ہو اور ہم نے کسی (معزز شخص) کو تمہاری پیروی کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے ہمارے (معاشرے کے) سطحی رائے رکھنے والے پست و حقیر لوگوں کے (جو بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں)، اور ہم تمہارے اندر اپنے اوپر کوئی فضیلت و برتری (یعنی طاقت و اقتدار، مال و دولت یا تمہاری جماعت میں بڑے لوگوں کی شمولیت الغرض ایسا کوئی نمایاں پہلو) بھی نہیں دیکھتے بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں،
تو ان کی قوم کے بڑے لوگ جنہوں نے کفر اختیار کرلیا تھا -انہوں نے کہا کہ ہم تو تم کو اپنا ہی جیسا ایک انسان سمجھ رہے ہیں اور تمہارے اتباع کرنے والوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے پست طبقہ کے سادہ لوح افراد ہیں. ہم تم میں اپنے اوپر کوئی فضیلت نہیں دیکھتے ہیں بلکہ تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں
اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے اور کوئی نہیں جو بے سوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں)، ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں
اس پر ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ (اے نوح) ہم تو تمہیں اس کے سوا کچھ نہیں دیکھتے کہ تم ہم جیسے ایک انسان ہو۔ اور ہم تو یہی دیکھ رہے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کی پیروی کی ہے وہ ہم میں سے بالکل رذیل لوگ ہیں اور انہوں نے بھی بے سوچے سمجھے سرسری رائے سے کی ہے اور ہم تم میں اپنے اوپر کوئی برتری نہیں دیکھتے بلکہ تم لوگوں کو جھوٹا خیال کرتے ہیں۔
قَالَ يَٰقَوْمِ أَرَءَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍۢ مِّن رَّبِّى وَءَاتَىٰنِى رَحْمَةًۭ مِّنْ عِندِهِۦ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنتُمْ لَهَا كَٰرِهُونَ ﴿٢٨﴾
اس نے کہا اے میری قوم دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے صاف راستہ پر ہوں اور اس نے مجھ پر اپنے ہاں سے رحمت بھیجی ہو پھر وہ تمہیں دکھائی نہ دے تو کیا میں زبردستی تمہارے گلے مڑھ دوں اور تم اس سے نفرت کرتے ہو
اس نے کہا \"اے برادران قوم، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر چپیک دیں؟
بولا اے میری قوم! بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت بخشی تو تم اس سے اندھے رہے، کیا ہم اسے تمہارے گلے چپیٹ (چپکا) دیں اور تم بیزار ہو
انہوں نے کہا کہ اے قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل (روشن) رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے رحمت بخشی ہو جس کی حقیقت تم سے پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ تو کیا ہم اس کے لیے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہو رہے ہو
(نوح علیہ السلام نے) کہا: اے میری قوم! بتاؤ تو سہی اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر بھی ہوں اور اس نے مجھے اپنے حضور سے (خاص) رحمت بھی بخشی ہو مگر وہ تمہارے اوپر (اندھوں کی طرح) پوشیدہ کر دی گئی ہو، تو کیا ہم اسے تم پر جبراً مسلّط کر سکتے ہیں درآنحالیکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو،
انہوں نے جواب دیا کہ اے قوم تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل رکھتا ہوں اور وہ مجھے اپنی طرف سے وہ رحمت عطا کردے جو تمہیں دکھائی نہ دے تو کیا میں ناگواری کے باوجود زبردستی تمہارے اوپر لادسکتا ہوں
نوح نے کہا، میری قوم والو! مجھے بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل پر ہوا اور مجھے اس نے اپنے پاس کی کوئی رحمت عطا کی ہو، پھر وه تمہاری نگاہوں میں نہ آئی تو کیا زبردستی میں اسے تمہارے گلے منڈھ دوں، حاﻻنکہ تم اس سے بیزار ہو
نوح(ع) نے کہا اے میری قوم! کیا تم نے (اس بات پر) غور کیا ہے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں؟ اور اس نے مجھے اپنی رحمت بھی عطا فرمائی ہے۔ جو تمہیں سجھائی نہیں دیتی۔ تو کہا ہم زبردستی اسے تمہارے اوپر مسلط کر سکتے ہیں۔ جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟
وَيَٰقَوْمِ لَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ ۚ وَمَآ أَنَا۠ بِطَارِدِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ ۚ إِنَّهُم مُّلَٰقُوا۟ رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّىٓ أَرَىٰكُمْ قَوْمًۭا تَجْهَلُونَ ﴿٢٩﴾
اور اے میری قوم میں تم سے اس پر کچھ مال نہیں مانگتا میری مزدوری الله ہی کے ذمہ ہے اور میں ایمانداروں کو ہٹانے والا نہیں بے شک و ہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں لیکن تمہیں جاہل قوم دیکھتا ہوں
اور اے برادران قوم، میں اِس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور میں اُن لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے، وہ آپ ہی اپنے رب کے حضور جانے والے ہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو
اور اے قوم! میں تم سے کچھ اس پر مال نہیں مانگتا میرا اجر تو اللہ ہی پر ہے اور میں مسلمانوں کو دور کرنے والا نہیں بیشک وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں لیکن میں تم کو نرے جاہل لوگ پا تا ہوں
اور اے قوم! میں اس (نصیحت) کے بدلے تم سے مال وزر کا خواہاں نہیں ہوں، میرا صلہ تو خدا کے ذمے ہے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، میں ان کو نکالنے والا بھی نہیں ہوں۔ وہ تو اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو
اور اے میری قوم! میں تم سے اس (دعوت و تبلیغ) پر کوئی مال و دولت (بھی) طلب نہیں کرتا، میرا اجر تو صرف اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور میں (تمہاری خاطر) ان (غریب اور پسماندہ) لوگوں کو جو ایمان لے آئے ہیں دھتکارنے والا بھی نہیں ہوں (تم انہیں حقیر مت سمجھو یہی حقیقت میں معزز ہیں)۔ بیشک یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات سے بہرہ یاب ہونے والے ہیں اور میں تو درحقیقت تمہیں جاہل (و بے فہم) قوم دیکھ رہا ہوں،
اے قوم میں تم سے کوئی مال تو نہیں چاہتا ہوں -میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور میں صاحبان هایمان کو نکال بھی نہیں سکتا ہوں کہ وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے والے ہیں البتہ میں تم کو ایک جاہل قوم تصور کررہا ہوں
میری قوم والو! میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا۔ میرا ﺛواب تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے نہ میں ایمان والوں کو اپنے پاس سے نکال سکتا ہوں، انہیں اپنے رب سے ملنا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت کر رہے ہو
اے میری قوم! میں اس (تبلیغِ حق) پر تم سے کوئی مالی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ میرا معاوضہ اللہ کے ذمے ہے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں (وہ تمہاری نگاہ میں جس قدر پست ہوں) میں ان کو اپنے پاس سے نکال نہیں سکتا۔ بے شک وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری دینے والے ہیں البتہ میں دیکھتا ہوں کہ تم جہالت سے کام لینے والے لوگ ہو۔
وَيَٰقَوْمِ مَن يَنصُرُنِى مِنَ ٱللَّهِ إِن طَرَدتُّهُمْ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿٣٠﴾
اور اے میری قوم اگر میں انہیں ہٹا دوں تو مجھے الله سے کون چھڑائے گا کیا پھر تم نہیں سمجھتے
اور اے قوم، اگر میں اِن لوگوں کو دھتکار دوں تو خدا کی پکڑ سے کون مجھے بچانے آئے گا؟ تم لوگوں کی سمجھ میں کیا اتنی بات بھی نہیں آتی؟
اور اے قوم مجھے اللہ سے کون بچالے گا اگر میں انہیں دور کروں گا، تو کیا تمہیں دھیان نہیں،
اور برادران ملت! اگر میں ان کو نکال دوں تو (عذاب) خدا سے (بچانے کے لیے) کون میری مدد کرسکتا ہے۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟
اور اے میری قوم! اگر میں ان کو دھتکار دوں تو اﷲ (کے غضب) سے (بچانے میں) میری مدد کون کر سکتا ہے، کیا تم غور نہیں کرتے،
اے قوم میں ان لوگوں کو نکال باہر کردوں تو اللہ کی طرف سے میرا مددگار کون ہوگا کیا تمہیں ہوش نہیں آتا ہے
میری قوم کے لوگو! اگر میں ان مومنوں کو اپنے پاس سے نکال دوں تو اللہ کے مقابلہ میں میری مدد کون کر سکتا ہے؟ کیا تم کچھ بھی نصیحت نہیں پکڑتے
اے میری قوم! اگر میں ان کو اپنے پاس سے نکال دوں تو اللہ کے مقابلہ میں کون میری مدد کرے گا۔ کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے (اور نصیحت قبول نہیں کرتے؟)
وَلَآ أَقُولُ لَكُمْ عِندِى خَزَآئِنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ وَلَآ أَقُولُ إِنِّى مَلَكٌۭ وَلَآ أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِىٓ أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ ٱللَّهُ خَيْرًا ۖ ٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِىٓ أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّىٓ إِذًۭا لَّمِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿٣١﴾
اور میں تمہیں نہیں کہتا کہ میرے پاس الله کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب دان ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ یہ کہوں گاکہ جو لوگ تمہاری نظر میں حقیر ہیں الله ان کو بھلائی نہ دے گا الله خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے ایسا کہوں تو میں بے انصاف ہوں
اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا\"
اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جان جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور میں انہیں نہیں کہتا جن کو تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں کہ ہرگز انہیں اللہ کوئی بھلائی نہ دے گا، اللہ خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے ایسا کروں تو ضرور میں ظالموں میں سے ہوں
میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ ان لوگوں کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ خدا ان کو بھلائی (یعنی اعمال کی جزائے نیک) نہیں دے گا جو ان کے دلوں میں ہے اسے خدا خوب جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو بےانصافوں میں ہوں
اور میں تم سے (یہ) نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں (یعنی میں بے حد دولت مند ہوں) اور نہ (یہ کہ) میں (اﷲ کے بتائے بغیر) خود غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں (انسان نہیں) فرشتہ ہوں (میری دعوت کرشماتی دعوؤں پر مبنی نہیں ہے) اور نہ ان لوگوں کی نسبت جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر جان رہی ہیں یہ کہتا ہوں کہ اﷲ انہیں ہرگز کوئی بھلائی نہ دے گا (یہ اﷲ کا امر اور ہر شخص کا نصیب ہے)، اﷲ بہتر جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، (اگر ایسا کہوں تو) بیشک میں اسی وقت ظالموں میں سے ہو جاؤں گا،
اور میں تم سے یہ بھی نہیں کہتا ہوں کہ میرے پاس تمام خدائی خزانے موجود ہیں اور نہ ہر غیب کے جاننے کا دعوٰی کرتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ جو لوگ تمہارے نگاہوں میں ذلیل ہیں ان کے بارے میں یہ کہتا ہوں کہ خدا انہیں خیر نہ دے گا -اللہ ان کے دلوں سے خوب باخبر ہے -میں ایسا کہہ دوں گا تو ظالموں میں شمار ہوجاؤں گا
میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، (سنو!) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دے گا ہی نہیں، ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے، اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ﻇالموں میں ہو جائے گا
اور (دیکھو) میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں اور نہ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ جن لوگوں کو تم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو کہ اللہ انہیں کوئی بھلائی عطا نہیں کرے گا اللہ ہی بہتر جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اگر میں ایسا کہوں تو ظالموں میں سے ہو جاؤں گا۔
قَالُوا۟ يَٰنُوحُ قَدْ جَٰدَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَٰلَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ ﴿٣٢﴾
کہا اے نوح تو نے ہم سے جھگڑا کیا او ربہت جھگڑا کر چکا اب لے آ جو تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اگر تو سچا ہے
آخر کار ان لوگوں نے کہا کہ \"اے نوحؑ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو\"
بولے اے نوح تم ہم سے جھگڑے اور بہت ہی جھگڑے تو لے ا ٓ ؤ جس کا ہمیں وعدے دے رہے ہو اگر تم سچے ہو،
انہوں نے کہا کہ نوح تم نے ہم سے جھگڑا تو کیا اور جھگڑا بھی بہت کیا۔ لیکن اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو وہ ہم پر لا نازل کرو
وہ کہنے لگے: اے نوح! بیشک تم ہم سے جھگڑ چکے سو تم نے ہم سے بہت جھگڑا کر لیا، بس اب ہمارے پاس وہ (عذاب) لے آؤ جس کا تم ہم سے وعدہ کرتے ہو اگر تم (واقعی) سچے ہو،
ان لوگوں نے کہا کہ نوح آپ نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت جھگڑا کیا تو اب جس چیز کا وعدہ کررہے تھے اسے لے آؤ اگر تم اپنے دعوٰی میں سچے ہو
(قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحﺚ کر لی اور خوب بحﺚ کر لی۔ اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ، اگر تو سچوں میں ہے
ان لوگوں نے کہا اے نوح! تم نے ہم سے بحث و تکرار کی ہے اور بہت کر لی (اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے) اگر تم سچے ہو تو وہ (عذاب) ہمارے پاس لاؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔
قَالَ إِنَّمَا يَأْتِيكُم بِهِ ٱللَّهُ إِن شَآءَ وَمَآ أَنتُم بِمُعْجِزِينَ ﴿٣٣﴾
نوح نے کہا اسے تو اگرچاہے گا الله ہی لائے گا اور تم اسے روک نہ سکو گے
نوحؑ نے جواب دیا \"وہ تو اللہ ہی لائے گا، اگر چاہے گا، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک دو
بولا وہ تو اللہ تم پر لائے گا اگر چاہے اور تم تھکا نہ سکو گے
نوح نے کہا کہ اس کو خدا ہی چاہے گا تو نازل کرے گا۔ اور تم (اُس کو کسی طرح) ہرا نہیں سکتے
(نوح علیہ السلام نے) کہا: وہ (عذاب) تو بس اﷲ ہی تم پر لائے گا اگر اس نے چاہا اور تم (اسے) عاجز نہیں کرسکتے،
نوح نے کہا کہ وہ تو خدا لے آئے گا اگر چاہے گا اور تم اسے عاجز بھی نہیں کرسکتے ہو
جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ ہی ﻻئے گا اگر وه چاہے اور ہاں تم اسے ہرانے والے نہیں ہو
نوح(ع) نے کہا وہ (عذاب) تو اللہ ہی لائے گا جب چاہے گا اور تم اسے عاجز نہیں کر سکتے۔
وَلَا يَنفَعُكُمْ نُصْحِىٓ إِنْ أَرَدتُّ أَنْ أَنصَحَ لَكُمْ إِن كَانَ ٱللَّهُ يُرِيدُ أَن يُغْوِيَكُمْ ۚ هُوَ رَبُّكُمْ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٣٤﴾
اور میری نصیحت تمہیں فائدہ نہ دے گی خواہ میں کتنی ہی نصیحت کرنا چاہوں اگر الله کو تمہیں گمراہ رکھنا ہی منظور ہے وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تمہیں پھر جانا ہے
اب اگر میں تمہاری کچھ خیر خواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیر خواہی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جبکہ اللہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کر لیا ہو، وہی تمہارا رب ہے اور اُسی کی طرف تمہیں پلٹنا ہے\"
اور تمہیں میری نصیحت نفع نہ دے گی اگر میں تمہارا بھلا چاہوں جبکہ اللہ تمہاری گمراہی چاہے، وہ تمہارا رب ہے، اور اسی کی طرف پھرو گے
اور اگر میں یہ چاہوں کہ تمہاری خیرخواہی کروں اور خدا یہ چاہے وہ تمہیں گمراہ کرے تو میری خیرخواہی تم کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتی۔ وہی تمہارا پروردگار ہے اور تمہیں اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے
اور میری نصیحت (بھی) تمہیں نفع نہ دے گی خواہ میں تمہیں نصیحت کرنے کا ارادہ کروں اگر اﷲ نے تمہیں گمراہ کرنے کا ارادہ فرما لیا ہو، وہ تمہارا رب ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے،
اور میں تمہیں نصیحت بھی کرنا چاہوں تو میری نصیحت تمہارے کام نہیں آئے گی اگر خدا ہی تم کو گمراہی میں چھوڑ دینا چاہے -وہی تمہارا پروردگار ہے اور اسی کی طرف تم پلٹ کر جانے والے ہو
تمہیں میری خیر خواہی کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی، گو میں کتنی ہی تمہاری خیر خواہی کیوں نہ چاہوں، بشرطیکہ اللہ کا اراده تمہیں گمراه کرنے کا ہو، وہی تم سب کا پروردگار ہے اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے
اگر اللہ تمہیں گمراہی میں چھوڑ دینا چاہے (اور اس طرح تمہیں ہلاک کرنا چاہے تو) میں جس قدر تمہیں نصیحت کرنا چاہوں میری نصیحت تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ وہی تمہارا پروردگار ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔
أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَىٰهُ ۖ قُلْ إِنِ ٱفْتَرَيْتُهُۥ فَعَلَىَّ إِجْرَامِى وَأَنَا۠ بَرِىٓءٌۭ مِّمَّا تُجْرِمُونَ ﴿٣٥﴾
کیا کہتے ہیں کہ قرآن کو خود بنا لایا ہے کہہ دو اگر میں بنا لایا ہوں تو اس کا گناہ مجھ پر ہے اور میں تمہارے گناہوں سے بری ہوں
اے محمدؐ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو \"اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جرم کی ذمہ داری ہے، اور جو جرم تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں\"
کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے جی سے بنالیا تم فرماؤ اگر میں نے بنالیا ہوگا تو میرا گناہ مجھ پر ہے اور میں تمہارے گناہ سے الگ ہوں،
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) نے یہ قرآن اپنے دل سے بنا لیا ہے۔ کہہ دو کہ اگر میں نے دل سے بنالیا ہے تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر اور جو گناہ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں
(اے حبیبِ مکرّم!) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے، فرما دیجئے: اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہے تو میرے جرم (کا وبال) مجھ پر ہوگا اور میں اس سے بری ہوں جو جرم تم کر رہے ہو،
کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پاس سے گڑھ لیا ہے تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر میں نے گڑھا ہے تو اس کا جرم میرے ذمہ ہے اور میں تمہارے جرائم سے بری اور بیزار ہوں
کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے خود اسی نے گھڑ لیا ہے؟ تو جواب دے کہ اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہو تو میرا گناه مجھ پر ہے اور میں ان گناہوں سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو
کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ (آپ) نے (یہ قرآن) خود گھڑ لیا ہے۔ تو کہیئے! اگر میں نے یہ گھڑا ہے تو اس جرم کا وبال مجھ پر ہے اور جو جرم تم کر رہے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں۔
وَأُوحِىَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُۥ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ ءَامَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے اب کوئی ایمان نہیں لائے گا مگر جو لا چکا پھر غم نہ کر اور کاموں پر جو کر رہے ہیں
نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو
اور نوح کو وحی ہوئی تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہوں گے مگر جتنے ایمان لاچکے تو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے ہیں
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان (لاچکے)، ان کے سوا کوئی اور ایمان نہیں لائے گا تو جو کام یہ کر رہے ہیں ان کی وجہ سے غم نہ کھاؤ
اور نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی کی گئی کہ (اب) ہرگز تمہاری قوم میں سے (مزید) کوئی ایمان نہیں لائے گا سوائے ان کے جو (اس وقت تک) ایمان لا چکے ہیں، سو آپ ان کے (تکذیب و استہزا کے) کاموں سے رنجیدہ نہ ہوں،
اور نوح کی طرف یہ وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے اب کوئی ایمان نہ لائے گا علاوہ ان کے جو ایمان لاچکے لہذا تم ان کے افعال سے رنجیدہ نہ ہو
نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تیری قوم میں سے جو ایمان ﻻ چکے ان کے سوا اور کوئی اب ایمان ﻻئے گا ہی نہیں، پس تو ان کے کاموں پر غمگین نہ ہو
اور نوح(ع) کی طرف وحی کی گئی کہ ان لوگوں کے سوا جو ایمان لا چکے ہیں تمہاری قوم میں سے اور کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ پس تم اس پر غمگین نہ ہو جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں۔
وَٱصْنَعِ ٱلْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَٰطِبْنِى فِى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓا۟ ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾
اور ہمارے روبرو اور ہمارے حکم سے کشتی بنا اور ظالمو ں کے حق میں مجھ سے کوئی بات نہ کر بے شک وہ غرق کیے جائیں گے
اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں
اور کشتی بناؤ ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سے اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا وہ ضرور ڈوبائے جائیں گے
اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے روبرو بناؤ۔ اور جو لوگ ظالم ہیں ان کے بارے میں ہم سے کچھ نہ کہنا کیونکہ وہ ضرور غرق کردیئے جائیں گے
اور تم ہمارے حکم کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی بناؤ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے (کوئی) بات نہ کرنا، وہ ضرور غرق کئے جائیں گے،
اور ہماری نگاہوں کے سامنے ہماری وحی کی نگرانی میں کشتی تیار کرو اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرو کہ یہ سب غرق ہوجانے والے ہیں
اورایک کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے تیار کر اور ﻇالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر وه پانی میں ڈبو دیئے جانے والے ہیں
اور ہماری نگرانی اور ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بناؤ۔ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات (سفارش) نہ کرنا (کیونکہ) یقینا یہ سب لوگ غرق ہو جانے والے ہیں۔
وَيَصْنَعُ ٱلْفُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌۭ مِّن قَوْمِهِۦ سَخِرُوا۟ مِنْهُ ۚ قَالَ إِن تَسْخَرُوا۟ مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ ﴿٣٨﴾
اور وہ کشتی بناتے تھے اور جب اس کی قوم کے سردار اس پر گزرتے اس سے ہنسی کرتے کہتے اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنسیں گے جیسے تم ہنستے ہو
نوحؑ کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اڑاتا تھا اس نے کہا \"اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں
اور نوح کشتی بناتا ہے اور جب اس کی قوم کے سردار اس پر گزرتے اس پر ہنستے بولا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم تم پر ہنسیں گے جیسا تم ہنستے ہو
تو نوح نے کشتی بنانی شروع کردی۔ اور جب ان کی قوم کے سردار ان کے پاس سے گزرتے تو ان سے تمسخر کرتے۔ وہ کہتے کہ اگر تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو جس طرح تم ہم سے تمسخر کرتے ہو اس طرح (ایک وقت) ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے
اور نوح (علیہ السلام) کشتی بناتے رہے اور جب بھی ان کی قوم کے سردار اُن کے پاس سے گزرتے ان کا مذاق اڑاتے۔ نوح (علیہ السلام انہیں جوابًا) کہتے: اگر (آج) تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو (کل) ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے جیسے تم تمسخر کر رہے ہو،
اور نوح کشتی بنارہے تھے اور جب بھی قوم کی کسی جماعت کا گزر ہوتا تھا تو ان کا مذاق اڑاتے تھے -نوح نے کہا کہ اگر تم ہمارا مذاق اڑاؤ گے تو کل ہم اسی طرح تمہارا بھی مذاق اڑائیں گے
وه (نوح) کشتی بنانے لگے ان کی قوم کے جو سردار ان کے پاس سے گزرتے وه ان کا مذاق اڑاتے، وه کہتے اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی تم پر ایک دن ہنسیں گے جیسے تم ہم پر ہنستے ہو
چنانچہ نوح(ع) کشتی بنانے لگے اور جب بھی ان کی قوم کے سردار ان کے پاس سے گزرتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے وہ (نوح) کہتے اگر (آج) تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو (کل کلاں) ہم بھی تمہارا اسی طرح مذاق اڑائیں گے جس طرح تم اڑا رہے ہو۔
فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌۭ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌۭ مُّقِيمٌ ﴿٣٩﴾
تمہیں جلدی معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا اورکسی پر دائمی عذاب اترتا ہے
عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اُسے رسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی\"
تو اب جان جاؤ گے کس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے اور اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ رہے
اور تم کو جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے اور جو اسے رسوا کرے گا اور کس پر ہمیشہ کا عذاب نازل ہوتا ہے
سو تم عنقریب جان لوگے کہ کس پر (دنیا میں ہی) عذاب آتا ہے جو اسے ذلیل و رسوا کر دے گا اور (پھر آخرت میں بھی کس پر) ہمیشہ قائم رہنے والا عذاب اترتا ہے،
پھر عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جس کے پاس عذاب آتا ہے اسے رسوا کردیا جاتا ہے اور پھر وہ عذاب دائمی ہی ہوجاتا ہے
تمیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے اور اس پر ہمیشگی کی سزا اتر آئے
عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر دائمی عذاب نازل ہوتا ہے۔
حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَ أَمْرُنَا وَفَارَ ٱلتَّنُّورُ قُلْنَا ٱحْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّۢ زَوْجَيْنِ ٱثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ ٱلْقَوْلُ وَمَنْ ءَامَنَ ۚ وَمَآ ءَامَنَ مَعَهُۥٓ إِلَّا قَلِيلٌۭ ﴿٤٠﴾
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم پہنچا اور تنور نے جوش مارا ہم نے کہا کشتی میں ہر قسم کے جوڑا نر مادہ چڑھا لے اور اپنے گھر والوں کو مگر وہ جن کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے اور سب ایمان والوں کو اور اس کے ساتھ ایمان تو بہت کم لائے تھے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنو ر ابل پڑا تو ہم نے کہا \"ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں\" اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے
یہاں تک کہ کہ جب ہمارا حکم آیا اور تنور اُبلا ہم نے فرمایا کشتی میں سوار کرلے ہر جنس میں سے ایک جوڑا نر و مادہ اور جن پر بات پڑچکی ہے ان کے سوا اپنے گھر والوں اور باقی مسلمانوں کو اور اس کے ساتھ مسلمان نہ تھے مگر تھوڑے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے نوح کو حکم دیا کہ ہر قسم (کے جانداروں) میں سے جوڑا جوڑا (یعنی) دو (دو جانور۔ ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ) لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہوچکا ہے (کہ ہلاک ہوجائے گا) اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو جو ایمان لایا ہو اس کو کشتی میں سوار کر لو اور ان کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا اور تنور (پانی کے چشموں کی طرح) جوش سے ابلنے لگا (تو) ہم نے فرمایا: (اے نوح!) اس کشتی میں ہر جنس میں سے (نر اور مادہ) دو عدد پر مشتمل جوڑا سوار کر لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (لے لو) سوائے ان کے جن پر (ہلاکت کا) فرمان پہلے صادر ہو چکا ہے اور جو کوئی ایمان لے آیا ہے (اسے بھی ساتھ لے لو)، اور چند (لوگوں) کے سوا ان کے ساتھ کوئی ایمان نہیں لایا تھا،
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور سے پانی ابلنے لگا تو ہم نے کہا کہ نوح اپنے ساتھ ہر جوڑے میں سے دو کو لے لو اور اپنے اہل کو بھی لے لو علاوہ ان کے جن کے بارے میں ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا ہے اور صاحبان هایمان کو بھی لے لو اور ان کے ساتھ ایمان والے بہت ہی کم تھے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے (جانداروں میں سے) جوڑے (یعنی) دو (جانور، ایک نر اور ایک ماده) سوار کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی، اس کے ساتھ ایمان ﻻنے والے بہت ہی کم تھے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا۔ اور تنور نے جوش مارا (ابل پڑا) تو ہم نے (نوح(ع) سے) کہا کہ ہر قسم کے جوڑوں میں سے دو دو (نر و مادہ) کو اس (کشتی) میں سوار کر لو۔ اور اپنے گھر والوں کو بھی بجز ان کے جن کی (ہلاکت کی) بات پہلے طئے ہو چکی ہے نیز ان کو بھی (سوار کر لو) جو ایمان لا چکے ہیں اور بہت ہی تھوڑے لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے۔
۞ وَقَالَ ٱرْكَبُوا۟ فِيهَا بِسْمِ ٱللَّهِ مَجْر۪ىٰهَا وَمُرْسَىٰهَآ ۚ إِنَّ رَبِّى لَغَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿٤١﴾
اور کہا اس میں سوار ہو جاؤ اس کا چلنا اور ٹھیرنا الله کے نا م سے ہےبے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے
نوحؑ نے کہا \"سوار ہو جاؤ اِس میں، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھیرنا بھی، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے\"
اور بولا اس میں سوار ہو اللہ کے نام پر اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا بیشک میرا رب ضرور بخشنے والا مہربان ہے،
(نوح نے) کہا کہ خدا کا نام لے کر (کہ اسی کے ہاتھ میں اس کا) چلنا اور ٹھہرنا (ہے) اس میں سوار ہوجاؤ۔ بےشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے
اور نوح (علیہ السلام) نے کہا: تم لوگ اس میں سوار ہو جاؤ اﷲ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے۔ بیشک میرا رب بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
نوح نے کہا کہ اب تم سب کشتی میں سوار ہوجاؤ خدا کے نام کے سہارے اس کا بہاؤ بھی ہے اور ٹھہراؤ بھی اور بیشک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا مہربان ہے
نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا، اس کشتی میں بیٹھ جاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، یقیناً میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم واﻻ ہے
نوح(ع) نے کہا (کشتی میں) سوار ہو جاؤ اللہ کے نام کے سہارے اس کا چلنا بھی ہے اور اس کا ٹھہرنا بھی بے شک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
وَهِىَ تَجْرِى بِهِمْ فِى مَوْجٍۢ كَٱلْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ٱبْنَهُۥ وَكَانَ فِى مَعْزِلٍۢ يَٰبُنَىَّ ٱرْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿٤٢﴾
اور وہ انہیں پہاڑ جیسی لہروں میں لیے جارہی تھی اورنوح نے اپنے بیٹے کو پکارا جب کہ وہ کنارے پر تھا اے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ رہ
کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اٹھ رہی تھی نوحؑ کا بیٹا دور فاصلے پر تھا نوحؑ نے پکار کر کہا \"بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جا، کافروں کے ساتھ نہ رہ\"
اور وہی انہیں لیے جارہی ہے ایسی موجوں میں جیسے پہاڑ اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ اس سے کنارے تھا اے میرے بچے ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو
اور وہ ان کو لے کر (طوفان کی) لہروں میں چلنے لگی۔ (لہریں کیا تھیں) گویا پہاڑ (تھے) اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو کہ جو (کشتی سے) الگ تھا، پکارا کہ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں میں شامل نہ ہو
اور وہ کشتی پہاڑوں جیسی (طوفانی) لہروں میں انہیں لئے چلتی جا رہی تھی کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ ان سے الگ (کافروں کے ساتھ کھڑا) تھا: اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ رہ،
اور وہ کشتی انہیں لے کر پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان چلی جارہی تھی کہ نوح نے اپنے فرزند کو آواز دی جو الگ جگہ پر تھا کہ فرزند ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا اور کافروں میں نہ ہوجا
وه کشتی انہیں پہاڑوں جیسی موجوں میں لے کر جا رہی تھی اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے لڑکے کو جو ایک کنارے پر تھا، پکار کر کہا کہ اے میرے پیارے بچے ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں شامل نہ ره
اور وہ (کشتی) انہیں ایسی موجوں (لہروں) میں سے لئے جا رہی تھی جو پہاڑوں جیسی تھیں اور نوح(ع) نے اپنے بیٹے کو آواز دی جوکہ الگ ایک گوشہ میں (کھڑا) تھا۔ اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ (کشتی میں) سوار ہو جا۔ اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔
قَالَ سَـَٔاوِىٓ إِلَىٰ جَبَلٍۢ يَعْصِمُنِى مِنَ ٱلْمَآءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ ٱلْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ ٱللَّهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا ٱلْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ ٱلْمُغْرَقِينَ ﴿٤٣﴾
کہا میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا کہا آج الله کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر وہی رحم کرے اور دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی پھر ڈوبنے والوں میں ہوگیا
اُس نے پلٹ کر جواب دیا \"میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا\" نوحؑ نے کہا، آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اِس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے\" اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا
بولا اب میں کسی پہاڑ کی پناہ لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچالے گا، کہا آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر وہ رحم کرے اور ان کے بیچ میں موج آڑے آئی تو وہ ڈوبتوں میں رہ گیا
اس نے کہا کہ میں (ابھی) پہاڑ سے جا لگوں گا، وہ مجھے پانی سے بچالے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں (اور نہ کوئی بچ سکتا ہے) مگر جس پر خدا رحم کرے۔ اتنے میں دونوں کے درمیان لہر آحائل ہوئی اور وہ ڈوب کر رہ گیا
وہ بولا: میں (کشتی میں سوار ہونے کے بجائے) ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح (علیہ السلام) نے کہا: آج اﷲ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے مگر اس شخص کو جس پر وہی (اﷲ) رحم فرما دے، اسی اثنا میں دونوں (یعنی باپ بیٹے) کے درمیان (طوفانی) موج حائل ہوگئی سو وہ ڈوبنے والوں میں ہوگیا،
اس نے کہا کہ میں عنقریب پہاڑ پر پناہ لے لوں گا وہ مجھے پانی سے بچالے گا -نوح نے کہا کہ آج حکم خدا سے کوئی بچانے والا نہیں ہے سوائے اس کے جس پر خود خدا رحم کرے اور پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا
اس نے جواب دیا کہ میں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناه میں آجاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا، نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا آج اللہ کے امر سے بچانے واﻻ کوئی نہیں، صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا۔ اسی وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وه ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا
اس نے کہا میں ابھی کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچائے گا نوح(ع) نے کہا (بیٹا) آج اللہ کے امر (عذاب) سے کوئی بچانے والا نہیں ہے۔ سوائے اس کے جس پر وہ (اللہ) رحم فرمائے۔ اور پھر (اچانک) ان کے درمیان موج حائل ہوگئی پس وہ ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا۔
وَقِيلَ يَٰٓأَرْضُ ٱبْلَعِى مَآءَكِ وَيَٰسَمَآءُ أَقْلِعِى وَغِيضَ ٱلْمَآءُ وَقُضِىَ ٱلْأَمْرُ وَٱسْتَوَتْ عَلَى ٱلْجُودِىِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًۭا لِّلْقَوْمِ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿٤٤﴾
اور حکم آیا اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان تھم جا اور پانی سکھا دیا گیا اور کام ہو چکا اور کشتی جودی پہاڑ پر ٹھری اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں پر پھٹکار ہے
حکم ہوا \"اے زمین، اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان، رک جا\" چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکا دیا گیا، کشتی جودی پر ٹک گئی، اور کہہ دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قو م!
اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان! تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی کوہ ِ جودی پر ٹھہری اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ،
اور حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان تھم جا۔ تو پانی خشک ہوگیا اور کام تمام کردیا گیا اور کشی کوہ جودی پر جا ٹھہری۔ اور کہہ دیا گیا کہ بےانصاف لوگوں پر لعنت
اور (جب سفینۂ نوح کے سوا سب ڈوب کر ہلاک ہو چکے تو) حکم دیا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان! تو تھم جا، اور پانی خشک کر دیا گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھہری، اور فرما دیا گیا کہ ظالموں کے لئے (رحمت سے) دوری ہے،
اور قدرت کا حکم ہوا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان اپنے پانی کو روک لے .اور پھر پانی گھٹ گیا اور کام تمام کردیا گیا اور کشتی کوئہ جودی پر ٹھہر گئی اور آواز آئی کہ ہلاکت قوم هظالمین کے لئے ہے
فرما دیا گیا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان بس کر تھم جا، اسی وقت پانی سکھا دیا گیا اور کام پورا کر دیا گیا اور کشتی جودی نامی پہاڑ پر جا لگی اور فرما دیا گیا کہ ﻇالم لوگوں پر لعنت نازل ہو
اور ارشاد ہوا اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا۔ اور پانی اتر گیا اور معاملہ طئے کر دیا گیا اور کشی کوہِ جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا ہلاکت ہو ظلم کرنے والوں کے لئے۔
وَنَادَىٰ نُوحٌۭ رَّبَّهُۥ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ٱبْنِى مِنْ أَهْلِى وَإِنَّ وَعْدَكَ ٱلْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ ٱلْحَٰكِمِينَ ﴿٤٥﴾
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اے رب میرا بیٹا میرے گھر والو ں میں سے ہے اوربے شک تیار وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے
نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا کہا \"اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے\"
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا عرض کی اے میرے رب میرا بیٹا بھی تو میرا گھر والا ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حکم والا
اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ پروردگار میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے (تو اس کو بھی نجات دے) تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر حاکم ہے
اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا: اے میرے رب! بیشک میرا لڑکا (بھی) تو میرے گھر والوں میں داخل تھا اور یقینًا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے،
اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار میرا فرزند میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ اہل کو بچانے کا برحق ہے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے، یقیناً تیرا وعده بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے
اور نوح(ع) نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا اے میرے پروردگار میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
قَالَ يَٰنُوحُ إِنَّهُۥ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُۥ عَمَلٌ غَيْرُ صَٰلِحٍۢ ۖ فَلَا تَسْـَٔلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ ۖ إِنِّىٓ أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ ٱلْجَٰهِلِينَ ﴿٤٦﴾
فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والو ں میں سے نہیں ہے کیوں کہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں سو مجھ سے مت پوچھ جس کا تجھے علم نہیں میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جاؤ
جواب میں ارشاد ہوا \"اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے\"
فرمایا اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں نہیں بیشک اس کے کام بڑے نالائق ہیں، تو مجھ سے وہ بات نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں میں تجھے نصیحت فرماتا ہوں کہ نادان نہ بن،
خدا نے فرمایا کہ نوح وہ تیرے گھر والوں میں نہیں ہے وہ تو ناشائستہ افعال ہے تو جس چیز کی تم کو حقیقت معلوم نہیں ہے اس کے بارے میں مجھ سے سوال ہی نہ کرو۔ اور میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ نادان نہ بنو
ارشاد ہو: اے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے، پس مجھ سے وہ سوال نہ کیا کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو، میں تمہیں نصیحت کئے دیتا ہوں کہ کہیں تم نادانوں میں سے (نہ) ہو جانا،
ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہیں ہے یہ عمل هغیر صالح ہے لہذا مجھ سے اس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے -میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تمہارا شمار جاہلوں میں نہ ہوجائے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح یقیناً وه تیرے گھرانے سے نہیں ہے، اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں تجھے ہرگز وه چیز نہ مانگنی چاہئے جس کا تجھے مطلقاً علم نہ ہو میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے
ارشاد ہوا۔ اے نوح وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے وہ تو مجسم عملِ بد ہے پس جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے بارے میں مجھ سے سوال نہ کر میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے نہ ہو جانا۔
قَالَ رَبِّ إِنِّىٓ أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْـَٔلَكَ مَا لَيْسَ لِى بِهِۦ عِلْمٌۭ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِى وَتَرْحَمْنِىٓ أَكُن مِّنَ ٱلْخَٰسِرِينَ ﴿٤٧﴾
کہا اے رب میں تیری پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وہ بات پوچھوں جو مجھے معلوم نہیں اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اورمجھ پر رحم نہ کیا تو میں نقصان والوں میں ہو جاؤں گا
نوحؑ نے فوراً عرض کیا \"اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھ معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا\"
عرض کی اے رب میرے میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں، اور اگر تو مجھے نہ بخشے اور رحم نہ کرے تو میں زیاں کار ہوجاؤں،
نوح نے کہا پروردگار میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کروں جس کی حقیقت مجھے معلوم نہیں۔ اور اگر تو مجھے نہیں بخشے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں تباہ ہوجاؤں گا
(نوح علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ سوال کروں جس کا مجھے کچھ علم نہ ہو، اور اگر تو مجھے نہ بخشے گا اور مجھ پر رحم (نہ) فرمائے گا (تو) میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا،
نوح نے کہا کہ خدایا میں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ اس چیز کا سوال کروں جس کا علم نہ ہو اور اگر تو مجھے معاف نہ کرے گا اور مجھ پر رحم نہ کرے گا تو میں خسارہ والوں میں ہوجاؤں گا
نوح نے کہا میرے پالنہار میں تیری ہی پناه چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وه مانگوں جس کا مجھے علم ہی نہ ہو اگر تو مجھے نہ بخشے گا اور تو مجھ پر رحم نہ فرمائے گا، تو میں خساره پانے والوں میں ہو جاؤں گا
عرض کیا اے میرے پروردگار! میں اس بات سے تیری بارگاہ میں پناہ مانگتا ہوں کہ میں تجھ سے ایسی چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے۔ اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔
قِيلَ يَٰنُوحُ ٱهْبِطْ بِسَلَٰمٍۢ مِّنَّا وَبَرَكَٰتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰٓ أُمَمٍۢ مِّمَّن مَّعَكَ ۚ وَأُمَمٌۭ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ﴿٤٨﴾
کہا گیا اے نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تم پر اور تمہارے ساتھ والوں پر رہیں گی کشتی سے اتر اور دوسرے فرقے ہیں کہ ہم انھیں دنیا میں فائدہ دیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا
حکم ہوا \"اے نوحؑ اتر جا، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامان زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچے گا\"
فرمایا گیا اے نوح! کشتی سے اتر ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کےساتھ جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کے کچھ گروہوں پر اور کچھ گروہ ہیں جنہیں ہم دنیا برتنے دیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا
حکم ہوا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (جو) تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر (نازل کی گئی ہیں) اتر آؤ۔ اور کچھ اور جماعتیں ہوں گی جن کو ہم (دنیا کے فوائد سے) محظوظ کریں گے پھر ان کو ہماری طرف سے عذاب الیم پہنچے گا
فرمایا گیا: اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ جو تم پر ہیں اور ان طبقات پر ہیں جو تمہارے ساتھ ہیں، اور (آئندہ پھر) کچھ طبقے ایسے ہوں گے جنہیں ہم (دنیوی نعمتوں سے) بہرہ یاب فرمائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب آپہنچے گا،
ارشاد ہوا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ کشتی سے اترو یہ سلامتی اور برکت تمہارے ساتھ کی قوم پر ہے اور کچھ قومیں ہیں جنہیں ہم پہلے راحت دیں گے اس کے بعد ہماری طرف سے دردناک عذاب ملے گا
فرما دیا گیا کہ اے نوح! ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر، جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کی بہت سی جماعتوں پر اور بہت سی وه امتیں ہوں گی جنہیں ہم فائده تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا
ارشاد ہوا۔ اے نوح(ع) اترو۔ ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہوں تم پر اور ان گروہوں پر جو تمہارے ساتھ ہیں (یا بالفاظ مناسب تمہارے ساتھ والوں سے پیدا ہونے والی نسلوں پر) اور تمہارے بعد کچھ ایسے گروہ بھی ہوں گے جنہیں ہم کچھ مدت کیلئے (دنیاوی) فائدہ اٹھانے کا موقع دیں گے پھر (انجامِ کار) انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔
تِلْكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْغَيْبِ نُوحِيهَآ إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَآ أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَٱصْبِرْ ۖ إِنَّ ٱلْعَٰقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٤٩﴾
یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ تو آپ ہی جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم جانتی تھی پس صبر کر کیوں کہ بہتر انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے
اے محمدؐ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم، پس صبر کرو، ا نجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے
یہ غیب کی خبریں ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں انہیں نہ تم جانتے تھے نہ تمہاری قوم اس سے پہلے، تو صبر کرو بیشک بھلا انجام پرہیزگاروں کا
یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ تم ہی ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم (ہی ان سے واقف تھی) تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ہی کا (بھلا) ہے
یہ (بیان ان) غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، پس آپ صبر کریں۔ بیشک بہتر انجام پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے،
پیغمبر علیھ السّلامیہ غیب کی خبریں ہیں جن کی ہم آپ کی طرف وحی کررہے ہیں جن کا علم نہ آپ کو تھا اور نہ آپ کی قوم کو لہذا آپ صبر کریں کہ انجام صاحبان هتقویٰ کے ہاتھ میں ہے
یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انہیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، اس لئے آپ صبر کرتے رہیئے (یقین مانیئے) کہ انجام کار پرہیزگاروں کے لئے ہی ہے
(اے رسول) یہ (قصہ) ان غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم وحی کے ذریعہ سے آپ تک پہنچا رہے ہیں اس سے پہلے نہ آپ کو ان کا (تفصیلی) علم تھا اور نہ آپ کی قوم کو۔ آپ صبر کریں۔ بے شک (اچھا) انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔
وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًۭا ۚ قَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥٓ ۖ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُفْتَرُونَ ﴿٥٠﴾
اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا اے قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی حاکم نہیں تم سب جھوٹ کہتے ہو
اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا اُس نے کہا \"اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی خدا اُس کے سوا نہیں ہے تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں
اور عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو کہا اے میری قوم! اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تم تو بڑے مفتری (بالکل جھوٹے الزام عائد کرنے والے) ہو
اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (کو بھیجا) انہوں نے کہا کہ میری قوم! خدا ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تم (شرک کرکے خدا پر) محض بہتان باندھتے ہو
اور (ہم نے) قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم اﷲ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارے لئے کوئی معبود نہیں، تم اﷲ پر (شریک رکھنے کا) محض بہتان باندھنے والے ہو،
اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا تو انہوں نے کہا قوم والو اللہ کی عبادت کرو-اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے.تم صرف افترا کرنے والے ہو
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو ہم نے بھیجا، اس نے کہا میری قوم والو! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تم تو صرف بہتان باندھ رہے ہو
اور ہم نے قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے تم محض افترا پردازی کر رہے ہو۔
يَٰقَوْمِ لَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَى ٱلَّذِى فَطَرَنِىٓ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٥١﴾
اے قوم میں اس پر تم سے مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری اسی پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا پھر کیا تم نہیں سمجھتے
اے برادران قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے؟
اے قوم! میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میری مزدوری تو اسی کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا تو کیا تمہیں عقل نہیں
میری قوم! میں اس (وعظ و نصیحت) کا تم سے کچھ صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اس کے ذمّے ہے جس نے مجھے پیدا کیا۔ بھلا تم سمجھتے کیوں نہیں؟
اے میری قوم! میں اس (دعوت و تبلیغ) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر فقط اس (کے ذمۂ کرم) پر ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے،
قوم والو میں تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا میرا اجر تو اس پروردگار کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے کیا تم عقل استعمال نہیں کرتے ہو
اے میری قوم! میں تم سے اس کی کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر اس کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے تو کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے
اے میری قوم! میں اس (تبلیغ) پر تم سے کوئی مالی معاوضہ نہیں مانگتا۔ میرا معاوضہ تو اس کے ذمے ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے تم کیوں عقل سے کام نہیں لیتے۔
وَيَٰقَوْمِ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا۟ مُجْرِمِينَ ﴿٥٢﴾
اور اے قوم اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو وہ تم پر خوب بارشیں برسائے گا اور تمہاری قوت کو اوربڑھائے گا اورتم نافرمان ہو کر نہ پھر جاؤ
اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو\"
اور اے میری قوم اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ تم پر زور کا پانی بھیجے گا، اور تم میں جتنی قوت ہے اس سے زیادہ دے گا اور جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو
اور اے قوم! اپنے پروردگار سے بخشش مانگو پھر اس کے آگے توبہ کرو۔ وہ تم پر آسمان سے موسلادھار مینہ برسائے گا اور تمہاری طاقت پر طاقت بڑھائے گا اور (دیکھو) گنہگار بن کر روگردانی نہ کرو
اور اے لوگو! تم اپنے رب سے (گناہوں کی) بخشش مانگو پھر اس کی جناب میں (صدقِ دل سے) رجوع کرو، وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت پر قوت بڑھائے گا اور تم مجرم بنتے ہوئے اس سے روگردانی نہ کرنا،
اے قوم خدا سے استغفار کرو اس کے بعد اس کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجاؤ وہ آسمان سے موسلادھار پانی برسائے گا اور تمہاری موجودہ قوت میں قوت کا اضافہ کردے گا اور خبردار مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرلینا
اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو، تاکہ وه برسنے والے بادل تم پر بھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت قوت بڑھا دے اور تم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو
اور اے میری قوم! اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو۔ اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو (اس کی طرف رجوع کرو) وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش برسائے گا۔ اور تمہاری (موجودہ) قوت میں مزید اضافہ کر دے گا۔ اور (میری دعوت سے) جرم کرتے ہوئے منہ نہ موڑو۔
قَالُوا۟ يَٰهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍۢ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِىٓ ءَالِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ ﴿٥٣﴾
کہا اے ہود تو ہمارے پاس کوئی معجزہ بھی نہ لایا اور ہم تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اورنہ ہم تجھے ماننے والے ہیں
انہوں نے جواب دیا \"اے ہودؑ، تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا ہے، اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے، اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں
بولے اے ہود تم کوئی دلیل لے کر ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے کے نہیں نہ تمہاری بات پر یقین لائیں،
وہ بولے ہود تم ہمارے پاس کوئی دلیل ظاہر نہیں لائے اور ہم (صرف) تمہارے کہنے سے نہ اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں اور نہ تم پر ایمان لانے والے ہیں
وہ بولے: اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لیکر نہیں آئے ہو اور نہ ہم تمہارے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے ہیں اور نہ ہی ہم تم پر ایمان لانے والے ہیں،
ان لوگوں نے کہا اے ہود تم کوئی معجزہ تو لائے نہیں اور ہم صرف تمہارے کہنے پر اپنے خداؤں کو چھوڑنے والے اور تمہاری بات پر ایمان لانے والے نہیں ہیں
انہوں نے کہا اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی دلیل تو ﻻیا نہیں اور ہم صرف تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تجھ پر ایمان ﻻنے والے ہیں
انہوں نے کہا اے ہود(ع) تم ہمارے پاس کوئی کھلی ہوئی دلیل لے کر نہیں آئے۔ اور ہم تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ اور نہ ہی ہم آپ کی بات تسلیم کرنے والے ہیں۔
إِن نَّقُولُ إِلَّا ٱعْتَرَىٰكَ بَعْضُ ءَالِهَتِنَا بِسُوٓءٍۢ ۗ قَالَ إِنِّىٓ أُشْهِدُ ٱللَّهَ وَٱشْهَدُوٓا۟ أَنِّى بَرِىٓءٌۭ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿٥٤﴾
ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تجھےہمارے کسی معبود نے بری طرح جھپٹ لیا ہے کہا بے شک میں الله کو گواہ کرتا ہوں اورتم بھی گواہ رہو کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم الله کے سوا شریک کرتے ہو
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اوپر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے\" ہودؑ نے کہا \"میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھیرا رکھا ہے اس سے میں بیزار ہوں
ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے کسی خدا کی تمہیں بری جھپٹ (پکڑ) پہنچی کہا میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم سب گواہ ہوجاؤ کہ میں بیزار ہوں ان سب سے جنہیں تم اللہ کے سوا اس کا شریک ٹھہراتے ہو،
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا کر (دیوانہ کر) دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں خدا کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جن کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں اس سے بیزار ہوں
ہم اس کے سوا (کچھ) نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے تمہیں (دماغی خلل کی) بیماری میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہود (علیہ السلام)نے کہا: بیشک میں اﷲ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان سے لاتعلق ہوں جنہیں تم شریک گردانتے ہو،
ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے خداؤں میں سے کسی نے آپ کو دیوانہ بنادیا ہے -ہود نے کہا کہ میں خدا کو گواہ بناکر کہتا ہوں اور تم بھی گواہ رہنا کہ میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں
بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تو ہمارے کسی معبود کے برے جھپٹے میں آگیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواه کرتا ہوں اور تم بھی گواه رہو کہ میں تو اللہ کے سوا ان سب سے بیزار ہوں، جنہیں تم شریک بنا رہے ہو
ہم تو بس یہی کہتے ہیں کہ ہمارے خداؤں میں سے کسی خدا نے آپ کو کچھ (دماغی) نقصان پہنچا دیا ہے۔ انہوں (ہود) نے ان لوگوں کو کہا کہ میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں۔ اور تم بھی گواہ رہو۔ کہ میں ان سے بیزار ہوں جن کو تم نے (حقیقی خدا کو چھوڑ کر) اس کا شریک بنا رکھا ہے۔
مِن دُونِهِۦ ۖ فَكِيدُونِى جَمِيعًۭا ثُمَّ لَا تُنظِرُونِ ﴿٥٥﴾
سوتم سب مل کر میرے حق میں برائی کرو پھر مجھے مہلت نہ دو
تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اٹھا رکھو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو
تم سب مل کر میرا برا چاہو پھر مجھے مہلت نہ دو
(یعنی جن کی) خدا کے سوا (عبادت کرتے ہو تو) تم سب مل کر میرے بارے میں جو تدبیر (کرنی چاہو) کرلو اور مجھے مہلت نہ دو
اس (اﷲ) کے سوا تم سب (بشمول تمہارے معبودانِ باطلہ) مل کر میرے خلاف (کوئی) تدبیر کرلو پھر مجھے مہلت بھی نہ دو،
لہذا تم سب مل کر میرے ساتھ مکاری کرو اور مجھے مہلت نہ دو
اچھا تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چل لو اور مجھے بالکل مہلت بھی نہ دو
تم سب مل کر میرے خلاف اپنی تدبیریں کرلو۔ اور مجھے (ذرا بھی) مہلت نہ دو۔
إِنِّى تَوَكَّلْتُ عَلَى ٱللَّهِ رَبِّى وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِن دَآبَّةٍ إِلَّا هُوَ ءَاخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَآ ۚ إِنَّ رَبِّى عَلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍۢ ﴿٥٦﴾
میں نے الله پر بھروسہ کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے کوئی بھی زمین پر ایسا چلنے والا نہیں کہ جس کی چوٹی اس نے نہ پکڑ رکھی ہو بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے
میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو بے شک میرا رب سیدھی ر اہ پر ہے
میں نے اللہ پر بھروسہ کیا جو میرا رب ہے اور تمہارا رب، کوئی چلنے والا نہیں جس کی چوٹی اس کے قبضہٴ قدرت میں نہ ہو بیشک میرا رب سیدھے راستہ پر ملتا ہے،
میں خدا پر جو میرا اور تمہارا (سب کا) پروردگار ہے، بھروسہ رکھتا ہوں (زمین پر) جو چلنے پھرنے والا ہے وہ اس کو چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے۔ بےشک میرا پروردگار سیدھے رستے پر ہے
بیشک میں نے اﷲ پر توکل کر لیا ہے جو میرا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے، کوئی چلنے والا (جاندار) ایسا نہیں مگر وہ اسے اس کی چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے (یعنی مکمل طور پر اس کے قبضۂ قدرت میں ہے)۔ بیشک میرا رب (حق و عدل میں) سیدھی راہ پر (چلنے سے ملتا) ہے،
میرا اعتماد پروردگار پر ہے جو میرا اور تمہارا سب کا خدا ہے اور کوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیںہے جس کی پیشانی اس کے قبضہ میں نہ ہو میرے پروردگار کا راستہ بالکل سیدھا ہے
میرا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی ہے، جو میرا اور تم سب کا پروردگار ہے جتنے بھی پاؤں دھرنے والے ہیں سب کی پیشانی وہی تھامے ہوئے ہے۔ یقیناً میرا رب بالکل صحیح راه پر ہے
میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی۔ کوئی بھی چلنے پھرنے والا ایسا جاندار نہیں جس کی چوٹی اس کے قبضۂ قدرت میں نہ ہو یقینا میرا پروردگار (عدل و انصاف کی) سیدھی راہ پر ہے۔
فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَقَدْ أَبْلَغْتُكُم مَّآ أُرْسِلْتُ بِهِۦٓ إِلَيْكُمْ ۚ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّى قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّونَهُۥ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ رَبِّى عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ حَفِيظٌۭ ﴿٥٧﴾
پھر اگر تم منہ پھیرو گے تو جو مجھے دے کر بھیجا گیا تھا وہ تمہیں پہنچا دیا اور میرا رب تمہاری جگہ اور قوم پیدا کر دے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑنہیں سکو گے بے شک میرا رب ہر چیزپر نگہبان ہے
اگر تم منہ پھیرتے ہو تو پھیر لو جو پیغام دے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں اب میرا رب تمہاری جگہ دوسری قوم کو اٹھائے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے یقیناً میرا رب ہر چیز پر نگراں ہے\"
پھر اگر تم منہ پھیرو تو میں تمہیں پہنچا چکا جو تمہاری طرف لے کر بھیجا گیا اور میرا رب تمہاری جگہ اوروں کو لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے بیشک میرا رب ہر شے پر نگہبان ہے
اگر تم روگردانی کرو گے تو جو پیغام میرے ہاتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، وہ میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے۔ اور میرا پروردگار تمہاری جگہ اور لوگوں کو لابسائے گا۔ اور تم خدا کا کچھ بھی نقصان نہیں کرسکتے۔ میرا پروردگار تو ہر چیز پر نگہبان ہے
پھر بھی اگر تم روگردانی کرو تو میں نے واقعۃً وہ (تمام احکام) تمہیں پہنچا دیئے ہیں جنہیں لے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا ہوں، اور میرا رب تمہاری جگہ کسی اور قوم کو قائم مقام بنا دے گا، اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے۔ بیشک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے،
اس کے بعد بھی انحراف کرو تو میں نے خدائی پیغام کو پہنچادیا ہے اب خدا تمہاری جگہ پر دوسری قوموں کو لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہو بیشک میرا پروردگار ہر شے کا نگراں ہے
پس اگر تم روگردانی کرو تو کرو میں تو تمہیں وه پیغام پہنچا چکا جو دے کر مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا تھا۔ میرا رب تمہارے قائم مقام اور لوگوں کو کر دے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے، یقیناً میرا پروردگار ہر چیز پر نگہبان ہے
اس پر بھی اگر تم روگردانی کرو تو جو (پیغام) دے کر مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا تھا وہ میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے (اور حجت تمام کر دی ہے) اب اگر تم نے یہ پیغام قبول نہ کیا تو میرا پروردگار تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لائے گا۔ اور تم اس کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے بے شک میرا پروردگار ہر چیز پر نگہبان و نگران ہے۔
وَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُودًۭا وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ بِرَحْمَةٍۢ مِّنَّا وَنَجَّيْنَٰهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍۢ ﴿٥٨﴾
اور جب ہمارا حکم پہنچا تو ہم نے ہود کو اورانہیں جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچا لیا اور ہم نے انہیں سخت عذاب سے نجات دی
پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہودؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے بچا لیا
اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے ہود اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرما کر بچالیا اور انہیں سخت عذاب سے نجات دی،
اور جب ہمارا حکم عذاب آپہنچا تو ہم نے ہود کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ان کو اپنی مہربانی سے بچا لیا۔ اور ان کو عذاب شدید سے نجات دی
اور جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا (تو) ہم نے ہود (علیہ السلام) کو اور ان کے ساتھ ایمان والوں کو اپنی رحمت کے باعث بچا لیا، اور ہم نے انہیں سخت عذاب سے نجات بخشی،
اور جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے ہود اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے بچالیااور انہیں سخت عذاب سے نجات دے دی
اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے ہود کو اور اس کے مسلمان ساتھیوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات عطا فرمائی اور ہم نے ان سب کو سخت عذاب سے بچا لیا
اور جب ہمارا حکم (عذاب) آگیا تو ہم نے اپنی خاص رحمت سے ہود(ع) کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور انہیں ایک سخت عذاب سے بچا لیا۔
وَتِلْكَ عَادٌۭ ۖ جَحَدُوا۟ بِـَٔايَٰتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا۟ رُسُلَهُۥ وَٱتَّبَعُوٓا۟ أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍۢ ﴿٥٩﴾
اور یہ عاد تھے کہ اپنے رب کی باتوں سے منکر ہوئے اوراس کے رسولوں کو نہ مانا اور ہر ایک جبار سرکش کا حکم مانتے تھے
یہ ہیں عاد، اپنے رب کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسولوں کی بات نہ مانی، اور ہر جبار دشمن حق کی پیروی کرتے رہے
اور یہ عاد ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے،
یہ (وہی) عاد ہیں جنہوں نے خدا کی نشانیوں سے انکار کیا اور اس کے پیغمبروں کی نافرمانی کی اور ہر متکبر وسرکش کا کہا مانا
اور یہ (قومِ) عاد ہے جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر جابر (و متکبر) دشمنِ حق کے حکم کی پیروی کی،
یہ قوم عاد ہے جس نے پروردگار کی آیتوں کا انکار کیا اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر ظالم و سرکش کا اتباع کرلیا
یہ تھی قوم عاد، جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر ایک سرکش نافرمان کے حکم کی تابعداری کی
اور یہ ہے قومِ عاد جس نے جان بوجھ کر اپنے پروردگار کی آیتوں (نشانیوں) کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر سرکش اور دشمن (حق) کی اطاعت کی۔
وَأُتْبِعُوا۟ فِى هَٰذِهِ ٱلدُّنْيَا لَعْنَةًۭ وَيَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۗ أَلَآ إِنَّ عَادًۭا كَفَرُوا۟ رَبَّهُمْ ۗ أَلَا بُعْدًۭا لِّعَادٍۢ قَوْمِ هُودٍۢ ﴿٦٠﴾
اور اس دنیا میں بھی اپنے پیچھے لعنت چھوڑ گئے اور قیامت کے دن بھی خبردار بےشک عاد نے اپنے رب کا انکار کیا تھا خبردار عاد جو ہود کی قوم تھی الله کی رحمت سے دور کی گئی
آخر کار اس دنیا میں بھی ان پر پھٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی سنو! عاد نے اپنے رب سے کفر کیا، سنو! دور پھینک دیے گئے عاد، ہودؑ کی قوم کے لوگ
اور ان کے پیچھے لگی اس دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن، سن لو! بیشک عاد اپنے رب سے منکر ہوئے، ارے دور ہوں عاد ہود کی قوم،
تو اس دنیا میں بھی لعنت ان کے پیچھے لگی رہے گی اور قیامت کے دن بھی (لگی رہے گی) دیکھو عاد نے اپنے پروردگار سے کفر کیا۔ (اور) سن رکھو ہود کی قوم عاد پر پھٹکار ہے
اور اس دنیا میں (بھی) ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن (بھی لگے گی)۔ یاد رکھو کہ (قومِ) عاد نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا تھا۔ خبردار! ہود (علیہ السلام) کی قومِ عاد کے لئے (رحمت سے) دوری ہے،
اور اس دنیا میں بھی اور قیامت میں بھی ان کے پیچھے لعنت لگادی گئی ہے -آگاہ ہوجاؤ کہ عاد نے اپنے پررودگار کا کفر کیا تو اب ہود کی قوم عاد کے لئے ہلاکت ہی ہلاکت ہے
دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی، دیکھ لو قوم عاد نے اپنے رب سے کفر کیا، ہود کی قوم عاد پر دوری ہو
(اس کی پاداش میں) اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور آخرت میں بھی آگاہ ہو جاؤ کہ قومِ عاد نے اپنے پروردگار کا انکار کیا۔ سو ہلاکت و بربادی ہے ہود کی قومِ عاد کے لئے۔
۞ وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَٰلِحًۭا ۚ قَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَٱسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَٱسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّى قَرِيبٌۭ مُّجِيبٌۭ ﴿٦١﴾
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اورتمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا اُس نے کہا \"اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُ س کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے لہٰذا تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے\"
اور ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صا لح کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اس نے تمہیں زمین میں پیدا کیا اور اس میں تمہیں بسایا تو اس سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ، بیشک میرا رب قریب ہے دعا سننے والا،
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (بھیجا) تو انہوں نے کہا کہ قوم! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اسی نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور اس میں آباد کیا تو اس سے مغفرت مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو۔ بےشک میرا پروردگار نزدیک (بھی ہے اور دعا کا) قبول کرنے والا (بھی) ہے
اور (ہم نے قومِ) ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو (بھیجا)۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے پیدا فرمایا اور اس میں تمہیں آباد فرمایا سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہے،
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا اور انہوں نے کہا کہ اے قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اس نے تمہیںزمین سے پیدا کیا ہے اور اس میں آباد کیا ہے اب اس سے استغفار کرو اور اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ کہ میرا پروردگار قریب تر اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے
اور قوم ﺛمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، اس نے کہا کہ اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے، پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کا قبول کرنے واﻻ ہے
اور ہم نے قومِ ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح(ع) کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اسی نے تمہیں اس میں آباد کیا لہٰذا اس سے مغفرت طلب کرو۔ اور اس کی جناب میں توبہ کرو بے شک میرا پروردگار قریب بھی ہے اور مجیب (دعاؤں کا قبول کرنے والا) بھی۔
قَالُوا۟ يَٰصَٰلِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّۭا قَبْلَ هَٰذَآ ۖ أَتَنْهَىٰنَآ أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِى شَكٍّۢ مِّمَّا تَدْعُونَآ إِلَيْهِ مُرِيبٍۢ ﴿٦٢﴾
انہوں نے کہا اے صالح اس سے پہلے تو ہمیں تجھ سے بڑی امید تھی تم ہمیں ان معبودوں کے پوجنے سےمنع کرتے ہو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں اورجس طرف تم ہمیں بلاتے ہو اس سے تو ہم بڑے شک میں ہیں
انہوں نے کہا \"اے صالحؑ، اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں کیا تو ہمیں ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ تو جس طریقے کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اس کے بارے میں ہم کو سخت شبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے\"
بولے اے صا لح! اس سے پہلے تو تم ہم میں ہونہار معلوم ہوتے تھے کیا تم ہمیں اس سے منع کرتے ہو کہ اپنے باپ دادا کے معبودوں کو پوجیں اور بیشک جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے ایک بڑے دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں،
انہوں نے کہا کہ صالح اس سے پہلے ہم تم سے (کئی طرح کی) امیدیں رکھتے تھے (اب وہ منقطع ہوگئیں) کیا تم ہم کو ان چیزوں کے پوجنے سے منع کرتے ہو جن کو ہمارے بزرگ پوجتے آئے ہیں؟ اور جس بات کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو، اس میں ہمیں قوی شبہ ہے
وہ بولے: اے صالح! اس سے قبل ہماری قوم میں تم ہی امیدوں کا مرکز تھے، کیا تم ہمیں ان (بتوں) کی پرستش کرنے سے روک رہے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ہیں؟ اور جس (توحید) کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو یقینًا ہم اس کے بارے میں بڑے اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیں،
ان لوگوں نے کہا کہ اے صالح اس سے پہلے تم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کیا تم اس بات سے روکتے ہو کہ ہم اپنے بزرگوں کے معبودوں کی پرستش کریں -ہم یقینا تمہاری دعوت کی طرف سے شک اور شبہ میں ہیں
انہوں نے کہا اے صالح! اس سے پہلے تو ہم تجھ سے بہت کچھ امیدیں لگائے ہوئے تھے، کیا تو ہمیں ان کی عبادتوں سے روک رہا ہے جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے، ہمیں تو اس دین میں حیران کن شک ہے جس کی طرف تو ہمیں بلا رہا ہے
انہوں نے کہا اے صالح! اس سے پہلے تو تو ہمارے اندر ایک ایسا شخص تھا جس سے (بڑی) امیدیں وابستہ تھیں کیا تم ہمیں اس سے روکتے ہو کہ ہم ان (معبودوں) کی پرستش نہ کریں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کیا کرتے تھے؟ اور ہمیں تو اس بات میں بڑا ہی شک ہے جس کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو۔
قَالَ يَٰقَوْمِ أَرَءَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍۢ مِّن رَّبِّى وَءَاتَىٰنِى مِنْهُ رَحْمَةًۭ فَمَن يَنصُرُنِى مِنَ ٱللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُۥ ۖ فَمَا تَزِيدُونَنِى غَيْرَ تَخْسِيرٍۢ ﴿٦٣﴾
صالح نے کہا اےمیری قوم بھلا دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کوئی کھلی دلیل رکھتا ہوں اور اس کی طرف سے میرے پاس رحمت بھی آ چکی ہو پھر اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو مجھے اس سے کون بچا سکتا ہے پھر تم مجھے نقصان کے سوا اور کیا دے سکو گے
صالحؑ نے کہا \"اے برادران قوم، تم نے کچھ اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا، اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اِس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا اگر میں اُس کی نافرمانی کروں؟ تم میرے کس کام آ سکتے ہو سوائے اس کے کہ مجھے اور زیادہ خسارے میں ڈال دو
بولا اے میری قوم! بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت بخشی تو مجھے اس سے کون بچائے گا اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو تم مجھے سوا نقصان کے کچھ نہ بڑھاؤ گے
صالح نے کہا اے قوم! بھلا دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے (نبوت کی) نعمت بخشی ہو تو اگر میں خدا کی نافرمانی کروں تو اس کے سامنے میری کون مدد کرے گا؟ تم تو (کفر کی باتوں سے) میرا نقصان کرتے ہو
صالح (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! ذرا سوچو تو سہی اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر (قائم) ہوں اور مجھے اس کی جانب سے (خاص) رحمت نصیب ہوئی ہے، (اس کے بعد اس کے احکام تم تک نہ پہنچا کر) اگر میں اس کی نافرمانی کر بیٹھوں تو کون شخص ہے جو اﷲ (کے عذاب) سے بچانے میں میری مدد کرسکتا ہے؟ پس سوائے نقصان پہنچانے کے تم میرا (اور) کچھ نہیں بڑھا سکتے،
انہوں نے کہا اے قوم تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل رکھتا ہوں اور اس نے مجھے رحمت عطا کی ہے تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں گا تو اس کے مقابلہ میں کون میری مدد کرسکے گا تم تو گھاٹے میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے ہو
اس نے جواب دیا کہ اے میری قوم کے لوگو! ذرا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کسی مضبوط دلیل پر ہوا اور اس نے مجھے اپنے پاس کی رحمت عطا کی ہو، پھر اگر میں نے اس کی نافرمانی کر لی تو کون ہے جو اس کے مقابلے میں میری مدد کرے؟ تم تو میرا نقصان ہی بڑھا رہے ہو
صالح(ع) نے کہا اے میری قوم! کیا تم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی خاص رحمت بھی عطا فرمائی ہے تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو اس کے مقابلہ میں کون میری مدد کرے گا؟ تم تو میرے خسارے میں اضافہ کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے۔
وَيَٰقَوْمِ هَٰذِهِۦ نَاقَةُ ٱللَّهِ لَكُمْ ءَايَةًۭ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِىٓ أَرْضِ ٱللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوٓءٍۢ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌۭ قَرِيبٌۭ ﴿٦٤﴾
اور اےمیری قوم یہ الله کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے سواسے چھوڑ دو الله کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے برائی سے چھونا بھی نہیں (ورنہ) پھر تمہیں عذاب بہت جلد آ پکڑے گا
اور اے میری قوم کے لوگو، دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے اِسے خدا کی زمین میں چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دو اِس سے ذرا تعرض نہ کرنا ورنہ کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا\"
اور اے میری قوم! یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لیے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے بری طرح ہاتھ نہ لگانا کہ تم کو نزدیک عذاب پہنچے گا
اور یہ بھی کہا کہ اے قوم! یہ خدا کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی (یعنی معجزہ) ہے تو اس کو چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں (جہاں چاہے) چرے اور اس کو کسی طرح کی تکلیف نہ دینا ورنہ تمہیں جلد عذاب آپکڑے گا
اور اے میری قوم! یہ اﷲ کی (خاص طریقہ سے پیدا کردہ) اونٹنی ہے (جو) تمہارے لئے نشانی ہے سو اسے چھوڑے رکھو (یہ) اﷲ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تمہیں قریب (واقع ہونے والا) عذاب آپکڑے گا،
اے قوم یہ ناقہ اللہ کی طرف سے ایک نشانی ہے اسے آزاد چھوڑ دو تاکہ زمین هخدا میں چین سے کھائے اور اسے کسی طرح کی تکلیف نہ دینا کہ تمہیں جلدی ہی کوئی عذاب اپنی گرفت میں لے لے
اور اے میری قوم والو! یہ اللہ کی بھیجی ہوئی اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ایک معجزه ہے اب تم اسے اللہ کی زمین میں کھاتی ہوئی چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کی ایذا نہ پہنچاؤ ورنہ فوری عذاب تمہیں پکڑ لے گا
اور اے میری قوم! یہ اللہ کی خاص اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ایک خاص نشانی (معجزہ) ہے پس اسے آزاد چھوڑ دو۔ تاکہ اللہ کی زمین سے کھائے اور خبردار اسے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچانا۔ ورنہ بہت جلد عذاب تمہیں آپکڑے گا۔
فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوا۟ فِى دَارِكُمْ ثَلَٰثَةَ أَيَّامٍۢ ۖ ذَٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍۢ ﴿٦٥﴾
پھر انہوں نے اس کے پاؤں کاٹ ڈالے تب صالح نے کہا تین دن تک اپنے گھروں میں فائدہ اٹھا لو یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا
مگر انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا اس پر صالحؑ نے اُن کو خبردار کر دیا کہ \"بس اب تین دن اپنے گھروں میں اور رہ بس لو یہ ایسی میعاد ہے جو جھوٹی نہ ثابت ہوگی\"
تو انہوں نے اس کی کونچیں کاٹیں تو صا لح نے کہا اپنے گھرو ں میں تین دن اور برت لو (فائدہ اٹھالو) یہ وعدہ ہے کہ جھوٹا نہ ہوگا
مگر انہوں نے اس کی کانچیں کاٹ ڈالیں۔ تو (صالح نے) کہا کہ اپنے گھروں میں تم تین دن (اور) فائدہ اٹھا لو۔ یہ وعدہ ہے کہ جھوٹا نہ ہوگا
پھر انہوں نے اسے (کونچیں کاٹ کر) ذبح کر ڈالا، صالح (علیہ السلام) نے کہا: (اب) تم اپنے گھروں میں (صرف) تین دن (تک) عیش کرلو، یہ وعدہ ہے جو (کبھی) جھوٹا نہ ہوگا،
اس کے بعد بھی ان لوگوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں تو صالح نے کہا کہ اب اپنے گھروں میں تین دن تک اور آرام کرو کہ یہ وعدہ الٰہی ہے جو غلط نہیں ہوسکتا ہے
پھر بھی ان لوگوں نے اس اونٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے، اس پر صالح نے کہا کہ اچھا تم اپنے گھروں میں تین تین دن تک تو ره سہ لو، یہ وعده جھوٹا نہیں ہے
پس ان لوگوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں (اسے مار ڈالا) تب صالح(ع) نے کہا کہ اب تین دن تک اپنے گھروں میں فائدہ اٹھا لو (کھا پی لو) یہ وہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہے۔
فَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَٰلِحًۭا وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ بِرَحْمَةٍۢ مِّنَّا وَمِنْ خِزْىِ يَوْمِئِذٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ ٱلْقَوِىُّ ٱلْعَزِيزُ ﴿٦٦﴾
پھر جب ہمارا حکم آ پہنچا تو ہم نے صالح کو اورجو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے نجات دی بے شک تیرا رب وہی زور والا زبردست ہے
آخر کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالحؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بچا لیا اور اُس دن کی رسوائی سے ان کو محفوظ رکھا بے شک تیرا رب ہی دراصل طاقتور اور بالا دست ہے
پھر جب ہمارا حکم آیا ہم نے صا لح اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرماکر بچالیا اور اس دن کی رسوائی سے، بیشک تمہارا رب قومی عزت والا ہے،
جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے صالح کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ان کو اپنی مہربانی سے بچالیا۔ اور اس دن کی رسوائی سے (محفوظ رکھا) ۔ بےشک تمہارا پروردگار طاقتور اور زبردست ہے
پھر جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا (تو) ہم نے صالح (علیہ السلام) کو اور جو ان کے ساتھ ایمان والے تھے اپنی رحمت کے سبب سے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے (بھی نجات بخشی)۔ بیشک آپ کا رب ہی طاقتور غالب ہے،
اس کے بعد جب ہمارا حکم عذاب آپہنچا تو ہم نے صالح اور ان کے ساتھ کے صاحبانِ ایمان کو اپنی رحمت سے اپنے عذاب اور اس دن کی رسوائی سے بچالیا کہ تمہارا پروردگار صاحب هقوت اور سب پر غالب ہے
پھر جب ہمارا فرمان آپہنچا، ہم نے صالح کو اور ان پر ایمان ﻻنے والوں کو اپنی رحمت سے اس سے بھی بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے بھی۔ یقیناً تیرا رب نہایت توانا اور غالب ہے
پس جب ہمارا حکم (عذاب) آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالح اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات دے دی اور اس دن کی رسوائی سے بچا لیا بے شک پروردگار بڑا طاقتور، بڑا زبردست ہے۔
وَأَخَذَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ ٱلصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا۟ فِى دِيَٰرِهِمْ جَٰثِمِينَ ﴿٦٧﴾
اوران ظالموں کو ہولناک آواز نے پکڑ لیا پھر صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے رہ گئے
رہے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا تھا تو ایک سخت دھماکے نے ان کو دھر لیا اور وہ اپنی بستیوں میں اس طرح بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے
اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے،
اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو چنگھاڑ (کی صورت میں عذاب) نے آپکڑا تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے
اور ظالم لوگوں کو ہولناک آواز نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس طرح کی کہ اپنے گھروں میں (مُردہ حالت میں) اوندھے پڑے رہ گئے،
اور ظلم کرنے والوں کو ایک چنگھاڑنے اپنی لپیٹ میں لے لیا تو وہ اپنے دیار میں اوندھے پڑے رہ گئے
اور ﻇالموں کو بڑے زور کی چنگھاڑ نے آدبوچا، پھر تو وه اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے ره گئے
اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک زوردار کڑک نے آپکڑا وہ اس طرح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا۟ فِيهَآ ۗ أَلَآ إِنَّ ثَمُودَا۟ كَفَرُوا۟ رَبَّهُمْ ۗ أَلَا بُعْدًۭا لِّثَمُودَ ﴿٦٨﴾
گویا کہ کبھی وہاں رہے ہی نہ تھے خبردار ثمود نے اپنے رب کا انکار کیا تھا خبردار ثمود پر پھٹکار ہے
کہ گویا وہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے سنو! ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا سنو! دور پھینک دیے گئے ثمود!
گویا کبھی یہاں بسے ہی نہ تھے، سن لو! بیشک ثمود اپنے رب سے منکر ہوئے ارے لعنت ہو ثمود پر،
گویا کبھی ان میں بسے ہی نہ تھے۔ سن رکھو کہ ثمود نے اپنے پروردگار سے کفر کیا۔ اور سن رکھو ثمود پر پھٹکار ہے
گویا وہ کبھی ان میں بسے ہی نہ تھے، یاد رکھو! (قومِ) ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا تھا۔ خبردار! (قومِ) ثمود کے لئے (رحمت سے) دوری ہے،
جیسے کبھی یہاں بسے ہی نہیں تھے -آگاہ ہوجاؤ کہ ثمود نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور ہوشیار ہوجاؤ کہ ثمود کے لئے ہلاکت ہی ہلاکت ہے
ایسے کہ گویا وه وہاں کبھی آباد ہی نہ تھے، آگاه رہو کہ قوم ﺛمود نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سن لو! ان ﺛمودیوں پر پھٹکار ہے
کہ گویا وہ کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے آگاہ ہو جاؤ قومِ ثمود(ع) نے اپنے پروردگار کا انکار کیا آگاہ ہو کہ ہلاکت و بربادی ہے قوم ثمود کے لئے۔
وَلَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَآ إِبْرَٰهِيمَ بِٱلْبُشْرَىٰ قَالُوا۟ سَلَٰمًۭا ۖ قَالَ سَلَٰمٌۭ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍۢ ﴿٦٩﴾
اور ہمارے بھیجے ہوئے ابراھیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے انہوں نے کہا سلام اس نے کہا سلام پس دیر نہ کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا
اور دیکھو، ابراہیمؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے کہا تم پر سلام ہو ابراہیمؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیمؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے) لے آیا
اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس مژدہ لے کر آئے بولے سلام کہا کہا سلام پھر کچھ دیر نہ کی کہ ایک بچھڑا بھنا لے آئے
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے
اور بیشک ہمارے فرستادہ فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے، انہوں نے سلام کہا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی (جوابًا) سلام کہا، پھر (آپ علیہ السلام نے) دیر نہ کی یہاں تک کہ (ان کی میزبانی کے لئے) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے،
اور ابراہیم کے پاس ہمارے نمائندے بشارت لے کر آئے اور آکر سلام کیا تو ابراہیم نے بھی سلام کیا اور تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ بھنا ہوا بچھڑا لے آئے
اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغامبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے اور سلام کہا، انہوں نے بھی جواب سلام دیا اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے
بے شک ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم(ع) کے پاس خوشخبری لے کر آئے اور کہا تم پر سلام انہوں نے (جواب میں) کہا تم پر بھی سلام پھر دیر نہیں لگائی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔
فَلَمَّا رَءَآ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةًۭ ۚ قَالُوا۟ لَا تَخَفْ إِنَّآ أُرْسِلْنَآ إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍۢ ﴿٧٠﴾
پھر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس تک نہیں پہنچتے تو انہیں اجنبی سمجھا اوران سے ڈرا انہوں نے کہا خوف نہ کرو ہم تو لوط کی قوم کی طرف بھیجحے گئے ہیں
مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہو گیا اور دل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگا اُنہوں نے کہا \"ڈرو نہیں، ہم تو لوطؑ کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں\"
پھر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں پہنچتے ان کو اوپری سمجھا اور جی ہی جی میں ان سے ڈرنے لگا، بولے ڈریے نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں،
جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں جاتے (یعنی وہ کھانا نہیں کھاتے) تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا۔ (فرشتوں نے) کہا کہ خوف نہ کیجیے، ہم قوم لوط کی طرف (ان کے ہلاک کرنے کو) بھیجے گئے ہیں
پھر جب (ابراہیم علیہ السلام نے) دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (کھانے) کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہیں اجنبی سمجھا اور (اپنے) دل میں ان سے کچھ خوف محسوس کرنے لگے، انہوں نے کہا: آپ مت ڈریئے! ہم قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں،
اور جب دیکھا کہ ان لوگوں کے ہاتھ ادھر نہیں بڑھ رہے ہیں تو تعجب کیا اور ان کی طرف سے خوف محسوس کیا انہوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں
اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو ان سے اجنبیت محسوس کرکے دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے، انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں
مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس (کھانے) کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہیں اجنبی خیال کیا اور دل ہی دل میں ان سے خوف محسوس کیا۔ انہوں نے کہا آپ ڈریں نہیں۔ ہم تو (اللہ کی طرف سے) قومِ لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
وَٱمْرَأَتُهُۥ قَآئِمَةٌۭ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَٰهَا بِإِسْحَٰقَ وَمِن وَرَآءِ إِسْحَٰقَ يَعْقُوبَ ﴿٧١﴾
اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی
ابراہیمؑ کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی وہ یہ سن کر ہنس دی پھر ہم نے اس کو اسحاقؑ کی اور اسحاقؑ کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی
اور اس کی بی بی کھڑی تھی وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی
اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی، ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی
اور ان کی اہلیہ (سارہ پاس ہی) کھڑی تھیں تو وہ ہنس پڑیں، سو ہم نے ان (کی زوجہ) کو اسحاق (علیہ السلام) کی اور اسحاق (علیہ السلام) کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کی بشارت دی،
ابراہیم کی زوجہ اسی جگہ کھڑی تھیں یہ سن کر ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی بشارت دے دی اور اسحاق کے بعد پھر یعقوب کی بشارت دی
اس کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وه ہنس پڑی، تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی
اور ان کی بیوی (سارہ) پاس کھڑی ہوئی تھیں وہ ہنس پڑیں بس ہم نے انہیں اسحاق کی خوشخبری دی اور اسحاق کے بعد یعقوب(ع) کی۔
قَالَتْ يَٰوَيْلَتَىٰٓ ءَأَلِدُ وَأَنَا۠ عَجُوزٌۭ وَهَٰذَا بَعْلِى شَيْخًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ عَجِيبٌۭ ﴿٧٢﴾
وہ بولی اے افسوس کیا میں بوڑھی ہو کر جنوں گی میرا خاوند بھی بوڑھا ہے یہ تو ایک عجیب بات ہے
وہ بولی \"ہائے میری کم بختی! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بڑھیا پھونس ہو گئی اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہو چکے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے\"
بولی ہائے خرابی کیا میرے بچہ ہوگا اور میں بوڑھی ہوں اور یہ ہیں میرے شوہر بوڑھے بیشک یہ تو اچنبھے کی بات ہے،
اس نے کہا اے ہے میرے بچہ ہوگا؟ میں تو بڑھیا ہوں اور میرے میاں بھی بوڑھے ہیں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے
وہ کہنے لگیں: وائے حیرانی! کیا میں بچہ جنوں گی حالانکہ میں بوڑھی (ہو چکی) ہوں اور میرے یہ شوہر (بھی) بوڑھے ہیں؟ بیشک یہ تو بڑی عجیب چیز ہے،
تو انہوں نے کہا کہ یہ مصیبت اب میرے یہاں بچہ ہوگا جب کہ میں بھی بوڑھی ہوں اور میرے میاں بھی بوڑھے ہیں یہ تو بالکل عجیب سی بات ہے
وه کہنے لگی ہائے میری کم بختی! میرے ہاں اوﻻد کیسے ہو سکتی ہے میں خود بڑھیا اور یہ میرے خاوند بھی بہت بڑی عمر کے ہیں یہ تو یقیناً بڑی عجیب بات ہے!
(اس پر) وہ کہنے لگیں۔ ہائے میری مصیبت! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بوڑھی ہوگئی ہوں۔ اور یہ میرے شوہر بھی بوڑھے ہو چکے ہیں یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۔
قَالُوٓا۟ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ ٱللَّهِ ۖ رَحْمَتُ ٱللَّهِ وَبَرَكَٰتُهُۥ عَلَيْكُمْ أَهْلَ ٱلْبَيْتِ ۚ إِنَّهُۥ حَمِيدٌۭ مَّجِيدٌۭ ﴿٧٣﴾
انہوں نے کہا کیاتو الله کے حکم سے تعجب کرتی ہے تم پر اے گھر والو الله کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں بے شک وہ تعریف کیا ہوا بزرگ ہے
فرشتوں نے کہا \"اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ ابراہیمؑ کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہیں، اور یقیناً اللہ نہایت قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے\"
فرشتے بولے کیا اللہ کے کام کا اچنبھا کرتی ہو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں تم پر اس گھر والو! بیشک وہی ہے سب خوبیوں والا عزت والا،
انہوں نے کہا کیا تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو؟ اے اہل بیت تم پر خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں۔ وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے
فرشتوں نے کہا: کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں، بیشک وہ قابلِ ستائش (ہے) بزرگی والا ہے،
فرشتوں نے کہا کہ کیا تمہیں حکم الٰہی میں تعجب ہورہا ہے اللہ کی رحمت اور برکت تم گھر والوں پر ہے وہ قابلِ حمد اور صاحب همجد و بزرگی ہے
فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی ہے؟ تم پر اے اس گھر کے لوگو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، بیشک اللہ حمد وﺛنا کا سزاوار اور بڑی شان واﻻ ہے
انہوں (فرشتوں) نے کہا کیا تم اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے (ابراہیم(ع) کے) گھر والو بے شک وہ بڑا ستائش کیا ہوا ہے، بڑی شان والا ہے۔
فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَٰهِيمَ ٱلرَّوْعُ وَجَآءَتْهُ ٱلْبُشْرَىٰ يُجَٰدِلُنَا فِى قَوْمِ لُوطٍ ﴿٧٤﴾
جب ابراھیم سے ڈر جاتا رہا اور اسے خوشخبری آئی ہم سے قوم لوط کے حق میں جھگڑنے لگا
پھر جب ابراہیمؑ کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور (اولاد کی بشارت سے) اس کا دل خوش ہو گیا تو اس نے قوم لوط کے معاملے میں ہم سے جھگڑا شروع کیا
پھر جب ابراہیم کا خوف زائل ہوا اور اسے خوشخبری ملی ہم سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑنے لگا،
جب ابراہیم سے خوف جاتا رہا اور ان کو خوشخبری بھی مل گئی تو قوم لوط کے بارے میں لگے ہم سے بحث کرنے
پھر جب ابراہیم (علیہ السلام) سے خوف جاتا رہا اور ان کے پاس بشارت آچکی تو ہمارے (فرشتوں کے) ساتھ قومِ لوط کے بارے میں جھگڑنے لگے،
اس کے بعد جب ابراہیم کا خوف برطرف ہوا اور ان کے پاس بشارت بھی آچکی تو انہوں نے ہم سے قوم لوط کے بارے میں اصرار کرنا شروع کردیا
جب ابراہیم کا ڈر خوف جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگے
جب ابراہیم (ع) کا خوف دور ہوگیا اور انہیں خوشخبری مل گئی تو قومِ لوط(ع) کے بارے میں ہم سے جھگڑنے لگے۔
إِنَّ إِبْرَٰهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّٰهٌۭ مُّنِيبٌۭ ﴿٧٥﴾
بے شک ابراھیم بردبار نرم دل اور الله کی طرف رجوع کرنے والا تھا
حقیقت میں ابراہیمؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا
بیشک ابراہیم تحمل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع کرنے والا ہے
بےشک ابراہیم بڑے تحمل والے، نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے
بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے متحمل مزاج، آہ و زاری کرنے والے ہر حال میں ہماری طرف رجوع کر نے والے تھے،
بیشک ابراہیم بہت ہی دردمند اور خدا کی طرف رجوع کرنے والے تھے
یقیناً ابراہیم بہت تحمل والے نرم دل اور اللہ کی جانب جھکنے والے تھے
بے شک ابراہیم(ع) بڑے بردبار، بڑے نرم دل اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرنے والے تھے۔
يَٰٓإِبْرَٰهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَآ ۖ إِنَّهُۥ قَدْ جَآءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَإِنَّهُمْ ءَاتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍۢ ﴿٧٦﴾
اے ابراھیم یہ خیال چھوڑ دے کیوں کہ تیرے رب کا حکم آ چکا ہے اور بے شک ان پرعذاب آ کر ہی رہے گا جو ٹلنے والا نہیں
(آخر کار ہمارے فرشتوں نے اس سے کہا) \"اے ابراہیمؑ، اس سے باز آ جاؤ، تمہارے رب کا حکم ہو چکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا\"
اے ابراہیم اس خیال میں نہ پڑ بیشک تیرے رب کا حکم آچکا اور بیشک ان پر عذاب آنے والا ہے کہ پھیرا نہ جائے گا،
اے ابراہیم اس بات کو جانے دو۔ تمہارے پروردگار کا حکم آپہنچا ہے۔ اور ان لوگوں پر عذاب آنے والا ہے جو کبھی نہیں ٹلنے کا
(فرشتوں نے کہا:) اے ابراہیم! اس (بات) سے درگزر کیجئے، بیشک اب تو آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آچکا ہے، اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا،
ابراہیم اس بات سے اعراض کرو -اب حکم خدا آچکا ہے اور ان لوگوں تک وہ عذاب آنے والا ہے جو پلٹایا نہیں جاسکتا
اے ابراہیم! اس خیال کو چھوڑ دیجئے، آپ کے رب کا حکم آپہنچا ہے، اور ان پر نہ ٹالے جانے واﻻ عذاب ضرور آنے واﻻ ہے
(ہم نے کہا) اے ابراہیم(ع) اس بات کو چھوڑ دیں تمہارے پروردگار کا حکم (عذاب) آچکا ہے یقینا ان لوگوں پر وہ عذاب آکے رہے گا۔ جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔
وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوطًۭا سِىٓءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًۭا وَقَالَ هَٰذَا يَوْمٌ عَصِيبٌۭ ﴿٧٧﴾
اور جب ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس پہنچے تو ان کے آنے سے غمگین ہوا اور دل میں تنگ ہوا اور کہا آج کا دن بڑا سخت ہے
اور جب ہمارے فرشتے لوطؑ کے پاس پہنچے تو اُن کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے
اور جب لوط کے یہاں ہمارے فرشتے آئے اسے ان کا غم ہوا او ر ان کے سبب دل تنگ ہوا اور بولا یہ بڑی سختی کا دن ہے
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان (کے آنے) سے غمناک اور تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مشکل کا دن ہے
اور جب ہمارے فرستادہ فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے (تو) وہ ان کے آنے سے پریشان ہوئے اور ان کے باعث (ان کی) طاقت کمزور پڑ گئی اور کہنے لگے: یہ بہت سخت دن ہے (فرشتے نہایت خوب رُو تھے اور حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی قوم کی بری عادت کا علم تھا سو ممکنہ فتنہ کے اندیشہ سے پریشان ہوئے)،
اور جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کے خیال سے رنجیدہ ہوئے اور تنگ دل ہوگئے اور کہا کہ یہ بڑا سخت دن ہے
جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وه ان کی وجہ سے بہت غمگین ہوگئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے
اور جب ہمارے فرستادے لوط(ع) کے پاس آئے تو وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوئے اور تنگدل ہوگئے اور کہا بڑا سخت دن ہے۔
وَجَآءَهُۥ قَوْمُهُۥ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ ۚ قَالَ يَٰقَوْمِ هَٰٓؤُلَآءِ بَنَاتِى هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِى ضَيْفِىٓ ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌۭ رَّشِيدٌۭ ﴿٧٨﴾
اور اس کے پاس اس کی قوم بے اختیار دوڑتی آئی اور یہ لوگ پہلے ہی سے برے کام کیا کرتے تھے کہا اےمیری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے پاک ہیں سو تم الله سے ڈرو اور میرے مہمانو ں میں مجھے ذلیل نہ کرو کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں
(ان مہمانوں کا آنا تھا کہ) اس کی قوم کے لوگ بے اختیار اس کے گھر کی طرف دوڑ پڑے پہلے سے وہ ایسی ہی بد کاریوں کے خوگر تھے لوطؑ نے ان سے کہا \"بھائیو، یہ میری بیٹیاں موجود ہیں، یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں کچھ خدا کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے معاملے میں مجھے ذلیل نہ کرو کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں؟\"
اور اس کے پاس کی قوم دوڑتی آئی، ور انہیں آگے ہی سے برے کاموں کی عادت پڑی تھی کہا اے قوم! یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے ستھری ہیں تو اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو، کیا تم میں ایک آدمی بھی نیک چلن نہیں،
اور لوط کی قوم کے لوگ ان کے پاس بےتحاشا دوڑتے ہوئے آئے اور یہ لوگ پہلے ہی سے فعل شنیع کیا کرتے تھے۔ لوط نے کہا کہ اے قوم! یہ (جو) میری (قوم کی) لڑکیاں ہیں، یہ تمہارے لیے (جائز اور) پاک ہیں۔ تو خدا سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے (بارے) میں میری آبرو نہ کھوؤ۔ کیا تم میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں
(سو وہی ہوا جس کا انہیں اندیشہ تھا) اور لوط (علیہ السلام) کی قوم (مہمانوں کی خبر سنتے ہی) ان کے پاس دوڑتی ہوئی آگئی، اور وہ پہلے ہی برے کام کیا کرتے تھے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: اے میری (نافرمان) قوم! یہ میری (قوم کی) بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لئے (بطریقِ نکاح) پاکیزہ و حلال ہیں سو تم اﷲ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں (اپنی بے حیائی کے باعث) مجھے رسوا نہ کرو! کیا تم میں سے کوئی بھی نیک سیرت آدمی نہیں ہے،
اور ان کی قوم دوڑتی ہوئی آگئی اور اس کے پہلے بھی یہ لوگ ایسے برے کام کررہے تھے لوط نے کہا اے قوم یہ ہماری لڑکیاں تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہیں خدا سے ڈرو اور مہمانوں کے بارے میں مجھے شرمندہ نہ کرو کیا تم میں کوئی سمجھدار آدمی نہیں ہے
اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی، وه تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی، لوط ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا اے قوم کے لوگو! یہ ہیں میری بیٹیاں جو تمہارے لئے بہت ہی پاکیزه ہیں، اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو، کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں
ان کی قوم کے لوگ (نوخیز مہمانوں کی آمد کی خبر سن کر) دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئے وہ پہلے سے ہی ایسی بدکاریوں کے عادی ہو رہے تھے لوط(ع) نے کہا اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں موجود ہیں یہ تمہارے لئے مناسب اور پاکیزہ ہیں سو اللہ سے ڈرو۔ اور میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھلامانس نہیں ہے۔
قَالُوا۟ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِى بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّۢ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ ﴿٧٩﴾
انہوں نے کہا البتہ تحقیق تو جانتا ہے کہ ہمیں تیری بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں اور تجھے معلوم ہے جو ہم چاہتے ہیں
انہوں نے جواب دیا \"تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تیری بیٹیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے اور تو یہ بھی جانتا ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں\"
بولے تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم کی بیٹیوں میں ہمارا کوئی حق نہیں اور تم ضرور جانتے ہو جو ہماری خواہش ہے،
وہ بولے تم کو معلوم ہے کہ تمہاری (قوم کی) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں۔ اور جو ہماری غرض ہے اسے تم (خوب) جانتے ہو
وہ بولے: تم خوب جانتے ہو کہ ہمیں تمہاری (قوم کی) بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں، اور تم یقینًا جانتے ہو جو کچھ ہم چاہتے ہیں،
ان لوگوں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمیں آپ کی لڑکیوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں
انہوں نے جواب دیا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ ہمیں تو تیری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے اور تو ہماری اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے
ان لوگوں نے کہا تمہیں معلوم ہے کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟
قَالَ لَوْ أَنَّ لِى بِكُمْ قُوَّةً أَوْ ءَاوِىٓ إِلَىٰ رُكْنٍۢ شَدِيدٍۢ ﴿٨٠﴾
کہا کاش کہ مجھے تمہارے مقابلے کی طاقت ہو تی یا میں کسی زبردست سہارے کی پناہ جا لیتا
لوطؑ نے کہا \"کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کر دیتا، یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا\"
بولے اے کاش! مجھے تمہارے مقابل زور ہوتا یا کسی مضبوط پائے کی پناہ لیتا
لوط نے کہا اے کاش مجھ میں تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا کسی مضبوط قلعے میں پناہ پکڑ سکتا
لوط (علیہ السلام) نے کہا: کاش! مجھ میں تمہارے مقابلہ کی ہمت ہوتی یا میں (آج) کسی مضبوط قلعہ میں پناہ لے سکتا،
لوط نے کہا کاش میرے پاس قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط قلعہ میں پناہ لے سکتا
لوط ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا
لوط نے کہا کاش مجھے تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوتی یا یہ کہ میں کسی مضبوط پایہ کا سہارا لے سکتا۔
قَالُوا۟ يَٰلُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوٓا۟ إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍۢ مِّنَ ٱلَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا ٱمْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُۥ مُصِيبُهَا مَآ أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ ٱلصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ ٱلصُّبْحُ بِقَرِيبٍۢ ﴿٨١﴾
فرشتوں نے کہا اے لوط بے شک ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں یہ تم تک ہرگز نہ پہنچ سکیں گے سو کچھ حصہ رات رہے اپنے لوگوں کو لے نکل اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے مگر تیری عورت کہ اس پر بھی وہی بلا آنے والی ہے جو ان پر آئے گی ان کے وعدہ کا وقت صبح ہے کیا صبح کا وقت نزدیک نہیں ہے
تب فرشتوں نے اس سے کہا کہ \"اے لوطؑ، ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے بس تو کچھ رات رہے اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جا اور دیکھو، تم میں سے کوئی شخص پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے مگر تیر ی بیوی (ساتھ نہیں جائے گی) کیونکہ اس پر بھی وہی کچھ گزرنے والا ہے جو اِن لوگوں پر گزرنا ہے ان کی تباہی کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے!\"
فرشتے بولے اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں وہ تم تک نہیں پہنچ سکتے تو اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے جاؤ اور تم میں کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے سوائے تمہاری عورت کے اسے بھی وہی پہنچنا ہے جو انہیں پہنچے گا بیشک ان کا وعدہ صبح کے وقت کا ہے کیا صبح قریب نہیں،
فرشتوں نے کہا کہ لوط ہم تمہارے پروردگار کے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے پھر کر نہ دیکھے۔ مگر تمہاری بیوی کہ جو آفت ان پر پڑنے والی ہے وہی اس پر پڑے گی۔ ان کے (عذاب کے) وعدے کا وقت صبح ہے۔ اور کیا صبح کچھ دور ہے؟
(تب فرشتے) کہنے لگے: اے لوط! ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ تم تک ہرگز نہ پہنچ سکیں گے، پس آپ اپنے گھر والوں کو رات کے کچھ حصہ میں لے کر نکل جائیں اور تم میں سے کوئی مڑ کر (پیچھے) نہ دیکھے مگر اپنی عورت کو (ساتھ نہ لینا)، یقینًا اسے (بھی) وہی (عذاب) پہنچنے والا ہے جو انہیں پہنچے گا۔ بیشک ان (کے عذاب) کا مقررہ وقت صبح (کا) ہے، کیا صبح قریب نہیں ہے،
تو فرشتوں نے کہا کہ ہم آپ کے پروردگار کے نمائندے ہیں یہ ظالم آپ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے ہیں -آپ اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کسے حّصے میں چلے جائیے اور کوئی شخص کسی کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے سوائے آپ کی زوجہ کے کہ اس تک وہی عذاب آنے والا ہے جو قوم تک آنے والا ہے ان کا وقت مقرر ہنگام هصبح ہے اور کیا صبح قریب نہیں ہے
اب فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہئے، بجز تیری بیوی کے، اس لئے کہ اسے بھی وہی پہنچنے واﻻ ہے جو ان سب کو پہنچے گا، یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے، کیا صبح بالکل قریب نہیں
تب انہوں (مہمانوں) نے کہا اے لوط(ع) ہم آپ کے پروردگار کے بھیجے ہوئے (فرشتے) ہیں یہ لوگ ہرگز آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے تم رات کے کسی حصہ میں اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جاؤ۔ سوائے اپنی بیوی کے اور خبردار تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ کیونکہ اس (بیوی) پر وہی عذاب نازل ہونے والا ہے جو ان لوگوں پر نازل ہونے والا ہے اور ان (کے عذاب) کا مقرر وقت صبح ہے کیا صبح (بالکل) قریب نہیں ہے؟
فَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَٰلِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةًۭ مِّن سِجِّيلٍۢ مَّنضُودٍۢ ﴿٨٢﴾
پھر جب ہمارا حکم پہنچا تو ہم نے وہ بستیاں الٹ دیں اور اس زمین پر کھنگر کے پتھر برسانا شروع کیے جو لگاتار گر رہے تھے
پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے
پھر جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس بستی کے اوپر کو اس کا نیچا کردیا اور اس پر کنکر کے پتھر لگا تار برسائے،
تو جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس (بستی) کو (اُلٹ کر) نیچے اوپر کردیا اور ان پر پتھر کی تہہ بہ تہہ (یعنی پےدرپے) کنکریاں برسائیں
پھر جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا تو ہم نے (الٹ کر) اس بستی کے اوپر کے حصہ کو نچلا حصہ کر دیا اور ہم نے اس پر پتھر اور پکی ہوئی مٹی کے کنکر برسائے جو پے در پے (اور تہ بہ تہ) گرتے رہے،
پھر جب ہمارا عذاب آگیا تو ہم نے زمین کو تہ و بالا کردیا اور ان پر مسلسل کھرنجے دار پتھروں کی بارش کردی
پھر جب ہمارا حکم آپہنچا، ہم نے اس بستی کو زیر وزبر کر دیا اوپر کا حصہ نیچے کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے
پھر جب ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا۔ تو ہم نے اس سرزمین کو تہہ و بالا کر دیا اور اس پر سنگِ گِل یعنی پکی ہوئی مٹی کے پتھر مسلسل برسائے۔
مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ ۖ وَمَا هِىَ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ بِبَعِيدٍۢ ﴿٨٣﴾
جن پر تیرے رب کے ہاں سے خاص نشان بھی تھا اور یہ بستیاں ان ظالموں سے کچھ دور نہیں ہیں
جن میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں نشان زدہ تھا اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دور نہیں ہے
جو نشان کیے ہوئے تیرے رب کے پاس ہیں اور وہ پتھر کچھ ظالموں سے دور نہیں
جن پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان کئے ہوئے تھے اور وہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور نہیں
جو آپ کے رب کی طرف سے نشان کئے ہوئے تھے، اور یہ (سنگ ریزوں کا عذاب) ظالموں سے (اب بھی) کچھ دور نہیں ہے،
جن پر خدا کی طرف سے نشان لگے ہوئے تھے اور وہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور نہیں ہے
تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وه ان ﻇالموں سے کچھ بھی دور نہ تھے
جن میں سے ہر کنکر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان زدہ تھا اور یہ (پتھر) ظالموں سے کچھ دور نہیں ہیں۔
۞ وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًۭا ۚ قَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ وَلَا تَنقُصُوا۟ ٱلْمِكْيَالَ وَٱلْمِيزَانَ ۚ إِنِّىٓ أَرَىٰكُم بِخَيْرٍۢ وَإِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍۢ مُّحِيطٍۢ ﴿٨٤﴾
اورمدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا کہ اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول کو نہ گھٹاؤ میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور تم پر ایک گھیر لینے والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا اُس نے کہا \"اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا
اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کا عذاب کا ڈر ہے
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) تو اُنہوں نے کہا کہ اے قوم! خدا ہی کی عبادت کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ میں تو تم کو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور (اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو) مجھے تمہارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تم کو گھیر کر رہے گا
اور (ہم نے اہلِ) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام کو بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور ناپ اور تول میں کمی مت کیا کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور میں تم پر ایسے دن کے عذاب کا خوف (محسوس) کرتا ہوں جو (تمہیں) گھیر لینے والا ہے،
اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم اللہ کی عبادت کر کہ اس کہ علاوہ تیرا کوئی خدا نہیں ہے اور خبردار ناپ تول میں کمی نہ کرنا کہ میں تمہیں بھلائی میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے بارے میں اس دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب کو احاطہ کرلے گا
اور ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم ناپ تول میں بھی کمی نہ کرو میں تو تمہیں آسوده حال دیکھ رہا ہوں اور مجھے تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف (بھی) ہے
اور ہم نے اہلِ مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے اور ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ میں تمہیں اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ (کفرانِ نعمت اور غلط کاری سے) عذاب کا ایسا دن نہ آجائے جو سب کو گھیر لے۔
وَيَٰقَوْمِ أَوْفُوا۟ ٱلْمِكْيَالَ وَٱلْمِيزَانَ بِٱلْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا۟ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا۟ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿٨٥﴾
اور اے میری قوم انصاف سے ناپ اور تول کو پورا کرو اور لوگو ں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ مچاؤ
اور اے برادران قوم، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو
اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو،
اور قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں خرابی کرتے نہ پھرو
اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو،
اے قوم ناپ تول میں انصاف سے کام لو اور لوگوں کو کم چیزیں مت دو اور روئے زمین میں فساد مت پھیلاتے پھرو
اے میری قوم! ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اور خرابی نہ مچاؤ
اور اے میری قوم! عدل و انصاف کے ساتھ ناپ تول پورا کیا کرو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ اور زمین میں شر و فساد نہ پھیلاتے پھرو۔
بَقِيَّتُ ٱللَّهِ خَيْرٌۭ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۚ وَمَآ أَنَا۠ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍۢ ﴿٨٦﴾
الله کا دیا جو باقی بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایماندار ہو اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں
اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور بہر حال میں تمہارے اوپر کوئی نگران کار نہیں ہوں\"
اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں
اگر تم کو (میرے کہنے کا) یقین ہو تو خدا کا دیا ہوا نفع ہی تمہارے لیے بہتر ہے اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں
جو اﷲ کے دیئے میں بچ رہے (وہی) تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو، اور میں تم پر نگہبان نہیں ہوں،
اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو اور میں تمہارے معاملات کا نگراں اور ذمہ دار نہیں ہوں
اللہ تعالی کا حلال کیا ہوا جو بچ رہے تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو، میں تم پر کچھ نگہبان (اور داروغہ) نہیں ہوں
اللہ کا بقیہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایماندار ہو؟ اور میں تم پر نگران و نگہبان نہیں ہوں۔
قَالُوا۟ يَٰشُعَيْبُ أَصَلَوٰتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَآ أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِىٓ أَمْوَٰلِنَا مَا نَشَٰٓؤُا۟ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ ٱلْحَلِيمُ ٱلرَّشِيدُ ﴿٨٧﴾
انہوں نے کہا اے شعیب کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان چیزوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ باپ دادا پوجتے تھے یا اپنے مالوں میں اپنی خواہش کے مطابق معاملہ نہ کریں بے شک تو البتہ بردبار نیک چلن ہے
انہوں نے جواب دیا \"اے شعیبؑ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پر ستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ بس تو ہی تو ایک عالی ظرف اور راستباز آدمی رہ گیا ہے!\"
بولے اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں جو چا ہیں نہ کریں ہاں جی تمہیں بڑے عقلمند نیک چلن ہو،
انہوں نے کہا شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ہم ان کو ترک کر دیں یا اپنے مال میں تصرف کرنا چاہیں تو نہ کریں۔ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو
وہ بولے! اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی حکم دیتی ہے کہ ہم ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں یا یہ کہ ہم جو کچھ اپنے اموال کے بارے میں چاہیں (نہ) کریں؟ بیشک تم ہی (ایک) بڑے تحمل والے ہدایت یافتہ (رہ گئے) ہو،
ان لوگوں نے طنز کیا کہ شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں یا اپنے اموال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں تم تو بڑے بردبار اور سمجھ دار معلوم ہوتے ہو
انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلاة تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں تو تو بڑا ہی باوقار اور نیک چلن آدمی ہے
ان لوگوں نے کہا اے شعیب(ع)! کیا تمہاری نماز تمہیں حکم دیتی ہے کہ ہم ان (معبودوں) کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کیا کرتے تھے یا اپنے اپنے اموال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف نہ کریں؟ بس تم ہی عاقل و بردبار اور نیکوکار آدمی ہو؟
قَالَ يَٰقَوْمِ أَرَءَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍۢ مِّن رَّبِّى وَرَزَقَنِى مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًۭا ۚ وَمَآ أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَآ أَنْهَىٰكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا ٱلْإِصْلَٰحَ مَا ٱسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِىٓ إِلَّا بِٱللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴿٨٨﴾
کہا اے میری قوم دیکھو تو سہی اگر مجھے اپنے رب کی طرف سے سمجھ آ گئی ہے اور اس نے مجھے عمدہ روزی دی ہے اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جس کام سے تجھے منع کروں میں اس کے خلاف کروں میں تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح ہی چاہتا ہوں اور مجھے تو صرف الله ہی سے توفیق حاصل ہوتی ہے میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں
شعیبؑ نے کہا \"بھائیو، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا (تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہارا شریک حال کیسے ہوسکتا ہوں؟) اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
کہا اے میری قوم بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں او راس نے مجھے اپنے پاس سے اچھی روزی دی اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ جس بات سے تمہیں منع کرتا ہوں آپ اس کے خلاف کرنے لگوں میں تو جہاں تک بنے سنوارنا ہی چاہتا ہوں، اور میری توفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع ہوتا ہوں،
انہوں نے کہا کہ اے قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے ہاں سے مجھے نیک روزی دی ہو (تو کیا میں ان کے خلاف کروں گا؟) اور میں نہیں چاہتا کہ جس امر سے میں تمہیں منع کروں خود اس کو کرنے لگوں۔ میں تو جہاں تک مجھ سے ہوسکے (تمہارے معاملات کی) اصلاح چاہتا ہوں اور (اس بارے میں) مجھے توفیق کا ملنا خدا ہی (کے فضل) سے ہے۔ میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں
شعیب (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! ذرا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی بارگاہ سے عمدہ رزق (بھی) عطا فرمایا (تو پھر حق کی تبلیغ کیوں نہ کروں؟)، اور میں یہ (بھی) نہیں چاہتا کہ تمہارے پیچھے لگ کر (حق کے خلاف) خود وہی کچھ کرنے لگوں جس سے میں تمہیں منع کر رہا ہوں، میں تو جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے (تمہاری) اصلاح ہی چاہتا ہوں، اور میری توفیق اﷲ ہی (کی مدد) سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں،
شعیب نے کہا کہ اے قوم والو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر میں خدا کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں اور اس نے مجھے بہترین رزق عطا کردیا ہے اور میں یہ بھی نہیں چاہتا ہوں کہ جس چیز سے تم کو روکتا ہوں خود اسی کی خلاف ورزی کروں میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے امکان میں ہو -میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسی کی طرف میں توجہ کررہا ہوں
کہا اے میری قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل لئے ہوئے ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بہترین روزی دے رکھی ہے، میرا یہ اراده بالکل نہیں کہ تمہارا خلاف کر کے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں، میرا اراده تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے۔ میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
آپ(ع) نے کہا میری قوم! مجھے غور کرکے بتاؤ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے (اپنی صداقت کی) روشن دلیل رکھتا ہوں اور پھر اس نے اپنی بارگاہ سے مجھے اچھی روزی بھی دی ہو (تو پھر کس طرح تبلیغِ حق نہ کروں؟) اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ جن چیزوں سے تمہیں روکتا ہوں۔ خود ان کے خلاف چلوں۔ میں تو صرف اصلاح (احوال) چاہتا ہوں جہاں تک میرے بس میں ہے۔ اور میری توفیق تو صرف اللہ کی طرف سے ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف (اپنے تمام معاملات میں) رجوع کرتا ہوں۔
وَيَٰقَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِىٓ أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَآ أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَٰلِحٍۢ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوطٍۢ مِّنكُم بِبَعِيدٍۢ ﴿٨٩﴾
اوراے میری قوم کہیں میری ضد سے ایسا جرم نہ کر بیٹھنا جس سے وہی مصیبت نہ آ پڑے جیسی کہ قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح پر پڑی تھی اور لوط کی قوم بھی تم سے دور نہیں
اور اے برادران قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچا دے کہ آخر کار تم پر بھی وہی عذاب آ کر رہے جو نوحؑ یا ہودؑ یا صالحؑ کی قوم پر آیا تھا اور لوطؑ کی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے
اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموادے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صا لح کی قوم پر، اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں
اور اے قوم! میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے کہ جیسی مصیبت نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر واقع ہوئی تھی ویسی ہی مصیبت تم پر واقع ہو۔ اور لوط کی قوم (کا زمانہ تو) تم سے کچھ دور نہیں
اور اے میری قوم! مجھ سے دشمنی و مخالفت تمہیں یہاں تک نہ ابھار دے کہ (جس کے باعث) تم پر وہ (عذاب) آپہنچے جیسا (عذاب) قومِ نوح یا قومِ ہود یا قومِ صالح کو پہنچا تھا، اور قومِ لوط (کا زمانہ تو) تم سے کچھ دور نہیں (گزرا)،
اور اے قوم کہیں میری مخالفت تم پر ایسا عذاب نازل نہ کرادے جیسا عذاب قوم نوح علیھ السّلام,قوم ہود علیھ السّلامیا قوم صالح علیھ السّلام پر نازل ہوا تھا اور قوم لوط بھی تم سے کچھ دور نہیں ہے
اور اے میری قوم (کے لوگو!) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو میری مخالفت ان عذابوں کا مستحق بنا دے جو قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح کو پہنچے ہیں۔ اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور نہیں
اور اے میری قوم! میری مخالفت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ایسے کام کرو کہ جن کی پاداش میں تم پر بھی وہی آفت آپڑے جو نوح(ع) یا ہود(ع) یا صالح(ع) کی قوم پر آئی تھی۔ اور قومِ لوط(ع) تو تم سے کچھ دور نہیں ہے۔
وَٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّى رَحِيمٌۭ وَدُودٌۭ ﴿٩٠﴾
اور اپنے الله سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو بے شک میرا رب مہربان محبت والا ہے
دیکھو! اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، بے شک میرا رب رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے\"
اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ، بیشک میرا رب مہربان محبت والا ہے،
اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو۔ بےشک میرا پروردگار رحم والا (اور) محبت والا ہے
اور تم اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کے حضور (صدقِ دل سے) توبہ کرو، بیشک میرا رب نہایت مہربان محبت فرمانے والا ہے،
اور اپنے پروردگار سے استغفار کرو اس کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ کہ بیشک میرا پروردگار بہت مہربان اور محبت کرنے والا ہے
تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو، یقین مانو کہ میرا رب بڑی مہربانی واﻻ اور بہت محبت کرنے واﻻ ہے
اور اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو اور پھر اس کی جناب میں توبہ کرو (اس کی طرف رجوع کرو) بے شک میرا پروردگار بڑا رحم کرنے والا، بڑا محبت کرنے والا ہے۔
قَالُوا۟ يَٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًۭا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَىٰكَ فِينَا ضَعِيفًۭا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَٰكَ ۖ وَمَآ أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍۢ ﴿٩١﴾
انہوں نے کہا اے شعیب ہم بہت سی باتیں نہیں سمجھتے جو تم کہتے ہو اوربے شک ہم البتہ تمہیں اپنےمیں کمزور پاتے ہیں اور اگر تیری برادری نہ ہوتی تو تجھے ہم سنگسارکردیتے اور ہماری نظر میں تیری کوئی عزت نہیں ہے
انہوں نے جواب دیا \"اے شعیبؑ، تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کر چکے ہوتے، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو\"
بولے اے شعیب! ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بیشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو ہم نے تمہیں پتھراؤ کردیا ہوتا اور کچھ ہماری نگاہ میں تمہیں عزت نہیں،
اُنہوں نے کہا کہ شعیب تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو اور اگر تمہارے بھائی نہ ہوتے تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر (کسی طرح بھی) غالب نہیں ہو
وہ بولے: اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمہیں اپنے معاشرے میں ایک کمزور شخص جانتے ہیں، اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگ سار کر دیتے اور (ہمیں اسی کا لحاظ ہے ورنہ) تم ہماری نگاہ میں کوئی عزت والے نہیں ہو،
ان لوگوں نے کہا کہ اے شعیب آپ کی اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتی ہیں اور ہم توآپ کو اپنے درمیان کمزور ہی پارہے ہیں کہ اگر آپ کا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم آپ کو سنگسار کردیتے اور آپ ہم پر غالب نہیں آسکتے تھے
انہوں نے کہا اے شعیب! تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں اور ہم تو تجھے اپنے اندر بہت کمزور پاتے ہیں، اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تو تجھے سنگسار کر دیتے، اور ہم تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں گنتے
ان لوگوں نے کہا اے شعیب! تم جو کچھ کہتے ہو اس میں سے اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمہیں اپنے درمیان ایک کمزور آدمی دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے۔ اور تم ہم پر غالب نہیں ہو۔
قَالَ يَٰقَوْمِ أَرَهْطِىٓ أَعَزُّ عَلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَٱتَّخَذْتُمُوهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِيًّا ۖ إِنَّ رَبِّى بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌۭ ﴿٩٢﴾
کہا اے میری قوم کیا میری برادری کا دباؤ تم پر الله سے زیادہ ہے اس کو تم نے پس پشت ڈال دیا ہے بے شک میرا رب تمہارے سب اعمال پر احاطہ کرنے والا ہے
شعیبؑ نے کہا \"بھائیو، کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے (برادری کا تو خوف کیا اور) اللہ کو بالکل پس پشت ڈال دیا؟ جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے
کہا اے میری قوم کیا تم پر میرے کنبہ کا دباؤ اللہ سے زیادہ ہے اور اسے تم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا بیشک جو کچھ تم کرتے ہو سب میرے رب کے بس میں ہے،
انہوں نے کہا کہ قوم! کیا میرے بھائی بندوں کا دباؤ تم پر خدا سے زیادہ ہے۔ اور اس کو تم نے پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے۔ میرا پروردگار تو تمہارے سب اعمال پر احاطہ کیے ہوئے ہے
شعیب (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! کیا میرا کنبہ تمہارے نزدیک اﷲ سے زیادہ معزز ہے، اور تم نے اسے (یعنی اللہ تعالیٰ کو گویا) اپنے پس پشت ڈال رکھا ہے۔ بیشک میرا رب تمہارے (سب) کاموں کو احاطہ میں لئے ہوئے ہے،
شعیب نے کہا کہ کیا میرا قبیلہ تمہاری نگاہ میں اللہ سے زیادہ عزیز ہے اور تم نے اللہ کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے جب کہ میرا پروردگار تمہارے اعمال کا خوب احاطہ کئے ہوئے ہے
انہوں نے جواب دیا کہ اے میری قوم کے لوگو! کیا تمہارے نزدیک میرے قبیلے کے لوگ اللہ سے بھی زیاده ذی عزت ہیں کہ تم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے یقیناً میرا رب جو کچھ تم کر رہے ہو سب کو گھیرے ہوئے ہے
آپ نے کہا! اے میری قوم! کیا میرا قبیلہ تمہارے نزدیک اللہ سے زیادہ معزز ہے؟ (اللہ سے زیادہ طاقتور ہے) جسے تم نے پسِ پشت ڈال دیا ہے (یاد رکھو) تم جو کچھ کر رہے ہو میرا پروردگار اس کا (علمی) احاطہ کئے ہوئے ہے۔
وَيَٰقَوْمِ ٱعْمَلُوا۟ عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّى عَٰمِلٌۭ ۖ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌۭ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَٰذِبٌۭ ۖ وَٱرْتَقِبُوٓا۟ إِنِّى مَعَكُمْ رَقِيبٌۭ ﴿٩٣﴾
اور اے میری قوم اپنی جگہ پر کام کیے جاؤ میں تم بھی کام کرتا ہوں آئندہ معلوم کر لو گے کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور جھوٹا کون ہے اورانتظار کرو بے شک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں
اے میری قوم کے لوگو، تم اپنے طریقے پر کام کیے جاؤ اور میں اپنے طریقے پر کرتا رہوں گا، جلدی ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر ذلت کا عذاب آتا ہے اور کون جھوٹا ہے تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں\"
اور اے قوم تم اپنی جگہ اپنا کام کیے جا ؤ میں اپنا کام کرتا ہوں، اب جاننا چاہتے ہو کس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے گا اور کون جھوٹا ہے، اور انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں،
اور برادران ملت! تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ میں (اپنی جگہ) کام کیے جاتا ہوں۔ تم کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے اور جھوٹا کون ہے اور تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں
اور اے میری قوم! تم اپنی جگہ کام کرتے رہو میں اپنا کام کر رہا ہوں۔ تم عنقریب جان لوگے کہ کس پر وہ عذاب آپہنچتا ہے جو رسوا کر ڈالے گا اور کون ہے جو جھوٹا ہے، اور تم بھی انتظار کرتے رہو اور میں (بھی) تمہارے ساتھ منتظر ہوں،
اور اے قوم تم اپنی جگہ پر اپنا کام کرو میں اپنا کام کررہا ہوں عنقریب جان لو گے کہ کس کے پاس عذاب آکر اسے رسوا کردیتا ہے اور کون جھوٹا ہے اور انتظار کرو کہ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والا ہوں
اے میری قوم کے لوگو! اب تم اپنی جگہ عمل کئے جاؤ میں بھی عمل کر رہا ہوں، تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس کے پاس وه عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے اور کون ہے جو جھوٹا ہے۔ تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں
اور اے میری قوم! تم اپنی جگہ (اور اپنے طریقہ) پر عمل کئے جاؤ میں اپنی جگہ (اور اپنے طریقہ) پر عمل کر رہا ہوں عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا؟ اور کون جھوٹا ہے؟ اور تم انتظار کرو۔ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔
وَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًۭا وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ بِرَحْمَةٍۢ مِّنَّا وَأَخَذَتِ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ ٱلصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا۟ فِى دِيَٰرِهِمْ جَٰثِمِينَ ﴿٩٤﴾
اور جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے شعیب کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچا لیا اوران ظالموں کو کڑک نے آ پکڑا پھر صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے رہ گئے
آخر کار جب ہمارے فیصلے کا وقت آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے شعیبؑ اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے
اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے شعیب اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرماکر بچالیا اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے،
اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے شعیب کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ان کو تو اپنی رحمت سے بچا لیا۔ اور جو لوگ ظالم تھے، ان کو چنگھاڑ نے آدبوچا تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے
اور جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا تو ہم نے شعیب (علیہ السلام) کو اور ان کے ساتھ ایمان والوں کو اپنی رحمت کے باعث بچالیا اور ظالموں کو خوفناک آواز نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے گھروں میں (مردہ حالت) میں اوندھے پڑے رہ گئے،
اور جب ہمارا حکم (عذاب)آگیا تو ہم نے شعیب اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے بچالیا اور ظلم کرنے والوں کو ایک چنگھاڑنے پکڑ لیا تو وہ اپنے دیار ہی میں الٹ پلٹ ہوگئے
جب ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا ہم نے شعیب کو اور ان کے ساتھ (تمام) مومنوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات بخشی اور ﻇالموں کو سخت چنگھاڑ کے عذاب نے دھر دبوچا جس سے وه اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے ہوگئے
اور جب ہمارا حکم (عذاب) آیا تو ہم نے اپنی خاص رحمت سے شیعب کو اور ان کو جو آپ کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک خوفناک کڑک نے آپکڑا۔ پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا۟ فِيهَآ ۗ أَلَا بُعْدًۭا لِّمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ ﴿٩٥﴾
گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے خبردار مدین پر پھٹکار ہے جیسے ثمود پر پھٹکار ہوئی تھی
گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے سنو! مدین والے بھی دور پھینک دیے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے
گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے، ارے دُور ہوں مدین جیسے دور ہوئے ثمود
گویا ان میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ سن رکھو کہ مدین پر (ویسی ہی) پھٹکار ہے جیسی ثمود پر پھٹکار تھی
گویا وہ ان میں کبھی بسے ہی نہ تھی۔ سنو! (اہلِ) مدین کے لئے ہلاکت ہے جیسے (قومِ) ثمود ہلاک ہوئی تھی،
جیسے کبھی یہاں بسے ہی نہیں تھے اور آگاہ ہوجاؤ کہ قوم مدین کے لئے ویسے ہی ہلاکت ہے جیسے قوم ثمود ہلاک ہوگئی تھی
گویا کہ وه ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے، آگاه رہو مدین کے لئے بھی ویسی ہی دوری ہو جیسی دوری ﺛمود کو ہوئی
گویا وہ ان میں کبھی آباد ہوئے ہی نہ تھے۔ آگاہ ہو۔ ہلاکت و بربادی ہے مدین کیلئے جس طرح ہلاکت تھی قومِ ثمود کے لیے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِـَٔايَٰتِنَا وَسُلْطَٰنٍۢ مُّبِينٍ ﴿٩٦﴾
اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں اور واضع سند دے کر بھیجا
اور موسیٰؑ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھلی کھلی سند ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کی طرف بھیجا
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی آیتوں اور صریح غلبے کے ساتھ،
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں اور دلیل روشن دے کر بھیجا
اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو (بھی) اپنی نشانیوں اور روشن برہان کے ساتھ بھیجا،
اور ہم نے موسٰی کو اپنی نشانیوں اور روشن دلیل کے ساتھ بھیجا
اور یقیناً ہم نے ہی موسیٰ کو اپنی آیات اور روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا تھا
اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو واضح نشانیوں (معجزات) اور واضح سند (عصا) کے ساتھ بھیجا۔
إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَإِي۟هِۦ فَٱتَّبَعُوٓا۟ أَمْرَ فِرْعَوْنَ ۖ وَمَآ أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍۢ ﴿٩٧﴾
فرعون اور اس کے سرداروں کے ہاں پھر وہ فرعون کے حکم پر چلے اور فرعون کا حکم ٹھیک بھی نہ تھا
مگر انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا
فرعون اور ا س کے درباریوں کی طرف بھیجا تو وہ فرعون کے کہنے پر چلے اور فرعون کا کام راستی کا نہ تھا
(یعنی) فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف۔ تو وہ فرعون ہی کے حکم پر چلے۔ اور فرعون کا حکم درست نہیں تھا
فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس، تو (قوم کے) سرداروں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم درست نہ تھا،
فرعون اور اس کی قوم کی طرف تو لوگوں نے فرعون کے حکم کا اتباع کرلیا جب کہ فرعون کا حکم عقل و ہوش والا حکم نہیں تھا
فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، پھر بھی ان لوگوں نے فرعون کے احکام کی پیروی کی اور فرعون کا کوئی حکم درست تھا ہی نہیں
فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف مگر انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم درست نہ تھا (بلکہ بالکل غلط تھا)۔
يَقْدُمُ قَوْمَهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ فَأَوْرَدَهُمُ ٱلنَّارَ ۖ وَبِئْسَ ٱلْوِرْدُ ٱلْمَوْرُودُ ﴿٩٨﴾
قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہو گا پھر انہیں آگ میں لاڈالے گا اوربرا گھاٹ ہے جس پر وہ پہنچے
قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور اپنی پیشوائی میں انہیں دوزخ کی طرف لے جائے گا کیسی بدتر جائے وُرُود ہے یہ جس پر کوئی پہنچے!
اپنی قوم کے آگے ہوگا قیامت کے دن تو انہیں دوزخ میں لا اتارے گا اور و ه کیا ہی برا گھاٹ اترنے کا،
وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور ان کو دوزخ میں جا اُتارے گا اور جس مقام پر وہ اُتارے جائیں گے وہ برا ہے
وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا بالآخر انہیں آتشِ دوزخ میں لا گرائے گا، اور وہ داخل کئے جانے کی کتنی بری جگہ ہے،
وہ روزِ قیامت اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور انہیں جہّنم ّمیں وارد کردے گا جو بدترین وارد ہونے کی جگہ ہے
وه تو قیامت کے دن اپنی قوم کا پیش رو ہو کر ان سب کو دوزخ میں جا کھڑا کرے گا، وه بہت ہی برا گھاٹ ہے جس پر ﻻ کھڑے کئے جائیں گے
قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا۔ اور اس طرح انہیں آتشِ دوزخ میں پہنچا دے گا کیا ہی اترنے کی بری ہے وہ جگہ جہاں وہ اتارے جائیں گے۔
وَأُتْبِعُوا۟ فِى هَٰذِهِۦ لَعْنَةًۭ وَيَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ بِئْسَ ٱلرِّفْدُ ٱلْمَرْفُودُ ﴿٩٩﴾
اور اپنے پیچھے اس جہان میں بھی لعنت چھوڑ گئے اور قیامت کے دن کے لیے بھی برا ہی انعام ہے جو انہیں دیا جائے گا
اور ان لوگوں پر دنیا میں بھی لعنت پڑی اور قیامت کے روز بھی پڑے گی کیسا برا صلہ ہے یہ جو کسی کو ملے!
اور ان کے پیچھے پڑی اس جہان میں لعنت اور قیامت کے دن کیا ہی برا انعام جو انہیں ملا،
اور اس جہان میں بھی لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی (پیچھے لگی رہے گی) ۔ جو انعام ان کو ملا ہے برا ہے
اور اس دنیا میں (بھی) لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی اور قیامت کے دن (بھی ان کے پیچھے رہے گی)، کتنا برا عطیہ ہے جو انہیں دیا گیا ہے،
ان لوگوں کے پیچھے اس دنیا میں بھی لعنت لگادی گئی ہے اور روز قیامت بھی یہ بدترین عطیہ ہے جو انہیں دیا جائے گا
ان پر تو اس دنیا میں بھی لعنت چپکا دی گئی اور قیامت کے دن بھی برا انعام ہے جو دیا گیا
اس دنیا میں لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی اور قیامت کے دن (دوزخ) کیا ہی برا عطیہ ہے جو انہیں عطا کیا جائے گا۔
ذَٰلِكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلْقُرَىٰ نَقُصُّهُۥ عَلَيْكَ ۖ مِنْهَا قَآئِمٌۭ وَحَصِيدٌۭ ﴿١٠٠﴾
یہ بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں کہ تجھے سنا رہے ہیں ان میں سے کچھ تو اب تک باقی ہیں اورکچھ اجڑی پڑی ہیں
یہ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے
یہ بستیوں کی خبریں ہیں کہ ہم تمہیں سناتے ہیں ان میں کوئی کھڑی ہے اور کوئی کٹ گئی
یہ (پرانی) بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض کا تہس نہس ہوگیا
(اے رسولِ معظم!) یہ (ان) بستیوں کے کچھ حالات ہیں جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں ان میں سے کچھ برقرار ہیں اور (کچھ) نیست و نابود ہوگئیں،
یہ چند بستیوں کی خبریں ہیں جو ہم آپ سے بیان کررہے ہیں -ان میں سے بعض باقی رہ گئی ہیں اور بعض کٹ پٹ کر برابر ہو گئی ہیں
بستیوں کی یہ بعض خبریں جنہیں ہم تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں ان میں سے بعض تو موجود ہیں اور بعض (کی فصلیں) کٹ گئی ہیں
اے رسول(ص) یہ ان بستیوں کی چند خبریں ہیں جو ہم آپ کے سامنے بیان کر رہے ہیں۔ ان (بستیوں) میں سے کچھ تو اب تک قائم ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے (بالکل اجڑ گئی ہیں)۔
وَمَا ظَلَمْنَٰهُمْ وَلَٰكِن ظَلَمُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ ۖ فَمَآ أَغْنَتْ عَنْهُمْ ءَالِهَتُهُمُ ٱلَّتِى يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۢ لَّمَّا جَآءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍۢ ﴿١٠١﴾
اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہی اپنی جانو ں پر ظلم کر گئے پھر ان کے وہ معبود کچھ کام نہ آئے جنہیں و ہ الله کے سوا پکارتے تھے جس وقت تیرے رب کا حکم آ پہنچا اور ان معبودوں نے سوا ہلاکت کے انہیں کچھ بھی فائدہ نہ دیا
ہم نے اُن پر ظلم نہیں کیا، انہوں نے آپ ہی اپنے اوپر ستم ڈھایا اور جب اللہ کا حکم آ گیا تو ان کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آ سکے اور انہوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انہیں کچھ فائدہ نہ دیا
اور ہم نے ان پر ظلم نہ کیا خود انہوں نے اپنا برا کیا تو ان کے معبود جنہیں اللہ کے سوا پوجتے تھے ان کے کچھ کام نہ آئے جب تمہارے رب کا حکم آیا اور ان سے انہیں ہلاک کے سوا کچھ نہ بڑھا،
اور ہم نے ان لوگوں پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اُوپر ظلم کیا۔ غرض جب تمہارے پروردگار کا حکم آپہنچا تو جن معبودوں کو وہ خدا کے سوا پکارا کرتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے۔ اور تباہ کرنے کے سوا ان کے حق میں اور کچھ نہ کرسکے
اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا لیکن انہوں نے (خود ہی) اپنی جانوں پر ظلم کیا، سو ان کے وہ جھوٹے معبود جنہیں وہ اﷲ کے سوا پوجتے تھے ان کے کچھ کام نہ آئے، جب آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آیا، اور وہ (دیوتا) تو صرف ان کی ہلاکت و بربادی میں ہی اضافہ کر سکے،
اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے تو عذاب کے آجانے کے بعد ان کے وہ خدا بھی کام نہ آئے جنہیں وہ خدا کو چھوڑ کر پکار رہے تھے اور ان خداؤں نے مزید ہلاکت کے علاوہ انہیں کچھ نہیں دیا
ہم نے ان پر کوئی ﻇلم نہیں کیا، بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے اوپر ﻇلم کیا، اور انہیں ان کے معبودوں نے کوئی فائده نہ پہنچایا جنہیں وه اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے، جب کہ تیرے پروردگار کا حکم آپہنچا، بلکہ اور ان کا نقصان ہی انہوں نے بڑھا دیا
اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ اور جب آپ کے پروردگار کا حکم (عذاب) آگیا تو انہیں ان کے ان خداؤں نے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے اور انہوں نے ان کی ہلاکت میں اضافہ کے سوا اور کچھ نہ کیا۔
وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَآ أَخَذَ ٱلْقُرَىٰ وَهِىَ ظَٰلِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُۥٓ أَلِيمٌۭ شَدِيدٌ ﴿١٠٢﴾
اور تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ ظالم بستیوں کو پکڑتا ہے اور اس کی پکڑ سخت تکلیف دہ ہے
اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوتی ہے
اور ایسی ہی پکڑ ہے تیرے رب کی جب بستیوں کو پکڑتا ہے ان کے ظلم پر، بیشک اس کی پکڑ دردناک کرّ ی ہے
اور تمہارا پروردگار جب نافرمان بستیوں کو پکڑا کرتا ہے تو اس کی پکڑ اسی طرح کی ہوتی ہے۔ بےشک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور سخت ہے
اور اسی طرح آپ کے رب کی پکڑ ہوا کرتی ہے جب وہ بستیوں کی اس حال میں گرفت فرماتا ہے کہ وہ ظالم (بن چکی) ہوتی ہیں۔ بیشک اس کی گرفت دردناک (اور) سخت ہوتی ہے،
اور اسی طرح تمہارے پروردگار کی گرفت ہوتی ہے جب وہ ظلم کرنے والی بستیوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ اس کی گرفت بہت ہی سخت اور دردناک ہوتی ہے
تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وه بستیوں کے رہنے والے ﻇالموں کو پکڑتا ہے بیشک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے
اور آپ کا پروردگار جب ظالم بستیوں کو پکڑتا ہے (یعنی ان کے باشندوں کو ان کے ظلم و تعدی کی وجہ سے پکڑتا ہے) تو اس کی پکڑ ایسی ہوتی ہے بے شک اس کی پکڑ بڑی دردناک (اور) سخت ہوتی ہے۔
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ ٱلْءَاخِرَةِ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمٌۭ مَّجْمُوعٌۭ لَّهُ ٱلنَّاسُ وَذَٰلِكَ يَوْمٌۭ مَّشْهُودٌۭ ﴿١٠٣﴾
اس بات میں نشانی ہے اس کے لیے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے یہ ایک ایسا دن ہوگا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور یہی دن ہے جس میں سب حاضر کیے جائیں گے
حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو عذاب آخرت کا خوف کرے وہ ایک دن ہوگا جس میں سب لوگ جمع ہوں گے اور پھر جو کچھ بھی اُس روز ہوگا سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا
بیشک اس میں نشانی ہے اس کے لیے جو آخرت کے عذاب سے ڈرے وہ دن ہے جس میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے اور وہ دن حاضری کا ہے
ان (قصوں) میں اس شخص کے لیے جو عذاب آخرت سے ڈرے عبرت ہے۔ یہ وہ دن ہوگا جس میں سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے اور یہی وہ دن ہوگا جس میں سب (خدا کے روبرو) حاضر کیے جائیں گے
بیشک ان (واقعات) میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے۔ یہ (روزِ قیامت) وہ دن ہے جس کے لئے سارے لوگ جمع کئے جائیں گے اور یہی وہ دن ہے جب سب کو حاضر کیا جائے گا،
اس بات میں ان لوگوں کے لئے نشانی پائی جاتی ہے جو عذاب آخرت سے ڈرنے والے ہیں -وہ دن جس دن تمام لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ سب کی حاضری کا دن ہوگا
یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے نشان عبرت ہے جو قیامت کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ وه دن جس میں سب لوگ جمع کئے جائیں گے اور وه، وه دن ہے جس میں سب حاضر کئے جائیں گے
بے شک اس بات میں (عبرت کی) نشانی ہے اس شخص کے لئے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہے وہ ایسا دن ہے جس میں سب لوگ اکھٹے کئے جائیں گے اور وہ (سب کے) پیش ہونے کا دن ہے۔
وَمَا نُؤَخِّرُهُۥٓ إِلَّا لِأَجَلٍۢ مَّعْدُودٍۢ ﴿١٠٤﴾
اور ہم اسے تھوڑی مدت کے لیے ملتوی کیے ہوئے ہیں
ہم اس کے لانے میں کچھ بہت زیادہ تاخیر نہیں کر رہے ہیں، بس ایک گنی چنی مدت اس کے لیے مقرر ہے
اور ہم اسے پیچھے نہیں ہٹاتے مگر ایک گنی ہوئی مدت کے لیئے
اور ہم اس کے لانے میں ایک وقت معین تک تاخیر کر رہے ہیں
اور ہم اسے مؤخر نہیں کر رہے ہیں مگر مقررہ مدت کے لئے (جو پہلے سے طے ہے)،
اور ہم اپنے عذاب کو صرف ایک معینہ مدّت کے لئے ٹال رہے ہیں
اسے ہم جو ملتوی کرتے ہیں وه صرف ایک مدت معین تک ہے
اور ہم اسے صرف ایک مدت (کے پورا ہونے) تک مؤخر کر رہے ہیں۔
يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِۦ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِىٌّۭ وَسَعِيدٌۭ ﴿١٠٥﴾
جب وہ دن آئے گا تو کوئی شخص الله کی اجازت کے سوا بات بھی نہ کر سکے گا سو ان میں سے بعض بدبخت ہیں اوربعض نیک بخت
جب وہ آئے گا تو کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی، الا یہ کہ خدا کی اجازت سے کچھ عرض کرے پھر کچھ لوگ اس روز بد بخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت
جب وہ دن آئے گا کوئی بے حکم خدا بات نہ کرے گا تو ان میں کوئی بدبخت ہے اور کوئی خوش نصیب
جس روز وہ آجائے گا تو کوئی متنفس خدا کے حکم کے بغیر بول بھی نہیں سکے گا۔ پھر ان میں سے کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت
جب وہ دن آئے گا کوئی شخص (بھی) اس کی اجازت کے بغیر کلام نہیں کر سکے گا، پھر ان میں بعض بدبخت ہوں گے اور بعض نیک بخت،
اس کے بعد جس دن وہ آجائے گا تو کوئی شخص بھی ِذنِ خدا کے بغیر کسی سے بات بھی نہ کرسکے گا -اس دن کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت
جس دن وه آجائے گی مجال نہ ہوگی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات بھی کر لے، سو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی نیک بخت
تو اس (خدا) کی اجازت کے بغیر کوئی متنفس بات نہیں کر سکے گا (اس دن) کچھ لوگ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔
فَأَمَّا ٱلَّذِينَ شَقُوا۟ فَفِى ٱلنَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌۭ وَشَهِيقٌ ﴿١٠٦﴾
پھر جو بد ہوں گےتو وہ آگ میں ہوں گے کہ اس میں ان کی چیخ و پکار پڑی رہے گی
جو بد بخت ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے (جہاں گرمی اور پیاس کی شدت سے) وہ ہانپیں گے اور پھنکارے ماریں گے
تو وہ جو بدبخت ہیں وہ تو دوزخ میں ہیں وہ اس گدھے کی طرح رینکیں گے
تو جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں (ڈال دیئے جائیں گے) اس میں ان کا چلانا اور دھاڑنا ہوگا
سو جو لوگ بدبخت ہوں گے (وہ) دوزخ میں (پڑے) ہوں گے ان کے مقدر میں وہاں چیخنا اور چلّانا ہوگا،
پس جو لوگ بدبخت ہوں گے وہ جہّنم میں رہیں گے جہاں اُن کے لئے صرف ہائے وائے اور چیخ پکار ہوگی
لیکن جو بدبخت ہوئے وه دوزخ میں ہوں گے وہاں چیخیں گے چلائیں گے
جب وہ دن آئے گا تو جو بدبخت ہیں وہ آتشِ دوزخ میں ہوں گے ان کیلئے وہاں چیخنا چلانا ہوگا۔
خَٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَٰوَٰتُ وَٱلْأَرْضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌۭ لِّمَا يُرِيدُ ﴿١٠٧﴾
اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان زمین قائم ہیں ہاں اگر تیرے الله ہی کو منظور ہو (تو دوسری بات ہے) بے شک تیار رب جو چاہے اسے پورےطور سے کر سکتا ہے
اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں، الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے بے شک تیرا رب پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے
وہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین رہیں مگر جتنا تمہارے رب نے چاہا بیشک تمہارا رب جب جو چاہے کرے،
(اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں، اسی میں رہیں گے مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ بےشک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کردیتا ہے
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین (جو اس وقت ہوں گے) قائم رہیں مگر یہ کہ جو آپ کا رب چاہے۔ بیشک آپ کا رب جو ارادہ فرماتا ہے کر گزرتا ہے،
وہ وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں جب تک آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ آپ کا پروردگار نکالنا چاہے کہ وہ جو بھی چاہے کرسکتا ہے
وه وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں جب تک آسمان وزمین برقرار رہیں۔ سوائے اس وقت کے جو تمہارا رب چاہے۔ یقیناً تیرا رب جو کچھ چاہے کر گزرتا ہے
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں۔ اِلا یہ کہ آپ کا پروردگار (کچھ اور) چاہے بے شک آپ کا پروردگار (قادرِ مختار ہے) جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔
۞ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ سُعِدُوا۟ فَفِى ٱلْجَنَّةِ خَٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَٰوَٰتُ وَٱلْأَرْضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ ۖ عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوذٍۢ ﴿١٠٨﴾
اور جو لوگ نیک بخت ہیں سو جنت میں ہو ں گے اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان زمین قائم ہیں ہاں اگر تیرے الله ہی کو منظور ہو تو (دوسری بات ہے) یہ بے انتہا عطیہ ہو گا
رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو وہ جنت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں، الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا
اور وہ جو خوش نصیب ہوئے وہ جنت میں ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین مگر جتنا تمہارے رب نے چاہا یہ بخشش ہے کبھی ختم نہ ہوگی،
اور جو نیک بخت ہوں گے، وہ بہشت میں داخل کیے جائیں گے اور جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ بےشک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کردیتا ہے۔ اور جو نیک بخت ہوں گے وہ بہشت میں داخل کئے جائیں گے (اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ یہ (خدا کی) بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی
اور جو لوگ نیک بخت ہوں گے (وہ) جنت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین (جو اس وقت ہوں گے) قائم رہیں مگر یہ کہ جو آپ کا رب چاہے، یہ وہ عطا ہوگی جو کبھی منقطع نہ ہوگی،
اور جو لوگ نیک بخت ہیں وہ جنت میں ہوں گے اور وہیں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں مگر یہ کہ پروردگار اس کے خلاف چاہے ...._یہ خدا کی ایک عطا ہے جو ختم ہونے والی نہیں ہے
لیکن جو نیک بخت کئے گئے وه جنت میں ہوں گے جہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان وزمین باقی رہے مگر جو تیرا پروردگار چاہے۔ یہ بے انتہا بخشش ہے
اور جو نیک بخت ہیں وہ بہشت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں۔ اِلا یہ کہ آپ کا پروردگار (کچھ اور) چاہے (یہ وہ) عطیہ ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگا۔
فَلَا تَكُ فِى مِرْيَةٍۢ مِّمَّا يَعْبُدُ هَٰٓؤُلَآءِ ۚ مَا يَعْبُدُونَ إِلَّا كَمَا يَعْبُدُ ءَابَآؤُهُم مِّن قَبْلُ ۚ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنقُوصٍۢ ﴿١٠٩﴾
سو تو ان چیزوں سے شک میں نہ رہ جنہیں یہ پوجتے ہیں یہ لوگ کچھ نہیں پوجتے مگر اسی طرح سے کہ جس طرح ان سے پہلے ان کے باپ دادا پوجتے تھے اور بے شک ہم انہیں عذاب کا پورا حصہ دے کر رہیں گے
پس اے نبیؐ، تو ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں نہ رہ جن کی یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں یہ تو (بس لکیر کے فقیر بنے ہوئے) اُسی طرح پوجا پاٹ کیے جا رہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے، اور ہم اِن کا حصہ اِنہیں بھرپور دیں گے بغیر اس کے کہ اس میں کچھ کاٹ کسر ہو
تو اے سننے والے! دھوکا میں نہ پڑ اس سے جیسے یہ کافر پوجتے ہیں یہ ویسا ہی پوجتے ہیں جیسا پہلے ان کے باپ دادا پوجتے تھے اور بیشک ہم ان کا حصہ انہیں پورا پھیردیں گے جس میں کمی نہ ہوگی،
تو یہ لوگ جو (غیر خدا کی) پرستش کرتے ہیں۔ اس سے تم خلجان میں نہ پڑنا۔ یہ اسی طرح پرستش کرتے ہیں جس طرح پہلے سے ان کے باپ دادا پرستش کرتے آئے ہیں۔ اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پورا بلا کم وکاست دینے والے ہیں
پس (اے سننے والے!) تو ان کے بارے میں کسی (بھی) شک میں مبتلا نہ ہو جن کی یہ لوگ پوجا کرتے ہیں۔ یہ لوگ (کسی دلیل و بصیرت کی بنا پر) پرستش نہیں کرتے مگر (صرف اس طرح کرتے ہیں) جیسے ان سے قبل ان کے باپ دادا پرستش کرتے چلے آرہے ہیں۔ اور بیشک ہم انہیں یقیناً ان کا پورا حصۂ (عذاب) دیں گے جس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی،
لہذا خدا کے علاوہ جس کی بھی یہ پرستش کرتے ہیں اس کی طرف سے آپ کسی شبہ میں نہ پڑیں یہ اسی طرح پرستش کررہے ہیں جس طرح ان کے باپ دادا کررہے تھے اور ہم انہیں پورا پورا حّصہ بغیر کسی کمی کے دیں گے
اس لئے آپ ان چیزوں سے شک وشبہ میں نہ رہیں جنہیں یہ لوگ پوج رہے ہیں، ان کی پوجا تو اس طرح ہے جس طرح ان کے باپ دادوں کی اس سے پہلے تھی۔ ہم ان سب کو ان کا پورا پورا حصہ بغیر کسی کمی کے دینے والے ہی ہیں
(اے رسول(ص)) جن کی یہ (مشرک لوگ) عبادت کرتے ہیں آپ ان کے (باطل پرست ہونے) میں کسی شک میں نہ رہیں یہ اسی طرح (کورکورانہ) عبادت کر رہے ہیں جس طرح ان سے پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے اور ہم ان کو ان (کے نتائجِ اعمال) کا پورا پورا حصہ دیں گے جس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَٰبَ فَٱخْتُلِفَ فِيهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌۭ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِىَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِى شَكٍّۢ مِّنْهُ مُرِيبٍۢ ﴿١١٠﴾
اور البتہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی پھراس میں اختلاف کیا گیا اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات مقرر نہ ہو چکی ہوتی تو ان میں فیصلہ ہو جاتا اور بے شک اس کی طرف سے ایسے شک میں ہیں کہ مطمئن نہیں ہو نے دیتا
ہم اس سے پہلے موسیٰؑ کو بھی کتاب دے چکے ہیں اور اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا (جس طرح آج اِس کتاب کے بارے میں کیا جا رہا ہے جو تمہیں دی گئی ہے) اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے ہی طے نہ کر دی گئی ہوتی تو اِن اختلاف کرنے والوں کے درمیان کبھی کا فیصلہ چکا دیا گیا ہوتا یہ واقعہ ہے کہ یہ لوگ اس کی طرف سے شک اور خلجان میں پڑے ہوئے ہیں
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں پھوٹ پڑگئی اگر تمہارے رب کی ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی تو جبھی ان کا فیصلہ کردیا جاتا اور بیشک وہ اس کی طرف سے دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔ اور وہ تو اس سے قوی شبہے میں (پڑے ہوئے) ہیں
اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب دی پھر اس میں اختلاف کیا جانے لگا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے صادر نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے درمیان ضرور فیصلہ کر دیا گیا ہوتا، اور وہ یقینًا اس (قرآن) کے بارے میں اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیں،
اور ہم نے موسٰی علیھ السّلام کو کتاب دی تو اس میں بھی اختلاف پیدا کردیا گیا اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے بات نہ ہوگئی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور یہ لوگ اس عذاب کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں
یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی۔ پھر اس میں اختلاف کیا گیا، اگر پہلے ہی آپ کے رب کی بات صادر نہ ہوگئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ کر دیا جاتا، انہیں تو اس میں سخت شبہ ہے
اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تو اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک بات پہلے سے طئے نہ کر دی گئی ہوتی (کہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرنی) تو کبھی کا ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا اور وہ اس (عذاب) کے بارے میں تردد انگیز شک میں مبتلا ہیں۔
وَإِنَّ كُلًّۭا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَٰلَهُمْ ۚ إِنَّهُۥ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌۭ ﴿١١١﴾
اورجتنے لوگ ہیں جب وقت آیا تیرا رب انہیں ان کے اعمال پورے دے گا بےشک وہ خبردار ہے اس چیز سے جو کر رہے ہیں
اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا، یقیناً وہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے
اور بیشک جتنے ہیں ایک ایک کو تمہارا رب اس کا عمل پورا بھردے گا اسے ان کے کا موں کی خبر ہے،
اور تمہارا پروردگار ان سب کو (قیامت کے دن) ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ بےشک جو عمل یہ کرتے ہیں وہ اس سے واقف ہے
بیشک آپ کا رب ان سب کو ان کے اَعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا، وہ جو کچھ کر رہے ہیں یقینًا وہ اس سے خوب آگاہ ہے،
اور یقیناتمہارا پروردگار سب کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ ان سب کے اعمال سے خوب باخبر ہے
یقیناًان میں سے ہر ایک جب ان کے روبرو جائے گا تو آپ کا رب اسے اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ بیشک وه جو کر رہے ہیں ان سے وه باخبر ہے
اور یقیناً آپ کا پروردگار ان سب کو ان کے اعمال کا (بدلہ) پورا پورا دے گا بے شک جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں خدا اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
فَٱسْتَقِمْ كَمَآ أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا۟ ۚ إِنَّهُۥ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴿١١٢﴾
سو تو پکا رجیسا تجھے حکم دیا گیا ہے اور جنہوں نے تیرے ساتھ توبہ کی ہے اور حد سے نہ بڑھو بے شک وہ دیکھتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو
پس اے محمدؐ، تم، اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو جو کچھ تم کر رہے ہو اس پر تمہارا رب نگاہ رکھتا ہے
تو قائم رہو جیسا تمہیں حکم ہے اور جو تمہارے ساتھ رجوع لایا ہے اور اے لوگو! سرکشی نہ کرو بیشک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے،
سو (اے پیغمبر) جیسا تم کو حکم ہوتا ہے (اس پر) تم اور جو لوگ تمہارے ساتھ تائب ہوئے ہیں قائم رہو۔ اور حد سے تجاوز نہ کرنا۔ وہ تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے
پس آپ ثابت قدم رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی (ثابت قدم رہے) جس نے آپ کی معیت میں (اﷲ کی طرف) رجوع کیا ہے، اور (اے لوگو!) تم سرکشی نہ کرنا، بیشک تم جو کچھ کرتے ہو وہ اسے خوب دیکھ رہا ہے،
لہذا آپ کو جس طرح حکم دیا گیا ہے اسی طرح استقامت سے کام لیں اور وہ بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ توبہ کرلی ہے اور کوئی کسی طرح کی زیادتی نہ کرے کہ خدا سب کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے
پس آپ جمے رہیئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وه لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کر چکے ہیں، خبردار تم حد سے نہ بڑھنا، اللہ تمہارے تمام اعمال کا دیکھنے واﻻ ہے
پس (اے رسول(ص)) جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ خود اور وہ لوگ بھی جنہوں نے (کفر و عصیان سے) توبہ کر لی ہے اور آپ کے ساتھ ہیں (راہِ راست پر) ثابت قدم رہیں اور حد سے نہ بڑھیں (یقین کرو کہ) تم جو کچھ کرتے ہو وہ (اللہ) اسے دیکھ رہا ہے۔
وَلَا تَرْكَنُوٓا۟ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿١١٣﴾
اوران کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں پھر تمہیں بھی آگ چھوئے گی اور الله کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے پھر کہیں سے مدد نہ پاؤ گے
اِن ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آ جاؤ گے اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی
اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آ گ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیں پھر مدد نہ پاؤ گے،
اور جو لوگ ظالم ہیں، ان کی طرف مائل نہ ہونا، نہیں تو تمہیں (دوزخ کی) آگ آلپٹے گی اور خدا کے سوا تمہارے اور دوست نہیں ہیں۔ اگر تم ظالموں کی طرف مائل ہوگئے تو پھر تم کو (کہیں سے) مدد نہ مل سکے گی
اور تم ایسے لوگوں کی طرف مت جھکنا جو ظلم کر رہے ہیں ورنہ تمہیں آتشِ (دوزخ) آچھوئے گی اور تمہارے لئے اﷲ کے سوا کوئی مددگار نہ ہوگا پھر تمہاری مدد (بھی) نہیں کی جائے گی،
اور خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرنا کہ جہّنم کی آگ تمہیں چھولے گی اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست نہیں ہوگا اور تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی
دیکھو ﻇالموں کی طرف ہرگز نہ جھکنا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی) آگ لگ جائے گی اور اللہ کے سوا اور تمہارا مددگار نہ کھڑا ہو سکے گا اور نہ تم مدد دیئے جاؤ گے
اور خبردار! ظالموں کی طرف مائل نہ ہونا ورنہ (ان کی طرح) تمہیں بھی آتشِ دوزخ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست نہ ہوگا اور نہ ہی تمہاری کوئی مدد کی جائے گی۔
وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ طَرَفَىِ ٱلنَّهَارِ وَزُلَفًۭا مِّنَ ٱلَّيْلِ ۚ إِنَّ ٱلْحَسَنَٰتِ يُذْهِبْنَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّٰكِرِينَ ﴿١١٤﴾
اور دن کے دونو ں طرف اورکچھ حصہ رات کا نماز قائم کر بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کرتی ہیں یہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے
اور دیکھو، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں
اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں کناروں اور کچھ رات کے حصوں میں بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کو،
اور دن کے دونوں سروں (یعنی صبح اور شام کے اوقات میں) اور رات کی چند (پہلی) ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ان کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں
اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے،
اور پیغمبر آپ دن کے دونوں حصّو ں میں اور رات گئے نماز قائم کریں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں اور یہ ذک» خدا کرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے
دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے
(اے نبی) دن کے دونوں کناروں (صبح و شام) اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کریں بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں یہ نصیحت ہے ان لوگوں کیلئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
وَٱصْبِرْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿١١٥﴾
اور صبر کر بے شک الله نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا
اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا
اور صبر کرو کہ اللہ نیکوں کا نیگ (اجر) ضائع نہیں کرتا،
اور صبر کیے رہو کہ خدا نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا
اور آپ صبر کریں بیشک اﷲ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں فرماتا،
اور آپ صبر سے کام لیں کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے
آپ صبر کرتے رہئے یقیناً اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا
اور آپ صبر کیجئے! بے شک اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
فَلَوْلَا كَانَ مِنَ ٱلْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُو۟لُوا۟ بَقِيَّةٍۢ يَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْفَسَادِ فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًۭا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَٱتَّبَعَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ مَآ أُتْرِفُوا۟ فِيهِ وَكَانُوا۟ مُجْرِمِينَ ﴿١١٦﴾
سو ان جماعتوں میں ایسے لوگ کیوں نہ ہوئے جو تم سے پہلے تھیں جو ملک میں فساد پھیلانے سے منع کرتے بجز چند آدمیوں کے جنہیں ہم نے ان میں سے بچا لیا تھا اور جن لوگو ں نے نافرمانی کی تھی وہ تو انہیں لذتوں کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو دی گئی تھیں اور وہ مجرم تھے
پھر کیوں نہ اُن قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے اہل خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا، ورنہ ظالم لوگ تو انہی مزوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے تھے اور وہ مجرم بن کر رہے
تو کیوں نہ ہوئے تم میں سے اگلی سنگتوں (قوموں) میں ایسے جن میں بھلائی کا کچھ حصہ لگا رہا ہوتا کہ زمین میں فساد سے روکتے ہاں ان میں تھوڑے تھے وہی جن کو ہم نے نجات دی اور ظالم اسی عیش کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دیا گیا اور وہ گنہگار تھے،
تو جو اُمتیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ان میں ایسے ہوش مند کیوں نہ ہوئے جو ملک میں خرابی کرنے سے روکتے ہاں (ایسے) تھوڑے سے (تھے) جن کو ہم نے ان میں سے مخلصی بخشی۔ اور جو ظالم تھے وہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے جس میں عیش وآرام تھا اور وہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے تھے
سو تم سے پہلے کی امتوں میں ایسے صاحبانِ فضل و خرد کیوں نہ ہوئے جو لوگوں کو زمین میں فساد انگیزی سے روکتے بجز ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے جنہیں ہم نے نجات دے دی، اور ظالموں نے عیش و عشرت (کے اسی راستے) کی پیروی کی جس میں وہ پڑے ہوئے تھے اور وہ (عادی) مجرم تھے،
تو تمہارے پہلے والے زمانوں اور نسلوں میں ایسے صاحبان عقل کیوں نہیں پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے علاوہ ان چند افراد کے جنہیں ہم نے نجات دے دی اور ظالم تو اپنے عیش ہی کے پیچھے پڑے رہے اور یہ سب کے سب مجرم تھے
پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خیر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی، ﻇالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑ گئے جس میں انہیں آسودگی دی گئی تھی اور وه گنہگار تھے
ان قوموں اور نسلوں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں معدودے چند افراد کے سوا جن کو ہم نے نجات دی تھی ایسے سمجھدار اور نیکوکار لوگ کیوں نہ ہوئے جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے اور ظالم لوگ تو اسی عیش و عشرت کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو دی گئی تھی اور یہ سب لوگ مجرم تھے۔
وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ ٱلْقُرَىٰ بِظُلْمٍۢ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ ﴿١١٧﴾
اور تیرا رب ہرگز ایسا نہیں جو بستیوں کو زبردستی ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیک ہوں
تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں
اور تمہارا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو بے وجہ ہلاک کردے اور ان کے لوگ اچھے ہوں،
اور تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو جب کہ وہاں کے باشندے نیکوکار ہوں ازراہِ ظلم تباہ کردے
اور آپ کا رب ایسا نہیں کہ وہ بستیوں کو ظلمًا ہلاک کر ڈالے درآنحالیکہ اس کے باشندے نیکوکار ہوں،
اور آپ کے پروردگار کا کام یہ نہیں ہے کہ کسی قریہ کو ظلم کرکے تباہ کردے جب کہ اس کے رہنے والے اصلاح کرنے والے ہوں
آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ﻇلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکو کار ہوں
اور آپ کا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ وہ ظلم کرکے (ناحق) بستیوں کو ہلاک کر دے جبکہ ان کے باشندے نیکوکار اور اصلاح کرنے والے ہوں۔
وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ ٱلنَّاسَ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ ﴿١١٨﴾
اور اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگو ں کو ایک رستہ پر ڈال دیتا اور ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے
بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے
اور اگرتمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی امت کردیتا اور وہ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی جماعت کردیتا لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے
اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا (مگر اس نے جبراً ایسا نہ کیا بلکہ سب کو مذہب کے اختیار کرنے میں آزادی دی) اور (اب) یہ لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے،
اور اگر آپ کا پروردگار چاہ لیتا تو سارے انسانوں کو ایک قوم بنادیتا (لیکن وہ جبر نہیں کرتاہے) لہذا یہ ہمیشہ مختلف ہی رہیں گے
اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راه پر ایک گروه کر دیتا۔ وه تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے
اگر آپ کا پروردگار (زبردستی) چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت (گروہ) بنا دیتا مگر اپنی حکمتِ کاملہ سے اس نے ایسا نہیں کیا لہٰذا یہ لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتے رہیں گے۔
إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿١١٩﴾
مگر جس پر تیرے رب نے رحم کیا اور اسی لیے انہیں پیدا کیا ہے اور تیرے رب کی یہ بات پوری ہو کر رہے گی کہ البتہ دوزخ کو اکھٹے جنوں اور آدمیوں سے بھر دوں گا
اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے اِسی (آزادی انتخاب و اختیار) کے لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہو گئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جن اور انسان، سب سے بھر دوں گا
مگر جن پر تمہارے رب نے رحم کیا اور لوگ اسی لیے بنائے ہیں اور تمہارے رب کی بات پوری ہوچکی کہ بیشک ضرور جہنم بھر دوں گا جنوں اور آدمیوں کو ملا کر
مگر جن پر تمہارا پروردگار رحم کرے۔ اور اسی لیے اس نے ان کو پیدا کیا ہے اور تمہارے پروردگار کا قول پورا ہوگیا کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا
سوائے اس شخص کے جس پر آپ کا رب رحم فرمائے، اور اسی لئے اس نے انہیں پیدا فرمایا ہے، اور آپ کے رب کا فرمان پورا ہو چکا بیشک میں دوزخ کو جِنّوں اور انسانوں میں سے سب (اہلِ باطل) سے ضرور بھر دوں گا،
علاوہ ان کے جن پر خدا نے رحم کردیا ہو اور اسی لئے انہیں پیدا کیا ہے اور آپ کے پروردگار کی یہ بات قطعی حق ہے کہ ہم جہنم ّکو انسانوں اور جنوں سے بھر کر رہیں گے
بجز ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے، انہیں تو اسی لئے پیدا کیا ہے، اور آپ کے رب کی یہ بات پوری ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے پر کروں گا
سوائے اس کے جس پر آپ کا پروردگار رحم فرمائے اور اسی (رحمت) کے لئے تو ان کو پیدا کیا ہے۔ اور آپ کے پروردگار کی بات پوری ہوگئی کہ میں جہنم کو تمام جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔
وَكُلًّۭا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنۢبَآءِ ٱلرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِۦ فُؤَادَكَ ۚ وَجَآءَكَ فِى هَٰذِهِ ٱلْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌۭ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿١٢٠﴾
اور ہم رسولوں کے حالات تیرے پاس اس لیے بیان کرتے ہیں کہ ان سے تیرے دل کو مضبوط کر دیں اور ان واقعات میں تیرے پاس حق بات پہنچ جائے گی اور ایمانداروں کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہے
اور اے محمدؐ، یہ پیغمبروں کے قصے جو ہم تمہیں سناتے ہیں، وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کرتے ہیں ان کے اندر تم کو حقیقت کا علم ملا اور ایمان لانے والوں کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوئی
اور سب کچھ ہم تمہیں رسولوں کی خبریں سناتے ہیں جس سے تمہا را دل ٹھیرائیں اور اس سورت میں تمہارے پاس حق آیا اور مسلمانوں کو پند و نصیحت
(اے محمدﷺ) اور پیغمبروں کے وہ سب حالات جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں ان سے ہم تمہارے دل کو قائم رکھتے ہیں۔ اور ان (قصص) میں تمہارے پاس حق پہنچ گیا اور یہ مومنوں کے لیے نصیحت اور عبرت ہے
اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے سب حالات آپ کو سنا رہے ہیں جس سے ہم آپ کے قلبِ (اَطہر) کو تقویت دیتے ہیں، اور آپ کے پاس اس (سورت) میں حق اور نصیحت آئی ہے اور اہلِ ایمان کے لئے عبرت (و یاددہانی بھی)،
اور ہم قدیم رسولوں کے واقعات آپ سے بیان کررہے ہیں کہ ان کے ذریعہ آپ کے دل کو مضبوط رکھیں اور ان واقعات میں حق ,نصیحت اور صاحبان هایمان کے لئے سامانِ عبرت بھی ہے
رسولوں کے سب احوال ہم آپ کے سامنے آپ کے دل کی تسکین کے لئے بیان فرما رہے ہیں۔ آپ کے پاس اس سورت میں بھی حق پہنچ چکا جو نصیحت ووعﻆ ہے مومنوں کے لئے
اور (اے رسول) پیغمبروں کے قصوں میں سے یہ سب قصے جو ہم آپ کو سناتے ہیں (یہ اس لئے ہے کہ) ہم آپ کے دل کو مضبوط کر دیں اور پھر ان (قصوں) کے اندر تمہارے پاس حق آگیا۔ اور اہلِ ایمان کیلئے پند و موعظہ اور نصیحت و یاددہانی ہے۔
وَقُل لِّلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ٱعْمَلُوا۟ عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَٰمِلُونَ ﴿١٢١﴾
اوران سے کہہ دو جو ایمان نہیں لاتے اپنے جگہ پر کام کیے جاؤ ہم بھی کام کرتے ہیں
رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے، تو ان سے کہہ دو کہ تم اپنے طریقے پر کام کرتے رہو اور ہم اپنے طریقے پر کیے جاتے ہیں
اور کافروں سے فرماؤ تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ ہم اپنا کام کرتے ہیں
اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ان سے کہہ دو کہ تم اپنی جگہ عمل کیے جاؤ۔ ہم اپنی جگہ عمل کیے جاتے ہیں
اور آپ ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے فرما دیں: تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو (اور) ہم (اپنے مقام پر) عمل پیرا ہیں،
اور آپ ان بے ایمانوں سے کہہ دیں کہ تم اپنی جگہ پر کام کرو اور ہم اپنی جگہ پر اپنا کام کررہے ہیں
ایمان نہ ﻻنے والوں سے کہہ دیجئے کہ تم اپنے طور پر عمل کئے جاؤ ہم بھی عمل میں مشغول ہیں
اور (اے پیغمبر(ص)) جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان سے کہہ دیجیے! تم اپنی جگہ اور اپنے طور پر کام کرو (اور ہم) اپنی جگہ اور اپنے طور پر کام کر رہے ہیں۔
وَٱنتَظِرُوٓا۟ إِنَّا مُنتَظِرُونَ ﴿١٢٢﴾
اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں
انجام کار کا تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں
اور راہ دیکھو ہم بھی راہ دیکھتے ہیں
اور (نتیجہٴ اعمال کا) تم بھی انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں
اور تم (بھی) انتظار کرو ہم (بھی) منتظر ہیں،
اور پھر انتظار کرو کہ ہم بھی انتظار کرنے والے ہیں
اور تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں
تم بھی (نتیجہ کا) انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔
وَلِلَّهِ غَيْبُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ ٱلْأَمْرُ كُلُّهُۥ فَٱعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿١٢٣﴾
اور آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ بات الله ہی جانتا ہے اور سب کام کا رجوع اسی کی طرف ہے پس اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھ اور تیرا رب بے خبر نہیں اس سے جو کرتے ہو
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے پس اے نبیؐ، تو اس کی بندگی کر اور اسی پر بھروسا رکھ، جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو تیرا رب اس سے بے خبر نہیں ہے
اور اللہ ہی کے لیے ہیں آسمانوں اور زمین کے غیب اور اسی کی طرف سب کاموں کی رجوع ہے تو اس کی بندگی کرو اور اس پر بھروسہ رکھو، اور تمہارا رب تمہارے کا موں سے غافل نہیں،
اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم خدا ہی کو ہے اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے۔ تو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ اور جو کچھ تم کررہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بےخبر نہیں
اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب اﷲ ہی کے لئے ہے اور اسی کی طرف ہر ایک کام لوٹایا جاتا ہے سو اس کی عبادت کرتے رہیں اور اسی پر توکل کئے رکھیں، اور تمہارا رب تم سب لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے،
اور اللہ ہی کے لئے آسمان اور زمین کا کل غیب ہے اور اسی کی طرف تمام امور کی بازگشت ہے لہذا آپ اسی کی عبادت کریں اور اسی پر اعتماد کریں کہ آپ کا رب لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے
زمینوں اور آسمانوں کا علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، تمام معاملات کا رجوع بھی اسی کی جانب ہے، پس تجھے اسی کی عبادت کرنی چاہئے اور اسی پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بے خبر نہیں
اور آسمانوں اور زمین کا علمِ غیب اللہ ہی سے مخصوص ہے اور اسی کی طرف تمام معاملات کی بازگشت ہے تو آپ(ص) اسی کی عبادت کریں اور اسی پر بھروسہ کریں اور آپ کا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔