Setting
Surah Abraham [Ibrahim] in Urdu
الٓر ۚ كِتَٰبٌ أَنزَلْنَٰهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ ٱلنَّاسَ مِنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَٰطِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَمِيدِ ﴿١﴾
یہ ایک کتا ب ہے ہم نے اسے تیری طرف نازل کیا ہے تاکہ تو لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف غالب تعرف کیے ہوئے راستہ کی طرف نکالے
ا ل ر اے محمدؐ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے
ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری کہ تم لوگوں کو اندھیریوں سے اجالے میں لا ؤ ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ کی طرف جو عزت والا سب خوبیوں والا ہے
الٓرٰ۔ (یہ) ایک (پُرنور) کتاب (ہے) اس کو ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاؤ (یعنی) ان کے پروردگار کے حکم سے غالب اور قابل تعریف (خدا) کے رستے کی طرف
الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ (عظیم) کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کے) نور کی جانب لے آئیں (مزید یہ کہ) ان کے رب کے حکم سے اس کی راہ کی طرف (لائیں) جو غلبہ والا سب خوبیوں والا ہے،
الۤر -یہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں اور خدائے عزیز و حمید کے راستے پر لگادیں
الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف ﻻئیں، ان کے پروردگار کے حکم سے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف
الف، لام، را۔ (اے رسول(ص)) یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ پر اس لئے نازل کی ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی کی طرف لائیں (یعنی) اس خدا کے راستہ کی طرف جو غالب (اور) قابل تعریف ہے۔
ٱللَّهِ ٱلَّذِى لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۗ وَوَيْلٌۭ لِّلْكَٰفِرِينَ مِنْ عَذَابٍۢ شَدِيدٍ ﴿٢﴾
یعنی الله جس کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور کافروں پر افسوس کہ انہیں سخت عذاب ہونا ہے
اور زمین اور آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے اور سخت تباہ کن سزا ہے قبول حق سے انکار کرنے والوں کے لیے
اللہ کہ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور کافروں کی خرابی ہے ایک سخت عذاب سے
وہ خدا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور کافروں کے لیے عذاب سخت (کی وجہ) سے خرابی ہے
وہ اﷲ کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) اسی کا ہے، اور کفّار کے لئے سخت عذاب کے باعث بربادی ہے،
وہ اللہ وہ ہے جس کے لئے زمین و آسمان کی ہر شے ہے اور کافروں کے لئے تو سخت ترین اور افسوس ناک عذاب ہے
جس اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اور کافروں کے لئے تو سخت عذاب کی خرابی ہے
وہ اللہ کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور تباہی و بربادی ہے سخت عذاب کی وجہ سے ان کافروں کیلئے۔
ٱلَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا عَلَى ٱلْءَاخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ فِى ضَلَٰلٍۭ بَعِيدٍۢ ﴿٣﴾
جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں پسند کرتے ہیں اور الله کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں وہ دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں
جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں، جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق) ٹیٹرھا ہو جائے یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں
جنہیں آخرت سے دنیا کی زندگی پیاری ہے اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی چاہتے ہیں، وہ دور کی گمراہی میں ہیں
جو آخرت کی نسبت دنیا کو پسند کرتے اور (لوگوں کو) خدا کے رستے سے روکتے اور اس میں کجی چاہتے ہیں۔ یہ لوگ پرلے سرے کی گمراہی میں ہیں
(یہ) وہ لوگ ہیں جو دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں زیادہ پسند کرتے ہیں اور (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس (دینِ حق) میں کجی تلاش کرتے ہیں۔ یہ لوگ دور کی گمراہی میں (پڑ چکے) ہیں،
وہ لوگ جو زندگانی دنیا کو آخرت کے مقابلے میں پسند کرتے ہیں اور لوگوں کو راسِ خدا سے روکتے ہیں اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں یہ گمراہی میں بہت دور تک چلے گئے ہیں
جو آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کو پسند رکھتے ہیں اور اللہ کی راه سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں
جو دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں اور جو اللہ کی راہ سے (لوگوں کو) روکتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے ٹیڑھا بنا دیں یہ لوگ بڑی دور کی گمراہی میں ہیں۔
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ ٱللَّهُ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ﴿٤﴾
اور ہم نے ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ انہیں سمجھا سکے پھر الله جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اوروہ غالب حکمت والا ہے
ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، وہ بالا دست اور حکیم ہے
اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا کہ وہ انہیں صاف بتائے پھراللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور وہ راہ دکھاتا ہے جسے چاہے، اور وہی عزت و حکمت والا ہے،
اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام خدا) کھول کھول کر بتا دے۔ پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے
اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وہ ان کے لئے (پیغامِ حق) خوب واضح کر سکے، پھر اﷲ جسے چاہتا ہے گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، اور وہ غالب حکمت والا ہے،
اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا اسی کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ لوگوں پر باتوں کو واضح کرسکے اس کے بعد خدا جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے وہ صاحب هعزّت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی
ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے۔ اب اللہ جسے چاہے گمراه کر دے، اور جسے چاہے راه دکھا دے، وه غلبہ اور حکمت واﻻ ہے
اور ہم نے (دنیا میں) جب بھی کوئی رسول بھیجا ہے تو اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کیلئے (پیغامِ خداوندی) کھول کر بیان کرے پس اللہ جسے چاہتا ہے (توفیق سلب کرکے) گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے وہ (سب پر) غالب ہے، بڑا حکمت والا ہے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِـَٔايَٰتِنَآ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّىٰمِ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍۢ لِّكُلِّ صَبَّارٍۢ شَكُورٍۢ ﴿٥﴾
اورالبتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دےکر بھیجا تھا کہاپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال اورانہیں الله کے دن یاد دلا بے شک اس میں ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لیے بڑی نشانیاں ہیں
ہم اِس سے پہلے موسیٰؑ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخ الٰہی کے سبق آموز واقعات سنا کر نصیحت کر اِن واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیریوں سے اجالے میں لا، اور انہیں اللہ کے دن یا د دِلا بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبرے والے شکر گزار کرو،
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ اس میں ان لوگوں کے لیے جو صابر وشاکر ہیں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں
اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ (اے موسٰی!) تم اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جاؤ اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ (جو ان پر اور پہلی امتوں پر آچکے تھے)۔ بیشک اس میں ہر زیادہ صبر کرنے والے (اور) خوب شکر بجا لانے والے کے لئے نشانیاں ہیں،
اور ہم نے موسٰی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو ظلمتوں سے نور کی طرف نکال کر لائیں اور انہیں خدائی دنوں کی یاد دلائیں کہ بیشک اس میں تمام صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں
(یاد رکھو جب کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال اور انہیں اللہ کے احسانات یاد دﻻ۔ اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لئے
اور بے شک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تھا (اور حکم دیا) کہ اپنی قوم کو (کفر کے) اندھیروں سے نکال کر (ایمان کی) روشنی میں لائے اور انہیں اللہ کے مخصوص دن یاد دلاؤ یقینا اس (یاددہانی) میں ہر بڑے صبر و شکر کرنے والے کیلئے بڑی نشانیاں ہیں۔
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ ٱذْكُرُوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَىٰكُم مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوٓءَ ٱلْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَآءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَآءَكُمْ ۚ وَفِى ذَٰلِكُم بَلَآءٌۭ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌۭ ﴿٦﴾
اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا الله کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تمہیں فرعون کی قوم سے چھڑا یا وہ تمہیں برا عذاب چکھاتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اسمیں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی
یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا \"اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے اس نے تم کو فرعون والوں سے چھڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا یاد کرو اپنے اوپر اللہ کا احسان جب اس نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی جو تم کو بری مار دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیاں زندہ رکھتے، اور اس میں تمہارے رب کا بڑا فضل ہوا،
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا نے جو تم پر مہربانیاں کی ہیں ان کو یاد کرو جب کہ تم کو فرعون کی قوم (کے ہاتھ) سے مخلصی دی وہ لوگ تمہیں بُرے عذاب دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو مار ڈالتے تھے اور عورت ذات یعنی تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی
اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا: تم اپنے اوپر اللہ کے (اس) انعام کو یاد کرو جب اس نے تمہیں آلِ فرعون سے نجات دی جو تمہیں سخت عذاب پہنچاتے تھے اور تمہارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے، اور اس میں تمہارے رب کی جانب سے بڑی بھاری آزمائش تھی،
اور اس وقت کو یاد کرو جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دلائی جب کہ وہ بدترین عذاب میں مبتلا کررہے تھے کہ تمہارے لڑکوں کو ذبح کررہے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو (کنیزی کے لئے)زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑا سخت امتحان تھا
جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے وه احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کیے ہیں، جبکہ اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بڑے دکھ پہنچاتے تھے۔ تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زنده چھوڑتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی
اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا یعنی اس نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی جو تمہیں سخت عذاب پہنچاتے تھے اور وہ تمہارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِى لَشَدِيدٌۭ ﴿٧﴾
اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے
اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے\"
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دونگا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے،
اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کہ) میرا عذاب بھی سخت ہے
اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے،
اور جب تمہارے پروردگار نے اعلان کیا کہ اگر تم ہمارا شکریہ اد اکرو گے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کردیں گے اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو ہمارا عذاب بھی بہت سخت ہے
اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاه کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیاده دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے
اور یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے تمہیں مطلع کر دیا تھا کہ اگر (میرا) شکر ادا کروگے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر کفرانِ نعمت (ناشکری) کروگے تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔
وَقَالَ مُوسَىٰٓ إِن تَكْفُرُوٓا۟ أَنتُمْ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًۭا فَإِنَّ ٱللَّهَ لَغَنِىٌّ حَمِيدٌ ﴿٨﴾
اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور جو لوگ زمین میں ہیں سارے کفر کرو گے تو الله بے پروا تعریف کیا ہوا ہے
اور موسیٰؑ نے کہا کہ \"اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے\"
اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور زمین میں جتنے ہیں سب کا فر ہوجاؤ تو بیشک اللہ بے پروہ سب خوبیوں والا ہے،
اور موسیٰ نے (صاف صاف) کہہ دیا کہ اگر تم اور جتنے اور لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ناشکری کرو تو خدا بھی بےنیاز (اور) قابل تعریف ہے
اور موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: اگر تم اور وہ سب کے سب لوگ جو زمین میں ہیں کفر کرنے لگیں تو بیشک اللہ (ان سب سے) یقیناً بے نیاز لائقِ حمد و ثنا ہے،
اور موسٰی نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام بسنے والے بھی کافر ہوجائیں تو ہمارا اللہ سب سے بے نیاز ہے اور وہ قابلِ حمد و ستائش ہے
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بھی اللہ بے نیاز اور تعریفوں واﻻ ہے
اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم اور روئے زمین کے سب لوگ کفر اختیار کریں تو اللہ کو اس کی کیا پروا ہے وہ یقیناً بے نیاز (اور) قابلِ ستائش ہے۔
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَؤُا۟ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍۢ وَعَادٍۢ وَثَمُودَ ۛ وَٱلَّذِينَ مِنۢ بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا ٱللَّهُ ۚ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَٰتِ فَرَدُّوٓا۟ أَيْدِيَهُمْ فِىٓ أَفْوَٰهِهِمْ وَقَالُوٓا۟ إِنَّا كَفَرْنَا بِمَآ أُرْسِلْتُم بِهِۦ وَإِنَّا لَفِى شَكٍّۢ مِّمَّا تَدْعُونَنَآ إِلَيْهِ مُرِيبٍۢ ﴿٩﴾
کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جوتم سے پہلے تھے نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اورجو ان کے بعد ہوئے الله کےسوا جنہیں کوئی نہیں جانتا ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے پھرانہوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لوٹائے اور کہا ہم نہیں مانتے جو تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے اور جس دین کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہمیں تو اس میں بڑا شک ہے
کیا تمہیں اُن قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں؟ قوم نوحؑ، عاد، ثمود اور اُن کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے؟ اُن کے رسول جب اُن کے پاس صاف صاف باتیں اور کھلی کھلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو اُنہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے اور کہا کہ \"جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اُس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں\"
کیا تمہیں ان کی خبریں نہ آئیں جو تم سے پہلے تھی نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو ان کے بعد ہوئے، انہیں اللہ ہی جانے ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لے کر آئے تو وہ اپنے ہاتھ اپنے منہ کی طرف لے گئے اور بولے ہم منکر ہیں اس کے جو تمہارے ہاتھ بھیجا گیا اور جس راہ کی طرف ہمیں بلاتے ہو اس میں ہمیں وہ شک ہے کہ بات کھلنے نہیں دیتا،
بھلا تم کو ان لوگوں (کے حالات) کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے تھے (یعنی) نوح اور عاد اور ثمود کی قوم۔ اور جو ان کے بعد تھے۔ جن کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں (جب) ان کے پاس پیغمبر نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دیئے (کہ خاموش رہو) اور کہنے لگے کہ ہم تو تمہاری رسالت کو تسلیم نہیں کرتے اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے قوی شک میں ہیں
کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، (وہ) قومِ نوح اور عاد اور ثمود (کی قوموں کے لوگ) تھے اور (کچھ) لوگ جو ان کے بعد ہوئے، انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا (کیونکہ وہ صفحۂ ہستی سے بالکل نیست و نابود ہو چکے ہیں)، ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیوں کے ساتھ آئے تھے پس انہوں نے (اَز راہِ تمسخر و عناد) اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں ڈال لئے اور (بڑی جسارت کے ساتھ) کہنے لگے: ہم نے اس (دین) کا انکار کر دیا جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اور یقیناً ہم اس چیز کی نسبت اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیں جس کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو،
کیا تمہارے پاس اپنے سے پہلے والوں قوم نوح اور قوم عاد و ثمود اور جو ان کے بعد گزرے ہیں اور جنہیں خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے کی خبر نہیں آئی ہے کہ ان کے پاس اللہ کے رسول معجزات لے کر آئے اور انہوں نے ان کے ہاتھوں کو ان ہی کے منہ کی طرف پلٹا دیا اور صاف کہہ دیا کہ ہم تمہارے لائے ہوئے پیغام کے منکر ہیں اور ہمیں اس بات کے بارے میں واضح شک ہے جس کی طرف تم ہمیں دعوت دے رہے ہو
کیا تمہارے پاس تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں؟ یعنی قوم نوح کی اور عاد وﺛمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، ان کے پاس ان کے رسول معجزے ﻻئے، لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منھ میں دبالیے اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے
کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے (یعنی) قومِ نوح(ع) اور عاد و ثمود(ع) اور وہ لوگ جو ان کے بعد ہوئے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ جب ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلیں (معجزے) لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبا لئے اور کہا کہ جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور تم جس (دین) کی طرف ہمیں دعوت دیتے ہو ہم اس کی طرف سے تردد آمیز شک میں ہیں۔
۞ قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِى ٱللَّهِ شَكٌّۭ فَاطِرِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ۚ قَالُوٓا۟ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَٰنٍۢ مُّبِينٍۢ ﴿١٠﴾
ان کے رسولوں نے کہا کیا تمہیں الله میں شک ہے جس نے آسمان او زمین بنائے وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے کچھ گناہ بخشے اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے انہوں نے کہا تم بھی تو ہمارے جیسے انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان چیزوں سے روک دو جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے رہے سو کوئی کھلا ہوامعجزہ لاؤ
اُن کے رسولوں نے کہا \"کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا ر =ہا ہے تاکہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدت مقرر تک مہلت دے\" اُنہوں نے جواب دیا \"تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں تم ہمیں اُن ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے اچھا تو لاؤ کوئی صریح سند\"
ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ میں شک ہے آسمان اور زمین کا بنانے والا، تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے کچھ گناہ بخشے اور موت کے مقرر وقت تک تمہاری زندگی بے عذاب کاٹ دے، بولے تم تو ہمیں جیسے آدمی ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں اس سے باز رکھو جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے اب کوئی روشن سند ہمارے پاس لے آؤ
ان کے پیغمبروں نے کہا کیا (تم کو) خدا (کے بارے) میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمہارے گناہ بخشے اور (فائدہ پہنچانے کے لیے) ایک مدت مقرر تک تم کو مہلت دے۔ وہ بولے کہ تم تو ہمارے ہی جیسے آدمی ہو۔ تمہارا یہ منشاء ہے کہ جن چیزوں کو ہمارے بڑے پوجتے رہے ہیں ان (کے پوجنے) سے ہم کو بند کر دو تو (اچھا) کوئی کھلی دلیل لاؤ (یعنی معجزہ دکھاؤ)
ان کے پیغمبروں نے کہا: کیا اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا فرمانے والا ہے، (جو) تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے گناہوں کو تمہاری خاطر بخش دے اور (تمہاری نافرمانیوں کے باوجود) تمہیں ایک مقرر میعاد تک مہلت دیئے رکھتا ہے۔ وہ (کافر) بو لے: تم تو صرف ہمارے جیسے بشر ہی ہو، تم یہ چاہتے ہو کہ ہمیں ان (بتوں) سے روک دو جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سو تم ہمارے پاس کوئی روشن دلیل لاؤ،
تو رسولوں نے کہا کہ کیا تمہیں اللہ کے بارے میں بھی شک ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور تمہیں اس لئے بلاتا ہے کہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے اور ایک معینہ مدّت تک زمین میں چین سے رہنے دے ....تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ تم سب بھی ہمارے ہی جیسے بشر ہو اور چاہتے ہو کہ ہمیں ان چیزوں سے روک دو جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے تو اب کوئی کھلی ہوئی دلیل لے آؤ
ان کے رسولوں نے انہیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے واﻻ ہے وه تو تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے گناه معاف فرما دے، اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے۔ اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو
ان کے رسولوں نے کہا کیا (تمہیں) اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے گناہ بخش دے اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے اس پر ان لوگوں نے کہا تم نہیں ہو مگر ہمارے جیسے بشر (اور انسان) تم چاہتے ہو کہ جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے آئے ہیں ہمیں ان کی عبادت سے روکو! سو ہمارے پاس کوئی کھلا ہوا (ہمارا مطلوبہ) معجزہ لاؤ۔
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ ۖ وَمَا كَانَ لَنَآ أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَٰنٍ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ ﴿١١﴾
ان سے ان کے رسولوں نے کہا ضرور ہم بھی تمہارے جیسے ہی آدمی ہیں لیکن الله اپنے بندوں میں جس پر چاھتا ہے احسان کرتا ہے اور ہمارا کام نہیں کہ ہم الله کی اجازت کے سوا تمہیں کوئی معجزہ لا کر دکھائیں اور ایمان والوں کا بھروسہ اللهہی پر ہونا چاہیئے
ان کے رسولوں نے ان سے کہا \"واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سند لا دیں سند تو اللہ ہی کے اذن سے آسکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیے
ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم ہیں تو تمہاری طرح انسان مگر اللہ اپنے بندوں میں جس پر چاہے احسان فرماتا ہے اور ہمارا کام نہیں کہ ہم تمہارے پاس کچھ سند لے آئیں مگر اللہ کے حکم سے، اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے
پیغمبروں نے ان سے کہا کہ ہاں ہم تمہارے ہی جیسے آدمی ہیں۔ لیکن خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے (نبوت کا) احسان کرتا ہے اور ہمارے اختیار کی بات نہیں کہ ہم خدا کے حکم کے بغیر تم کو (تمہاری فرمائش کے مطابق) معجزہ دکھائیں اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیئے
ان کے رسولوں نے ان سے کہا: اگرچہ ہم (نفسِ بشریت میں) تمہاری طرح انسان ہی ہیں لیکن (اس فرق پر بھی غور کرو کہ) اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے (پھر برابری کیسی؟)، اور (رہ گئی روشن دلیل کی بات) یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر تمہارے پاس کوئی دلیل لے آئیں، اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ کرنا چاہئے،
ان سے رسولوں نے کہا کہ یقینا ہم تمہارے ہی جیسے بشر ہیں لیکن خدا جس بندے پر چاہتا ہے مخصوص احسان بھی کرتا ہے اور ہمارے اختیار میں یہ بھی نہیں ہے کہ ہم بلااذنِ خدا کوئی دلیل یا معجزہ لے آئیں اور صاحبان هایمان تو صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں
ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزه تمہیں ﻻ دکھائیں اور ایمان والوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے
ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ بے شک ہم نہیں ہیں مگر تمہارے جیسے بشر (اور انسان) مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا احسان فرماتا ہے اور ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم تمہیں کوئی کھلی ہوئی دلیل (معجزہ) پیش کریں مگر اللہ کے حکم سے اور اللہ پر ہی اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیئے۔
وَمَا لَنَآ أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى ٱللَّهِ وَقَدْ هَدَىٰنَا سُبُلَنَا ۚ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَآ ءَاذَيْتُمُونَا ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُتَوَكِّلُونَ ﴿١٢﴾
اور ہم کیوں الله پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ اسی نے ہمیں (سیدھے) راستوں کی راہ نمائی کی ہے اور ہم ضرور صبر کریں گے اس ایذاپر جو تم ہمیں دیتے ہو اور توکل کرنے والوں کو الله ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے
اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جبکہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟ جو اذیتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو اُن پر ہم صبر کریں گے اور بھروسا کرنے والوں کا بھروسا اللہ ہی پر ہونا چاہیے\"
اور ہمیں کیا ہوا کہ اللہ پر بھروسہ نہ کریں اس نے تو ہماری راہیں ہمیں دکھادیں اور تم جو ہمیں ستا رہے ہو ہم ضرور اس پر صبر کریں گے، اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے،
اور ہم کیونکر خدا پر بھروسہ نہ رکھیں حالانکہ اس نے ہم کو ہمارے (دین کے سیدھے) رستے بتائے ہیں۔ جو تکلیفیں تم ہم کو دیتے ہو اس پر صبر کریں گے۔ اور اہل توکل کو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے
اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں درآنحالیکہ اسی نے ہمیں (ہدایت و کامیابی کی) راہیں دکھائی ہیں، اور ہم ضرور تمہاری اذیت رسانیوں پر صبر کریں گے اور اہلِ توکل کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے،
اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ اسی نے ہمیں ہمارے راستوں کی ہدایت دی ہے اور ہم یقینا تمہاری اذیتوں پر صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والے تو اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ رکھیں جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں۔ واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے۔ توکل کرنے والوں کو یہی ﻻئق ہے کہ اللہ ہی پر توکل کریں
آخر ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ اسی نے ہمیں ہماری (زندگی کی) راہوں کی راہنمائی کی ہے اور تم ہمیں جو ایذائیں پہنچا رہے ہو ہم ان پر صبر کریں گے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیئے۔
وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَآ أَوْ لَتَعُودُنَّ فِى مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰٓ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿١٣﴾
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا ہمارے دین میں لوٹ آؤ تب انہیں ان کے رب نے حکم بھیجا کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے
آخر کار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ \"یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے\" تب اُن کے رب نے اُن پر وحی بھیجی کہ \"ہم اِن ظالموں کو ہلا ک کر دیں گے
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم ضرور تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین پر کچھ ہوجاؤ، تو انہیں ان کے رب نے وحی بھیجی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے
اور جو کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ (یا تو) ہم تم کو اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا ہمارے مذہب میں داخل ہو جاؤ۔ تو پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے
اور کافر لوگ اپنے پیغمبروں سے کہنے لگے: ہم بہرصورت تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تمہیں ضرور ہمارے مذہب میں لوٹ آنا ہوگا، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے،
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تم کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کردیں گے یا تم ہمارے مذہب کی طرف پلٹ آؤ گے تو پروردگار نے ان کی طرف وحی کی کہ خبردار گھبراؤ نہیں ہم یقینا ظالمین کو تباہ و برباد کردیں گے
کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ﻇالموں کو ہی غارت کر دیں گے
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی سر زمین سے نکال دیں گے یا پھر تم ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ اور تب ان کے پروردگار نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے۔
وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ ٱلْأَرْضَ مِنۢ بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِى وَخَافَ وَعِيدِ ﴿١٤﴾
اور ان کے بعد اس زمین میں تمہیں آباد کر دیں گے یہ اس کے لیے ہے جو میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور جس نے میرے عذاب سے خوف کھایا
اور اُن کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے یہ انعام ہے اُس کا جو میرے حضور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو\"
اور ضرور ہم تم کو ان کے بعد زمین میں بسائیں گے یہ اس لیے ہے جو میرے حضو ر کھڑے ہونے سے ڈرے اور میں نے جو عذاب کا حکم سنایا ہے، اس سے خوف کرے،
اور ان کے بعد تم کو اس زمین میں آباد کریں گے۔ یہ اس شخص کے لیے ہے جو (قیامت کے روز) میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کرے
اور ان کے بعد ہم تمہیں ضرور (اسی) ملک میں آباد فرمائیں گے۔ یہ (وعدہ) ہر اس شخص کے لئے ہے جو میرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اور میرے وعدۂ (عذاب) سے خائف ہوا،
اور تمہیں ان کے بعد زمین میں آباد کردیں گے اور یہ سب ان لوگوں کے لئے ہے جو ہمارے مقام اور مرتبہ سے ڈرتے ہیں اور ہمارے عذاب کا خوف رکھتے ہیں
اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے۔ یہ ہے ان کے لئے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میری وعید سے خوفزده رہیں
اور ان کے بعد ہم تمہیں اس سر زمین میں آباد کریں گے یہ (وعدہ) ہر اس شخص کے لئے ہے جو میری بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری تہدید سے خائف ہو۔
وَٱسْتَفْتَحُوا۟ وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍۢ ﴿١٥﴾
اور پیغمبروں نے فیصلہ چاہا اور ہر ایک سرکش ضدی نامراد ہوا
اُنہوں نے فیصلہ چاہا تھا (تو یوں اُن کا فیصلہ ہوا) اور ہر جبار دشمن حق نے منہ کی کھائی
اور انہوں نے فیصلہ مانگا اور ہر سرکش ہٹ دھرم نا مُراد ہوا
اور پیغمبروں نے (خدا سے اپنی) فتح چاہی تو ہر سرکش ضدی نامراد رہ گیا
اور (بالآخر) رسولوں نے (اللہ سے) فتح مانگی اور ہر سرکش ضدی نامراد ہوگیا،
اور پیغمبروں نے ہم سے فتح کا مطالبہ کیا اور ان سے عناد رکھنے والے سرکش افراد ذلیل اور رسوا ہوگئے
اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا اور تمام سرکش ضدی لوگ نامراد ہوگئے
اور انہوں (رسولوں) نے (ہم سے) فتح مندی طلب کی (جو قبول ہوئی) اور ہر سرکش ضدی (حق کی مخالفت کرنے والا) نامراد ہوا۔
مِّن وَرَآئِهِۦ جَهَنَّمُ وَيُسْقَىٰ مِن مَّآءٍۢ صَدِيدٍۢ ﴿١٦﴾
اوراس کے پیچھے دوزخ ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا
پھر اس کے بعد آگے اس کے لیے جہنم ہے وہاں اُسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا
جہنم اس کے پیچھے لگی اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا،
اس کے پیچھے دوزخ ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا
اس (بربادی) کے پیچھے (پھر) جہنم ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا،
ان کے پیچھے جہّنم ہے اور انہیں پیپ دار پانی پلایا جائے گا
اس کے سامنے دوزخ ہے جہاں وه پیﭗ کا پانی پلایا جائے گا
اس (نامرادی) کے پیچھے جہنم ہے اور اسے کچ لہو قسم کا پانی پلایا جائے گا۔
يَتَجَرَّعُهُۥ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُۥ وَيَأْتِيهِ ٱلْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍۢ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍۢ ۖ وَمِن وَرَآئِهِۦ عَذَابٌ غَلِيظٌۭ ﴿١٧﴾
جسے گھونٹ گھونٹ پیے گا اور اسے گلےسے نہ اتار سکے گا اور اس پر ہر طرف سے موت آئے گی اور وہ نہیں مرے گا اوراس کے پیچھے سخت عذاب ہوگا
جسے وہ زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اتار سکے گا موت ہر طرف سے اس پر چھائی رہے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اس کی جان کا لاگو رہے گا
بہ مشکل اس کا تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے گا اور گلے سے نیچے اتارنے کی امید نہ ہوگی اور اسے ہر طرف سے موت آئے گی اور مرے گا نہیں، اور اس کے پیچھے ایک گاڑھا عذاب
وہ اس کو گھونٹ گھونٹ پیئے گا اور گلے سے نہیں اتار سکے گا اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا۔ اور اس کے پیچھے سخت عذاب ہوگا
جسے وہ بمشکل ایک ایک گھونٹ پیئے گا اور اسے حلق سے نیچے اتار نہ سکے گا، اور اسے ہر طرف سے موت آگھیرے گی اور وہ مر (بھی) نہ سے گا، اور (پھر) اس کے پیچھے (ایک اور) بڑا ہی سخت عذاب ہوگا،
جسے گھونٹ گھونٹ پئیں گے اور وہ انہیں گوارا نہ ہوگا اور انہیں موت ہر طرف سے گھیر لے گی حالانکہ وہ مرنے والے نہیں ہیں اور ان کے پیچھے بہت سخت عذاب لگا ہوا ہے
جسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گا۔ پھر بھی اسے گلے سے اتار نہ سکے گا اور اسے ہر جگہ سے موت آتی دکھائی دے گی لیکن وه مرنے واﻻ نہیں۔ پھر اس کے پیچھے بھی سخت عذاب ہے
جسے وہ گھونٹ گھونٹ کرکے پئے گا اور گلے سے اتار نہ سکے گا اور ہر طرف سے اس کے پاس موت آئے گی مگر وہ مرے گا نہیں اور (مزید برآں) اس کے پیچھے ایک اور سخت عذاب ہوگا۔
مَّثَلُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَٰلُهُمْ كَرَمَادٍ ٱشْتَدَّتْ بِهِ ٱلرِّيحُ فِى يَوْمٍ عَاصِفٍۢ ۖ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا۟ عَلَىٰ شَىْءٍۢ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلضَّلَٰلُ ٱلْبَعِيدُ ﴿١٨﴾
ان کی مثال جنہوں نے اپنے رب سے انکار کیا ایسی ہے کہ ان کے اعمال گویا راکھ ہیں کہ جیسی آندھی کے دن ہوا اڑا کر لے گئی ہو جوکچھ انہوں نے کمایا تھا اس میں کچھ بھی ان کے ہاتھ میں نہ رہا ہویہ بھی بڑی دو رکی گمراہی ہے
جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے
اپنے رب سے منکروں کا حال ایسا ہے کہ ان کے کام ہیں جیسے راکھ کہ اس پر ہوا کا سخت جھونکا آیا آندھی کے دن میں ساری کمائی میں سے کچھ ہاتھ نہ لگا، یہی ہے دور کی گمراہی،
جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال راکھ کی سی ہے کہ آندھی کے دن اس پر زور کی ہوا چلے (اور) اسے اڑا لے جائے (اس طرح) جو کام وہ کرتے رہے ان پر ان کو کچھ دسترس نہ ہوگی۔ یہی تو پرلے سرے کی گمراہی ہے
جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے، ان کی مثال یہ ہے کہ ان کے اعمال (اس) راکھ کی مانند ہیں جس پر تیز آندھی کے دن سخت ہوا کا جھونکا آگیا، وہ ان (اَعمال) میں سے جو انہوں نے کمائے تھے کسی چیز پر قابو نہیں پاسکیں گے۔ یہی بہت دور کی گمراہی ہے،
جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی ہے جسے اندھڑ کے دن کی تند ہوا اڑا لے جائے کہ وہ اپنے حاصل کئے ہوئے پر بھی کوئی اختیار نہ رکھیں گے اور یہی بہت دور تک پھیلی ہوئی گمراہی ہے
ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے پالنے والے سے کفر کیا، ان کے اعمال مثل اس راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی والے دن چلے۔ جو بھی انہوں نے کیا اس میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے، یہی دور کی گمراہی ہے
جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ان کے اعمال کی حالت اس راکھ جیسی ہے جسے سخت آندھی والے دن ہوا اڑا لے جائے جو کچھ انہوں نے کیا (کمایا) اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہ آئے گا یہی بہت بڑی گمراہی ہے۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍۢ جَدِيدٍۢ ﴿١٩﴾
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ الله نے آسمانوں اور زمین کو ٹھیک طور پر بنایا اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور نئی مخلوق لے آئے
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے؟ وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے
کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ بنائے اگر چاہے تو تمہیں لے جائے اور ایک نئی مخلوق لے آئے
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو تدبیر سے پیدا کیا ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم کو نابود کر دے اور (تمہاری جگہ) نئی مخلوق پیدا کر دے
(اے سننے والے!) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق (پر مبنی حکمت) کے ساتھ پیدا فرمایا۔ اگر وہ چاہے (تو) تمہیں نیست و نابود فرما دے اور (تمہاری جگہ) نئی مخلوق لے آئے،
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے وہ چاہے تو تم کو فنا کرکے ایک نئی مخلوق کو لاسکتا ہے
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو بہترین تدبیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اگر وه چاہے تو تم سب کو فنا کردے اور نئی مخلوق ﻻئے
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو حق (و حکمت) کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ چاہے تو تم سب کو لے جائے۔ (فنا کر دے) اور نئی مخلوق کو لے آئے۔
وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ بِعَزِيزٍۢ ﴿٢٠﴾
اور یہ الله پر کچھ مشکل نہیں ہے
ایسا کرنا اس پر کچھ بھی دشوار نہیں ہے
اور یہ اللہ پر کچھ دشوار نہیں،
اور یہ خدا کو کچھ بھی مشکل نہیں
اور یہ (کام) اللہ پر (کچھ بھی) دشوار نہیں ہے،
اور اللہ کے لئے یہ بات کوئی مشکل نہیں ہے
اللہ پر یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں
اور یہ بات اللہ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
وَبَرَزُوا۟ لِلَّهِ جَمِيعًۭا فَقَالَ ٱلضُّعَفَٰٓؤُا۟ لِلَّذِينَ ٱسْتَكْبَرُوٓا۟ إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًۭا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۢ ۚ قَالُوا۟ لَوْ هَدَىٰنَا ٱللَّهُ لَهَدَيْنَٰكُمْ ۖ سَوَآءٌ عَلَيْنَآ أَجَزِعْنَآ أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍۢ ﴿٢١﴾
اوریہ سب الله کے سامنے کھڑیں ہوں گے تب کمزور متکبروں سے کہیں گے ہم تو تمہارے تابع تھے سوہمیں الله کے عذاب سے کچھ بچاؤ گے وہ کہیں گے اگر ہمیں الله ہدایت کرتا تو ہم تمہیں ہدایت کرتے اب ہمارے لیے برابر ہے کہ ہم چیخیں چلائیں یا صبر کریں ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں
اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تو اُس وقت اِن میں سے جو دنیا میں کمزور تھے و ہ اُن لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے \"دنیا میں ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کرسکتے ہو؟\"وہ جواب دیں گے \"اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں بھی دکھا دیتے اب تو یکساں ہے، خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں\"
اور سب اللہ کے حضور اعلانیہ حاضر ہوں گے تو جو کمزور تھے بڑائی والوں سے کہیں گے ہم تمہارے تابع تھے کیا تم سے ہوسکتا ہے کہ اللہ کے عذاب میں سے کچھ ہم پر سے ٹال دو کہیں گے اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تمہیں کرتے ہم پر ایک سا ہے چاہے بے قراری کریں یا صبر سے رہیں ہمیں کہیں پناہ نہیں،
اور (قیامت کے دن) سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہوں گے تو ضعیف (العقل متبع اپنے رؤسائے) متکبرین سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے پیرو تھے۔ کیا تم خدا کا کچھ عذاب ہم پر سے دفع کرسکتے ہو۔ وہ کہیں گے کہ اگر خدا ہم کو ہدایت کرتا تو ہم تم کو ہدایت کرتے۔ اب ہم گھبرائیں یا ضد کریں ہمارے حق میں برابر ہے۔ کوئی جگہ (گریز اور) رہائی کی ہمارے لیے نہیں ہے
اور (روزِ محشر) اللہ کے سامنے سب (چھوٹے بڑے) حاضر ہوں گے تو (پیروی کرنے والے) کمزور لوگ (طاقتور) متکبروں سے کہیں گے: ہم تو (عمر بھر) تمہارے تابع رہے تو کیا تم اللہ کے عذاب سے بھی ہمیں کسی قدر بچا سکتے ہو؟ وہ (اُمراء اپنے پیچھے لگنے والے غریبوں سے) کہیں گے: اگر اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تمہیں بھی ضرور ہدایت کی راہ دکھاتے (ہم خود بھی گمراہ تھے سو تمہیں بھی گمراہ کرتے رہے)۔ ہم پر برابر ہے خواہ (آج) ہم آہ و زاری کریں یا صبر کریں ہمارے لئے کوئی راہِ فرار نہیں ہے،
اور قیامت کے دن سب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو کمزور لوگ مستکبرین سے کہیں گے کہ ہم تو آپ کے پیروکار تھے تو کیا آپ عذاب الٰہی کے مقابلہ میں ہمارے کچھ کام آسکتے ہیں تو وہ جواب دیں گے کہ اگر خدا ہمیں ہدایت دے دیتا تو ہم بھی تمہیں ہدایت دے دیتے -اب تو ہمارے لئے سب ہی برابر ہے چاہے فریاد کریں یا صبر کریں کہ اب کوئی چھٹکارا ملنے والا نہیں ہے
سب کے سب اللہ کے سامنے روبرو کھڑے ہوں گے۔ اس وقت کمزور لوگ بڑائی والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابعدار تھے، تو کیا تم اللہ کے عذابوں میں سے کچھ عذاب ہم سے دور کرسکنے والے ہو؟ وه جواب دیں گے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی ضرور تمہاری رہنمائی کرتے، اب تو ہم پر بے قراری کرنا اور صبر کرنا دونوں ہی برابر ہے ہمارے لیے کوئی چھٹکارا نہیں
اور (قیامت کے دن) وہ سب ایک ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ تو جو کمزور (پیروکار) ہوں گے وہ ان سے کہیں گے جو بڑے (سردار) بنے ہوئے تھے کہ ہم تو (زندگی بھر) تمہارے پیروکار تھے تو تم آج ہمیں اللہ کے عذاب سے کچھ بچا سکتے ہو؟ وہ (بڑے) کہیں گے اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی تمہیں ہدایت دیتے اب ہمارے لئے برابر ہے جزع فزع کریں یا صبر کریں۔ آج ہمارے لئے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔
وَقَالَ ٱلشَّيْطَٰنُ لَمَّا قُضِىَ ٱلْأَمْرُ إِنَّ ٱللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ ٱلْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَٰنٍ إِلَّآ أَن دَعَوْتُكُمْ فَٱسْتَجَبْتُمْ لِى ۖ فَلَا تَلُومُونِى وَلُومُوٓا۟ أَنفُسَكُم ۖ مَّآ أَنَا۠ بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ أَنتُم بِمُصْرِخِىَّ ۖ إِنِّى كَفَرْتُ بِمَآ أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ ٱلظَّٰلِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ﴿٢٢﴾
اور جب فیصلہ ہو چکے گا تو شیطان کہے گا بےشک الله نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اورمیں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا پھر میں نے وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر اس کے سوا کوئی زور نہ تھا کہ میں نے تمہیں بلایا پھر تم نے میری بات کو مان لیا پھر مجھے الزام نہ دو اور اپنے آپ کو الزام دونہ میں تمہارا فریادرس ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہو میں خود تمہارے اس فعل سے بیزار ہوں کہ تم اس سےپہلے مجھے شریک بناتے تھے بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے
اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا \"حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے و ہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میر ی اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لیے درد ناک سزا یقینی ہے\"
اور شیطان کہے گا جب فیصلہ ہوچکے گا بیشک اللہ نے تم کو سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے جو تم کو وعدہ دیا تھا وہ میں نے تم سے جھوٹا کیا اور میرا تم پر کچھ قابو نہ تھا مگر یہی کہ میں نے تم کو بلایا تم نے میری مان لی تو اب مجھ پر الزام نہ رکھو خود اپنے اوپر الزام رکھو نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکو، وہ جو پہلے تم نے مجھے شریک ٹھہرایا تھا میں اس سے سخت بیزار ہوں، بیشک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے،
جب (حساب کتاب کا) کام فیصلہ ہوچکے گا تو شیطان کہے گا (جو) وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا (وہ تو) سچا (تھا) اور (جو) وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔ اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا۔ ہاں میں نے تم کو (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے اور بےدلیل) میرا کہا مان لیا۔ تو (آج) مجھے ملامت نہ کرو۔ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرسکتے ہو۔ میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے۔ بےشک جو ظالم ہیں ان کے لیے درد دینے والا عذاب ہے
اور شیطان کہے گا جبکہ فیصلہ ہو چکے گا کہ بیشک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے (بھی) تم سے وعدہ کیا تھا، سو میں نے تم سے وعدہ خلافی کی ہے، اور مجھے (دنیا میں) تم پر کسی قسم کا زور نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (باطل کی طرف) بلایا سو تم نے (اپنے مفاد کی خاطر) میری دعوت قبول کی، اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ (خود) اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ میں (آج) تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو۔ اس سے پہلے جو تم مجھے (اللہ کا) شریک ٹھہراتے رہے ہو بیشک میں (آج) اس سے انکار کرتا ہوں۔ یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے،
اور شیطان تمام امور کا فیصلہ ہوجانے کے بعد کہے گا کہ اللہ نے تم سے بالکل برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی ایک وعدہ کیا تھا پھر میں نے اپنے وعدہ کی مخالفت کی اور میرا تمہارے اوپر کوئی زور بھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اسے قبول کرلیا تو اب تم میری ملامت نہ کرو بلکہ اپنے نفس کی ملامت کرو کہ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکتے ہو میں تو پہلے ہی سے اس بات سے بیزار ہوں کہ تم نے مجھے اس کا شریک بنا دیا اور بیشک ظالمین کے لئے بہت بڑا دردناک عذاب ہے
جب اور کام کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعده دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کیے تھے ان کے خلاف کیا، میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے، میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے، یقیناً ﻇالموں کے لیے دردناک عذاب ہے
اور جب (ہر قسم کا) فیصلہ ہو جائے گا تو اس وقت شیطان کہے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا مگر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور مجھے تم پر کوئی تسلط (زور) تو تھا نہیں سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (کفر اور گناہ کی) دعوت دی اور تم نے میری دعوت قبول کر لی پس تم مجھے ملامت نہ کرو (بلکہ) خود اپنے آپ کو ملامت کرو (آج) نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں۔ اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو اس سے پہلے (دنیا میں) جو تم نے مجھے (خدا کا) شریک بنایا تھا میں اس سے بیزار ہوں بے شک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
وَأُدْخِلَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَٰمٌ ﴿٢٣﴾
اور جو لوگ ایمان لائے تھے اورنیک کام کیے تھے وہ باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ رہیں گے آپس میں دعائے خیر ان کی سلام ہو گی
بخلاف اس کے جو لوگ دنیا میں ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارک باد سے ہوگا
اور وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں اپنے رب کے حکم سے، اس میں ان کے ملتے وقت کا اکرام سلام ہے
اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کیے وہ بہشتوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اپنے پروردگار کے حکم سے ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ وہاں ان کی صاحب سلامت سلام ہوگا
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں (وہ) ان میں اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ رہیں گے، (ملاقات کے وقت) اس میں ان کا دعائیہ کلمہ ”سلام“ ہوگا،
اور صاحبان ه ایمان و عمل صالح کو ان جنتوں میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گے وہ ہمیشہ حکم خدا سے وہیں رہیں گے اور ان کی ملاقات کا تحفہ سلام ہوگا
جو لوگ ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے وه ان جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے چشمے جاری ہیں جہاں انہیں ہمیشگی ہوگی اپنے رب کے حکم سے۔ جہاں ان کا خیر مقدم سلام سے ہوگا
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے وہ ان بہشتوں میں داخل کئے جائیں گے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اپنے پروردگار کے حکم سے ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اس میں ان کی باہمی دعا (بوقت ملاقات) سلام ہوگا۔ (سلامٌ علیکم تم پر سلامتی ہو)۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا كَلِمَةًۭ طَيِّبَةًۭ كَشَجَرَةٍۢ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌۭ وَفَرْعُهَا فِى ٱلسَّمَآءِ ﴿٢٤﴾
کیاتو نےنہیں دیکھا کہ الله نے کلمہ پاک کی ایک مثال بیان کی ہے گویا وہ ایک پاک درخت ہے کہ جس کی جڑ مضبوط اور اس کی شاخ آسمان ہے
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں
کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں،
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے (وہ ایسی ہے) جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط (یعنی زمین کو پکڑے ہوئے) ہو اور شاخیں آسمان میں
کیا آپ نے نہیں دیکھا، اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے کہ پاکیزہ بات اس پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں،
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزه بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزه درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح اچھی مثال بیان کی ہے کہ کلمۂ طیبہ (پاک کلمہ) شجرۂ طیبہ (پاکیزہ) درخت کی مانند ہے۔ جس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے۔
تُؤْتِىٓ أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍۭ بِإِذْنِ رَبِّهَا ۗ وَيَضْرِبُ ٱللَّهُ ٱلْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴿٢٥﴾
وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل لاتا ہے اور الله لوگوں کے واسطے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ سمجھیں
ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ اِن سے سبق لیں
ہر وقت پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں
اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا (اور میوے دیتا) ہو۔ اور خدا لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں
وہ (درخت) اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں،
یہ شجرہ ہر زمانہ میں حکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے اور خدا لوگوں کے لئے مثال بیان کرتا ہے کہ شاید اسی طرح ہوش میں آجائیں
جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل ﻻتا ہے، اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وه نصیحت حاصل کریں
جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں پیش کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں (اور سمجھیں)۔
وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍۢ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ ٱجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ ٱلْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍۢ ﴿٢٦﴾
اور ناپاک کلمہ کی مثال ایک ناپاک درخت کی سی ہے جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے اسے کچھ ٹھیراؤ نہیں ہے
اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے
اور گندی بات کی مثال جیسے ایک گندہ پیڑ کہ زمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا اب اسے کوئی قیام نہیں
اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے (نہ جڑ مستحکم نہ شاخیں بلند) زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے گا اس کو ذرا بھی قرار (وثبات) نہیں
اور ناپاک بات کی مثال اس ناپاک درخت کی سی ہے جسے زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے، اسے ذرا بھی قرار (و بقا) نہ ہو،
اور کلمہ خبیثہ کی مثال اس شجرہ خبیثہ کی ہے جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور اس کی کوئی بنیاد نہ ہو
اور ناپاک بات کی مثال گندے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ﺛبات تو ہے نہیں
اور کلمۂ خبیثہ (ناپاک کلمہ) کی مثال شجرۂ خبیثہ (ناپاک درخت) کی سی ہے جسے زمین کے اوپر سے اکھاڑ لیا جائے اور اس کے لئے ثبات و قرار نہ ہو۔
يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِٱلْقَوْلِ ٱلثَّابِتِ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْءَاخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ ٱللَّهُ ٱلظَّٰلِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ ﴿٢٧﴾
الله ایمان والوں کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں سچی بات پر ثابت قدم رکھتا ہے اور ظالمو ں کو گمراہ کر تا ہے اور الله جوچاہتا ہے کرتا ہے
ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے
اللہ ثابت رکھتا ہے ایمان والوں کو حق بات پر دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور اللہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے اور اللہ جو چاہے کرے،
خدا مومنوں (کے دلوں) کو (صحیح اور) پکی بات سے دنیا کی زندگی میں بھی مضبوط رکھتا ہے اور آخرت میں بھی (رکھے گا) اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے
اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی)۔ اور اللہ ظالموں کو گمراہ ٹھہرا دیتا ہے۔ اور اللہ جو چاہتا ہے کر ڈالتا ہے،
اللہ صاحبان هایمان کو قول ثابت کے ذریعہ دنیا اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے اور ظالمین کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور وہ جو بھی چاہتا ہے انجام دیتا ہے
ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، ہاں ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے
اللہ ایمان والوں کو قولِ ثابت پر ثابت قدم رکھتا ہے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی اور ظالموں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور اللہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔
۞ أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ بَدَّلُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ كُفْرًۭا وَأَحَلُّوا۟ قَوْمَهُمْ دَارَ ٱلْبَوَارِ ﴿٢٨﴾
کیاتو نے انہیں نہیں دیکھا کہ جنہوں نے الله کی نعمت کےبدلے میں ناشکری کی اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا
تم نے دیکھا اُن لوگوں کو جنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اُسے کفران نعمت سے بدل ڈالا اور (اپنے ساتھ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میں جھونک دیا
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت ناشکری سے بدل دی اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر لا اتار،
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمتِ (ایمان) کو کفر سے بدل ڈالا اور انہوں نے اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتار دیا،
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفرانِ نعمت سے تبدیل کردیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی منزل تک پہنچادیا
کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں ﻻ اتارا
کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی عطا کردہ نعمت کو کفرانِ نعمت سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں یعنی دوزخ میں جا اتارا۔
جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ ٱلْقَرَارُ ﴿٢٩﴾
جو دوزخ ہے اس میں داخل ہوں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے
یعنی جہنم، جس میں وہ جھلسے جائیں گے اور وہ بد ترین جائے قرار ہے
وہ جو دوزخ ہے اس کے اندر جائیں گے، اور کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ،
(وہ گھر) دوزخ ہے۔ (سب ناشکرے) اس میں داخل ہوں گے۔ اور وہ برا ٹھکانہ ہے
(وہ) دوزخ ہے جس میں جھونکے جائیں گے، اور وہ برا ٹھکانا ہے،
وہ جہنم ّجس میں سب واصل ہوں گے اور وہ بدترین قرار گاہ ہے
یعنی دوزخ میں جس میں یہ سب جائیں گے، جو بدترین ٹھکانا ہے
جس میں وہ داخل ہوں گے اور وہ (کیسا) برا ٹھکانا ہے۔
وَجَعَلُوا۟ لِلَّهِ أَندَادًۭا لِّيُضِلُّوا۟ عَن سَبِيلِهِۦ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا۟ فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى ٱلنَّارِ ﴿٣٠﴾
اور لوگو ں نے الله کی راہ سے بہکانے کے لیے شریک بنا رکھے ہیں کہہ دو نفع اٹھا لو پھر تمہیں آگ کی طرف لوٹنا ہے
اور اللہ کے کچھ ہمسر تجویز کر لیے تاکہ وہ انہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں اِن سے کہو، اچھا مزے کر لو، آخرکار تمہیں پلٹ کر جانا دوزخ ہی میں ہے
اور اللہ کے لیے برابر والے ٹھہراے کہ اس کی راہ سے بہکاویں تم فرماؤ کچھ برت لو کہ تمہارا انجام آگ ہے
اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کئے کہ (لوگوں کو) اس کے رستے سے گمراہ کریں۔ کہہ دو کہ (چند روز) فائدے اٹھا لو آخرکار تم کو دوزخ کی طرف لوٹ کر جانا ہے
اور انہوں نے اللہ کے لئے شریک بنا ڈالے تاکہ وہ (لوگوں کو) اس کی راہ سے بہکائیں۔ فرما دیجئے: تم (چند روزہ) فائدہ اٹھا لو بیشک تمہارا انجام آگ ہی کی طرف (جانا) ہے،
اور ان لوگوں نے اللہ کے لئے مثل قرار دیئے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو بہکا سکیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تھوڑے دن اور مزے کرلو پھر تو تمہارا انجام جہّنم ہی ہے
انہوں نے اللہ کے ہمسر بنالیے کہ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ خیر مزے کرلو تمہاری بازگشت تو آخر جہنم ہی ہے
اور انہوں نے اللہ کے لئے کچھ ہمسر (شریک) بنا لئے ہیں تاکہ (لوگوں کو) اس کے راستے سے بھٹکائیں (اے رسول) آپ کہہ دیجیے کہ (چندے) عیش کر لو آخر یقینا تمہاری بازگشت آتش دوزخ کی طرف ہے۔
قُل لِّعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يُقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُنفِقُوا۟ مِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ سِرًّۭا وَعَلَانِيَةًۭ مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌۭ لَّا بَيْعٌۭ فِيهِ وَلَا خِلَٰلٌ ﴿٣١﴾
میرے بندوں کو کہہ دو جو ایمان لائے ہیں نماز قائم رکھیں اور ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کریں اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہے نہ دوستی
اے نبیؐ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں اُن سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے کھلے اور چھپے (راہ خیر میں) خرچ کریں قبل اِس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی ہوسکے گی
میرے ان بندوں سے فرماؤ جو ایمان لائے کہ نماز قائم رکھیں اور ہمارے دیے میں سے کچھ ہماری راہ میں چھپے اور ظاہر خرچ کریں اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ سوداگری ہوگی نہ یارانہ
(اے پیغمبر) میرے مومن بندوں سے کہہ دو کہ نماز پڑھا کریں اور اس دن کے آنے سے پیشتر جس میں نہ (اعمال کا) سودا ہوگا اور نہ دوستی (کام آئے گی) ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے درپردہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں
آپ میرے مومن بندوں سے فرما دیں کہ وہ نماز قائم رکھیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (ہماری راہ میں) خرچ کرتے رہیں اس دن کے آنے سے پہلے جس دن میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ ہی کوئی (دنیاوی) دوستی (کام آئے گی)،
اور آپ میرے ایماندار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازیں قائم کریں اور ہمارے رزق میں سے خفیہ اور علانیہ ہماری راہ میں انفاق کریں قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جب نہ تجارت کام آئے گی اور نہ دوستی
میرے ایمان والے بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ پوشیده اور ﻇاہر خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وه دن آجائے جس میں نہ خرید وفروخت ہوگی نہ دوستی اور محبت
آپ میرے ان بندوں سے کہہ دیجیے جو ایمان لائے ہیں کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کریں اس سے پہلے کہ وہ دن آئے کہ جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ مخلصانہ دوستی ہوگی۔
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزْقًۭا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلْفُلْكَ لِتَجْرِىَ فِى ٱلْبَحْرِ بِأَمْرِهِۦ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلْأَنْهَٰرَ ﴿٣٢﴾
الله وہ ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس سے تمہارے کھانے کو پھل نکالے اور کشتیاں تمہارے تابع کر دیں تاکہ دریا میں اس کے حکم سے چلتی رہیں اور نہریں تمہارے تابع کر دیں
اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اُس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا
اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل تمہارے کھانے کو پیدا کیے اور تمہارے لیے کشتی کو مسخر کیا کہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور تمہارے لیے ندیاں مسخر کیں،
خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل پیدا کئے۔ اور کشتیوں (اور جہازوں) کو تمہارے زیر فرمان کیا تاکہ دریا (اور سمندر) میں اس کے حکم سے چلیں۔ اور نہروں کو بھی تمہارے زیر فرمان کیا
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور آسمان کی جانب سے پانی اتارا پھر اس پانی کے ذریعہ سے تمہارے رزق کے طور پر پھل پیدا کئے، اور اس نے تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کر دیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی رہیں اور اس نے تمہارے لئے دریاؤں کو (بھی) مسخر کر دیا،
اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اور آسمان سے پانی برسا کر اس کے ذریعہ تمہاری روزی کے لئے پھل پیدا کئے ہیں اور کشتیوں کو مسخر کردیا ہے کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلیں اور تمہارے لئے نہروں کو بھی مسخر کردیا ہے
اللہ وه ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے تمہاری روزی کے لیے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کردیا ہے کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کردی ہیں
اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور پھر کشتی کو تمہارے لئے مسخر کر دیا تاکہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلے اور دریاؤں کو بھی تمہارے لئے مسخر کر دیا۔
وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ دَآئِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ ﴿٣٣﴾
اور سورج اور چاند کو تمہارے تابع کر دیا جو ہمیشہ چلنے والے ہیں اور تمہارے لیے رات اور دن کوتابع کیا
جس نے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخر کیا
اور تمہارے لیے سورج اور چاند مسخر کیے جو برابر چل رہے ہیں اور تمہارے لیے رات اور دن مسخر کیے
اور سورج اور چاند کو تمہارے لیے کام میں لگا دیا کہ دونوں (دن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں۔ اور رات اور دن کو بھی تمہاری خاطر کام میں لگا دیا
اور اس نے تمہارے فائدہ کے لئے سورج اور چاند کو (باقاعدہ ایک نظام کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ (اپنے اپنے مدار میں) گردش کرتے رہتے ہیں، اور تمہارے (نظامِ حیات کے) لئے رات اور دن کو بھی (ایک نظام کے) تابع کر دیا،
اور تمہارے لئے حرکت کرنے والے آفتاب و ماہتاب کو بھی مسخر کردیا ہے اور تمہارے لئے رات اور دن کو بھی مسخر کردیا ہے
اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے
اور تمہارے لئے سورج و چاند کو (بھی) مسخر کر دیا جو برابر چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو بھی تمہارے لئے مسخر کر دیا۔
وَءَاتَىٰكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ ۗ إِنَّ ٱلْإِنسَٰنَ لَظَلُومٌۭ كَفَّارٌۭ ﴿٣٤﴾
اور جو چیز تم نے ان سے مانگی اس نے تمہیں دی اور اگر الله کی نعمتیں شمار کرنے لگو تو انہیں شمار نہ کر سکو بے شک انسان بڑا بےانصاف اور ناشکرا ہے
جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے
اور تمہیں بہت کچھ منہ مانگا دیا، اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے، بیشک آدمی بڑا ظالم ناشکرا ہے
اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں سے تم کو عنایت کیا۔ اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو۔ (مگر لوگ نعمتوں کا شکر نہیں کرتے) کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بےانصاف اور ناشکرا ہے
اور اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا فرما دی جو تم نے اس سے مانگی، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکرگزار ہے،
اور جو کچھ تم نے مانگا اس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دیا اور اگر تم اس کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو گے تو ہرگز شمار نہیں کرسکتے -بیشک انسان بڑا ظالم اور انکار کرنے والا ہے
اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے۔ یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے
اور جس نے تمہیں ہر چیز میں سے دیا جو تم نے مانگا اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے بے شک انسان بڑا ظالم اور بڑا ناشکرا ہے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِيمُ رَبِّ ٱجْعَلْ هَٰذَا ٱلْبَلَدَ ءَامِنًۭا وَٱجْنُبْنِى وَبَنِىَّ أَن نَّعْبُدَ ٱلْأَصْنَامَ ﴿٣٥﴾
اورجس وقت ابراھیم نے کہا اے میرے رب! اس شہر کوامن والا کر دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا
یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے دعا کی تھی کہ \"پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا
اور یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی اے میرے رب اس شہر کو امان والا کردے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کے پوجنے سے بچا
اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار اس شہر کو (لوگوں کے لیے) امن کی جگہ بنا دے۔ اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھ
اور (یاد کیجئے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں،
اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے کہا کہ پروردگار اس شہر کو محفوظ بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچائے رکھنا
(ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن واﻻ بنادے، اور مجھے اور میری اوﻻد کو بت پرستی سے پناه دے۔
اور وہ وقت یاد کرو جب ابراہیم نے (بارگاہ ایزدی میں) دعا کی تھی اے میرے پروردگار! اس شہر (مکہ) کو امن کی جگہ اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچا کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔
رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلنَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِى فَإِنَّهُۥ مِنِّى ۖ وَمَنْ عَصَانِى فَإِنَّكَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿٣٦﴾
اے میرے رب! انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا ہے پس جس نے میری پیروی کی وہ تو میرا ہے اورجس نے نافرمانی کی پس تحقیق تو بخشنے والا مہربان ہے
پروردگار، اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں، لہٰذا اُن میں سے) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے
اے میرے رب بیشک بتوں نے بہت لوگ بہکائے دیے تو جس نے میرا ساتھ دیا وہ تو میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے
اے پروردگار انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ سو جس شخص نے میرا کہا مانا وہ میرا ہے۔ اور جس نے میری نافرمانی کی تو تُو بخشنے والا مہربان ہے
اے میرے رب! ان (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر ڈالا ہے۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ تو میرا ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی تو بیشک تُو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
پروردگار ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے تو اب جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا اور جو معصیت کرے گا اس کے لئے توِ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راه سے بھٹکا دیا ہے۔ پس میری تابعداری کرنے واﻻ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بہت ہی معاف اور کرم کرنے واﻻ ہے۔
اے میرے پروردگار ان (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے سو جو میری پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے تو یقیناً تو بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
رَّبَّنَآ إِنِّىٓ أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِى بِوَادٍ غَيْرِ ذِى زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ ٱلْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ فَٱجْعَلْ أَفْـِٔدَةًۭ مِّنَ ٱلنَّاسِ تَهْوِىٓ إِلَيْهِمْ وَٱرْزُقْهُم مِّنَ ٱلثَّمَرَٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ﴿٣٧﴾
اے رب میرے! میں نے اپنی کچھ اولاد ایسےمیدان میں بسائی ہے جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت والے گھر کے پاس اے رب ہمارے! تاکہ نماز کو قائم رکھیں پھرکچھ لوگو ں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں میووں کی روزی دے تاکہ وہ شکر کریں
پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں
اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے میرے رب اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں تو تو لوگوں کے کچھ دل ان کی طرف مائل کردے اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے شاید وہ احسان مانیں،
اے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو میدان (مکہ) میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت (وادب) والے گھر کے پاس لابسائی ہے۔ اے پروردگار تاکہ یہ نماز پڑھیں تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ ان کی طرف جھکے رہیں اور ان کو میوؤں سے روزی دے تاکہ (تیرا) شکر کریں
اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں،
پروردگار میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے تاکہ نمازیں قائم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں
اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اوﻻد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لیے کہ وه نماز قائم رکھیں، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے۔ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں
اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے محترم گھر کے پاس بے زراعت میدان میں آباد کیا ہے اے ہمارے مالک تاکہ (وہ یہاں) نماز قائم کریں اب تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ ان کی طرف مائل ہوں اور ان کو پھلوں سے رزق عطا فرما تاکہ وہ (تیرا) شکر ادا کریں۔
رَبَّنَآ إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِى وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۢ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِى ٱلسَّمَآءِ ﴿٣٨﴾
اے رب ہمارے! بے شک تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اورجو کچھ ظاہر کرتے ہیں اور الله پر کوئی چیز زمین اورآسمان میں پوشیدہ نہیں
پروردگار، تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں\" اور واقعی اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں
اے ہمارے رب تو جانتا ہے جو ہم چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے اور اللہ پر کچھ چھپا نہیں زمین میں اور نہ آسمان میں
اے پروردگار جو بات ہم چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں تو سب جانتا ہے۔ اور خدا سے کوئی چیز مخفی نہیں (نہ) زمین میں نہ آسمان میں
اے ہمارے رب! بیشک تو وہ (سب کچھ) جانتا ہے جو ہم چھپاتے ہیں اور جو ہم ظاہر کرتے ہیں، اور اللہ پر کوئی بھی چیز نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ ہی آسمان میں (مخفی ہے)،
پروردگار ہم جس بات کا اعلان کرتے ہیں یا جس کو چھپاتے ہیں تو سب سے باخبر ہے اور اللہ پر زمین و آسمان میں کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی
اے ہمارے پروردگار! تو خوب جانتا ہے جو ہم چھپائیں اور جو ﻇاہر کریں۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیده نہیں
اے ہمارے پروردگار! بے شک جو کچھ ہم چھپاتے ہیں تو اسے بھی جانتا ہے اور جو ظاہر کرتے ہیں اسے بھی اور زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔
ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى وَهَبَ لِى عَلَى ٱلْكِبَرِ إِسْمَٰعِيلَ وَإِسْحَٰقَ ۚ إِنَّ رَبِّى لَسَمِيعُ ٱلدُّعَآءِ ﴿٣٩﴾
الله کا شکر ہے جس نے مجھے اتنی بڑی عمر میں اسماعیل اور اسحاق بخشے بے شک میرا رب دعاؤں کا سننے والا ہے
\"شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے اِس بڑھاپے میں اسماعیلؑ اور اسحاقؑ جیسے بیٹے دیے، حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعا سنتا ہے
سب خوبیاں اللہ کو جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق دیئے بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے،
خدا کا شکر ہے جس نے مجھ کو بڑی عمر میں اسماعیل اور اسحاق بخشے۔ بےشک میرا پروردگار سننے والا ہے
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق (علیھما السلام دو فرزند) عطا فرمائے، بیشک میرا رب دعا خوب سننے والا ہے،
شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق جیسی اولاد عطا کی ہے کہ بیشک میرا پروردگار دعاؤں کا سننے والا ہے
اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل واسحاق (علیہما السلام) عطا فرمائے۔ کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار اللہ دعاؤں کا سننے واﻻ ہے
ساری ستائش اللہ کے لئے ہے جس نے باوجود بڑھاپے کے مجھے اسماعیل(ع) و اسحاق(ع) (دو بیٹے) عطا فرمائے بے شک میرا پروردگار دعا کا بڑا سننے والا ہے۔
رَبِّ ٱجْعَلْنِى مُقِيمَ ٱلصَّلَوٰةِ وَمِن ذُرِّيَّتِى ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ ﴿٤٠﴾
اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا دے اے ہمارے رب! اورمیری دعا قبول فرما
ا ے میرے پروردگار، مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اٹھا جو یہ کام کریں) پروردگار، میری دعا قبول کر
اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو اے ہمارے رب اور ہماری دعا سن لے،
اے پروردگار مجھ کو (ایسی توفیق عنایت) کر کہ نماز پڑھتا رہوں اور میری اولاد کو بھی (یہ توفیق بخش) اے پروردگار میری دعا قبول فرما
اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لے،
پروردگار مجھے اور میری ذریت میں نماز قائم کرنے والے قرار دے اور پروردگار میری دعا کو قبول کرلے
اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اوﻻد سے بھی، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما
اے میرے پروردگار! مجھے نماز کا قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی۔ اے ہمارے پروردگار اور میری دعا کو قبول فرما۔
رَبَّنَا ٱغْفِرْ لِى وَلِوَٰلِدَىَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ ٱلْحِسَابُ ﴿٤١﴾
اے ہمارے رب! مجھے اورمیرے ماں باپ کو اور ایمانداروں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے
پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کر دیجیو جبکہ حساب قائم ہوگا\"
اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا،
اے پروردگار حساب (کتاب) کے دن مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور مومنوں کو مغفرت کیجیو
اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے)٭اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا، ٭ (یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی والد تارخ کی طرف اشارہ ہے، یہ کافر و مشرک نہ تھے بلکہ دینِ حق پر تھے۔ آزر دراصل آپ کا چچا تھا، اس نے آپ علیہ السلام کو آپ علیہ السلام کے والد کی وفات کے بعد پالا تھا، اس لئے اسے عرفاً باپ کہا گیا ہے، وہ مشرک تھا اور آپ کو اس کے لئے دعائے مغفرت سے روک دیا گیا تھا جبکہ یہاں حقیقی والدین کے لئے دعائے مغفرت کی جا رہی ہے۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ اسے امتِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نمازوں میں بھی برقرار رکھ دیا گیا۔)
پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنین کو اس دن بخش دینا جس دن حساب قائم ہوگا
اے ہمارے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے
اے ہمارے پروردگار! مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو بخش دے جس دن حساب قائم ہوگا (لیا جائے گا)۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ ٱللَّهَ غَٰفِلًا عَمَّا يَعْمَلُ ٱلظَّٰلِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍۢ تَشْخَصُ فِيهِ ٱلْأَبْصَٰرُ ﴿٤٢﴾
تو ہر گز خیال نہ کر کہ الله ان کاموں سے بے خبر ہے جو ظالم کرتے ہیں انہیں صرف اس دن تک مہلت دے رکھی ہے جس میں نگاہیں پھٹی رہ جائیں گی
اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو اللہ تو اِنہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں
اور ہرگز اللہ کو بےخبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے انہیں ڈھیل نہیں دے رہا ہے مگر ایسے دن کے لیے جس میں
اور (مومنو) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں خدا ان سے بےخبر ہے۔ وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ (دہشت کے سبب) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی
اور اللہ کو ان کاموں سے ہرگز بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم انجام دے رہے ہیں، بس وہ تو ان (ظالموں) کو فقط اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس میں (خوف کے مارے) آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی،
اور خبردار خدا کو ظالمین کے اعمال سے غافل نہ سمجھ لینا کہ وہ انہیں اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں خوف سے پتھرا جائیں گی
ناانصافوں کے اعمال سے اللہ کو غافل نہ سمجھ وه تو انہیں اس دن تک مہلت دیے ہوئے ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی ره جائیں گی
(اے رسول(ص)) جو کچھ (یہ) ظالم لوگ کر رہے ہیں تم اللہ کو اس سے غافل نہ سمجھو۔ وہ تو انہیں اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس میں (شدتِ خوف و حیرت سے) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
مُهْطِعِينَ مُقْنِعِى رُءُوسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْـِٔدَتُهُمْ هَوَآءٌۭ ﴿٤٣﴾
وہ سرا اٹھائے ہوئے دوڑتے چلے جارہے ہوں گے کہ ا ن کی نظر ان کی طرف ہٹ کرنہیں آوے گی اور ان کے دل اڑ گئے ہوں گے
سر اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں، نظریں اوپر جمی ہیں اور دل اڑے جاتے ہیں
آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی بے تحاشا دوڑے نکلیں گے اپنے سر اٹھائے ہوئے کہ ان کی پلک ان کی طرف لوٹتی نہیں اور ان کے دلوں میں کچھ سکت نہ ہوگی
(اور لوگ) سر اٹھائے ہوئے (میدان قیامت کی طرف) دوڑ رہے ہوں گے ان کی نگاہیں ان کی طرف لوٹ نہ سکیں گی اور ان کے دل (مارے خوف کے) ہوا ہو رہے ہوں گے
وہ لوگ (میدانِ حشر کی طرف) اپنے سر اوپر اٹھائے دوڑتے جا رہے ہوں گے اس حال میں کہ ان کی پلکیں بھی نہ جھپکتی ہوں گی اور ان کے دل سکت سے خالی ہو رہے ہوں گے،
سر اٹھائے بھاگے چلے جارہے ہوں گے اور پلکیں بھی نہ پلٹتی ہوں گی اور ان کے دل دہشت سے ہوا ہورہے ہوں گے
وه اپنے سر اوپر اٹھائے دوڑ بھاگ کر رہے ہوں گے، خود اپنی طرف بھی ان کی نگاہیں نہ لوٹیں گی اور ان کے دل خالی اور اڑے ہوئے ہوں گے
وہ تیزی سے دوڑ رہے ہوں گے اپنے سر اوپر اٹھاتے ہوئے اس عالم میں کہ ان کی نگاہ خود ان کی طرف نہیں پلٹے گی اور ان کے دل (خوف و دہشت کے سوا ہر خیال سے) خالی ہو رہے ہوں گے۔
وَأَنذِرِ ٱلنَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ ٱلْعَذَابُ فَيَقُولُ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ رَبَّنَآ أَخِّرْنَآ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ قَرِيبٍۢ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ ٱلرُّسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَكُونُوٓا۟ أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍۢ ﴿٤٤﴾
اور لوگوں کو اس دن سے ڈراوے کہ ان پر عذاب آئے گا تب ظالم کہیں گے اے رب ہمارے! ہمیں تھوڑی مدت تک مہلت دے کہ ہم تیرا بلانا قبول کر لیں اور رسولوں کی پیروی کر لیں کیاتم نے پہلے قسم نہیں کھائی تھی کہ تمہیں کہیں جانا ہی نہیں ہے
اے محمدؐ، اُس دن سے تم اِنہیں ڈراؤ جبکہ عذاب اِنہیں آلے گا اُس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ \"اے ہمارے رب، ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے دے، ہم تیری دعوت کو لبیک کہیں گے اور رسولوں کی پیروی کریں گے\" (مگر انہیں صاف جواب دے دیا جائے گا کہ) کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اِس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے؟
اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جب ان پر عذاب آئے گا تو ظالم کہیں گے اے ہمارے رب! تھوڑی دیر ہمیں مہلت دے کہ ہم تیرا بلانا مانیں اور رسولوں کی غلامی کریں تو کیا تم پہلے قسم نہ کھاچکے تھے کہ ہمیں دنیا سے کہیں ہٹ کر جانا نہیں
اور لوگوں کو اس دن سے آگاہ کردو جب ان پر عذاب آجائے گا تب ظالم لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مدت مہلت عطا کر۔ تاکہ تیری دعوت (توحید) قبول کریں اور (تیرے) پیغمبروں کے پیچھے چلیں (تو جواب ملے گا) کیا تم پہلے قسمیں نہیں کھایا کرتے تھے کہ تم کو (اس حال سے جس میں تم ہو) زوال (اور قیامت کو حساب اعمال) نہیں ہوگا
اور آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرائیں جب ان پر عذاب آپہنچے گا تو وہ لوگ جو ظلم کرتے رہے ہوں گے کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمیں تھوڑی دیر کے لئے مہلت دے دے کہ ہم تیری دعوت کو قبول کر لیں اور رسولوں کی پیروی کر لیں۔ (ان سے کہا جائے گا) کہ کیا تم ہی لوگ پہلے قسمیں نہیں کھاتے رہے کہ تمہیں کبھی زوال نہیں آئے گا،
اور آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرائیں جس دن ان تک عذاب آجائے گا تو ظالمین کہیں گے کہ پروردگار ہمیں تھوڑی مدّت کے لئے پلٹا دے کہ ہم تیری دعوت کو قبول کرلیں اور تیرے رسولوں کا اتباع کرلیں تو جواب ملے گا کہ کیا تم نے اس سے پہلے قسم نہیں کھائی تھی کہ تمہیں کسی طرح کا زوال نہ ہوگا
لوگوں کو اس دن سے ہوشیار کردے جب کہ ان کے پاس عذاب آجائے گا، اور ﻇالم کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں بہت تھوڑے قریب کے وقت تک کی ہی مہلت دے کہ ہم تیری تبلیﻎ مان لیں اور تیرے پیغمبروں کی تابعداری میں لگ جائیں۔ کیا تم اس سے پہلے بھی قسمیں نہیں کھا رہے تھے؟ کہ تمہارے لیے دنیا سے ٹلنا ہی نہیں
(اے رسول) لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جب ان پر عذاب آئے گا تو ظالم لوگ کہیں گے اے ہمارے رب تھوڑی سی مدت کے لئے ہمیں مہلت دے دے ہم تیری دعوت پر لبیک کہیں گے اور (تیرے) رسولوں کی پیروی کریں گے (انہیں جواب دیا جائے گا) کیا تم نے اس سے پہلے قسمیں نہیں کھائی تھیں کہ تمہیں کبھی زوال نہ ہوگا۔
وَسَكَنتُمْ فِى مَسَٰكِنِ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ ٱلْأَمْثَالَ ﴿٤٥﴾
اور تم انہیں لوگو ں کی بستیوں میں آباد تھے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تمہیں معلوم ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا تھا او رہم نے تمہیں سب قصے بتلائے تھے
حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے اُن سے کیا سلوک کیا اور اُن کی مثالیں دے دے کر ہم تمہیں سمجھا بھی چکے تھے
اور تم ان کے گھروں میں بسے جنہوں نے اپنا برا کیا تھا اور تم پر خوب کھل گیا ہم نے ان کے ساتھ کیسا کیا اور ہم نے تمہیں مثالیں دے کر بتادیا
اور جو لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے تم ان کے مکانوں میں رہتے تھے اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح (کا معاملہ) کیا تھا اور تمہارے (سمجھانے) کے لیے مثالیں بیان کر دی تھیں
اور تم (اپنی باری پر) انہی لوگوں کے (چھوڑے ہوئے) محلات میں رہتے تھے (جنہوں نے اپنے اپنے دور میں) اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا حالانکہ تم پر عیاں ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا اور ہم نے تمہارے (فہم کے) لئے مثالیں بھی بیان کی تھیں،
اور تم تو ان ہی لوگوں کے مکانات میں ساکن تھے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور تم پر واضح تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے اور ہم نے تمہارے لئے مثالیں بھی بیان کردی تھیں
اور کیا تم ان لوگوں کے گھروں میں رہتے سہتے نہ تھے جنہوں نے اپنی جانوں پر ﻇلم کیا اور کیا تم پر وه معاملہ کھلا نہیں کہ ہم نے ان کے ساتھ کیسا کچھ کیا۔ ہم نے تو (تمہارے سمجھانے کو) بہت سی مثالیں بیان کردی تھیں
حالانکہ تم انہی لوگوں کے مسکنوں میں آباد تھے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور تم پر واضح ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ اور ہم نے (تمہیں سمجھانے کے لئے) مثالیں بھی بیان کر دیں تھیں۔
وَقَدْ مَكَرُوا۟ مَكْرَهُمْ وَعِندَ ٱللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ ٱلْجِبَالُ ﴿٤٦﴾
اور ان لوگو ں نے اپنی تدبیریں کی تھیں اوران کی تدبیریں الله کے سامنے تھیں اگرچہ ان کی تدبیریں ایسی تھی کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں
انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں
اور بیشک وہ اپنا سا داؤں (فریب) چلے اور ان کا داؤں اللہ کے قابو میں ہے، اور ان کا داؤں کچھ ایسانہ تھا جس سے یہ پہاڑ ٹل جائیں
اور انہوں نے (بڑی بڑی) تدبیریں کیں اور ان کی (سب) تدبیریں خدا کے ہاں (لکھی ہوئی) ہیں گو وہ تدبیریں ایسی (غضب کی) تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں
اور انہوں نے (دولت و اقتدار کے نشہ میں بدمست ہو کر) اپنی طرف سے بڑی فریب کاریاں کیں جبکہ اللہ کے پاس ان کے ہر فریب کا توڑ تھا، اگرچہ ان کی مکّارانہ تدبیریں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اکھڑ جائیں،
اور ان لوگوں نے اپنا سارا مکر صرف کردیا اور خدا کی نگاہ میں ان کا سارا مکر ہے اگرچہ ان کا مکر ایسا تھا کہ اس سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائیں
یہ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ کو ان کی تمام چالوں کا علم ہے اور ان کی چالیں ایسی نہ تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں
اور انہوں نے اپنی ساری تدبیریں کیں (اور چالیں چلیں) اور اللہ کے پاس ان کی ہر تدبیر اور چال (کا جواب) ہے اگرچہ ان کی تدبیریں و ترکیبیں ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائیں۔
فَلَا تَحْسَبَنَّ ٱللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِۦ رُسُلَهُۥٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌۭ ذُو ٱنتِقَامٍۢ ﴿٤٧﴾
پس الله کو اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرنے والا خیال نہ کریں بے شک الله زبردست بدلہ لینے والا ہے
پس اے نبیؐ، تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے
تو ہر گز خیال نہ کرنا کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلاف کرے گا بیشک اللہ غالب ہے بدلہ لینے والا،
تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا بےشک خدا زبردست (اور) بدلہ لینے والا ہے
سو اللہ کو ہرگز اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرنے والا نہ سمجھنا! بیشک اللہ غالب، بدلہ لینے والا ہے،
تو خبردار تم یہ خیال بھی نہ کرنا کہ خدا اپنے رسولوں سے کئے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کرے گا اللہ سب پر غالب اور بڑا انتقام لینے والا ہے
آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ اللہ اپنے نبیوں سے وعده خلافی کرے گا، اللہ بڑا ہی غالب اور بدلہ لینے واﻻ ہے
خبردار! یہ خیال نہ کرنا کہ اللہ نے اپنے رسولوں سے جو وعدہ کیا ہے وہ اس کے خلاف کرے گا بے شک اللہ (سب پر) غالب ہے (اور) انتقام لینے والا ہے۔
يَوْمَ تُبَدَّلُ ٱلْأَرْضُ غَيْرَ ٱلْأَرْضِ وَٱلسَّمَٰوَٰتُ ۖ وَبَرَزُوا۟ لِلَّهِ ٱلْوَٰحِدِ ٱلْقَهَّارِ ﴿٤٨﴾
جس دن اس زمین میں سے اور زمین بدلی جائے گی اور آسمان بدلے جاویں گے اور سب کے سب ایک زبردست الله کے روبرو پیش ہوں گے
ڈراؤ اِنہیں اُس دن سے جبکہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے
جس دن بدل دی جائے گی زمین اس زمین کے سوا اور آسمان اور لوگ سب نکل کھڑے ہوں گے ایک اللہکے سامنے جو سب پر غالب ہے
جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی (بدل دیئے جائیں گے) اور سب لوگ خدائے یگانہ وزبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے
جس دن (یہ) زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب لوگ اللہ کے رُوبرو حاضر ہوں گے جو ایک ہے سب پر غالب ہے،
اس دن جب زمین دوسری زمین میں تبدیل ہوجائے گی اور آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ہوں گے
جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب کے سب اللہ واحد غلبے والے کے روبرو ہوں گے
(اور یہ اس دن ہوگا) جس دن یہ زمین دوسری قسم کی زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی (بدل جائیں گے) اور سب لوگ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائیں گے جو ایک ہے اور سب پر غالب ہے۔
وَتَرَى ٱلْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍۢ مُّقَرَّنِينَ فِى ٱلْأَصْفَادِ ﴿٤٩﴾
اورتو اس دن گناہگاروں کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھے گا
اُس روز تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں ہاتھ پاؤں جکڑے ہونگے
اور اس دن تم مجرموں کو دیکھو گے کہ بیڑیوں میں ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے
اور اس دن تم گنہگاروں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں
اور اس دن آپ مجرموں کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھیں گے،
اور تم اس دن مجرمین کو دیکھو گے کہ کس طرح زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں
آپ اس دن گناه گاروں کو دیکھیں گے کہ زنجیروں میں ملے جلے ایک جگہ جکڑے ہوئے ہوں گے
اور تم اس دن مجرموں کو دیکھوگے کہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔
سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍۢ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ ٱلنَّارُ ﴿٥٠﴾
کرتےان کے گندھک کے ہوں گے اوران کے چہرو ں پر آگ لپٹی ہو گی
تارکول کے لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور آگ کے شعلے اُن کے چہروں پر چھائے جا رہے ہوں گے
ان کے کرُتے رال ہوں گے اور ان کے چہرے آ گ ڈھانپ لے گی
ان کے کرتے گندھک کے ہوں گے اور ان کے مونہوں کو آگ لپیٹ رہی ہوگی
ان کے لباس گندھک (یا ایسے روغن) کے ہوں گے (جو آگ کو خوب بھڑکاتا ہے) اور ان کے چہروں کو آگ ڈھانپ رہی ہوگی،
ان کے لباس قطران کے ہوں گے اور ان کے چہروں کو آگ ہر طرف سے ڈھانکے ہوئے ہوگی
ان کے لباس گندھک کے ہوں گے اور آگ ان کے چہروں پر بھی چڑھی ہوئی ہوگی
ان کے کرتے تارکول کے ہوں گے اور ان کے چہروں کو آگ ڈھانپ رہی ہوگی۔
لِيَجْزِىَ ٱللَّهُ كُلَّ نَفْسٍۢ مَّا كَسَبَتْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ ﴿٥١﴾
تاکہ الله ہر شخص کو اس کے کیے کی سزا دے بے شک الله بڑی جلدی حساب لینے والا ہے
یہ اِس لیے ہوگا کہ اللہ ہر متنفس کو اس کے کیے کا بدلہ دے گا اللہ کوحساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی
اس لیے کہ اللہ ہر جان کو اس کی کمائی کا بدلہ دے، بیشک اللہ کو حساب کرتے کچھ دیر نہیں لگتی،
یہ اس لیے کہ خدا ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دے۔ بےشک خدا جلد حساب لینے والا ہے
تاکہ اللہ ہر شخص کو ان (اَعمال) کابدلہ دے دے جو اس نے کما رکھے ہیں۔ بیشک اللہ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے،
تاکہ خدا ہر نفس کو اس کے کئے کا بدلہ دے دے کہ وہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے
یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ دے، بیشک اللہ تعالیٰ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگنے کی
یہ اس لئے ہوگا کہ اللہ ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دے گا بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
هَٰذَا بَلَٰغٌۭ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا۟ بِهِۦ وَلِيَعْلَمُوٓا۟ أَنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌۭ وَٰحِدٌۭ وَلِيَذَّكَّرَ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ ﴿٥٢﴾
یہ قرآن لوگو ں کے لیے اعلان ہے اور تاکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو ڈرایا جائے اور تاکہ وہ معلوم کر لیں کہ وہی ایک معبود ہے اور تاکہ عقلمند نصیحت حاصل کریں
یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے، اور یہ بھیجا گیا ہے اس لیے کہ اُن کو اِس کے ذریعہ سے خبردار کر دیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آ جائیں
یہ لوگوں کو حکم پہنچانا ہے اور اس لیے کہ وہ اس سے ڈرائے جائیں اور اس لیے کہ وہ جان لیں کہ وہ ایک ہی معبود ہے اور اس لیے کہ عقل والے نصیحت مانیں،
یہ قرآن لوگوں کے نام (خدا کا پیغام) ہے تاکہ ان کو اس سے ڈرایا جائے اور تاکہ وہ جان لیں کہ وہی اکیلا معبود ہے اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں
یہ (قرآن) لوگوں کے لئے کاملاً پیغام کا پہنچا دینا ہے، تاکہ انہیں اس کے ذریعہ ڈرایا جائے اور یہ کہ وہ خوب جان لیں کہ بس وہی (اللہ) معبودِ یکتا ہے اور یہ کہ دانش مند لوگ نصیحت حاصل کریں،
بیشک یہ قرآن لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے تاکہ اسی کے ذریعہ انہیں ڈرایا جائے اور انہیں معلوم ہوجائے کہ خدا ہی خدائے واحد و یکتا ہے اور پھر صاحبانِ عقل نصیحت حاصل کرلیں
یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے وه ہوشیار کر دیے جائیں اور بخوبی معلوم کرلیں کہ اللہ ایک ہی معبود ہے اور تاکہ عقلمند لوگ سوچ سمجھ لیں
یہ سب انسانوں کے لئے ایک پیغام ہے تاکہ انہیں اس کے ذریعہ سے ڈرایا جائے اور یہ کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ الٰہ بس ایک ہی ہے نیز یہ کہ عقل والے لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔