Setting
Surah The Bee [An-Nahl] in Urdu
أَتَىٰٓ أَمْرُ ٱللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿١﴾
الله کا حکم آ پہنچا تم اس میں جلدی مت کرو وہ لوگو ں کے شرک سے پاک اور برتر ہے
آ گیا اللہ کا فیصلہ، اب اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ پاک ہے وہ اور بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں
اب آتا ہے اللہ کا حکم تو اس کی جلدی نہ کرو پاکی اور برتری ہے اسے ان شریکوں سے،
خدا کا حکم (یعنی عذاب گویا) آ ہی پہنچا تو (کافرو) اس کے لیے جلدی مت کرو۔ یہ لوگ جو (خدا کا) شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے
اللہ کا وعدہ (قریب) آپہنچا سو تم اس کے چاہنے میں عجلت نہ کرو۔ وہ پاک ہے اور وہ ان چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار (اس کا) شریک ٹھہراتے ہیں،
امر الٰہی آگیا ہے لہذا اب بلاوجہ جلدی نہ مچاؤ کہ خدا ان کے شرک سے پاک و پاکیزہ اور بلند و بالا ہے
اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاؤ۔ تمام پاکی اس کے لیے ہے وه برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں
اللہ کا حکم (عذاب) آگیا ہے پس تم اس کے لئے جلدی نہ کرو وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
يُنَزِّلُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةَ بِٱلرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦٓ أَنْ أَنذِرُوٓا۟ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱتَّقُونِ ﴿٢﴾
وہ اپنے بندوں سے جس کے پاس چاہتا ہے فرشتوں کو وحی دے کر بھیج دیتا ہے یہ کہ خبردار کر دو کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس مجھ سے ڈرتے رہو
وہ اِس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے (اِس ہدایت کے ساتھ کہ لوگوں کو) \"آگاہ کر دو، میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو\"
ملائکہ کو ایمان کی جان یعنی وحی لے کر اپنے جن بندوں پر چاہے اتارتا ہے کہ ڈر سناؤ کہ میرے سوا کسی کی بندگی نہیں تو مجھ سے ڈرو
وہی فرشتوں کو پیغام دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے کہ (لوگوں کو) بتادو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھی سے ڈرو
وہی فرشتوں کو وحی کے ساتھ (جو جملہ تعلیماتِ دین کی روح اور جان ہے) اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل فرماتا ہے کہ (لوگوں کو) ڈر سناؤ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو میری پرہیزگاری اختیار کرو،
وہ جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کو روح کے ساتھ نازل کردیتا ہے کہ ان بندوں کو ڈراؤ اورسمجھاؤ کہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا مجھی سے ڈریں
وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاه کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو
وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے فرشتوں کو روح کے ساتھ نازل کر دیتا ہے کہ لوگوں کو خبردار کر دو (ڈراؤ) کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے پس مجھ ہی سے ڈرو۔
خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّ ۚ تَعَٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿٣﴾
اسی نے آسمان اور زمین کو ٹھیک طور پر بنایا ہے وہ ان کے شرک سے پاک ہے
اُس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
اس نے آسمان اور زمین بجا بنائے وہ ان کے شرک سے برتر ہے،
اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی برحکمت پیدا کیا۔ اس کی ذات ان (کافروں) کے شرک سے اونچی ہے
اُسی نے آسمانوں اور زمین کو درست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا، وہ ان چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار (اس کا) شریک گردانتے ہیں،
اسی خدا نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے اور وہ ان کے شریکوں سے بہت بلند و بالاتر ہے
اسی نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا وه اس سے بری ہے جو مشرک کرتے ہیں
اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ جن چیزوں کو اس کا شریک قرار دیتے ہیں وہ ان سے بلند و بالا ہے۔
خَلَقَ ٱلْإِنسَٰنَ مِن نُّطْفَةٍۢ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌۭ مُّبِينٌۭ ﴿٤﴾
اسی نے آدمی کو ایک بوند سے پیدا کیا پھر وہ یکایک کھلم کھلا جھگڑنے لگا
اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالو ہستی بن گیا
(اس نے) آدمی کو ایک نِتھری بوند سے بنایا تو جبھی کھلا جھگڑالو ہے،
اسی نے انسان کو نطفے سے بنایا مگر وہ اس (خالق) کے بارے میں علانیہ جھگڑنے لگا
اُسی نے انسان کو ایک تولیدی قطرہ سے پیدا فرمایا، پھر بھی وہ (اللہ کے حضور مطیع ہونے کی بجائے) کھلا جھگڑالو بن گیا،
اس نے انسان کو ایک قطرہ نجس سے پیدا کیا ہے مگر پھر بھی وہ کّھلم کھلّا جھگڑا کرنے والا ہوگیا ہے
اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا پھر وه صریح جھگڑالو بن بیٹھا
اس نے انسان کو نطفہ (پانی کی ایک بوند) سے پیدا کیا پھر وہ ایک دم کھلم کھلا جھگڑالو بن گیا۔
وَٱلْأَنْعَٰمَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌۭ وَمَنَٰفِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿٥﴾
اور تمہارے واسطے چار پایوں کو بھی اسی نے بنایا ان میں تمہارے لیے جاڑے کابھی سامان ہے اوربھی بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے کھاتے بھی ہو
اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی
اور چوپائے پیدا کیے ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور منفعتیں ہیں اور ان میں سے کھاتے ہو،
اور چارپایوں کو بھی اسی نے پیدا کیا۔ ان میں تمہارے لیے جڑاول اور بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے بھی ہو
اور اُسی نے تمہارے لئے چوپائے پیدا فرمائے، ان میں تمہارے لئے گرم لباس ہے اور (دوسرے) فوائد ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے (بھی) ہو،
اور اسی نے چوپایوں کو بھی پیدا کیا ہے جن میں تمہارے لئے گرم لباس اور دیگر منافع کا سامان ہے اور بعض کو تو تم کھاتے بھی ہو
اسی نے چوپائے پیدا کیے جن میں تمہارے لیے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے نفع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں
اور اسی نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے جن میں تمہارے لئے گرم لباس بھی ہے اور دوسرے فائدے بھی اور انہی سے بعض کا تم گوشت کھاتے ہو۔
وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ ﴿٦﴾
اور تمہاے لیے ان میں زینت بھی ہے جب شام کو چرا کر لاتے ہو اور جب چرانے لے جاتے ہو
اُن میں تمہارے لیے جمال ہے جب کہ صبح تم انہیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انہیں واپس لاتے ہو
اور تمہارا ان میں تجمل ہے جب انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کو چھوڑتے ہو،
اور جب شام کو انہیں (جنگل سے) لاتے ہو اور جب صبح کو (جنگل) چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت وشان ہے
اور ان میں تمہارے لئے رونق (اور دل کشی بھی) ہے جب تم شام کو چراگاہ سے (واپس) لاتے ہو اور جب تم صبح کو (چرانے کے لئے) لے جاتے ہو،
اور تمہارے لئے ان ہی جانوروں میں سے زینت کا سامان ہے جب تم شام کو انہیں واپس لاتے ہو اور صبح کو چراگاہ کی طرف لے جاتے ہو
اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر ﻻؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی
اور ان (چوپاؤں) میں تمہارے لئے زیب و زینت بھی ہے جب شام کو واپس لاتے ہو اور صبح جب (چراگاہ کی طرف) لے جاتے ہو (اس وقت ان کا منظر کیسا خوش آئند ہوتا ہے)۔
وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍۢ لَّمْ تَكُونُوا۟ بَٰلِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ ٱلْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿٧﴾
اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر ان شہروں تک لے جاتے ہیں کہ جہاں تک تم جان کو تکلیف میں ڈالنے کے سوا نہیں پہنچ سکتے تھے بے شک تمہارا رب شفقت کرنے والا مہربان ہے
وہ تمہارے لیے بوجھ ڈھو کر ایسے ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں جہاں تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے
اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں ایسے شہر کی طرف کہ اس تک نہ پہنچتے مگر ادھ مرے ہوکر، بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے
اور (دور دراز) شہروں میں جہاں تم زحمتِ شاقّہ کے بغیر پہنچ نہیں سکتے وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار نہایت شفقت والا اور مہربان ہے
اور یہ (جانور) تمہارے بوجھ (بھی) ان شہروں تک اٹھا لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر جانکاہ مشقت کے نہیں پہنچ سکتے تھے، بیشک تمہارا رب نہایت شفقت والا نہایت مہربان ہے،
اور یہ حیوانات تمہارے بوجھ کو اٹھا کر ان شہروں تک لے جاتے ہیں جہاں تک تم جان جونکھوں میں ڈالے بغیرنہیں پہنچ سکتے تھے بیشک تمہارا پروردگار بڑا شفیق اور مہربان ہے
اور وه تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں جہاں تم بغیر آدھی جان کیے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ یقیناً تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے
اور یہ (جانور) تمہارے بوجھوں کو اٹھاتے ہیں۔ اور ان (دور دراز) شہروں تک پہنچاتے ہیں جن تک تم بڑی جانکاہی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے بے شک تمہارا پروردگار تمہارا شفیق و بڑا مہربان ہے۔
وَٱلْخَيْلَ وَٱلْبِغَالَ وَٱلْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةًۭ ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨﴾
اور گھوڑے خچر اور گدھے پیدا کیے کہ ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے اور وہ چیزیں پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے
اُس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں وہ اور بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کے لیے) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے
اور گھوڑے اور خچر اور گدھے کہ ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے، اور وہ پیدا کرے گا جس کی تمہیں خبر نہیں،
اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (وہ تمہارے لیے) رونق وزینت (بھی ہیں) اور وہ (اور چیزیں بھی) پیدا کرتا ہے جن کی تم کو خبر نہیں
اور (اُسی نے) گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کو (پیدا کیا) تاکہ تم ان پر سواری کر سکو اور وہ (تمہارے لئے) باعثِ زینت بھی ہوں، اور وہ (مزید ایسی بازینت سواریوں کو بھی) پیدا فرمائے گا جنہیں تم (آج) نہیں جانتے،
اور اس نے گھوڑے خچر اور گدھے کو پیدا کیا تاکہ اس پر سواری کرو اور اسے زینت بھی قرار دو اور وہ ایسی چیزوں کو بھی پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں ہے
گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وه باعﺚ زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں
اور اس نے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور اپنے لئے انہیں زینت بناؤ اور خدا وہ کچھ پیدا کرتا ہے (اور کرے گا) جو تم نہیں جانتے۔
وَعَلَى ٱللَّهِ قَصْدُ ٱلسَّبِيلِ وَمِنْهَا جَآئِرٌۭ ۚ وَلَوْ شَآءَ لَهَدَىٰكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩﴾
اور الله تک سیدھی راہ پہنچتی ہے اور بعض ان میں ٹیڑھی بھی ہیں اور اگر الله چاہتا تو تم سب کو سیدھی راہ بھی دکھا دیتا
اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا
اور بیچ کی راہ ٹھیک اللہ تک ہے اور کوئی راہ ٹیڑھی ہے اور چاہتا تو تم سب کو راہ پر لاتا،
اور سیدھا رستہ تو خدا تک جا پہنچتا ہے۔ اور بعض رستے ٹیڑھے ہیں (وہ اس تک نہیں پہنچتے) اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے رستے پر چلا دیتا
اور درمیانی راہ اللہ (کے دروازے) پر جا پہنچتی ہے اور اس میں سے کئی ٹیڑھی راہیں بھی (نکلتی) ہیں، اور اگر وہ چاہتا تو تم سب ہی کو ہدایت فرما دیتا،
اور درمیانی راستہ کی ہدایت خدا کی اپنی ذمہ داری ہے اور بعض راستے کج بھی ہوتے ہیں اور وہ چاہتا تو تم سب کو زبردستی راہ راست پر لے آتا
اور اللہ پر سیدھی راه کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں، اور اگر وه چاہتا تو تم سب کو راه راست پر لگا دیتا
اور سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے اور ان میں کچھ راستے کج بھی ہوتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ (زبردستی) چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ ۖ لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌۭ وَمِنْهُ شَجَرٌۭ فِيهِ تُسِيمُونَ ﴿١٠﴾
وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی نازل کیا اسی میں سے پیتے ہو اور اسی سے درخت ہوتے ہیں جن میں چراتے ہو
وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے
وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا اس سے تمہارا پینا ہے اور اس سے درخت ہیں جن سے چَراتے ہو
وہی تو ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جسے تم پیتے ہو اور اس سے درخت بھی (شاداب ہوتے ہیں) جن میں تم اپنے چارپایوں کو چراتے ہو
وہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اتارا، اس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہو،
وہ وہی خدا ہے جس نے آسمان سے پانی نازل کیا ہے جس کا ایک حصّہ پینے والا ہے اور ایک حصّے سے درخت پیدا ہوتے ہیں جن سے تم جانوروں کو چراتے ہو
وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو
وہ وہی ہے جس نے تمہارے (فائدے کے لئے) آسمان سے پانی برسایا جس سے تم پیتے بھی ہو اور جس سے وہ درخت (اور سبزے اگتے ہیں) جن میں تم (اپنے جانور) چراتے ہو۔
يُنۢبِتُ لَكُم بِهِ ٱلزَّرْعَ وَٱلزَّيْتُونَ وَٱلنَّخِيلَ وَٱلْأَعْنَٰبَ وَمِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٰتِ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يَتَفَكَّرُونَ ﴿١١﴾
تمہارے واسطے اسی سے کھیتی اور زیتوں اورکھجوریں اورانگور اور ہر قسم کے میوے اگاتا ہے بے شک اس میں ان لوگو ں کے لیے نشانی ہے جو غور کرتے ہیں
وہ اس پانی کے ذریعہ سے کھیتیاں اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل پیدا کرتا ہے اِس میں ایک بڑی نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں
اس پانی سے تمہارے لیے کھیتی اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل بیشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو،
اسی پانی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور (اور بےشمار درخت) اُگاتا ہے۔ اور ہر طرح کے پھل (پیدا کرتا ہے) غور کرنے والوں کے لیے اس میں (قدرتِ خدا کی بڑی) نشانی ہے
اُسی پانی سے تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اگاتا ہے، بیشک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہے،
وہ تمہارے لئے زراعت,زیتون,خرمے,انگور اور تمام پھل اسی پانی سے پیدا کرتا ہے - اس امر میں بھی صاحبانِ فکر کے لئے اس کی قدرت کی نشانیاں پائی جاتی ہیں
اسی سے وه تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے بےشک ان لوگوں کے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غوروفکر کرتے ہیں
اسی (پانی) سے وہ (خدا) تمہارے لئے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے ایک بڑی نشانی ہے۔
وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ وَٱلنُّجُومُ مُسَخَّرَٰتٌۢ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍۢ لِّقَوْمٍۢ يَعْقِلُونَ ﴿١٢﴾
اور رات اور دن اور سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا دیا ہے اور اسی کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں بے شک اس میں لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں
اُس نے تمہاری بھلائی کے لیے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے اور سب تارے بھی اُسی کے حکم سے مسخر ہیں اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں
اور اس نے تمہارے لیے مسخر کیے رات اور دن اور سورج اور چاند، اور ستارے اس کے حکم کے باندھے ہیں بیشک اس آیت میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کو
اور اسی نے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا۔ اور اسی کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سمجھنے والوں کے لیے اس میں (قدرت خدا کی بہت سی) نشانیاں ہیں
اور اُسی نے تمہارے لئے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا، اور تمام ستارے بھی اُسی کی تدبیر (سے نظام) کے پابند ہیں، بیشک اس میں عقل رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں،
اور اسی نے تمہارے رات دن اور آفتاب و ماہتاب سب کو مسخر کردیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے تابع ہیں بیشک اس میں بھی صاحبانِ عقل کے لئے قدرت کی بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں
اسی نے رات دن اور سورج چاند کو تمہارے لیے تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے ماتحت ہیں۔ یقیناًاس میں عقلمند لوگوں کے لیے کئی ایک نشانیاں موجود ہیں
اور اسی نے تمہارے لئے رات، دن، سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے (تمہارے کام میں لگا دیا ہے) اور ستارے بھی مسخّر ہیں (یہ سب تسخیر) اسی کے حکم سے ہے بے شک اس میں عقل سے کام لینے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔
وَمَا ذَرَأَ لَكُمْ فِى ٱلْأَرْضِ مُخْتَلِفًا أَلْوَٰنُهُۥٓ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يَذَّكَّرُونَ ﴿١٣﴾
اور تمہارے واسطے جو چیزیں زمین میں رنگ برنگ کی پھیلائی ہیں ان میں لوگوں کے لیے نشانی ہے ہے جو سوچتے ہیں
اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں، اِن میں بھی ضرور نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو سبق حاصل کرنے والے ہیں
اور وہ جو تمہارے لیے زمین میں پیدا کیا رنگ برنگ بیشک اس میں نشانی ہے یاد کرنے والوں کو
اور جو طرح طرح کے رنگوں کی چیزیں اس نے زمین میں پیدا کیں (سب تمہارے زیر فرمان کردیں) نصیحت پکڑنے والوں کے لیے اس میں نشانی ہے
اور (حیوانات، نباتات اور معدنیات وغیرہ میں سے بقیہ) جو کچھ بھی اس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا فرمایا ہے جن کے رنگ (یعنی جنسیں، نوعیں، قسمیں، خواص اور منافع) الگ الگ ہیں (سب تمہارے لئے مسخر ہیں)، بیشک اس میں نصیحت قبول کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہے،
اور جو کچھ تمہارے لئے اس زمین کے اندر مختلف رنگوں میں پیدا کیا ہے اس میں بھی عبرت حاصل کرنے والی قوم کے لئے اس کی نشانیاں پائی جاتی ہیں
اور بھی بہت سی چیزیں طرح طرح کے رنگ روپ کی اس نے تمہارے لیے زمین پر پھیلا رکھی ہیں۔ بیشک نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے اس میں بڑی بھاری نشانی ہے
اور اس نے تمہارے لئے زمین میں جو رنگ برنگ کی چیزیں پیدا کی ہیں اور مسخر کی ہیں اس میں سوچنے سمجھنے اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے ایک بڑی نشانی ہے۔
وَهُوَ ٱلَّذِى سَخَّرَ ٱلْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا۟ مِنْهُ لَحْمًۭا طَرِيًّۭا وَتَسْتَخْرِجُوا۟ مِنْهُ حِلْيَةًۭ تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى ٱلْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا۟ مِن فَضْلِهِۦ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿١٤﴾
اور وہ وہی ہے جس نے دریا کو کام میں لگا دیا کہ اس میں تازہ گوشت کھاؤ اور اسی سے زیور نکالو جسے تم پہنتے ہو اور تو اس میں جہازوں کو دیکھتا ہے کہ پانی کو چیرتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور تاکہ تم اس کے فضل کو تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو
وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ تم اس سے ترو تازہ گوشت لے کر کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو
اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے دریا مسخر کیا کہ اس میں سے تازہ گوشت کھاتے ہو اور اس میں سے گہنا (زیور) نکالتے ہو جسے پہنتے ہو اور تو اس میں کشتیاں دیکھے کہ پانی چیر کر چلتی ہیں اور اس لیے کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور کہیں احسان مانو،
اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زیور (موتی وغیرہ) نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس لیے بھی (دریا کو تمہارے اختیار میں کیا) کہ تم خدا کے فضل سے (معاش) تلاش کرو تاکہ اس کا شکر کرو
اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو، اور (اے انسان!) تُو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اس میں چلے جاتے ہیں، اور (یہ سب کچھ اس لئے کیا) تاکہ تم (دور دور تک) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکر گزار بن جاؤ،
اور وہی وہ ہے جس نے سمندروں کو مّسخردیا ہے تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاسکو اور پہننے کے لئے زینت کا سامان نکال سکو اور تم تو دیکھ رہے ہو کہ کشتیاں کس طرح اس کے سینے کو چیرتی ہوئی چلی جارہی ہیں اور یہ سب اس لئے بھی ہے کہ تم اس کے فضل و کرم کو تلاش کرسکو اور شاید اسی طرح اس کے شکر گزار بندے بھی بن جاؤ
اور دریا بھی اسی نے تمہارے بس میں کر دیے ہیں کہ تم اس میں سے (نکلا ہوا) تازه گوشت کھاؤ اور اس میں سے اپنے پہننے کے زیورات نکال سکو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس میں پانی چیرتی ہوئی (چلتی) ہیں اور اس لیے بھی کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور ہوسکتا ہے کہ تم شکر گزاری بھی کرو
اور وہ وہی ہے جس نے سمندر (کو تمہارا) مسخر کر دیا تاکہ تم اس سے تروتازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زیور کی چیزیں (موتی وغیرہ) نکالو جنہیں تم (آرائش کیلئے) پہنتے ہو اور تم دیکھتے ہو کہ اس میں کشتیاں پانی کو چیرتی پھاڑتی ہوئی چلی جاتی ہیں۔
وَأَلْقَىٰ فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٰسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَٰرًۭا وَسُبُلًۭا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥﴾
اور زمین پر پہاڑوں کے بوجھ ڈال دیے تاکہ تمہیں لے کر نہ ڈگمگائے اور تمہارے لیے نہریں اور راستے بنا دیے تاکہ تم راہ پاؤ
اُس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے اس نے د ریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ
اور اس نے زمین میں لنگر ڈالے کہ کہیں تمہیں لے کر نہ کانپے اور ندیاں اور رستے کہ تم راہ پاؤ
اور اسی نے زمین پر پہاڑ (بنا کر) رکھ دیئے کہ تم کو لے کر کہیں جھک نہ جائے اور نہریں اور رستے بنا دیئے تاکہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک (آسانی سے) جاسکو
اور اسی نے زمین میں (مختلف مادوں کو باہم ملا کر) بھاری پہاڑ بنا دیئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ (اپنے مدار میں حرکت کرتے ہوئے) تمہیں لے کر کانپنے لگے اور نہریں اور (قدرتی) راستے (بھی) بنائے تاکہ تم (منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکو،
اور اس نے زمین میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دئے تاکہ تمہیں لے کر اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائے اور نہریں اور راستے بنادئے تاکہ منزل سفر میں ہدایت پاسکو
اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے ہیں تاکہ تمہیں لے کر ہلے نہ، اور نہریں اور راہیں بنا دیں تاکہ تم منزل مقصود کو پہنچو
اور اس (خدا) نے زمین میں بھاری بھر کم پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے ہیں تاکہ وہ تمہیں لے کر کہیں ڈھلک نہ جائے اور اس نے نہریں رواں دواں کر دیں اور راستے بنائے تاکہ تم (خشکی و تری میں) راہ پاؤ (اور منزل مقصود تک پہنچ جاؤ)۔
وَعَلَٰمَٰتٍۢ ۚ وَبِٱلنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ ﴿١٦﴾
اور نشانیاں بنائیں اور ستاروں سے لوگ راہ پاتے ہیں
اس نے زمین میں راستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں، اور تاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں
اور علامتیں اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں
اور (راستوں میں) نشانات بنا دیئے اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں
اور (دن کو راہ تلاش کرنے کے لئے) علامتیں بنائیں، اور (رات کو) لوگ ستاروں کے ذریعہ (بھی) راہ پاتے ہیں،
اور علامات معین کردیں اور لوگ ستاروں سے بھی راستے دریافت کرلیتے ہیں
اور بھی بہت سی نشانیاں مقرر فرمائیں۔ اور ستاروں سے بھی لوگ راه حاصل کرتے ہیں
اور اس نے (قطعِ مسافت اور راستہ بتانے کے لئے) مختلف علامتیں مقرر کیں اور ستاروں سے بھی لوگ راستہ پاتے ہیں۔
أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لَّا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿١٧﴾
پھر کیا جو شخص پیدا کرے اس کے برابر ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرے کیا تم سوچتے نہیں
پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، دونوں یکساں ہیں؟ کیا تم ہوش میں نہیں آتے؟
تو کیا جو بنائے وہ ایسا ہوجائے گا جو نہ بنائے تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے،
تو جو (اتنی مخلوقات) پیدا کرے۔ کیا وہ ویسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرسکے تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟
کیا وہ خالق جو (اتنا کچھ) پیدا فرمائے اس کے مثل ہو سکتا ہے جو (کچھ بھی) پیدا نہ کر سکے، کیا تم لوگ نصیحت قبول نہیں کرتے،
کیا ایسا پیدا کرنے والا ان کے جیسا ہوسکتا ہے جو کچھ نہیں پیدا کرسکتے آخر تمہیں ہوش کیوں نہیں آرہا ہے
تو کیا وه جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرسکتا؟ کیا تم بالکل نہیں سوچتے؟
کیا وہ (خدا) جو پیدا کرتا ہے، اس کی مانند ہے جو کچھ پیدا نہیں کرتا؟ کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے اور نصیحت حاصل نہیں کرتے؟
وَإِن تَعُدُّوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَغَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿١٨﴾
اور اگر تم الله کی نعمتو ں کو گننے لگو تو ان کا شمار نہیں کر سکو گےبے شک الله بخشنے والا مہربان ہے
اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے
اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
اور اگر تم خدا کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو گن نہ سکو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
اور تم اللہ کی نعمتوں کو شمار بھی کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے ہو بیشک اللہ بڑا مہربان اور بخشنے والا ہے
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے بےشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔
وَٱللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ﴿١٩﴾
اور الله جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتےہو
حالانکہ وہ تمہارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی
اور اللہ جانتا ہے جو چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو،
اور جو کچھ تم چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو سب سے خدا واقف ہے
اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو،
اور اللہ ہی تمہارے باطن و ظاہر دونوں سے باخبر ہے
اور جو کچھ تم چھپاؤ اور ﻇاہر کرو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے
اللہ وہ (سب کچھ) جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو۔
وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْـًۭٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿٢٠﴾
اور جنہیں الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدانہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں
اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں
اور اللہ کے سوا جن کو پوجتے ہو ہیں (۳۲) وہ کچھ بھی نہیں بناتے اور وہ خود بنائے ہوئے ہیں
اور جن لوگوں کو یہ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو نہیں بناسکتے بلکہ خود ان کو اور بناتے ہیں
اور یہ (مشرک) لوگ جن (بتوں) کو اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں،
اور اس کے علاوہ جنہیں یہ مشرکین پکارتے ہیں وہ خود ہی مخلوق ہیں اور وہ کسی چیز کو خلق نہیں کرسکتے ہیں
اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں وه کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ وه خود پیدا کیے ہوئے ہیں
اور اللہ کو چھوڑ کر جن کو یہ (مشرک) لوگ پکارتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے (بلکہ) وہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں۔
أَمْوَٰتٌ غَيْرُ أَحْيَآءٍۢ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ﴿٢١﴾
وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے
مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھایا جائے گا
مُردے ہیں زندہ نہیں اور انہیں خبر نہیں لوگ کب اٹھائے جایں گے
لاشیں ہیں بےجان۔ ان کو یہ بھی تو معلوم نہیں کہ اٹھائے کب جائیں گے
(وہ) مُردے ہیں زندہ نہیں، اور (انہیں اتنا بھی) شعور نہیں کہ (لوگ) کب اٹھائے جائیں گے،
وہ تو مفِدہ ہیں ان میں زندگی بھی نہیں ہے اور نہ انہیں یہ خبر ہے کہ مفِدے کب اٹھائے جائیں گے
مردے ہیں زنده نہیں، انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے
وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں۔ انہیں تو یہ بھی خبر نہیں ہے کہ انہیں یا ان کے پجاریوں کو (دوبارہ) کب اٹھایا جائے گا؟
إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌۭ وَٰحِدٌۭ ۚ فَٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْءَاخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌۭ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ ﴿٢٢﴾
تمہارا معبود اکیلا معبود ہے پھر جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل نہیں مانتے اور وہ تکبر کرنے والے ہیں
تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے اُن کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑ گئے ہیں
تمہارا معبوثد ایک معبود ہے تو وہ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل منکر ہیں اور وہ مغرور ہیں
تمہارا معبود تو اکیلا خدا ہے۔ تو جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کر رہے ہیں اور وہ سرکش ہو رہے ہیں
تمہارا معبود، معبودِ یکتا ہے، پس جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منکر ہیں اور وہ سرکش و متکبّر ہیں،
تمہارا خدا صرف ایک ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے دل منکر قسم کے ہیں اور وہ خود مغرور و متکّبر ہیں
تم سب کا معبود صرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل منکر ہیں اور وه خود تکبر سے بھرے ہوئے ہیں
تمہارا الٰہ بس ایک ہی الٰہ ہے سو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منکر ہیں اور وہ بڑے مغرور ہیں۔
لَا جَرَمَ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْتَكْبِرِينَ ﴿٢٣﴾
ضرور الله جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں بے شک وہ غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
اللہ یقیناً اِن کے سب کرتوت جانتا ہے چھپے ہوئے بھی اور کھلے ہوئے بھی وہ اُن لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرور نفس میں مبتلا ہوں
فی الحقیقت اللہ جانتا ہے جو چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا،
یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں خدا اس کو ضرور جانتا ہے۔ وہ سرکشوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا
یہ بات حق و ثابت ہے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ سرکشوں متکبّروں کو پسند نہیں کرتا،
یقینا اللہ ان تمام باتوں کو جانتا ہے جنہیں یہ حُھپاتے ہیں یا جن کا اظہار کرتے ہیں وہ متکبرین کو ہرگز پسند نہیں کرتا ہے
بےشک وشبہ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو، جسے وه لوگ چھپاتے ہیں اور جسے ﻇاہر کرتے ہیں، بخوبی جانتا ہے۔ وه غرور کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
یقینا اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو وہ (دلوں میں) چھپاتے ہیں اور اسے بھی جو وہ ظاہر کرتے ہیں بے شک وہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُم مَّاذَآ أَنزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوٓا۟ أَسَٰطِيرُ ٱلْأَوَّلِينَ ﴿٢٤﴾
اور جب ان سے کہا جائے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے کہتے ہیں پہلے لوگوں کے قصے ہیں تاکہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائيں اورکچھ ان کے بوجھ جنہیں بے علمی سے گمراہ کرتے ہیں خبردار برا بوجھ ہے جواٹھاتے ہیں
اور جب کوئی ان سے پوچھتا ہے کہ تمہارے رب نے یہ کیا چیز نازل کی ہے، تو کہتے ہیں \"اجی وہ تو اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں\"
اور جب ان سے کہا جائے تمہارے رب نے کیا اتارا کہیں اگلوں کی کہانیاں ہیں
اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے تو کہتے ہیں کہ (وہ تو) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں
اور جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا ہے؟ (تو) وہ کہتے ہیں: اگلی قوموں کے جھوٹے قصے (اتارے ہیں)،
اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا نازل کیا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ سب پچھلے لوگوں کے افسانے ہیں
ان سے جب دریافت کیا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل فرمایا ہے؟ تو جواب دیتے ہیں کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں
اور جب ان سے کہا (پوچھا) جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں (کچھ بھی نہیں) بس اگلے لوگوں کی (فرسودہ) داستانیں ہیں۔
لِيَحْمِلُوٓا۟ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةًۭ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ ۙ وَمِنْ أَوْزَارِ ٱلَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ أَلَا سَآءَ مَا يَزِرُونَ ﴿٢٥﴾
ان سے پہلےلوگوں نے بھی مکر کیا تھا پھر الله نے ان کی عمارت کو جڑوں سے ڈھا دیا پھر ان پر اوپر سے چھت گر پڑی اور ان پر عذاب آیا جہاں سے انہیں خبر بھی نہ تھی
یہ باتیں وہ اس لیے کرتے ہیں کہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں، اور ساتھ ساتھ کچھ اُن لوگوں کے بوجھ بھی سمیٹیں جنہیں یہ بر بنائے جہالت گمراہ کر رہے ہیں دیکھو! کیسی سخت ذمہ داری ہے جو یہ اپنے سر لے رہے ہیں
کہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائیں اور کچھ بوجھ ان کے جنہیں اپنی جہالت سے گمراہ کرتے ہیں، سن لو کیا ہی برا بوجھ اٹھاتے ہیں،
(اے پیغمبر ان کو بکنے دو) یہ قیامت کے دن اپنے (اعمال کے) پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ سن رکھو کہ جو بوجھ اٹھا رہے ہیں برے ہیں
(یہ سب کچھ اس لئے کہہ رہے ہیں) تاکہ روزِ قیامت وہ اپنے (اعمالِ بد کے) پورے پورے بوجھ اٹھائیں اور کچھ بوجھ اُن لوگوں کے بھی (اٹھائیں) جنہیں (اپنی) جہالت کے ذریعہ گمراہ کئے جا رہے ہیں، جان لو! بہت بُرا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں،
تاکہ یہ مکمل طور پر اپنا بھی بوجھ اٹھائیں اور اپنے ان مریدوں کا بھی بوجھ اٹھائیں جنہیں بلاعلم و فہم کے گمراہ کرتے رہے ہیں - بیشک یہ بڑا بدترین بوجھ اٹھانے والے ہیں
اسی کا نتیجہ ہوگا کہ قیامت کے دن یہ لوگ اپنے پورے بوجھ کے ساتھ ہی ان کے بوجھ کے بھی حصے دار ہوں گے جنہیں بے علمی سے گمراه کرتے رہے۔ دیکھو تو کیسا برا بوجھ اٹھا رہے ہیں
اس کا انجام یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ اپنے گناہوں کا بھی پورا پورا بوجھ اٹھائیں گے اور کچھ بوجھ ان کا بھی اٹھائیں گے جنہیں یہ بے سمجھے گمراہ کر رہے ہیں (دیکھو) کیا ہی برا بوجھ ہے وہ جو یہ اٹھا رہے ہیں؟
قَدْ مَكَرَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى ٱللَّهُ بُنْيَٰنَهُم مِّنَ ٱلْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ ٱلسَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَىٰهُمُ ٱلْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٢٦﴾
پھر قیامت کے دن انہیں رسوا کرے گا اور کہے گا میرے شریک کہاں ہیں جن پر تمہیں بڑی ضد تھی جنہیں علم دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ بے شک آج کافروں کے لیے رسوائی اور برائی ہے
اِن سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں کر چکے ہیں، تو دیکھ لو کہ اللہ نے اُن کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آ رہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا اُن کو گمان تک نہ تھا
بیشک ان سے اگلوں نے فریب کیا تھا تو اللہ نے ان کی چنائی کو نیو سے (تعمیر کو بنیاد) سے لیا تو اوپر سے ان پر چھت گر پڑی اور عذاب ان پر وہاں سے آیا جہاں کی انہیں خبر نہ تھی
ان سے پہلے لوگوں نے بھی (ایسی ہی) مکاریاں کی تھیں تو خدا (کا حکم) ان کی عمارت کے ستونوں پر آپہنچا اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی اور (ایسی طرف سے) ان پر عذاب آ واقع ہوا جہاں سے ان کو خیال بھی نہ تھا
بیشک اُن لوگوں نے (بھی) فریب کیا جو اِن سے پہلے تھے تو اللہ نے اُن (کے مکر و فریب) کی عمارت کو بنیادوں سے اکھاڑ دیا تو ان کے اوپر سے ان پر چھت گر پڑی اور ان پر اس طرف سے عذاب آپہنچا جس کا اُنہیں کچھ خیال بھی نہ تھا،
یقینا ان سے پہلے والوں نے بھی مکاریاں کی تھیں تو عذاب الٰہی ان کی تعمیرات تک آیا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا اور ان کے سروں پر چھت گر پڑی اور عذاب ایسے انداز سے آیا کہ انہیں شعور بھی نہ پیدا ہوسکا
ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی مکر کیا تھا، (آخر) اللہ نے (ان کے منصوبوں) کی عمارتوں کو جڑوں سے اکھیڑ دیا اور ان (کے سروں) پر (ان کی) چھتیں اوپر سے گر پڑیں، اور ان کے پاس عذاب وہاں سے آگیا جہاں کا انہیں وہم وگمان بھی نہ تھا
جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں انہوں نے بھی (دعوتِ حق کے خلاف) مکاریاں کی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی (مکاریوں والی) عمارت بنیاد سے اکھیڑ دی اور اس کی چھت اوپر سے ان پر آپڑی اور ان پر اس طرف سے عذاب آیا جدھر سے ان کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔
ثُمَّ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ يُخْزِيهِمْ وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَآءِىَ ٱلَّذِينَ كُنتُمْ تُشَٰٓقُّونَ فِيهِمْ ۚ قَالَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْعِلْمَ إِنَّ ٱلْخِزْىَ ٱلْيَوْمَ وَٱلسُّوٓءَ عَلَى ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿٢٧﴾
یہ وہ لوگ ہیں کہ فرشتوں نے ان کی ایسی حالت میں روح نکالی تھی کہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے
پھر قیامت کے روز اللہ اُنہیں ذلیل و خوار کرے گا اور اُن سے کہے گا \"بتاؤ اب کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے لیے تم (اہل حق سے) جھگڑے کیا کرتے تھے؟\" جن لوگوں کو دنیا میں علم حاصل تھا وہ کہیں گے \"آج رسوائی اور بدبختی ہے کافروں کے لیے\"
پھر قیامت کے دن انہیں رسوا کرے گا اور فرمائے گا کہاں ہیں میرے وہ شریک جن میں تم جھگڑتے تھے علم والے کہیں گے آج ساری رسوائی اور برائی کافروں پر ہے
پھر وہ ان کو قیامت کے دن بھی ذلیل کرے گا اور کہے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم جھگڑا کرتے تھے۔ جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ آج کافروں کی رسوائی اور برائی ہے
پھر وہ اُنہیں قیامت کے دن رسوا کرے گا اور ارشاد فرمائے گا: میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کے حق میں تم (مومنوں سے) جھگڑا کرتے تھے؟ وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے کہیں گے: بیشک آج کافروں پر (ہر قسم کی) رسوائی اور بربادی ہے،
اس کے بعد وہ روزِ قیامت انہیں رسوا کرے گا اور پوچھے گا کہاں ہیں وہ میرے شریک جن کے بارے میں تم جھگڑا کیا کرتے تھے - اس وقت صاحبان هعلم کہیں گے کہ آج رسوائی اور برائی ان کافروں کے لئے ثابت ہوگئی ہے
پھر قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں رسوا کرے گا اور فرمائے گا کہ میرے وه شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم لڑتے جھگڑتے تھے، جنہیں علم دیا گیا تھا وه پکار اٹھیں گے کہ آج تو کافروں کو رسوائی اور برائی چمٹ گئی
پھر قیامت کے دن وہ (اللہ) انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور کہے گا کہ (بتاؤ) کہاں ہیں وہ میرے شریک جن کے بارے میں تم (اہلِ حق سے) لڑا جھگڑا کرتے تھے (اس وقت) وہ لوگ کہیں گے جن کو (حقیقت کا) علم دیا گیا تھا کہ آج کے دن رسوائی اور برائی ان کافروں کے لئے ہے۔
ٱلَّذِينَ تَتَوَفَّىٰهُمُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ ظَالِمِىٓ أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا۟ ٱلسَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوٓءٍۭ ۚ بَلَىٰٓ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌۢ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٢٨﴾
پھر وہ صلح کا پیغام بھیجیں گے کہ ہم تو کوئی برا کام نہ کرتے تھے کیوں نہیں بے شک الله کو تمہارے اعمال کی پوری خبر ہے
ہاں، اُنہی کافروں کے لیے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں تو (سرکشی چھوڑ کر) فوراً ڈگیں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں \"ہم تو کوئی قصور نہیں کر رہے تھے\" ملائکہ جواب دیتے ہیں \"کر کیسے نہیں رہے تھے! اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے
وہ کہ فرشتے ان کی جان نکالتے ہیں اس حال پر کیا وہ اپنا برا کررہے تھے اب صلح ڈالیں گے کہ ہم تو کچھ برائی نہ کرتے تھے ہاں کیوں نہیں، بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو تمہارے کوتک (برے اعمال) تھے
(ان کا حال یہ ہے کہ) جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں (اور یہ) اپنے ہی حق میں ظلم کرنے والے (ہوتے ہیں) تو مطیع ومنقاد ہوجاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم کوئی برا کام نہیں کرتے تھے۔ ہاں جو کچھ تم کیا کرتے تھے خدا اسے خوب جانتا ہے
جن کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر (بدستور) ظلم کئے جا رہے ہوں، سو وہ (روزِ قیامت) اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کریں گے (اور کہیں گے:) ہم (دنیا میں) کوئی برائی نہیں کیا کرتے تھے، کیوں نہیں بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کیا کرتے تھے،
جنہیں ملائکہ اس عالم میں اٹھاتے ہیں کہ وہ اپنے نفس کے ظالم ہوتے ہیں تو اس وقت اطاعت کی پیشکش کرتے ہیں کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے. بیشک خدا خوب جانتا ہے کہ تم کیا کیا کرتے تھے
وه جو اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے ہیں، فرشتے جب ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں اس وقت وه جھک جاتے ہیں کہ ہم برائی نہیں کرتے تھے۔ کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ خوب جاننے واﻻ ہے جو کچھ تم کرتے تھے
کہ جن کی روحیں فرشتوں نے اس حال میں قبض کی تھیں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے اس وقت انہوں نے (سپر ڈال دی تھی اور) صلح کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے (ان سے کہا گیا) ہاں (تم نے ضرور برائی کی تھی) تم لوگ جو کچھ کرتے رہے ہو اللہ اس سے بخوبی واقف ہے۔
فَٱدْخُلُوٓا۟ أَبْوَٰبَ جَهَنَّمَ خَٰلِدِينَ فِيهَا ۖ فَلَبِئْسَ مَثْوَى ٱلْمُتَكَبِّرِينَ ﴿٢٩﴾
سو دوزخ کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ رہو پس متکبرین کا کیا ہی برا ٹھکانہ ہے
اب جاؤ، جہنم کے دروازوں میں گھس جاؤ وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے\" پس حقیقت یہ ہے کہ بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے متکبروں کے لیے
اب جہنم کے دروازوں میں جاؤ کہ ہمیشہ اس میں رہو، تو کیا ہی برا ٹھکانا مغروروں کا،
سو دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ۔ ہمیشہ اس میں رہو گے۔ اب تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانا ہے
پس تم دوزخ کے دروازوں سے داخل ہو جاؤ، تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو، سو تکبّر کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہے،
جاؤ اب جہنمّ کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ اور ہمیشہ وہیں رہو کہ متکبرین کا ٹھکانا بہت برا ہوتا ہے
پس اب تو ہمیشگی کے طور پر تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا
پس اب جہنم کے دروازوں میں سے (جہنم میں) داخل ہو جاؤ اب تمہیں ہمیشہ کے لئے اسی میں رہنا ہے پس کیا ہی برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کا۔
۞ وَقِيلَ لِلَّذِينَ ٱتَّقَوْا۟ مَاذَآ أَنزَلَ رَبُّكُمْ ۚ قَالُوا۟ خَيْرًۭا ۗ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا۟ فِى هَٰذِهِ ٱلدُّنْيَا حَسَنَةٌۭ ۚ وَلَدَارُ ٱلْءَاخِرَةِ خَيْرٌۭ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ ٱلْمُتَّقِينَ ﴿٣٠﴾
اور پرہیزگاروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے تو کہتے ہیں اچھی چیز جنہوں نے نیکی کی ہے (ان کے لیے) اس دنیا میں بھی بہتری ہے اور البتہ آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے اور پرہیزگاروں کا کیا ہی اچھا گھر ہے
دوسری طرف جب خدا ترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ \"بہترین چیز اتری ہے\" اِس طرح کے نیکوکار لوگوں کے لیے اِس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا
اور ڈر والوں سے کہا گیا تمہارے رب رب نے کیا اتارا، بولے خوبی جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ان کے لیے بھلائی ہے اور بیشک پچھلا گھر سب سے بہتر، اور ضرور کیا ہی اچھا گھر پرہیزگاروں کا
اور (جب) پرہیزگاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ بہترین (کلام) ۔ جو لوگ نیکوکار ہیں ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے۔ اور آخرت کا گھر تو بہت ہی اچھا ہے۔ اور پرہیز گاروں کا گھر بہت خوب ہے
اور پرہیزگار لوگوں سے کہا جائے کہ تمہارے رب نے کیا نازل فرمایا ہے؟ وہ کہتے ہیں: (دنیا و آخرت کی) بھلائی (اتاری ہے)، ان لوگوں کے لئے جو نیکی کرتے رہے اس دنیا میں (بھی) بھلائی ہے، اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی بہتر ہے، اور پرہیزگاروں کا گھر کیا ہی خوب ہے،
اور جب صاحبان هتقوٰی سے کہا گیا کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ سب خیر ہے - بیشک جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک اعمال کئے ہیں ان کے لئے نیکی ہے اور آخرت کا گھر تو بہرحال بہتر ہے اور وہ لَتقّین کا بہترین مکان ہے
اور پرہیز گاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل فرمایا ہے؟ تو وه جواب دیتے ہیں کہ اچھے سے اچھا۔ جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے، اور یقیناً آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے، اور کیا ہی خوب پرہیز گاروں کا گھر ہے
اور جب صاحبانِ تقویٰ سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ سراسر خیر و خوبی نازل کی ہے جن لوگوں نے اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کی ان کے لئے یہاں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو یقیناً اور بھی بہتر ہے اور متقیوں کا گھر کیا ہی خوب ہے؟
جَنَّٰتُ عَدْنٍۢ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ ۖ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَآءُونَ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْزِى ٱللَّهُ ٱلْمُتَّقِينَ ﴿٣١﴾
ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جو چاہیں گے انہیں وہاں ملے گا الله پرہیزگاروں کو ایسا ہی بدلہ دے گا
دائمی قیام کی جنتیں، جن میں وہ داخل ہوں گے، نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی، اور سب کچھ وہاں عین اُن کی خواہش کے مطابق ہوگا یہ جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو
بسنے کے باغ جن میں جائیں گے ان کے نیچے نہریں رواں انہیں وہاں ملے گا جو چاہیں اللہ ایسا ہی صلہ دیتا ہے پرہیزگاروں کو
(وہ) بہشت جاودانی (ہیں) جن میں وہ داخل ہوں گے ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہاں جو چاہیں گے ان کے لیے میسر ہوگا۔ خدا پرہیزگاروں کو ایسا ہی بدلہ دیتا ہے
سدا بہار باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اِن میں اُن کے لئے جو کچھ وہ چاہیں گے (میسّر) ہوگا، اس طرح اللہ پرہیزگاروں کو صلہ عطا فرماتا ہے،
وہاں ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ جو کچھ چاہیں گے سب ان کے لئے حاضر ہوگا کہ اللہ اسی طرح ان صاحبان ه تقوٰی کو جزا دیتا ہے
ہمیشگی والے باغات جہاں وه جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جو کچھ یہ طلب کریں گے وہاں ان کے لیے موجود ہوگا۔ پرہیز گاروں کو اللہ تعالیٰ اسی طرح بدلے عطا فرماتا ہے
(یعنی) وہاں ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہاں وہ جو کچھ چاہیں گے ان کو مل جائے گا خدا اسی طرح پرہیزگاروں کو جزا دیتا ہے۔
ٱلَّذِينَ تَتَوَفَّىٰهُمُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَٰمٌ عَلَيْكُمُ ٱدْخُلُوا۟ ٱلْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٣٢﴾
جن کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں ایسے حال میں کہ وہ پاک ہیں فرشتے کہیں گے تم پر سلامتی ہو بہشت میں داخل ہو جاؤ بسبب ان کاموں کے جو تم کرتے تھے
اُن متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں \"سلام ہو تم پر، جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے\"
وہ جن کی جان نکالتے ہیں فرشتے ستھرے پن میں یہ کہتے ہوئے کہ سلامتی ہو تم پر جنت میں جاؤ بدلہ اپنے کیے کا،
(ان کی کیفیت یہ ہے کہ) جب فرشتے ان کی جانیں نکالنے لگتے ہیں اور یہ (کفر وشرک سے) پاک ہوتے ہیں تو سلام علیکم کہتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) جو عمل تم کیا کرتے تھے ان کے بدلے میں بہشت میں داخل ہوجاؤ
جن کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (نیکی و طاعت کے باعث) پاکیزہ اور خوش و خرم ہوں، (ان سے فرشتے قبضِ روح کے وقت ہی کہہ دیتے ہیں:) تم پر سلامتی ہو، تم جنت میں داخل ہو جاؤ ان (اَعمالِ صالحہ) کے باعث جو تم کیا کرتے تھے،
جنہیں ملائکہ اس عالم میں اٹھاتے ہیں کہ وہ پاک و پاکیزہ ہوتے ہیں اور ان سے ملائکہ کہتے ہیں کہ تم پر سلام ہو اب تم اپنے نیک اعمال کی بنا پر جنّت میں داخل ہوجاؤ
وه جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وه پاک صاف ہوں کہتے ہیں کہ تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے، جاؤ جنت میں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے۔
وہ متقی جن کی روحیں اس حال میں فرشتے قبض کرتے ہیں کہ وہ (کفر و شرک) سے پاک و صاف ہوتے ہیں (اس وقت) فرشتے کہتے ہیں تم پر سلام ہو بہشت میں داخل ہو جاؤ ان اعمال کی بدولت جو تم کیا کرتے تھے۔
هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّآ أَن تَأْتِيَهُمُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ أَوْ يَأْتِىَ أَمْرُ رَبِّكَ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ ٱللَّهُ وَلَٰكِن كَانُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿٣٣﴾
کیا اب اس کے منتظر ہیں کہ ان پر فرشتے آویں یا تیرے رب کا حکم آئے اسی طرح ان سے پہلوں نے بھی کیا تھا اور الله نے ان پر ظلم نہیں کیا اور لیکن وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرتے تھے
اے محمدؐ، اب جو یہ لوگ انتظار کر رہے ہیں تو اِس کے سوا اب اور کیا باقی رہ گیا ہے کہ ملائکہ ہی آ پہنچیں، یا تیرے رب کا فیصلہ صادر ہو جائے؟ اِس طرح کی ڈھٹائی اِن سے پہلے بہت سے لوگ کر چکے ہیں پھر جو کچھ اُن کے ساتھ ہوا وہ اُن پر اللہ کا ظلم نہ تھا بلکہ اُن کا اپنا ظلم تھا جو اُنہوں نے خود اپنے اوپر کیا
کاہے کے انتظار میں ہیں مگر اس کے کہ فرشتے ان پر آئیں یا تمہارے رب کا عذاب آئے ان سے اگلوں نے ایسا ہی کیا اور اللہ نے ان پر کچھ ظلم نہ کیا، ہاں وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے،
کیا یہ (کافر) اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے پاس (جان نکالنے) آئیں یا تمہارے پروردگار کا حکم (عذاب) آپہنچے۔ اسی طرح اُن لوگوں نے کیا تھا جو اُن سے پہلے تھے اور خدا نے اُن پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے
یہ اور کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں سوائے اِس کے کہ ِان کے پاس فرشتے آجائیں یا آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آپہنچے، یہی کچھ ان لوگوں نے (بھی) کیا تھا جو اِن سے پہلے تھے، اور اللہ نے اُن پر ظلم نہیں کیا تھا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا کرتے تھے،
کیا یہ لوگ صرف اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس ملائکہ آجائیں یا حکم پروردگار آجائے تو یہی ان کے پہلے والوں نے بھی کیا تھا اور اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا ہے بلکہ یہ خود ہی اپنے نفس پر ظلم کرتے رہے ہیں
کیا یہ اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا تیرے رب کا حکم آجائے؟ ایسا ہی ان لوگوں نے بھی کیا تھا جو ان سے پہلے تھے۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے کوئی ﻇلم نہیں کیا بلکہ وه خود اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے رہے
(اے رسول) یہ (منکرین) صرف اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس (عذاب والے) فرشتے آجائیں یا آپ کے پروردگار کا حکم (عذاب) آجائے؟ ایسا ہی ان لوگوں نے کیا تھا جو ان سے پہلے خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔
فَأَصَابَهُمْ سَيِّـَٔاتُ مَا عَمِلُوا۟ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ ﴿٣٤﴾
پھر انہیں ان کے بد اعمال کے نتیجے مل کر رہے اورجس کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے وہی ان پر نازل ہوا
اُن کے کرتوتوں کی خرابیاں آخر اُن کی دامنگیر ہو گئیں اور وہی چیز اُن پر مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے
تو ان کی بری کمائیاں ان پر پڑیں اور انہیں گھیرلیا اس نے جس پر ہنستے تھے،
تو ان کو ان کے اعمال کے برے بدلے ملے اور جس چیز کے ساتھ وہ ٹھٹھے کیا کرتے تھے اس نے ان کو (ہر طرف سے) گھیر لیا
سو جو اَعمال انہوں نے کئے تھے انہی کی سزائیں ان کو پہنچیں اور اسی (عذاب) نے انہیں آگھیرا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے،
نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اعمال کے بفِے اثرات ان تک پہنچ گئے اور جن باتوں کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے ان ہی باتوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور پھر تباہ و برباد کردیا
پس ان کے برے اعمال کے نتیجے انہیں مل گئے اور جس کی ہنسی اڑاتے تھے اس نے ان کو گھیر لیا
آخرکار ان کے کرتوتوں کی برائیاں ان تک پہنچ گئیں اور انہیں اس (عذاب) نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔
وَقَالَ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوا۟ لَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِۦ مِن شَىْءٍۢ نَّحْنُ وَلَآ ءَابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِۦ مِن شَىْءٍۢ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى ٱلرُّسُلِ إِلَّا ٱلْبَلَٰغُ ٱلْمُبِينُ ﴿٣٥﴾
اور مشرک کہتے ہیں اگر الله چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی چیز کی عبادت نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور اس کے حکم کے سوا ہم کسی چیز کو حرام نہ ٹھیراتے اسی طرح کیا ان لوگو ں نے جو ان سے پہلے تھے پھر رسولوں کے ذمہ تو صرف صاف پہنچا دینا ہے
یہ مشرکین کہتے ہیں \"اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اُس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے اور نہ اُس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھیراتے\" ایسے ہی بہانے اِن سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں تو کیا رسولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمہ داری ہے؟
اور مشرک بولے اللہ چاہتا تو اس کے سوا کچھ نہ پوجنے نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ اس سے جدا ہو کر ہم کوئی چیز حرام ٹھہراتے جیسا ہی ان سے اگلوں نے کیا تو رسولوں پر کیا ہے مگر صاف پہنچا دینا،
اور مشرک کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا کسی چیز کو پوجتے اور نہ ہمارے بڑے ہی (پوجتے) اور نہ اس کے (فرمان کے) بغیر ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ (اے پیغمبر) اسی طرح ان سے اگلے لوگوں نے کیا تھا۔ تو پیغمبروں کے ذمے (خدا کے احکام کو) کھول کر سنا دینے کے سوا اور کچھ نہیں
اور مشرک لوگ کہتے ہیں: اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی بھی چیز کی پرستش نہ کرتے، نہ ہی ہم اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم اس کے (حکم کے) بغیر کسی چیز کو حرام قرار دیتے، یہی کچھ ان لوگوں نے (بھی) کیا تھا جو اِن سے پہلے تھے، تو کیا رسولوں کے ذمہ (اللہ کے پیغام اور احکام) واضح طور پر پہنچا دینے کے علاوہ بھی کچھ ہے،
اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو ہم یا ہمارے بزرگ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی شے کو حرام قرار دیتے - اسی طرح ان کے پہلے والوں نے بھی کیا تھا تو کیا رسولوں کی ذمہ دری واضح اعلان کے علاوہ کچھ اور بھی ہے
مشرک لوگوں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادے اس کے سوا کسی اور کی عبادت ہی نہ کرتے، نہ اس کے فرمان کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے۔ یہی فعل ان سے پہلے کے لوگوں کا رہا۔ تو رسولوں پر تو صرف کھلم کھلا پیغام کا پہنچا دینا ہے
اور مشرک لوگ کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے آباء و اجداد اس کے سوا نہ کسی اور کی عبادت کرتے اور نہ ہی ہم اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے ایسا ہی ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے (بتاؤ) پیغمبروں کے ذمے کھلا پیغام دینے کے سوا اور کیا ہے؟
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَٰلَةُ ۚ فَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿٣٦﴾
اور البتہ تحقیق ہم نے ہر امت میں یہ پیغام دے کر رسول بھیجا کہ الله کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو پھر ان میں سے بعض کو الله نے ہدایت دی اوربعض پر گمراہی ثابت ہوئی پھر ملک میں پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اُس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ \"اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو\" اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے
اور بیشک ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا کہ اللہ کو پوجو اور شیطان سے بچو تو ان میں کسی کو اللہ نے راہ دکھائی اور کسی پر گمراہی ٹھیک اتری تو زمین میں چل پھر کر دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا
اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا
اور بیشک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش) سے اجتناب کرو، سو اُن میں بعض وہ ہوئے جنہیں اللہ نے ہدایت فرما دی اور اُن میں بعض وہ ہوئے جن پر گمراہی (ٹھیک) ثابت ہوئی، سو تم لوگ زمین میں سیر و سیاحت کرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا،
اوریقینا ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو پھر ان میں بعض کو خدا نے ہدایت دے دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی تو اب تم لوگ روئے زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ تکذیب کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ﺛابت ہوگئی، پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟
اور یقیناً ہم نے ہر ایک امت میں کوئی نہ کوئی رسول (یہ پیغام دے کر) ضرور بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (کی بندگی) سے بچو پس ان (امتوں) میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی مستقر اور ثابت ہوگئی پس تم زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟
إِن تَحْرِصْ عَلَىٰ هُدَىٰهُمْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى مَن يُضِلُّ ۖ وَمَا لَهُم مِّن نَّٰصِرِينَ ﴿٣٧﴾
اگر تو انہیں ہدایت پرلانے کی طمع کرے تو الله ہدایت نہیں دیتا اس شخص کو جسے گمراہ کر دے اور نہ ان کے لیے کوئی مددگار ہوگا
اے محمدؐ، تم چاہے اِن کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو، مگر اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیا کرتا اور اس طرح کے لوگوں کی مدد کوئی نہیں کر سکتا
اگر تم ان کی ہدایت کی حرص کرو تو بیشک اللہ ہدایت نہیں دیتا جسے گمراہ کرے اور ان کا کوئی مددگار نہیں،
اگر تم ان (کفار) کی ہدایت کے لیے للچاؤ تو جس کو خدا گمراہ کردیتا ہے اس کو وہ ہدایت نہیں دیا کرتا اور ایسے لوگوں کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوتا
اگر آپ ان کے ہدایت پر آجانے کی شدید طلب رکھتے ہیں تو (آپ اپنی طبیعتِ مطہرہ پر اس قدر بوجھ نہ لائیں) بیشک اللہ جسے گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اسے ہدایت نہیں فرماتا اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوتا،
اگر آپ کو خواہش ہے کہ یہ ہدایت پاجائیں تو اللہ جس کو گمراہی میں چھوڑ چکا ہے اب اسے ہدایت نہیں دے سکتا اور نہ ان کا کوئی مدد کرنے والا ہوگا
گو آپ ان کی ہدایت کے خواہش مند رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے گمراه کر دے اور نہ ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے
(اے رسول) آپ ان کے ہدایت پانے کے کتنے ہی حریص ہوں مگر (یہ ہدایت پانے والے نہیں) کیونکہ اللہ جس کو (اس کے کفر و سرکشی کی وجہ سے) گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اس کو ہدایت نہیں کرتا اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہے۔
وَأَقْسَمُوا۟ بِٱللَّهِ جَهْدَ أَيْمَٰنِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ ٱللَّهُ مَن يَمُوتُ ۚ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّۭا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٨﴾
اور الله کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ الله انہیں اٹھائے گا اس شخص کو جو مر جائے گا ہاں اس نے اپنے ذمہ پکا وعدہ کر لیا ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے
یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ \"اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اٹھائے گا\" اٹھائے گا کیوں نہیں، یہ تو ایک وعدہ ہے جسے پورا کرنا اس نے اپنے اوپر واجب کر لیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں حد کی کوشش سے کہ اللہ مُردے نہ اٹھائے گا ہاں کیوں نہیں (۷۹) سچا وعدہ اس کے ذمہ پر لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ جو مرجاتا ہے خدا اسے (قیامت کے دن قبر سے) نہیں اٹھائے گا۔ ہرگز نہیں۔ یہ (خدا کا) وعدہ سچا ہے اور اس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
اور یہ لوگ بڑی شدّ و مد سے اللہ کی قَسمیں کھاتے ہیں کہ جو مَر جائے اللہ اسے (دوبارہ) نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،
ان لوگوں نے واقعی اللہ کی قسم کھائی تھی کہ اللہ مرنے والوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ہے حالانکہ یہ اس کا برحق وعدہ ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیں
وه لوگ بڑی سخت سخت قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ زنده نہیں کرے گا۔ کیوں نہیں ضرور زنده کرے گا یہ تو اس کا برحق ﻻزمی وعده ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں
وہ اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ جو مر گیا خدا اسے ہرگز (دوبارہ) نہیں اٹھائے گا۔ ہاں (ضرور اٹھائے گا) یہ اس کا وعدہ ہے جس کا پورا کرنا اس پر لازم ہے لیکن اکثر لوگ اس کا علم نہیں رکھتے۔
لِيُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَنَّهُمْ كَانُوا۟ كَٰذِبِينَ ﴿٣٩﴾
تاکہ ان پر ظاہر کر دے وہ بات جس میں یہ جھگڑتے ہیں اور تاکہ کافر معلوم کر لیں کہ وہ جھوٹے تھے
اور ایسا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اللہ اِن کے سامنے اُس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں اور منکرین حق کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے
اس لیے کہ انہیں صاف بتادے جس بات میں جھگڑتے تھے اور اس لیے کہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے
تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے اور اس لیے کہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے
(مُردوں کا اٹھایا جانا اس لئے ہے) تاکہ ان کے لئے وہ (حق) بات واضح کر دے جس میں وہ لوگ اختلاف کرتے ہیں اور یہ کہ کافر لوگ جان لیں کہ حقیقت میں وہی جھوٹے ہیں،
وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے لئے اس امر کو واضح کردے جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں اور کفار کو یہ معلوم ہوجائے کہ وہ واقعی جھوٹ بولا کرتے تھے
اس لیے بھی کہ یہ لوگ جس چیز میں اختلاف کرتے تھے اسے اللہ تعالیٰ صاف بیان کر دے اور اس لیے بھی کہ خود کافر اپنا جھوٹا ہونا جان لیں
(یہ دوبارہ اٹھانا اس لئے ضروری ہے) تاکہ جن باتوں میں یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں ان کے سامنے ان کی حقیقت کھول دے اور تاکہ کافروں کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے۔
إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَىْءٍ إِذَآ أَرَدْنَٰهُ أَن نَّقُولَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ ﴿٤٠﴾
ہم جس کام کےکرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے ہمارا اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ہم اسے کہہ دیں کہ ہو جا پھر ہو جاتا ہے
(رہا اس کا امکان تو) ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں \"ہو جا\" اور بس وہ ہو جاتی ہے
جو چیز ہم چاہیں اس سے ہمارا فرمانا یہی ہوتا ہے کہ ہم کہیں ہوجا وہ فوراً ہوجاتی ہے،
جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو ہماری بات یہی ہے کہ اس کو کہہ دیتے ہیں کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے
ہمارا فرمان تو کسی چیز کے لئے صرف اِسی قدر ہوتا ہے کہ جب ہم اُس (کو وجود میں لانے) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اُسے فرماتے ہیں: ”ہو جا“ پس وہ ہو جاتی ہے،
ہم جس چیز کا ارادہ کرلیتے ہیں اس سے فقط اتنا کہتے ہیں کہ ہوجا اور پھر وہ ہوجاتی ہے
ہم جب کسی چیز کا اراده کرتے ہیں تو صرف ہمارا یہ کہہ دینا ہوتا ہے کہ ہوجا، پس وه ہوجاتی ہے
ہم جب کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارا کہنا بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ ہو جا بس وہ ہو جاتی ہے۔
وَٱلَّذِينَ هَاجَرُوا۟ فِى ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا۟ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةًۭ ۖ وَلَأَجْرُ ٱلْءَاخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ﴿٤١﴾
اورجنہوں نے الله کے واسطے گھر چھوڑا اس کےبعد ان پر ظلم کیا گیا تھا تو البتہ ہم نے انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی بڑا ہے کاش یہ لوگ سمجھ جاتے
جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش جان لیں وہ مظلوم
اور جنہوں نے اللہ کی راہ مں ی اپنے گھر بار چھوڑے مظلوم ہوکر ضرور ہم انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے کسی طرح لوگ جانتے، ف۸۶)
اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد خدا کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے۔ اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ (اسے) جانتے
اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی اس کے بعد کہ ان پر (طرح طرح کے) ظلم توڑے گئے تو ہم ضرور انہیں دنیا (ہی) میں بہتر ٹھکانا دیں گے، اور آخرت کا اجر تو یقیناً بہت بڑا ہے، کاش! وہ (اس راز کو) جانتے ہوتے،
اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد راہ هخدا میں ہجرت اختیار کی ہے ہم عنقریب دنیا میں بھی ان کو بہترین مقام عطا کریں گے اور آخرت کا اجر تو یقینا بہت بڑا ہے .اگر یہ لوگ اس حقیقت سے باخبر ہوں
جن لوگوں نے ﻇلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راه میں ترک وطن کیا ہے ہم انہیں بہتر سے بہتر ٹھکانا دنیا میں عطا فرمائیں گے اور آخرت کا ﺛواب تو بہت ہی بڑا ہے، کاش کہ لوگ اس سے واقف ہوتے
اور جن لوگوں نے خدا کے واسطے ہجرت کی اس کے بعد کہ (ایمان لانے کی وجہ سے) ان پر ظلم کئے گئے ہم ان کو دنیا میں بھی اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش یہ لوگ جان لیتے۔
ٱلَّذِينَ صَبَرُوا۟ وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٤٢﴾
جو لوگ ثابت قدم رہے اور اپنے رب پر بھروسہ کیا
جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے)
وہ جنہوں نے صبر کیا اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں
یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں
جن لوگوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر توکل کئے رکھتے ہیں،
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صبر کیا ہے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے رہے ہیں
وه جنہوں نے دامن صبر نہ چھوڑا اور اپنے پالنے والے ہی پر بھروسہ کرتے رہے
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صبر کیا اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًۭا نُّوحِىٓ إِلَيْهِمْ ۚ فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٤٣﴾
اور ہم نے تجھ سے پہلے بھی تو انسان ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے سو اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو
اے محمدؐ، ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے
اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جن کی طرف ہم وحی کرتے، تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں، ف۹۰)
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مَردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو،
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مذِدوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان کی طرف بھی وحی کرتے رہے ہیں تو ان سے کہئے کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو
آپ سے پہلے بھی ہم مَردوں کو ہی بھیجتے رہے، جن کی جانب وحی اتارا کرتے تھے پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کر لو
(اے رسول) ہم نے آپ سے پہلے مردوں کو ہی رسول بنا کر بھیجا، کھلی ہوئی دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھ لو۔
بِٱلْبَيِّنَٰتِ وَٱلزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾
ہم نے انہیں معجزات اور کتابیں دے کر بھیجا تھا اور ہم نے تیری طرف قرآن نازل کیا تاکہ لوگو ں کے لیے واضح کر دے جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ سوچ لیں
پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں
روشن دلیلیں اور کتابیں لے کر اور اے محبوب ہم نے تمہاری ہی طرف یہ یاد گار اتاری کہ تم لوگوں سے بیان کردو جو ان کی طرف اترا اور کہیں وہ دھیان کریں،
(اور ان پیغمبروں کو) دلیلیں اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں
(انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں،
اور ہم نے ان رسولوں کو معجزات اور کتابوں کے ساتھ بھیجا ہے اور آپ کی طرف بھی ذکر کو (قرآن)نازل کیا ہے تاکہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں اور شاید یہ اس بارے میں کچھ غور و فکر کریں
دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ، یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں
اور ہم نے آپ پر الذکر (قرآن مجید) اس لئے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے لئے (وہ معارف و احکام) کھول کر بیان کریں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔
أَفَأَمِنَ ٱلَّذِينَ مَكَرُوا۟ ٱلسَّيِّـَٔاتِ أَن يَخْسِفَ ٱللَّهُ بِهِمُ ٱلْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ ٱلْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٤٥﴾
پس کیا وہ لوگ نڈر ہو گئے ہیں جو برے فریب کرتے ہیں اس سے کہ الله انہیں زمین میں دھنسا دے یاان پر عذاب آئے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہو
پھر کیا وہ لوگ جو (دعوت پیغمبر کی مخالفت میں) بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اِس بات سے بالکل ہی بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے، یا ایسے گوشے میں ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہو
تو کیا جو لوگ بڑے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسادے یا انہیں وہاں سے عذاب آئے جہاں سے انہیں خبر نہ ہو،
کیا جو لوگ بری بری چالیں چلتے ہیں اس بات سے بےخوف ہیں کہ خدا ان کو زمین میں دھنسا دے یا (ایسی طرف سے) ان پر عذاب آجائے جہاں سے ان کو خبر ہی نہ ہو
کیا وہ بُرے مکر و فریب کرنے والے لوگ اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا (کسی) ایسی جگہ سے ان پر عذاب بھیج دے جس کا انہیں کوئی خیال بھی نہ ہو،
کیا یہ برائیوں کی تدبیریں کرنے والے کفار اس بات سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ اللہ اچانک انہیں زمین میں دھنسادے یا ان تک اس طرح عذاب آجائے کہ انہیں اس کا شعور بھی نہ ہو
بدترین داؤ پیچ کرنے والے کیا اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان کے پاس ایسی جگہ سے عذاب آجائے جہاں کا انہیں وہم وگمان بھی نہ ہو
کیا وہ لوگ جو (پیغمبر(ص) کے خلاف) بری تدبیریں اور ترکیبیں کر رہے ہیں وہ اس بات سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر ایسے موقع سے عذاب آجائے جہاں سے انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو؟
أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِى تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُم بِمُعْجِزِينَ ﴿٤٦﴾
یا انہیں چلتے پھرتے پکڑے پس وہ عاجز کرنے والے نہیں ہیں
یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑ لے، یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جبکہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنے ہوں؟
یا انہیں چلتے پھرتے پکڑ لے کہ وہ تھکا نہیں سکتے، ف۹۸)
یا ان کو چلتے پھرتے پکڑ لے وہ (خدا کو) عاجز نہیں کرسکتے
یا ان کی نقل و حرکت (سفر اور شغلِ تجارت) کے دوران ہی انہیں پکڑ لے سو وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے،
یا انہیں چلتے پھرتے گرفتار کرلیا جائے کہ یہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ہیں
یا انہیں چلتے پھرتے پکڑ لے۔ یہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے
یا انہیں اپنے کاروبار میں ان کے چلتے پھرتے وقت آپکڑے پس وہ اپنی چالبازیوں سے اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے۔
أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَىٰ تَخَوُّفٍۢ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌۭ رَّحِيمٌ ﴿٤٧﴾
یا انہیں ڈرانے کے بعد پکڑے پس تحقیق تمہارا رب نہایت ہی شفیق رحم کرنے والا ہے
وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے یہ لوگ اس کو عاجز کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی نرم خو اور رحیم ہے
یا انہیں نقصان دیتے دیتے گرفتار کرلے کہ بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے،
یا جب ان کو عذاب کا ڈر پیدا ہوگیا ہو تو ان کو پکڑلے۔ بےشک تمہارا پروردگار بہت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے
یا انہیں ان کے خوف زدہ ہونے پر پکڑ لے، تو بیشک تمہارا رب بڑا شفیق نہایت مہربان ہے،
یا پھر انہیں ڈرا ڈرا کر دھیرے دھیرے گرفت میں لیا جائے کہ تمہارا پروردگار بڑا شفیق اور مہربان ہے
یا انہیں ڈرا دھمکا کر پکڑ لے، پس یقیناً تمہارا پروردگار اعلیٰ شفقت اور انتہائی رحم واﻻ ہے
یا انہیں اس وقت پکڑے جب وہ اس سے خوف زدہ ہوں بلاشبہ تمہارا پروردگار بڑا شفیق اور بڑا مہربان ہے۔
أَوَلَمْ يَرَوْا۟ إِلَىٰ مَا خَلَقَ ٱللَّهُ مِن شَىْءٍۢ يَتَفَيَّؤُا۟ ظِلَٰلُهُۥ عَنِ ٱلْيَمِينِ وَٱلشَّمَآئِلِ سُجَّدًۭا لِّلَّهِ وَهُمْ دَٰخِرُونَ ﴿٤٨﴾
کیا وہ الله کی پیدا کی ہوئی چیزوں کونہیں دیکھتے کہ کے سائے دائیں اوربائیں طرف جھکے جارہے ہیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ الله کو سجدہ کررہے ہیں
اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے؟ سب کے سب اِس طرح اظہار عجز کر رہے ہیں
اور کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ جو چیز اللہ نے بنائی ہے اس کی پرچھائیاں دائیں اور بائیں جھکتی ہیں اللہ کو سجدہ کرتی اور وہ اس کے حضور ذلیل ہیں
کیا ان لوگوں نے خدا کی مخلوقات میں سے ایسی چیزیں نہیں دیکھیں جن کے سائے دائیں سے (بائیں کو) اور بائیں سے (دائیں کو) لوٹتے رہتے ہیں (یعنی) خدا کے آگے عاجز ہو کر سجدے میں پڑے رہتے ہیں
کیا انہوں نے ان (سایہ دار) چیزوں کی طرف نہیں دیکھا جو اللہ نے پیدا فرمائی ہیں (کہ) ان کے سائے دائیں اور بائیں اَطراف سے اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے پھرتے رہتے ہیں اور وہ (درحقیقت) طاعت و عاجزی کا اظہار کرتے ہیں،
کیا ان لوگوں نے ان مخلوقات کو نہیں دیکھا ہے جن کا سایہ داہنے بائیں پلٹتا رہتا ہے کہ سب اسی کی بارگاہ میں تواضع و انکسار کے ساتھ سجدہ ریز ہیں
کیا انہوں نے اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا؟ کہ اس کے سائے دائیں بائیں جھک جھک کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہوتے اور عاجزی کا اﻇہار کرتے ہیں
کیا ان لوگوں نے کبھی اللہ کی پیدا کی ہوئی مختلف چیزوں میں غور نہیں کیا کہ ان کے سائے کس طرح اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے دائیں بائیں جھکتے ہیں اس طرح وہ سب اپنے عجز کا اظہار کر رہے ہیں۔
وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ مِن دَآبَّةٍۢ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ﴿٤٩﴾
اور جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے جانداروں سے اور فرشتے سب الله ہی کو سجدہ کرتے ہیں اوروہ تکبرنہیں کرتے
زمین اور آسمانوں میں جس قدر جان دار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سر بسجود ہیں وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے
اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں چلنے والا ہے اور فرشتے اور وہ غرور نہیں کرتے،
اور تمام جاندار جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب خدا کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور فرشتے بھی اور وہ ذرا غرور نہیں کرتے
اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے جملہ جاندار اور فرشتے، اللہ (ہی) کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ (ذرا بھی) غرور و تکبر نہیں کرتے،
اور اللہ ہی کے لئے آسمان کی تمام چیزیں اور زمین کے تمام چلنے والے اور ملائکہ سجدہ ریز ہیں اور کوئی استکبار کرنے والا نہیں ہے
یقیناً آسمان وزمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدے کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے
اور جو (جاندار) چیزیں آسمانوں میں ہیں اور زمین میں جتنے جانور ہیں اور فرشتے سب اللہ کے لئے سربسجود ہیں اور وہ سرکشی نہیں کرتے۔
يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩ ﴿٥٠﴾
وہ اپنے بالادست رب سے ڈرتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ بجا لاتے ہیں
اپنے رب سے جو اُن کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں
اپنے اوپر اپنے رب کا خوف کرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم ہو،
اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو ارشاد ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں
وہ اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے (اسے) بجا لاتے ہیں،
یہ سب اپنے پروردگار کی برتری اور عظمت سے خوفزدہ ہیں اور اسی کے امر کے مطابق کام کررہے ہیں
اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں
وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں جو ان پر بالادست ہے اور انہیں جو کچھ حکم دیا جاتا ہے وہ وہی کرتے ہیں۔
۞ وَقَالَ ٱللَّهُ لَا تَتَّخِذُوٓا۟ إِلَٰهَيْنِ ٱثْنَيْنِ ۖ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌۭ وَٰحِدٌۭ ۖ فَإِيَّٰىَ فَٱرْهَبُونِ ﴿٥١﴾
الله نے کہا ہے دو معبود نہ بناؤ وہ ایک ہی معبود ہے پھر مجھ ہی سے ڈرو
اللہ کا فرمان ہے کہ \"دو خدا نہ بنا لو، خدا تو بس ایک ہی ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو
اور اللہ نے فرمادیا دو خدا نہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے تو مجھ ہی سے ڈرو، ف۱۰۶)
اور خدا نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود وہی ایک ہے۔ تو مجھ ہی سے ڈرتے رہو
اور اللہ نے فرمایا ہے: تم دو معبود مت بناؤ، بیشک وہی (اللہ) معبودِ یکتا ہے، اور تم مجھ ہی سے ڈرتے رہو،
اور اللہ نے کہہ دیا ہے کہ خبردار دو خدا نہ بناؤ کہ اللہ صرف خدائے واحد ہے لہذا مجھ ہی سے ڈرو
اللہ تعالیٰ ارشاد فرما چکا ہے کہ دو معبود نہ بناؤ۔ معبود تو صرف وہی اکیلا ہے، پس تم سب صرف میرا ہی ڈر خوف رکھو
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دو اِلٰہ (خدا) نہ بناؤ۔ الٰہ (خدا) تو صرف ایک ہی ہے سو تم صرف مجھ ہی سے ڈرو۔
وَلَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَلَهُ ٱلدِّينُ وَاصِبًا ۚ أَفَغَيْرَ ٱللَّهِ تَتَّقُونَ ﴿٥٢﴾
اوراسی کا ہے جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور عبادت اسی کی لازم ہے پھرکیا الله کے سوا اوروں سے ڈرتے ہو
اُسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، اور خالصاً اُسی کا دین (ساری کائنات میں) چل رہا ہے پھر کیا اللہ کو چھوڑ کر تم کسی اور سے تقویٰ کرو گے؟
اور اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی فرمانبرداری لازم ہے، تو اللہ کے سوا کسی دوسرے سے ڈرو گے،
اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اسی کی عبادت لازم ہے۔ تو تم خدا کے سوا اوروں سے کیوں ڈرتے ہو
اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی کا ہے اور (سب کے لئے) اسی کی فرمانبرداری واجب ہے۔ تو کیا تم غیر اَز خدا (کسی) سے ڈرتے ہو،
اور اسی کے لئے زمین و آسمان کی ہر شے ہے اور اسی کے لئے دائمی اطاعت بھی ہے تو کیا تم غیر خدا سے بھی ڈرتے ہو
آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور اسی کی عبادت ﻻزم ہے، کیا پھر تم اس کے سوا اوروں سے ڈرتے ہو؟
اور اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اسی کا دین دائمی اور واجب الاطاعت ہے تو کیا تم اللہ کے سوا غیروں سے ڈرتے ہو؟
وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍۢ فَمِنَ ٱللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ ٱلضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْـَٔرُونَ ﴿٥٣﴾
اور تمہارے پاس جو نعمت بھی ہے سو الله کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تواسی سے فریاد کرتے ہو
تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اُسی کی طرف دوڑتے ہو
اور تمہارے پاس جو نعمت ہے سب اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی طرف پناہ لے جاتے ہو، ف۱۰۹)
اور جو نعمتیں تم کو میسر ہیں سب خدا کی طرف سے ہیں۔ پھر جب تم کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کے آگے چلاتے ہو
اور تمہیں جو نعمت بھی حاصل ہے سو وہ اللہ ہی کی جانب سے ہے، پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تم اسی کے آگے گریہ و زاری کرتے ہو،
اور تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے اور اس کے بعد بھی جب تمہیں کوئی تکلیف چھولیتی ہے تو تم اسی سے فریاد کرتے ہو
تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں، اب بھی جب تمہیں کوئی مصیبت پیش آجائے تو اسی کی طرف نالہ وفریاد کرتے ہو
اور تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی جناب میں داد و فریاد کرتے ہو۔
ثُمَّ إِذَا كَشَفَ ٱلضُّرَّ عَنكُمْ إِذَا فَرِيقٌۭ مِّنكُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ ﴿٥٤﴾
پھر جب تم سے تکلیف دور کر دیتا ہےتو فوراً تم میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شریک بنانے لگتی ہے
مگر جب اللہ اس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکا یک تم میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو (اس مہربانی کے شکریے میں) شریک کرنے لگتا ہے
پھر جب وہ تم سے برائی ٹال دیتا ہے تو تم میں ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے، ف۱۱۰)
پھر جب وہ تم سے تکلیف کو دور کردیتا ہے تو کچھ لوگ تم میں سے خدا کے ساتھ شریک کرنے لگتے ہیں
پھر جب اللہ اس تکلیف کو تم سے دور فرما دیتا ہے تو تم میں سے ایک گروہ اس وقت اپنے رب سے شرک کرنے لگتا ہے،
اور جب وہ تکلیف کو دور کردیتاہے تو تم میں سے ایک گروہ اپنے پروردگار کا شریک بنانے لگتا ہے
اور جہاں اس نے وه مصیبت تم سے دفع کر دی تم میں سے کچھ لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگ جاتے ہیں
پھر جب وہ تکلیف کو دور کر دیتا ہے تو ایک دم تم میں سے ایک گروہ اپنے پروردگار کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔
لِيَكْفُرُوا۟ بِمَآ ءَاتَيْنَٰهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا۟ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿٥٥﴾
تاکہ جو نعمتیں ہم نےانہیں دی تھیں ان کی ناشکری کریں خیر نفع اٹھالو آ گے چل کر معلوم کر لو گے
تاکہ اللہ کے احسان کی ناشکری کرے اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا
کہ ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کریں، تو کچھ برت لو (۱۱۱) کہ عنقریب جان جاؤ گے،
تاکہ جو (نعمتیں) ہم نے ان کو عطا فرمائی ہیں ان کی ناشکری کریں تو (مشرکو) دنیا میں فائدے اٹھالو۔ عنقریب تم کو (اس کا انجام) معلوم ہوجائے گا
(یہ کفر و شرک اس لئے) تاکہ وہ ان (نعمتوں) کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں عطا کر رکھی ہیں، پس (اے مشرکو! چند روزہ) فائدہ اٹھا لو پھر تم عنقریب (اپنے انجام کو) جان لو گے،
تاکہ ان نعمتوں کا انکار کردیں جو ہم نے انہیں عطا کی ہیں خیر چند روز اور مزے کرلو اس کے بعد انجام معلوم ہی ہوجائے گا
کہ ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کریں۔ اچھا کچھ فائده اٹھالو آخر کار تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا
تاکہ جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس کا کفران کریں سو (اے ناشکرو) چند روزہ فائدہ اٹھا لو۔ عنقریب تمہیں (اپنا انجام) معلوم ہو جائے گا۔
وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًۭا مِّمَّا رَزَقْنَٰهُمْ ۗ تَٱللَّهِ لَتُسْـَٔلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُونَ ﴿٥٦﴾
اور جنہیں وہ جانتے بھی نہیں ان کے لیے ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے ایک حصہ مقرر کرتے ہیں الله کی قسم البتہ تم سے ان بہتانوں کی ضرور باز پرس ہوگی
یہ لوگ جن کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں اُن کے حصے ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے مقرر کرتے ہیں خدا کی قسم، ضرور تم سے پوچھا جائے گا کہ یہ جھوٹ تم نے کیسے گھڑ لیے تھے؟
اور انجانی چیزوں کے لیے ہماری دی ہوئی روزی میں سے حصہ مقرر کرتے ہیں خدا کی قسم تم سے ضرور سوال ہونا ہے جو کچھ جھوٹ باندھتے تھے
اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے ایسی چیزوں کا حصہ مقرر کرتے ہیں جن کو جانتے ہی نہیں۔ (کافرو) خدا کی قسم کہ جو تم افتراء کرتے ہو اس کی تم سے ضرور پرسش ہوگی
اور یہ ان (بتوں) کے لئے جن (کی حقیقت) کو وہ خود بھی نہیں جانتے اس رزق میں سے حصہ مقرر کرتے ہیں جو ہم نے انہیں عطا کر رکھا ہے۔ اللہ کی قسم! تم سے اس بہتان کی نسبت ضرور پوچھ گچھ کی جائے گی جو تم باندھا کرتے ہو،
اور یہ ہمارے دئے ہوئے رزق میں سے ان کا بھی حصہ ّقرار دیتے ہیں جنہیں جانتے بھی نہیں ہیں تو عنقریب تم سے تمہارے افترا کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا
اور جسے جانتے بوجھتے بھی نہیں اس کا حصہ ہماری دی ہوئی روزی میں سے مقرر کرتے ہیں، واللہ تمہارے اس بہتان کا سوال تم سے ضرور ہی کیا جائے گا
یہ لوگ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے ان (بتوں وغیرہ) کے لئے حصہ مقرر کرتے ہیں جن کو یہ جانتے بھی نہیں ہیں خدا کی قسم تم سے ضرور پوچھا جائے گا کہ تم کیسی افترا پردازیاں کرتے تھے۔
وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ ٱلْبَنَٰتِ سُبْحَٰنَهُۥ ۙ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ ﴿٥٧﴾
اور الله کے لیے بیٹیاں ٹھیراتے ہیں وہ اس سے پاک ہے اور اپنے لیے جو دل چاہتا ہے
یہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں سبحان اللہ! اور اِن کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں؟
اور اللہ کے لیے بیٹیاں ٹھہراتے ہیں پاکی ہے اس کو اور اپنے لیے جو اپنا جی چاہتا ہے،
اور یہ لوگ خدا کے لیے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ (اور) وہ ان سے پاک ہے اور اپنے لیے (بیٹے) جو مرغوب ودلپسند ہیں
اور یہ (کفار و مشرکین) اللہ کے لئے بیٹیاں مقرر کرتے ہیں وہ (اس سے) پاک ہے اور اپنے لئے وہ کچھ (یعنی بیٹے) جن کی وہ خواہش کرتے ہیں،
اور یہ اللہ کے لئے لڑکیاں قرار دیتے ہیں جب کہ وہ پاک اور بے نیاز ہے اور یہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ سب ان ہی کے لئے ہے
اور وه اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے لڑکیاں مقرر کرتے ہیں اور اپنے لیے وه جو اپنی خواہش کے مطابق ہو
اور یہ اللہ کے لئے لڑکیاں قرار دیتے ہیں پاک ہے اس کی ذات اور خود ان کے لئے وہ ہے جس کے یہ خواہشمند ہیں۔
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِٱلْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُۥ مُسْوَدًّۭا وَهُوَ كَظِيمٌۭ ﴿٥٨﴾
اور جب ان میں سے کسی کی بیٹی کی خوشخبری دی جائے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے
جب اِن میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اُس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے
اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھا تا ہے،
حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی (کے پیدا ہونے) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ (غم کے سبب) کالا پڑ جاتا ہے اور (اس کے دل کو دیکھو تو) وہ اندوہناک ہوجاتا ہے
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے،
اور جب خود ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے
ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہره سیاه ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی اطلاع دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ رنج و غم سے بھر جاتا ہے۔
يَتَوَٰرَىٰ مِنَ ٱلْقَوْمِ مِن سُوٓءِ مَا بُشِّرَ بِهِۦٓ ۚ أَيُمْسِكُهُۥ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُۥ فِى ٱلتُّرَابِ ۗ أَلَا سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴿٥٩﴾
اس خوشخبری کی برائی باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے آیا اسے ذلت قبول کر کے رہنے دے یااس کو مٹی میں دفن کر دے دیکھو کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں
لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اِس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟ دیکھو کیسے برے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں
لوگوں سے چھپا پھرتا ہے اس بشارت کی برائی کے سبب، کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبادے گا ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں،
اور اس خبر بد سے (جو وہ سنتا ہے) لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو یہ جو تجویز کرتے ہیں بہت بری ہے
وہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں،
قوم سے منہ حُھپاتا ہے کہ بہت بفِی خبر سنائی گئی ہے اب اس کی ذلّت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملادے یقینا یہ لوگ بہت بفِا فیصلہ کررہے ہیں
اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آه! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں؟
وہ اس بری خبر سے جو اسے دی گئی ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ ذلت کے ساتھ اسے لئے رہے یا اسے مٹی کے تلے گاڑ دے؟ کیا ہی بُرا فیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں۔
لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْءَاخِرَةِ مَثَلُ ٱلسَّوْءِ ۖ وَلِلَّهِ ٱلْمَثَلُ ٱلْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ﴿٦٠﴾
جو آخرت کو نہیں مانتے ان کی بری مثال ہے اور الله کی شان سب سے بلند ہے اور وہی زبردست حکمت والا ہے
بری صفات سے متصف کیے جانے کے لائق تو وہ لوگ ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے رہا اللہ، تو اُس کے لیے سب سے برتر صفات ہیں، وہی تو سب پر غالب اور حکمت میں کامل ہے
جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے انہیں کا بر ا حال ہے، اور اللہ کی شان سب سے بلند، اور وہی عزت و حکمت والا ہے،
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان ہی کے لیے بری باتیں (شایان) ہیں۔ اور خدا کو صفت اعلیٰ (زیب دیتی ہے) اور وہ غالب حکمت والا ہے
ان لوگوں کی جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (یہ) نہایت بری صفت ہے، اور بلند تر صفت اللہ ہی کی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے،
جن لوگوں کو آخرت پرایمان نہیں ہے ان کی مثال بدترین مثال ہے اور اللہ کے لئے بہترین مثال ہے کہ وہی صاحب هعزّت اور صاحب هحکمت ہے
آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کی ہی بری مثال ہے، اللہ کے لیے تو بہت ہی بلند صفت ہے، وه بڑا ہی غالب اور باحکمت ہے
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کی حالت بری ہے اور اللہ کے لئے اعلیٰ صفت ہے وہ زبردست ہے بڑا حکمت والا ہے۔
وَلَوْ يُؤَاخِذُ ٱللَّهُ ٱلنَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَآبَّةٍۢ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ۖ فَإِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَـْٔخِرُونَ سَاعَةًۭ ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ﴿٦١﴾
اور اگر الله لوگوں کوانکی بے انصافی پر پکڑے تو زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے لیکن ایک مدت مقرر تک انہیں مہلت دیتا ہے پھر جب ان کا وقت آتا ہے تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں اورنہ آگے بڑھ سکتے ہیں
اگر کہیں اللہ لوگوں کو اُن کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کر تا تو روئے زمین پر کسی متنفس کو نہ چھوڑتا لیکن وہ سب کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے، پھر جب وہ وقت آ جاتا ہے تو اس سے کوئی ایک گھڑی بھر بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتا
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر گرفت کرتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہیں چھوڑتا لیکن انہیں ایک ٹھہرائے وعدے تک مہلت دیتا ہے پھر جب ان کا وعدہ آئے گا نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں نہ آگے بڑھیں،
اور اگر خدا لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑنے لگے تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے لیکن ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیئے جاتا ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کے عوض (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو اس (زمین) پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں مقررہ میعاد تک مہلت دیتا ہے، پھر جب ان کا مقرر وقت آپہنچتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں،
اگر خدا لوگوں سے ان کے ظلم کا مواخذہ کرنے لگتا تو روئے زمین پر ایک رینگنے والے کو بھی نہ چھوڑتا لیکن وہ سب کو ایک معین مدّت تک کے لئے ڈھیل دیتا ہے اس کے بعد جب وقت آجائے گا تو پھر نہ ایک ساعت کی تاخیر ہوگی اور نہ تقدیم
اگر لوگوں کے گناه پر اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار باقی نہ رہتا، لیکن وه تو انہیں ایک وقت مقرر تک ڈھیل دیتا ہے، جب ان کا وه وقت آجاتا ہے تو وه ایک ساعت نہ پیچھے ره سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں
اگر اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر (فوراً) پکڑ لیا کرتا تو پھر روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا مگر وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے پھر جب وہ مقررہ وقت آجاتا ہے تو اس سے وہ ایک گھڑی پیچھے آگے نہیں ہو سکتے۔
وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا يَكْرَهُونَ وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ ٱلْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ ٱلْحُسْنَىٰ ۖ لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ ٱلنَّارَ وَأَنَّهُم مُّفْرَطُونَ ﴿٦٢﴾
اور اللهکے لیے وہ چیزیں تجویز کرتے ہیں جنہیں آپ بھی پسند نہیں کرتے اورزبان سے جھوٹے دعوے کرتے ہیں کہ آخرت کی بھلائی انہیں کے لیے ہے اسمیں شک نہیں کہ ان کے لیے آگ ہے اور بے شک وہ سب سے پہلے دوزخ میں بھیجے جائیں گے
آج یہ لوگ وہ چیزیں اللہ کے لیے تجویز کر رہے ہیں جو خود اپنے لیے اِنہیں ناپسند ہیں، اور جھوٹ کہتی ہیں اِن کی زبانیں کہ اِن کے لیے بھلا ہی بھلا ہے اِن کے لیے تو ایک ہی چیز ہے، اور وہ ہے دوزخ کی آگ ضرور یہ سب سے پہلے اُس میں پہنچائے جائیں گے
اور اللہ کے لیے وہ ٹھہراتے ہیں جو اپنے لیے ناگوار ہے اور ان کی زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے تو آپ ہی ہوا کہ ان کے لیے آگ ہے اور وہ حد سے گزارے ہوئے ہیں،
اور یہ خدا کے لیے ایسی چیزیں تجویز کرتے ہیں جن کو خود ناپسند کرتے ہیں اور زبان سے جھوٹ بکے جاتے ہیں کہ ان کو (قیامت کے دن) بھلائی (یعنی نجات) ہوگی۔ کچھ شک نہیں کہ ان کے لیے (دوزخ کی) آگ (تیار) ہے اور یہ (دوزخ میں) سب سے آگے بھیجے جائیں گے
اور وہ اللہ کے لئے وہ کچھ مقرر کرتے ہیں جو (اپنے لئے) ناپسند کرتے ہیں اور ان کی زبانیں جھوٹ بولتی ہیں کہ ان کے لئے بھلائی ہے، (ہرگز نہیں!) حقیقت یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ ہے اور یہ (دوزخ میں) سب سے پہلے بھیجے جائیں گے (اور اس میں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیئے جائیں گے)،
یہ خدا کے لئے وہ قرار دیتے ہیں جو خود اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں اور ان کی زبانیں یہ غلط بیانی بھی کرتی ہیں کہ آخرت میں ان کے لئے نیکی ہے حالانکہ یقینی طور پر ان کے لئے جہّنم اور یہ سب سے پہلے ہی ڈالے جائیں گے
اور وه اپنے لیے جو ناپسند رکھتے ہیں اللہ کے لیے ﺛابت کرتے ہیں اور ان کی زبانیں جھوٹی باتیں بیان کرتی ہیں کہ ان کے لیے خوبی ہے۔ نہیں نہیں، دراصل ان کے لیے آگ ہے اور یہ دوزخیوں کے پیش رو ہیں
اور وہ اللہ کے لئے وہ چیزیں (بیٹیاں) قرار دیتے ہیں جن کو اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں اور ان کی زبانیں غلط بیانی کرتی ہیں کہ ان کے لئے (بہرحال) بھلائی ہی بھلائی ہے (نہیں) ہاں البتہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے اور بے شک یہ سب سے پہلے اس میں پہنچائے (جھونکے) جائیں گے۔
تَٱللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَآ إِلَىٰٓ أُمَمٍۢ مِّن قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ ٱلشَّيْطَٰنُ أَعْمَٰلَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ ٱلْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ﴿٦٣﴾
الله کی قسم ہے! ہم نے تجھ سے پہلے بھی قوموں میں رسول بھیجے تھے پھر شیطان نے لوگوں کو ان کی بداعمالیاں اچھی کر دکھائیں سو آج بھی ان کا وہی دوست ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
خدا کی قسم، اے محمدؐ، تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں ہم رسول بھیج چکے ہیں (اور پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ) شیطان نے اُن کے برے کرتوت اُنہیں خوشنما بنا کر دکھائے (اور رسولوں کی بات انہوں نے مان کر نہ دی) وہی شیطان آج اِن لوگوں کا بھی سرپرست بنا ہوا ہے اور یہ دردناک سزا کے مستحق بن رہے ہیں
خدا کی قسم ہم نے تم سے پہلے کتنی امتوں کی طرف رسول بھیجے تو شیطان نے ان کے کوتک (برُے اعمال) ان کی آنکھوں میں بھلے کر دکھائے تو آج وہی ان کا رفیق ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے،
خدا کی قسم ہم نے تم سے پہلی امتوں کی طرف بھی پیغمبر بھیجے تو شیطان نے ان کے کردار (ناشائستہ) ان کو آراستہ کر دکھائے تو آج بھی وہی ان کا دوست ہے اور ان کے لیے عذاب الیم ہے
اللہ کی قسم! یقیناً ہم نے آپ سے پہلے (بھی بہت سی) امتوں کی طرف رسول بھیجے تو شیطان نے ان (امتوں) کے لئے ان کے (برے) اعمال آراستہ و خوش نما کر دکھائے، سو وہی (شیطان) آج ان کا دوست ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے،
اللہ کی اپنی قسم کہ ہم نے تم سے پہلے مختلف قوموں کی طرف رسول بھیجے تو شیطان نے ان کے کاروبار کو ان کے لئے آراستہ کردیا اور وہی آج بھی ان کا سرپرست ہے اور ان کے لئے بہت بڑا دردناک عذاب ہے
واللہ! ہم نے تجھ سے پہلے کی امتوں کی طرف بھی اپنے رسول بھیجے لیکن شیطان نے ان کے اعمال بد ان کی نگاہوں میں آراستہ کر دیئے، وه شیطان آج بھی ان کا رفیق بنا ہوا ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے
خدا کی قسم! ہم نے آپ سے پہلے کئی امتوں کی طرف رسول بھیجے ہیں پس شیطان نے ان کے (برے) اعمال خوشنما کرکے انہیں دکھائے سو وہی آج ان کا سرپرست ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۙ وَهُدًۭى وَرَحْمَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ ﴿٦٤﴾
اور ہم نے اسی لیے تجھ پر کتاب اتاری ہے کہ تو انہیں وہ چیز کھول کر سنا دے جس میں وہ جھگڑ رہے ہیں اور ایمانداروں کے لیے ہدایت اور رحمت بھی ہے
ہم نے یہ کتاب تم پر اس لیے نازل کی ہے کہ تم اُن اختلافات کی حقیقت اِن پر کھول دو جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں یہ کتاب رہنمائی اور رحمت بن کر اتری ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِسے مان لیں
اور ہم نے تم پر یہ کتاب نہ اتاری مگر اس لیے کہ تم لوگوں پر روشن کردو جس بات میں اختلاف کریں اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لیے،
اور ہم نے جو تم پر کتاب نازل کی ہے تو اس کے لیے جس امر میں ان لوگوں کو اختلاف ہے تم اس کا فیصلہ کردو۔ اور (یہ) مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے
اور ہم نے آپ کی طرف کتاب نہیں اتاری مگر اس لئے کہ آپ ان پر وہ (اُمور) واضح کر دیں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں اور (اس لئے کہ یہ کتاب) ہدایت اور رحمت ہے اس قوم کے لئے جو ایمان لے آئی ہے،
اور ہم نے آپ پر کتاب صرف اس لئے نازل کی ہے کہ آپ ان مسائل کی وضاحت کردیں جن میں یہ اختلاف کئے ہوئے ہیں اور یہ کتاب صاحبان هایمان کے لئے مجسمئہ ہدایت اور رحمت ہے
اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لیے اتارا ہے کہ آپ ان کے لیے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وه اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان والوں کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے
اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نہیں اتاری مگر اس لئے کہ آپ ان باتوں کو کھول کر بیان کر دیں جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ (کتاب) ایمان لانے والوں کے لئے سراسر ہدایت اور رحمت ہے۔
وَٱللَّهُ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَآ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يَسْمَعُونَ ﴿٦٥﴾
اور الله نے آسمان سے پانی اتارا پھراس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیا اس میں ان لوگو ں کے لیے نشانی ہے جو سنتے ہیں
(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو کہ) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور یکا یک مردہ پڑی ہوئی زمین میں اُس کی بدولت جان ڈال دی یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے
اور اللہ نے آسمان سے پانی اتارا تو اس سے زمین کو زندہ کردیا اس کے مرے پیچھے بیشک اس میں نشانی ہے ان کو جو کان رکھتے ہیں،
اور خدا ہی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا۔ بےشک اس میں سننے والوں کے لیے نشانی ہے
اور اللہ نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا اور اس کے ذریعہ زمین کو اس کے مردہ (یعنی بنجر) ہونے کے بعد زندہ (یعنی سرسبز و شاداب) کر دیا۔ بیشک اس میں (نصیحت) سننے والوں کے لئے نشانی ہے،
اور اللہ ہی نے آسمان سے پانی برسایا ہے اور اس کے ذریعہ زمین کو مردہ ہونے کے بعد دوبارہ زندہ کیا ہے اس میں بھی بات سننے والی قوم کے لئے نشانیاں پائی جاتی ہیں
اور اللہ آسمان سے پانی برسا کر اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زنده کر دیتا ہے۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سنیں
اور اللہ نے آسمان سے پانی اتارا ہے اور اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مردہ (بنجر) ہو جانے کے بعد زندہ کر دیتا ہے۔ بے شک اس میں آوازِ حق سننے والوں کے لئے بڑی نشانی ہے۔
وَإِنَّ لَكُمْ فِى ٱلْأَنْعَٰمِ لَعِبْرَةًۭ ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِى بُطُونِهِۦ مِنۢ بَيْنِ فَرْثٍۢ وَدَمٍۢ لَّبَنًا خَالِصًۭا سَآئِغًۭا لِّلشَّٰرِبِينَ ﴿٦٦﴾
اوربے شک تمہارے لیے چارپایوں میں سوچنے کی جگہ ہے ہم نےان کے جسم سے خون او رگوبر کے درمیان خالص دودھ پیدا کردیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے
اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے اُن کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خو ش گوار ہے
اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں میں نگاہ حاصل ہونے کی جگہ ہے ہم تمہیں پلاتے ہیں اس چیز میں سے جو ان کے پیٹ میں ہے، گوبر اور خون کے بیچ میں سے خالص دودھ گلے سے سہل اترتا پینے والوں کے لیے،
اور تمہارے لیے چارپایوں میں بھی (مقام) عبرت (وغور) ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے
اور بیشک تمہارے لئے مویشیوں میں (بھی) مقامِ غور ہے، ہم ان کے جسموں کے اندر کی اس چیز سے جو آنتوں کے (بعض) مشمولات اور خون کے اختلاط سے (وجود میں آتی ہے) خالص دودھ نکال کر تمہیں پلاتے ہیں (جو) پینے والوں کے لئے فرحت بخش ہوتا ہے،
اور تمہارے لئے حیوانات میں بھی عبرت کا سامان ہے کہ ہم ان کے شکم سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ نکالتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار معلوم ہوتا ہے
تمہارے لیے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اسی میں سے گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے سہتا پچتا ہے
اور بے شک تمہارے لئے چوپایوں میں عبرت کا سامان موجود ہے ہم ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان سے نکال کر تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔
وَمِن ثَمَرَٰتِ ٱلنَّخِيلِ وَٱلْأَعْنَٰبِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًۭا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يَعْقِلُونَ ﴿٦٧﴾
اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے نشہ اور اچھی غذا بھی بناتے ہو اس میں لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سمجھتے ہیں
(اسی طرح) کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی یقیناً اس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے
اور کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے کہ اس سے نبیذ بناتے ہو اور اچھا رزق بیشک اس میں نشانی ہے عقل والوں کو،
اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی (تم پینے کی چیزیں تیار کرتے ہو کہ ان سے شراب بناتے ہو) اور عمدہ رزق (کھاتے ہو) جو لوگ سمجھ رکھتے ہیں ان کے لیے ان (چیزوں) میں (قدرت خدا کی) نشانی ہے
اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے تم شکّر اور (دیگر) عمدہ غذائیں بناتے ہو، بیشک اس میں اہلِ عقل کے لئے نشانی ہے،
اور پھر خرمہ اور انگور کے پھلوں سے وہ شیرہ نکالتے ہیں جس سے تم نشہ اور بہترین رزق سب کچھ تیار کرلیتے ہو اس میں بھی صاحبان هعقل کے لئے نشانیاں پائی جاتی ہیں
اور کھجور اور انگور کے درختوں کے پھلوں سے تم شراب بنا لیتے ہو اور عمده روزی بھی۔ جو لوگ عقل رکھتے ہیں ان کے لیے تو اس میں بہت بڑی نشانی ہے
اور ہم کھجور اور انگور کے پھلوں سے بھی (تمہیں اس حالت میں) جن سے تم نشہ آور عرق بھی بنا لیتے ہو اور بہترین رزق بھی یقیناً اس میں ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى ٱلنَّحْلِ أَنِ ٱتَّخِذِى مِنَ ٱلْجِبَالِ بُيُوتًۭا وَمِنَ ٱلشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ﴿٦٨﴾
اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کو حکم دیا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان چھتوں میں گھر بنائے جو اس کے لیے بناتے ہیں
اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں، اور درختوں میں، اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں
اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں،
اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اونچی اونچی چھتریوں میں جو لوگ بناتے ہیں گھر بنا
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں (بھی) جنہیں لوگ (چھت کی طرح) اونچا بناتے ہیں،
اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو اشارہ دیا کہ پہاڑوں اور درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر بنائے
آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں درختوں اور لوگوں کی بنائی ہوئی اونچی اونچی ٹٹیوں میں اپنے گھر (چھتے) بنا
اور آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کو یہ وحی کی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور ان چھپروں میں جن پر لوگ بیلیں چڑھاتے ہیں گھر (چھتے) بنایا کر۔
ثُمَّ كُلِى مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٰتِ فَٱسْلُكِى سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًۭا ۚ يَخْرُجُ مِنۢ بُطُونِهَا شَرَابٌۭ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَٰنُهُۥ فِيهِ شِفَآءٌۭ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٦٩﴾
پھر ہر قسم کے میوں سے کھا پھر اپنے رب کی تجویز کردہ آسان راہوں پر چل ان کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے بے شک اس میں ان لوگو ں کے لیے نشانی ہے جو سوچتے ہیں
اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ اِس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں
پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل کر تیرے لیے نرم و آسان ہیں، اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگ نکلتی ہے، جس میں لوگوں کی تندرستی ہے، بیشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو،
اور ہر قسم کے میوے کھا۔ اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا۔ اس کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کے کئی امراض) کی شفا ہے۔ بےشک سوچنے والوں کے لیے اس میں بھی نشانی ہے
پس تو ہر قسم کے پھلوں سے رس چوسا کر پھر اپنے رب کے (سمجھائے ہوئے) راستوں پر (جو ان پھلوں اور پھولوں تک جاتے ہیں جن سے تو نے رس چوسنا ہے، دوسری مکھیوں کے لئے بھی) آسانی فراہم کرتے ہوئے چلا کر، ان کے شکموں سے ایک پینے کی چیز نکلتی ہے (وہ شہد ہے) جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے، بیشک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانی ہے،
اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نرمی کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے جس کے بعد اس کے شکم سے مختلف قسم کے مشروب برآمد ہوں گے جس میں پورے عالم انسانیت کے لئے شفا کا سامان ہے اور اس میں بھی فکر کرنے والی قوم کے لئے ایک نشانی ہے
اور ہر طرح کے میوے کھا اور اپنے رب کی آسان راہوں میں چلتی پھرتی ره، ان کے پیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے، جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے غوروفکر کرنے والوں کے لیے اس میں بھی بہت بڑی نشانی ہے
پھر ہر قسم کے پھلوں (اور پھولوں) کا رس چوسا کر پس اپنے پروردگار کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ۔ شہد کی ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا وہ مشروب نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔
وَٱللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّىٰكُمْ ۚ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَىْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍۢ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌۭ قَدِيرٌۭ ﴿٧٠﴾
اور الله نے تمہیں پیدا کیا پھر وہی تمہیں مارتاہے اور کوئی تم میں سے نکمی عمر تک پہنچایا جاتا ہے جو سمجھ دار ہونے کے بعد نادان ہو جاتا ہے بےشک الله جاننے والا قدرت والا ہے
اور دیکھو، اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی بد ترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے حق یہ ہے کہ اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی
اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری جان قبض کرے گا اور تم میں کوئی سب سے ناقض عمر کی طرف پھیرا جاتا ہے کہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے بیشک اللہ کچھ جانتا ہے سب کچھ کرسکتا ہے،
اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا۔ پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور تم میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور (بہت کچھ) جاننے کے بعد ہر چیز سے بےعلم ہوجاتے ہیں۔ بےشک خدا (سب کچھ) جاننے والا (اور) قدرت والا ہے
اور اللہ نے تمہیں پیدا فرمایا ہے پھر وہ تمہیں وفات دیتا (یعنی تمہاری روح قبض کرتا) ہے۔ اور تم میں سے کسی کو ناقص ترین عمر (بڑھاپا) کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ (زندگی میں بہت کچھ) جان لینے کے بعد اب کچھ بھی نہ جانے (یعنی انسان مرنے سے پہلے اپنی بے بسی و کم مائیگی کا منظر بھی دیکھ لے)، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی قدرت والا ہے،
اور اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر وہ ہی وفات دیتا ہے اور بعض لوگوں کو اتنی بدترین عمر تک پلٹا دیا جاتا ہے کہ علم کے بعد بھی کچھ جاننے کے قابل نہ رہ جائیں. بیشک اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے
اللہ تعالیٰ نے ہی تم سب کو پیدا کیا ہے وہی پھر تمہیں فوت کرے گا، تم میں ایسے بھی ہیں جو بدترین عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے بوجھنے کے بعد بھی نہ جانیں۔ بیشک اللہ دانا اور توانا ہے
اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر وہی تمہیں وفات دے گا اور تم میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کو (بڑھاپے کی) بدترین عمر تک لوٹا دیا جاتا ہے تاکہ (بہت کچھ) جاننے کے بعد کچھ بھی نہ جانیں بے شک اللہ بڑا جاننے والا، بڑا قدرت والا ہے۔
وَٱللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۢ فِى ٱلرِّزْقِ ۚ فَمَا ٱلَّذِينَ فُضِّلُوا۟ بِرَآدِّى رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَآءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ ٱللَّهِ يَجْحَدُونَ ﴿٧١﴾
اور الله نے تم میں سے بعض کو بعض پر روزی میں فضیلت دی پھر جنہیں فضیلت دی گئی وہ اپنے حصہ کا مال اپنے غلاموں کو دینےو الے نہیں کہ وہ اس میں برابر ہو جائیں پھر کیا الله کی نعمت کا انکار کرتے ہیں
اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں تاکہ دونوں اس رزق میں برابر کے حصہ دار بن جائیں تو کیا اللہ ہی کا احسان ماننے سے اِن لوگوں کو انکار ہے؟
اور اللہ نے تم میں ایک دوسرے پر رزق میں بڑائی دی تو جنہیں بڑائی دی ہے وہ اپنا رزق اپنے باندی غلاموں کو نہ پھیر دیں گے کہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں تو کیا اللہ کی نعمت سے مکرتے ہیں،
اور خدا نے رزق (ودولت) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے تو جن لوگوں کو فضیلت دی ہے وہ اپنا رزق اپنے مملوکوں کو تو دے ڈالنے والے ہیں نہیں کہ سب اس میں برابر ہوجائیں۔ تو کیا یہ لوگ نعمت الہیٰ کے منکر ہیں
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالانکہ وہ سب اس میں (بنیادی ضروریات کی حد تک) برابر ہیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں،
اور اللہ ہی نے بعض کو رزق میں بعض پر فضیلت دی ہے تو جن کو بہتر بنایا گیا ہے وہ اپنا بقیہ رزق ان کی طرف نہیں پلٹا دیتے ہیں جو ان کے ہاتھوں کی ملکیت ہیں حالانکہ رزق میں سب برابر کی حیثیت رکھنے والے ہیں تو کیا یہ لوگ اللہ ہی کی نعمت کا انکار کررہے ہیں
اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر روزی میں زیادتی دے رکھی ہے، پس جنہیں زیادتی دی گئی ہے وه اپنی روزی اپنے ماتحت غلاموں کو نہیں دیتے کہ وه اور یہ اس میں برابر ہو جائیں، تو کیا یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کے منکر ہو رہے ہیں؟
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق کے معاملہ میں فضیلت (برتری) دی ہے پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں (اور زیر دستوں) کو لوٹا دینے والے نہیں ہیں تاکہ وہ سب اس میں برابر ہو جائیں تو کیا وہ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں؟
وَٱللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَٰجًۭا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَٰجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةًۭ وَرَزَقَكُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ ۚ أَفَبِٱلْبَٰطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ ٱللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ ﴿٧٢﴾
اور الله نے تمہارے واسطے تمہاری ہی قسم سے عورتیں پیدا کیں اور تمہیں تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے دیئے اور تمہیں کھانے کے لیے اچھی چیزیں دیں پھرکیا جھوٹی باتیں تو مان لیتے ہیں اور الله کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں
اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں پھر کیا یہ لوگ (یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی) باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں
اور اللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے عورتیں بنائیں اور تمہارے لیے تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے نواسے پیدا کیے اور تمہیں ستھری چیزوں سے روز ی دی تو کیا جھوٹی بات پر یقین لاتے ہیں اور اللہ کے فضل سے منکر ہوتے ہیں،
اور خدا ہی نے تم میں سے تمہارے لیے عورتیں پیدا کیں اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور کھانے کو تمہیں پاکیزہ چیزیں دیں۔ تو کیا بےاصل چیزوں پر اعتقاد رکھتے اور خدا کی نعمتوں سے انکار کرتے ہیں
اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں (یعنی بیویوں) سے تمہارے لئے بیٹے اور پوتے/ نواسے پیدا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا، تو کیا پھر بھی وہ (حق کو چھوڑ کر) باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیں،
اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارا جوڑا بنایا ہے پھر اس جوڑے سے اولاد قرار دی ہے اور سب کو پاکیزہ رزق دیا ہے تو کیا یہ لوگ باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ ہی کی نعمت سے انکار کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں۔ کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان ﻻئیں گے؟ اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے؟
اور اللہ نے ہی تمہاری جنس سے تمہارے لئے بیویاں بنائیں اور پھر ان بیویوں سے بیٹے اور پوتے عنایت فرمائے اور تمہاری روزی کیلئے تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا فرمائیں تو کیا (پھر بھی) یہ لوگ باطل کو مانتے رہیں گے اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے رہیں گے؟
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًۭا مِّنَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ شَيْـًۭٔا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ ﴿٧٣﴾
اور الله کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں ارو زمین سے انہیں رزق پہنچانے میں کچھ بھی اختیارنہیں رکھتے اور نہ رکھ سکتے ہیں
اور اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پوجتے ہیں جن کے ہاتھ میں نہ آسمانوں سے انہیں کچھ بھی رزق دینا ہے نہ زمین سے اور نہ یہ کام وہ کر ہی سکتے ہیں؟
اور اللہ کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جو انہیں آسمان اور زمین سے کچھ بھی روزی دینے کا اختیار نہیں رکھتے نہ کچھ کرسکتے ہیں،
اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جو ان کو آسمانوں اور زمین میں روزی دینے کا ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ کسی اور طرح کا مقدور رکھتے ہیں
اور اللہ کے سوا ان (بتوں) کی پرستش کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے ان کے لئے کسی قدر رزق دینے کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ہی کچھ قدرت رکھتے ہیں،
اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ آسمان و زمین میں کسی رزق کے مالک ہیں اور نہ کسی چیز کی طاقت ہی رکھتے ہیں
اور وه اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں کچھ بھی تو روزی نہیں دے سکتے اور نہ کچھ قدرت رکھتے ہیں
اور یہ اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت (پرستش) کرتے ہیں جو ان کو آسمان و زمین سے روزی پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ یہ کام کر سکتے ہیں۔
فَلَا تَضْرِبُوا۟ لِلَّهِ ٱلْأَمْثَالَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٧٤﴾
پس الله کے لئے مثالیں نہ گھڑو بے شک الله جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو، اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے
تو اللہ کے لیے مانند نہ ٹھہراؤ بیشک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے،
تو (لوگو) خدا کے بارے میں (غلط) مثالیں نہ بناؤ۔ (صحیح مثالوں کا طریقہ) خدا ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
پس تم اللہ کے لئے مثل نہ ٹھہرایا کرو، بیشک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے،
تو خبردار اللہ کے لئے مثالیں بیان نہ کرو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے ہو
پس اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں مت بناؤ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
پس تم اللہ کے لئے مثالیں نہ دیا کرو بے شک اللہ بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
۞ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًا عَبْدًۭا مَّمْلُوكًۭا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَىْءٍۢ وَمَن رَّزَقْنَٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًۭا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّۭا وَجَهْرًا ۖ هَلْ يَسْتَوُۥنَ ۚ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٧٥﴾
الله ایک مثال بیان فرماتا ہے ایک غلام ہے کسی دوسرے کی ملک میں جو کسی چیز کا اختیارنہیں رکھتا اور ایک دوسرا آدمی ہے جسے ہم نے اچھی روزی دے رکھی ہے اور وہ ظاہر اور پوشیدہ اسے خرچ کرتا ہے کیا دونوں برابر ہیں سب تعریف الله کے لیے ہے مگر اکثر ان میں سے نہیں جانتے
اللہ ایک مثال دیتا ہے ایک تو ہے غلام، جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتا دوسرا شخص ایسا ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق عطا کیا ہے اور وہ اس میں سے کھلے اور چھپے خوب خرچ کرتا ہے بتاؤ، کیا یہ دونوں برابر ہیں؟ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ (اس سیدھی بات کو) نہیں جانتے
اللہ نے ایک کہاوت بیان فرمائی ایک بندہ ہے دوسرے کی ملک آپ کچھ مقدور نہیں رکھتا اور ایک جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھی روزی عطا فرمائی تو وہ اس میں سے خرچ کرتا ہے چھپے اور ظاہر کیا وہ برابر ہوجائیں گے سب خوبیاں اللہ کو ہیں بلکہ ان میں اکثر کو خبر نہیں
خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے جو (بالکل) دوسرے کے اختیار میں ہے اور کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور ایک ایسا شخص ہے جس کو ہم نے اپنے ہاں سے (بہت سا) مال طیب عطا فرمایا ہے اور وہ اس میں سے (رات دن) پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا رہتا ہے تو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں؟ (ہرگز نہیں) الحمدلله لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں سمجھ رکھتے
اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے (کہ) ایک غلام ہے (جو کسی کی) ملکیت میں ہے (خود) کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور (دوسرا) وہ شخص ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے عمدہ روزی عطا فرمائی ہے سو وہ اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا ہے، کیا وہ برابر ہو سکتے ہیں، سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر (بنیادی حقیقت کو بھی) نہیں جانتے،
اللہ نے خود اس غلام مملوک کی مثال بیان کی ہے جو کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا ہے اور اس آزاد انسان کی مثال بیان کی ہے جسے ہم نے بہترین رزق عطا کیا ہے اور وہ اس میں سے خفیہ اور علانیہ انفاق کرتا رہتا ہے تو کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ساری تعریف صرف اللہ کے لئے ہی ہے مگر ان لوگوں کی اکثریت کچھ نہیں جانتی ہے
اللہ تعالیٰ ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے دوسرے کی ملکیت کا، جو کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا اور ایک اور شخص ہے جسے ہم نے اپنے پاس سے معقول روزی دے رکھی ہے، جس میں سے وه چھپے کھلے خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ سب برابر ہوسکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سب تعریف ہے، بلکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے
اللہ ایک مثال پیش کرتا ہے کہ ایک غلام ہے جو دوسرے کا مملوک ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا اور ایک دوسرا ہے جسے ہم نے بہترین رزق عطا کر رکھا ہے اور وہ اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ بھی کرتا ہے کیا وہ سب برابر ہو سکتے ہیں؟ الحمد ﷲ (سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں) مگر اکثر لوگ (اتنی سیدھی بات بھی) نہیں جانتے۔
وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَآ أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَىْءٍۢ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَىٰهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِى هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍۢ ﴿٧٦﴾
اور الله ایک او رمثال دو آدمیوں کی بیان فرماتا ہے ایک ان میں سے گونگا ہے کچھ بھی نہیں کر سکتااور اپنے آقا پر ایک بوجھ ہے جہاں کہیں اسے بھیجے اس سے کوئی خوبی کی بات بن نہ آئے کیا یہ اور وہ برابر ہے جو لوگوں کو انصاف کا حکم دیتا ہے اور وہ خود بھی سیدھے راستے پر قائم ہے
اللہ ایک اور مثال دیتا ہے دو آدمی ہیں ایک گونگا بہرا ہے، کوئی کام نہیں کر سکتا، اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اُس سے بن نہ آئے دوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہ راست پر قائم ہے بتاؤ کیا یہ دونوں یکساں ہیں؟
اور اللہ نے کہاوت بیان فرمائی دو مرد ایک گونگا جو کچھ کام نہیں کرسکتا اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہے جدھر بھیجے کچھ بھلائی نہ لائے کیا برابر ہوجائے گا ہ اور وہ جو انصاف کا حکم کرتا ہے اور وہ سیدھی راہ پر ہے، ف۱۶۷)
اور خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک اُن میں سے گونگا (اور دوسرے کی ملک) ہے (بےاختیار وناتوان) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔ اور اپنے مالک کو دوبھر ہو رہا ہے وہ جہاں اُسے بھیجتا ہے (خیر سے کبھی) بھلائی نہیں لاتا۔ کیا ایسا (گونگا بہرا) اور وہ شخص جو (سنتا بولتا اور) لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود سیدھے راستے پر چل رہا ہے دونوں برابر ہیں؟
اور اللہ نے دو (ایسے) آدمیوں کی مثال بیان فرمائی ہے جن میں سے ایک گونگا ہے وہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے وہ (مالک) اسے جدھر بھی بھیجتا ہے کوئی بھلائی لے کر نہیں آتا، کیا وہ (گونگا) اور (دوسرا) وہ شخص جو (اس منصب کا حامل ہے کہ) لوگوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور وہ خود بھی سیدھی راہ پر گامزن ہے (دونوں) برابر ہو سکتے ہیں،
اور اللہ نے ایک اور مثال ان دو انسانوں کی بیان کی ہے جن میں سے ایک گونگا ہے اور اس کے بس میں کچھ نہیں ہے بلکہ وہ خود اپنے مولا کے سر پر ایک بوجھ ہے کہ جس طرف بھی بھیج دے کوئی خیر لے کر نہ آئے گا تو کیا وہ اس کے برابر ہوسکتا ہے جو عدل کا حکم دیتا ہے اور سیدھے راستہ پر گامزن ہے
اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے، دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وه اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیجے وه کوئی بھلائی نہیں ﻻتا، کیا یہ اور وه جو عدل کا حکم دیتا ہے اور ہے بھی سیدھی راه پر، برابر ہوسکتے ہیں؟
اور اللہ دو آدمیوں کی مثال پیش کرتا ہے جن میں سے ایک گونگا ہے کسی بات پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہے وہ اسے جدھر بھی بھیجے وہ کسی بھلائی کے ساتھ واپس نہیں آتا اور دوسرا وہ ہے جو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہِ راست پر قائم ہے کیا وہ (پہلا) اور یہ (دوسرا) برابر ہو سکتے ہیں؟
وَلِلَّهِ غَيْبُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَمَآ أَمْرُ ٱلسَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ ٱلْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ ﴿٧٧﴾
اور آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں تو الله ہی کو معلوم ہیں اور قیامت کا معاملہ تو ایسا ہے جیسا آنکھ کا جھپکنا یا اس سےبھی قریب تر بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے
اور زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے، بلکہ اس سے بھی کچھ کم حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے
اور اللہ ہی کے لیے ہیں آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں اور قیامت کا معاملہ نہیں مگر جیسے ایک پلک کا مارنا بلکہ اس سے بھی قریب بیشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے،
اور آسمانوں اور زمین کا علم خدا ہی کو ہے اور (خدا کے نزدیک) قیامت کا آنا یوں ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا بلکہ اس سے بھی جلد تر۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب اللہ ہی کے لئے ہے، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اس قدر تیزی سے ہوگا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا ا س سے بھی تیز تر، بیشک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے،
آسمان و زمین کا سارا غیب اللہ ہی کے لئے ہے اور قیامت کا حکم تو صرف ایک پلک جھپکنے کے برابر یا اس سے بھی قریب تر ہے اور یقینا اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے
آسمانوں اور زمین کا غیب صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی زیاده قریب۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
آسمان و زمین کا سارا غیب اللہ ہی کے لئے ہے اور قیامت کا حکم تو صرف ایک پل جھپکنے کے برابر یا اس سے بھی قریب تر ہے اور یقینا اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔
وَٱللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّنۢ بُطُونِ أُمَّهَٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْـًۭٔا وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَٱلْأَفْـِٔدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿٧٨﴾
اور الله نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے نکالا تم کسی چیز کو نہ جانتے تھے اور تمہیں کان اور آنکھیں اور دل دیئے تاکہ تم شکر کرو
اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اُس نے تمہیں کان دیے، آنکھیں دیں، اور سوچنے والے دل دیے، اس لیے کہ تم شکر گزار بنو
اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤوں کے پیٹ سے پیدا کیا کہ کچھ نہ جانتے تھے اور تمہیں کان اور آنکھ اور دل دیئے کہ تم احسان مانو، ف۱۷۲)
اور خدا ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اس نے تم کو کان اور آنکھیں اور دل (اور اُن کے علاوہ اور) اعضا بخشے تاکہ تم شکر کرو
اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے (اس حالت میں) باہر نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر بجا لاؤ،
اور اللہ ہی نے تمہیں شکم مادر سے اس طرح نکالا ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اسی نے تمہارے لئے کان آنکھ اور دل قرار دئے ہیں کہ شاید تم شکر گزار بن جاؤ
اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو
اور اللہ ہی نے تمہیں شکمِ مادر سے اس طرح نکالا ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اسی نے تمہارے لئے کان، آنکھ اور دل قرار دیئے ہیں کہ شاید تم شکر گزار بن جاؤ۔
أَلَمْ يَرَوْا۟ إِلَى ٱلطَّيْرِ مُسَخَّرَٰتٍۢ فِى جَوِّ ٱلسَّمَآءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا ٱللَّهُ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍۢ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ ﴿٧٩﴾
کیا پرندوں کو نہیں دیکھتے کہ آسمان کی فضا میں تھمے ہوئے ہیں انہیں الله کے سوا کون تھامے ہوئے ہے بے شک اس میں بھی ایمانداروں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں
کیا اِن لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کسی طرح مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے اِن کو تھام رکھا ہے؟ اِس میں بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں
کیا انہوں نے پرندے نے پرندے نہ دیکھے حکم کے باندھے آسمان کی فضا میں، انہیں کوئی نہیں روکتا سوا اللہ کے بیشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کو، ف۱۷۴)
کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمان کی ہوا میں گھرے ہوئے (اُڑتے رہتے) ہیں۔ ان کو خدا ہی تھامے رکھتا ہے۔ ایمان والوں کے لیے اس میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اڑتے رہتے) ہیں، انہیں اللہ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔ بیشک اس (پرواز کے اصول) میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیں،
کیا ان لوگوں نے پرندوں کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح فضائے آسمان میں مسخر ہیں کہ اللہ کے علاوہ انہیں کوئی روکنے والا اور سنبھالنے والا نہیںہے بیشک اس میں بھی اس قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھنے والی قوم ہے
کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو تابع فرمان ہو کر فضا میں ہیں، جنہیں بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور تھامے ہوئے نہیں، بیشک اس میں ایمان ﻻنے والے لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں
کیا ان لوگوں نے پرندوں کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح فضائے آسمان میں مسخر ہیں کہ اللہ کے علاوہ انہیں کوئی روکنے والا اور سنبھالنے والا نہیں ہے بے شک اس میں بھی اس قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھنے والی قوم ہے۔
وَٱللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنۢ بُيُوتِكُمْ سَكَنًۭا وَجَعَلَ لَكُم مِّن جُلُودِ ٱلْأَنْعَٰمِ بُيُوتًۭا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَآ أَثَٰثًۭا وَمَتَٰعًا إِلَىٰ حِينٍۢ ﴿٨٠﴾
اور الله نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے آرام کی جگہ بنایا ہے اور تمہارے لیے چارپایوں کی کھالوں سے خیمے بنائے جنہیں تم اپنے سفر اور قیام کے دن ہلکے پاتے ہو اوربھیڑوں کی اون سے اور اونٹوں کی روؤں سے اوربکریوں کے بالوں سے کتنے ہی سامان اور مفید چیزیں وقت مقرر تک کے لیے بنا دیں
اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے مکان پیدا کیے جنہیں تم سفر اور قیام، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو اُس نے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کر دیں جو زندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں
اور اللہ نے تمہیں گھر دیئے بسنے کو اور تمہارے لیے چوپایوں کی کھالوں سے کچھ گھر بناےٴ جو تمھیں ہلکے پڑتے ہیں تمھارے سفر کے دن اور منزلوں پرٹھہر نے کے دن، اور ان کی اون اور ببری (رونگٹوں) اور بالوں سے کچھ گرہستی (خانگی ضروریات) کا سامان اور برتنے کی چیزیں ایک وقت تک،
اور خدا ہی نے تمہارے لیے گھروں کو رہنے کی جگہ بنایا اور اُسی نے چوپایوں کی کھالوں سے تمہارے لیے ڈیرے بنائے۔ جن کو تم سبک دیکھ کر سفر اور حضر میں کام میں لاتے ہو اور اُن کی اون، پشم اور بالوں سے تم اسباب اور برتنے کی چیزیں (بناتے ہو جو) مدت تک (کام دیتی ہیں)
اور اللہ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو (مستقل) سکونت کی جگہ بنایا اور تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں سے (عارضی) گھر (یعنی خیمے) بنائے جنہیں تم اپنے سفر کے وقت اور (دورانِ سفر منزلوں پر) اپنے ٹھہرنے کے وقت ہلکا پھلکا پاتے ہو اور (اسی اللہ نے تمہارے لئے) بھیڑوں اور دنبوں کی اون اور اونٹوں کی پشم اور بکریوں کے بالوں سے گھریلو استعمال اور (معیشت و تجارت میں) فائدہ اٹھانے کے اسباب بنائے (جو) مقررہ مدت تک (ہیں)،
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو وجہ سکون بنایا ہے اور تمہارے لئے جانوروں کی کھالوں سے ایسے گھر بنادئے ہیں جن کو تم روزِ سفر بھی ہلکاسمجھتے ہو اور روزِ اقامت بھی ہلکا محسوس کرتے ہو اور پھر ان کے اون, روئیں اور بالوں سے مختلف سامان هزندگی اور ایک مدّت کے لئے کارآمد چیزیں بنادیں
اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں میں سکونت کی جگہ بنا دی ہے اور اسی نے تمہارے لیے چوپایوں کی کھالوں کے گھر بنا دیے ہیں، جنہیں تم ہلکا پھلکا پاتے ہو اپنے کوچ کے دن اور اپنے ٹھہرنے کے دن بھی، اور ان کی اون اور روؤں اور بالوں سے بھی اس نے بہت سے سامان اور ایک وقت مقرره تک کے لیے فائده کی چیزیں بنائیں
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو وجہِ سکون بنایا ہے اور تمہارے لئے جانوروں کی کھالوں سے ایسے گھر بنا دیئے ہیں جن کو تم روزِ سفر بھی ہلکا سمجھتے ہو اور روزِ قیامت بھی ہلکا محسوس کرتے ہو اور پھر ان کے اون، روئیں اور بالوں سے مختلف سامانِ زندگی اور ایک مدت کے لئے کارآمد چیزیں بنا دیں۔
وَٱللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَٰلًۭا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْجِبَالِ أَكْنَٰنًۭا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَٰبِيلَ تَقِيكُمُ ٱلْحَرَّ وَسَرَٰبِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ ﴿٨١﴾
اور الله نے تمہارے لیے اپنی بنائی ہوئی چیزوں کے سائےبنا دیئے اور تمہارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہیں بنا دیں اور تمہارے لیے کرتے بنا دیئے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور زرہیں جو تمہیں لڑائیں میں بچاتی ہیں اسی طرح الله اپنا احسان تم پر پورا کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار ہو جاؤ
اس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لیے سائے کا انتظام کیا، پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم فرماں بردار بنو
اور اللہ نے تمہیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے سائے دیئے اور تمہارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی اور تمہارے لیے کچھ پہنادے بنائے کہ تمہیں گرمی سے بچائیں اور کچھ پہناوے کہ لڑائیں میں تمہاری حفاظت کریں یونہی اپنی نعمت تم پر پوری کرتا ہے کہ تم فرمان مانو
اور خدا ہی نے تمہارے (آرام کے) لیے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اور پہاڑوں میں غاریں بنائیں اور کُرتے بنائے جو تم کو گرمی سے بچائیں۔ اور (ایسے) کُرتے (بھی) جو تم کو اسلحہ جنگ (کے ضرر) سے محفوظ رکھیں۔ اسی طرح خدا اپنا احسان تم پر پورا کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کردہ کئی چیزوں کے سائے بنائے اور اس نے تمہارے لئے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں اور اس نے تمہارے لئے (کچھ) ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور (کچھ) ایسے لباس جو تمہیں شدید جنگ میں (دشمن کے وار سے) بچاتے ہیں، اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمتِ (کفالت و حفاظت) پوری فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے حضور) سرِ نیاز خم کر دو،
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے مخلوقات کا سایہ قرار دیا ہے اور پہاڑوں میں چھپنے کی جگہیں بنائی ہیں اور ایسے پیراہن بنائے ہیں جو گرمی سے بچاسکیں اور پھر ایسے پیراہن بنائے ہیں جو ہتھیاروں کی زد سے بچاسکیں. وہ اسی طرح اپنی نعمتوں کو تمہارے اوپر تمام کردیتا ہے کہ شاید تم اطاعت گزار بن جاؤ
اللہ ہی نے تمہارے لیے اپنی پیدا کرده چیزوں میں سے سائے بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے پہاڑوں میں غار بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے کرتے بنائے ہیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسے کرتے بھی جو تمہیں لڑائی کے وقت کام آئیں۔ وه اسی طرح اپنی پوری پوری نعمتیں دے رہا ہے کہ تم حکم بردار بن جاؤ
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے مخلوقات کا سایہ قرار دیا ہے اور پہاڑوں میں چھپنے کی جگہیں بنائی ہیں اور ایسے پیراہن بنائے ہیں جو گرمی سے بچا سکیں اور پھر ایسے پیراہن بنائے جو ہتھیاروں کی زد سے بچا سکیں۔ وہ اسی طرح اپنی نعمتوں کو تمہارے اوپر تمام کر دیتا ہے کہ شاید تم اطاعت گزار بن جاؤ۔
فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ ٱلْبَلَٰغُ ٱلْمُبِينُ ﴿٨٢﴾
پھربھی اگر نہ مانیں تو تم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینا ہی ہے
اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے محمدؐ، تم پر صاف صاف پیغام حق پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے
پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اے محبوب! تم پر نہیں مگر صاف پہنچا دینا،
اور اگر یہ لوگ اعتراض کریں تو (اے پیغمبر) تمہارا کام فقط کھول کر سنا دینا ہے
سو اگر (پھر بھی) وہ رُوگردانی کریں تو (اے نبئ معظم!) آپ کے ذمہ تو صرف (میرے پیغام اور احکام کو) صاف صاف پہنچا دینا ہے،
پھر اس کے بعد بھی اگر یہ ظالم منہ پھیر لیں تو آپ کا کام صرف واضح پیغام کا پہنچا دینا ہے اور بس
پھر بھی اگر یہ منھ موڑے رہیں تو آپ پر صرف کھول کر تبلیﻎ کر دینا ہی ہے
پھر اس کے بعد بھی اگر یہ ظالم منہ پھیر لیں تو آپ کا کام صرف واضح پیغام کا پہنچا دینا ہے اور بس۔
يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ ٱللَّهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ ٱلْكَٰفِرُونَ ﴿٨٣﴾
وہ الله کی نعمتیں پہچانتے ہیں پھر منکر ہو جاتے ہیں اوراکثر ان میں سے ناشکر گزار ہیں
یہ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں، پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور اِن میں بیش تر لوگ ایسے ہیں جو حق ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں
اللہ کی نعمت پہنچانتے ہیں پھر اس سے منکر ہوتے ہیں اور ان میں اکثر کافر ہیں،
یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں۔ مگر (واقف ہو کر) اُن سے انکار کرتے ہیں اور یہ اکثر ناشکرے ہیں
یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر کافر ہیں،
یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں اور پھر انکار کرتے ہیں اور ان کی اکثریت کافر ہے
یہ اللہ کی نعمتیں جانتے پہچانتے ہوئے بھی ان کے منکر ہو رہے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر ناشکرے ہیں
یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں اور پھر انکار کرتے ہیں اور ان کی اکثریت کافر ہے۔
وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍۢ شَهِيدًۭا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ ﴿٨٤﴾
اور جس دن ہم ہر قوم میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے پھر نہ کافروں کو اجازت دی جائے گی اورنہ ان کا کوئی عذر قبول کیا جائے گا
(اِنہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کیا بنے گی) جبکہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائیگا نہ ان سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا
اور جس دن ہم اٹھائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ پھر کافروں کو نہ اجازت ہو نہ وہ منائے جائیں، ف۱۹۳)
اور جس دن ہم ہر اُمت میں سے گواہ (یعنی پیغمبر) کھڑا کریں گے تو نہ تو کفار کو (بولنے کی) اجازت ملے گی اور نہ اُن کے عذر قبول کئے جائیں گے
اور جس دن ہم ہر اُمت سے (اس کے رسول کو اس کے اعمال پر) گواہ بنا کر اٹھائیں گے پھر کافر لوگوں کو (کوئی عذر پیش کرنے کی) اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ (اس وقت) ان سے توبہ و رجوع کا مطالبہ کیا جائے گا،
اور قیامت کے دن ہم ہر امّت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اس کے بعد کافروں کو کسی طرح کی اجازت نہ دی جائے گی اور نہ ان کا عذر ہی سناُ جائے گا
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواه کھڑا کریں گے پھر کافروں کو نہ اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا
اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھا کر کھڑا کریں گے پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ان سے اللہ کو راضی کرنے کی فرمائش کی جائے گی۔
وَإِذَا رَءَا ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ ٱلْعَذَابَ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ ﴿٨٥﴾
اور جب ظالم عذاب دیکھیں گے پھر نہ ان سے ہلکا کیا جائے گا اورنہ انہیں مہلت دی جائے گی
ظالم لوگ جب ایک دفعہ عذاب دیکھ لیں گے تو اس کے بعد نہ اُن کے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ انہیں ایک لمحہ بھر کی مہلت دی جائے گی
اور ظلم کرنے والے جب عذاب دیکھیں گے اسی وقت سے نہ وہ ان پر سے ہلکا ہو نہ انہیں مہلت ملے،
اور جب ظالم لوگ عذاب دیکھ لیں گے تو پھر نہ تو اُن کے عذاب ہی میں تخفیف کی جائے گی اور نہ اُن کو مہلت ہی دی جائے گی
اور جب ظالم لوگ عذاب دیکھ لیں گے تو نہ ان سے (اس عذاب کی) تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی،
اور جب ظالمین عذاب کو دیکھ لیں گے تو پھر اس میں کوئی تخفیف نہ ہوگی اور نہ انہیں کسی قسم کی مہلت دی جائے گی
اور جب یہ ﻇالم عذاب دیکھ لیں گے پھر نہ تو ان سے ہلکا کیا جائے گا اور نہ وه ڈھیل دیے جائیں گے
اور جب ظالم لوگ (ایک بار) عذاب کو دیکھ لیں گے تو پھر نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔
وَإِذَا رَءَا ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوا۟ شُرَكَآءَهُمْ قَالُوا۟ رَبَّنَا هَٰٓؤُلَآءِ شُرَكَآؤُنَا ٱلَّذِينَ كُنَّا نَدْعُوا۟ مِن دُونِكَ ۖ فَأَلْقَوْا۟ إِلَيْهِمُ ٱلْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَٰذِبُونَ ﴿٨٦﴾
اور جب مشرک اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے رب! یہی ہمارے شریک ہیں جنہیں ہم تیرے سوا پکارتے تھے پھر وہ انہیں جواب دیں گے کہ تم سراسر جھوٹے ہو
اور جب وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں شرک کیا تھا اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے \"اے پروردگار، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے\" اس پر اُن کے وہ معبود انہیں صاف جواب دیں گے کہ \"تم جھوٹے ہو\"
اور شرک کرنے والے جب اپنے شریکوں کو دیکھیں گے کہیں گے اے ہمارے رب! یہ ہیں ہمارے شریک کہ ہم تیرے سوا پوجتے تھے، تو وہ ان پر بات پھینکیں گے کہ تم بیشک جھوٹے ہو،
اور جب مشرک (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ پروردگار یہ وہی ہمارے شریک ہیں جن کو ہم تیرے سوا پُکارا کرتے تھے۔ تو وہ (اُن کے کلام کو مسترد کردیں گے اور) اُن سے کہیں گے کہ تم تو جھوٹے ہو
اور جب مشرک لوگ اپنے (خود ساختہ) شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے: اے ہمارے رب! یہی ہمارے شریک تھے جن کی ہم تجھے چھوڑ کر پرستش کرتے تھے، پس وہ (شرکاء) انہیں (جواباً) پیغام بھیجیں گے کہ بیشک تم جھوٹے ہو،
اور جب مشرکین اپنے شرکائ کو دیکھیں گے تو کہیں گے پروردگار یہی ہمارے شرکائ تھے جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے پھر وہ شرکائ اس بات کو ان ہی کی طرف پھینک دیں گے کہ تم لوگ بالکل جھوٹے ہو
اور جب مشرکین اپنے شریکوں کو دیکھ لیں گے تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار! یہی ہمارے وه شریک ہیں جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے، پس وه انہیں جواب دیں گے کہ تم بالکل ہی جھوٹے ہو
اور جن لوگوں نے (دنیا میں) شرک کیا تھا جب وہ (قیامت کے دن) اپنے بنائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار یہ ہیں ہمارے وہ شرکاء جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے تو وہ (شرکاء) یہ بات ان کی طرف پھینک دیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔
وَأَلْقَوْا۟ إِلَى ٱللَّهِ يَوْمَئِذٍ ٱلسَّلَمَ ۖ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا۟ يَفْتَرُونَ ﴿٨٧﴾
اور وہ اس دن الله کے سامنے سر جھکا دیں گے اور بھول جائیں گے وہ جو جھوٹ بناتے تھے
اُس وقت یہ سب اللہ کے آگے جھک جائیں گے اور ان کی وہ ساری افترا پردازیاں رفو چکر ہو جائیں گی جو یہ دنیا میں کرتے رہے تھے
اور اس دن اللہ کی طرف عاجزی سے گریں گے اور ان سے گم ہوجائیں گی جو بناوٹیں کرتے تھے، ف۱۹۹)
اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے اور جو طوفان وہ باندھا کرتے تھے سب اُن سے جاتا رہے گا
اور یہ (مشرکین) اس دن اللہ کے حضور عاجزی و فرمانبرداری ظاہر کریں گے اور ان سے وہ سارا بہتان جاتا رہے گا جو یہ باندھا کرتے تھے،
اور پھر اس دن اللہ کی بارگاہ میں اطاعت کی پیشکش کریں گے اور جن باتوں کا افتراکیا کرتے تھے وہ سب غائب اور بے کار ہوجائیں گی
اس دن وه سب (عاجز ہوکر) اللہ کے سامنے اطاعت کا اقرار پیش کریں گے اور جو بہتان بازی کیا کرتے تھے وه سب ان سے گم ہو جائے گی
اور اس دن سب اللہ کے سامنے جھک جائیں گے اور وہ ساری افتراء پردازیاں غائب ہو جائیں گی جو وہ کیا کرتے تھے۔
ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَصَدُّوا۟ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ زِدْنَٰهُمْ عَذَابًۭا فَوْقَ ٱلْعَذَابِ بِمَا كَانُوا۟ يُفْسِدُونَ ﴿٨٨﴾
جو لوگ منکر ہوئے اور الله کی راہ سے روکتے رہے ہم ان پر عذاب پر عذاب بڑھاتے جائیں گے بسبب اس کے کہ وہ فساد کرتے تھے
جن لوگوں نے خود کفر کی راہ اختیار کی اور دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گے اُس فساد کے بدلے جو وہ دنیا میں برپا کرتے رہے
جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم نے عذاب پر عذاب بڑھایا بدلہ ان کے فساد کا،
جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) خدا کے رستے سے روکا ہم اُن کو عذاب پر عذاب دیں گے۔ اس لیے کہ شرارت کیا کرتے تھے
جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسروں کو) اللہ کی راہ سے روکتے رہے ہم ان کے عذاب پر عذاب کا اضافہ کریں گے اس وجہ سے کہ وہ فساد انگیزی کرتے تھے،
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور راہ خدا میں رکاوٹ پیدا کی ہم نے ان کے عذاب میں مزید اضافہ کردیا کہ یہ لوگ فساد برپا کیا کرتے تھے
جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راه سے روکا ہم انہیں عذاب پر عذاب بڑھاتے جائیں گے، یہ بدلہ ہوگا ان کی فتنہ پردازیوں کا
جن لوگوں نے کفر کیا اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا۔ تو ہم ان کے فساد پھیلانے کی پاداش میں ان کے عذاب پر ایک اور عذاب کا اضافہ کر دیں گے۔
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰٓؤُلَآءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ تِبْيَٰنًۭا لِّكُلِّ شَىْءٍۢ وَهُدًۭى وَرَحْمَةًۭ وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ ﴿٨٩﴾
اور جس دن ہر ایک گروہ میں سے ان پر انہیں میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور تجھے ان پر گواہ بنائیں گے اور ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے اور وہ مسلمانوں کے لیے ہدات اور رحمت اور خوشخبری ہے
(اے محمدؐ، اِنہیں اُس دن سے خبردار کر دو) جب کہ ہم ہر امت میں خود اُسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُس کے مقابلے میں شہادت دے گا، اور اِن لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے اور (یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ہے
اور جس دن ہم ہر گروہ میں ایک گواہ انہیں میں سے اٹھائیں گے کہ ان پر گواہی دے اور اے محبوب! تمہیں ان سب پر شاہد بناکر لائیں گے، اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو،
اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ہر اُمت میں سے خود اُن پر گواہ کھڑے کریں گے۔ اور (اے پیغمبر) تم کو ان لوگوں پر گواہ لائیں گے۔ اور ہم نے تم پر (ایسی) کتاب نازل کی ہے کہ (اس میں) ہر چیز کا بیان (مفصل) ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے
اور (یہ) وہ دن ہوگا (جب) ہم ہر امت میں انہی میں سے خود ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو ان سب (امتوں اور پیغمبروں) پر گواہ بنا کر لائیں گے، اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے،
اور قیامت کے دن ہم ہر گروہ کے خلاف ان ہی میں کا ایک گواہ اٹھائیں گے اور پیغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بناکر لے آئیں گے اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے لئے ہدایت ,رحمت اور بشارت ہے
اور جس دن ہم ہر امت میں انہی میں سے ان کے مقابلے پر گواه کھڑا کریں گے اور تجھے ان سب پر گواه بنا کر ﻻئیں گے اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے، اور ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لیے
اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو ان کے بالمقابل گواہی دے گا اور آپ کو ان سب کے بالمقابل گواہ بنا کر لائیں گے اور ہم نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو ہر بات کو کھول کر بیان کرتی ہے اور سرِ تسلیم خم کرنے والوں کے لئے سراسر ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔
۞ إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِ وَٱلْإِحْسَٰنِ وَإِيتَآئِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ ٱلْفَحْشَآءِ وَٱلْمُنكَرِ وَٱلْبَغْىِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٩٠﴾
بے شک الله انصاف کرنے کا اوربھلائی کرنے کا اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے اوربے حیائی اوربری بات اور ظلم سے منع کرتا ہے تمہیں سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھو
اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو
بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتا بے حیائی اور برُی بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو،
خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بےحیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو
بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو،
بیشک اللہ عدل ,احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری ,ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرلو
اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ﻇلم وزیادتی سے روکتا ہے، وه خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو
بے شک اللہ عدل، احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم و زیادتی کرنے سے منع کرتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
وَأَوْفُوا۟ بِعَهْدِ ٱللَّهِ إِذَا عَٰهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا۟ ٱلْأَيْمَٰنَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ ٱللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ﴿٩١﴾
اور الله کا عہد پورا کرو جب آپس میں عہد کرو اور قسموں کو پکاکرنے کے بعد نہ توڑو حالانکہ تم نے الله کو اپنے اوپر گواہ بنا یا ہے بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو
اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو اللہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے
اور اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو، بیشک تمہارے کام جانتا ہے،
اور جب خدا سے عہد واثق کرو تو اس کو پورا کرو اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو اُن کو مت توڑو کہ تم خدا کو اپنا ضامن مقرر کرچکے ہو۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو جانتا ہے
اور تم اللہ کا عہد پورا کر دیا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کر لینے کے بعد انہیں مت توڑا کرو حالانکہ تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بنا چکے ہو، بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو،
اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کو ان کے استحکام کے بعد ہرگز مت توڑو جب کہ تم اللہ کو کفیل اور نگراں بناچکے ہو کہ یقینا اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ہے
اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں قول وقرار کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو، حاﻻنکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو، تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو بخوبی جان رہا ہے
اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب بھی تم کوئی عہد کرو اور اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو جبکہ تم اللہ کو ضامن بنا چکے ہو بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
وَلَا تَكُونُوا۟ كَٱلَّتِى نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنۢ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَٰثًۭا تَتَّخِذُونَ أَيْمَٰنَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِىَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ ٱللَّهُ بِهِۦ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴿٩٢﴾
اور اس عورت جیسے نہ بنو جواپنا سوت محنت کے بعد کاٹ کر توڑ ڈالے کہ تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد کا ذریعہ بنانے لگو محض اس لیے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بڑھ جائے الله اس میں تمہاری آزمائش کرتا ہے اور جس چیز میں تم اختلاف کرتے ہو الله اسے ضرور قیامت کے دن ظاہر کردے گا
تمہاری حالت اُس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالاں کہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعہ سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا
اور اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ دیا اپنی قسمیں آپس میں ایک بے اصل بہانہ بناتے ہو کہ کہیں ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ نہ ہو اللہ تو اس سے تمہیں آزماتا ہے اور ضرور تم پر صاف ظاہر کردے گا قیامت کے دن جس بات میں جھگڑتے تھے،
اور اُس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے محنت سے تو سوت کاتا۔ پھر اس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ کہ تم اپنی قسموں کو آپس میں اس بات کا ذریعہ بنانے لگو کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ غالب رہے۔ بات یہ ہے کہ خدا تمہیں اس سے آزماتا ہے۔ اور جن باتوں میں تم اختلاف کرتے ہو قیامت کو اس کی حقیقت تم پر ظاہر کر دے گا
اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کات لینے کے بعد توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، تم اپنی قَسموں کو اپنے درمیان فریب کاری کا ذریعہ بناتے ہو تاکہ (اس طرح) ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ہو جائے، بات یہ ہے کہ اللہ (بھی) تمہیں اسی کے ذریعہ آزماتا ہے، اور وہ تمہارے لئے قیامت کے دن ان باتوں کو ضرور واضح فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے،
اور خبردار اس عورت کے مانند نہ ہوجاؤ جس نے اپنے دھاگہ کو مضبوط کاتنے کے بعد پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا-کیا تم اپنے معاہدے کو اس چالاکی کا ذریعہ بناتے ہو کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے-اللہ تمہیں ان ہی باتوں کے ذریعے آزما رہا ہے اور یقینا روزِ قیامت اس امر کی وضاحت کردے گا جس میںتم آپس میں اختلاف کررہے تھے
اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈاﻻ، کہ تم اپنی قسموں کو آپس کے مکر کا باعﺚ ٹھراؤ، اس لیے کہ ایک گروه دوسرے گروه سے بڑھا چڑھا ہوجائے۔ بات صرف یہی ہے کہ اس عہد سے اللہ تمہیں آزما رہا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے لیے قیامت کے دن ہر اس چیز کو کھول کر بیان کر دے گا جس میں تم اختلاف کر رہے تھے
خبردار تم اس عورت کی مانند نہ ہو جانا جس نے بڑی مضبوطی سے سوت کاتنے کے بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان مکر و فریب کا ذریعہ بناتے ہو۔ تاکہ ایک گروہ دوسرے سے زیادہ فائدہ حاصل کرے اور اللہ اس بات سے تمہاری آزمائش کرتا ہے اور یقیناً قیامت کے دن وہ تمہارے لئے وہ حکمت ظاہر کر دے گا جس میں تم اختلاف کرتے ہو۔
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَلَٰكِن يُضِلُّ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُ ۚ وَلَتُسْـَٔلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٩٣﴾
اور اگر الله چاہتا تو تم سب کو ایک ہی جماعت بنا دیتا اورلیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے اور جسے چاہتاہے ہدایت دیتا ہے اور البتہ تم سے پوچھا جائے گا کہ کیا کرتےتھے
اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی (کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو) تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے، اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہو کر رہے گی
اور اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت کرتا لیکن اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے، اور راہ دیتا ہے جسے چاہے، اور ضرور تم سے تمہارے کام پوچھے جائیں گے،
اور اگر خدا چاہتا تو تم (سب) کو ایک ہی جماعت بنا دیتا۔ لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور جو عمل تم کرتے ہو (اُس دن) اُن کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا
اور اگر اللہ چاہتا تو تم (سب) کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرما دیتا ہے، اور تم سے ان کاموں کی نسبت ضرور پوچھا جائے گا جو تم انجام دیا کرتے تھے،
اور اگر پروردگار چاہتا تو جبراتم سب کو ایک قوم بنادیتا لیکن وہ اختیار دے کر جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدایت تک پہنچادیتاہے اور تم سے یقینا ان اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا جوتم دنیا میں انجام دے رہے تھے
اگر اللہ چاہتا تم سب کو ایک ہی گروه بنا دیتا لیکن وه جسے چاہے گمراه کرتا ہے اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے، یقیناً تم جو کچھ کر رہے ہو اس کے بارے میں باز پرس کی جانے والی ہے
اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور تم جو کچھ کر رہے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور سوال کیا جائے گا۔
وَلَا تَتَّخِذُوٓا۟ أَيْمَٰنَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا۟ ٱلسُّوٓءَ بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ ۖ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ ﴿٩٤﴾
اور تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد کا ذریعہ نہ بناؤ کبھی قدم جمنے کے بعد پھسل نہ جائے پھر تمہیں اس سبب سے کہ تم نے راہِ خدا سے روکا تکلیف اٹھانی پڑے اور تمہیں بڑا عذاب ہو
(اور اے مسلمانو،) تم اپنی قسموں کو آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کا ذریعہ نہ بنا لینا، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی قدم جمنے کے بعد اکھڑ جائے اور تم اِس جرم کی پاداش میں کہ تم نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا، برا نتیجہ دیکھو اور سخت سزا بھگتو
اور اپنی قسمیں آپس میں بے اصل بہانہ نہ بنالو کہ کہیں کوئی پاؤں جمنے کے بعد لغزش نہ کرے اور تمہیں برائی چکھنی ہو بدلہ اس کا کہ اللہ کی راہ سے روکتے تھے اور تمہیں بڑا عذاب ہو
اور اپنی قسموں کو آپس میں اس بات کا ذریعہ نہ بناؤ کہ (لوگوں کے) قدم جم چکنے کے بعد لڑ کھڑا جائیں اور اس وجہ سے کہ تم نے لوگوں کو خدا کے رستے سے روکا تم کو عقوبت کا مزہ چکھنا پڑے۔ اور بڑا سخت عذاب ملے
اور تم اپنی قَسموں کو آپس میں فریب کاری کا ذریعہ نہ بنایا کرو ورنہ قدم (اسلام پر) جم جانے کے بعد لڑکھڑا جائے گا اور تم اس وجہ سے کہ اللہ کی راہ سے روکتے تھے برے انجام کا مزہ چکھو گے، اور تمہارے لئے زبردست عذاب ہے،
اور خبردار اپنی قسموں کو فساد کا ذریعہ نہ بناؤ کہ نو مسلم افراد کے قدم ثابت ہونے کے بعد پھر اکھڑ جائیں اور تمہیں راہ هخدا سے روکنے کی پاداش میں بڑے عذاب کا مزہ چکھنا پڑے اور تمہارے لئے عذابِ عظیم ہوجائے
اور تم اپنی قسموں کو آپس کی دغابازی کا بہانہ نہ بناؤ۔ پھر تو تمہارے قدم اپنی مضبوطی کے بعد ڈگمگا جائیں گے اور تمہیں سخت سزا برداشت کرنا پڑے گی کیونکہ تم نے اللہ کی راه سے روک دیا اور تمہیں بڑا سخت عذاب ہوگا
اور تم اپنے درمیان اپنی قسموں کو مکر و فریب کا ذریعہ نہ بناؤ۔ کہیں کوئی قدم جم جانے کے بعد پھسل نہ جائے اور اس طرح تمہیں اللہ کی راہ سے روکنے کی پاداش میں برائی کا مزہ چکھنا پڑے اور تمہارے لئے عذابِ عظیم ہے۔
وَلَا تَشْتَرُوا۟ بِعَهْدِ ٱللَّهِ ثَمَنًۭا قَلِيلًا ۚ إِنَّمَا عِندَ ٱللَّهِ هُوَ خَيْرٌۭ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٩٥﴾
اور الله سے عہد کو تھوڑے سے داموں پر نہ بیچو جو کچھ الله کے ہاں ہے وہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو
اللہ کے عہد کو تھوڑے سے فائدے کے بدلے نہ بیچ ڈالو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو
اور اللہ کے عہد پر تھوڑے دام مول نہ لو بیشک وہ جو اللہ کے پاس ہے تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو،
اور خدا سے جو تم نے عہد کیا ہے (اس کو مت بیچو اور) اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لو۔ (کیونکہ ایفائے عہد کا) جو صلہ خدا کے ہاں مقرر ہے وہ اگر سمجھو تو تمہارے لیے بہتر ہے
اور اللہ کے عہد حقیر سی قیمت (یعنی دنیوی مال و دولت) کے عوض مت بیچ ڈالا کرو، بیشک جو (اجر) اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم (اس راز کو) جانتے ہو،
اور خبردار اللہ کے عہدے کے عوض معمولی قیمت (مال دنیا) نہ لو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے بوجھتے ہو
تم اللہ کے عہد کو تھوڑے مول کے بدلے نہ بیچ دیا کرو۔ یاد رکھو اللہ کے پاس کی چیز ہی تمہارے لیے بہتر ہے بشرطیکہ تم میں علم ہو
اور اللہ کے عہد و پیمان کو تھوڑی سی قیمت کے عوض فروخت نہ کرو۔ بے شک جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ ٱللَّهِ بَاقٍۢ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ ٱلَّذِينَ صَبَرُوٓا۟ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿٩٦﴾
جو تمہارے پاس ہے ختم ہو جائے گا اور جو الله کے پاس ہے کبھی ختم نہ ہوگا اور ہم صبر کرنے والوں کو ان کے اچھے کاموں کا جو کرتے تھے ضرور بدلہ دیں گے
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے، اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے
جو تمہارے پاس ہے ہوچکے گا اور جو اللہ کے پاس ہے ہمیشہ رہنے والا، اور ضرور ہم صبر کرنے والوں کو ان کا وہ صلہ دیں گے جو ان کے سب سے اچھے کام کے قابل ہو،
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور جو خدا کے پاس ہے وہ باقی ہے کہ (کبھی ختم نہیں ہوگا) اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم اُن کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے
جو (مال و زر) تمہارے پاس ہے فنا ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے باقی رہنے والا ہے، اور ہم ان لوگوں کو جنہوں نے صبر کیا ضرور ان کا اجر عطا فرمائیں گے ان کے اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے رہے تھے،
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سب خرچ ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے اور ہم یقینا صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا عطا کریں گے
تمہارے پاس جو کچھ ہے سب فانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے باقی ہے۔ اور صبر کرنے والوں کو ہم بھلے اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور ہم یقیناً صبر کرنے والوں کو ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے۔
مَنْ عَمِلَ صَٰلِحًۭا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌۭ فَلَنُحْيِيَنَّهُۥ حَيَوٰةًۭ طَيِّبَةًۭ ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿٩٧﴾
جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو ہم اسے ضروراچھی زندگی بسر کرائیں گے اور ان کا حق انہیں بدلےمیں دیں گے انکےاچھے کاموں کے عوض میں جو کرتے تھے
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے
جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں گے اور ضرور انہیں ان کا نیگ (اجر) دیں گے جو ان کے سب سے بہتر کام کے لائق ہوں،
جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے
جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے،
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب هایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے
جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے
جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اسے (دنیا) میں پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے۔
فَإِذَا قَرَأْتَ ٱلْقُرْءَانَ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِ مِنَ ٱلشَّيْطَٰنِ ٱلرَّجِيمِ ﴿٩٨﴾
سو جب تو قرآن پڑھنے لگے تو شیطان مردود سے الله کی پناہ لے
پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو
تو جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کی پناہ مانگو شیطان مردود سے،،
اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو
سو جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود (کی وسوسہ اندازیوں) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں،
لہذا جب آپ قرآن پڑھیں تو شیطان هرجیم کے مقابلہ کے لئے اللہ سے پناہ طلب کریں
قرآن پڑھنے کے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناه طلب کرو
پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو مردود شیطان سے خدا کی پناہ مانگ لیا کریں۔
إِنَّهُۥ لَيْسَ لَهُۥ سُلْطَٰنٌ عَلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٩٩﴾
اس کا زور ان پرنہیں چلتا جو ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں
اُسے اُن لوگوں پر تسلط حاصل نہیں ہوتا جو ایمان لاتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں
بیشک اس کا کوئی قابو ان پر نہیں جو ایمان لائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں
کہ جو مومن ہیں اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں اُن پر اس کا کچھ زور نہیں چلتا
بیشک اسے ان لوگوں پر کچھ (بھی) غلبہ حاصل نہیں ہے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں،
شیطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبان هایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے
ایمان والوں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھنے والوں پر اس کا زور مطلقاً نہیں چلتا
جو لوگ ایماندار ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں ان پر اس (شیطان) کا کوئی تسلط نہیں ہے۔
إِنَّمَا سُلْطَٰنُهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُۥ وَٱلَّذِينَ هُم بِهِۦ مُشْرِكُونَ ﴿١٠٠﴾
اس کا زور تو انہیں پر ہے جو اسے دوست بناتے ہیں اور جو الله کے ساتھ شریک مانتے ہیں
اس کا زور تو انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے اور اس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں
اس کا قابو تو انہیں پر ہے جو اس سے دوستی کرتے ہیں اور اسے شریک ٹھہراتے ہیں،
اس کا زور ان ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو رفیق بناتے ہیں اور اس کے (وسوسے کے) سبب (خدا کے ساتھ) شریک مقرر کرتے ہیں
بس اس کا غلبہ صرف انہی لوگوں پر ہے جو اسے دوست بناتے ہیں اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہیں،
اس کا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اسے سرپرست بناتے ہیں اور اللہ کے بارے میں شرک کرنے والے ہیں
ہاں اس کا غلبہ ان پر تو یقیناً ہے جو اسی سے رفاقت کریں اور اسے اللہ کا شریک ٹھہرائیں
اس کا قابو تو صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں اور اس کی وجہ سے شرک کرتے ہیں۔
وَإِذَا بَدَّلْنَآ ءَايَةًۭ مَّكَانَ ءَايَةٍۢ ۙ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوٓا۟ إِنَّمَآ أَنتَ مُفْتَرٍۭ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٠١﴾
اورجب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری بدلتے ہیں اور الله خوب جانتا ہے جو اتارتا ہے تو کہتے ہیں کہ تو بنا لاتا ہے یہ بات نہیں لیکن اکثر ان میں سے نہیں سمجھتے
جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خو د گھڑ تے ہو اصل بات یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں
اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدلیں اور اللہ خوب جانتا ہے جو اتارتا ہے کافر کہیں تم تو دل سے بنا لاتے ہو بلکہ ان میں اکثر کو علم نہیں،
اور جب ہم کوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں۔ اور خدا جو کچھ نازل فرماتا ہے اسے خوب جانتا ہے تو (کافر) کہتے ہیں کہ تم یونہی اپنی طرف سے بنا لاتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر نادان ہیں
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے جو (کچھ) وہ نازل فرماتا ہے (تو) کفار کہتے ہیں کہ آپ تو بس اپنی طرف سے گھڑنے والے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ (آیتوں کے اتارنے اور بدلنے کی حکمت) نہیں جانتے،
اور ہم جب ایک آیت کی جگہ پر دوسری آیت تبدیل کرتے ہیں تو اگرچہ خدا خوب جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کررہا ہے لیکن یہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ محمد تم افترا کرنے والے ہو حالانکہ ان کی اکثریت کچھ نہیں جانتی ہے
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے اسے وه خوب جانتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ تو تو بہتان باز ہے۔ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں
اور جب ہم ایک آیت کو کسی اور آیت سے بدلتے ہیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کر رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم (یہ کلام) اپنے دل سے گھڑ لیا کرتے ہو حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ (حقیقتِ حال کو) نہیں جانتے۔
قُلْ نَزَّلَهُۥ رُوحُ ٱلْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِٱلْحَقِّ لِيُثَبِّتَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَهُدًۭى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ ﴿١٠٢﴾
تو کہہ دے اسےتیرے رب کی طرف سے پاک فرشتے نے سچائی کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان والوں کے دل جما دے اور فرمانبرداروں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے
اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے
تم فرماؤ اسے پاکیزگی کی روح نے اتارا تمہارے رب کی طرف سے ٹھیک ٹھیک کہ اس سے ایمان والوں کو ثابت قدم کرے اور ہدایت اور بشارت مسلمانوں کو،
کہہ دو کہ اس کو روح القدس تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی کے ساتھ لے کر نازل ہوئے ہیں تاکہ یہ (قرآن) مومنوں کو ثابت قدم رکھے اور حکم ماننے والوں کے لئے تو (یہ) ہدایت اور بشارت ہے
فرما دیجئے: اس (قرآن) کو روحُ القدس (جبرئیل علیہ السلام) نے آپ کے رب کی طرف سے سچائی کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے اور (یہ) مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے،
تو آپ کہہ دیجئے کہ اس قرآن کوروح القدس جبرئیل نے تمہارے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ صاحبانِ ایمان کو ثبات و استقلال عطاکرے اور یہ اطاعت گزاروں کے لئے ایک ہداےت اور بشارت ہے
کہہ دیجئے کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبرائیل حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہو جائے
آپ کہہ دیجیے کہ اس (قرآن) کو تمہارے پروردگار کی طرف سے روح القدس نے حق کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کو ثابت قدم رکھے اور اطاعت گزاروں کے لئے ہدایت اور نجات کی خوشخبری ثابت ہو۔
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُۥ بَشَرٌۭ ۗ لِّسَانُ ٱلَّذِى يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِىٌّۭ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِىٌّۭ مُّبِينٌ ﴿١٠٣﴾
اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کہتے ہیں اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے حالانکہ جس کی طرف نسبت کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے
ہمیں معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتا ہے حالانکہ ان کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے
اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں، یہ تو کوئی آدمی سکھاتا ہے، جس کی طرف ڈھالتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ روشن عربی زبان
اور ہمیں معلوم ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) کو ایک شخص سکھا جاتا ہے۔ مگر جس کی طرف (تعلیم کی) نسبت کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے
اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ (کفار و مشرکین) کہتے ہیں کہ انہیں یہ (قرآن) محض کوئی آدمی ہی سکھاتا ہے، جس شخص کی طرف وہ بات کو حق سے ہٹاتے ہوئے منسوب کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ قرآن واضح و روشن عربی زبان (میں) ہے،
اور ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ مشرکین یہ کہتے ہیں کہ انہیں کوئی انسان اس قرآن کی تعلیم دے رہا ہے-حالانکہ جس کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں وہ عجمی ہے اور یہ زبان عربی واضح و فصیح ہے
ہمیں بخوبی علم ہے کہ یہ کافر کہتے ہیں کہ اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے اس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے۔
اور بے شک ہم جانتے ہیں کہ وہ (قرآن کے بارے میں) کہتے ہیں کہ اس شخص (پیغمبر) کو ایک آدمی سکھاتا ہے حالانکہ جس شخص کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن) تو فصیح عربی زبان میں ہے۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ لَا يَهْدِيهِمُ ٱللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٠٤﴾
وہ لوگ جنہیں الله کی باتوں پر یقین نہیں الله بھی انہیں ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کو نہیں مانتے اللہ کبھی ان کو صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے
بیشک وہ جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ انھیں راہ نهیں دیتا اور ان کے لے درد ناک عذاب ہے،
یہ لوگ خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ان کو خدا ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لئے عذاب الیم ہے
بیشک جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ انہیں ہدایت (یعنی صحیح فہم و بصیرت کی توفیق بھی) نہیں دیتا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے،
بیشک جو لوگ اللہ کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے ہیں خدا انہیں ہدایت بھی نہیں دیتا ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب بھی ہے
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے انہیں اللہ کی طرف سے بھی رہنمائی نہیں ہوتی اور ان کے لیے المناک عذاب ہیں
جو لوگ آیاتِ الٰہی پر ایمان نہیں لاتے اللہ کبھی انہیں ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
إِنَّمَا يَفْتَرِى ٱلْكَذِبَ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ ۖ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَٰذِبُونَ ﴿١٠٥﴾
جھوٹ تو وہ لوگ بناتے ہیں جنہیں الله کی باتوں پر یقین نہیں اور وہی لوگ جھوٹے ہیں
(جھوٹی باتیں نیا نہیں گھڑ تا بلکہ) جھوٹ وہ لوگ گھڑ رہے ہیں، جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے، وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں
جھوٹ بہتان دہی باندھتے ہین جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور دہی جھوٹے ہیں،
جھوٹ افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے۔ اور وہی جھوٹے ہیں
بیشک جھوٹی افترا پردازی (بھی) وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں،
یقینا غلط الزام لگانے والے صرف وہی افراد ہوتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اور وہی جھوٹے بھی ہوتے ہیں
جھوٹ افترا تو وہی باندھتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں ہوتا۔ یہی لوگ جھوٹے ہیں
جھوٹ تو صرف وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔
مَن كَفَرَ بِٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ إِيمَٰنِهِۦٓ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُۥ مُطْمَئِنٌّۢ بِٱلْإِيمَٰنِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِٱلْكُفْرِ صَدْرًۭا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌۭ مِّنَ ٱللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ ﴿١٠٦﴾
جو کوئی ایمان لانے کے بعد الله سے منکر ہوا مگر وہ جو مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن وہ جو دل کھول کر منکر ہوا تو ان پر الله کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے
جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کر لیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے
جو ایمان لا کر اللہ کا منکر ہو سوا اس کے مجبور کیا جا ےٴ اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو، ہاں وہ جو دل کھول کر کافر ہو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑاعذاب ہے،
جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے۔ تو ایسوں پر الله کا غضب ہے۔ اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا
جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے، لیکن (ہاں) وہ شخص جس نے (دوبارہ) شرحِ صدر کے ساتھ کفر (اختیار) کیا سو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے،
جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے .... علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ....اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو، مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے
جو کوئی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کرے سوائے اس صورت کے کہ اسے مجبور کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (کہ اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے) لیکن جو کشادہ دلی سے کفر اختیار کرے (زبان سے کفر کرے اور اس کا دل اس کفر پر رضامند ہو) تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ ٱسْتَحَبُّوا۟ ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا عَلَى ٱلْءَاخِرَةِ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿١٠٧﴾
یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر محبوب بنایا اور نیز اس لیے کہ الله کافروں کو ہدایت نہیں دیتا
یہ اس لیے کہ اُنہوں نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا، اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ اُن لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا جو اُس کی نعمت کا کفران کریں
یہ اس لےٴ کہ انھوں نے دنیا کی زندگی آخرت سے پیاری جانی، اور اس لےٴ کہ اللہ (ایسے) کافروں کو راہ نہیں دیتا،
یہ اس لئے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں عزیز رکھا۔ اور اس لئے خدا کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت پر عزیز رکھا اور اس لئے کہ اللہ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں فرماتا،
یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے زندگانی دنیا کو آخرت پر مقدم کیا ہے اور اللہ ظالم قوموں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا ہے
یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیاده محبوب رکھا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو راه راست نہیں دکھاتا
یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی ہے اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کیا کرتا۔
أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ طَبَعَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَٰرِهِمْ ۖ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْغَٰفِلُونَ ﴿١٠٨﴾
یہ وہی ہیں کہ الله نے ان کے دلوں پر اورکانوں پر اور آنکھوں پر مہر کر دی اور وہی غافل بھی ہیں
یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے یہ غفلت میں ڈوب چکے ہیں
یہ ہیں وه جن کے دل اور کان اور آنکھو ں پر اللہ نے مہر کر دی ہے اور وہی غفلت مین پڑے ہیں،
یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر خدا نے مہر لگا رکھی ہے۔ اور یہی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر مُہر لگا دی ہے اور یہی لوگ ہی (آخرت کے انجام سے) غافل ہیں،
یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور آنکھ کان پر کفر کی چھاپ لگا دی گئی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جوحقیقتا حقائق سے غافل ہیں
یہ وه لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور جن کے کانوں پر اور جن کی آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور یہی لوگ غافل ہیں
یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی اور یہی لوگ بالکل غافل ہیں۔
لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِى ٱلْءَاخِرَةِ هُمُ ٱلْخَٰسِرُونَ ﴿١٠٩﴾
ضرور وہی لوگ آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں
ضرور ہے کہ آخرت میں یہی خسارے میں رہیں
آپ ہی ہوا کہ آخرت میں وہی خراب
کچھ شک نہیں کہ یہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے
یہ حقیقت ہے کہ بیشک یہی لوگ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہیں،
اور یقینا یہی لوگ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہیں
کچھ شک نہیں کہ یہی لوگ آخرت میں سخت نقصان اٹھانے والے ہیں
اور یقیناً یہی لوگ آخرت میں نقصان و زیاں اٹھانے والے ہیں۔
ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا۟ مِنۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوا۟ ثُمَّ جَٰهَدُوا۟ وَصَبَرُوٓا۟ إِنَّ رَبَّكَ مِنۢ بَعْدِهَا لَغَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿١١٠﴾
پھر بے شک تیرا رب ان کے لئے جنہوں نےمصیبت میں پڑنے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر کیا بے شک تیرارب ان باتو ں کے بعد بحشنے والا مہربان ہے
بخلاف اس کے جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب (ایمان لانے کی وجہ سے) وہ ستائے گئے تو اُنہوں نے گھر بار چھوڑ دیے، ہجرت کی، راہ خدا میں سختیاں جھیلیں اور صبرسے کام لیا، اُن کے لیے یقیناً تیرا رب غفور و رحیم ہے
پھر بیشک تمہارا رب ان کے لیے جنہوں نے اپنے گھر چھوڑے بعد اس کے کہ ستائے گئے پھر انہوں نے جہاد کیا اور صابر رہے بیشک تمہارا رب اس کے بعد ضرور بخشنے والا ہے مہربان،
پھر جن لوگوں نے ایذائیں اٹھانے کے بعد ترک وطن کیا۔ پھر جہاد کئے اور ثابت قدم رہے تمہارا پروردگار ان کو بےشک ان (آزمائشوں) کے بعد بخشنے والا (اور ان پر) رحمت کرنے والا ہے
پھر آپ کا رب ان لوگوں کے لئے جنہوں نے آزمائشوں (اور تکلیفوں) میں مبتلا کئے جانے کے بعد ہجرت کی (یعنی اللہ کے لئے اپنے وطن چھوڑ دیئے) پھر جہاد کئے اور (پریشانیوں پر) صبر کئے تو (اے حبیبِ مکرّم!) آپ کا رب اس کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
اس کے بعد تمہارا پروردگار ان لوگوں کے لئے جنہوں نے فتنوں میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی ہے اور پھر جہاد بھی کیا ہے اور صبر سے بھی کام لیا ہے یقینا تمہارا پروردگار بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے
جن لوگوں نے فتنوں میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر کا ﺛبوت دیا بیشک تیرا پروردگار ان باتوں کے بعد انہیں بخشنے واﻻ اور مہربانیاں کرنے واﻻ ہے
پھر آپ کا پروردگار ان لوگوں کے لئے جنہوں نے (سخت) آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر سے کام لیا یقیناً (آپ کا) پروردگار ان اعمال کے بعد بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
۞ يَوْمَ تَأْتِى كُلُّ نَفْسٍۢ تُجَٰدِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍۢ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿١١١﴾
ٰجس دن ہر شخص اپنے ہی لیے جھگڑتا ہو آئے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا اوران پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا
(اِن سب کا فیصلہ اُس دن ہوگا) جب کہ ہر متنفس اپنے ہی بچاؤ کی فکر میں لگا ہوا ہوگا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ پورا پورا دیا جائے گا اور کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہونے پائے گا
جس دن ہر جان اپنی ہی طرف جھگڑتی آئے گی اور ہر جان کو اس کا کیا پورا بھردیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا
جس دن ہر متنفس اپنی طرف سے جھگڑا کرنے آئے گا۔ اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور کسی کا نقصان نہیں کیا جائے گا
وہ دن (یاد کریں) جب ہر شخص محض اپنی جان کی طرف سے (دفاع کے لئے) جھگڑتا ہوا حاضر ہوگا اور ہر جان کو جو کچھ اس نے کیا ہوگا اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا،
قیامت کا دن وہ دن ہوگا جب ہر انسان اپنے نفس کی طرف سے دفاع کرنے کے لئے حاضر ہوگا اور نفس کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا
جس دن ہر شخص اپنی ذات کے لیے لڑتا جھگڑتا آئے اور ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور لوگوں پر (مطلقاً) ﻇلم نہ کیا جائے گا
(اس دن کو یاد کرو) جس دن ہر شخص اپنی ذات کی خاطر جھگڑا کرتا ہوا آئے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر (کسی طرح بھی) کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا قَرْيَةًۭ كَانَتْ ءَامِنَةًۭ مُّطْمَئِنَّةًۭ يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًۭا مِّن كُلِّ مَكَانٍۢ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ ٱللَّهِ فَأَذَٰقَهَا ٱللَّهُ لِبَاسَ ٱلْجُوعِ وَٱلْخَوْفِ بِمَا كَانُوا۟ يَصْنَعُونَ ﴿١١٢﴾
اور الله ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جہاں ہر طرح کا امن چین تھا اس کی روزی بافراغت ہر جگہ سے چلی آتی تھی پھر الله کےاحسانوں کی ناشکری کی پھر الله نے ان کے برے کاموں کے سبب سے جو وہ کیا کرتے تھے یہ مزہ چکھایا کہ ان پر فاقہ اور خوف چھا گیا
اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں
اور اللہ نے کہاوت بیان فرمائی ایک بستی کہ امان و اطمینان سے تھی ہر طرف سے اس کی روزی کثرت سے آتی تو وہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگی تو اللہ نے اسے یہ سزا چکھائی کہ اسے بھوک اور ڈر کا پہناوا پہنایا بدلہ ان کے کیے کا،
اور خدا ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے کہ (ہر طرح) امن چین سے بستی تھی ہر طرف سے رزق بافراغت چلا آتا تھا۔ مگر ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر (ناشکری کا) مزہ چکھا دیا
اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) امن اور اطمینان سے (آباد) تھی اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھے،
اور اللہ نے اس قریہ کی بھی مثال بیان کی ہے جو محفوظ اور مطمئن تھی اور اس کا رزق ہر طرف سے باقاعدہ آرہا تھا لیکن اس قریہ کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا تو خدا نے انہیں بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھادیا صرف ان کے ان اعمال کی بنا پر کہ جو وہ انجام دے رہے تھے
اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزه چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا
اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی ہے جو امن و اطمینان سے (آباد) تھی اس کی روزی فراغت سے آرہی تھی پس اس نے کفرانِ نعمت شروع کیا تو اللہ نے اس کے باشندوں کے کرتوتوں کی پاداش میں اسے یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف کو اس کا اوڑھنا بنا دیا۔
وَلَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُولٌۭ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ ٱلْعَذَابُ وَهُمْ ظَٰلِمُونَ ﴿١١٣﴾
اور البتہ ان کے پاس انہیں میں سے رسول بھی آیا مگر انہوں نے اسے جھٹلایا پھر انہیں عذاب نے آ پکڑا ایسے حال میں کہ وہ ظالم تھے
اُن کے پاس ان کی اپنی قوم میں سے ایک رسول آیا مگر اُنہوں نے اس کو جھٹلا دیا آخر کار عذاب نے اُن کو آ لیا جبکہ وہ ظالم ہو چکے تھے
اور بیشک ن کے پاس انہیں میں سے ایک رسول تشریف لایا تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں عذاب نے پکڑا اور وہ بے انصاف تھے،
اور ان کے پاس ان ہی میں سے ایک پیغمبر آیا تو انہوں نے اس کو جھٹلایا سو ان کو عذاب نے آپکڑا اور وہ ظالم تھے
اور بیشک ان کے پاس انہی میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا پس انہیں عذاب نے آپکڑا اور وہ ظالم ہی تھے،
اور یقینا ان کے پاس رسول آیا تو انہوں نے اس کی تکذیب کردی تو پھر ان تک عذاب آپہنچا کہ یہ سب ظلم کرنے والے تھے
ان کے پاس انہی میں سے رسول پہنچا پھر بھی انہوں نے اسے جھٹلایا پس انہیں عذاب نے آدبوچا اور وه تھے ہی ﻇالم
اور پھر خود انہی میں سے ایک رسول ان کے پاس آیا مگر انہوں نے اسے جھٹلا دیا پس عذاب نے انہیں اس حال میں آپکڑا کہ وہ ظالم تھے۔
فَكُلُوا۟ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ حَلَٰلًۭا طَيِّبًۭا وَٱشْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴿١١٤﴾
پھر تمہیں جو الله نے حلال طیب روزی دی ہے کھاؤ اور الله کے احسان کا شکر کرو اگر تم صرف اسی کو پوجتے ہو
پس اے لوگو، اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اُسے کھاؤ اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو اگر تم واقعی اُسی کی بندگی کرنے والے ہو
تو اللہ کی دی ہوئی روزی حلال پاکیزہ کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اسے پوجتے ہو،
پس خدا نے جو تم کو حلال طیّب رزق دیا ہے اسے کھاؤ۔ اور الله کی نعمتوں کا شکر کرو۔ اگر اسی کی عبادت کرتے ہو
پس جو حلال اور پاکیزہ رزق تمہیں اللہ نے بخشا ہے، تم اس میں سے کھایا کرو اور اللہ کی نعمت کا شکر بجا لاتے رہو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو،
لہذا اب تم اللہ کے دئے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اس کی عبادت کرنے والے ہو تو اس کی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہو
جو کچھ حلال اور پاکیزه روزی اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو
(اے لوگو) خدا نے تمہیں جو حلال (اور) پاک و پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ (پیو) اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی نعمت کا شکر بھی ادا کرو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحْمَ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦ ۖ فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍۢ وَلَا عَادٍۢ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿١١٥﴾
تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت حرام کیا ہے اوروہ چیز بھی جو الله کے سوا کسی اور کے نام سے پکاری گئی ہو پھر جوبھوک کے مارے بیتاب ہو جائے نہ وہ باغی ہو اورنہ حد سے گزرنے والا توالله بخشنے والا مہربان ہے
اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے وہ ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو البتہ بھوک سے مجبور ہو کر اگر کوئی اِن چیزوں کو کھا لے، بغیر اس کے کہ وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کا خواہش مند ہو، یا حد ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو، تو یقیناً اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے
تم پر تو یہی حرام کیا ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح کرتے وقت غیر خدا کا نام پکارا گیا پھر جو لاچار ہو نہ خواہش کرتا اور نہ حد سے بڑھتا تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
اس نے تم پر مُردار اور لہو اور سور کا گوشت حرام کردیا ہے اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے (اس کو بھی) ہاں اگر کوئی ناچار ہوجائے تو بشرطیکہ گناہ کرنے والا نہ ہو اور نہ حد سے نکلنے والا تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، حرام کیا ہے، پھر جو شخص حالتِ اضطرار (یعنی انتہائی مجبوری کی حالت) میں ہو، نہ (طلبِ لذت میں احکامِ الٰہی سے) سرکشی کرنے والا ہو اور نہ (مجبوری کی حد سے) تجاوز کرنے والا ہو، تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
اس نے تمہارے لئے صرف اَمفِدار ,خون ,سور کا گوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اسے حرام کردیا ہے اور اس میں بھی اگر کوئی شخص مضطر و مجبور ہوجائے اور نہ بغاوت کرے نہ حد سے تجاوز کرے تو خدا بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے حرام ہیں، پھر اگر کوئی شخص بے بس کر دیا جائے نہ وه خواہشمند ہو اور نہ حد سے گزرنے واﻻ ہو تو یقیناً اللہ بخشنے واﻻ رحم کرنے واﻻ ہے
اس نے تم پر صرف مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام بلند کیا گیا ہو حرام کیا ہے۔ پس جو (ان کے کھانے پر) مجبور ہو جائے نہ باغی ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا (تو کوئی مضائقہ نہیں) بے شک خدا بڑا بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ ٱلْكَذِبَ هَٰذَا حَلَٰلٌۭ وَهَٰذَا حَرَامٌۭ لِّتَفْتَرُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴿١١٦﴾
اور اپنی زبانوں سے جھوٹ بنا کر نہ کہو کہ یہ حلا ل ہے اوریہ حرا م ہے تاکہ الله پر بہتان باندھو بے شک جو الله پر بہتان باندھتے ہیں انکا بھلانہ ہوگا
اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے
اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو بیشک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا،
اور یوں ہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آجائے مت کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ خدا پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو۔ جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں ان کا بھلا نہیں ہوگا
اور وہ جھوٹ مت کہا کرو جو تمہاری زبانیں بیان کرتی رہتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اس طرح کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ (کبھی) فلاح نہیں پائیں گے،
اور خبردار جو تمہاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اس کی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اس طرح خدا پر جھوٹا بہتان باندھنے والے ہوجاؤ گے اور جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح اور کامیابی نہیں ہے
کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں
(خبردار) تمہاری زبانوں پر جو جھوٹی بات آجائے (اور وہ جھوٹے احکام لگائیں) ان کے متعلق نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام! اس طرح تم اللہ پر جھوٹا افترا باندھوگے بے شک جو لوگ خدا پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے۔
مَتَٰعٌۭ قَلِيلٌۭ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ ﴿١١٧﴾
تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں اوران کے لیے دردناک عذاب ہے
دنیا کا عیش چند روزہ ہے آخرکار اُن کے لیے دردناک سزا ہے
تھوڑا برتنا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب
(جھوٹ کا) فائدہ تو تھوڑا سا ہے مگر (اس کے بدلے) ان کو عذاب الیم بہت ہوگا
فائدہ تھوڑا ہے مگر ان کے لئے عذاب (بڑا) دردناک ہے،
یہ دنیا صرف ایک مختصر لذّت ہے اور اس کے بعد ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے
انہیں بہت معمولی فائده ملتا ہے اور ان کے لئے ہی دردناک عذاب ہے
اس افترا پردازی کا چند روزہ فائدہ ہے (آخرکار) ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
وَعَلَى ٱلَّذِينَ هَادُوا۟ حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِن قَبْلُ ۖ وَمَا ظَلَمْنَٰهُمْ وَلَٰكِن كَانُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿١١٨﴾
اورجو لوگ یہودی ہیں ہم نے ان پر حرا م کی جو تجھے پہلے سنا چکے ہیں اورہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنے اوپر آپ ظلم کرتے تھے
وہ چیزیں ہم نے خاص طور پر یہودیوں کے لیے حرام کی تھیں جن کا ذکر ہم اس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں اور یہ اُن پر ہمارا ظلم نہ تھا بلکہ اُن کا اپنا ہی ظلم تھا جو وہ اپنے اوپر کر رہے تھے
اور خاص یہودیوں پر ہم نے حرام فرمائیں وہ چیزیں جو پہلے تمہیں ہم نے سنائیں اور ہم نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے،
اور چیزیں ہم تم سے پہلے بیان کرچکے ہیں وہ ہم نے یہودیوں پر حرام کردی تھیں۔ اور ہم نے ان پر کچھ ظلم نہیں کیا بلکہ وہی اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے
اور یہود پر ہم نے وہی چیزیں حرام کی تھیں جو ہم پہلے آپ سے بیان کر چکے ہیں اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کیا کرتے تھے،
اور ہم نے یہودیوں کے لئے ان تمام چیزوں کو حرام کردیا ہے جن کا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں اور یہ ہم نے ظلم نہیں کیا ہے بلکہ وہ خود اپنے نفس پر ظلم کرنے والے تھے
اور یہودیوں پر جو کچھ ہم نے حرام کیا تھا اسے ہم پہلے ہی سے آپ کو سنا چکے ہیں، ہم نے ان پر ﻇلم نہیں کیا بلکہ وه خود اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے رہے
اور ہم نے یہودیوں پر وہ چیزیں حرام کر دیں جن کا ذکر ہم اس سے پہلے (سورہ انعام میں) آپ سے کر چکے ہیں اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔
ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا۟ ٱلسُّوٓءَ بِجَهَٰلَةٍۢ ثُمَّ تَابُوا۟ مِنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوٓا۟ إِنَّ رَبَّكَ مِنۢ بَعْدِهَا لَغَفُورٌۭ رَّحِيمٌ ﴿١١٩﴾
پھر تیرا رب ان کے لیے جو جہالت سے برے کام کرتے رہے پھر اس کے بعد انہوں نے توبہ کر لی اور سدھر گئے بے شک تیرا رب اس کے بعد البتہ بخشنے والا مہربان ہے
البتہ جن لوگوں نے جہالت کی بنا پر برا عمل کیا اور پھر توبہ کر کے اپنے عمل کی اصلاح کر لی تو یقیناً توبہ و اصلاح کے بعد تیرا رب اُن کے لیے غفور اور رحیم ہے
پھر بیشک تمہارا رب ان کے لیے جو نادانی سے برائی کر بیٹھیں پھر اس کے بعد توبہ کریں اور سنور جائیں بیشک تمہارا رب اس کے بعد ضرور بخشنے والا مہربان ہے،
پھر جن لوگوں نے نادانی سے برا کام کیا۔ پھر اس کے بعد توبہ کی اور نیکوکار ہوگئے تو تمہارا پروردگار (ان کو) توبہ کرنے اور نیکوکار ہوجانے کے بعد بخشنے والا اور ان پر رحمت کرنے والا ہے
پھر بیشک آپ کا رب ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نادانی سے غلطیاں کیں پھر اس کے بعد تائب ہوگئے اور (اپنی) حالت درست کرلی تو بیشک آپ کا رب اس کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
اس کے بعد تمہارا پروردگار ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نادانی میں برائیاں کی ہیں اور اس کے بعد توبہ بھی کرلی ہے اور اپنے کو سدھار بھی لیا ہے تمہارا پروردگار ان باتوں کے بعد بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
جو کوئی جہالت سے برے عمل کرلے پھر توبہ کرلے اور اصلاح بھی کرلے تو پھر آپ کا رب بلا شک وشبہ بڑی بخشش کرنے واﻻ اور نہایت ہی مہربان ہے
بے شک آپ کا پروردگار ان لوگوں کے لئے جو جہالت و نادانی سے برائی کر گزرتے ہیں اور پھرا س کے بعد توبہ کر لیتے ہیں اور اپنی اصلاح کر لیتے ہیں یقیناً آپ کا پروردگار اس کے بعد بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
إِنَّ إِبْرَٰهِيمَ كَانَ أُمَّةًۭ قَانِتًۭا لِّلَّهِ حَنِيفًۭا وَلَمْ يَكُ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ﴿١٢٠﴾
بے شک ابراہیم ایک پوری امت تھا الله کا فرمانبردار تمام راہوں سے ہٹا ہوا اور مشرکوں میں سے نہ تھا
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو وہ کبھی مشرک نہ تھا
بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا،
بےشک ابراہیم (لوگوں کے) امام اور خدا کے فرمانبردار تھے۔ جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے
بیشک ابراہیم (علیہ السلام تنہا ذات میں) ایک اُمت تھے، اللہ کے بڑے فرمانبردار تھے، ہر باطل سے کنارہ کش (صرف اسی کی طرف یک سُو) تھے، اور مشرکوں میں سے نہ تھے،
بیشک ابراہیم علیھ السّلامایک مستقل امّت اور اللہ کے اطاعت گزار اور باطل سے کترا کر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے
بےشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور یک طرفہ مخلص تھے۔ وه مشرکوں میں سے نہ تھے
بے شک ابراہیم(ع) (اپنی ذات میں) ایک پوری امت تھے اللہ کے مطیع فرمان تھے (سب سے کٹ کر) یکسوئی سے (خدا کی طرف) مائل تھے اور ہرگز مشرکوں میں سے نہیں تھے۔
شَاكِرًۭا لِّأَنْعُمِهِ ۚ ٱجْتَبَىٰهُ وَهَدَىٰهُ إِلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍۢ ﴿١٢١﴾
اس کی نعمتوں کا شکر کرنے والا اسے الله نے چن لیا اور اسے سیدھی راہ پر چلایا
اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا اللہ نے اس کو منتخب کر لیا اور سیدھا راستہ دکھایا
اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا، اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی،
اس کی نعمتوں کے شکرگزار تھے۔ خدا نے ان کو برگزیدہ کیا تھا اور (اپنی) سیدھی راہ پر چلایا تھا
اس (اللہ) کی نعمتوں پر شاکر تھے، اللہ نے انہیں چن (کر اپنی بارگاہ میں خاص برگزیدہ بنا) لیا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دی،
وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے خدا نے انہیں منتخب کیا تھا اور سیدھے راستہ کی ہدایت دی تھی
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں اپنا برگزیده کر لیا تھا اور انہیں راه راست سجھا دی تھی
وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ نے انہیں منتخب کر لیا تھا اور انہیں سیدھے راستہ پر لگا دیا تھا۔
وَءَاتَيْنَٰهُ فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةًۭ ۖ وَإِنَّهُۥ فِى ٱلْءَاخِرَةِ لَمِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ﴿١٢٢﴾
اور ہم نے اسے دنیا میں بھی خوبی دی تھی اور وہ آخرت میں بھی اچھے لوگو ں میں ہو گا
دنیا میں اس کو بھلائی دی اور آخرت میں وہ یقیناً صالحین میں سے ہوگا
اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں شایان قرب ہے،
اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبی دی تھی۔ اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے
اور ہم نے اسے دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرمائی، اور بیشک وہ آخرت میں (بھی) صالحین میں سے ہوں گے،
اور ہم نے انہیں دنیا میں بھی نیکی عطا کی اور آخرت میں بھی ان کا شمار نیک کردار لوگوں میں ہوگا
ہم نے اسے دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بےشک وه آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں
ہم نے انہیں دنیا میں بھی بھلائی دی اور آخرت میں تو وہ صالحین میں سے ہی ہیں۔
ثُمَّ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ أَنِ ٱتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَٰهِيمَ حَنِيفًۭا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ﴿١٢٣﴾
پھر ہم نے تیرے پاس وحی بھیجی کہ تمام راہوں سے ہٹنے والے ابراہیم کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا
پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یک سو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا
پھر ہم نے تمہیں وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی کرو جو ہر باطل سے الگ تھا اور مشرک نہ تھا،
پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی اختیار کرو جو ایک طرف کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے
پھر (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کریں جو ہر باطل سے جدا تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے،
اس کے بعد ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ ابراہیم علیھ السّلام حنیف کے طریقہ کا اتباع کریں کہ وہ مشرکین میں سے نہیں تھے
پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے
اے رسول(ص) پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسو ہوکر ابراہیم کی ملت (طریقہ) کی پیروی کریں جو یقیناً مشرکوں میں سے نہیں تھے۔
إِنَّمَا جُعِلَ ٱلسَّبْتُ عَلَى ٱلَّذِينَ ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۚ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ فِيمَا كَانُوا۟ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿١٢٤﴾
ہفتہ کا دن انہی پر مقرر کیا گیا تھا جو اس میں اختلاف کرتےتھے او رتیرا رب ان میں قیامت کےدن فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے
رہا سبت، تو وہ ہم نے اُن لوگوں پر مسلط کیا تھا جنہوں نے اس کے احکام میں اختلاف کیا، اور یقیناً تیرا رب قیامت کے روز ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں
ہفتہ تو انہیں پر رکھا گیا تھا جو اس میں مختلف ہوگئے اور بیشک تمہارا رب قیا مت کے دن ان میں فیصلہ کردے گا جس بات میں اختلاف کرتے تھے،
ہفتے کا دن تو ان ہی لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ جنہوں نے اس میں اختلاف کیا۔ اور تمہارا پروردگار قیامت کے دن ان میں ان باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے
ہفتہ کا دن صرف انہی لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا، اور بیشک آپ کا رب قیامت کے دن اُن کے درمیان اُن (باتوں) کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے،
ہفتہ کے دن کی تعظیم صرف ان لوگوں کے لئے قرار دی گئی تھی جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے تھے اور آپ کا پروردگار روز قیامت ان تمام باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کررہے ہیں
ہفتے کے دن کی عظمت تو صرف ان لوگوں کے ذمے ہی ضروری کی گئی تھی جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا، بات یہ ہے کہ آپ کا پروردگار خود ہی ان میں ان کے اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا
(باقی رہا) سبت (کے احترام کا معاملہ) تو یہ صرف ان لوگوں پر عائد کیا گیا تھا جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا اور اللہ قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ان باتوں کے بارے میں جن میں وہ باہم اختلاف کرتے تھے۔
ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ ۖ وَجَٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِۦ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِٱلْمُهْتَدِينَ ﴿١٢٥﴾
اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلا اور ان سے پسندیدہ طریقہ سے بحث کر بے شک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے اور ہدایت یافتہ کو بھی خوب جانتا ہے
اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے
اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو،
(اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اس کے رستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے
(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے،
آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بہک گیا ہے اور کون لوگ ہدایت پانے والے ہیں
اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وه راه یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے
(اے پیغمبر(ص)) آپ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف (لوگوں کو) بلائیں حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے بہترین انداز میں بحث و مباحثہ کریں۔ آپ کا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا کون ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ ہدایت یافتہ کون ہے؟
وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا۟ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِۦ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌۭ لِّلصَّٰبِرِينَ ﴿١٢٦﴾
اور اگر بدلہ لو تو اتنا بدلہ لو جتنی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہے اور اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے
اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر تم صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے
اور اگر تم سزا دو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہونچائی تھی اور اگر تم صبر کرو تو بیشک صبر والوں کو صبر سب سے اچھا،
اور اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی۔ اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھا ہے
اور اگر تم سزا دینا چاہو تو اتنی ہی سزا دو جس قدر تکلیف تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے،
اور اگر تم ان کے ساتھ سختی بھی کرو تو اسی قدر جس قدر انہوں نے تمہارے ساتھ سختی کی ہے اور اگر صبر کرو تو صبر بہرحال صبر کرنے والوں کے لئے بہترین ہے
اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کرلو تو بےشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے
اور اگر تم بدلہ لینا چاہو تو اس قدر لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہے اور اگر تم صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے۔
وَٱصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِٱللَّهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِى ضَيْقٍۢ مِّمَّا يَمْكُرُونَ ﴿١٢٧﴾
اورصبر کر اور تیرا صبر کرنا الله ہی کی توفیق سے ہے اور ان پر غم نہ کھا اور ان کے مکروں سے تنگ دل نہ ہو
اے محمدؐ، صبر سے کام کیے جاؤ اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اِن لوگوں کی حرکات پر ر نج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو
اور اے محبوب! تم صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور ان کا غم نہ کھاؤ اور ان کے فریبوں سے دل تنگ نہ ہو، ف۲۸۹)
اور صبر ہی کرو اور تمہارا صبر بھی خدا ہی کی مدد سے ہے اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ بداندیشی کرتے ہیں اس سے تنگدل نہ ہو
اور (اے حبیبِ مکرّم!) صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوا کریں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی) محسوس نہ کیا کریں،
اور آپ صبر ہی کریں کہ آپ کا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہوگا اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں اور ان کی مکاّریوں کی وجہ سے تنگدلی کا بھی شکار نہ ہوں
آپ صبر کریں بغیر توفیق الٰہی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیده نہ ہوں اور جو مکر وفریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں
اور (اے پیغمبر) آپ صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا تو محض اللہ کی توفیق سے ہے اور آپ ان لوگوں کے حال پر غم نہ کیجئے اور نہ ہی ان کی مکاریوں سے دل تنگ ہو جایئے۔
إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوا۟ وَّٱلَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ ﴿١٢٨﴾
بے شک الله ان کے ساتھ ہے جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں
اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں
بیشک اللہ ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کرتے ہیں،
کچھ شک نہیں کہ جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکوکار ہیں خدا ان کا مددگار ہے
بیشک اللہ اُن لوگوں کو اپنی معیتِ (خاص) سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقوٰی ہوں اور وہ لوگ جو صاحبانِ اِحسان (بھی) ہوں،
بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقوٰی اختیار کیا ہے اور جو نیک عمل انجام دینے والے ہیں
یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے
بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو (خلقِ خدا سے) حسنِ سلوک کرتے ہیں۔