Setting
Surah The Standard [Al-Furqan] in Urdu
تَبَارَكَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِۦ لِيَكُونَ لِلْعَٰلَمِينَ نَذِيرًا ﴿١﴾
وہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ تمام جہان کے لیےڈرانے والا ہو
نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو
بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اتارا قرآن اپنے بندہ پر جو سارے جہان کو ڈر سنانے والا ہو
وہ (خدائے غزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل حال کو ہدایت کرے
(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرّب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے ڈر سنانے والا ہو جائے،
بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے
بہت بابرکت ہے وه اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وه تمام لوگوں کے لئے آگاه کرنے واﻻ بن جائے
بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے (خاص) بندہ پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ تمام جہانوں کیلئے ڈرانے والا بن جائے۔
ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًۭا وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ شَرِيكٌۭ فِى ٱلْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍۢ فَقَدَّرَهُۥ تَقْدِيرًۭا ﴿٢﴾
وہ جس کی آسمانوں اور زمین میں سلطنت ہے اور اس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ کوئی سلطنت میں اس کا شریک ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اندازہ پر قائم کر دیا
وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی
وہ جس کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اور اس نے نہ اختیار فرمایا بچہ اور اس کی سلطنت میں کوئی ساجھی نہیں اس نے ہر چیز پیدا کرکے ٹھیک اندازہ پر رکھی،
وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا
وہ (اللہ) کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کے لئے ہے اور جس نے نہ (اپنے لئے) کوئی اولاد بنائی ہے اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور اسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے پھر اس (کی بقا و ارتقاء کے ہر مرحلہ پر اس کے خواص، افعال اور مدت، الغرض ہر چیز) کو ایک مقررہ اندازے پر ٹھہرایا ہے،
آسمان و زمین کا سارا ملک اسی کے لئے ہے اور اس نے نہ کوئی فرزند بنایا ہے اور نہ کوئی اس کے ملک میں شریک ہے اس نے ہر شے کو خلق کیا ہے اور صحیح اندازے کے مطابق درست بنایا ہے
اسی اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور وه کوئی اوﻻد نہیں رکھتا، نہ اس کی سلطنت میں کوئی اس کا ساجھی ہے اور ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب اندازه ٹھہرا دیا ہے
جس کیلئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اس نے کسی کو اولاد نہیں بنایا۔ اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کا ایک اندازہ (پیمانہ) مقرر کیا ہے۔
وَٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ ءَالِهَةًۭ لَّا يَخْلُقُونَ شَيْـًۭٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّۭا وَلَا نَفْعًۭا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًۭا وَلَا حَيَوٰةًۭ وَلَا نُشُورًۭا ﴿٣﴾
اور انہوں نے الله کے سوا ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں اور وہ اپنی ذات کے لیے نقصان اور نفع کے مالک نہیں اور موت اور زندگی اور دوبارہ اٹھنے کے بھی مالک نہیں
لوگوں نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جِلا سکتے ہیں، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں
اور لوگوں نے اس کے سوا اور خدا ٹھہرالیے کہ وہ کچھ نہیں بناتے اور خود پیدا کیے گئے ہیں اور خود اپنی جانوں کے برے بھلے کے مالک نہیں اور نہ مرنے کا اختیار نہ جینے کا نہ اٹھنے کا،
اور (لوگوں نے) اس کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کئے گئے ہیں۔ اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اُٹھ کھڑے ہونا
اور ان (مشرکین) نے اللہ کو چھوڑ کر اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے لئے کسی نقصان کے مالک ہیں اور نہ نفع کے اور نہ وہ موت کے مالک ہیں اور نہ حیات کے اور نہ (ہی مرنے کے بعد) اٹھا کر جمع کرنے کا (اختیار رکھتے ہیں)،
اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر ایسے خدا بنالئے ہیں جو کسی بھی شے کے خالق نہیں ہیں بلکہ خود ہی مخلوق ہیں اور خود اپنے واسطے بھی کسی نقصان یا نفع کے مالک نہیں ہیں اور نہ ان کے اختیار میں موت و حیات یا حشر و نشر ہی ہے
ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وه کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وه خود پیدا کئے جاتے ہیں، یہ تو اپنی جان کے نقصان نفع کا بھی اختیارنہیں رکھتے اور نہ موت وحیات کے اور نہ دوباره جی اٹھنے کے وه مالک ہیں
اور ان (مشرکوں) نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے خدا بنائے ہیں جو کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں اور وہ خود اپنے لئے نقصان یا نفع کے مالک و مختار نہیں ہیں۔ جو نہ مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی مرے ہوئے کو دوبارہ اٹھا سکتے ہیں۔
وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ إِنْ هَٰذَآ إِلَّآ إِفْكٌ ٱفْتَرَىٰهُ وَأَعَانَهُۥ عَلَيْهِ قَوْمٌ ءَاخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَآءُو ظُلْمًۭا وَزُورًۭا ﴿٤﴾
اور کافر کہتے ہیں کہ یہ تو محض جھوٹ ہے جسے اس نے بنا لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس میں ا س کی مدد کی ہے پس وہ بڑے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں
جن لوگوں نے نبیؐ کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اِس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اِس کام میں اس کی مدد کی ہے بڑا ظلم اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں
اور کافر بولے یہ تو نہیں مگر ایک بہتان جو انہوں نے بنالیا ہے اور اس پر اور لوگوں نے انہیں مدد دی ہے بیشک وہ ظلم اور جھوٹ پر آئے،
اور کافر کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) من گھڑت باتیں ہی جو اس (مدعی رسالت) نے بنالی ہیں۔ اور لوگوں نے اس میں اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ (ایسا کہنے سے) ظلم اور جھوٹ پر (اُتر) آئے ہیں
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض افتراء ہے جسے اس (مدعئ رسالت) نے گھڑ لیا ہے اور اس (کے گھڑنے) پر دوسرے لوگوں نے اس کی مدد کی ہے، بیشک کافر ظلم اور جھوٹ پر (اتر) آئے ہیں،
اور یہ کفار کہتے ہیں کہ یہ قرآن صرف ایک جھوٹ ہے جسے انہوں نے گڑھ لیا ہے اور ایک دوسری قوم نے اس کام میں ان کی مدد کی ہے حالانکہ ان لوگوں نے خود ہی بڑا ظلم اور فریب کیا ہے
اور کافروں نے کہا یہ تو بس خود اسی کا گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جس پر اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی ہے، دراصل یہ کافر بڑے ہی ﻇلم اور سرتاسر جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں
اور جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض ایک جھوٹ ہے جسے اس شخص نے گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے (یہ بات کہہ کر) خود یہ لوگ بڑے ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
وَقَالُوٓا۟ أَسَٰطِيرُ ٱلْأَوَّلِينَ ٱكْتَتَبَهَا فَهِىَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةًۭ وَأَصِيلًۭا ﴿٥﴾
اور کہتے ہیں کہ پہلوں کی کہانیاں ہیں کہ جنہیں اس نے لکھ رکھا ہے پس وہی اس پر صبح اور شام پڑھی جاتی ہیں
کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کرتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں
اور بولے اگلوں کی کہانیاں ہیں جو انہوں نے لکھ لی ہیں تو وہ ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں،
اور کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح وشام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں
اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) اگلوں کے افسانے ہیں جن کو اس شخص نے لکھوا رکھا ہے پھر وہ (افسانے) اسے صبح و شام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں (تاکہ انہیں یاد کر کے آگے سنا سکے)،
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو صرف اگلے لوگوں کے افسانے ہیں جسے انہوں نے لکھوالیا ہے اور وہی صبح و شام ان کے سامنے پڑھے جاتے ہیں
اور یہ بھی کہا کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے لکھا رکھے ہیں بس وہی صبح وشام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھوائی ہیں اور وہ صبح و شام اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں (یا اس سے لکھوائی جاتی ہیں)۔
قُلْ أَنزَلَهُ ٱلَّذِى يَعْلَمُ ٱلسِّرَّ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا ﴿٦﴾
کہہ دو کہ اسے تو اس نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں جانتا ہے بے شک وہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
اے محمدؐ، ان سے کہو کہ \"اِسے نازل کیا ہے اُس نے جو زمین اور آسمانوں کا بھید جانتا ہے\" حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور رحیم ہے
تم فرماؤ اسے تو اس نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر بات جانتا ہے بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے
کہہ دو کہ اُس نے اُس کو اُتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔ بےشک وہ بخشنے والا مہربان ہے
فرما دیجئے: اِس (قرآن) کو اُس (اللہ) نے نازل فرمایا ہے جو آسمانوں اور زمین میں (موجود) تمام رازوں کو جانتا ہے، بیشک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،
آپ کہہ دیجئے کہ اس قرآن کو اس نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں سے باخبر ہے اور یقینا وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
کہہ دیجیئے کہ اسے تو اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان وزمین کی تمام پوشیده باتوں کو جانتا ہے۔ بےشک وه بڑا ہی بخشنے واﻻ مہربان ہے
آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ اس (قرآن) کو اس (خدا) نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کے رازوں کو جانتا ہے۔ بےشک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
وَقَالُوا۟ مَالِ هَٰذَا ٱلرَّسُولِ يَأْكُلُ ٱلطَّعَامَ وَيَمْشِى فِى ٱلْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌۭ فَيَكُونَ مَعَهُۥ نَذِيرًا ﴿٧﴾
اور کہتے ہیں اس رسول کو کیا ہوگیا کہ کھاناکھاتا اور بازاروں میں پھرتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ اس کے ساتھ وہ بھی ڈرانے والا ہوتا
کہتے ہیں \"یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں کو) دھمکاتا؟
اور بولے اور رسول کو کیا ہوا کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے (ف۹۱۶ کیوں نہ اتارا گیا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کہ ان کے ساتھ ڈر سناتا
اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیوں نازل نہیں کیا گیا اس کے پاس کوئی فرشتہ اس کے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا
اور وہ کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوا ہے، یہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا کہ وہ اس کے ساتھ (مل کر) ڈر سنانے والا ہوتا،
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں چکر بھی لگاتا ہے اور اس کے پاس کوئی ملک کیوں نہیں نازل کیا جاتا جو اس کے ساتھ مل کر عذاب هالٰہی سے ڈرانے والا ثابت ہو
اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے؟ کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جاتا؟ کہ وه بھی اس کے ساتھ ہو کر ڈرانے واﻻ بن جاتا
اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا جو اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا؟
أَوْ يُلْقَىٰٓ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُۥ جَنَّةٌۭ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ ٱلظَّٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًۭا مَّسْحُورًا ﴿٨﴾
یا اس کے پاس کوئی خزانہ آجاتا یا اس کے لیے باغ ہوتا جس میں سےکھاتا اور بے انصافوں نے کہا کہ تم تو بس ایک ایسے شخص کے تابع ہوگئے جس پر جادو کیا گیا ہے
یا اور کچھ نہیں تو اِس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی) روزی حاصل کرتا\" اور ظالم کہتے ہیں \"تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو\"
یا غیب سے انہیں کوئی خزانہ مل جاتا یا ان کا کوئی باغ ہوتا جس میں سے کھاتے اور ظالم بولے تم تو پیروی نہیں کرتے مگر ایک ایسے مرد کی جس پر جادو ہوا
یا اس کی طرف (آسمان سے) خزانہ اتارا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا کہ اس میں کھایا کرتا۔ اور ظالم کہتے ہیں کہ تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو
یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتار دیا جاتا یا (کم از کم) اس کا کوئی باغ ہوتا جس (کی آمدنی) سے وہ کھایا کرتا اور ظالم لوگ (مسلمانوں) سے کہتے ہیں کہ تم تو محض ایک سحر زدہ شخص کی پیروی کر رہے ہو،
یا اس کی طرف کوئی خزانہ ہی گرادیا جاتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے کھاتا پیتا اور پھر یہ ظالم کہتے ہیں کہ تم لوگ تو ایک جادو زدہ آدمی کا اتباع کررہے ہو
یا اس کے پاس کوئی خزانہ ہی ڈال دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس میں سے یہ کھاتا۔ اور ان ﻇالموں نے کہا کہ تم ایسے آدمی کے پیچھے ہو لئے ہو جس پر جادو کر دیا گیا ہے
یا اس پر کوئی خزانہ اتارا جاتا یا اس کے لئے کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ کھاتا؟ اور ظالموں نے تو (یہاں تک) کہہ دیا کہ تم ایک ایسے شخص کی پیروی کر رہے ہو جس پر جادو کیا گیا ہے۔
ٱنظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا۟ لَكَ ٱلْأَمْثَٰلَ فَضَلُّوا۟ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًۭا ﴿٩﴾
دیکھو تو تمہارے لیے کیسی مثالیں بیان کرتے ہیں پس وہ ایسے گمراہ ہو ئے کہ راستہ بھی نہیں پا سکتے
دیکھو، کیسی کیسی عجیب حجتیں یہ لوگ تمہارے آگے پیش کر رہے ہیں، ایسے بہکے ہیں کہ کوئی ٹھکانے کی بات اِن کو نہیں سوجھتی
اے محبوب دیکھو کیسی کہاوتیں تمہارے لیے بنارہے ہیں تو گمراہ ہوئے کہ اب کوئی راہ نہیں پاتے،
(اے پیغمبر) دیکھو تو یہ تمہارے بارے میں کس کس طرح کی باتیں کرتے ہیں سو گمراہ ہوگئے اور رستہ نہیں پاسکتے
(اے حبیبِ مکرّم!) ملاحظہ فرمائیے یہ لوگ آپ کے لئے کیسی (کیسی) مثالیں بیان کرتے ہیں پس یہ گمراہ ہو چکے ہیں سو یہ (ہدایت کا) کوئی راستہ نہیں پا سکتے،
دیکھو ان لوگوں نے تمہارے لئے کیسی کیسی مثالیں بیان کی ہیں یہ تو بالکل گمراہ ہوگئے ہیں اور اب راستہ نہیں پاسکتے ہیں
خیال تو کیجیئے! کہ یہ لوگ آپ کی نسبت کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں۔ پس جس سے وه خود ہی بہک رہے ہیں اور کسی طرح راه پر نہیں آسکتے
دیکھئے! یہ لوگ آپ کے متعلق کیسی کیسی (کٹ حجتیاں) باتیں بیان کرتے ہیں سو وہ گمراہ ہوگئے ہیں سو اب وہ راہ نہیں پا سکتے۔
تَبَارَكَ ٱلَّذِىٓ إِن شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًۭا مِّن ذَٰلِكَ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ وَيَجْعَل لَّكَ قُصُورًۢا ﴿١٠﴾
بڑی برکت ہے اس کی جو چاہے تو تیرے لیے اس سے بہتر باغ بنا دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور تیرے لیے محل بنا دے
بڑا بابرکت ہے وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے، (ایک نہیں) بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں، اور بڑے بڑے محل
بڑی برکت والا ہے وہ کہ اگر چاہے تو تمہارے لیے بہت بہتر اس سے کردے جنتیں جن کے نیچے نہریں بہیں اور کرے گا تمہارے لیے اونچے اونچے محل،
وہ (خدا) بہت بابرکت ہے جو اگر چاہے تو تمہارے لئے اس سے بہتر (چیزیں) بنا دے (یعنی) باغات جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں۔ نیز تمہارے لئے محل بنادے
وہ بڑی برکت والا ہے اگر چاہے تو آپ کے لئے (دنیا ہی میں) اس سے (کہیں) بہتر باغات بنا دے جن کے نیچے سے نہریں رواں ہوں اور آپ کے لئے عالی شان محلات بنا دے (مگر نبوت و رسالت کے لئے یہ شرائط نہیں ہیں)،
بابرکت ہے وہ ذات جو اگر چاہے تو تمہارے لئے اس سے بہتر سامان فراہم کردے ایسی جنتیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں اور پھر تمہارے لئے بڑے بڑے محل بھی بنادے
اللہ تعالیٰ تو ایسا بابرکت ہے کہ اگر چاہے تو آپ کو بہت سے ایسے باغات عنایت فرما دے جو ان کے کہے ہوئے باغ سے بہت ہی بہتر ہوں جن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہوں اور آپ کو بہت سے (پختہ) محل بھی دے دے
بڑا بابرکت ہے وہ خدا جو اگر چاہے تو آپ کو اس (کفار کی بیان کردہ چیزوں) سے بہتر دے دے۔ یعنی ایسے باغات کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں۔ اور آپ کیلئے (عالیشان) محل بنوا دے۔
بَلْ كَذَّبُوا۟ بِٱلسَّاعَةِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَن كَذَّبَ بِٱلسَّاعَةِ سَعِيرًا ﴿١١﴾
بلکہ انہوں نے تو قیامت کو جھوٹ سمجھ لیا ہے اور ہم نے اس کے لیے آگ تیار کی ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے
اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ \"اُس گھڑی\" کو جھٹلا چکے ہیں اور جو اُس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے
بلکہ یہ تو قیامت کو جھٹلاتے ہیں، اور جو قیامت کو جھٹلائے ہم نے اس کے لیے تیار کر رکھی ہے بھڑکتی ہوئی آگ،
بلکہ یہ تو قیامت ہی کو جھٹلاتے ہیں اور ہم نے قیامت کے جھٹلانے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے
بلکہ انہوں نے قیامت کو (بھی) جھٹلا دیا ہے، اور ہم نے (ہر) اس شخص کے لئے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے (دوزخ کی) بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے،
حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے قیامت کا انکار کیا ہے اور ہم نے قیامت کا انکار کرنے والوں کے لئے جہنم ّمہیاّ کردیا ہے
بات یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کو جھوٹ سمجھتے ہیں اور قیامت کے جھٹلانے والوں کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے
بلکہ یہ لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں اور جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں ہم نے ان کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔
إِذَا رَأَتْهُم مِّن مَّكَانٍۭ بَعِيدٍۢ سَمِعُوا۟ لَهَا تَغَيُّظًۭا وَزَفِيرًۭا ﴿١٢﴾
جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی تو اس کے جوش و خروش کی آواز سنیں گے
وہ جب دور سے اِن کو دیکھے گی تو یہ اُس کے غضب اور جوش کی آوازیں سن لیں گے
جب وہ انہیں دور جگہ سے دیکھے گی تو سنیں گے اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا،
جس وقت وہ ان کو دور سے دیکھے گی (تو غضبناک ہو رہی ہوگی اور یہ) اس کے جوش (غضب) اور چیخنے چلانے کو سنیں گے
جب وہ (آتشِ دوزخ) دور کی جگہ سے (ہی) ان کے سامنے ہوگی یہ اس کے جوش مارنے اور چنگھاڑنے کی آواز کو سنیں گے،
جب آتش جہنم ان لوگوں کو دور سے دیکھے گی تو یہ لوگ اس کے جوش و خروش کی آوازیں سنیں گے
جب وه انہیں دور سے دیکھے گی تو یہ اس کا غصے سے بپھرنا اور دھاڑنا سنیں گے
اور وہ (آگ) جب انہیں دور سے دیکھے گی تو وہ اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا سنیں گے۔
وَإِذَآ أُلْقُوا۟ مِنْهَا مَكَانًۭا ضَيِّقًۭا مُّقَرَّنِينَ دَعَوْا۟ هُنَالِكَ ثُبُورًۭا ﴿١٣﴾
اور جب وہ اس کے کسی تنگ مکان میں جکڑکر ڈال دیے جائیں گے تو وہاں موت کو پکاریں گے
اور جب یہ دست و پا بستہ اُس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے
اور جب اس کی کسی تنگ جگہ میں ڈالے جائیں گے زنجیروں میں جکڑے ہوئے تو وہاں موت مانگیں گے
اور جب یہ دوزخ کی کسی تنگ جگہ میں (زنجیروں میں) جکڑ کر ڈالے جائیں گے تو وہاں موت کو پکاریں گے
اور جب وہ اس میں کسی تنگ جگہ سے زنجیروں کے ساتھ جکڑے ہوئے (یا اپنے شیطانوں کے ساتھ بندھے ہوئے) ڈالے جائیں گے اس وقت وہ (اپنی) ہلاکت کو پکاریں گے،
اور جب انہیں زنجیروں میں جکڑ کر کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے تو وہاں موت کی رَہائی دیں گے
اور جب یہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں مشکیں کس کر پھینک دیئے جائیں گے تو وہاں اپنے لئے موت ہی موت پکاریں گے
اور جب انہیں زنجیروں میں جکڑ کر آتش (دوزخ) کی کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا تو وہاں (اپنی) ہلاکت کو پکاریں گے۔
لَّا تَدْعُوا۟ ٱلْيَوْمَ ثُبُورًۭا وَٰحِدًۭا وَٱدْعُوا۟ ثُبُورًۭا كَثِيرًۭا ﴿١٤﴾
آج ایک موت کو نہ پکارو اور بہت سی موتوں کو پکارو
(اُس وقت ان سے کہا جائے گا کہ) آج ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کو پکارو
فرمایا جائے گا آج ایک موت نہ مانگو اور بہت سی موتیں مانگو
آج ایک ہی موت کو نہ پکارو بہت سی موتوں کو پکارو
(ان سے کہا جائے گا:) آج (صرف) ایک ہی ہلاکت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی ہلاکتوں کو پکارو،
اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو آواز دو
(ان سے کہا جائے گا) آج ایک ہی موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی اموات کو پکارو
(ان سے کہا جائے گا کہ) آج ایک ہلاکت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی ہلاکتوں کو پکارو۔
قُلْ أَذَٰلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ ٱلْخُلْدِ ٱلَّتِى وُعِدَ ٱلْمُتَّقُونَ ۚ كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءًۭ وَمَصِيرًۭا ﴿١٥﴾
کہہ دو کیا بہتر ہے یا وہ بہشت جس کا پرہیز گارو ں کے لیے وعدہ کیا گیا ہے جو ان کا بدلہ اور ٹھکانہ ہوگی
اِن سے پوچھو، یہ انجام اچھا ہے یا وہ اَبدی جنت جس کا وعدہ خداترس پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے؟ جو اُن کے اعمال کی جزا اور اُن کے سفر کی آخری منزل ہو گی
تم فرماؤ کیا یہ بھلا یا وہ ہمیشگی کے باغ جس کا وعدہ ڈر والوں کو ہے، وہ ان کا صلہ اور انجام ہے،
پوچھو کہ یہ بہتر ہے یا بہشت جاودانی جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ ہے۔ یہ ان (کے عملوں) کا بدلہ اور رہنے کا ٹھکانہ ہوگا
فرما دیجئے: کیا یہ (حالت) بہتر ہے یا دائمی جنت (کی زندگی) جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ان (کے اعمال) کی جزا اور ٹھکانا ہے،
پیغمبر علیھ السّلامآپ ان سے پوچھئے کہ یہ عذاب زیادہ بہتر ہے یا وہ ہمیشگی کی جنت ّجس کا صاحبان هتقویٰ سے وعدہ کیا گیا ہے اور وہی ان کی جزا بھی ہے اور ان کا ٹھکانا بھی
آپ کہہ دیجیئے کہ کیا یہ بہتر ہے یا وه ہمیشگی والی جنت جس کا وعده پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے، جو ان کا بدلہ ہے اور ان کے لوٹنے کی اصلی جگہ ہے
آپ ان سے کہیے کہ آیا یہ (آتش دوزخ) اچھی ہے یا وہ دائمی جنت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ ان (کے اعمال) کا صلہ ہے اور (آخری) ٹھکانا۔
لَّهُمْ فِيهَا مَا يَشَآءُونَ خَٰلِدِينَ ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ وَعْدًۭا مَّسْـُٔولًۭا ﴿١٦﴾
وہاں انہیں جو چاہیں گے ملے گا وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ وعدہ تیرے رب کے ذمہ ہے جو قابل درخواست ہے
جس میں اُن کی ہر خواہش پوری ہو گی، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جس کا عطا کرنا تمہارے پروردگار کے ذمے ایک واجب الادا وعدہ ہے
ان کے لیے وہاں من مانی مرادیں ہیں جن میں ہمیشہ رہیں گے، تمہارے رب کے ذمہ وعدہ ہے مانگا ہوا، ف۲۸)
وہاں جو چاہیں گے ان کے لئے میسر ہوگا ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ وعدہ خدا کو (پورا کرنا) لازم ہے اور اس لائق ہے کہ مانگ لیا جائے
ان کے لئے ان (جنتوں) میں وہ (سب کچھ میسّر) ہوگا جو وہ چاہیں گے (اس میں) ہمیشہ رہیں گے، یہ آپ کے رب کے ذمۂ (کرم) پر مطلوبہ وعدہ ہے (جو پورا ہو کر رہے گا)،
ان کے لئے وہاں ہر خواہش کا سامان موجود ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور یہ پروردگار کے ذمہ ایک لازمی وعدہ ہے
وه جو چاہیں گے ان کے لئے وہاں موجود ہوگا، ہمیشہ رہنے والے۔ یہ تو آپ کے رب کے ذمے وعده ہے جو قابل طلب ہے
اس میں ان کیلئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ایک وعدہ جو آپ کے رب کے ذمہ ہے جس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ فَيَقُولُ ءَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِى هَٰٓؤُلَآءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا۟ ٱلسَّبِيلَ ﴿١٧﴾
اورجس دن انہیں اور ان کے معبودوں کو جمع کرے گا جنھیں وہ الله کے سوا پوجتے تھے تو فرمائے گا کیا تم ہی نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا وہ خود راستہ بھول گئے تھے
اور وہ وہی دن ہو گا جب کہ (تمہارا رب) اِن لوگوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے اُن معبودوں کو بھی بُلا لے گا جنہیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پوج رہے ہیں، پھر وہ اُن سے پوچھے گا \"کیا تم نے میرے اِن بندوں کر گمراہ کیا تھا؟ یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے؟\"
اور جس دن اکٹھا کرے گا انہیں اور جن کوا لله کے سوا پوجتے ہیں پھر ان معبودو ں سے فرمائے گا کیا تم نے گمراہ کردیے یہ میرے بندے یا یہ خود ہی راہ بھولے
اور جس دن (خدا) ان کو اور اُن کو جنہیں یہ خدا کے سوا پوجتے ہیں جمع کرے گا تو فرمائے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود گمراہ ہوگئے تھے
اور اس دن اللہ انہیں اور ان کو، جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے، جمع کرے گا، پھر فرمائے گا: کیا تم نے ہی میرے ان بندوں کو گمراہ کر دیا تھا یا وہ (خود) ہی راہ سے بھٹک گئے تھے،
اور جس دن بھی خدا ان کو اور ان کے خداؤں کو جنہیں یہ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے سب کو ایک منزل پر جمع کرے گا اور پوچھے گا کہ تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ ازخود بھٹک گئے تھے
اور جس دن اللہ تعالیٰ انہیں اور سوائے اللہ کے جنہیں یہ پوجتے رہے، انہیں جمع کرکے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراه کیا یا یہ خود ہی راه سے گم ہوگئے
اور جس دن اللہ ان لوگوں کو اور ان کے ان معبودوں کو جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پوجتے رہے ہیں۔ اکٹھا کرے گا تو اللہ ان (معبودوں) سے پوچھے گا کہ آیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا؟ یا وہ خود ہی (سیدھے) راستہ سے بھٹک گئے تھے؟
قَالُوا۟ سُبْحَٰنَكَ مَا كَانَ يَنۢبَغِى لَنَآ أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَآءَ وَلَٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَءَابَآءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا۟ ٱلذِّكْرَ وَكَانُوا۟ قَوْمًۢا بُورًۭا ﴿١٨﴾
کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ کب لایق تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو کارساز بناتے لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو یہاں تک آسودگی دی تھی کہ وہ یاد کرنا بھول گئے اور یہ لوگ تباہ ہونے والے تھے
وہ عرض کریں گے \"پاک ہے آپ کی ذات، ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولا بنائیں مگر آپ نے اِن کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامانِ زندگی دیا حتیٰ کہ یہ سبق بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے\"
وہ عرض کریں گے پاکی ہے تجھ کو ہمیں سزاوار (حق) نہ تھا کہ تیرے سوا کسی اور کو مولیٰ بنائیں لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ داداؤں کو برتنے دیا یہاں تک کہ وہ تیری یاد بھول گئے اور یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے
وہ کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ بات شایان نہ تھی کہ تیرے سوا اوروں کو دوست بناتے۔ لیکن تو نے ہی ان کو اور ان کے باپ دادا کو برتنے کو نعمتیں دیں یہاں تک کہ وہ تیری یاد کو بھول گئے۔ اور یہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے
وہ کہیں گے: تیری ذات پاک ہے ہمیں (تو) یہ بات (بھی) زیبا نہ تھی کہ ہم تیرے سوا اوروں کو دوست (ہی) بنائیں (چہ جائے کہ ہم انہیں تیرے غیر کی عبادت کا کہتے) لیکن (اے مولا!) تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو (دنیوی مال و اسباب سے) اتنا بہرہ مند فرمایا، یہاں تک کہ وہ تیری یاد (بھی) بھول گئے، اور یہ (بدبخت) ہلاک ہونے والے لوگ (ہی) تھے،
تو یہ سب کہیں گے کہ تو پاک اور بے نیاز ہے اور ہمیں کیا حق ہے کہ تیرے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بنائیں اصل بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے بزرگوں کو عزّت دنیا عطا کردی تو یہ تیری یاد سے غافل ہوگئے اس لئے کہ یہ ہلاک ہونے والے لوگ ہی تھے
وه جواب دیں گے کہ تو پاک ذات ہے خود ہمیں ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو آسودگیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ وه نصیحت بھلا بیٹھے، یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے
وہ کہیں گے کہ پاک ہے تیری ذات ہمیں یہ حق نہیں تھا کہ ہم تجھے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مولا بنائیں لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو خوب آسودگی اور آسائش عطا کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے (تیری) یاد بھلا دی۔ اور اس طرح تباہ و برباد ہوگئے۔
فَقَدْ كَذَّبُوكُم بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًۭا وَلَا نَصْرًۭا ۚ وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًۭا كَبِيرًۭا ﴿١٩﴾
سو تمہارے معبودوں نے تمہاری باتو ں میں تمہیں جھٹلا دیا سو تم نہ تو ٹال سکتے ہو اور نہ مدد دے سکتے ہو اور جو تم میں سے ظلم کرے گا ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے
یوں جھٹلا دیں گے وہ (تمہارے معبود) تمہاری اُن باتوں کو جو آج تم کہہ رہے ہو، پھر تم نہ اپنی شامت ٹال سکو گے نہ کہیں سے مدد پا سکو گے اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے اسے ہم سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے
تو اب معبودوں نے تمہاری بات جھٹلادی تو اب تم نہ عذاب پھیرسکو نہ اپنی مدد کرسکو اور تم میں جو ظالم ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے،
تو (کافرو) انہوں نے تو تم کو تمہاری بات میں جھٹلا دیا۔ پس (اب) تم (عذاب کو) نہ پھیر سکتے ہو۔ نہ (کسی سے) مدد لے سکتے ہو۔ اور جو شخص تم میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو بڑے عذاب کا مزا چکھائیں گے
سو (اے کافرو!) انہوں نے (تو) ان باتوں میں تمہیں جھٹلا دیا ہے جو تم کہتے تھے پس (اب) تم نہ تو عذاب پھیرنے کی طاقت رکھتے ہو اور نہ (اپنی) مدد کی، اور (سن لو!) تم میں سے جو شخص (بھی) ظلم کرتا ہے ہم اسے بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے،
دیکھا تم لوگوں نے کہ تمہیں وہ بھی جھٹلا رہے ہیں جنہیں تم نے خدا بنایا تھا تو اب نہ تم عذاب کو ٹال سکتے ہو اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہو اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے گا اسے ہم بڑے سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے
تو انہوں نے تو تمہیں تمہاری تمام باتوں میں جھٹلایا، اب نہ تو تم میں عذابوں کے پھیرنے کی طاقت ہے، نہ مدد کرنے کی، تم میں سے جس جس نے ﻇلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے
(اے کافرو) اس طرح وہ (تمہارے معبود) تمہاری ان باتوں کو جھٹلا دیں گے جو تم کرتے ہو۔ پھر نہ تو تم (عذاب کو) ٹال سکوگے اور نہ ہی اپنی کوئی مدد کر سکوگے۔ اور تم میں سے جو ظلم کرے گا ہم اسے بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ إِلَّآ إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ ٱلطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِى ٱلْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍۢ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًۭا ﴿٢٠﴾
اور ہم نے تجھ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے اورہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا کیا تم ثابت قدم رہتے ہو اور تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے
اے محمدؐ، تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے ہیں وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے دراصل ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے کیا تم صبر کرتے ہو؟ تمہارا رب سب کچھ دیکھتا ہے
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی تھے کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے اور ہم نے تم میں ایک کو دوسرے کی جانچ کیا ہے اور اے لوگو! کیا تم صبر کرو گے اور اے محبوب! تمہارا رب دیکھتا ہے
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے ہیں سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔ اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے۔ کیا تم صبر کرو گے۔ اور تمہارا پروردگار تو دیکھنے والا ہے
اور ہم نے آپ سے پہلے رسول نہیں بھیجے مگر (یہ کہ) وہ کھانا (بھی) یقیناً کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی (حسبِ ضرورت) چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تم کو ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے، کیا تم (آزمائش پر) صبر کرو گے؟ اور آپ کا رب خوب دیکھنے والا ہے،
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی جن رسولوں کو بھیجا ہے وہ بھی کھانا کھایا کرتے تھے اور بازاروں میں چلتے تھے اور ہم نے بعض افراد کو بعض کے لئے وجہ آزمائش بنادیا ہے تو مسلمانو ! کیا تم صبر کرسکو گے جب کہ تمہارا پروردگار بہت بڑی بصیرت رکھنے والا ہے
ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کو دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا۔ کیا تم صبر کرو گے؟ تیرا رب سب کچھ دیکھنے واﻻ ہے
(اے رسول) ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں وہ جو سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے اور ہم نے تم کو ایک دوسرے کیلئے ذریعہ آزمائش بنایا ہے کیا تم صبر کروگے؟ اور آپ کا پروردگار بڑا دیکھنے والا ہے۔
۞ وَقَالَ ٱلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَآءَنَا لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْنَا ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ ٱسْتَكْبَرُوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّۭا كَبِيرًۭا ﴿٢١﴾
اور ان لوگوں نے کہا جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہ بھیجے گئے یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیتے البتہ انہوں نے اپنے آپ کو بہت بڑاسمجھ لیا ہے اور بہت بڑی سرکشی کی ہے
جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں \"کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں؟ یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں\" بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سرکشی میں
اور بولے وہ جو ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے ہم پر فرشتے کیوں نہ اتارے یا ہم اپنے رب کو دیکھتے بیشک اپنے جی میں بہت ہی اونچی کھینچی (سرکشی کی) اور بڑی سرکشی پر آئے
اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ نازل کئے گئے۔ یا ہم اپنی آنکھ سے اپنے پروردگار کو دیکھ لیں۔ یہ اپنے خیال میں بڑائی رکھتے ہیں اور (اسی بنا پر) بڑے سرکش ہو رہے ہی
اور جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے یا ہم اپنے رب کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیتے (تو پھر ضرور ایمان لے آتے)، حقیقت میں یہ لوگ اپنے دِلوں میں (اپنے آپ کو) بہت بڑا سمجھنے لگے ہیں اور حد سے بڑھ کر سرکشی کر رہے ہیں،
اور جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ آخر ہم پر فرشتے کیوں نہیں نازل ہوتے یا ہم خدا کو کیوں نہیں دیکھتے درحقیقت یہ لوگ اپنی جگہ پر بہت مغرور ہوگئے ہیں اور انتہائی درجہ کی سرکشی کررہے ہیں
اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے؟ ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کرلی ہے
اور جو لوگ ہمارے پاس آنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے؟ یا ہم اپنے پروردگار کو ہی دیکھ لیتے! انہوں نے اپنے دلوں میں اپنے کو بہت بڑا سمجھا اور سرکشی میں حد سے گزر گئے ہیں۔
يَوْمَ يَرَوْنَ ٱلْمَلَٰٓئِكَةَ لَا بُشْرَىٰ يَوْمَئِذٍۢ لِّلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًۭا مَّحْجُورًۭا ﴿٢٢﴾
جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن مجرموں کے لیے کوئی خوشی نہیں ہو گی اورکہیں گے آڑ کر دی جائے
جس روز یہ فرشتوں کو دیکھیں گے وہ مجرموں کے لیے کسی بشارت کا دن نہ ہوگا، چیخ اٹھیں گے کہ پناہ بخدا
جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے وہ دن مجرموں کی کوئی خوشی کا نہ ہوگا اور کہیں گے الٰہی ہم میں ان میں کوئی آڑ کردے رکی ہوئی
جس دن یہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن گنہگاروں کے لئے خوشی کی بات نہیں ہوگی اور کہیں گے (خدا کرے تم) روک لئے (اور بند کردیئے) جاؤ
جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے (تو) اس دن مجرموں کے لئے چنداں خوشی کی بات نہ ہوگی بلکہ وہ (انہیں دیکھ کر ڈرتے ہوئے) کہیں گے: کوئی روک والی آڑ ہوتی (جو ہمیں ان سے بچا لیتی یا فرشتے انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ تم پر داخلۂ جنت قطعاً ممنوع ہے)،
جس دن یہ ملائکہ کو دیکھیں گے اس دن مجرمین کے لئے کوئی بشارت نہ ہوگی اور فرشتے کہیں گے کہ تم لوگ دور ہوجاؤ
جس دن یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن ان گناه گاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی اور کہیں گے یہ محروم ہی محروم کیے گئے
یہ لوگ جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس دن مجرموں کیلئے کوئی بشارت نہیں ہوگی اور وہ کہیں گے پناہ ہے پناہ (یا حرام ہے حرام)۔
وَقَدِمْنَآ إِلَىٰ مَا عَمِلُوا۟ مِنْ عَمَلٍۢ فَجَعَلْنَٰهُ هَبَآءًۭ مَّنثُورًا ﴿٢٣﴾
اور جو عمل انہوں نے کیے تھے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے پھر انہیں اڑتی ہوئی خاک کر دیں گے
اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اُسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے
اور جو کچھ انہوں نے کام کیے تھے ہم نے قصد فرماکر انہیں باریک باریک غبار، کے بکھرے ہوئے ذرے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں
اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اُڑتی خاک کردیں گے
اور (پھر) ہم ان اعمال کی طرف متوجہ ہوں گے جو (بزعمِ خویش) انہوں نے (زندگی میں) کئے تھے تو ہم انہیں بکھرا ہوا غبار بنا دیں گے،
پھر ہم ان کے اعمال کی طرف توجہ کریں گے اور سب کو اڑتے ہوئے خاک کے ذرّوں کے مانند بنا دیں گے
اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نےان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگنده ذروں کی طرح کردیا
اور ہم ان کے ان کاموں کی طرف متوجہ ہوں گے جو انہوں نے کئے ہوں گے۔ اور انہیں پراگندہ غبار بنا دیں گے۔
أَصْحَٰبُ ٱلْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌۭ مُّسْتَقَرًّۭا وَأَحْسَنُ مَقِيلًۭا ﴿٢٤﴾
اس دن بہشتیوں کا ٹھکانا بہتر ہوگا اور دوپہر کی آرام گاہ بھی عمدہ ہو گی
بس وہی لوگ جو جنت کے مستحق ہیں اُس دن اچھی جگہ ٹھیریں گے اور دوپہرگزارنے کو عمدہ مقام پائیں گے
جنت والوں کا اس دن اچھا ٹھکانا اور حساب کے دوپہر کے بعد اچھی آرام کی جگہ،
اس دن اہل جنت کا ٹھکانا بھی بہتر ہوگا اور مقام استراحت بھی ہوگا
اس دن اہلِ جنت کی قیام گاہ (بھی) بہتر ہوگی اور آرام گاہ بھی خوب تر (جہاں وہ حساب و کتاب کی دوپہر کے بعد جا کر قیلولہ کریں گے)،
اس دن صرف جنت ّ والے ہوں گے جن کے لئے بہترین ٹھکانہ ہوگا اور بہترین آرام کرنے کی جگہ ہوگی
البتہ اس دن جنتیوں کا ٹھکانا بہتر ہوگا اور خواب گاه بھی عمده ہوگی
اس دن بہشت والوں کا ٹھکانہ بہترین ہوگا اور دوپہر کی آرام گاہ بھی عمدہ ہوگی۔
وَيَوْمَ تَشَقَّقُ ٱلسَّمَآءُ بِٱلْغَمَٰمِ وَنُزِّلَ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ تَنزِيلًا ﴿٢٥﴾
اور جس دن آسمان بادل سے پھٹ جائے گا اور فرشتے بکثرت اتارے جائیں گے
آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روز نمودار ہو گا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتار دیے جائیں گے
اور جس دن پھٹ جائے گا آسمان بادلوں سے اور فرشتے اتارے جائیں گے پوری طرح
اور جس دن آسمان ابر کے ساتھ پھٹ جائے گا اور فرشتے نازل کئے جائیں گے
اور اس دن آسمان پھٹ کر بادل (کی طرح دھوئیں) میں بدل جائے گا اور فرشتے گروہ در گروہ اتارے جائیں گے،
اور جس دن آسمان بادلوں کی وجہ سے پھٹ جائے گا اور ملائکہ جوق درجوق نازل کئے جائیں گے
اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائے گا اور فرشتے لگاتار اتارے جائیں گے
اور جس دن بادل کے ساتھ آسمان شق ہو جائے گا اور فرشتے جوق در جوق اتارے جائیں گے۔
ٱلْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ ٱلْحَقُّ لِلرَّحْمَٰنِ ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى ٱلْكَٰفِرِينَ عَسِيرًۭا ﴿٢٦﴾
اس دن حقیقی حکومت رحمنٰ ہی کی ہوگی اور وہ دن کافروں پر بڑا سخت ہوگا
اُس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہو گی اور وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہو گا
اس دن سچی بادشاہی رحمن کی ہے، اور وہ دن کافروں پر سخت ہے
اس دن سچی بادشاہی خدا ہی کی ہوگی۔ اور وہ دن کافروں پر (سخت) مشکل ہوگا
اس دن سچی حکمرانی صرف (خدائے) رحمان کی ہوگی اور وہ دن کافروں پر سخت (مشکل) ہوگا،
اس دن درحقیقت حکومت پروردگار کے ہاتھ میں ہوگی اور وہ دن کافروں کے لئے بڑا سخت دن ہوگا
اس دن صحیح طور پر ملک صرف رحمٰن کا ہی ہوگا اور یہ دن کافروں پر بڑا بھاری ہوگا
اس دن حقیقی بادشاہی (خدائے) رحمن کی ہوگی اور وہ دن کافروں کیلئے بڑا سخت ہوگا۔
وَيَوْمَ يَعَضُّ ٱلظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَٰلَيْتَنِى ٱتَّخَذْتُ مَعَ ٱلرَّسُولِ سَبِيلًۭا ﴿٢٧﴾
اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا کہے گا اے کاش میں بھی رسول کے ساتھ راہ چلتا
ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا \"کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا
اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی،
اور جس دن (ناعاقبت اندیش) ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا (اور کہے گا) کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا
اور اس دن ہر ظالم (غصہ اور حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کھائے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیّت میں (آکر ہدایت کا) راستہ اختیار کر لیا ہوتا،
اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا کہ کاش میں نے رسول کے ساتھ ہی راستہ اختیار کیا ہوتا
اور اس دن ﻇالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی راه اختیار کی ہوتی
اور اس دن ظالم (حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسول(ص) کے ساتھ (سیدھا) راستہ اختیار کیا ہوتا۔
يَٰوَيْلَتَىٰ لَيْتَنِى لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًۭا ﴿٢٨﴾
ہائے میری شامت کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا
ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا
وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا،
ہائے شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا
ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا،
ہائے افسوس-کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا
ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا
ہائے میری بدبختی! کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔
لَّقَدْ أَضَلَّنِى عَنِ ٱلذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَآءَنِى ۗ وَكَانَ ٱلشَّيْطَٰنُ لِلْإِنسَٰنِ خَذُولًۭا ﴿٢٩﴾
اسی نے تو نصیحت کے آنے کےبعد مجھے بہکا دیا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہی ہے
اُس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا\"
بیشک اس نے مجھے بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے اور شیطان آدمی کو بے مدد چھوڑ دیتا ہے
اس نے مجھ کو (کتاب) نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا۔ اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے
بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا، اور شیطان انسان کو (مصیبت کے وقت) بے یار و مددگار چھوڑ دینے والا ہے،
اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد مجھے گمراہ کردیا اور شیطان تو انسان کا رسوا کرنے والا ہے ہی
اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراه کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے واﻻ ہے
اس نے نصیحت (یا قرآن) کے میرے پاس آجانے کے بعد مجھے اس کے قبول کرنے سے بہکا دیا اور شیطان تو ہے ہی (مشکل وقت میں) بے یار و مددگار چھوڑ دینے والا (دغا باز)۔
وَقَالَ ٱلرَّسُولُ يَٰرَبِّ إِنَّ قَوْمِى ٱتَّخَذُوا۟ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانَ مَهْجُورًۭا ﴿٣٠﴾
اور رسول کہے گا اے میرے رب بےشک میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا
اور رسول کہے گا کہ \"اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا\"
اور رسول نے عرض کی کہ اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرایا
اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا
اور رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا،
اور اس دن ر سول آواز دے گا کہ پروردگار اس میری قوم نے اس قرآن کو بھی نظر انداز کردیا ہے
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا
اور رسول(ص) کہیں گے اے میرے پروردگار! میری قوم (امت) نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّۭا مِّنَ ٱلْمُجْرِمِينَ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًۭا وَنَصِيرًۭا ﴿٣١﴾
اور ہم اسی مجرموں کو ہر ایک نبی کا دشمن بناتے رہے ہیں اور ہدایت کرنے اور مدد کرنے کے لیے تیرا رب کافی ہے
اے محمدؐ، ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی رہنمائی اور مدد کو کافی ہے
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے دشمن بنادیے تھے مجرم لوگ اور تمہارا رب کافی ہے ہدایت کرنے اور مدد دینے کو،
اور اسی طرح ہم نے گنہگاروں میں سے ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا۔ اور تمہارا پروردگار ہدایت دینے اور مدد کرنے کو کافی ہے
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے جرائم شعار لوگوں میں سے (ان کے) دشمن بنائے تھے (جو ان کے پیغمبرانہ مشن کی مخالفت کرتے اور اس طرح حق اور باطل قوتوں کے درمیان تضاد پیدا ہوتا جس سے انقلاب کے لئے سازگار فضا تیار ہو جاتی تھی)، اور آپ کا رب ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لئے کافی ہے،
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے مجرمین میں سے کچھ دشمن قرار دیدیئے ہیں اور ہدایت اور امداد کے لئے تمہارا پروردگار بہت کافی ہے
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بعض گناه گاروں کو بنادیا ہے اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے واﻻ اور مدد کرنے واﻻ کافی ہے
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے بعض کو دشمن بنایا اور آپ کا پروردگار راہنمائی اور مدد کیلئے کافی ہے۔
وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ ٱلْقُرْءَانُ جُمْلَةًۭ وَٰحِدَةًۭ ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِۦ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَٰهُ تَرْتِيلًۭا ﴿٣٢﴾
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر یکبارگی قرآن کیوں نازل نہیں کیا گیا اسی طرح اتارا گیا تاکہ ہم اس سے تیرے دل کو اطمینان دیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ سنایا
منکرین کہتے ہیں \"اِس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا؟\" ہاں، ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے
اور کافر بولے قرآن ان پر ایک ساتھ کیوں نہ اتار دیا ہم نے یونہی بتدریج سے اتارا ہے کہ اس سے تمہارا دل مضبوط کریں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں اُتارا گیا۔ اس طرح (آہستہ آہستہ) اس لئے اُتارا گیا کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں۔ اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے رہے ہیں
اور کافر کہتے ہیں کہ اس (رسول) پر قرآن ایک ہی بار (یک جا کرکے) کیوں نہیں اتارا گیا؟ یوں (تھوڑا تھوڑا کر کے اسے) تدریجاً اس لئے اتارا گیا ہے تاکہ ہم اس سے آپ کے قلبِ (اطہر) کو قوت بخشیں اور (اسی وجہ سے) ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا ہے (تاکہ آپ کو ہمارے پیغام کے ذریعے بار بار سکونِ قلب ملتا رہے)،
اور یہ کافر یہ بھی کہتے ہیں کہ آخر انِ پر یہ قرآن ایک دفعہ کِل کاکِل کیوں نہیں نازل ہوگیا-ہم اسی طرح تدریجا نازل کرتے ہیں تاکہ تمہارے دل کو مطمئن کرسکیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر نازل کیا ہے
اور کافروں نے کہا کہ اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا کرکے) اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص پر پورا قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل کیا گیا؟ ہاں اس طرح اس لئے کیا کہ ہم تمہارے دل کو ثبات و تقویت دیں اور (اسی لئے) اسے عمدہ ترتیب کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر نازل کیا ہے۔
وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا ﴿٣٣﴾
اور جو انوکھی بات تیرے سامنے لائیں گے ہم بھی تمہیں اس کا بہت ٹھیک جواب اوربہت عمدہ حل بتائیں
اور (اس میں یہ مصلحت بھی ہے) کہ جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات (یا عجیب سوال) لے کر آئے، اُس کا ٹھیک جواب بر وقت ہم نے تمہیں دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی
اور وہ کوئی کہاوت تمہارے پاس نہ لائیں گے مگر ہم حق اور اس سے بہتر بیان لے آئیں گے،
اور یہ لوگ تمہارے پاس جو (اعتراض کی) بات لاتے ہیں ہم تمہارے پاس اس کا معقول اور خوب مشرح جواب بھیج دیتے ہیں
اور یہ (کفار) آپ کے پاس کوئی (ایسی) مثال (سوال اور اعتراض کے طور پر) نہیں لاتے مگر ہم آپ کے پاس (اس کے جواب میں) حق اور (اس سے) بہتر وضاحت کا بیان لے آتے ہیں،
اوریہ لوگ کوئی بھی مثال نہ لائیں گے مگر یہ کہ ہم اس کے جواب میں حق اور بہترین بیان لے آئیں گے
یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال ﻻئیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمده توجیہ آپ کو بتادیں گے
اور یہ لوگ جب بھی کوئی (نیا) اعتراض اٹھاتے ہیں تو ہم اس کا صحیح جواب اور عمدہ تشریح آپ کے سامنے لاتے ہیں۔
ٱلَّذِينَ يُحْشَرُونَ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ أُو۟لَٰٓئِكَ شَرٌّۭ مَّكَانًۭا وَأَضَلُّ سَبِيلًۭا ﴿٣٤﴾
جو لوگ مونہوں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈالیں جائیں گے یہی برے درجے والے ہیں اور بہت ہی بڑے گمراہ ہیں
جو لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں ان کا موقف بہت برا اور ان کی راہ حد درجہ غلط ہے
وہ جو جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے اپنے منہ کے بل ان کا ٹھکانا سب سے برا اور وہ سب سے گمراہ،
جو لوگ اپنے مونہوں کے بل دوزخ کی طرف جمع کئے جائیں گے ان کا ٹھکانا بھی برا ہے اور وہ رستے سے بھی بہکے ہوئے ہیں
(یہ) ایسے لوگ ہیں جو اپنے چہروں کے بل دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے یہی لوگ ہیں جو ٹھکانے کے لحاظ سے نہایت برے اور راستے سے (بھی) بہت بہکے ہوئے ہیں،
وہ لوگ جو جہنم ّکی طرف منہ کے بل کھینچ کر لائے جائیں گے ان کا ٹھکانا بدترین ہے اور وہ بہت زیادہ بہکے ہوئے ہیں
جو لوگ اپنے منھ کے بل جہنم کی طرف جمع کیے جائیں گے۔ وہی بدتر مکان والے اور گمراه تر راستے والے ہیں
وہ لوگ جو اپنے مونہوں کے بل جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے وہ ٹھکانے کے لحاظ سے بدتر اور راستہ کے اعتبار سے گمراہ تر ہیں۔
وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَٰبَ وَجَعَلْنَا مَعَهُۥٓ أَخَاهُ هَٰرُونَ وَزِيرًۭا ﴿٣٥﴾
اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ہم نے اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا
ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارونؑ کو مددگار کے طور پر لگایا
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے بھائی ہارون کو وزیر کیا،
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کیا
اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی اور ہم نے ان کے ساتھ (ان کی معاونت کے لئے) ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو وزیر بنایا،
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنادیا
اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے ہمراه ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنادیا
بےشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر مقرر کیا۔
فَقُلْنَا ٱذْهَبَآ إِلَى ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَا فَدَمَّرْنَٰهُمْ تَدْمِيرًۭا ﴿٣٦﴾
پھر ہم نے کہا تم دونو ان لوگوں کی طرف جاؤ جنہو ں نے ہماری آیتیں جھٹلائی ہیں پھر ہم نے انہیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا
اور اُن سے کہا کہ جاؤ اُس قوم کی طرف جس نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے آخر کار اُن لوگوں کو ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا
تو ہم نے فرمایا تم دونوں جاؤ اس قوم کی طرف جس نے ہماری آیتیں جھٹلائیں پھر ہم نے انہیں تباہ کرکے ہلاک کردیا،
اور کہا کہ دونوں ان لوگوں کے پاس جاؤ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی۔ (جب تکذیب پر اڑے رہے) تو ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا
پھر ہم نے کہا: تم دونوں اس قوم کے پاس جاؤ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے (جب وہ ہماری تکذیب سے پھر بھی باز نہ آئے) تو ہم نے انہیں بالکل ہی ہلاک کر ڈالا،
پھر ہم نے کہا کہ اب تم دونوں اس قوم کی طرف جاؤ جس نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ہے اور ہم نے انہیں تباہ و برباد کردیا ہے
اور کہہ دیا کہ تم دونوں ان لوگوں کی طرف جاؤ جو ہماری آیتوں کو جھٹلا رہے ہیں۔ پھر ہم نے انہیں بالکل ہی پامال کردیا
پھر ہم نے ان سے کہا کہ تم دونوں جاؤ اس قوم کی طرف جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے (جب انہوں نے نہ مانا) تو ہم نے ان کو بالکل ہلاک و برباد کر دیا۔
وَقَوْمَ نُوحٍۢ لَّمَّا كَذَّبُوا۟ ٱلرُّسُلَ أَغْرَقْنَٰهُمْ وَجَعَلْنَٰهُمْ لِلنَّاسِ ءَايَةًۭ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِلظَّٰلِمِينَ عَذَابًا أَلِيمًۭا ﴿٣٧﴾
اور نوح کی قوم کوبھی جب انہو ں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور ہم نے انہیں لوگوں کے لیے نشانی بنا دیا اور ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کیا ہے
یہی حال قوم نوحؑ کا ہوا جب انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی ہم نے اُن کو غرق کر دیا اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک نشان عبرت بنا دیا اور ان ظالموں کے لیے ایک دردناک عذاب ہم نے مہیا کر رکھا ہے
اور نوح کی قوم کو جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا ہم نے ان کو ڈبو دیا اور انہیں لوگوں کے لیے نشانی کردیا اور ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے،
اور نوح کی قوم نے بھی جب پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر ڈالا اور لوگوں کے لئے نشانی بنا دیا۔ اور ظالموں کے لئے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے
اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کو (بھی)، جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا (تو) ہم نے انہیں غرق کر ڈالا اور ہم نے انہیں (دوسرے) لوگوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا اور ہم نے ظالموں کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے،
اور قوم نوح کو بھی جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں بھی غرق کردیا اور لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دیا اور ہم نے ظالمین کے لئے بڑا دردناک عذاب مّہیا کررکھا ہے
اور قوم نوح نے بھی جب رسولوں کو جھوٹا کہا تو ہم نے انہیں غرق کردیا اور لوگوں کے لیے انہیں نشان عبرت بنا دیا۔ اور ہم نے ﻇالموں کے لیے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے
اور نوح(ع) کی قوم کو بھی ہم نے غرق کر دیا جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ اور انہیں لوگوں کیلئے نشانِ عبرت بنا دیا اور ہم نے ظالموں کیلئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
وَعَادًۭا وَثَمُودَا۟ وَأَصْحَٰبَ ٱلرَّسِّ وَقُرُونًۢا بَيْنَ ذَٰلِكَ كَثِيرًۭا ﴿٣٨﴾
اور عاد اور ثمود اورکنوئیں والوں کو بھی اوربہت سے دور جو ان کے درمیان تھے
اِسی طرح عاد اور ثمود اور اصحاب الرس اور بیچ کی صدیوں کے بہت سے لوگ تباہ کیے گئے
اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں کو اور ان کے بیچ میں بہت سی سنگتیں (قومیں)
اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں اور ان کے درمیان اور بہت سی جماعتوں کو بھی (ہلاک کر ڈالا)
اور عاد اور ثمود اور باشندگانِ رس کو، اور ان کے درمیان بہت سی(اور) امتوں کو (بھی ہلاک کر ڈالا)،
اور عاد و ثمود اور اصحاب رس اور ان کے درمیان بہت سی نسلوں اور قوموں کو بھی تباہ کردیا ہے
اور عادیوں اور ﺛمودیوں اور کنوئیں والوں کو اور ان کے درمیان کی بہت سی امتوں کو (ہلاک کردیا)
اور (اسی طرح) ہم نے قومِ عاد و ثمود اور اصحاب الرس کو اور ان کے درمیان، بہت سی نسلوں (اور) قوموں کو بھی ہلاک کیا۔
وَكُلًّۭا ضَرَبْنَا لَهُ ٱلْأَمْثَٰلَ ۖ وَكُلًّۭا تَبَّرْنَا تَتْبِيرًۭا ﴿٣٩﴾
اور ہم نے ہر ایک کو مثالیں دے کر سمجھایا تھا اور سب کو ہم نے ہلاک کر دیا
اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے (پہلے تباہ ہونے والوں کی) مثالیں دے دے کر سمجھایا اور آخرکار ہر ایک کو غارت کر دیا
اور ہم نے سب سے مثالیں بیان فرمائیں اور سب کو تباہ کرکے مٹادیا،
اور سب کے (سمجھانے کے لئے) ہم نے مثالیں بیان کیں اور (نہ ماننے پر) سب کا تہس نہس کردیا
اور ہم نے (ان میں سے) ہر ایک (کی نصیحت) کے لئے مثالیں بیان کیں اور (جب وہ سرکشی سے باز نہ آئے تو) ہم نے ان سب کو نیست و نابود کر دیا،
اور ان سب کے لئے ہم نے مثالیں بیان کیں اور سب کو ہم نے نیست و نابود کردیا
اور ہم نے ان کے سامنے مثالیں بیان کیں پھر ہر ایک کو بالکل ہی تباه و برباد کردیا
اور ہم نے ہر ایک کیلئے (پہلے برباد ہونے والوں) کی مثالیں بیان کیں اور (آخرکار) ہم نے سب کو نیست و نابود کر دیا۔
وَلَقَدْ أَتَوْا۟ عَلَى ٱلْقَرْيَةِ ٱلَّتِىٓ أُمْطِرَتْ مَطَرَ ٱلسَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوا۟ يَرَوْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا۟ لَا يَرْجُونَ نُشُورًۭا ﴿٤٠﴾
اور یہ اس بستی پر بھی گزرے ہیں جس پر بری طرح پتھر برسائے گئے سو کیا یہ لوگ اسے دیکھتے نہیں رہتے بلکہ یہ لوگ مر کر زندہ ہونے کی امید ہی نہیں رکھتے
اور اُس بستی پر تو اِن کا گزر ہو چکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی کیا انہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہو گا؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے
اور ضرور یہ ہو آئے ہیں اس بستی پر جس پر برا برساؤ برسا تھا تو کیا یہ اسے دیکھتے نہ تھے بلکہ انہیں جی اٹھنے کی امید تھی ہی نہیں
اور یہ کافر اس بستی پر بھی گزر چکے ہیں جس پر بری طرح کا مینہ برسایا گیا تھا۔ کیا وہ اس کو دیکھتے نہ ہوں گے۔ بلکہ ان کو (مرنے کے بعد) جی اُٹھنے کی امید ہی نہیں تھی۔
اور بیشک یہ (کفار) اس بستی پر سے گزرے ہیں جس پر بری طرح (پتھروں کی) بارش برسائی گئی تھی، تو کیا یہ اس (تباہ شدہ بستی) کو دیکھتے نہ تھے بلکہ یہ تو (مرنے کے بعد) اٹھائے جانے کی امید ہی نہیں رکھتے،
اور یہ لوگ اس بستی کی طرف آئے جس پر ہم نے پتھروں کی بوچھار کی تھی تو کیا ان لوگوں نے اسے نہیں دیکھاحقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کی امید ہی نہیں رکھتے
یہ لوگ اس بستی کے پاس سے بھی آتے جاتے ہیں جن پر بری طرح کی بارش برسائی گئی۔ کیا یہ پھر بھی اسے دیکھتے نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ انہیں مرکر جی اٹھنے کی امید ہی نہیں
اور (یہ لوگ) اس بستی سے گزرے ہیں! جس پر (پتھروں کی) بڑی بارش برسائی گئی تھی کیا (وہاں سے گزرتے ہوئے) اسے دیکھتے نہیں رہتے بلکہ (دراصل بات یہ ہے کہ) یہ حشر و نشر کی امید ہی نہیں رکھتے۔
وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا ٱلَّذِى بَعَثَ ٱللَّهُ رَسُولًا ﴿٤١﴾
اور جب یہ لوگ تمہیں دیکھتے ہیں تو بس تم سے مذاق کرنے لگتے ہیں کیا یہی ہے جسےالله نے رسول بنا کر بھیجا
یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں (کہتے ہیں) \"کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟
اور جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہیں نہیں ٹھہراتے مگر ٹھٹھا کیا یہ ہیں جن کو اللہ نے رسول بناکر بھیجا،
اور یہ لوگ جب تم کو دیکھتے ہیں تو تمہاری ہنسی اُڑاتے ہیں۔ کہ کیا یہی شخص ہے جس کو خدا نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے
اور (اے حبیبِ مکرّم!) جب (بھی) وہ آپ کو دیکھتے ہیں آپ کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں کرتے (اور کہتے ہیں:) کیا یہی وہ (شخص) ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے،
اور جب آپ کو دیکھتے ہیں تو صرف مذاق بنانا چاہتے ہیں کہ کیا یہی وہ ہے جسے خدا نے رسول بناکر بھیجا ہے
اور تمہیں جب کبھی دیکھتے ہیں تو تم سے مسخرا پن کرنے لگتے ہیں۔ کہ کیا یہی وه شخص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے
اور وہ جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں (اور کہتے ہیں) کیا یہ وہ ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟
إِن كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ ءَالِهَتِنَا لَوْلَآ أَن صَبَرْنَا عَلَيْهَا ۚ وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ ٱلْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا ﴿٤٢﴾
اس نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے ہٹا ہی دیا ہوتا اگر ہم ان پر قائم نہ رہتے اور انہیں جلدی معلوم ہوجائے گا جب عذاب دیکھیں گے کہ کون شخص گمراہ تھا
اِس نے تو ہمیں گمراہ کر کے اپنے معبودوں سے برگشتہ ہی کر دیا ہوتا اگر ہم اُن کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے\" اچھا، وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب دیکھ کر اِنہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کون گمراہی میں دور نکل گیا تھا
قریب تھا کہ یہ ہمیں ہمارے خداؤں سے بہکادیں اگر ہم ان پر صبر نہ کرتے اور اب جانا چاہتے ہیں جس دن عذاب دیکھیں گے کہ کون گمراہ تھا
اگر ہم نے اپنے معبودوں کے بارے میں ثابت قدم نہ رہتے تو یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا۔ (اور ان سے پھیر دیتا) اور یہ عنقریب معلوم کرلیں گے جب عذاب دیکھیں گے کہ سیدھے رستے سے کون بھٹکا ہوا ہے
قریب تھا کہ یہ ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دیتا اگر ہم ان (کی پرستش) پر ثابت قدم نہ رہتے اور وہ عنقریب جان لیں گے جس وقت عذاب دیکھیں گے کہ کون زیادہ گمراہ تھا،
قریب تھا کہ یہ ہمیں ہمارے خداؤں سے منحرف کردے اگر ہم لوگ ان خداؤں پر صبر نہ کرلیتے اور عنقریب ان لوگوں کو معلوم ہوجائے گا جب یہ عذاب کو دیکھیں گے کہ زیادہ بہکاہوا کون ہے
(وه تو کہیئے) کہ ہم اس پر جمے رہے ورنہ انہوں نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکادینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اور یہ جب عذابوں کو دیکھیں گے تو انہیں صاف معلوم ہوجائے گا کہ پوری طرح راه سے بھٹکا ہوا کون تھا؟
وہ تو قریب تھا کہ یہ شخص ہمارے معبودوں سے ہمیں بہکا دے۔ اگر ہم ان (کی پرستش) پر ثابت قدم نہ رہتے تو عنقریب جب وہ عذاب (الٰہی) کو دیکھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ راہِ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے؟
أَرَءَيْتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَٰهَهُۥ هَوَىٰهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا ﴿٤٣﴾
کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی خوہشات نفسانی کو بنا رکھا ہے پھر کیا تو اس کا ذمہ دار ہو سکتا ہے
کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟
کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنی جی کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے
کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے خواہش نفس کو معبود بنا رکھا ہے تو کیا تم اس پر نگہبان ہوسکتے ہو
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟ تو کیا آپ اس پر نگہبان بنیں گے،
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا خدا بنالیا ہے کیا آپ اس کی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہدار ہوسکتے ہیں؟
(اے رسول(ص)) کیا آپ نے وہ شخص دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش (نفس) کو اپنا خدا بنا رکھا ہے؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟
أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَٱلْأَنْعَٰمِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا ﴿٤٤﴾
یا تو خیال کرتا ہے کہ اکثر ان میں سے سنتے یا سمجھتے ہیں یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں
کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے
یا یہ سمجھتے ہو کہ ان میں بہت کچھ سنتے یا سمجھتے ہیں وہ تو نہیں مگر جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ
یا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ان میں اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں (نہیں) یہ تو چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں
کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ (نہیں) وہ تو چوپایوں کی مانند (ہو چکے) ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں،
کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہرگز نہیں یہ سب جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گم کردہ راہ ہیں
کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وه تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیاده بھٹکے ہوئے
کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟ یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں۔
أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ ٱلظِّلَّ وَلَوْ شَآءَ لَجَعَلَهُۥ سَاكِنًۭا ثُمَّ جَعَلْنَا ٱلشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًۭا ﴿٤٥﴾
کیا تو نے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیسے پھیلایا ہے اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا رکھتا پھر ہم نے سورج کو اس کا سبب بنا دیا ہے
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا ہم نے سورج کو اُس پر دلیل بنایا
اے محبوب! کیا تم نے اپنے رب کو نہ دیکھا کہ کیسا پھیلا سایہ اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرایا ہوا کردیتا پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل کیا،
بلکہ تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر (کے پھیلا) دیتا ہے۔ اور اگر وہ چاہتا تو اس کو (بےحرکت) ٹھیرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنا دیتا ہے
کیا آپ نے اپنے رب (کی قدرت) کی طرف نگاہ نہیں ڈالی کہ وہ کس طرح (دوپہر تک) سایہ دراز کرتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسے ضرور ساکن کر دیتا پھر ہم نے سورج کو اس (سایہ) پر دلیل بنایا ہے،
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے پروردگار نے کس طرح سایہ کو پھیلا دیا ہے اور وہ چاہتا تو ایک ہی جگہ ساکن بنا دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس کی دلیل بنادیا ہے
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ہے؟ اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کر دیتا۔ پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا
کیا تم نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیونکر پھیلایا ہے؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے (ایک جگہ) ٹھہرا ہوا بنا دیتا۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل راہ بنایا۔
ثُمَّ قَبَضْنَٰهُ إِلَيْنَا قَبْضًۭا يَسِيرًۭا ﴿٤٦﴾
پھر ہم اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹتے ہیں
پھر (جیسے جیسے سورج اٹھتا جاتا ہے) ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں
پھر ہم نے آہستہ آہستہ اسے اپنی طرف سمیٹا
پھر اس کو ہم آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں
پھر ہم آہستہ آہستہ اس (سایہ) کو اپنی طرف کھینچ کر سمیٹ لیتے ہیں،
پھر ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اسے اپنی طرف کھینچ لیا ہے
پھر ہم نے اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچ لیا
پھر ہم اس (سایہ) کو تھوڑا تھوڑا کرکے اپنی طرف سمیٹتے جاتے ہیں۔
وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلَّيْلَ لِبَاسًۭا وَٱلنَّوْمَ سُبَاتًۭا وَجَعَلَ ٱلنَّهَارَ نُشُورًۭا ﴿٤٧﴾
اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو اوڑھنا اور نیند کو راحت بنا دیا اور دن چلنے پھرنے کے لیے بنایا
اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس، اور نیند کو سکونِ موت، اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا
اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ کیا اور نیند کو آرام اور دن بنایا اٹھنے کے لیے
اور وہی تو ہے جس نے رات کو تمہارے لئے پردہ اور نیند کو آرام بنایا اور دن کو اُٹھ کھڑے ہونے کا وقت ٹھہرایا
اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پوشاک (کی طرح ڈھانک لینے والا) بنایا اور نیند کو (تمہارے لئے) آرام (کا باعث) بنایا اور دن کو (کام کاج کے لئے) اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا،
اور وہی وہ خدا ہے جس نے رات کو تمہارا پردہ اور نیند کو تمہاری راحت اور دن کو تمہارے اٹھ کھڑے ہونے کا وقت قرار دیا ہے
اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پرده بنایا۔ اور نیند کو راحت بنائی۔ اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت
اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ پوش اور نیند کو (باعث) راحت اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۔
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ ٱلرِّيَٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهِۦ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ طَهُورًۭا ﴿٤٨﴾
اوروہی تو ہے جو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری لانے والی ہوائیں چلاتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل فرمایا
اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے پھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے
اور وہی ہے جس نے ہوائیں بھیجیں اپنی رحمت کے آگے مژدہ سنائی ہوئی اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا پاک کرنے والا،
اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت کے مینھہ کے آگے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے پاک (اور نتھرا ہوا) پانی برساتے ہیں
اور وہی ہے جو اپنی رحمت (کی بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، اور ہم ہی آسمان سے پاک (صاف کرنے والا) پانی اتارتے ہیں،
اور وہی وہ ہے جس نے ہواؤں کو رحمت کی بشارت کے لئے رواں کردیا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک و پاکیزہ پانی برسایا ہے
اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوش خبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں
اور وہ وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے پاک اور پاک کرنے والا پانی برساتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ کسی مردہ شہر (غیر آباد) کو زندہ کریں اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو پلائیں۔
لِّنُحْۦِىَ بِهِۦ بَلْدَةًۭ مَّيْتًۭا وَنُسْقِيَهُۥ مِمَّا خَلَقْنَآ أَنْعَٰمًۭا وَأَنَاسِىَّ كَثِيرًۭا ﴿٤٩﴾
تاکہ ہم اس سے مرے ہوئے شہر کو زندہ کریں اور اسے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں، چارپایوں اوربہت سے آدمیوں کوپلائیں
تاکہ ایک مردہ علاقے کو اس کے ذریعے زندگی بخشے اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرے
تاکہ ہم ا سسے زندہ کریں کسی مردہ شہر کو اور اسے پلائیں اپنے بنائے ہوئے بہت سے چوپائے اور آدمیوں کو،
تاکہ اس سے شہر مردہ (یعنی زمین افتادہ) کو زندہ کردیں اور پھر اسے بہت سے چوپایوں اور آدمیوں کو جو ہم نے پیدا کئے ہیں پلاتے ہیں
تاکہ اس کے ذریعے ہم (کسی بھی) مُردہ شہر کو زندگی بخشیں اور (مزید یہ کہ) ہم یہ (پانی) اپنے پیدا کئے ہوئے بہت سے چوپایوں اور (بادیہ نشین) انسانوں کو پلائیں،
تاکہ اس کے ذریعہ مردہ شہر کو زندہ بنائیں اور اپنی مخلوقات میں سے جانوروں اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو سیراب کریں
تاکہ اس کے ذریعے سے مرده شہر کو زنده کردیں اوراسے ہم اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپایوں اور انسانوں کو پلاتے ہیں
اور ہم اس (پانی) کو طرح طرح سے لوگوں کے درمیان تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر اکثر لوگوں نے ناشکری کے سوا ہر بات سے انکار کر دیا ہے۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا۟ فَأَبَىٰٓ أَكْثَرُ ٱلنَّاسِ إِلَّا كُفُورًۭا ﴿٥٠﴾
اور ہم نے اسے لوگوں میں بانٹ دیا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں پس بہت سے آدمی ناشکری کیے بغیر نہ رہے
اس کرشمے کو ہم بار بار ان کے سامنے لاتے ہیں تاکہ وہ کچھ سبق لیں، مگر اکثر لوگ کفر اور ناشکری کے سوا کوئی دوسرا رویہ اختیار کرنے سے انکار کر دیتے ہیں
اور بیشک ہم نے ان میں پانی کے پھیرے رکھے کہ وہ دھیان کریں تو بہت لوگوں نے نہ مانا مگر ناشکری کرنا،
اور ہم نے اس (قرآن کی آیتوں) کو طرح طرح سے لوگوں میں بیان کیا تاکہ نصیحت پکڑیں مگر بہت سے لوگوں نے انکار کے سوا قبول نہ کیا
اور بیشک ہم اس (بارش) کو ان کے درمیان (مختلف شہروں اور وقتوں کے حساب سے) گھماتے (رہتے) ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں پھر بھی اکثر لوگوں نے بجز ناشکری کے (کچھ) قبول نہ کیا،
اور ہم نے ان کے درمیان پانی کو طرح طرح سے تقسیم کیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں لیکن انسانوں کی اکثریت نے ناشکری کے علاوہ ہر بات سے انکار کردیا ہے
اور بے شک ہم نے اسےان کے درمیان طرح طرح سے بیان کیا تاکہ وه نصیحت حاصل کریں، مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے سوائے ناشکری کے مانا نہیں
اور اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک ڈرانے والا بھیجتے۔
وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِى كُلِّ قَرْيَةٍۢ نَّذِيرًۭا ﴿٥١﴾
اور اگر ہم چاہتے تو ہر گاؤں میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے
اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک نذیر اٹھا کھڑا کرتے
اور ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ڈر سنانے والا بھیجتے
اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ڈرانے والا بھیج دیتے
اور اگر ہم چاہتے تو ہر ایک بستی میں ایک ڈر سنانے والا بھیج دیتے،
اور ہم چاہتے تو ہر قریہ میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے
اگر ہم چاہتے تو ہر ہر بستی میں ایک ایک ڈرانے واﻻ بھیج دیتے
(اے نبی(ص)) آپ کافروں کی پیروی نہ کریں اور اس (قرآن) کے ذریعہ سے ان سے بڑا جہاد کریں۔
فَلَا تُطِعِ ٱلْكَٰفِرِينَ وَجَٰهِدْهُم بِهِۦ جِهَادًۭا كَبِيرًۭا ﴿٥٢﴾
پس کافروں کا کہا نہ مان اس کے ساتھ بڑے زور سے ان کا مقابلہ کر
پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو
تو کافروں کا کہا نہ مان اور اس قرآن سے ان پر جہاد کر بڑا جہاد،
تو تم کافروں کا کہا نہ مانو اور ان سے اس قرآن کے حکم کے مطابق بڑے شدومد سے لڑو
پس (اے مردِ مومن!) تو کافروں کا کہنا نہ مان اور تو اس (قرآن کی دعوت اور دلائل) کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد کر،
لہذا آپ کافروں کے کہنے میں نہ آئیں اور ان سے آخر دم تک جہاد کرتے رہیں
پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں
اور وہ وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملا دیا ہے یہ شیریں و خوشگوار ہے اور یہ سخت کھاری و تلخ ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک حد فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے۔
۞ وَهُوَ ٱلَّذِى مَرَجَ ٱلْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌۭ فُرَاتٌۭ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌۭ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًۭا وَحِجْرًۭا مَّحْجُورًۭا ﴿٥٣﴾
اور وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملا دیا یہ میٹھا خوشگوار ہے او ریہ کھاری کڑوا ہے اوران دونوں میں ایک پردہ اور مستحکم آڑ بنا دی
اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈ مڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے
اور وہی ہے جس نے ملے ہوئے رواں کیے دو سمندر یہ میٹھا ہے نہایت شیریں اور یہ کھاری ہے نہایت تلخ اور ان کے بیچ میں پردہ رکھا اور روکی ہوئی آڑ
اور وہی تو ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری چھاتی جلانے والا۔ اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنادی
اور وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا۔ یہ (ایک) میٹھا نہایت شیریں ہے اور یہ (دوسرا) کھاری نہایت تلخ ہے۔ اور اس نے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ اور مضبوط رکاوٹ بنا دی،
اور وہی خدا ہے جس نے دونوں دریاؤں کو جاری کیا ہے اس کا پانی مزیدار اور میٹھا ہے اور یہ نمکین اور کڑواہے اور دونوں کے درمیان حدُ فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے
اور وہی ہے جس نے دو سمندر آپس میں ملا رکھے ہیں، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری کڑوا، اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ کردی
اور وہ وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا اور تمہارا پروردگار بڑی قدرت والا ہے۔
وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ مِنَ ٱلْمَآءِ بَشَرًۭا فَجَعَلَهُۥ نَسَبًۭا وَصِهْرًۭا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًۭا ﴿٥٤﴾
اوروہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا پھر ا س کے لیے رشتہ نسب اور دامادی قائم کیا اور تیرا رب ہر چیز پر قادر ہے
اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے
اور وہی ہے جس نے پانی سے بنایا آدمی پھر اس کے رشتے اور سسرال مقرر کی اور تمہارا رب قدرت والا ہے
اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا۔ پھر اس کو صاحب نسب اور صاحب قرابت دامادی بنایا۔ اور تمہارا پروردگار (ہر طرح کی) قدرت رکھتا ہے
اور وہی ہے جس نے پانی (کی مانند ایک نطفہ) سے آدمی کو پیدا کیا پھر اسے نسب اور سسرال (کی قرابت) والا بنایا، اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے،
اور وہی وہ ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا ہے اور پھر اس کو خاندان اور سسرال والا بنا دیا ہے اور آپ کا پروردگار بہت زیادہ قدرت والا ہے
وه ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب واﻻ اور سسرالی رشتوں واﻻ کردیا۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے
اور وہ (مشرک) اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو ان کو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور کافر تو (ہمیشہ) اپنے پروردگار کے مقابلے میں (مخالفوں کی) پشت پناہی کرتا ہے۔
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَنفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۗ وَكَانَ ٱلْكَافِرُ عَلَىٰ رَبِّهِۦ ظَهِيرًۭا ﴿٥٥﴾
اور وہ الله کے سوا ایسے کو پوجتے ہیں جو انہیں نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور کافر اپنے رب کی طرف پیٹھ پھیرنے والا ہے
اس خدا کو چھوڑ کر لوگ اُن کو پوج رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، اور اوپر سے مزید یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں ہر باغی کا مدد گار بنا ہوا ہے
اور اللہ کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جو ان کا بھلا برا کچھ نہ کریں اور کافر اپنے رب کے مقابل شیطان کو مدد دیتا ہے
اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیز کی پرستش کر تے ہیں جو نہ ان کو فائدہ پہنچا سکے اور نہ ضرر۔ اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زور مارتا ہے
اور وہ (کفار) اللہ کے سوا ان (بتوں) کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ (تو) نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ (ہی) انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور کافر اپنے رب (کی نافرمانی) پر (ہمیشہ شیطان کا) مددگار ہوتا ہے،
اور یہ لوگ پروردگار کو چھوڑ کر ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور کافر تو ہمیشہ پروردگار کے خلاف ہی پشت پناہی کرتا ہے
یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ تو انہیں کوئی نفع دے سکیں نہ کوئی نقصان پہنچاسکیں، اور کافر تو ہے ہی اپنے رب کے خلاف (شیطان کی) مدد کرنے واﻻ
اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔
وَمَآ أَرْسَلْنَٰكَ إِلَّا مُبَشِّرًۭا وَنَذِيرًۭا ﴿٥٦﴾
اور ہم نےتمہیں محض خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
اے محمدؐ، تم کو تو ہم نے بس ایک مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا،
اور ہم نے (اے محمدﷺ) تم کو صرف خوشی اور عذاب کی خبر سنانے کو بھیجا ہے
اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر (اللہ کے اطاعت گزار بندوں کو) خوشخبری سنانے والا اور (بغاوت شعار لوگوں کو) ڈر سنانے والا بنا کر،
اور ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
ہم نے تو آپ کو خوشخبری اور ڈر سنانے واﻻ (نبی) بنا کر بھیجا ہے
اور آپ کہہ دیجئے! کہ میں اس (کار رسالت) پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ جو چاہے اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے۔
قُلْ مَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَن شَآءَ أَن يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِۦ سَبِيلًۭا ﴿٥٧﴾
کہہ دو میں اس پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا مگر جو شخص اپنے رب کی طرف راستہ معلوم کرنا چاہے
اِن سے کہہ دو کہ \"میں اس کام پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا، میری اُجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے\"
تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر جو چاہے کہ اپنے رب کی طرف راہ لے،
کہہ دو کہ میں تم سے اس (کام) کی اجرت نہیں مانگتا، ہاں جو شخص چاہے اپنے پروردگار کی طرف جانے کا رستہ اختیار کرے
آپ فرما دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغ) پر کچھ بھی معاوضہ نہیں مانگتا مگر جو شخص اپنے رب تک (پہنچنے کا) راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے (کرلے)،
آپ کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر یہ کہ جو چاہے وہ اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے
کہہ دیجئے کہ میں قرآن کے پہنچانے پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر جو شخص اپنے رب کی طرف راه پکڑنا چاہے
(اے رسول(ص)) آپ اس زندہ (خدا) پر بھروسہ کیجئے جس کے لئے موت نہیں ہے۔ اور اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے کیلئے خود کافی ہے۔
وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱلْحَىِّ ٱلَّذِى لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِۦ ۚ وَكَفَىٰ بِهِۦ بِذُنُوبِ عِبَادِهِۦ خَبِيرًا ﴿٥٨﴾
اورتم اس زندہ خدا پر بھروسہ رکھو جو کبھی نہ مرے گا اور اس کی تسبیح اورحمد کرتے رہو اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار ہے
اور اے محمدؐ، اُس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اُسی کا باخبر ہونا کافی ہے
اور بھروسہ کرو اس زندہ پر جو کبھی نہ مرے گا اور اسے سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور وہی کافی ہے اپنے بندوں کے گناہوں پر خبردار
اور اس (خدائے) زندہ پر بھروسہ رکھو جو (کبھی) نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔ اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کو کافی ہے
اور آپ اس (ہمیشہ) زندہ رہنے والے (رب) پر بھروسہ کیجئے جو کبھی نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہئے، اور اس کا اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہونا کافی ہے،
اور آپ اس خدائے حق و قیوم پر اعتماد کریں جسے موت آنے والی نہیں ہے اور اسی کی حمد کی تسبیح کرتے رہیں کہ وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی اطلاع کے لئے خود ہی کافی ہے
اس ہمیشہ زنده رہنے والے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں جسے کبھی موت نہیں اور اس کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے رہیں، وه اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار ہے
وہ خدا جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ (۶) دن میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر اقتدار قائم کیا۔ وہی (خدائے) رحمن ہے اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھو۔
ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ ٱلرَّحْمَٰنُ فَسْـَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًۭا ﴿٥٩﴾
جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا وہ رحمنٰ ہے پس ا س کی شان کسی خبردار سے پوچھو
وہ جس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمان کو اور اُن ساری چیزوں کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں، پھر آپ ہی (کائنات کے تخت سلطنت) \"عرش\" پر جلوہ فرما ہوا رحمٰن، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو
جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے وہ بڑی مہر والا تو کسی جاننے والے سے اس کی تعریف پوچھ
جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا وہ (جس کا نام) رحمٰن (یعنی بڑا مہربان ہے) تو اس کا حال کسی باخبر سے دریافت کرلو
جس نے آسمانی کرّوں اور زمین کو اور اس (کائنات) کو جو ان دونوں کے درمیان ہے چھ اَدوار میں پیدا فرمایا٭ پھر وہ (حسبِ شان) عرش پر جلوہ افروز ہوا (وہ) رحمان ہے، (اے معرفتِ حق کے طالب!) تو اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھ (بے خبر اس کا حال نہیں جانتے)، ٭ (ستۃ اَیّام سے مراد چھ اَدوارِ تخلیق ہیں، معروف معنٰی میں چھ دن نہیں کیونکہ یہاں تو خود زمین اور جملہ آسمانی کرّوں، کہکشاؤں، ستاروں، سیاروں اور خلاؤں کی پیدائش کا زمانہ بیان ہو رہا ہے، اس وقت رات اور دن کا وجود کہاں تھا؟)
اس نے آسمان و زمین اور اس کے درمیان کی مخلوقات کو چھ دنوں کے اندر پیدا کیا ہے اور اس کے بعد عرش پر اپنا اقتدار قائم کیا ہے وہ رحمان ہے اس کی تخلیق کے بارے میں اسی باخبر سے دریافت کرو
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین اوران کے درمیان کی سب چیزوں کو چھ دن میں پیدا کردیا ہے، پھر عرش پر مستوی ہوا، وه رحمٰن ہے، آپ اس کے بارے میں کسی خبردار سے پوچھ لیں
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ یہ رحمن کیا چیز ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے بارے میں تم ہمیں حکم دو؟ اور یہ چیز ان کی نفرت میں اور اضافہ کر دیتی ہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱسْجُدُوا۟ لِلرَّحْمَٰنِ قَالُوا۟ وَمَا ٱلرَّحْمَٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًۭا ۩ ﴿٦٠﴾
اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمنٰ کو سجدہ کرو توکہتے ہیں رحمنٰ کیا ہے کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو کہہ دے اور اس سے انہیں اور زیادہ نفرت ہوتی ہے
اِن لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں \"رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟\" یہ دعوت ان کی نفرت میں الٹا اور اضافہ کر دیتی ہے
اور جب ان سے کہا جائے رحمن کو سجدہ کرو کہتے ہیں رحمن کیا ہے، کیا ہم سجدہ کرلیں جسے تم کہو اور اس حکم نے انہیں اور بدکنا بڑھایا السجدة ۔۷
اور جب ان (کفار) سے کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمٰن کیا؟ کیا جس کے لئے تم ہم سے کہتے ہو ہم اس کے آگے سجدہ کریں اور اس سے بدکتے ہیں
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم رحمان کو سجدہ کرو تو وہ (منکرینِ حق) کہتے ہیں کہ رحمان کیا (چیز) ہے؟ کیا ہم اسی کو سجدہ کرنے لگ جائیں جس کا آپ ہمیں حکم دے دیں اور اس (حکم) نے انہیں نفرت میں اور بڑھا دیا،
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ یہ رحمان کیا ہے کیا ہم اسے سجدہ کرلیں جس کے بارے میں تم حکم دے رہو اور اس طرح ان کی نفرت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے
ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجده کرو تو جواب دیتے ہیں رحمٰن ہے کیا؟ کیا ہم اسے سجده کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس (تبلیﻎ) نےان کی نفرت میں مزید اضافہ کردیا
بڑا بابرکت ہے وہ (خدا) جس نے آسمان میں (بارہ) برج بنائے اور ان میں ایک چراغ (سورج) اور ایک چمکتا ہوا چاند بنایا۔
تَبَارَكَ ٱلَّذِى جَعَلَ فِى ٱلسَّمَآءِ بُرُوجًۭا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَٰجًۭا وَقَمَرًۭا مُّنِيرًۭا ﴿٦١﴾
بڑا برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں ستارے بنائے اور اس میں چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا
بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا
بڑی برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور ان میں چراغ رکھا اور چمکتا چاند،
اور (خدا) بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور ان میں (آفتاب کا نہایت روشن) چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا
وہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اس نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایا،
بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور اس میں چراغ اور چمکتا ہوا چاند قرار دیا ہے
بابرکت ہے وه جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں آفتاب بنایا اور منور مہتاب بھی
اور وہ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ہے اس شخص کیلئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے یا شکر ادا کرنا چاہے۔
وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ خِلْفَةًۭ لِّمَنْ أَرَادَ أَن يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًۭا ﴿٦٢﴾
اور وہی ہے جس نے رات اور دن یکے بعد دیگرے آنے والے بنائے یہ اس کے لیے ہے جو سمجھنا چاہے یا شکر کرنا چاہے
وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے، یا شکر گزار ہونا چاہے
اور وہی ہے جس نے رات اور دن کی بدلی رکھی اس کے لیے جو دھیان کرنا چاہے یا شکر کا ارادہ کرے،
اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا۔ (یہ باتیں) اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکرگزاری کا ارادہ کرے (سوچنے اور سمجھنے کی ہیں)
اور وہی ذات ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے گردش کرنے والا بنایا اس کے لئے جو غور و فکر کرنا چاہے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے (ان تخلیقی قدرتوں میں نصیحت و ہدایت ہے)،
اور وہی وہ ہے جس نے رات اور دن میں ایک کو دوسرے کاجانشین بنایا ہے اس انسان کے لئے جو عبرت حاصل کرنا چاہے یا شکر پروردگار ادا کرنا چاہے
اور اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے واﻻ بنایا۔ اس شخص کی نصیحت کے لیے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا اراده رکھتا ہو
اور (خدائے) رحمن کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستہ آہستہ (فروتنی کے ساتھ) چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں تم پر سلام۔
وَعِبَادُ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى ٱلْأَرْضِ هَوْنًۭا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ ٱلْجَٰهِلُونَ قَالُوا۟ سَلَٰمًۭا ﴿٦٣﴾
اور رحمنٰ کے بندے وہ ہیں جو زمین پردبے پاؤں چلتے ہیں اورجب ان سے بے سمجھ لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے
رحمان کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام
اور رحمن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام
اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں،
اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں توسلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں
رحمٰن کے (سچے) بندے وه ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وه کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے
اور جو اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ اور قیام کرتے ہوئے رات گزارتے ہیں۔
وَٱلَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًۭا وَقِيَٰمًۭا ﴿٦٤﴾
اور وہ لوگ جو اپنے رب کے سامنے سجدہ میں اور کھڑے ہوکر رات گزارتے ہیں
جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں
اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں
اور جو وہ اپنے پروردگار کے آگے سجدے کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لئے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں،
یہ لوگ راتوں کو اس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے رب کی بارگاہ میں کبھی سربسجود رہتے ہیں اور کبھی حالت قیام میں رہتے ہیں
اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں
اور جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے جہنم کا عذاب دور رکھ۔
وَٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا ٱصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ﴿٦٥﴾
اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم سے دوزخ کا عذاب دور کر دے بے شک اس کا عذاب پوری تباہی ہے
جو دعائیں کرتے ہیں کہ \"اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے
اور وہ جو عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے پھیر دے جہنم کا عذاب، بیشک اس کا عذاب گلے کا غل (پھندا) ہے
اور جو دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے پروردگار دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھیو کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (ہمہ وقت حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض گزار رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے دوزخ کا عذاب ہٹا لے، بیشک اس کا عذاب بڑا مہلک (اور دائمی) ہے،
اور یہ کہتے ہیں کہ پروردگار ہم سے عذاب جہنمّ کو پھیر دے کہ اس کا عذاب بہت سخت اور پائیدار ہے
اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے واﻻ ہے
بےشک اس کا عذاب پوری ہلاکت ہے۔
إِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّۭا وَمُقَامًۭا ﴿٦٦﴾
بے شک وہ برا ٹھکانا اوربڑی قیام گاہ ہے
وہ بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے\"
بیشک وہ بہت ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے،
اور دوزخ ٹھیرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے
بیشک وہ (عارضی ٹھہرنے والوں کے لئے) بُری قرار گاہ اور (دائمی رہنے والوں کے لئے) بُری قیام گاہ ہے،
وہ بدترین منزل اور محل اقامت ہے
بے شک وه ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے
وہ (جہنم) بہت برا ٹھکانا ہے اور بہت بری جگہ ہے۔
وَٱلَّذِينَ إِذَآ أَنفَقُوا۟ لَمْ يُسْرِفُوا۟ وَلَمْ يَقْتُرُوا۟ وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًۭا ﴿٦٧﴾
اوروہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے
جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے
اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں
اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم
اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہے،
اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا راستہ اختیار کرتے ہیں
اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں
اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی (بلکہ) ان کا خرچ کرنا ان (دونوں) کے درمیان (حد اعتدال پر) ہوتا ہے۔
وَٱلَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ ٱللَّهِ إِلَٰهًا ءَاخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًۭا ﴿٦٨﴾
اوروہ جو الله کے سوا کسی اور معبود کونہیں پکارتے اور اس شخص کوناحق قتل نہیں کرتے جسے الله نے حرام کر دیا ہے اور زنا نہیں کرتے اور جس شخص نے یہ کیا وہ گناہ میں جا پڑا
جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا
اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کو جس کی اللہ نے حرمت رکھی ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے گا،
اور وہ جو خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جن جاندار کو مار ڈالنا خدا نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق پر (یعنی شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے۔ اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ (ہی) کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیرِ حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ (ہی) بدکاری کرتے ہیں، اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ سزائے گناہ پائے گا،
اور وہ لوگ خدا کے ساتھ کسی اور خدا کو نہیں پکارتے ہیں اور کسی بھی نفس کو اگر خدا نے محترم قرار دیدیا ہے تو اسے حق کے بغیر قتل نہیں کرتے اور زنا بھی نہیں کرتے ہیں کہ جو ایسا عمل کرے گا وہ اپنے عمل کی سزا بھی برداشت کرے گا
اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وه بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وه زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وه اپنے اوپر سخت وبال ﻻئے گا
اور وہ اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو نہیں پکارتے اور جس جان (کے مارنے) کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو وہ گناہ کی سزا پائے گا۔
يُضَٰعَفْ لَهُ ٱلْعَذَابُ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِۦ مُهَانًا ﴿٦٩﴾
قیامت کے دن اسے دگنا عذاب ہو گا اس میں ذلیل ہو کر پڑا رہے گا
قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا
بڑھایا جائے گا اس پر عذابِ قیامت کے دن اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے گا،
قیامت کے دن اس کو دونا عذاب ہوگا اور ذلت وخواری سے ہمیشہ اس میں رہے گا
اس کے لئے قیامت کے دن عذاب دو گنا کر دیا جائے گا اور وہ اس میں ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ رہے گا،
جسے روز قیامت رَگنا کردیا جائے گا اور وہ اسی میں ذلّت کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ پڑا رہے گا
اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وه ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا
قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا کر دیا جائے گا۔ اور وہ اس میں ذلیل و خوار ہوکر ہمیشہ رہے گا۔
إِلَّا مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًۭا صَٰلِحًۭا فَأُو۟لَٰٓئِكَ يُبَدِّلُ ٱللَّهُ سَيِّـَٔاتِهِمْ حَسَنَٰتٍۢ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا ﴿٧٠﴾
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک کام کیے سو انہیں الله برائیوں کی جگہ بھلائیاں بدل دے گا اور الله بخشنے والا مہربان ہے
اِلّا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور رحیم ہے
مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو خدا نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
علاوہ اس شخص کے جو توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے کہ پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کردے گا اور خدا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے
سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے
سوائے اس کے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے کہ اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَٰلِحًۭا فَإِنَّهُۥ يَتُوبُ إِلَى ٱللَّهِ مَتَابًۭا ﴿٧١﴾
اور جس نے توبہ کی اور نیک کام کیے تو وہ الله کی طرف رجوع کرتا ہے
جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے
اور جو توبہ کرے اور اچھا کام کرے تو وہ اللہ کی طرف رجوع لایا جیسی چاہیے تھی،
اور جو توبہ کرتا اور عمل نیک کرتا ہے تو بےشک وہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے
اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا،
اور جو توبہ کرلے گا اور عمل صالح انجام دے گا وہ اللہ کی طرف واقعا رجوع کرنے والا ہے
اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وه تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے
اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو وہ اللہ کی طرف اس طرح رجوع کرتا ہے جو رجوع کرنے کا حق ہے۔
وَٱلَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ ٱلزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا۟ بِٱللَّغْوِ مَرُّوا۟ كِرَامًۭا ﴿٧٢﴾
اور جو بے ہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور جب بیہودہ باتوں کے پاس سے گزریں تو شریفانہ طور سے گزرتے ہیں
(اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں
اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ پر گذرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں،
اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو کذب اور باطل کاموں میں (قولاً اور عملاً دونوں صورتوں میں) حاضر نہیں ہوتے اور جب بے ہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو (دامن بچاتے ہوئے) نہایت وقار اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں،
اور وہ لوگ جھوٹ اور فریب کے پاس حاضر بھی نہیں ہوتے ہیں اور جب لغو کاموں کے قریب سے گزرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گزرجاتے ہیں
اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں
اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے (یا جو زُور یعنی غنا کی جگہ پر حاضر نہیں ہوتے) اور جو جب کسی بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شریفانہ انداز میں گزر جاتے ہیں۔
وَٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا۟ بِـَٔايَٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا۟ عَلَيْهَا صُمًّۭا وَعُمْيَانًۭا ﴿٧٣﴾
اور وہ لوگ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے
جنہیں اگر اُن کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے
اور وہ کہ جب کہ انہیں ان کے رب کی آیتیں یاد د لائی جائیں تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے
اور وہ کہ جب ان کو پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو اُن پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے (بلکہ غور سے سنتے ہیں)
اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے (بلکہ غور و فکر بھی کرتے ہیں)،
اور ان لوگوں کوجب آیات الہٰیہ کی یاد دلائی جاتی ہے توبہرے اوراندھے ہوکر گر نہیں پڑتے ہیں
اور جب انہیں ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وه اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گرتے۔
اور جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے ہوکر ان پر گر نہیں پڑتے (بلکہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں)۔
وَٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَٰجِنَا وَذُرِّيَّٰتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍۢ وَٱجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴿٧٤﴾
اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے
جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ \"اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا\"
اور وہ جو عرض کرتے ہیں، اے ہمارے رب! ہمیں دے ہماری بیبیوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا
اور وہ جو (خدا سے) دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے،
اور وہ لوگ برابر دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدایا ہمیں ہماری ازواج اور اولاد کی طرف سے خنکی چشم عطا فرما اور ہمیں صاحبان هتقویٰٰ کا پیشوا بنا دے
اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اوﻻد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا
اور وہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیش رو بنا۔
أُو۟لَٰٓئِكَ يُجْزَوْنَ ٱلْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا۟ وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةًۭ وَسَلَٰمًا ﴿٧٥﴾
یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلہ میں جنت کے بالا خانے دیے جائیں گے اور ان کا وہاں دعا اور سلام سے استقبال کیا جائے گا
یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے آداب و تسلیمات سے اُن کا استقبال ہو گا
ان کو جنت کا سب سے اونچا بالا خانہ انعام ملے گا بدلہ ان کے صبر کا اور وہاں مجرے اور سلام کے ساتھ ان کی پیشوائی ہوگی
ان (صفات کے) لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیئے جائیں گے۔ اور وہاں فرشتے ان سے دعا وسلام کے ساتھ ملاقات کریں گے
انہی لوگوں کو (جنت میں) بلند ترین محلات ان کے صبر کرنے کی جزا کے طور پر بخشے جائیں گے اور وہاں دعائے خیر اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا،
یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی بنائ پر جنتّ کے بالا خانے عطا کئے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم اور سلام کی پیشکش کی جائے گی
یہی وه لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و باﻻخانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا
یہ وہ ہیں جنہیں ان کے صبر و ثبات کے صلہ میں بہشت میں بالاخانہ عطا کیا جائے گا۔ اور وہاں ان کا تحیہ و سلام سے استقبال کیا جائے گا۔
خَٰلِدِينَ فِيهَا ۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّۭا وَمُقَامًۭا ﴿٧٦﴾
اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ٹھیرنے اور رہنے کی خوب جگہ ہے
وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام
ہمیشہ اس میں رہیں گے، کیا ہی اچھی ٹھہرنے اور بسنے کی جگہ،
اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور وہ ٹھیرنے اور رہنے کی بہت ہی عمدہ جگہ ہے
یہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں وہ (بلند محلاتِ جنت) بہترین قرار گاہ اور (عمدہ) قیام گاہ ہیں،
وہ انہی مقامات پرہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کہ وہ بہترین مستقر اور حسین ترین محلِ اقامت ہے
اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وه بہت ہی اچھی جگہ اور عمده مقام ہے
وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے کیا اچھا ہے وہ ٹھکانہ اور وہ مقام۔
قُلْ مَا يَعْبَؤُا۟ بِكُمْ رَبِّى لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ ۖ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًۢا ﴿٧٧﴾
کہہ دو میرا رب تمہاری پروا نہیں کرتا اگرتم اسے نہ پکارو سو تم جھٹلا توچکے ہو پھر اب تو اس کا وبال پڑ کر رہے گا
اے محمدؐ، لوگوں سے کہو \"میرے رب کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو اب کہ تم نے جھٹلا دیا ہے، عنقریب وہ سزا پاؤ گے کہ جان چھڑانی محال ہو گی\"
تم فرماؤ تمہاری کچھ قدر نہیں میرے رب کے یہاں اگر تم اسے نہ پوجو تو تم نے تو جھٹلایا تو اب ہوگا وہ عذاب کہ لپٹ رہے گا
کہہ دو کہ اگر تم (خدا کو) نہیں پکارتے تو میرا پروردگار بھی تمہاری کچھ پروا نہیں کرتا۔ تم نے تکذیب کی ہے سو اس کی سزا (تمہارے لئے) لازم ہوگی
فرما دیجئے: میرے رب کو تمہاری کوئی پرواہ نہیں اگر تم (اس کی) عبادت نہ کرو، پس واقعی تم نے (اسے) جھٹلایا ہے تو اب یہ (جھٹلانا تمہارے لئے) دائمی عذاب بنا رہے گا،
پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو پروردگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا تم نے اس کے رسول کی تکذیب کی ہے تو عنقریب اس کا عذاب بھی برداشت کرنا پڑے گا
کہہ دیجئے! اگر تمہاری دعا التجا (پکارنا) نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری مطلق پروا نہ کرتا، تم تو جھٹلا چکے اب عنقریب اس کی سزا تمہیں چمٹ جانے والی ہوگی
آپ کہہ دیجئے! اگر تمہاری دعا و پکار نہ ہو تو میرا پروردگار تمہاری کوئی پروا نہ کرے سو اب جبکہ تم نے (رسول کو) جھٹلا دیا ہے تو یہ (تکذیب) عنقریب (تمہارے لئے) وبال جان بن کر رہے گی۔