Setting
Surah The winnowing winds [Adh-Dhariyat] in Urdu
وَٱلذَّٰرِيَٰتِ ذَرْوًۭا ﴿١﴾
قسم ہے ان ہواؤں کی جو (غبار وغیرہ) اڑانے والی ہیں
قسم ہے اُن ہواؤں کی جو گرد اڑانے والی ہیں
قسم ان کی جو بکھیر کر اڑانے والیاں
بکھیرنے والیوں کی قسم جو اُڑا کر بکھیر دیتی ہیں
اُڑا کر بکھیر دینے والی ہواؤں کی قَسم،
ان ہواؤں کی قسم جو بادلوں کو منتشر کرنے والی ہیں
قسم ہے بکھیرنے والیوں کی اڑا کر
قَسم ہے ان (ہواؤں) کی جو گرد و غبار اڑاتی ہیں۔
فَٱلْحَٰمِلَٰتِ وِقْرًۭا ﴿٢﴾
پھر ا ن بادلوں کی جو بوجھ (بارش کا) اٹھانے والے ہیں
پھر پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھانے والی ہیں
پھر بوجھ اٹھانے والیاں
پھر (پانی کا) بوجھ اٹھاتی ہیں
اور (پانی کا) بارِ گراں اٹھانے والی بدلیوں کی قَسم،
بھر بادل کا بوجھ اٹھانے والی ہیں
پھر اٹھانے والیاں بوجھ کو
پھر ان (بادلوں) کی جو پانی کا بوجھ اٹھانے والے ہیں۔
فَٱلْجَٰرِيَٰتِ يُسْرًۭا ﴿٣﴾
پھر ان کشتیوں کی جو نرمی سے چلنے والی ہیں
پھر سبک رفتاری کے ساتھ چلنے والی ہیں
پھر نرم چلنے والیاں
پھر آہستہ آہستہ چلتی ہیں
اور خراماں خراماں چلنے والی کشتیوں کی قَسم،
پھر دھیرے دھیرے چلنے والی ہیں
پھر چلنے والیاں نرمی سے
پھر ان (کشتیوں) کی جو دھیمی رفتار سے چلنے والی ہیں۔
فَٱلْمُقَسِّمَٰتِ أَمْرًا ﴿٤﴾
پھر ان فرشتوں کی جو حکم کے موافق چیزیں تقسیم کرنے واے ہیں
پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں
پھر حکم سے بانٹنے والیاں
پھر چیزیں تقسیم کرتی ہیں
اور کام تقسیم کرنے والے فرشتوں کی قَسم،
پھر ایک امر کی تقسیم کرنے والی ہیں
پھر کام کو تقسیم کرنے والیاں
پھر ان (فرشتوں کی) جو معاملہ کے تقسیم کرنے والے ہیں۔
إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌۭ ﴿٥﴾
بے شک جس قیامت کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہےوہ سچ ہے
حق یہ ہے کہ جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جا رہا ہے وہ سچی ہے
بیشک جس بات کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے ضروری سچ ہے،
کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ سچا ہے
بیشک (آخرت کا) جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے بالکل سچا ہے،
تم سے جس بات کا وعدہ کیا گیا ہے وہ سچی ہے
یقین مانو کہ تم سے جو وعدے کیے جاتے ہیں (سب) سچے ہیں
بےشک تم سے جو وعدہ کیا گیا ہے وہ سچا ہے۔
وَإِنَّ ٱلدِّينَ لَوَٰقِعٌۭ ﴿٦﴾
اور بے شک اعمال کی جزا ضرور ہونے والی ہے
اور جزائے اعمال ضرور پیش آنی ہے
اور بیشک انصاف ضرور ہونا
اور انصاف (کا دن) ضرور واقع ہوگا
اور بیشک (اعمال کی) جزا و سزا ضرور واقع ہو کر رہے گی،
اور جزا و سزا بہرحال واقع ہونے والی ہے
اور بیشک انصاف ہونے واﻻ ہے
اور بےشک جزا وسزا ضرور واقع ہو نے والی ہے۔
وَٱلسَّمَآءِ ذَاتِ ٱلْحُبُكِ ﴿٧﴾
آسمان جالی دار کی قسم ہے
قسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی
آرائش والے آسمان کی قسم
اور آسمان کی قسم جس میں رسے ہیں
اور (ستاروں اور سیّاروں کی) کہکشاؤں اور گزرگاہوں والے آسمان کی قَسم،
اور مختلف راستوں والے آسمان کی قسم
قسم ہے راہوں والے آسمان کی
اور قَسم ہے راستوں والے آسمان کی۔
إِنَّكُمْ لَفِى قَوْلٍۢ مُّخْتَلِفٍۢ ﴿٨﴾
البتہ تم پیچیدہ بات میں پڑے ہوئے ہو
(آخرت کے بارے میں) تمہاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے
تم مختلف بات میں ہو
کہ (اے اہل مکہ) تم ایک متناقض بات میں (پڑے ہوئے) ہو
بیشک تم مختلف بے جوڑ باتوں میں (پڑے) ہو،
کہ تم لوگ مختلف باتوں میں پڑے ہوئے ہو
یقیناً تم مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو
تم مختلف (بےجوڑ) باتوں میں پڑے ہوئے ہو۔
يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ﴿٩﴾
قرآن سے وہی روکا جاتا ہےجوازل سے گمراہ ہے
اُس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے
اس قرآن سے وہی اوندھا کیا جاتا ہے جس کی قسمت ہی میں اوندھایا جانا ہو
اس سے وہی پھرتا ہے جو (خدا کی طرف سے) پھیرا جائے
اِس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن سے) وہی پھرتا ہے جِسے (علمِ ازلی سے) پھیر دیا گیا،
حق سے وہی گمراہ کیا جاسکتا ہے جو بہکایا جاچکا ہے
اس سے وہی باز رکھا جاتا ہے جو پھیر دیا گیا ہو
اس (دین) سے پھرتا وہی ہے جو (حق سے) پھرا ہوا ہے۔
قُتِلَ ٱلْخَرَّٰصُونَ ﴿١٠﴾
اٹکل پچو باتیں بنانے والے غارت ہوں
مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے
مارے جایں دل سے تراشنے والے
اٹکل دوڑانے والے ہلاک ہوں
ظنّ و تخمین سے جھوٹ بولنے والے ہلاک ہو گئے،
بیشک اٹکل پچو لگانے والے مارے جائیں گے
بے سند باتیں کرنے والے غارت کر دیئے گئے
غارت ہوں اٹکل پچو باتیں بنانے والے۔
ٱلَّذِينَ هُمْ فِى غَمْرَةٍۢ سَاهُونَ ﴿١١﴾
وہ جو غفلت میں بھولے ہوئے ہیں
جو جہالت میں غرق اور غفلت میں مدہوش ہیں
جو نشے میں بھولے ہوئے ہیں
جو بےخبری میں بھولے ہوئے ہیں
جو جہالت و غفلت میں (آخرت کو) بھول جانے والے ہیں،
جو اپنی غفلت میں بھولے پڑے ہوئے ہیں
جو غفلت میں ہیں اور بھولے ہوئے ہیں
جو غفلت کے عالم میں مدہوش ہیں (بھولے پڑے ہیں)۔
يَسْـَٔلُونَ أَيَّانَ يَوْمُ ٱلدِّينِ ﴿١٢﴾
پوچھتے ہیں فیصلے کا دن کب ہوگا
پوچھتے ہیں آخر وہ روز جزاء کب آئے گا؟
پوچھتے ہیں انصاف کا دن کب ہوگا
پوچھتے ہیں کہ جزا کا دن کب ہوگا؟
پوچھتے ہیں یومِ جزا کب ہو گا؟،
یہ پوچھتے ہیں کہ آخر قیامت کا دن کب آئے گا
پوچھتے ہیں کہ یوم جزا کب ہوگا؟
وہ پوچھتے ہیں کہ جزا و سزا کا دن کب آئے گا؟
يَوْمَ هُمْ عَلَى ٱلنَّارِ يُفْتَنُونَ ﴿١٣﴾
جس دن وہ آگ پر عذاب دیے جائیں گے
وہ اُس روز آئے گا جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے
اس دن ہوگا جس دن وہ آگ پر تپائے جائیں گے
اُس دن (ہوگا) جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا
(فرما دیجئے:) اُس دن (ہوگا جب) وہ آتشِ دوزخ میں تپائے جائیں گے،
تو یہ وہی دن ہے جس دن انہیں جہّنم کی آگ پر تپایا جائے گا
ہاں یہ وه دن ہے کہ یہ آگ پر تپائے جائیں گے
جس دن یہ لوگ آگ میں تپائے جائیں گے۔
ذُوقُوا۟ فِتْنَتَكُمْ هَٰذَا ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تَسْتَعْجِلُونَ ﴿١٤﴾
اپنی شرارت کا مزہ چکہو یہی ہے وہ (عذاب) جس کی تم جلدی کرتے تھے
(اِن سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنے فتنے کا یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے
اور فرمایا جائے گا چکھو اپنا تپنا، یہ ہے وہ جس کی تمہیں جلدی تھی
اب اپنی شرارت کا مزہ چکھو۔ یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے
(اُن سے کہا جائے گا:) اپنی سزا کا مزہ چکھو، یہی وہ عذاب ہے جسے تم جلدی مانگتے ہو،
کہ اب اپنا عذاب چکھو اور یہی وہ عذاب ہے جس کی تم جلدی مچائے ہوئے تھے
اپنی فتنہ پردازی کا مزه چکھو، یہی ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے
اور) ان سے کہا جائے گا کہ اپنے فتنہ کا مزا چکھو یہی وہ عذاب ہے جس کی تم جلدی کیا کرتے تھے۔
إِنَّ ٱلْمُتَّقِينَ فِى جَنَّٰتٍۢ وَعُيُونٍ ﴿١٥﴾
بے شک پرہیزگار باغات اور چشموں میں ہوں گے
البتہ متقی لوگ اُس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے
بیشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں ہیں
بےشک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں (عیش کر رہے) ہوں گے
بیشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں (لطف اندوز ہوتے) ہوں گے،
بیشک متقی افراد باغات اور چشموں کے درمیان ہوں گے
بیشک تقویٰ والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے
بےشک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور باغوں میں ہوں گے۔
ءَاخِذِينَ مَآ ءَاتَىٰهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا۟ قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ ﴿١٦﴾
لے رہے ہوں گے جو کچھ انہیں ان کا رب عطا کرے گا بے شک وہ اس سے پہلے نیکو کار تھے
جو کچھ اُن کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے وہ اُس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے
اپنے رب کی عطائیں لیتے ہوئے، بیشک وہ اس سے پہلے نیکو کار تھے،
اور) جو جو (نعمتیں) ان کا پروردگار انہیں دیتا ہوگا ان کو لے رہے ہوں گے۔ بےشک وہ اس سے پہلے نیکیاں کرتے تھے
اُن نعمتوں کو (کیف و سرور) سے لیتے ہوں گے جو اُن کا رب انہیں (لطف و کرم سے) دیتا ہوگا، بیشک یہ وہ لوگ ہیں جو اس سے قبل (کی زندگی میں) صاحبانِ احسان تھے،
جو کچھ ان کا پروردگار عطا کرنے والا ہے اسے وصول کررہے ہوں گے کہ یہ لوگ پہلے سے نیک کردار تھے
ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اسے لے رہے ہوں گے وه تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے
اور ان کا پروردگار جو کچھ انہیں عطا کرے گا وہلے رہے ہوں گے بےشک وہ اس (دن) سے پہلے ہی (دنیا میں) نیکوکار تھے۔
كَانُوا۟ قَلِيلًۭا مِّنَ ٱلَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ﴿١٧﴾
وہ رات کے وقت تھوڑا عرصہ سویا کرتے تھے
راتوں کو کم ہی سوتے تھے
وہ رات میں کم سویا کرتے
رات کے تھوڑے سے حصے میں سوتے تھے
وہ راتوں کو تھوڑی سی دیر سویا کرتے تھے،
یہ رات کے وقت بہت کم سوتے تھے
وه رات کو بہت کم سویا کرتے تھے
یہ لوگ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔
وَبِٱلْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿١٨﴾
اور آخر رات میں مغفرت مانگا کرتے تھے
پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے
اور پچھلی رات استغفار کرتے
اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے
اور رات کے پچھلے پہروں میں (اٹھ اٹھ کر) مغفرت طلب کرتے تھے،
اور سحر کے وقت اللہ کی بارگاہ میں استغفار کیا کرتے تھے
اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے
اور صبح سحر کے وقت مغفرت طلب کیا کرتے تھے۔
وَفِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّۭ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ ﴿١٩﴾
اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے اور محتاج کا حق ہوتا تھا
اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے
اور ان کے مالوں میں حق تھا منگتا اور بے نصیب کا
اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا
اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا،
اور ان کے اموال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محروم افراد کے لئے ایک حق تھا
اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا
اور ان کے مالوں میں سے سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے محتاج سب کا حصہ تھا۔
وَفِى ٱلْأَرْضِ ءَايَٰتٌۭ لِّلْمُوقِنِينَ ﴿٢٠﴾
اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں
زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے
اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کو
اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
اور زمین میں صاحبانِ ایقان (یعنی کامل یقین والوں) کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں،
اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں
اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں
اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے (ہماری قدرت کی) نشانیاں ہیں۔
وَفِىٓ أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿٢١﴾
اور خود تمہاری نفسوں میں بھی پس کیا تم غور سے نہیں دیکھتے
اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہیں کیا تم کو سوجھتا نہیں؟
اور خود تم میں تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں،
اور خود تمہارے نفوس میں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟
اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہیں)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو،
اور خود تمہارے اندر بھی - کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو
اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو
اور خود تمہارے وجود کے اندر بھی۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟
وَفِى ٱلسَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ﴿٢٢﴾
اور تمہاری روزی آسمان میں ہے اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے
آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے
اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے
اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے
اور آسمان میں تمہارا رِزق (بھی) ہے اور وہ (سب کچھ بھی) جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے،
اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور جن باتوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے سب کچھ موجود ہے
اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعده کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے
اور آسمان میں تمہاری روزی بھی ہے اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ وعید کیا جاتا ہے۔
فَوَرَبِّ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ إِنَّهُۥ لَحَقٌّۭ مِّثْلَ مَآ أَنَّكُمْ تَنطِقُونَ ﴿٢٣﴾
پس آسمان اور زمین کے مالک کی قسم ہے بے شک یہ (قرآن) برحق ہے جیسا تم باتیں کرتے ہو
پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی، یہ بات حق ہے، ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو
تو آسمان اور زمین کے رب کی قسم بیشک یہ قرآن حق ہے ویسی ہی زبان میں جو تم بولتے ہو،
تو آسمانوں اور زمین کے مالک کی قسم! یہ (اسی طرح) قابل یقین ہے جس طرح تم بات کرتے ہو
پس آسمان اور زمین کے مالک کی قَسم! یہ (ہمارا وعدہ) اسی طرح یقینی ہے جس طرح تمہارا اپنا بولنا (تمہیں اس پر کامل یقین ہوتا ہے کہ منہ سے کیا کہہ رہے ہو)،
آسمان و زمین کے مالک کی قسم یہ قرآن بالکل برحق ہے جس طرح تم خو دباتیں کررہے ہو
آسمان وزمین کے پروردگار کی قسم! کہ یہ بالکل برحق ہے ایسا ہی جیسے کہ تم باتیں کرتے ہو
پس قَسم ہے آسمان و زمین کے پروردگار کی کہ یہ بات حق ہے جیسے کہ تم بو لتے ہو۔
هَلْ أَتَىٰكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَٰهِيمَ ٱلْمُكْرَمِينَ ﴿٢٤﴾
کیا آپ کو ابراھیم کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی ہے
اے نبیؐ، ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمہیں پہنچی ہے؟
اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی
بھلا تمہارے پاس ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے؟
کیا آپ کے پاس ابراہیم (علیہ السلام) کے معزّز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے،
کیا تمہارے پاس ابراہیم علیھ السّلام کے محترم مہمانوں کا ذکر پہنچا ہے
کیا تجھے ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟
(اے حبیب(ص)!) کیا آپ تک ابراہیم (ع) کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی ہے؟
إِذْ دَخَلُوا۟ عَلَيْهِ فَقَالُوا۟ سَلَٰمًۭا ۖ قَالَ سَلَٰمٌۭ قَوْمٌۭ مُّنكَرُونَ ﴿٢٥﴾
جب کہ وہ اس پر داخل ہوئے پھر انہوں نے سلام کیا ابراھیم نے سوال کا جواب دیا (خیال کیا) کچھ اجنبی سے لوگ ہیں
جب وہ اُس کے ہاں آئے تو کہا آپ کو سلام ہے اُس نے کہا \"آپ لوگوں کو بھی سلام ہے کچھ نا آشنا سے لوگ ہیں\"
جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا، سلام ناشناسا لوگ ہیں
جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا (دیکھا تو) ایسے لوگ کہ نہ جان نہ پہچان
جب وہ (فرشتے) اُن کے پاس آئے تو انہوں نے سلام پیش کیا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی (جواباً) سلام کہا، (ساتھ ہی دل میں سوچنے لگے کہ) یہ اجنبی لوگ ہیں،
جب وہ ان کے پاس وارد ہوئے اور سلام کیا تو ابراہیم علیھ السّلامنے جواب سلام دیتے ہوئے کہا کہ تم تو انجانی قوم معلوم ہوتے ہو
وه جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، ابراہیم نے جواب سلام دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں
کہ جب وہ آپ(ع) کے پاس آئے تو سلام کیا آپ(ع) نے بھی (جواب میں) سلام کیا۔ (پھر دل میں کہا) کچھ اجنبی لوگ ہیں۔
فَرَاغَ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦ فَجَآءَ بِعِجْلٍۢ سَمِينٍۢ ﴿٢٦﴾
پس چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور ایک موٹا بچھڑا (تلا ہوا) لایا
پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا، اور ایک موٹا تازہ بچھڑا لا کر
پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا
تو اپنے گھر جا کر ایک (بھنا ہوا) موٹا بچھڑا لائے
پھر جلدی سے اپنے گھر کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے کی سجّی لے آئے،
پھر اپنے گھر جاکر ایک موٹا تازہ بچھڑا تیار کرکے لے آئے
پھر (چﭗ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے (کا گوشت) ﻻئے
پس چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور (تھوڑی دیر میں) ایک موٹا تازہ (بھنا ہوا) بچھڑالے آئے۔
فَقَرَّبَهُۥٓ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ ﴿٢٧﴾
پھر ان کے سامنے لا رکھا فرمایا کیا تم کھاتے نہیں
مہمانوں کے آگے پیش کیا اُس نے کہا آپ حضرات کھاتے نہیں؟
پھر اسے ان کے پاس رکھا کہا کیا تم کھاتے نہیں،
(اور کھانے کے لئے) ان کے آگے رکھ دیا۔ کہنے لگے کہ آپ تناول کیوں نہیں کرتے؟
پھر اسے ان کے سامنے پیش کر دیا، فرمانے لگے: کیا تم نہیں کھاؤ گے،
پھر ان کی طرف بڑھادیا اور کہا کیا آپ لوگ نہیں کھاتے ہیں
اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں
جسے مہمانوں کے سامنے پیش کیا (مگر جب انہوں نے ہاتھ نہ بڑھائے تو) کہا آپ کھاتے کیوں نہیں؟
فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةًۭ ۖ قَالُوا۟ لَا تَخَفْ ۖ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَٰمٍ عَلِيمٍۢ ﴿٢٨﴾
پھر ان سے خوف محسوس کیا انہوں نے کہا تم ڈرو نہیں اور انہوں نے اسے ایک دانشمند لڑکے کی خوشخبری دی
پھر وہ اپنے دل میں ان سے ڈرا انہوں نے کہا ڈریے نہیں، اور اُسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مژدہ سنایا
تو اپنے جی میں ان سے ڈرنے لگا وہ بولے ڈریے نہیں اور اسے ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی،
اور دل میں ان سے خوف معلوم کیا۔ (انہوں نے) کہا کہ خوف نہ کیجیئے۔ اور ان کو ایک دانشمند لڑکے کی بشارت بھی سنائی
پھر اُن (کے نہ کھانے) سے دل میں ہلکی سے گھبراہٹ محسوس کی۔ وہ (فرشتے) کہنے لگے: آپ گھبرائیے نہیں، اور اُن کو علم و دانش والے بیٹے (اسحاق علیہ السلام) کی خوشخبری سنا دی،
پھر اپنے نفس میں خوف کا احساس کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں اور پھر انہیں ایک دانشمند فرزند کی بشارت دیدی
پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوفزده ہوگئے انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے۔ اور انہوں نے اس (حضرت ابراہیم) کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی
(مگر جب انہوں نے پھر بھی کچھ نہ کھایا) تو آپ(ع) نے ان لوگوں سے اپنے اندر کچھ خوف محسوس کیا ان (مہمانوں نے) کہا ڈرئیے نہیں! اور پھر انہیں ایک صاحبِ علم بیٹے کی ولادت کی خوشخبری دی۔
فَأَقْبَلَتِ ٱمْرَأَتُهُۥ فِى صَرَّةٍۢ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌۭ ﴿٢٩﴾
پھر ان کی بیوی شور مچاتی ہوئی آگے بڑھی اور اپنا ماتھا پیٹ کر کہنے لگی کیا بڑھیا بانجھ جنے گی
یہ سن کر اُس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہنے لگی، \"بوڑھی، بانجھ!\"
اس پر اس کی بی بی چلاتی آئی پھر اپنا ماتھا ٹھونکا اور بولی کیا بڑھیا بانجھ
تو ابراہیمؑ کی بیوی چلاّتی آئی اور اپنا منہ پیٹ کر کہنے لگی کہ (اے ہے ایک تو) بڑھیا اور (دوسرے) بانجھ
پھر اُن کی بیوی (سارہ) حیرت و حسرت کی آواز نکالتے ہوئے متوجہ ہوئیں اور تعجّب سے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہنے لگی: (کیا) بوڑھیا بانجھ عورت (بچہ جنے گی؟)،
یہ سن کر ان کی زوجہ شور مچاتی ہوئی آئیں اور انہوں نے منہ پیٹ لیا کہ میں بڑھیا بانجھ (یہ کیا بات ہے
پس ان کی بیوی آگے بڑھی اور حیرت میں آکر اپنے منھ پر ہاتھ مار کر کہا کہ میں تو بوڑھیا ہوں اور ساتھ ہی بانجھ
پس آپ(ع) کی بیوی (سارہ) چیختی ہوئی آئی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہا بوڑھی، بانجھ؟ (بچہ کس طرح ہوگا؟)
قَالُوا۟ كَذَٰلِكِ قَالَ رَبُّكِ ۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْعَلِيمُ ﴿٣٠﴾
انہوں نے کہا تیرے رب نے یونہی فرمایا ہے بے شک وہ حکمت والا دانا ہے
انہوں نے کہا \"یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے\"
انہوں نے کہا تمہارے رب نے یونہی فرمادیا، اور وہی حکیم دانا ہے،
(انہوں نے) کہا (ہاں) تمہارے پروردگار نے یوں ہی فرمایا ہے۔ وہ بےشک صاحبِ حکمت (اور) خبردار ہے
(فرشتوں نے) کہا: ایسے ہی ہوگا، تمہارے رب نے فرمایا ہے۔ بیشک وہ بڑی حکمت والا بہت علم والا ہے،
ان لوگوں نے کہا یہ ایسا ہی ہوگا یہ تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے وہ بڑی حکمت والا اور ہر چیز کا جاننے والا ہے
انہوں نے کہا ہاں تیرے پروردگار نے اسی طرح فرمایا ہے، بیشک وه حکیم وعلیم ہے
انہوں نے کہا! تمہارے پروردگار نے ایسا ہی کہا ہے بےشک وہ بڑا علیم و حکیم ہے۔
۞ قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا ٱلْمُرْسَلُونَ ﴿٣١﴾
فرمایا اے رسولو! تمہارا کیا مطلب ہے
ابراہیمؑ نے کہا \"اے فرستادگان الٰہی، کیا مہم آپ کو در پیش ہے؟
ابراہیم نے فرمایا تو اے فرشتو! تم کس کام سے آئے
ابراہیمؑ نے کہا کہ فرشتو! تمہارا مدعا کیا ہے؟
(ابراہیم علیہ السلام نے) کہا: اے بھیجے ہوئے فرشتو! (اس بشارت کے علاوہ) تمہارا (آنے کا) بنیادی مقصد کیا ہے،
ابراہیم علیھ السّلام نے کہا کہ اے فرشتو تمہیں کیا مہم درپیش ہے
(حضرت ابرہیم علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو!) تمہارا کیا مقصد ہے؟
آپ (ابراہیم(ع)) نے کہا اے فرستادو آخر تمہاری مہم کیا ہے؟
قَالُوٓا۟ إِنَّآ أُرْسِلْنَآ إِلَىٰ قَوْمٍۢ مُّجْرِمِينَ ﴿٣٢﴾
انہوں نے کہا ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں
انہوں نے کہا \"ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں
بولے ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم گنہگار لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں
انہوں نے کہا: ہم مجرِم قوم (یعنی قومِ لُوط) کی طرف بھیجے گئے ہیں،
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک مجرم قوم کی طرف بھیجا گیا ہے
انہوں نے جواب دیا کہ ہم گناه گار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم (قومِ لوط(ع)) کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةًۭ مِّن طِينٍۢ ﴿٣٣﴾
تاکہ ہم ان پر مٹی کے پتھر برسائیں
تاکہ اُس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسا دیں
کہ ان پر گارے کے بنائے ہوئے پتھر چھوڑیں،
تاکہ ان پر کھنگر برسائیں
تاکہ ہم اُن پر مٹی کے پتھریلے کنکر برسائیں،
تاکہ ان کے اوپر مٹی کے کھرنجے دار پتھر برسائیں
تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں
تاکہ ہم ان پر ایسے سنگ گل (سخت مٹی کے پتھر) برسائیں۔
مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِينَ ﴿٣٤﴾
وہ آپ کے رب کی طرف حدسے بڑھنے والوں کے لیے مقرر ہو چکے ہیں
جو آپ کے رب کے ہاں حد سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زدہ ہیں\"
جو تمہارے رب کے پاس حد سے بڑھنے والوں کے لیے نشان کیے رکھے ہیں
جن پر حد سے بڑھ جانے والوں کے لئے تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان کردیئے گئے ہیں
(وہ پتھر جن پر) حد سے گزر جانے والوں کے لئے آپ کے رب کی طرف سے نشان لگا دیا گیا ہے،
جن پر پروردگار کی طرف سے حد سے گزر جانے والوں کے لئے نشانی لگی ہوئی ہے
جو تیرے رب کی طرف سے نشان زده ہیں، ان حد سے گزر جانے والوں کے لیے
جو آپ(ع) کے پروردگار کی طرف سے نشان زدہ ہیں حد سے بڑھنے والوں کیلئے۔
فَأَخْرَجْنَا مَن كَانَ فِيهَا مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴿٣٥﴾
پھر ہم نے نکال لیا جو بھی وہا ں ایمان دار تھا
پھر ہم نے اُن سب لوگوں کو نکال لیا جو اُس بستی میں مومن تھے
تو ہم نے اس شہر میں جو ایمان والے تھے نکال لیے،
تو وہاں جتنے مومن تھے ان کو ہم نے نکال لیا
پھر ہم نے ہر اُس شخص کو (قومِ لُوط کی بستی سے) باہر نکال دیا جو اس میں اہلِ ایمان میں سے تھا،
پھر ہم نے اس بستی کے تمام مومنین کو باہر نکال لیا
پس جتنے ایمان والے وہاں تھے ہم نے انہیں نکال لیا
سو وہاں جتنے اہلِ ایمان تھے ہم نے ان کو نکال لیا۔
فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍۢ مِّنَ ٱلْمُسْلِمِينَ ﴿٣٦﴾
پھر ہم نے وہاں سوائے مسلمانوں کے ایک گھر کے نہ پایا
اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا
تو ہم نے وہاں ایک ہی گھر مسلمان پایا
اور اس میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا
سو ہم نے اُس بستی میں مسلمانوں کے ایک گھر کے سوا (اور کوئی گھر) نہیں پایا (اس میں حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی دو صاحبزادیاں تھیں)،
اور وہاں مسلمانوں کے ایک گھر کے علاوہ کسی کو پایا بھی نہیں
اور ہم نے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر پایا
اور ہم نے ایک گھر کے سوا اور مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔
وَتَرَكْنَا فِيهَآ ءَايَةًۭ لِّلَّذِينَ يَخَافُونَ ٱلْعَذَابَ ٱلْأَلِيمَ ﴿٣٧﴾
اورہم نے اس واقعہ میں ایسے لوگو ں کے لیے ایک عبرت رہنے دی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں
اس کے بعد ہم نے وہاں بس ایک نشانی اُن لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہوں
اور ہم نے اس میں نشانی باقی رکھی ان کے لیے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں
اور جو لوگ عذاب الیم سے ڈرتے ہیں ان کے لئے وہاں نشانی چھوڑ دی
اور ہم نے اُس (بستی) میں اُن لوگوں کے لئے (عبرت کی) ایک نشانی باقی رکھی جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں،
اور وہاں ان لوگوں کے لئے ایک نشانی بھی چھوڑ دی جو دردناک عذاب سے ڈرنے والے ہیں
اور وہاں ہم نے ان کے لیے جو درد ناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک (کامل) علامت چھوڑی
اور ہم نے اس (واقعہ) میں ایک نشانی چھوڑ دی ہے ان لوگوں کے لئے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔
وَفِى مُوسَىٰٓ إِذْ أَرْسَلْنَٰهُ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ بِسُلْطَٰنٍۢ مُّبِينٍۢ ﴿٣٨﴾
اور موسیٰ کے قصہ میں بھی عبرت ہے جب کہ ہم نے فرعون کے پا س ایک کھلی دلیل دے کر بھیجا
اور (تمہارے لیے نشانی ہے) موسیٰؑ کے قصے میں جب ہم نے اُسے صریح سند کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا
اور موسیٰ میں جب ہم نے اسے روشن سند لے کر فرعون کے پاس بھیجا
اور موسیٰ (کے حال) میں (بھی نشانی ہے) جب ہم نے ان کو فرعون کی طرف کھلا ہوا معجزہ دے کر بھیجا
اور موسٰی (علیہ السلام کے واقعہ) میں (بھی نشانیاں ہیں) جب ہم نے انہیں فرعون کی طرف واضح دلیل دے کر بھیجا،
اور موسٰی علیھ السّلام کے واقعہ میں بھی ہماری نشانیاں ہیں جب ہم نے ان کو فرعون کی طرف کھلی ہوئی دلیل دے کر بھیجا
موسیٰ (علیہ السلام کے قصے) میں (بھی ہماری طرف سے تنبیہ ہے) کہ ہم نے اسے فرعون کی طرف کھلی دلیل دے کر بھیجا
اور جنابِ موسیٰ (ع) کے قصہ میں بھی (ایک نشانی ہے) جبکہ ہم نے ان کو فرعون کے پاس ایک واضح سند کے ساتھ بھیجا۔
فَتَوَلَّىٰ بِرُكْنِهِۦ وَقَالَ سَٰحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌۭ ﴿٣٩﴾
سو اس نے مع اپنے ارکانِ سلطنت کے سرتابی کی اور کہا یہ جادوگر یا دیوانہ ہے
تو وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا اور بولا یہ جادوگر ہے یا مجنوں ہے
تو اپنے لشکر سمیت پھر گیا اورت بولا جادوگر ہے یا دیوانہ،
تو اس نے اپنی جماعت (کے گھمنڈ) پر منہ موڑ لیا اور کہنے لگا یہ تو جادوگر ہے یا دیوانہ
تو اُس نے اپنے اراکینِ سلطنت سمیت رُوگردانی کی اور کہنے لگا: (یہ) جادوگر یا دیوانہ ہے،
تو اس نے لشکر کے دِم پر منہ موڑ لیا اور کہا کہ یہ جادوگر یا دیوانہ ہے
پس اس نےاپنے بل بوتے پر منھ موڑا اور کہنے لگا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے
تو اس نے اپنی طاقت کے بِرتے پر رُوگردانی کی اور کہا کہ (یہ شخص) جادوگر ہےیا دیوانہ؟
فَأَخَذْنَٰهُ وَجُنُودَهُۥ فَنَبَذْنَٰهُمْ فِى ٱلْيَمِّ وَهُوَ مُلِيمٌۭ ﴿٤٠﴾
پھر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا پھر ہم نے انہیں سمند رمیں پھینک دیا اور اس نے کام ہی ملامت کا کیا تھا
آخر کار ہم نے اُسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہو کر رہ گیا
تو ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں ڈال دیا اس حال میں کہ وہ اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا
تو ہم نے اس کو اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور ان کو دریا میں پھینک دیا اور وہ کام ہی قابل ملامت کرتا تھا
پھر ہم نے اُسے اور اُس کے لشکر کو (عذاب کی) گرفت میں لے لیا اور اُن (سب) کو دریا میں غرق کر دیا اور وہ تھا ہی قابلِ ملامت کام کرنے والا،
تو ہم نے اسے اور اس کی فوج کو گرفت میں لے کر دریا میں ڈال دیا اور وہ قابل ملامت تھا ہی
بالﺂخر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو اپنے عذاب میں پکڑ کر دریا میں ڈال دیا وه تھا ہی ملامت کے قابل
انجامِ کار ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا درآنحالیکہ وہ قابلِ ملامت تھا۔
وَفِى عَادٍ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ ٱلرِّيحَ ٱلْعَقِيمَ ﴿٤١﴾
اور قوم عاد میں بھی (عبرت ہے) جب ہم نے ان پر سخت آندھی بھیجی
اور (تمہارے لیے نشانی ہے) عاد میں، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا بھیج دی
اور عاد میں جب ہم نے ان پر خشک آندھی بھیجی
اور عاد (کی قوم کے حال) میں بھی (نشانی ہے) جب ہم نے ان پر نامبارک ہوا چلائی
اور (قومِ) عاد (کی ہلاکت) میں بھی (نشانی) ہے جبکہ ہم نے اُن پر بے خیر و برکت ہوا بھیجی،
اور قوم عاد میں بھی ایک نشانی ہے جب ہم نے ان کی طرف بانجھ ہوا کو چلا دیا
اسی طرح عادیوں میں بھی (ہماری طرف سے تنبیہ ہے) جب کہ ہم نے ان پر خیر وبرکت سے خالی آندھی بھیجی
اور قبیلۂ عاد (کی داستان) میں بھی (نشانی موجود ہے) جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بےبرکت ہوا بھیجی۔
مَا تَذَرُ مِن شَىْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَٱلرَّمِيمِ ﴿٤٢﴾
جو کسی چیز کو نہ چھوڑتی جس پر سے وہ گزرتی مگر اسے بوسیدہ ہڈیوں کی طرح کر دیتی
کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا
جس چیز پر گزرتی اسے گلی ہوئی چیز کی طرح چھوڑتی
وہ جس چیز پر چلتی اس کو ریزہ ریزہ کئے بغیر نہ چھوڑتی
وہ جس چیز پر بھی گزرتی تھی اسے ریزہ ریزہ کئے بغیر نہیں چھوڑتی تھی،
کہ جس چیز کے پاس سے گزر جاتی تھی اسے بوسیدہ ہڈی کی طرح ریزہ ریزہ کردیتی تھی
وه جس جس چیز پر گرتی تھی اسے بوسیده ہدی کی طرح (چورا چورا) کردیتی تھی
جو جس چیز سے بھی گزرتی تھی اسے ریزہ ریزہ کر دیتی تھی۔
وَفِى ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا۟ حَتَّىٰ حِينٍۢ ﴿٤٣﴾
اور قوم ثمود میں بھی (عبرت ہے) جب ہ ان سے کہا گیا ایک وقت معین تک کا فائدہ اٹھاؤ
اور (تمہارے لیے نشانی ہے) ثمود میں، جب اُن سے کہا گیا تھا کہ ایک خاص وقت تک مزے کر لو
اور ثمود میں جب ان سے فرمایا گیا ایک وقت تک برت لو
اور (قوم) ثمود (کے حال) میں (نشانی ہے) جب ان سے کہا گیا کہ ایک وقت تک فائدہ اٹھالو
اور (قومِ) ثمود (کی ہلاکت) میں بھی (عبرت کی نشانی ہے) جبکہ اُن سے کہا گیا کہ تم ایک معیّنہ وقت تک فائدہ اٹھا لو،
اور قوم ثمود میں بھی ایک نشانی ہے جب ان سے کہا گیا کہ تھوڑے دنوں مزے کرلو
اور ﺛمود (کے قصے) میں بھی (عبرت) ہے جب ان سے کہا گیا کہ تم کچھ دنوں تک فائده اٹھا لو
اور قبیلۂ ثمود کی سرگزشت میں بھی (ایک نشانی ہے) جبکہ ان سے کہا گیا کہ تم ایک خاص وقت تک (دنیا کی نعمتوں) سے فائدہ اٹھا لو۔
فَعَتَوْا۟ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ فَأَخَذَتْهُمُ ٱلصَّٰعِقَةُ وَهُمْ يَنظُرُونَ ﴿٤٤﴾
پھر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی تو ان کو بجلی نے آ پکڑا اوروہ دیکھ رہے تھے
مگر اس تنبیہ پر بھی انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی آخر کار ان کے دیکھتے دیکھتے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب نے اُن کو آ لیا
تو انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی تو ان کی آنکھوں کے سامنے انہیں کڑک نے آلیا
تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی۔ سو ان کو کڑک نے آ پکڑا اور وہ دیکھ رہے تھے
تو انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی، پس انہیں ہولناک کڑک نے آن لیا اور وہ دیکھتے ہی رہ گئے،
تو ان لوگوں نے حکم خدا کی نافرمانی کی تو انہیں بجلی نے اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ دیکھتے ہی رہ گئے
لیکن انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی جس پر انہیں ان کے دیکھتے دیکھتے (تیز وتند) کڑاکے نے ہلاک کر دیا
تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی تو ان کو ایک کڑک نے پکڑ لیا درآنحالیکہ وہ دیکھ رہے تھے۔
فَمَا ٱسْتَطَٰعُوا۟ مِن قِيَامٍۢ وَمَا كَانُوا۟ مُنتَصِرِينَ ﴿٤٥﴾
پھر نہ تو وہ اٹھ ہی سکے اور نہ وہ بدلہ ہی لے سکے
پھر نہ اُن میں اٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچاؤ کر سکتے تھے
تو وہ نہ کھڑے ہوسکے اور نہ وہ بدلہ لے سکتے تھے،
پھر وہ نہ تو اُٹھنے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ مقابلہ ہی کرسکتے تھے
پھر وہ نہ کھڑے رہنے پر قدرت پا سکے اور نہ وہ (ہم سے) بدلہ لے سکنے والے تھے،
پھر نہ وہ اٹھنے کے قابل تھے اور نہ مدد طلب کرنے کے لائق تھے
پس نہ تو وه کھڑے ہو سکے اور نہ بدلہ لے سکے
(اس کے بعد) وہ نہ تو کھڑے ہی ہو سکے اور نہ ہی اپنی کوئی مدافعت کر سکے۔
وَقَوْمَ نُوحٍۢ مِّن قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا۟ قَوْمًۭا فَٰسِقِينَ ﴿٤٦﴾
اور قوم نوح کو اس سے پہلے (ہلاک کر دیا) بے شک وہ نافرمان لوگ تھے
اور ان سب سے پہلے ہم نے نوحؑ کی قوم کو ہلاک کیا کیونکہ وہ فاسق لوگ تھے
اور ان سے پہلے قوم نوح کو ہلاک فرمایا، بیشک وہ فاسق لوگ تھے،
اور اس سے پہلے (ہم) نوح کی قوم کو (ہلاک کرچکے تھے) بےشک وہ نافرمان لوگ تھے
اور اس سے پہلے نُوح (علیہ السلام) کی قوم کو (بھی ہلاک کیا)، بیشک وہ سخت نافرمان لوگ تھے،
اور ان سے پہلے قوم نوح تھی کہ وہ تو سب ہی فاسق اور بدکار تھے
اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہو چکا تھا) وه بھی بڑے نافرمان لوگ تھے
اور قومِ نوح(ع) کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہوا) ہم نے اسے ہلاک کر دیا کیونکہ وہ بڑے نافرمان لوگ تھے۔
وَٱلسَّمَآءَ بَنَيْنَٰهَا بِأَيْي۟دٍۢ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ﴿٤٧﴾
اور ہم نے آسمان کو قدرت سے بنایا اور ہم وسیع قدرت رہنے والے ہیں
آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اِس کی قدرت رکھتے ہیں
اور آسمان کو ہم نے ہاتھوں سے بنایا اور بیشک ہم وسعت دینے والے ہیں
اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم کو سب مقدور ہے
اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں،
اور آسمان کو ہم نے اپنی طاقت سے بنایا ہے اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں
آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں
اور ہم نے آسمان کو (اپنی) قدرت سے بنایا اور بیشک ہم زیادہ وسعت دینے والے ہیں۔
وَٱلْأَرْضَ فَرَشْنَٰهَا فَنِعْمَ ٱلْمَٰهِدُونَ ﴿٤٨﴾
اورہم نے ہی زمین کو بچھایا پھر ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں
زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں
اور زمین کو ہم نے فرش کیا تو ہم کیا ہی اچھے بچھالے والے،
اور زمین کو ہم ہی نے بچھایا تو (دیکھو) ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں
اور (سطحِ) زمین کو ہم ہی نے (قابلِ رہائش) فرش بنایا سو ہم کیا خوب سنوارنے اور سیدھا کرنے والے ہیں،
اور زمین کو ہم نے فرش کیا ہے تو ہم بہترین ہموار کرنے والے ہیں
اور زمین کو ہم نے فرش بنا دیاہے پس ہم بہت ہی اچھے بچھانے والے ہیں
اور ہم نے زمین کافرش بچھایا تو ہم کتنے اچھے فرش بچھانے والے ہیں۔
وَمِن كُلِّ شَىْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٤٩﴾
اور ہم نے ہی ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا تاکہ تم غور کرو
اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو
اور ہم نے ہر چیز کے دو جوڑ بنائے کہ تم دھیان کرو
اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں تاکہ تم نصیحت پکڑو
اور ہم نے ہر چیز سے دو جوڑے پیدا فرمائے تاکہ تم دھیان کرو اور سمجھو،
اور ہر شے میں سے ہم نے جوڑا بنایا ہے کہ شاید تم نصیحت حاصل کرسکو
اور ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیداکیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو
اور ہم نے ہر چیز کے جو ڑے پیدا کئے (ہر چیز کو دو دو قِسم کابنایا) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
فَفِرُّوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ۖ إِنِّى لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌۭ مُّبِينٌۭ ﴿٥٠﴾
پھر الله کی طرف دوڑو بے شک میں تمہارے لیے الله کی طرف سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں
تو دوڑو اللہ کی طرف، میں تمہارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں
تو اللہ کی طرف بھاگو بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں،
تو تم لوگ خدا کی طرف بھاگ چلو میں اس کی طرف سے تم کو صریح رستہ بتانے والا ہوں
پس تم اﷲ کی طرف دوڑ چلو، بیشک میں اُس کی طرف سے تمہیں کھلا ڈر سنانے والا ہوں،
لہذا اب خدا کی طرف دوڑ پڑو کہ میں کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں
پس تم اللہ کی طرف دوڑ بھاگ (یعنی رجوع) کرو، یقیناً میں تمہیں اس کی طرف سے صاف صاف تنبیہ کرنے واﻻ ہوں
بس تم اللہ کی طرف دوڑو۔ میں تمہیں اس سے کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔
وَلَا تَجْعَلُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ إِلَٰهًا ءَاخَرَ ۖ إِنِّى لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌۭ مُّبِينٌۭ ﴿٥١﴾
اور اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھراؤ بےشک میں تمہارے لئے اس کی طرف سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں
اور نہ بناؤ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود، میں تمہارے لیے اُس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں
اور اللہ کے ساتھ اور معبود نہ ٹھہراؤ، بیشک میں اس کی طرف سے تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں،
اور خدا کے ساتھ کسی اَور کو معبود نہ بناؤ۔ میں اس کی طرف سے تم کو صریح رستہ بتانے والا ہوں
اور اﷲ کے سوا کوئی دوسرا معبود نہ بناؤ، بیشک میں اس کی جانب سے تمہیں کھلا ڈر سنانے والا ہوں،
اور خبردار اس کے ساتھ کسی دوسرے کو خدا نہ بنانا کہ میں تمہارے لئے واضح طور پر ڈرانے والا ہوں
اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھراؤ۔ بیشک میں تمہیں اس کی طرف سے کھلا ڈرانے واﻻ ہوں
اور اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا نہ بناؤ۔ بےشک میں تمہیں اس (کے قہر) سے کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔
كَذَٰلِكَ مَآ أَتَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا۟ سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ﴿٥٢﴾
اسی طرح ان سے پہلوں کے پا س بھی جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہی کہا کہ یہ جادوگر یا دیوانہ ہے
یونہی ہوتا رہا ہے، اِن سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون
یونہی جب ان سے اگلوں کے پاس کوئی رسول تشریف لایا تو یہی بولے کہ جادوگر ہے یا دیوانہ،
اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس جو پیغمبر آتا وہ اس کو جادوگر یا دیوانہ کہتے
اسی طرح اُن سے پہلے لوگوں کے پاس بھی کوئی رسول نہیں آیا مگر انہوں نے یہی کہا کہ (یہ) جادوگر ہے یا دیوانہ ہے،
اسی طرح ان سے پہلے کسی قوم کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر یہ کہ ان لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ یہ جادوگر ہے یا دیوانہ
اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے
اسی طرح وہ لوگ جو ان سے پہلے گزرے ہیں (ان کے پاس) کوئی ایسا رسول نہیںایا جسے انہوں نے جادوگریا دیوانہ نہ کہا ہو۔
أَتَوَاصَوْا۟ بِهِۦ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌۭ طَاغُونَ ﴿٥٣﴾
کیا ایک دوسرے سے یہی کہ مرے تھے نہیں بلکہ وہ خود ہی سرکش ہیں
کیا اِن سب نے آپس میں اِس پر کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے؟ نہیں، بکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں
کیا آپس میں ایک دوسرے کو یہ بات کہہ مرے ہیں بلکہ وہ سرکش لوگ ہیں
کیا یہ کہ ایک دوسرے کو اسی بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں
کیا وہ لوگ ایک دوسرے کواس بات کی وصیت کرتے رہے؟ بلکہ وہ (سب) سرکش و باغی لوگ تھے،
کیا انہوں نے ایک دوسرے کو اسی بات کی وصیت کی ہے - نہیں بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں
کیایہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں
اور کیا یہ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آرہے ہیں؟ (نہیں) بلکہ یہ لوگ سرکش ہیں۔
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَآ أَنتَ بِمَلُومٍۢ ﴿٥٤﴾
پس آپ ان کی پرواہ نہ کیجیئے آپ پر کوئی الزام نہیں
پس اے نبیؐ، ان سے رخ پھیر لو، تم پر کچھ ملامت نہیں
تو اے محبوب! تم ان سے منہ پھیر لو تو تم پر کچھ الزام نہیں
تو ان سے اعراض کرو۔ تم کو (ہماری) طرف سے ملامت نہ ہوگی
سو آپ اُن سے نظرِ التفات ہٹا لیں پس آپ پر (اُن کے ایمان نہ لانے کی) کوئی ملامت نہیں ہے،
لہٰذا آپ ان سے منہ موڑ لیں پھر آپ پر کوئی الزام نہیں ہے
(نہیں) بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں۔ تو آپ ان سے منھ پھیر لیں آپ پر کوئی ملامت نہیں
سو آپ(ص) ان سے منہ پھیر لیجئے آپ پر کوئی الزام نہیں ہے۔
وَذَكِّرْ فَإِنَّ ٱلذِّكْرَىٰ تَنفَعُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٥﴾
اور نصیحت کرتے رہیئے بے شک ایمان والوں کو نصیحت نفع دیتی ہے
البتہ نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے
اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے،
اور نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے
اور آپ نصیحت کرتے رہیں کہ بیشک نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے،
اور یاد دہانی بہرحال کراتے رہے کہ یاد دہانی صاحبانِ ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے
اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی
اور انہیں سمجھاتے رہیے کہ یہ یاددہانی ایمان والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾
اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے
میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں
اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں
اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں،
اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے(
میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں
اور میں نے جِنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔
مَآ أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍۢ وَمَآ أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ ﴿٥٧﴾
میں ان سے کوئی روزی نہیں چاہتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں
میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں
میں ان سے کچھ رزق نہیں مانگتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا دیں
میں ان سے طالب رزق نہیں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے (کھانا) کھلائیں
نہ میں اُن سے رِزق (یعنی کمائی) طلب کرتا ہوں اور نہ اس کا طلب گار ہوں کہ وہ مجھے (کھانا) کھلائیں،
میں ان سے نہ رزق کا طلبگار ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کچھ کھلائیں
نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں
میں ان سے روزی نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔
إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلرَّزَّاقُ ذُو ٱلْقُوَّةِ ٱلْمَتِينُ ﴿٥٨﴾
بے شک الله ہی بڑا روزی دینے والا زبردست طاقت والا ہے
اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست
بیشک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا قدرت والا ہے
خدا ہی تو رزق دینے والا زور آور اور مضبوط ہے
بیشک اﷲ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے (اسے کسی کی مدد و تعاون کی حاجت نہیں)،
بیشک رزق دینے والا, صاحبِ قوت اور زبردست صرف علیھ السّلام اللہ ہے
اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی واﻻ اور زور آور ہے
بےشک اللہ بڑا روزی دینے والا ہے، قوت والا (اور) بڑا مضبوط ہے۔
فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ ذَنُوبًۭا مِّثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَٰبِهِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُونِ ﴿٥٩﴾
پس بے شک ان کے لیے جو ظالم ہیں حصہ ہے جیسا کہ ان کے ساتھیوں کا حصہ تھا تو وہ مجھ سے جلدی کا مطالبہ نہ کریں
پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حصے کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے جیسا اِنہی جیسے لوگوں کو اُن کے حصے کا مل چکا ہے، اس کے لیے یہ لوگ جلدی نہ مچائیں
تو بیشک ان ظالموں کے لیے عذاب کی ایک باری ہے جیسے ان کے ساتھ والوں کے لیے ایک باری تھی تو مجھ سے جلدی نہ کریں
کچھ شک نہیں کہ ان ظالموں کے لئے بھی (عذاب کی) نوبت مقرر ہے جس طرح ان کے ساتھیوں کی نوبت تھی تو ان کو مجھ سے (عذاب) جلدی نہیں طلب کرنا چاہیئے
پس ان ظالموں کے لئے (بھی) حصۂ عذاب مقرّر ہے ان کے (پہلے گزرے ہوئے) ساتھیوں کے حصۂ عذاب کی طرح، سو وہ مجھ سے جلدی طلب نہ کریں،
پھر ان ظالمین کے لئے بھی ویسے ہی نتائج ہیں جیسے ان کے اصحاب کے لئے تھے لہذا یہ جلدی نہ کریں
پس جن لوگوں نے ﻇلم کیا ہے انہیں بھی ان کے ساتھیوں کے حصہ کے مثل حصہ ملے گا، لہٰذا وه مجھ سے جلدی طلب نہ کریں
جو لوگ ظالم ہیں ان کیلئے (عذاب کا) وہی حصہ ہے جیسا ان جیسوں کا تھا۔ پس وہ جلدی نہ کریں۔
فَوَيْلٌۭ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِن يَوْمِهِمُ ٱلَّذِى يُوعَدُونَ ﴿٦٠﴾
پس ہلاکت ہے ان کے لیے جو کافر ہیں اس دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے
آخر کو تباہی ہے کفر کرنے والوں کے لیے اُس روز جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے
تو کافروں کی خرابی ہے ان کے اس دن سے جس کا وعدہ دیے جاتے ہیں
جس دن کا ان کافروں سے وعدہ کیا جاتا ہے اس سے ان کے لئے خرابی ہے
سو کافروں کے لئے اُن کے اُس دِن میں بڑی تباہی ہے جس کا اُن سے وعدہ کیا جا رہا ہے،
پھر کفار کے لئے اس دن ویل اور عذاب ہے جس دن کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے
پس خرابی ہے منکروں کو ان کے اس دن کی جس کا وعده دیئے جاتے ہیں
انجامِ کار تباہی ہے کافروں کے لئے اس دن سے جس کا ان سے وعدہ وعید کیا جا رہاہے۔