Setting
Surah The reality [Al-Haaqqa] in Urdu
ٱلْحَآقَّةُ ﴿١﴾
قیامت
ہونی شدنی!
وہ حق ہونے والی
سچ مچ ہونے والی
یقیناً واقع ہونے والی گھڑی،
یقینا پیش آنے والی قیامت
ﺛابت ہونے والی
برحق واقع ہو نے والی۔
مَا ٱلْحَآقَّةُ ﴿٢﴾
قیامت کیا چیز ہے
کیا ہے وہ ہونی شدنی؟
کیسی وہ حق ہونے والی
وہ سچ مچ ہونے والی کیا ہے؟
کیا چیز ہے یقیناً واقع ہونے والی گھڑی،
اور کیسی پیش آنے والی
ﺛابت ہونے والی کیا ہے؟
کیا ہے وہ برحق واقع ہو نے والی۔
وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا ٱلْحَآقَّةُ ﴿٣﴾
اور تمہیں کس چیز نے بتایا کہ قیامت کیا ہے
اور تم کیا جانو کہ وہ کیا ہے ہونی شدنی؟
اور تم نے کیا جانا کیسی وہ حق ہونے والی
اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا ہے؟
اور آپ کو کس چیز نے خبردار کیا کہ یقیناً واقع ہونے والی (قیامت) کیسی ہے،
اور تم کیا جانو کہ یہ یقینا پیش آنے والی شے کیا ہے
اور تجھے کیا معلوم ہے کہ وه ﺛابت شده کیا ہے؟
اور (اے مخاطب) تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ برحق واقع ہو نے والی۔
كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌۢ بِٱلْقَارِعَةِ ﴿٤﴾
ثمود اور عاد نے قیامت کو جھٹلایا تھا
ثمود اور عاد نے اُس اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت کو جھٹلایا
ثمود اور عاد نے اس سخت صدمہ دینے والی کو جھٹلایا،
کھڑکھڑانے والی (جس) کو ثمود اور عاد (دونوں) نے جھٹلایا
ثمود اور عاد نے (جملہ موجودات کو) باہمی ٹکراؤ سے پاش پاش کر دینے والی (قیامت) کو جھٹلایا تھا،
قوم ثمود و عاد نے اس کھڑ کھڑانے والی کا انکار کیا تھا
اس کھڑکا دینے والی کو ﺛمود اور عاد نے جھٹلا دیا تھا
قبیلۂ ثمود اور عاد نے کھڑکھڑانے والی (قیامت) کو جھٹلایا۔
فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا۟ بِٱلطَّاغِيَةِ ﴿٥﴾
سو ثمود تو سخت ہیبت ناک چیخ سے ہلاک کیے گئے
تو ثمود ایک سخت حادثہ میں ہلاک کیے گئے
تو ثمود تو ہلاک کیے گئے حد سے گزری ہوئی چنگھاڑ سے
سو ثمود تو کڑک سے ہلاک کردیئے گئے
پس قومِ ثمود کے لوگ! تو وہ حد سے زیادہ کڑک دار چنگھاڑ والی آواز سے ہلاک کر دئیے گئے،
تو ثمود ایک چنگھاڑ کے ذریعہ ہلاک کردیئے گئے
(جس کے نتیجہ میں) ﺛمود تو بے حد خوفناک (اور اونچی) آواز سے ہلاک کردیئے گئے
پس ثمود تو ایک حد سے بڑھے ہوئے حادثہ سے ہلاک کئے گئے۔
وَأَمَّا عَادٌۭ فَأُهْلِكُوا۟ بِرِيحٍۢ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍۢ ﴿٦﴾
اور لیکن قوم عاد سو وہ ایک سخت آندھی سے ہلاک کیے گئے
اور عاد ایک بڑی شدید طوفانی آندھی سے تباہ کر دیے گئے
اور رہے عاد وہ ہلاک کیے گئے نہایت سخت گرجتی آندھی سے،
رہے عاد تو ان کا نہایت تیز آندھی سے ستیاناس کردیا گیا
اور رہے قومِ عاد کے لوگ! تو وہ (بھی) ایسی تیز آندھی سے ہلاک کر دئیے گئے جو انتہائی سرد نہایت گرج دار تھی،
اور عاد کو انتہائی تیز و تند آندھی سے برباد کردیا گیا
اور عاد بیحد تیز وتند ہوا سے غارت کردیئے گئے
اور بنی عاد ایک حد سے زیادہ تیز و تند (اور سرد) آندھی سے ہلاک کئے گئے۔
سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍۢ وَثَمَٰنِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًۭا فَتَرَى ٱلْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍۢ ﴿٧﴾
وہ ان پر سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار چلتی رہی (اگر تو موجود ہوتا) اس قوم کو اس طرح گرا ہوا دیکھتا کہ گویا کہ گھری ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں
اللہ تعالیٰ نے اُس کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن اُن پر مسلط رکھا (تم وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ وہاں اِس طرح پچھڑے پڑے ہیں جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں
وہ ان پر قوت سے لگادی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار تو ان لوگوں کو ان میں دیکھو بچھڑے ہوئے گویا وہ کھجور کے ڈھنڈ (سوکھے تنے) ہیں گرے ہوئے،
خدا نے اس کو سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر چلائے رکھا تو (اے مخاطب) تو لوگوں کو اس میں (اس طرح) ڈھئے (اور مرے) پڑے دیکھے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے
اللہ نے اس (آندھی) کو ان پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن مسلّط رکھا، سو تُو ان لوگوں کو اس (عرصہ) میں (اس طرح) مرے پڑے دیکھتا (تو یوں لگتا) گویا وہ کھجور کے گرے ہوئے درختوں کی کھوکھلی جڑیں ہیں،
جسے ان کے اوپر سات رات اور آٹھ دن کے لئے مسلسل مسخّرکردیا گیا تو تم دیکھتے ہو کہ قوم بالکل مفِدہ پڑی ہوئی ہے جیسے کھوکھلے کھجور کے درخت کے تنے
جسے ان پر لگاتار سات رات اور آٹھ دن تک (اللہ نے) مسلط رکھا پس تم دیکھتے کہ یہ لوگ زمین پر اس طرح گر گئے جیسے کہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں
اللہ نے اسے مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک ان پر مسلط رکھا تم (اگر وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ اس طرح گرے پڑے ہیں کہ گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔
فَهَلْ تَرَىٰ لَهُم مِّنۢ بَاقِيَةٍۢ ﴿٨﴾
سو کیا تمہیں ان کا کوئی بچا ہوا نظر آتا ہے
اب کیا اُن میں سے کوئی تمہیں باقی بچا نظر آتا ہے؟
تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو
بھلا تو ان میں سے کسی کو بھی باقی دیکھتا ہے؟
سو تُو کیا ان میں سے کسی کو باقی دیکھتا ہے،
تو کیا تم ان کا کوئی باقی رہنے والا حصہّ دیکھ رہے ہو
کیا ان میں سے کوئی بھی تجھے باقی نظر آرہا ہے؟
تو تمہیں ان کا کوئی باقی بچ جانے والا نظر آتا ہے؟
وَجَآءَ فِرْعَوْنُ وَمَن قَبْلَهُۥ وَٱلْمُؤْتَفِكَٰتُ بِٱلْخَاطِئَةِ ﴿٩﴾
اور فرعون اس سے پہلے کے لوگ اور الٹی ہوئی بستیوں والے گناہ کے مرتکب ہوئے
اور اِسی خطائے عظیم کا ارتکاب فرعون اور اُس سے پہلے کے لوگوں نے اور تل پٹ ہو جانے والی بستیوں نے کیا
اور فرعون اور اس سے اگلے اور الٹنے والی بستیاں خطا لائے
اور فرعون اور جو لوگ اس سے پہلے تھے اور وہ جو الٹی بستیوں میں رہتے تھے سب گناہ کے کام کرتے تھے
اور فرعون اور جو اُس سے پہلے تھے اور (قومِ لوط کی) اُلٹی ہوئی بستیوں (کے باشندوں) نے بڑی خطائیں کی تھیں،
اور فرعون اور اس سے پہلے اور الٹی بستیوں والے سب نے غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے
فرعون اور اس سے پہلے کے لوگ اور جن کی بستیاں الٹ دی گئی، انہوں نے بھی خطائیں کیں
اور فرعون اور اس سے پہلے والوں اور الٹی ہوئی بسیتوں (والوں) نے (یہی) خطا کی۔
فَعَصَوْا۟ رَسُولَ رَبِّهِمْ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةًۭ رَّابِيَةً ﴿١٠﴾
پس انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو الله نے انہیں سخت پکڑ لیا
ان سب نے اپنے رب کے رسول کی بات نہ مانی تو اُس نے اُن کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑا
تو انہوں نے اپنے رب کے رسولوں کا حکم نہ مانا تو اس نے انہیں بڑھی چڑھی گرفت سے پکڑا،
انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغمبر کی نافرمانی کی تو خدا نے بھی ان کو بڑا سخت پکڑا
پس انہوں نے (بھی) اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی، سو اللہ نے انہیں نہایت سخت گرفت میں پکڑ لیا،
کہ پروردگار کے نمائندہ کی نافرمانی کی تو پروردگار نے انہیں بڑی سختی سے پکڑ لیا
اور اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی (بالﺂخر) اللہ نے انہیں (بھی) زبردست گرفت میں لے لیا
(یعنی) اپنے پروردگار کے رسول(ع) کی نافرمانی کی تو اس (اللہ) نے ان کو حد سے بڑھی ہوئی گرفت میں لے لیا۔
إِنَّا لَمَّا طَغَا ٱلْمَآءُ حَمَلْنَٰكُمْ فِى ٱلْجَارِيَةِ ﴿١١﴾
بے شک ہم نے جب پانی حد سے گزر گیا تھا تو تمہیں کشتی میں سوار کر لیا تھا
جب پانی کا طوفان حد سے گزر گیا تو ہم نے تم کو کشتی میں سوار کر دیا تھا
بیشک جب پانی نے سر اٹھایا تھا ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کیا
جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم (لوگوں) کو کشتی میں سوار کرلیا
بے شک جب (طوفانِ نوح کا) پانی حد سے گزر گیا تو ہم نے تمہیں رواں کشتی میں سوار کر لیا،
ہم نے تم کو اس وقت کشتی میں اٹھالیا تھا جب پانی سر سے چڑھ رہا تھا
جب پانی میں طغیانی آگئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا
اور پانی جب حد سے بڑھ گیا تو ہم نے تم کو (یعنی تمہارے آباء و اجداد کو) کشتی میں سوار کیا۔
لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةًۭ وَتَعِيَهَآ أُذُنٌۭ وَٰعِيَةٌۭ ﴿١٢﴾
تاکہ ہم اسے تمہارے لیے ایک یادگار بنائیں اور اس کو کان یا د رکھنے والے یاد رکھیں
تاکہ اِس واقعہ کو تمہارے لیے ایک سبق آموز یادگار بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان اس کی یاد محفوظ رکھیں
کہ اسے تمہارے لیے یادگار کریں اور اسے محفوظ رکھے وہ کان کہ سن کر محفوظ رکھتا ہو
تاکہ اس کو تمہارے لئے یادگار بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں
تاکہ ہم اس (واقعہ) کو تمہارے لئے (یادگار) نصیحت بنا دیں اور محفوظ رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں،
تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت بنائیں اور محفوظ رکھنے والے کان سن لیں
تاکہ اسے تمہارے لیے نصیحت اور یادگار بنادیں، اور (تاکہ) یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں
تاکہ ہم اس (وا قعہ) کو تمہارے لئے یادگار بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان اسے محفوظ رکھیں۔
فَإِذَا نُفِخَ فِى ٱلصُّورِ نَفْخَةٌۭ وَٰحِدَةٌۭ ﴿١٣﴾
پھر جب صور میں پھونکا جائے گا ایک بار پھونکا جانا
پھر جب ایک دفعہ صور میں پھونک مار دی جائے گی
پھرجب صور پھونک دیا جائے ایک دم،
تو جب صور میں ایک (بار) پھونک مار دی جائے گی
پھر جب صور میں ایک مرتبہ پھونک ماری جائے گے،
پھر جب صور میں پہلی مرتبہ پھونکا جائے گا
پس جب کہ صور میں ایک پھونک پھونکی جائے گی
سو جب ایک بار صور پھونکا جائے گا۔
وَحُمِلَتِ ٱلْأَرْضُ وَٱلْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ ﴿١٤﴾
اور زمین اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے پس وہ دونوں ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے
اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا
اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر دفعتا ً چُورا کردیے جائیں،
اور زمین اور پہاڑ دونوں اٹھا لئے جائیں گے۔ پھر ایک بارگی توڑ پھوڑ کر برابر کردیئے جائیں گے
اور زمین اور پہاڑ (اپنی جگہوں سے) اٹھا لئے جائیں گے، پھر وہ ایک ہی بار ٹکرا کر ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے،
اور زمین اور پہاڑوں کو اکھاڑ کر ٹکرا کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا
اور زمین اور پہاڑ اٹھا لیے جائیں گے اور ایک ہی چوٹ میں ریزه ریزه کر دیے جائیں گے
اور زمین اور پہاڑوں کو ایک ہی دفعہ پاش پاش کر دیا جائے گا۔
فَيَوْمَئِذٍۢ وَقَعَتِ ٱلْوَاقِعَةُ ﴿١٥﴾
پس اس دن قیامت ہو گی
اُس روز وہ ہونے والا واقعہ پیش آ جائے گا
وہ دن ہے کہ ہو پڑے گی وہ ہونے والی
تو اس روز ہو پڑنے والی (یعنی قیامت) ہو پڑے گی
سو اُس وقت واقع ہونے والی (قیامت) برپا ہو جائے گے،
تو اس دن قیامت واقع ہوجائے گی
اس دن ہو پڑنے والی (قیامت) ہو پڑے گی
تو اس دن واقع ہو نے والی (قیامت) واقع ہو جائے گی۔
وَٱنشَقَّتِ ٱلسَّمَآءُ فَهِىَ يَوْمَئِذٍۢ وَاهِيَةٌۭ ﴿١٦﴾
اور آسمان پھٹ جائے گا اوروہ اس دن بودا ہوگا
اُس دن آسمان پھٹے گا اور اس کی بندش ڈھیلی پڑ جائے گی
اور آسمان پھٹ جائے گا تو اس دن اس کا پتلا حال ہوگا
اور آسمان پھٹ جائے گا تو وہ اس دن کمزور ہوگا
اور (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے اور یہ کائنات (ایک نظام میں مربوط اور حرکت میں رکھنے والی) قوت کے ذریعے (سیاہ) شگافوں٭ پر مشتمل ہو جائے گی، ٭ واھیۃ.... الوَھی: وَھِی، یَھِی، وَھیًا کا معنیٰ ہے: شق فی الادیم والثوب ونحوھما، یقال: وَھِیَ الثوب أی انشَقّ وَ تَخَرّقَ (چمڑے، کپڑے یا اس قسم کی دوسری چیزوں کا پھٹ جانا اور ان میں شگاف ہو جانا۔ اِسی لئے کہا جاتا ہے: کپڑا پھٹ گیا اور اس میں شگاف ہوگیا).... (المفردات، لسان العرب، قاموس المحیط، المنجد وغیرہ)۔ اسے جدید سائنس نے بلیک ہولز سے تعبیر کیا ہے۔
اور آسمان شق ہوکر بالکل پھس پھسے ہوجائیں گے
اور آسمان پھٹ جائے گا اور اس دن بالکل بودا ہوجائے گا
اور آسمان پھٹ جائے گا اور وہ اس دن بالکل کمزور ہو جائے گا۔
وَٱلْمَلَكُ عَلَىٰٓ أَرْجَآئِهَا ۚ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍۢ ثَمَٰنِيَةٌۭ ﴿١٧﴾
اور اس کے کنارے پر فرشتے ہوں گے اور عرشِ الہیٰ کو اپنے اوپر اس دن آٹھ فرشتے اٹھائیں گے
فرشتے اس کے اطراف و جوانب میں ہوں گے اور آٹھ فرشتے اُس روز تیرے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے
اور فرشتے اس کے کناروں پر کھڑے ہوں گے اور اس دن تمہارے رب کا عرش اپنے اوپر آٹھ فرشتے اٹھائیں گے
اور فرشتے اس کے کناروں پر (اُتر آئیں گے) اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اُٹھائے ہوں گے
اور فرشتے اس کے کناروں پر کھڑے ہوں گے، اور آپ کے رب کے عرش کو اس دن ان کے اوپر آٹھ (فرشتے یا فرشتوں کے طبقات) اٹھائے ہوئے ہوں گے،
اور فرشتے اس کے اطراف پر ہوں گے اور عرش الہٰی کو اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے
اس کے کناروں پر فرشتے ہوں گے، اور تیرے پروردگار کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے
اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور آپ(ص) کے پرورگار کے عرش کو اس دن آٹھ (فرشتے) اٹھائے ہوں گے۔
يَوْمَئِذٍۢ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنكُمْ خَافِيَةٌۭ ﴿١٨﴾
اس دن تم پیش کیے جاؤ گے تمہارا کوئی راز مخفی نہ رہے گا
وہ دن ہوگا جب تم لوگ پیش کیے جاؤ گے، تمہارا کوئی راز بھی چھپا نہ رہ جائے گا
اس دن تم سب پیش ہو گے کہ تم میں کوئی چھپنے والی جان چھپ نہ سکے گی،
اس روز تم (سب لوگوں کے سامنے) پیش کئے جاؤ گے اور تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نہ رہے گی
اُس دن تم (حساب کے لئے) پیش کیے جاؤ گے، تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نہ رہے گی،
اس دن تم کو منظر عام پر لایا جائے گا اور تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہ رہے گی
اس دن تم سب سامنے پیش کیے جاؤ گے، تمہارا کوئی بھید پوشیده نہ رہے گا
اس دن تم (اپنے پروردگار کی بارگاہ میں) پیش کئے جاؤ گے اور تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہ رہے گی۔
فَأَمَّا مَنْ أُوتِىَ كِتَٰبَهُۥ بِيَمِينِهِۦ فَيَقُولُ هَآؤُمُ ٱقْرَءُوا۟ كِتَٰبِيَهْ ﴿١٩﴾
جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا سو وہ کہے گا لو میرا اعمال نامہ پڑھو
اُس وقت جس کا نامہ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا \"لو دیکھو، پڑھو میرا نامہ اعمال
تو وہ جو اپنا نامہٴ اعمال دہنے ہاتھ میں دیا جائے گا کہے گا لو میرے نامہٴ اعمال پڑھو،
تو جس کا (اعمال) نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ (دوسروں سے) کہے گا کہ لیجیئے میرا نامہ (اعمال) پڑھیئے
سو وہ شخص جس کا نامۂ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ (خوشی سے) کہے گا: آؤ میرا نامۂ اَعمال پڑھ لو،
پھر جس کو نامئہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ سب سے کہے گا کہ ذرا میرا نامئہ اعمال تو پڑھو
سو جسے اس کا نامہٴ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وه کہنے لگے گا کہ لو میرا نامہٴ اعمال پڑھو
پس جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا آؤ پڑھو میرانامۂ اعمال۔
إِنِّى ظَنَنتُ أَنِّى مُلَٰقٍ حِسَابِيَهْ ﴿٢٠﴾
بے شک میں سمجھتا تھا کہ میں اپنا حساب دیکھوں گا
میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے\"
مجھے یقین تھا کہ میں اپنے حساب کو پہنچوں گا
مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب (کتاب) ضرور ملے گا
میں تو یقین رکھتا تھا کہ میں اپنے حساب کو (آسان) پانے والا ہوں،
مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ میرا حساب مجھے ملنے والا ہے
مجھے تو کامل یقین تھا کہ مجھے اپنا حساب ملنا ہے
میں سمجھتا تھا کہ میں اپنے حساب کتاب سے دو چار ہو نے والا ہوں۔
فَهُوَ فِى عِيشَةٍۢ رَّاضِيَةٍۢ ﴿٢١﴾
سووہ دل پسند عیش میں ہو گا
پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا
تو وہ من مانتے چین میں ہے،
پس وہ (شخص) من مانے عیش میں ہوگا
سو وہ پسندیدہ زندگی بسر کرے گا،
پھر وہ پسندیدہ زندگی میں ہوگا
پس وه ایک دل پسند زندگی میں ہوگا
وہ ایک پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔
فِى جَنَّةٍ عَالِيَةٍۢ ﴿٢٢﴾
بلند بہشت میں
عالی مقام جنت میں
بلند باغ میں،
(یعنی) اونچے (اونچے محلوں) کے باغ میں
بلند و بالا جنت میں،
بلند ترین باغات میں
بلند وباﻻ جنت میں
(یعنی) اس عالیشان بہشت میں ہوگا۔
قُطُوفُهَا دَانِيَةٌۭ ﴿٢٣﴾
جس کے میوے جھکے ہوں گے
جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں گے
جس کے خوشے جھکے ہوئے
جن کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے
جس کے خوشے (پھلوں کی کثرت کے باعث) جھکے ہوئے ہوں گے،
اس کے میوے قریب قریب ہوں گے
جس کے میوے جھکے پڑے ہوں گے
جس کے تیار پھلوں کے خوشے جھکے ہوئے ہوں گے۔
كُلُوا۟ وَٱشْرَبُوا۟ هَنِيٓـًٔۢا بِمَآ أَسْلَفْتُمْ فِى ٱلْأَيَّامِ ٱلْخَالِيَةِ ﴿٢٤﴾
کھاؤ اور پیئو ان کاموں کے بدلے میں جو تم نے گزشتہ دنوں میں آگے بھیجے تھے
(ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ اور پیو اپنے اُن اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں
کھاؤ اور پیو رچتا ہوا صلہ اس کا جو تم نے گزرے دنوں میں آگے بھیجا
جو (عمل) تم ایام گزشتہ میں آگے بھیج چکے ہو اس کے صلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو
(اُن سے کہا جائے گا:) خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ (زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے،
اب آرام سے کھاؤ پیو کہ تم نے گزشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے
(ان سے کہا جائے گا) کہ مزے سے کھاؤ، پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزشتہ زمانے میں کیے
(ان سے کہاجائے گا) کھاؤ اور پیو مزے اور خوشگواری کے ساتھ ان اعمال کے صلے میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کئے ہیں۔
وَأَمَّا مَنْ أُوتِىَ كِتَٰبَهُۥ بِشِمَالِهِۦ فَيَقُولُ يَٰلَيْتَنِى لَمْ أُوتَ كِتَٰبِيَهْ ﴿٢٥﴾
اور جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو کہے گا اے کاش میرا اعمال نامہ نہ ملتا
اور جس کا نامہ اعمال اُس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا \"کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا
اور وہ جو اپنا نامہٴ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا کہے گا ہائے کسی طرح مجھے اپنا نوشتہ نہ دیا جاتا،
اور جس کا نامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں یاد جائے گا وہ کہے گا اے کاش مجھ کو میرا (اعمال) نامہ نہ دیا جاتا
اور وہ شخص جس کا نامۂ اَعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا: ہائے کاش! مجھے میرا نامۂ اَعمال نہ دیا گیا ہوتا،
لیکن جس کو نامئہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا اے کاش یہ نامہ اعمال مجھے نہ دیا جاتا
لیکن جسے اس (کے اعمال) کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وه تو کہے گا کہ کاش کہ مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی
اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کہ کاش میرا نامۂ اعمال مجھے نہ دیا جاتا۔
وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ ﴿٢٦﴾
اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے
اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے
اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے،
اور مجھے معلوم نہ ہو کہ میرا حساب کیا ہے
اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے،
اور مجھے اپنا حساب نہ معلوم ہوتا
اور میں جانتا ہی نہ کہ حساب کیا ہے
اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کتاب کیا ہے؟
يَٰلَيْتَهَا كَانَتِ ٱلْقَاضِيَةَ ﴿٢٧﴾
کاش وہ (موت) خاتمہ کرنے والی ہوتی
کاش میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی
ہائے کسی طرح موت ہی قصہ چکا جاتی
اے کاش موت (ابد الاآباد کے لئے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی
ہائے کاش! وُہی (موت) کام تمام کر چکی ہوتی،
اے کاش اس موت ہی نے میرا فیصلہ کردیا ہوتا
کاش! کہ موت (میرا) کام ہی تمام کر دیتی
اے کاش وہی موت (جو مجھے آئی تھی) فیصلہ کُن ہوتی۔
مَآ أَغْنَىٰ عَنِّى مَالِيَهْ ۜ ﴿٢٨﴾
میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا
آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا
میرے کچھ کام نہ آیا میرا مال
آج) میرا مال میرے کچھ بھی کام بھی نہ آیا
(آج) میرا مال مجھ سے (عذاب کو) کچھ بھی دور نہ کر سکا،
میرا مال بھی میرے کام نہ آیا
میرے مال نے بھی مجھے کچھ نفع نہ دیا
(ہا ئے) میرے مال نے مجھے کوئی فائدہ نہ دیا۔
هَلَكَ عَنِّى سُلْطَٰنِيَهْ ﴿٢٩﴾
مجھ سے میری حکومت بھی جاتی رہی
میرا سارا اقتدار ختم ہو گیا\"
میرا سب زور جاتا رہا
(ہائے) میری سلطنت خاک میں مل گئی
مجھ سے میری قوت و سلطنت (بھی) جاتی رہی،
اور میری حکومت بھی برباد ہوگئی
میرا غلبہ بھی مجھ سے جاتا رہا
(آہ) میرا اقتدار ختم ہوگیا۔
خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ﴿٣٠﴾
اسے پکڑو اسے طوق پہنا دو
(حکم ہو گا) پکڑو اِسے اور اِس کی گردن میں طوق ڈال دو
اسے پکڑو پھر اسے طوق ڈالو
(حکم ہوگا کہ) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو
(حکم ہوگا:) اسے پکڑ لو اور اسے طوق پہنا دو،
اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو
(حکم ہوگا) اسے پکڑ لو پھر اسے طوق پہنادو
(پھر حکم ہوگا) اسے پکڑو اور اسے طوق پہناؤ۔
ثُمَّ ٱلْجَحِيمَ صَلُّوهُ ﴿٣١﴾
پھر اسے دوزخ میں ڈال دو
پھر اِسے جہنم میں جھونک دو
پھر اسے بھڑکتی آگ میں دھنساؤ،
پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دو
پھر اسے دوزخ میں جھونک دو،
پھر اسے جہنم ّمیں جھونک دو
پھر اسے دوزخ میں ڈال دو
پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔
ثُمَّ فِى سِلْسِلَةٍۢ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًۭا فَٱسْلُكُوهُ ﴿٣٢﴾
پھر ایک زنجیر میں جس کا طول ستر گز ہے اسے جکڑ دو
پھر اِس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو
پھر ایسی زنجیر میں جس کا ناپ ستر ہاتھ ہے اسے پُرو دو
پھر زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے جکڑ دو
پھر ایک زنجیر میں جس کی لمبائی ستر گز ہے اسے جکڑ دو،
پھر ایک ستر گز کی رسی میں اسے جکڑ لو
پھر اسے ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر ہاتھ کی ہے جکڑ دو
پھر اسے ایک ایسی زنجیر میں جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے جکڑ دو۔
إِنَّهُۥ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ ٱلْعَظِيمِ ﴿٣٣﴾
بے شک وہ الله پر یقین نہیں رکھتا تھا جو عظمت والا ہے
یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا
بیشک وہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا
یہ نہ تو خدائے جل شانہ پر ایمان لاتا تھا
بے شک یہ بڑی عظمت والے اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا،
یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا
بیشک یہ اللہ عظمت والے پرایمان نہ رکھتا تھا
(کیونکہ) یہ بزر گ و برتر خدا پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔
وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلْمِسْكِينِ ﴿٣٤﴾
اور نہ وہ مسکین کے کھانا کھلانے کی رغبت دیتا تھا
اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا
اور مسکین کو کھانے دینے کی رغبت نہ دیتا
اور نہ فقیر کے کھانا کھلانے پر آمادہ کرتا تھا
اور نہ محتاج کو کھانا کھلانے پر رغبت دلاتا تھا،
اور لوگوں کو مسکینوں کو کھلانے پر آمادہ نہیں کرتا تھا
اور مسکین کے کھلانے پر رغبت نہ دﻻتا تھا
اور غریب کو کھانا کھلانے پر آمادہ نہیں کرتا تھا۔
فَلَيْسَ لَهُ ٱلْيَوْمَ هَٰهُنَا حَمِيمٌۭ ﴿٣٥﴾
سو آج اس کا یہاں کوئی دوست نہیں
لہٰذا آج نہ یہاں اِس کا کوئی یار غم خوار ہے
تو آج یہاں اس کا کوئی دوست نہیں
سو آج اس کا بھی یہاں کوئی دوستدار نہیں
سو آج کے دن نہ اس کا کوئی گرم جوش دوست ہے،
تو آج اس کا یہاں کوئی غمخوار نہیں ہے
پس آج اس کا نہ کوئی دوست ہے
پس آج یہاں اس کا کوئی ہمدرد نہیں ہے۔
وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍۢ ﴿٣٦﴾
اور نہ کھانا ہے مگر زخموں کا دھون
اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اِس کے لیے کوئی کھانا
اور نہ کچھ کھانے کو مگر دوزخیوں کا پیپ،
اور نہ پیپ کے سوا (اس کے لئے) کھانا ہے
اور نہ پیپ کے سوا (اُس کے لئے) کوئی کھانا ہے،
اور نہ پیپ کے علاوہ کوئی غذا ہے
اور نہ سوائے پیﭗ کے اس کی کوئی غذا ہے
اور نہ ہی اس کے لئے پیپ کے سوا کوئی کھانا ہے۔
لَّا يَأْكُلُهُۥٓ إِلَّا ٱلْخَٰطِـُٔونَ ﴿٣٧﴾
اسے سوائے گناہگاروں کے کوئی نہیں کھائے گا
جسے خطا کاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا
اسے نہ کھائیں گے مگر خطاکار
جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا
جسے گنہگاروں کے سوا کوئی نہ کھائے گا،
جسے گنہگاروں کے علاوہ کوئی نہیں کھاسکتا
جسے گناه گاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا
جسے خطا کاروں کے سوا اور کوئی نہیں کھاتا۔
فَلَآ أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ ﴿٣٨﴾
سو میں ان چیزوں کی قسم کھاتا ہوں جو تم دیکھتے ہو
پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اُن چیزوں کی بھی جو تم دیکھتے ہو
تو مجھے قسم ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو،
تو ہم کو ان چیزوں کی قسم جو تم کو نظر آتی ہیں
سو میں قَسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو،
میں اس کی بھی قسم کھاتا ہوں جسے تم دیکھ رہے ہو
پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو
پس نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔
وَمَا لَا تُبْصِرُونَ ﴿٣٩﴾
اوران کی جو تم نہیں دیکھتے
اور اُن کی بھی جنہیں تم نہیں دیکھتے
اور جنہیں تم نہیں دیکھتے
اور ان کی جو نظر میں نہیں آتیں
اور ان چیزوں کی (بھی) جنہیں تم نہیں دیکھتے،
اور اس کی بھی جس کو نہیں دیکھ رہے ہو
اور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے
اور ان کی جن کو تم نہیں دیکھتے۔
إِنَّهُۥ لَقَوْلُ رَسُولٍۢ كَرِيمٍۢ ﴿٤٠﴾
کہ بے شک یہ (قرآن) رسول کریم کی زبان سے نکلا ہے
یہ ایک رسول کریم کا قول ہے
بیشک یہ قرآن ایک کرم والے رسول سے باتیں ہیں
کہ یہ (قرآن) فرشتہٴ عالی مقام کی زبان کا پیغام ہے
بے شک یہ (قرآن) بزرگی و عظمت والے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالۃً اور نیابۃً بیان فرماتے ہیں)،
کہ یہ ایک محترم فرشتے کا بیان ہے
کہ بیشک یہ (قرآن) بزرگ رسول کا قول ہے
بےشک یہ (قرآن) ایک معزز رسول(ص) کا کلام ہے۔
وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍۢ ۚ قَلِيلًۭا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾
اور وہ کسی شاعر کا قول نہیں (مگر) تم بہت ہی کم یقین کرتے ہو
کسی شاعر کا قول نہیں ہے، تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو
اور وہ کسی شاعر کی بات نہیں کتنا کم یقین رکھتے ہو
اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں۔ مگر تم لوگ بہت ہی کم ایمان لاتے ہو
اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں (کہ اَدبی مہارت سے خود لکھا گیا ہو)، تم بہت ہی کم یقین رکھتے ہو،
اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے ہاں تم بہت کم ایمان لاتے ہو
یہ کسی شاعر کا قول نہیں (افسوس) تمہیں بہت کم یقین ہے
یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے (مگر) تم لوگ بہت کم ایمان لاتے ہو۔
وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍۢ ۚ قَلِيلًۭا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾
اور نہ ہی کسی جادوگر کا قول ہے تم بہت ہی کم غور کرتے ہو
اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے، تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو
اور نہ کسی کاہن کی بات کتنا کم دھیان کرتے ہو
اور نہ کسی کاہن کے مزخرفات ہیں۔ لیکن تم لوگ بہت ہی کم فکر کرتے ہو
اور نہ (یہ) کسی کاہن کا کلام ہے (کہ فنی اَندازوں سے وضع کیا گیا ہو)، تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو،
اور یہ کسی کاہن کا کلام نہیںہے جس پر تم بہت کم غور کرتے ہو
اور نہ کسی کاہن کا قول ہے، (افسوس) بہت کم نصیحت لے رہے ہو
اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے (مگر) تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
تَنزِيلٌۭ مِّن رَّبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿٤٣﴾
وہ پرودگار عالم کا نازل کیا ہوا ہے
یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے
اس نے اتارا ہے جو سارے جہان کا رب ہے،
یہ تو) پروردگار عالم کا اُتارا (ہوا) ہے
(یہ) تمام جہانوں کے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے،
یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے
(یہ تو) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے
(بلکہ) یہ تو تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ ہے۔
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ ٱلْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾
اور اگر وہ کوئی بناوٹی بات ہمارے ذمہ لگاتا
اور اگر اس (نبی) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی
اور اگر وہ ہم پر ایک بات بھی بنا کر کہتے
اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی بات جھوٹ بنا لاتے
اور اگر وہ ہم پر کوئی (ایک) بات بھی گھڑ کر کہہ دیتے،
اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا
اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا
اگر وہ (نبی(ص)) اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کرتا۔
لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِٱلْيَمِينِ ﴿٤٥﴾
تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے
تو ہم اِس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے
ضرور ہم ان سے بقوت بدلہ لیتے،
تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے
تو یقیناً ہم اُن کو پوری قوت و قدرت کے ساتھ پکڑ لیتے،
تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑ لیتے
تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے
تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے۔
ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ ٱلْوَتِينَ ﴿٤٦﴾
پھر ہم اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے
اور اِس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے
پھر ان کی رگِ دل کاٹ دیتے
پھر ان کی رگ گردن کاٹ ڈالتے
پھر ہم ضرور اُن کی شہ رگ کاٹ دیتے،
اور پھر اس کی گردن اڑادیتے
پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے
اور پھر ہم اس کی رگِ حیات کاٹ دیتے۔
فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَٰجِزِينَ ﴿٤٧﴾
پھر تم میں سے کوئی بھی اس سے روکنے والا نہ ہوتا
پھر تم میں سے کوئی (ہمیں) اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا
پھر تم میں کوئی ان کا بچانے والا نہ ہوتا،
پھر تم میں سے کوئی (ہمیں) اس سے روکنے والا نہ ہوتا
پھر تم میں سے کوئی بھی (ہمیں) اِس سے روکنے والا نہ ہوتا،
پھر تم میں سے کوئی مجھے روکنے والا نہ ہوتا
پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے واﻻ نہ ہوتا
پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔
وَإِنَّهُۥ لَتَذْكِرَةٌۭ لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٨﴾
اور بے شک وہ تو پرہیزگاروں کے لیے ایک نصیحت ہے
درحقیقت یہ پرہیزگار لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے
اور بیشک یہ قرآن ڈر والوں کو نصیحت ہے،
اور یہ (کتاب) تو پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے
اور پس بلاشبہ یہ (قرآن) پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے،
اور یہ قرآن صاحبانِ تقویٰ کے لئے نصیحت ہے
یقیناً یہ قرآن پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے
بےشک یہ(قرآن) پرہیزگاروں کیلئے ایک نصیحت ہے۔
وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنكُم مُّكَذِّبِينَ ﴿٤٩﴾
اور بے شک ہم جانتے ہیں کہ بعض تم میں سے جھٹلانے والے ہیں
اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے کچھ لوگ جھٹلانے والے ہیں
اور ضرور ہم جانتے ہیں کہ تم کچھ جھٹلانے والے ہیں،
اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض اس کو جھٹلانے والے ہیں
اور یقیناً ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض لوگ (اس کھلی سچائی کو) جھٹلانے والے ہیں،
اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے جھٹلانے والے بھی ہیں
ہمیں پوری طرح معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اس کے جھٹلانے والے ہیں
اور ہم خوب جانتے ہیں کہ تم میں سے کچھ لوگ (اس کے) جھٹلانے والے ہیں۔
وَإِنَّهُۥ لَحَسْرَةٌ عَلَى ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿٥٠﴾
اور بے شک وہ کفار پر باعث حسرت ہے
ایسے کافروں کے لیے یقیناً یہ موجب حسرت ہے
اور بیشک وہ کافروں پر حسرت ہے
نیز یہ کافروں کے لئے (موجب) حسرت ہے
اور واقعی یہ کافروں کے لئے (موجبِ) حسرت ہے،
اور یہ کافرین کے لئے باعث هحسرت ہے
بیشک (یہ جھٹلانا) کافروں پر حسرت ہے
اور یہ کافروں کیلئے با عثِ حسرت ہے۔
وَإِنَّهُۥ لَحَقُّ ٱلْيَقِينِ ﴿٥١﴾
اور بے شک وہ یقین کرنے کے قابل ہے
اور یہ بالکل یقینی حق ہے
اور بیشک وہ یقین حق ہے
اور کچھ شک نہیں کہ یہ برحق قابل یقین ہے
اور بے شک یہ حق الیقین ہے،
اور یہ بالکل یقینی چیز ہے
اور بیشک (و شبہ) یہ یقینی حق ہے
اور بےشک وہ یقینی حق ہے۔
فَسَبِّحْ بِٱسْمِ رَبِّكَ ٱلْعَظِيمِ ﴿٥٢﴾
پس اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو بڑا عظمت والا ہے
پس اے نبیؐ، اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو
تو اے محبوب تم اپنے عظمت والے رب کی پاکی بولو
سو تم اپنے پروردگار عزوجل کے نام کی تنزیہ کرتے رہو
سو (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے عظمت والے رب کے نام کی تسبیح کرتے رہیں،
لہذا آپ اپنے عظیم پروردگار کے نام کی تسبیح کریں
پس تو اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کر
پس آپ(ص) اپنے عظمت والے پروردگار کے نام کی تسبیح کریں۔