Setting
Surah The Ascending stairways [Al-Maarij] in Urdu
سَأَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍۢ وَاقِعٍۢ ﴿١﴾
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے والا ہے
مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے، (وہ عذاب) جو ضرور واقع ہونے والا ہے
ایک مانگنے والا وہ عذاب مانگتا ہے،
ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا
ایک سائل نے ایسا عذاب طلب کیا جو واقع ہونے والا ہے،
ایک مانگنے والے نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے واﻻ ہے
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا۔
لِّلْكَٰفِرِينَ لَيْسَ لَهُۥ دَافِعٌۭ ﴿٢﴾
کافرو ں کے لیے کہ اس کا کوئی ٹالنے والا نہیں
کافروں کے لیے ہے، کوئی اُسے دفع کرنے والا نہیں
جو کافروں پر ہونے والا ہے، اس کا کوئی ٹالنے والا نہیں،
(یعنی) کافروں پر (اور) کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا
کافروں کے لئے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں،
جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے
کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے واﻻ نہیں
جو کافروں پر واقع ہونے والا ہے (اور) اسے کوئی ٹالنے والانہیں ہے۔
مِّنَ ٱللَّهِ ذِى ٱلْمَعَارِجِ ﴿٣﴾
جس الله کی طرف سے واقع ہو گا جو سیڑھیوں کا (یعنی آسمانوں کا) مالک ہے
اُس خدا کی طرف سے ہے جو عروج کے زینوں کا مالک ہے
وہ ہوگا اللہ کی طرف سے جو بلندیوں کا مالک ہے
(اور وہ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے (نازل ہوگا)
(وہ) اللہ کی جانب سے (واقع ہوگا) جو آسمانی زینوں (اور بلند مراتب درجات) کا مالک ہے،
یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے
اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں واﻻ ہے
جو اس خدا کی طرف سے ہے جو بلندی کے زینوں والا ہے۔
تَعْرُجُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍۢ ﴿٤﴾
(جن سیڑھیوں سے) فرشتے اور اہلِ ایمان کی روحیں اس کے پاس چڑھ کر جاتی ہیں (اور وہ عذاب) اس دن ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے
ملائکہ اور روح اُس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے
ملائکہ اور جبریل اس کی بارگاہ کی طرف عروج کرتے ہیں وہ عذاب اس دن ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے
جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے پڑھتے ہیں (اور) اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا
اس (کے عرش) کی طرف فرشتے اور روح الامین عروج کرتے ہیں ایک دن میں، جس کا اندازہ (دنیوی حساب سے) پچاس ہزار برس کا ہے٭، ٭ فِی یَومٍ اگر وَاقِعٍ کا صلہ ہو تو معنی ہوگا کہ جس دن (یومِ قیامت) کو عذاب واقع ہوگا اس کا دورانیہ ٥٠ ہزار برس کے قریب ہے۔ اور اگر یہ تَعرُجُ کا صلہ ہو تو معنی ہوگا کہ ملائکہ اور اَرواحِ مومنین جو عرشِ اِلٰہی کی طرف عروج کرتی ہیں ان کے عروج کی رفتار ٥٠ ہزار برس یومیہ ہے، وہ پھر بھی کتنی مدت میں منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں۔ واﷲ أعلم بالصواب۔ (یہاں سے نوری سال (لاّّّئٹ ائیر) کے تصور کا اِستنباط ہوتا ہے۔)
جس کی طرف فرشتے اور روح الامین بلند ہوتے ہیں اس ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے
جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے
فرشتے اور روح اس کی بارگاہ میں ایک ایسے دن میں چڑھ کر جاتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔
فَٱصْبِرْ صَبْرًۭا جَمِيلًا ﴿٥﴾
آپ اچھی طرح سے صبر کیے رہیں
پس اے نبیؐ، صبر کرو، شائستہ صبر
تو تم اچھی طرح صبر کرو،
(تو تم کافروں کی باتوں کو) قوت کے ساتھ برداشت کرتے رہو
سو (اے حبیب!) آپ (کافروں کی باتوں پر) ہر شکوہ سے پاک صبر فرمائیں،
لہذا آپ بہترین صبر سے کام لیں
پس تو اچھی طرح صبر کر
(اے نبی(ص)) پس آپ(ص) بہترین صبر کیجئے۔
إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُۥ بَعِيدًۭا ﴿٦﴾
بے شک وہ اسے دور دیکھتے ہیں
یہ لوگ اُسے دور سمجھتے ہیں
وہ اسے دور سمجھ رہے ہیں
وہ ان لوگوں کی نگاہ میں دور ہے
بے شک وہ (تو) اس (دن) کو دور سمجھ رہے ہیں،
یہ لوگ اسے دور سمجھ رہے ہیں
بیشک یہ اس (عذاب) کو دور سمجھ رہے ہیں
یہ لوگ تو اس (روز) کو بہت دور سمجھتے ہیں۔
وَنَرَىٰهُ قَرِيبًۭا ﴿٧﴾
اور ہم اسے قریب دیکھتے ہیں
اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں
اور ہم اسے نزدیک دیکھ رہے ہیں
اور ہماری نظر میں نزدیک
اور ہم اسے قریب ہی دیکھتے ہیں،
اور ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے ہیں
اور ہم اسے قریب ہی دیکھتے ہیں
مگر ہم اسے بالکل قریب دیکھ رہے ہیں۔
يَوْمَ تَكُونُ ٱلسَّمَآءُ كَٱلْمُهْلِ ﴿٨﴾
جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہوگا
(وہ عذاب اُس روز ہوگا) جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہو جائے گا
جس دن آسمان ہوگا جیسی گلی چاندی،
جس دن آسمان ایسا ہو جائے گا جیسے پگھلا ہوا تانبا
جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو جائے گا،
جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کے مانند ہوجائے گا
جس دن آسمان مثل تیل کی تلچھٹ کے ہو جائے گا
جس دن آسمان پگھلی ہوئی دھات کی طرح ہو جائے گا۔
وَتَكُونُ ٱلْجِبَالُ كَٱلْعِهْنِ ﴿٩﴾
اور پہاڑ دھنی ہوئی رنگداراؤن کی طرح ہوں گے
اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہو جائیں گے
اور پہاڑ ایسے ہلکے ہوجائیں گے جیسے اون
اور پہاڑ (ایسے) جیسے (دھنکی ہوئی) رنگین اون
اور پہاڑ (دُھنکی ہوئی) رنگین اُون کی طرح ہو جائیں گے،
اور پہاڑ دھنکے ہوئے اون جیسے
اور پہاڑ مثل رنگین اون کے ہو جائیں گے
اور پہاڑ دھنکی ہوئی رُوئی کی مانند ہو جائیں گے۔
وَلَا يَسْـَٔلُ حَمِيمٌ حَمِيمًۭا ﴿١٠﴾
اور کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا
اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا
اور کوئی دوست کسی دوست کی بات نہ پوچھے گا
اور کوئی دوست کسی دوست کا پرسان نہ ہوگا
اور کوئی دوست کسی دوست کا پرساں نہ ہوگا،
اور کوئی ہمدرد کسی ہمدرد کا پرسانِ حال نہ ہوگا
اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا
اور کوئی دوست کسی دو ست کو نہ پو چھے گا۔
يُبَصَّرُونَهُمْ ۚ يَوَدُّ ٱلْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِى مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍۭ بِبَنِيهِ ﴿١١﴾
وہ انہیں کھائیں جائیں گے مجرم چاہے گا کہ کاش اس دن کے عذاب کے بدلے میں اپنے بیٹوں کو دے دے
حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو
ہوں گے انہیں دیکھتے ہوئے مجرم آرزو کرے گا، کاش! اس دن کے عذاب سے چھٹنے کے بدلے میں دے دے اپنے بیٹے،
ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے (اس روز) گنہگار خواہش کرے گا کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں (سب کچھ) دے دے یعنی اپنے بیٹے
(حالانکہ) وہ (ایک دوسرے کو) دکھائے جا رہے ہوں گے، مجرم آرزو کرے گا کہ کاش! اس دن کے عذاب (سے رہائی) کے بدلہ میں اپنے بیٹے دے دے،
وہ سب ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے تو مجرم چاہے گا کہ کاش آج کے دن کے عذاب کے بدلے اس کی اولاد کو لے لیا جائے
(حاﻻنکہ) ایک دوسرے کو دکھا دیئے جائیں گے، گناهگار اس دن کے عذاب کے بدلے فدیے میں اپنے بیٹوں کو
حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کیلئے اپنے بیٹوں،
وَصَٰحِبَتِهِۦ وَأَخِيهِ ﴿١٢﴾
اوراپنی بیوی اور اپنے بھائی کو
اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو
اور اپنی جورو اور اپنا بھائی،
اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی
اور اپنی بیوی اور اپنا بھائی (دے ڈالے)،
اوربیوی اور بھائی کو
اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو
اپنی بیوی اور اپنے بھائی،
وَفَصِيلَتِهِ ٱلَّتِى تُـْٔوِيهِ ﴿١٣﴾
اور اپنے اس کنبہ کو جو اسے پناہ دیتا تھا
اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا
اور اپنا کنبہ جس میں اس کی جگہ ہے،
اور اپنا خاندان جس میں وہ رہتا تھا
اور اپنا (تمام) خاندان جو اُسے پناہ دیتا تھا،
اور اس کنبہ کو جس میں وہ رہتا تھا
اور اپنے کنبے کو جو اسے پناه دیتا تھا
اور اپنے قریبی کنبہ جو اسے پناہ دینے والا ہے۔
وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًۭا ثُمَّ يُنجِيهِ ﴿١٤﴾
اوران سب کو جو زمین میں ہیں پھر اپنے آپ کو بچا لے
اور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دیدے اور یہ تدبیر اُسے نجات دلا دے
اور جتنے زمین میں ہیں سب پھر یہ بدلہ دنیا اسے بچالے،
اور جتنے آدمی زمین میں ہیں (غرض) سب (کچھ دے دے) اور اپنے تئیں عذاب سے چھڑا لے
اور جتنے لوگ بھی زمین میں ہیں، سب کے سب (اپنی ذات کے لئے بدلہ کر دے)، پھر یہ (فدیہ) اُسے (اللہ کے عذاب سے) بچا لے،
اور روئے زمین کی ساری مخلوقات کو اور اسے نجات دے دی جائے
اور روئے زمین کے سب لوگوں کو دینا چاہے گا تاکہ یہ اسے نجات دﻻ دے
اور رُوئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور پھر یہ (فدیہ) اسے نجات دلا دے۔
كَلَّآ ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ ﴿١٥﴾
ہرگز نہیں بے شک وہ تو ایک آگ ہے
ہرگز نہیں وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی
ہرگز نہیں وہ تو بھڑکتی آگ ہے،
(لیکن) ایسا ہرگز نہیں ہوگا وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے
ایسا ہرگز نہ ہوگا، بے شک وہ شعلہ زن آگ ہے،
ہرگز نہیں یہ آتش جہنمّ ہے
(مگر) ہرگز یہ نہ ہوگا، یقیناً وه شعلہ والی (آگ) ہے
ہرگز نہیں وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کا شعلہ ہے۔
نَزَّاعَةًۭ لِّلشَّوَىٰ ﴿١٦﴾
کھالوں کو اتارنے والی
جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی
کھال اتار لینے والی بلارہی ہے
کھال ادھیڑ ڈالنے والی
سر اور تمام اَعضائے بدن کی کھال اتار دینے والی ہے،
کھال اتار دینے والی
جو منھ اور سر کی کھال کھینچ ﻻنے والی ہے
جو کھال کو ادھیڑ کر رکھ دے گا۔
تَدْعُوا۟ مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّىٰ ﴿١٧﴾
اس کو بلائے گی جس نے پیٹھ پھیری اورمنہ موڑا
پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اُس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری
اس کو جس نے پیٹھ دی اور منہ پھیرا
ان لوگوں کو اپنی طرف بلائے گی جنہوں نے (دین حق سے) اعراض کیا
وہ اُسے بلا رہی ہے جس نے (حق سے) پیٹھ پھیری اور رُوگردانی کی،
ان سب کو آواز دے رہی ہے جو منہ پھیر کر جانے والے تھے
وه ہر اس شخص کو پکارے گی جو پیچھے ہٹتا اور منھ موڑتا ہے
اور ہر اس شخص کو (اپنی طرف) بلائے گا جو پیٹھ پھرائے گااور رُوگردانی کرے گا۔
وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰٓ ﴿١٨﴾
اور مال جمع کیا اورگن گن کر رکھا
اور مال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا
اور جوڑ کر سینت رکھا (محفوظ کرلیا)
اور (مال) جمع کیا اور بند کر رکھا
اور (اس نے) مال جمع کیا پھر (اسے تقسیم سے) روکے رکھا،
اور جنہوں نے مال جمع کرکے بند کر رکھا تھا
اور جمع کرکے سنبھال رکھتا ہے
اور جس نے (مال) جمع کیا اور پھر اسے سنبھال کر رکھا۔
۞ إِنَّ ٱلْإِنسَٰنَ خُلِقَ هَلُوعًا ﴿١٩﴾
بے شک انسان کم ہمت پیدا ہوا ہے
انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے
بیشک آدمی بنایا گیا ہے بڑا بے صبرا حریص،
کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے
بے شک انسان بے صبر اور لالچی پیدا ہوا ہے،
بیشک انسان بڑا لالچی ہے
بیشک انسان بڑے کچے دل واﻻ بنایا گیا ہے
بےشک انسان بےصبرا پیدا ہوا ہے۔
إِذَا مَسَّهُ ٱلشَّرُّ جَزُوعًۭا ﴿٢٠﴾
جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو چلا اٹھتا ہے
جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے
جب اسے برائی پہنچے تو سخت گھبرانے والا،
جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے
جب اسے مصیبت (یا مالی نقصان) پہنچے تو گھبرا جاتا ہے،
جب تکلیف پہنچ جاتی ہے تو فریادی بن جاتا ہے
جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑبڑا اٹھتا ہے
جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بہت گھبرا جاتا ہے۔
وَإِذَا مَسَّهُ ٱلْخَيْرُ مَنُوعًا ﴿٢١﴾
اور جب اسے مال ملتا ہے تو بڑا بخیل ہے
اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے
اور جب بھلائی پہنچے تو روک رکھنے والا
اور جب آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے
اور جب اسے بھلائی (یا مالی فراخی) حاصل ہو تو بخل کرتا ہے،
اور جب مال مل جاتا ہے تو بخیل ہو جاتا ہے
اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے
اورجب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بہت بُخل کرتا ہے۔
إِلَّا ٱلْمُصَلِّينَ ﴿٢٢﴾
مگر وہ نمازی
مگر وہ لوگ (اِس عیب سے بچے ہوئے ہیں) جو نماز پڑھنے والے ہیں
مگر نمازی،
مگر نماز گزار
مگر وہ نماز ادا کرنے والے،
علاوہ ان نمازیوں کے
مگر وه نمازی
مگر وہ نمازی (اس عیب سے محفوظ ہیں)۔
ٱلَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَآئِمُونَ ﴿٢٣﴾
جو اپنی نماز پر ہمیشہ سے قائم ہیں
جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں
جو اپنی نماز کے پابند ہیں
جو نماز کا التزام رکھتے (اور بلاناغہ پڑھتے) ہیں
جو اپنی نماز پر ہمیشگی قائم رکھنے والے ہیں،
جو اپنی نمازوں کی پابندی کرنے والے ہیں
جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں
جو اپنی نمازوں پر مُداومَت کرتے ہیں۔
وَٱلَّذِينَ فِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّۭ مَّعْلُومٌۭ ﴿٢٤﴾
اوروہ جن کے مالو ں میں حصہ معین ہے
جن کے مالوں میں،
اور وہ جن کے مال میں ایک معلوم حق ہے
اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے
اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے،
اور جن کے اموال میں ایک مقررہ حق معین ہے
اور جن کے مالوں میں مقرره حصہ ہے
اورجن کے مالوں میں مقررہ حق ہے۔
لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ ﴿٢٥﴾
سائل اور غیر سائل کے لیے
سائل اور محروم کا ایک حق مقرر ہے
اس کے لیے جو مانگے اور جو مانگ بھی نہ سکے تو محروم رہے
(یعنی) مانگنے والے کا۔ اور نہ مانگے والے والا کا
مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا،
مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے
مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی
سا ئل اور محروم کا۔
وَٱلَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ ٱلدِّينِ ﴿٢٦﴾
اوروہ جو قیامت کے دن کا یقین رکھتے ہیں
جو روز جزا کو برحق مانتے ہیں
اور ہو جو انصاف کا دن سچ جانتے ہیں
اور جو روز جزا کو سچ سمجھتے ہیں
اور وہ لوگ جو روزِ جزا کی تصدیق کرتے ہیں،
اور جو لوگ روز قیامت کی تصدیق کرنے والے ہیں
اور جو انصاف کے دن پر یقین رکھتے ہیں
اور جو جزا و سزا کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔
وَٱلَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ ﴿٢٧﴾
اور وہ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں
جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں
اور وہ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈر رہے ہیں،
اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں
اور وہ لوگ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں،
اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں
اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں
اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔
إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍۢ ﴿٢٨﴾
بے شک ان کے رب کے عذاب کا خطرہ لگا ہوا ہے
کیونکہ اُن کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں ہے جس سے کوئی بے خوف ہو
بیشک ان کے رب کا عذاب نڈر ہونے کی چیز نہیں
بےشک ان کے پروردگار کا عذاب ہے ہی ایسا کہ اس سے بےخوف نہ ہوا جائے
بے شک ان کے رب کا عذاب ایسا نہیں جس سے بے خوف ہوا جائے،
بیشک عذاب پروردگار بے خوف رہنے والی چیز نہیں ہے
بیشک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں
کیونکہ ان کے پروردگار کا عذاب وہ چیز ہے جس سے کسی کو مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔
وَٱلَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَٰفِظُونَ ﴿٢٩﴾
اوروہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں
جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں
اور ہو جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں
اور وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں
اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی (حرام سے) حفاﻇت کرتے ہیں
اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
إِلَّا عَلَىٰٓ أَزْوَٰجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٣٠﴾
مگر اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں سے سو بے شک انہیں کوئی ملامت نہیں
بجز اپنی بیویوں یا اپنی مملوکہ عورتوں کے جن سے محفوظ نہ رکھنے میں ان پر کوئی ملامت نہیں
مگر اپنی بیبیوں یا اپنے ہاتھ کے مال کنیزوں سے کہ ان پر کچھ ملامت نہیں،
مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے کہ (ان کے پاس جانے پر) انہیں کچھ ملامت نہیں
سوائے اپنی منکوحہ بیویوں کے یا اپنی مملوکہ کنیزوں کے، سو (اِس میں) اُن پر کوئی ملامت نہیں،
علاوہ اپنی بیویوں اور کنیزوں کے کہ اس پر ملامت نہیں کی جاتی ہے
ہاں ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وه مالک ہیں انہیں کوئی ملامت نہیں
سوائے اپنی بیویوں کے یا اپنی مملوکہ کنیزوں کے کہ اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔
فَمَنِ ٱبْتَغَىٰ وَرَآءَ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْعَادُونَ ﴿٣١﴾
پس جو کوئی اس کے سوا چاہے سو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں
البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں
تو جو ان دو کے سوا اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں
اور جو لوگ ان کے سوا اور کے خواستگار ہوں وہ حد سے نکل جانے والے ہیں
سو جو ان کے علاوہ طلب کرے تو وہی لوگ حد سے گزرنے والے ہیں،
پھر جو اس کے علاوہ کا خواہشمند ہو وہ حد سے گزر جانے والا ہے
اب جو کوئی اس کے علاوه (راه) ڈھونڈے گا توایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں گے
اور جو اس سے آگے بڑھے وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔
وَٱلَّذِينَ هُمْ لِأَمَٰنَٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَٰعُونَ ﴿٣٢﴾
اور وہ جواپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں
جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں
اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرتے ہیں
اور جو اپنی امانتوں اور اقراروں کا پاس کرتے ہیں
اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی نگہداشت کرتے ہیں،
اور جو اپنی امانتوں اور عہد کا خیال رکھنے والے ہیں
اور جو اپنی امانتوں کا اور اپنے قول و قرار کا پاس رکھتے ہیں
اورجو اپنی امانتوں اورعہد و پیمان کا لحاظ رکھتے ہیں۔
وَٱلَّذِينَ هُم بِشَهَٰدَٰتِهِمْ قَآئِمُونَ ﴿٣٣﴾
اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں
جو اپنی گواہیوں میں راست بازی پر قائم رہتے ہیں
اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم ہیں
اور جو اپنی شہادتوں پر قائم رہتے ہیں
اور وہ لوگ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں،
اور جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں
اور جو اپنی گواہیوں پر سیدھے اور قائم رہتے ہیں
اور جو اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں۔
وَٱلَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴿٣٤﴾
اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں
اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں
اور وہ جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں
اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں
اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں،
اور جو اپنی نمازوں کا خیال رکھنے والے ہیں
اور جو اپنی نمازوں کی حفاﻇت کرتے ہیں
اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
أُو۟لَٰٓئِكَ فِى جَنَّٰتٍۢ مُّكْرَمُونَ ﴿٣٥﴾
وہی لوگ باغوں میں عزت سے رہیں گے
یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں میں رہیں گے
یہ ہیں جن کا باغوں میں اعزاز ہوگا
یہی لوگ باغہائے بہشت میں عزت واکرام سے ہوں گے
یہی لوگ ہیں جو جنتوں میں معزّز و مکرّم ہوں گے،
یہی لوگ جنّت میں باعزّت طریقہ سے رہنے والے ہیں
یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے
یہی وہ لوگ ہیں جو عزت کے ساتھ باغہائے بہشت میں رہیں گے۔
فَمَالِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ ﴿٣٦﴾
پس کافروں کو کیا ہوگیا کہ آپ کی طرف دوڑے آ رہے ہیں
پس اے نبیؐ، کیا بات ہے کہ یہ منکرین دائیں اور بائیں سے،
تو ان کافروں کو کیا ہوا تمہاری طرف تیز نگاہ سے دیکھتے ہیں
تو ان کافروں کو کیا ہوا ہے کہ تمہاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں
تو کافروں کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ کی طرف دوڑے چلے آرہے ہیں،
پھر ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ کی طرف بھاگے چلے آرہے ہیں
پس کافروں کو کیاہو گیا ہے کہ وه تیری طرف دوڑتے آتے ہیں
(اے نبی(ص)) ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ٹکٹکی باندھے آپ(ص) کی طرف دو ڑے چلے آرہے ہیں۔
عَنِ ٱلْيَمِينِ وَعَنِ ٱلشِّمَالِ عِزِينَ ﴿٣٧﴾
دائیں اور بائیں سے ٹولیاں بنا کر
گروہ در گروہ تمہاری طرف دوڑے چلے آ رہے ہیں؟
داہنے اور بائیں گروہ کے گروہ،
اور) دائیں بائیں سے گروہ گروہ ہو کر (جمع ہوتے جاتے ہیں)
دائیں جانب سے (بھی) اور بائیں جانب سے (بھی) گروہ در گروہ،
داہیں بائیں سے گروہ در گروہ
دائیں اور بائیں سے گروه کے گروه
دائیں اور بائیں طرف سے گروہ در گروہ۔
أَيَطْمَعُ كُلُّ ٱمْرِئٍۢ مِّنْهُمْ أَن يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍۢ ﴿٣٨﴾
کیا ہر ایک ان میں سے طمع رکھتا ہے کہ وہ نعمت کے باغ میں داخل کیا جاوے گا
کیا اِن میں سے ہر ایک یہ لالچ رکھتا ہے کہ وہ نعمت بھری جنت میں داخل کر دیا جائے گا؟
کیا ان میں ہر شخص یہ طمع کرتا ہے کہ چین کے باغ میں داخل کیا جائے،
کیا ان میں سے ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ نعمت کے باغ میں داخل کیا جائے گا
کیا ان میں سے ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ (بغیر ایمان و عمل کے) نعمتوں والی جنت میں داخل کر دیا جائے گا؟،
کیا ان میں سے ہر ایک کی طمع یہ ہے کہ اسے جنت النعیم میں داخل کردیا جائے
کیا ان میں سے ہر ایک کی توقع یہ ہے کہ وه نعمتوں والی جنت میں داخل کیا جائے گا؟
کیا ان میں سے ہر ایک یہ طمع و لالچ رکھتا ہے کہ اسے آرام و آسائش والے بہشت میں داخل کر دیا جائے۔
كَلَّآ ۖ إِنَّا خَلَقْنَٰهُم مِّمَّا يَعْلَمُونَ ﴿٣٩﴾
ہرگز نہیں بے شک ہم نے انہیں اس چیز سے پیدا کیا ہے جسے وہ بھی جانتے ہیں
ہرگز نہیں ہم نے جس چیز سے اِن کو پیدا کیا ہے اُسے یہ خود جانتے ہیں
ہرگز نہیں، بیشک ہم نے انہیں اس چیز سے بنایا جسے جانتے ہیں
ہرگز نہیں۔ ہم نے ان کو اس چیز سے پیدا کیا ہے جسے وہ جانتے ہیں
ہرگز نہیں، بے شک ہم نے انہیں اس چیز سے پیدا کیا ہے جسے وہ (بھی) جانتے ہیں،
ہرگز نہیں انہیں تو معلوم ہے کہ ہم نے انہیں کس چیز سے پیدا کیا ہے
(ایسا) ہرگز نہ ہوگا۔ ہم نے انہیں اس (چیز) سے پیدا کیا ہے جسے وه جانتے ہیں
ہرگز نہیں! ہم نے انہیں اس چیز (مادہ) سے پیدا کیا ہے جسے وہ خود جانتے ہیں۔
فَلَآ أُقْسِمُ بِرَبِّ ٱلْمَشَٰرِقِ وَٱلْمَغَٰرِبِ إِنَّا لَقَٰدِرُونَ ﴿٤٠﴾
پس میں مشرقوں اور مغربوں کے پروردگار کی قسم کھاتا ہوں (یعنی اپنی ذات کی) کہ ہم ضرور قادر ہیں
پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی، ہم اِس پر قادر ہیں
تو مجھے قسم ہے اس کی جو سب پُوربوں سب پچھموں کا مالک ہے کہ ضرور ہم قادر ہیں،
ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کہ ہم طاقت رکھتے ہیں
سو میں مشارق اور مغارب کے رب کی قَسم کھاتا ہوں کہ بے شک ہم پوری قدرت رکھتے ہیں،
میں تمام مشرق و مغرب کے پروردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں
پس مجھے قسم ہے مشرقوں اور مغربوں کے رب کی (کہ) ہم یقیناً قادر ہیں
پس نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے پروردگار کی ہم پوری قدرت رکھتے ہیں۔
عَلَىٰٓ أَن نُّبَدِّلَ خَيْرًۭا مِّنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ ﴿٤١﴾
اس بات پر کہ ہم ان سے بہتر لوگ بدل کر لا سکتے ہیں اور ہم عاجز بھی نہیں ہیں
کہ اِن کی جگہ اِن سے بہتر لوگ لے آئیں اور کوئی ہم سے بازی لے جانے والا نہیں ہے
کہ ان سے اچھے بدل دیں اور ہم سے کوئی نکل کر نہیں جاسکتا
(یعنی) اس بات پر (قادر ہیں) کہ ان سے بہتر لوگ بدل لائیں اور ہم عاجز نہیں ہیں
اس پر کہ ہم بدل کر ان سے بہتر لوگ لے آئیں، اور ہم ہرگز عاجز نہیں ہیں،
اس بات پر کہ ان کے بدلے ان سے بہتر افراد لے آئیں اور ہم عاجز نہیں ہیں
اس پر کہ ان کے عوض ان سے اچھے لوگ لے آئیں اور ہم عاجز نہیں ہیں
اس بات پر کہ ہم ان لوگوں کے بدلے ان سے بہتر لے آئیں اور ہم (ایسا کرنے سے) عاجز نہیں ہیں۔
فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا۟ وَيَلْعَبُوا۟ حَتَّىٰ يُلَٰقُوا۟ يَوْمَهُمُ ٱلَّذِى يُوعَدُونَ ﴿٤٢﴾
پھر انہیں چھوڑ دو کہ وہ بیہودہ باتوں اور کھیل میں لگے رہیں یہاں تک کہ وہ دن دیکھ لیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے
لہٰذا اِنہیں اپنی بیہودہ باتوں اور اپنے کھیل میں پڑا رہنے دو یہاں تک کہ یہ اپنے اُس دن تک پہنچ جائیں جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے
تو انہیں چھوڑ دو ان کی بیہودگیوں میں پڑے اور کھیلتے ہوئے یہاں تک کہ اپنے اس دن سے ملیں جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے،
تو (اے پیغمبر) ان کو باطل میں پڑے رہنے اور کھیل لینے دو یہاں تک کہ جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ان کے سامنے آ موجود ہو
سو آپ انہیں چھوڑ دیجئے کہ وہ اپنی بے ہودہ باتوں اور کھیل تماشے میں پڑے رہیں یہاں تک کہ اپنے اس دن سے آملیں جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے،
لہذا انہیں چھوڑ دیجئے یہ اپنے باطل میں ڈوبے رہیں اور کھیل تماشہ کرتے رہیں یہاں تک کہ اس دن سے ملاقات کریں جس کا وعدہ کیا گیا ہے
پس تو انہیں جھگڑتا کھیلتا چھوڑ دے یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے جاملیں جس کا ان سے وعده کیا جاتا ہے
تو آپ(ص) انہیں چھوڑئیے کہ وہ بےہودہ باتوں اور کھیل کود میں مشغول رہیں یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن سے دوچار ہوں جس کا ان سے وعدہ وعید کیا جا رہا ہے۔
يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ ٱلْأَجْدَاثِ سِرَاعًۭا كَأَنَّهُمْ إِلَىٰ نُصُبٍۢ يُوفِضُونَ ﴿٤٣﴾
جس دن وہ دوڑتے ہوئے قبروں سے نکل پڑیں گے گویا کہ وہ ایک نشان کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں
جب یہ اپنی قبروں سے نکل کر اِس طرح دوڑے جا رہے ہوں گے جیسے اپنے بتوں کے استھانوں کی طرف دوڑ رہے ہوں
جس دن قبروں سے نکلیں گے جھپٹتے ہوئے گویا وہ نشانیوں کی طرف لپک رہے ہیں
اس دن یہ قبر سے نکل کر (اس طرح) دوڑیں گے جیسے (شکاری) شکار کے جال کی طرف دوڑتے ہیں
جس دن وہ قبروں سے دوڑتے ہوئے یوں نکلیں گے گویا وہ بتوں کے اَستھانوں کی طرف دوڑے جا رہے ہیں،
جس دن یہ سب قبروں سے تیزی کے ساتھ نکلیں گے جس طرح کسی پرچم کی طرف بھاگے جارہے ہوں
جس دن یہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے، گویا کہ وه کسی جگہ کی طرف تیز تیز جا رہے ہیں
جس دن وہ قبروں سے اس طرح جلدی جلدی نکلیں گے گویا (اپنے بتوں کے) استھانوں کی طرف دوڑ رہے ہیں۔
خَٰشِعَةً أَبْصَٰرُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌۭ ۚ ذَٰلِكَ ٱلْيَوْمُ ٱلَّذِى كَانُوا۟ يُوعَدُونَ ﴿٤٤﴾
ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی ان پر ذلت چھا رہی ہو گی یہی وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا
اِن کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی، ذلت اِن پر چھا رہی ہوگی وہ دن ہے جس کا اِن سے وعدہ کیا جا رہا ہے
آنکھیں نیچی کیے ہوئے ان پر ذلت سوار، یہ ہے ان کا وہ دن جس کا ان سے وعدہ تھا
ان کی آنکھیں جھک رہی ہوں گی اور ذلت ان پر چھا رہی ہوگی۔ یہی وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا
(ان کا) حال یہ ہو گا کہ ان کی آنکھیں (شرم اور خوف سے) جھک رہی ہوں گی، ذِلت ان پر چھا رہی ہوگی، یہی ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا،
ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی اور ذلت ان پر چھائی ہوگی اور یہی وہ دن ہوگا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے
ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی، ان پر ذلت چھا رہی ہوگی، یہ ہے وه دن جس کا ان سے وعده کیا جاتا تھا
ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی (اور) ان پر ذلت و رسوائی چھائی ہوگی۔ یہی وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ وعید کیا جاتا تھا۔