Setting
Surah Defrauding [Al-Mutaffifin] in Urdu
وَيْلٌۭ لِّلْمُطَفِّفِينَ ﴿١﴾
کم تولنے والوں کے لیے تباہی ہے
تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے
کم تولنے والوں کی خرابی ہے،
ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے
بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے،
ویل ہے ان کے لئے جو ناپ تول میں کمی کرنے والے ہیں
بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی
بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے (ڈنڈی مارنے) والوں کے لئے۔
ٱلَّذِينَ إِذَا ٱكْتَالُوا۟ عَلَى ٱلنَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ﴿٢﴾
وہ لوگ کہ جب لوگوں سے ماپ کر لیں تو پورا کریں
جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں
وہ کہ جب اوروں سے ناپ لیں پورا لیں،
جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں
یہ لوگ جب (دوسرے) لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو (ان سے) پورا لیتے ہیں،
یہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں تو پورا مال لے لیتے ہیں
کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں
جب وہ (اپنے لئے) لوگوں سےناپ کر لیں تو پورا لیتے ہیں۔
وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ ﴿٣﴾
اور جب ان کو ماپ کر یا تول کردیں توگھٹا کر دیں
اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں
اور جب انہیں ناپ تول کردی کم کردیں،
اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو کم کر دیں
اور جب انہیں (خود) ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں،
اور جب ان کے لئے ناپتے یا تولتے ہیں تو کم کردیتے ہیں
اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں
اور جب لوگوں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں۔
أَلَا يَظُنُّ أُو۟لَٰٓئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ ﴿٤﴾
کیا وہ خیال نہیں کرتے کہ وہ اٹھائے جائیں گے
کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن،
کیا ان لوگوں کو گمان نہیں کہ انہیں اٹھنا ہے،
کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اٹھائے بھی جائیں گے
کیا یہ لوگ اس بات کا یقین نہیں رکھتے کہ وہ (مرنے کے بعد دوبارہ) اٹھائے جائیں گے،
کیا انہیں یہ خیال نہیں ہے کہ یہ ایک روز دوبارہ اٹھائے جانے والے ہیں
کیا انہیں اپنے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا خیال نہیں
کیا یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ وہ (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔
لِيَوْمٍ عَظِيمٍۢ ﴿٥﴾
اس بڑے دن کے لیے
یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں؟
ایک عظمت والے دن کے لیے
(یعنی) ایک بڑے (سخت) دن میں
ایک بڑے سخت دن کے لئے،
بڑے سخت دن میں
اس عظیم دن کے لئے
ایک بڑے (سخت) دن کیلئے۔
يَوْمَ يَقُومُ ٱلنَّاسُ لِرَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿٦﴾
جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہو ں گے
اُس دن جبکہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے
جس دن سب لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے،
جس دن (تمام) لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے
جس دن سب لوگ تمام جہانوں کے رب کے حضور کھڑے ہوں گے،
جس دن سب رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے
جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے
جس دن تمام لوگ ربُ العالمین کی بارگاہ میں پیشی کیلئے کھڑے ہوں گے۔
كَلَّآ إِنَّ كِتَٰبَ ٱلْفُجَّارِ لَفِى سِجِّينٍۢ ﴿٧﴾
ہر گز ایسا نہیں چاہیے بے شک نافرمانوں کے اعمال نامے سجین میں ہیں
ہرگز نہیں، یقیناً بد کاروں کا نامہ اعمال قید خانے کے دفتر میں ہے
بیشک کافروں کی لکھت سب سے نیچی جگہ سجین میں ہے
سن رکھو کہ بدکارروں کے اعمال سجّین میں ہیں
یہ حق ہے کہ بدکرداروں کا نامۂ اعمال سجین (یعنی دیوان خانۂ جہنم) میں ہے،
یاد رکھو کہ بدکاروں کا نامہ اعمال سجین میں ہوگا
یقیناً بدکاروں کا نامہٴ اعمال سِجِّينٌ میں ہے
ہرگز نہیں! بےشک بدکاروں کا نامۂ اعمال سِجِّین (قید خانہ کے دفتر) میں ہے۔
وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا سِجِّينٌۭ ﴿٨﴾
اور آپ کو کیا خبر کہ سجین کیا ہے
اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ قید خانے کا دفتر کیا ہے؟
اور تو کیا جانے سجین کیسی ہے
اور تم کیا جانتے ہوں کہ سجّین کیا چیز ہے؟
اور آپ نے کیا جانا کہ سجین کیا ہے،
اور تم کیا جو کہ سجین کیا ہے
تجھے کیا معلوم سِجِّينٌ کیا ہے؟
تمہیں کیا معلوم کہ سِجِّین کیا ہے؟
كِتَٰبٌۭ مَّرْقُومٌۭ ﴿٩﴾
ایک دفتر ہے جس میں لکھا جاتا ہے
ایک کتاب ہے لکھی ہوئی
وہ لکھت ایک مہر کیا نوشتہ ہے
ایک دفتر ہے لکھا ہوا
(یہ قید خانۂ دوزخ میں اس بڑے دیوان کے اندر) لکھی ہوئی (ایک) کتاب ہے (جس میں ہر جہنمی کا نام اور اس کے اعمال درج ہیں)،
ایک لکھا ہوا دفتر ہے
(یہ تو) لکھی ہوئی کتاب ہے
یہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے (جس میں بدکاروں کے عمل درج ہیں)۔
وَيْلٌۭ يَوْمَئِذٍۢ لِّلْمُكَذِّبِينَ ﴿١٠﴾
اس دن جھٹلانے والوں کے لئے تباہی ہے
تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے
اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے،
اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے
اس دن جھٹلانے والوں کے لئے تباہی ہوگی،
آج کے دن ان جھٹلانے والوں کے لئے بربادی ہے
اس دن جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہے
بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کیلئے۔
ٱلَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ ٱلدِّينِ ﴿١١﴾
وہ جو انصاف کے دن کو جھٹلاتے ہیں
جو روز جزا کو جھٹلاتے ہیں
جو انصاف کے دن کو جھٹلاتے ہیں
(یعنی) جو انصاف کے دن کو جھٹلاتے ہیں
جو لوگ روزِ جزا کو جھٹلاتے ہیں،
جو لوگ روز جزا کا انکار کرتے ہیں
جو جزا وسزا کے دن کو جھٹلاتے رہے
جو جزا و سزا کے دن (قیامت) کو جھٹلاتے ہیں۔
وَمَا يُكَذِّبُ بِهِۦٓ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾
اور اس کو وہی جھٹلاتا ہے جو حد سے بڑھا ہوا گناہگار ہے
اور اُسے نہیں جھٹلاتا مگر ہر وہ شخص جو حد سے گزر جانے والا بد عمل ہے
اور اسے نہ جھٹلائے گا مگر ہر سرکش
اور اس کو جھٹلاتا وہی ہے جو حد سے نکل جانے والا گنہگار ہے
اور اسے کوئی نہیں جھٹلاتا سوائے ہر اس شخص کے جو سرکش و گنہگار ہے،
اور اس کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو حد سے گزر جانے والے گنہگار ہیں
اسے صرف وہی جھٹلاتا ہےجو حد سے آگے نکل جانے واﻻ (اور) گناه گار ہوتا ہے
اور اس دن کو نہیں جھٹلاتا مگر وہ شخص جو حد سے گزر نے والا (اور) گنہگار ہے۔
إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ءَايَٰتُنَا قَالَ أَسَٰطِيرُ ٱلْأَوَّلِينَ ﴿١٣﴾
جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے پہلوں کی کہانیاں ہیں
اُسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کی کہانیاں ہیں
جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں کہے اگلوں کی کہانیاں ہیں،
جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں
جب اس پر ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتا (یا سمجھتا) ہے کہ (یہ تو) اگلے لوگوں کی کہانیاں ہیں،
جب ان کے سامنے آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو پرانے افسانے ہیں
جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ اگلوں کے افسانے ہیں
کہ جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو پہلے زمانے والوں کے افسانے ہیں۔
كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ ﴿١٤﴾
ہر گز نہیں بلکہ ان کے (بڑے) کاموں سے ان کے دلو ں پر زنگ لگ گیا ہے
ہرگز نہیں، بلکہ دراصل اِن لوگوں کے دلوں پر اِن کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے
کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ان کی کمائیوں نے
دیکھو یہ جو (اعمال بد) کرتے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے
(ایسا) ہرگز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اَعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)،
نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے
یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کےاعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے
ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زَنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کرتے ہیں۔
كَلَّآ إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍۢ لَّمَحْجُوبُونَ ﴿١٥﴾
ہر گز نہیں بے شک وہ اپنے رب سے اس دن روک دیئے جائیں گے
ہرگز نہیں، بالیقین اُس روز یہ اپنے رب کی دید سے محروم رکھے جائیں گے
ہاں ہاں بیشک وہ اس دن اپنے رب کے دیدار سے محروم ہیں
بےشک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار (کے دیدار) سے اوٹ میں ہوں گے
حق یہ ہے کہ بیشک اس دن انہیں اپنے ر ب کے دیدار سے (محروم کرنے کے لئے) پسِ پردہ کر دیا جائے گا،
یاد رکھو انہیں روز قیامت پروردگار کی رحمت سے محجوب کردیا جائے گا
ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سےاوٹ میں رکھے جائیں گے
ہرگز (ایسا نہیں کہ جزا وسزا نہ ہو) یہ لوگ اس دن اپنے پروردگار (کی رحمت سے) (محجوب اور محروم) رہیں گے۔
ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُوا۟ ٱلْجَحِيمِ ﴿١٦﴾
پھر بے شک وہ دوزخ میں گرنے والے ہیں
پھر یہ جہنم میں جا پڑیں گے
پھر بیشک انہیں جہنم میں داخل ہونا،
پھر دوزخ میں جا داخل ہوں گے
پھر وہ دوزخ میں جھونک دیئے جائیں گے،
پھر اس کے بعد یہ جہنمّ میں جھونکے جانے والے ہیں
پھر یہ لوگ بالیقین جہنم میں جھونکے جائیں گے
پھر یہ لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔
ثُمَّ يُقَالُ هَٰذَا ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ ﴿١٧﴾
پھر کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ جسے تم جھٹلاتے تھے
پھر اِن سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے
پھر کہا جائے گا، یہ ہے وہ جسے تم جھٹلاتے تھے
پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جس کو تم جھٹلاتے تھے
پھر ان سے کہا جائے گا: یہ وہ (عذابِ جہنم) ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے،
پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہی وہ ہے جس کا تم انکار رہے تھے
پھر کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے وه جسے تم جھٹلاتے رہے
پھر (ان سے) کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھٹلاتے تھے۔
كَلَّآ إِنَّ كِتَٰبَ ٱلْأَبْرَارِ لَفِى عِلِّيِّينَ ﴿١٨﴾
ہر گز نہیں بےشک نیکوں کے اعمال نامے علییں میں ہیں
ہرگز نہیں، بے شک نیک آدمیوں کا نامہ اعمال بلند پایہ لوگوں کے دفتر میں ہے
ہاں ہاں بیشک نیکوں کی لکھت سب سے اونچا محل علیین میں ہے
(یہ بھی) سن رکھو کہ نیکوکاروں کے اعمال علیین میں ہیں
یہ (بھی) حق ہے کہ بیشک نیکوکاروں کا نوشتہ اعمال علّیّین (یعنی دیوان خانۂ جنت) میں ہے،
یاد رکھو کہ نیک کردار افراد کا نامہ اعمال علیین میں ہوگا
یقیناً یقیناً نیکو کاروں کا نامہٴ اعمال عِلِّیین میں ہے
ہرگز (ایسا) نہیں (کہ جزا و سزا نہ ہو) یقیناً نیکو کاروں کا نامۂ اعمال علیین (بلند مرتبہ لوگوں کے دفتر) میں ہے۔
وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا عِلِّيُّونَ ﴿١٩﴾
اور آپ کو کیا خبر کہ علیّین کیا ہے
اور تمہیں کیا خبر کہ کیا ہے وہ بلند پایہ لوگوں کا دفتر؟
اور تو کیا جانے علیین کیسی ہے
اور تم کو کیا معلوم کہ علیین کیا چیز ہے؟
اور آپ نے کیا جانا کہ علّیّین کیا ہے،
اور تم کیا جانو کہ علیین کیا ہے
تجھے کیا پتہ کہ عِلِّیین کیا ہے؟
اور تمہیں کیا معلوم کہ علیین (بلند مرتبہ لوگوں کا دفتر) کیا ہے؟
كِتَٰبٌۭ مَّرْقُومٌۭ ﴿٢٠﴾
ایک دفتر ہے جس میں لکھا جاتا ہے
ایک لکھی ہوئی کتاب ہے
وہ لکھت ایک مہر کیا نوشتہ ہے
ایک دفتر ہے لکھا ہوا
(یہ جنت کے اعلیٰ درجہ میں اس بڑے دیوان کے اندر) لکھی ہوئی (ایک) کتاب ہے (جس میں ان جنتیوں کے نام اور اَعمال درج ہیں جنہیں اعلیٰ مقامات دئیے جائیں گے)،
ایک لکھا ہوا دفتر ہے
(وه تو) لکھی ہوئی کتاب ہے
وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے (جس میں نیکو کاروں کے عمل درج ہیں)۔
يَشْهَدُهُ ٱلْمُقَرَّبُونَ ﴿٢١﴾
اسے مقرب فرشتے دیکھتے ہیں
جس کی نگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں
کہ مقرب جس کی زیارت کرتے ہیں،
جس کے پاس مقرب (فرشتے) حاضر رہتے ہیں
اس جگہ (اللہ کے) مقرب فرشتے حاضر رہتے ہیں،
جس کے گواہ ملائکہ مقربین ہیں
مقرب (فرشتے) اس کا مشاہده کرتے ہیں
جس کامشاہدہ مقرب فرشتے کرتے ہیں۔
إِنَّ ٱلْأَبْرَارَ لَفِى نَعِيمٍ ﴿٢٢﴾
بے شک نیکو کار جنت میں ہوں گے
بے شک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے
بیشک نیکوکار ضرور چین میں ہیں،
بےشک نیک لوگ چین میں ہوں گے
بیشک نیکوکار (راحت و مسرت سے) نعمتوں والی جنت میں ہوں گے،
بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے
یقیناً نیک لوگ (بڑی) نعمتوں میں ہوں گے
بےشک نیکوکار لوگ عیش و آرام میں ہوں گے۔
عَلَى ٱلْأَرَآئِكِ يَنظُرُونَ ﴿٢٣﴾
تختوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے
اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے
تختوں پر دیکھتے ہیں
تختوں پر بیٹھے ہوئے نظارے کریں گے
تختوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے،
تختوں پر بیٹھے ہوئے نظارے کررہے ہوں گے
مسہریوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے
اونچی مسندوں پر بیٹھ کر دیکھ رہے ہونگے (نظارے کر رہے ہوں گے)۔
تَعْرِفُ فِى وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ ٱلنَّعِيمِ ﴿٢٤﴾
آپ ان کے چہروں میں نعمت کی تازگی معلوم کریں گے
ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کرو گے
تو ان کے چہروں میں چین کی تازگی پہنچانے
تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لو گے
آپ ان کے چہروں سے ہی نعمت و راحت کی رونق اور شگفتگی معلوم کر لیں گے،
تم ان کے چہروں پر نعمت کی شادابی کا مشاہدہ کروگے
تو ان کے چہروں سے ہی نعمتوں کی تروتازگی پہچان لے گا
تم ان کے چہروں پر راحت و آرام کی شادابی محسوس کرو گے۔
يُسْقَوْنَ مِن رَّحِيقٍۢ مَّخْتُومٍ ﴿٢٥﴾
ان کو خالص شراب مہر لگی ہوئی پلائی جائے گی
ان کو نفیس ترین سر بند شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہر لگی ہوگی
نتھری شراب پلائے جائیں گے جو مہُر کی ہوئی رکھی ہے
ان کو خالص شراب سربمہر پلائی جائے گی
انہیں سر بہ مہر بڑی لذیذ شرابِ طہور پلائی جائے گی،
انہیں سربمہر خالص شراب سے سیراب کیا جائے گا
یہ لوگ سربمہر خالص شراب پلائے جائیں گے
انہیں سر بمہر عمدہ شراب (طہور) پلائی جائے گی۔
خِتَٰمُهُۥ مِسْكٌۭ ۚ وَفِى ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ ٱلْمُتَنَٰفِسُونَ ﴿٢٦﴾
اس کی مہر مشک کی ہو گی اور رغبت کرنے والوں کو اس کی رغبت کرنی چاہیئے
جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اِس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں
اس کی مہُر مشک پر ہے، اور اسی پر چاہیے کہ للچائیں للچانے والے
جس کی مہر مشک کی ہو گی تو (نعمتوں کے) شائقین کو چاہیے کہ اسی سے رغبت کریں
اس کی مُہر کستوری کی ہوگی، اور (یہی وہ شراب ہے) جس کے حصول میں شائقین کو جلد کوشش کر کے سبقت لینی چاہیے (کوئی شرابِ نعمت کا طالب و شائق ہے، کوئی شرابِ قربت کا اور کوئی شرابِ دیدار کا۔ ہر کسی کو اس کے شوق کے مطابق پلائی جائے گی)،
جس کی مہر مشک کی ہوگی اور ایسی چیزوں میں شوق کرنے والوں کو آپس میں سبقت اور رغبت کرنی چاہئے
جس پر مشک کی مہر ہوگی، سبقت لے جانے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہئے
جس پر مشک کی مہر ہوگی۔ اس چیز میں سبقت لے جانے والوں کو سبقت (اور رغبت) کرنی چاہیے۔
وَمِزَاجُهُۥ مِن تَسْنِيمٍ ﴿٢٧﴾
اور اس میں تسنیم ملی ہو گی
اُس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہوگی
اور اس کی ملونی تسنیم سے ہے
اور اس میں تسنیم (کے پانی) کی آمیزش ہو گی
اور اس (شراب) میں آبِ تسنیم کی آمیزش ہوگی،
اس شراب میں تسنیم کے پانی کی آمیزش ہوگی
اور اس کی آمیزش تسنیم کی ہوگی
ور اس (شراب میں) تسنیم کی آمیزش ہوگی۔
عَيْنًۭا يَشْرَبُ بِهَا ٱلْمُقَرَّبُونَ ﴿٢٨﴾
وہ ایک چشمہ ہے اس میں سےمقرب پئیں گے
یہ ایک چشمہ ہے جس کے پانی کے ساتھ مقرب لوگ شراب پئیں گے
وہ چشمہ جس سے مقربانِ بارگاہ پیتے ہیں
وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے (خدا کے) مقرب پیئیں گے
(یہ تسنیم) ایک چشمہ ہے جہاں سے صرف اہلِ قربت پیتے ہیں،
یہ ایک چشمہ ہے جس سے مقرب بارگاہ بندے پانی پیتے ہیں
(یعنی) وه چشمہ جس کا پانی مقرب لوگ پیئں گے
یہ وہ چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پئیں گے۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ أَجْرَمُوا۟ كَانُوا۟ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يَضْحَكُونَ ﴿٢٩﴾
بے شک نافرمان (دنیا میں) ایمان داروں سے ہنسی کیا کرتے تھے
مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے
بیشک مجرم لوگ ایمان والوں سے ہنسا کرتے تھے،
جو گنہگار (یعنی کفار) ہیں وہ (دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے
بیشک مجرم لوگ ایمان والوں کا (دنیا میں) مذاق اڑایا کرتے تھے،
بے شک یہ مجرمین صاحبانِ ایمان کا مذاق اُڑایا کرتے تھے
گنہگار لوگ ایمان والوں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے
بےشک جو مجرم لوگ تھے وہ (دارِ دنیا میں) اہلِ ایمان پر ہنستے تھے۔
وَإِذَا مَرُّوا۟ بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ ﴿٣٠﴾
اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو آپس میں آنکھ سے اشارے کرتے تھے
جب اُن کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مار مار کر اُن کی طرف اشارے کرتے تھے
اور جب وہ ان پر گزرتے تو یہ آپس میں ان پر آنکھوں سے اشارے کرتے
اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو حقارت سے اشارے کرتے
اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو آپس میں آنکھوں سے اشارہ بازی کرتے تھے،
اور جب وہ ان کے پاس سے گزرتے تھے تو اشارے کنائے کرتے تھے
اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھ کےاشارے کرتے تھے
جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو آنکھیں مارا کرتے تھے۔
وَإِذَا ٱنقَلَبُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَهْلِهِمُ ٱنقَلَبُوا۟ فَكِهِينَ ﴿٣١﴾
اور جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاتے تو ہنستے ہوئے جاتے تھے
اپنے گھروں کی طرف پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے
اور جب (ف۹۳۳ اپنے گھر پلٹتے خوشیاں کرتے پلٹتے
اور جب اپنے گھر کو لوٹتے تو اتراتے ہوئے لوٹتے
اور جب اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تو (مومنوں کی تنگ دستی اور اپنی خوش حالی کا موازنہ کر کے) اِتراتے اور دل لگی کرتے ہوئے پلٹتے تھے،
اور جب اپنے اہل کی طرف پلٹ کر آتے تھے تو خوش وخرم ہوتے تھے
اور جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگیاں کرتے تھے
اور جب اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تھے تو دل لگیاں کرتے ہوئے لوٹتے تھے۔
وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوٓا۟ إِنَّ هَٰٓؤُلَآءِ لَضَآلُّونَ ﴿٣٢﴾
اور جب ان کو دیکھتے تو کہتے بے شک یہی گمراہ ہیں
اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں
اور جب مسلمانوں کو دیکھتے کہتے بیشک یہ لوگ بہکے ہوئے ہیں
اور جب ان (مومنوں) کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ تو گمراہ ہیں
اور جب یہ (مغرور لوگ) ان (کمزور حال مومنوں) کو دیکھتے تو کہتے: یقیناً یہ لوگ راہ سے بھٹک گئے ہیں (یعنی یہ دنیا گنوا بیٹھے ہیں اور آخرت تو ہے ہی فقط افسانہ)،
اور جب مومنین کو دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ سب اصلی گمراہ ہیں
اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراه (بے راه) ہیں
اور جب ان (اہلِ ایمان) کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔
وَمَآ أُرْسِلُوا۟ عَلَيْهِمْ حَٰفِظِينَ ﴿٣٣﴾
حالانکہ وہ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے
حالانکہ وہ اُن پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے
اور یہ کچھ ان پر نگہبان بناکر نہ بھیجے گئے
حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے
حالانکہ وہ ان (کے حال) پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے،
حالانکہ انہیں ان کا نگراں بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا
یہ ان پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجے گئے
حالانکہ وہ انکے نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔
فَٱلْيَوْمَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنَ ٱلْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ ﴿٣٤﴾
پس آج وہ لوگ جو ایمان لائے کفار سے ہنس رہے ہوں گے
آج ایمان لانے والے کفار پر ہنس رہے ہیں
تو آج ایمان والے کافروں سے ہنستے ہیں
تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے
پس آج (دیکھو) اہلِ ایمان کافروں پر ہنس رہے ہیں،
تو آج ایمان لانے والے بھی کفاّر کا مضحکہ اُڑائیں گے
پس آج ایمان والے ان کافروں پر ہنسیں گے
پس آج اہلِ ایمان کافروں (اور منکروں) پر ہنستے ہوں گے۔
عَلَى ٱلْأَرَآئِكِ يَنظُرُونَ ﴿٣٥﴾
تختوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے
مسندوں پر بیٹھے ہوئے ان کا حال دیکھ رہے ہیں
تختوں پر بیٹھے دیکھتے ہیں
(اور) تختوں پر (بیٹھے ہوئے ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے
سجے ہوئے تختوں پر بیٹھے (اپنی خوش حالی اور کافروں کی بدحالی کا) نظارہ کر رہے ہیں،
تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے
تختوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے
اونچی مسندوں پر بیٹھے ہوئے (ان کی حالت) دیکھ رہے ہونگے۔
هَلْ ثُوِّبَ ٱلْكُفَّارُ مَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾
آیا کافروں کو بدلہ دیا گیا ہے ان اعمال کا جو وہ کیا کرتے تھے
مل گیا نا کافروں کو اُن حرکتوں کا ثواب جو وہ کیا کرتے تھے
کیوں کچھ بدلا ملا کافروں کو اپنے کیے کا
تو کافروں کو ان کے عملوں کا (پورا پورا) بدلہ مل گیا
سو کیا کافروں کو اس (مذاق) کا پورا بدلہ دے دیا گیا جو وہ (مسلمانوں سے) کیا کرتے تھے،
اب تو کفار کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل رہا ہے
کہ اب ان منکروں نے جیسا یہ کرتے تھے پورا پورا بدلہ پالیا
کیا کافروں کو ان کے کئے ہوئے (کرتوتوں) کا پورا بدلہ مل گیا ہے۔