Setting
Surah The Dawn [Al-Fajr] in Urdu
وَٱلْفَجْرِ ﴿١﴾
فجر کی قسم ہے
قسم ہے فجر کی
اس صبح کی قسم
فجر کی قسم
اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی)٭، ٭ مراد ہر روز کی صبح یا نمازِ فجر ہے یا بطورِ خاص ماہ ذی الحجہ کی پہلی صبح یا یکم محرم کی صبح ہے یا عید الاضحٰی کی صبح۔ اس سے مراد سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی بھی ہے جن کی بعثت سے شبِ ظلمت کا خاتمہ ہوا اور صبحِ ایمان پھوٹی۔
قسم ہے فجر کی
قسم ہے فجر کی!
قَسم ہے صبح کی۔
وَلَيَالٍ عَشْرٍۢ ﴿٢﴾
اور دس راتوں کی
اور دس راتوں کی
اور دس راتوں کی
اور دس راتوں کی
اور دس (مبارک) راتوں کی قَسم٭، ٭ مراد ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں یا پہلے عشرۂ محرّم کی راتیں ہیں یا اوّل عشرۂ ذی الحجہ کی راتیں ہیں جو برکات و درجات سے معمور ہیں۔
اور دس راتوں کی
اور دس راتوں کی!
اور دس (مقدس) راتوں کی۔
وَٱلشَّفْعِ وَٱلْوَتْرِ ﴿٣﴾
اور جفت اور طاق کی
اور جفت اور طاق کی
اور جفت اور طاق کی
اور جفت اور طاق کی
اور جفت کی قَسم اور طاق کی قَسم٭، ٭ جفت (جوڑا) سے مراد کل مخلوق ہے جو جوڑوں کی صورت میں پیدا کی گئی ہے، اور طاق (فرد و تنہا) سے مراد خالق ہے جو وحدہ لا شریک ہے۔ یا شَفع یومِ نحر (قربانی) اور وَتر یومِ عرفہ (حج) ہے، یا شَفع سے مراد دنیا کے شب و روز ہیں اور وَتر سے مراد یومِ قیامت ہے جس کی کوئی شب نہ ہوگی۔ یا شَفع سے مراد سال بھر کی عام جفت راتیں ہیں اور وَتر سے مراد سال بھر کی برکت والی طاق راتیں ہیں، مثلاً شبِ معراج، شبِ برات اور شبِ قدر وغیرہ جو پے در پے رجب، شعبان اور رمضان میں آتی ہیں۔ یا شَفع سے مراد حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء علیہا السلام کا پہلا جوڑا ہے اور وَتر سے مراد تنہا حضرت آدم علیہ السلام، جن سے تخلیقِ انسانیت کی ابتداء ہوئی۔
اور جفت و طاق کی
اور جفت اور طاق کی!
اورجُفت اور طاق کی۔
وَٱلَّيْلِ إِذَا يَسْرِ ﴿٤﴾
اور رات کی جب وہ گزر جائے
اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو
اور رات کی جب چل دے
اور رات کی جب جانے لگے
اور رات کی قسم جب گزر چلے (مراد ہر شب ہے یا بطورِ خاص شبِ مزدلفہ یا شبِ قدر)،
اور رات کی جب وہ جانے لگے
اور رات کی جب وه چلنے لگے
اور رات کی جبکہ (جانے کیلئے) چلنے لگے۔
هَلْ فِى ذَٰلِكَ قَسَمٌۭ لِّذِى حِجْرٍ ﴿٥﴾
ان چیزو ں کی قسم عقلمندوں کے واسطے معتبر ہے
کیا اِس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے؟
کیوں اس میں عقلمند کے لیے قسم ہوئی
اور بے شک یہ چیزیں عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائق ہیں کہ (کافروں کو ضرور عذاب ہو گا)
بیشک ان میں عقل مند کے لئے بڑی قسم ہے،
بے شک ان چیزوں میں قسم ہے صاحبِ عقل کے لئے
کیا ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے
کیا اس میں صاحبِ عقل کیلئے کوئی قسم ہے؟ (یعنی یقیناً ہے)۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ﴿٦﴾
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے عاد کے ساتھ کیا سلوک کیا
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا
کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیسا کیا،
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے (قومِ) عاد کے ساتھ کیسا (سلوک) کیا؟،
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا ہے
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے عادیوں کے ساتھ کیا کیا
کیا آپ(ص) نے نہیں دیکھا کہ آپ(ص) کے پروردگار نے قومِ عاد کے ساتھ کیا کیا؟
إِرَمَ ذَاتِ ٱلْعِمَادِ ﴿٧﴾
جو نسل ارم سے ستونوں والے تھے
اونچے ستونوں والے عاد ارم کے ساتھ
وہ اِرم حد سے زیادہ طول والے
(جو) ارم (کہلاتے تھے اتنے) دراز قد
(جو اہلِ) اِرم تھے (اور) بڑے بڑے ستونوں (کی طرح دراز قد اور اونچے محلات) والے تھے،
ستون والے ارم والے
ستونوں والے ارم کے ساتھ
یعنی اونچے ستونوں والے ارم کے ساتھ۔
ٱلَّتِى لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِى ٱلْبِلَٰدِ ﴿٨﴾
کہ ان جیسا شہرو ں میں پیدا نہیں کیا گیا
جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی؟
کہ اس جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا
کہ تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے
جن کا مثل (دنیا کے) ملکوں میں (کوئی بھی) پیدا نہیں کیا گیا،
جس کا مثل دوسرے شہروں میں نہیں پیدا ہوا ہے
جس کی مانند (کوئی قوم) ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی
جن کامثل (دنیا کے) شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا۔
وَثَمُودَ ٱلَّذِينَ جَابُوا۟ ٱلصَّخْرَ بِٱلْوَادِ ﴿٩﴾
اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے پتھروں کو وادی میں تراشا تھا
اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟
اور ثمود جنہوں نے وادی میں پتھر کی چٹانیں کاٹیں
اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا) جو وادئِ (قریٰ) میں پتھر تراشتے تھے (اور گھر بناتے) تھے
اور ثمود (کے ساتھ کیا سلوک ہوا) جنہوں نے وادئ (قری) میں چٹانوں کو کاٹ (کر پتھروں سے سینکڑوں شہروں کو تعمیر کر) ڈالا تھا،
اور ثمود کے ساتھ جو وادی میں پتھر تراش کر مکان بناتے تھے
اور ﺛمودیوں کے ساتھ جنہوں نے وادی میں بڑے بڑے پتھر تراشے تھے
اور قومِ ثمود کے ساتھ (کیا کیا؟) جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں (اور عمارتیں بنائی تھیں)۔
وَفِرْعَوْنَ ذِى ٱلْأَوْتَادِ ﴿١٠﴾
اور فرعون میخوں والوں کے ساتھ
اور میخوں والے فرعون کے ساتھ؟
اور فرعون کہ چومیخا کرتا (سخت سزائیں دیتا)
اور فرعون کے ساتھ (کیا کیا) جو خیمے اور میخیں رکھتا تھا
اور فرعون (کا کیا حشر ہوا) جو بڑے لشکروں والا (یا لوگوں کو میخوں سے سزا دینے والا) تھا،
اور میخوں والے فرعون کے ساتھ
اور فرعون کے ساتھ جو میخوں واﻻ تھا
اور فرعون میخوں والے کے ساتھ (کیا کیا؟)۔
ٱلَّذِينَ طَغَوْا۟ فِى ٱلْبِلَٰدِ ﴿١١﴾
ان سب نے ملک میں سرکشی کی
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی
جنہوں نے شہروں میں سرکشی کی
یہ لوگ ملکوں میں سرکش ہو رہے تھے
(یہ) وہ لوگ (تھے) جنہوں نے (اپنے اپنے) ملکوں میں سرکشی کی تھی،
جن لوگوں نے شہروں میں سرکشی پھیلائی
ان سبھوں نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا
ان لوگوں نے شہروں میں سرکشی کی تھی۔
فَأَكْثَرُوا۟ فِيهَا ٱلْفَسَادَ ﴿١٢﴾
پھر انہوں نے بہت فساد پھیلایا
اور ان میں بہت فساد پھیلایا تھا
پھر ان میں بہت فساد پھیلایا
اور ان میں بہت سی خرابیاں کرتے تھے
پھر ان میں بڑی فساد انگیزی کی تھی،
اور خوب فساد کیا
اور بہت فساد مچا رکھا تھا
اوران میں بہت فساد پھیلایا تھا۔
فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ ﴿١٣﴾
پھر ان پر تیرے رب نے عذاب کا کوڑا پھینکا
آخرکار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا
تو ان پر تمہارے رب نے عذاب کا کوڑا بقوت مارا،
تو تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا نازل کیا
تو آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا،
تو پھر خدا نے ان پر عذاب کے کوڑے برسادیئے
آخر تیرے رب نے ان سب پر عذاب کا کوڑا برسایا
تو آپ کے پروردگار نے ان پر عذاب کا کَوڑا برسایا۔
إِنَّ رَبَّكَ لَبِٱلْمِرْصَادِ ﴿١٤﴾
بے شک آپ کا رب تاک میں ہے
حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے
بیشک تمہارے رب کی نظر سے کچھ غائب نہیں،
بے شک تمہارا پروردگار تاک میں ہے
بیشک آپ کا رب (سرکشوں اور نافرمانوں کی) خوب تاک میں ہے،
بے شک تمہارا پروردگار ظالموں کی تاک میں ہے
یقیناً تیرا رب گھات میں ہے
بےشک آپ(ص) کا پروردگار (ایسے لوگوں کی) تاک میں ہے۔
فَأَمَّا ٱلْإِنسَٰنُ إِذَا مَا ٱبْتَلَىٰهُ رَبُّهُۥ فَأَكْرَمَهُۥ وَنَعَّمَهُۥ فَيَقُولُ رَبِّىٓ أَكْرَمَنِ ﴿١٥﴾
لیکن انسان تو ایسا ہے کہ جب اسے اس کا رب آزماتا ہے پھر اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے
مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنا دیا
لیکن آدمی تو جب اسے اس کا رب آزمائے کہ اس کو جاہ اور نعمت دے، جب تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزت دی،
مگر انسان (عجیب مخلوق ہے کہ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے تو اسے عزت دیتا اور نعمت بخشتا ہے۔ تو کہتا ہے کہ (آہا) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی
مگر انسان (ایسا ہے) کہ جب اس کا رب اسے (راحت و آسائش دے کر) آزماتا ہے اور اسے عزت سے نوازتا ہے اور اسے نعمتیں بخشتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھ پر کرم فرمایا،
لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب خدا نے اس کو اس طرح آزمایا کہ عزّت اور نعمت دے دی تو کہنے لگا کہ میرے رب نے مجھے باعزّت بنایا ہے
انسان (کا یہ حال ہے کہ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت ونعمت دیتا ہے تو وه کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا
لیکن انسان (کا حال یہ ہے کہ) جب اس کا پروردگار اسے آزماتا ہے اور اسے عزت و نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے میری عزت افزائی کی۔
وَأَمَّآ إِذَا مَا ٱبْتَلَىٰهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُۥ فَيَقُولُ رَبِّىٓ أَهَٰنَنِ ﴿١٦﴾
لیکن جب اسے آزماتا ہے پھر اس پر اس کی روزی تنگ کر تا ہے تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا
اور جب وہ اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا
اور اگر آزمائے اور اس کا رزق اس پر تنگ کرے، تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے خوار کیا،
اور جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے کہ (ہائے) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا
لیکن جب وہ اسے (تکلیف و مصیبت دے کر) آزماتا ہے اور اس پر اس کا رزق تنگ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا،
اور جب آزمائش کے لئے روزی کو تنگ کردیا تو کہنے لگا کہ میرے پروردگار نے میری توہین کی ہے
اور جب وه اس کو آزماتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وه کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی (اور ذلیل کیا)
اور جب وہ (خدا) اسے اس طرح آزماتا ہے کہ اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کر دیا۔
كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِمُونَ ٱلْيَتِيمَ ﴿١٧﴾
ہرگز نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے
ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے
یوں نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے
نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے
یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتے،
ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ تم یتیموں کا احترام نہیں کرتے ہو
ایسا ہرگز نہیں بلکہ (بات یہ ہے) کہ تم (ہی) لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے
ہرگز نہیں! بلکہ تم لوگ یتیم کی عزت نہیں کرتے۔
وَلَا تَحَٰٓضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ ٱلْمِسْكِينِ ﴿١٨﴾
اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو
اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اکساتے
اور آپس میں ایک دوسرے کو مسکین کے کھلانے کی رغبت نہیں دیتے،
اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو
اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو،
اور لوگوں کو م مسکینوں کے کھانے پر آمادہ نہیں کرتے ہو
اور مسکینوں کے کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے
اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو آمادہ نہیں کرتے۔
وَتَأْكُلُونَ ٱلتُّرَاثَ أَكْلًۭا لَّمًّۭا ﴿١٩﴾
اور میت کا ترکہ سب سمیٹ کر کھا جاتے ہو
اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو
اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے ہو
اور میراث کے مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو
اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)،
اور میراث کے مال کو اکٹھا کرکے حلال و حرام سب کھا جاتے ہو
اور (مردوں کی) میراث سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو
اور وراثت کا سارا مال (حلال و حرام) سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔
وَتُحِبُّونَ ٱلْمَالَ حُبًّۭا جَمًّۭا ﴿٢٠﴾
اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو
اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو
اور مال کی نہایت محبت رکھتے ہو
اور مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو
اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو،
اور مال دنیا کو بہت دوست رکھتے ہو
اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو
اورتم مال و منال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو۔
كَلَّآ إِذَا دُكَّتِ ٱلْأَرْضُ دَكًّۭا دَكًّۭا ﴿٢١﴾
ہرگز نہیں جب زمین کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دی جائے گی
ہرگز نہیں، جب زمین پے در پے کوٹ کوٹ کر ریگ زار بنا دی جائے گی
ہاں ہاں جب زمین ٹکرا کر پاش پاش کردی جائے
تو جب زمین کی بلندی کوٹ کوٹ کو پست کر دی جائے گی
یقیناً جب زمین پاش پاش کر کے ریزہ ریزہ کر دی جائے گی،
یاد رکھو کہ جب زمین کو ریزہ ریزہ کردیا جائے گا
یقیناً جس وقت زمین کوٹ کوٹ کر برابر کر دی جائے گی
ہرگز نہیں! وہ وقت یاد کرو جب زمین کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔
وَجَآءَ رَبُّكَ وَٱلْمَلَكُ صَفًّۭا صَفًّۭا ﴿٢٢﴾
اور آپ کے رب کا (تخت) آجائے گا اور فرشتے بھی صف بستہ چلے آئيں گے
اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگا اِس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے
اور تمہارے رب کا حکم آئے اور فرشتے قطار قطار،
اور تمہارا پروردگار (جلوہ فرما ہو گا) اور فرشتے قطار باندھ باندھ کر آ موجود ہوں گے
اور آپ کا رب جلوہ فرما ہوگا اور فرشتے قطار در قطار (اس کے حضور) حاضر ہوں گے،
اور تمہارے پروردگار کا حکم اور فرشتے صف در صف آجائیں گے
اور تیرا رب (خود) آجائے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر (آ جائیں گے)
اور تمہارا پروردگار (یعنی اس کا حکم) آجائے گا اور فرشتے قطار اندر قطار آئیں گے۔
وَجِا۟ىٓءَ يَوْمَئِذٍۭ بِجَهَنَّمَ ۚ يَوْمَئِذٍۢ يَتَذَكَّرُ ٱلْإِنسَٰنُ وَأَنَّىٰ لَهُ ٱلذِّكْرَىٰ ﴿٢٣﴾
اوراس دن دوزخ لائی جائے گی اس دن انسان سمجھے گا اور اس وقت اس کو سمجھنا کیا فائدہ دے گا
اور جہنم اُس روز سامنے لے آئی جائے گی، اُس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اُس کے سمجھنے کا کیا حاصل؟
اور اس دن جہنم لائے جائے اس دن آدمی سوچے گا اور اب اسے سوچنے کا وقت کہاں
اور دوزخ اس دن حاضر کی جائے گی تو انسان اس دن متنبہ ہو گا مگر تنبہ (سے) اسے (فائدہ) کہاں (مل سکے گا)
اور اس دن دوزخ پیش کی جائے گی، اس دن انسان کو سمجھ آجائے گی مگر (اب) اسے نصیحت کہاں (فائدہ مند) ہوگی،
اور جہنمّ کو اس دن سامنے لایا جائے گا تو انسان کو ہوش آجائے گا لیکن اس دن ہوش آنے کا کیا فائدہ
اور جس دن جہنم بھی ﻻئی جائے گی اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر آج اس کے سمجھنے کا فائده کہاں؟
اور اس دن جہنم (سامنے) لائی جائے گی اور اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر اب سمجھ آنے کا کیا فائدہ؟
يَقُولُ يَٰلَيْتَنِى قَدَّمْتُ لِحَيَاتِى ﴿٢٤﴾
کہے گا اے کاش میں اپنی زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجتا
وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اِس زندگی کے لیے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا!
کہے گا ہائے کسی طرح میں نے جیتے جی نیکی آگے بھیجی ہوتی،
کہے گا کاش میں نے اپنی زندگی (جاودانی کے لیے) کچھ آگے بھیجا ہوتا
وہ کہے گا: اے کاش! میں نے اپنی (اس اصل) زندگی کے لئے (کچھ) آگے بھیج دیا ہوتا (جو آج میرے کام آتا)،
انسان کہے گا کہ کاش میں نے اپنی اس زندگی کے لئے کچھ پہلے بھیج دیا ہوتا
وه کہے گا کہ کاش کہ میں نے اپنی اس زندگی کے لئے کچھ پیشگی سامان کیا ہوتا
وہ کہے گا کہ کاش! میں نے اپنی (اس) زندگی کیلئے کچھ آگے بھیجا ہوتا۔
فَيَوْمَئِذٍۢ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُۥٓ أَحَدٌۭ ﴿٢٥﴾
پس اس دن اس کا ساعذاب کوئی بھی نہ دے گا
پھر اُس دن اللہ جو عذاب دے گا ویسا عذاب دینے والا کوئی نہیں
تو اس دن اس کا سا عذاب کوئی نہیں کرتا،
تو اس دن نہ کوئی خدا کے عذاب کی طرح کا (کسی کو) عذاب دے گا
سو اس دن نہ اس کے عذاب کی طرح کوئی عذاب دے سکے گا،
تو اس دن خدا ویسا عذاب کرے گا جو کسی نے نہ کیا ہوگا
پس آج اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی کا نہ ہوگا
پس اس دن نہ تو خدا کی طرح کوئی عذاب دے گا۔
وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُۥٓ أَحَدٌۭ ﴿٢٦﴾
اور نہ اس کے جکڑنے کے برابر کوئی جکڑنے والا ہو گا
اور اللہ جیسا باندھے گا ویسا باندھنے والا کوئی نہیں
اور اس کا سا باندھنا کوئی نہیں باندھتا،
اور نہ کوئی ویسا جکڑنا جکڑے گا
اور نہ اس کے جکڑنے کی طرح کوئی جکڑ سکے گا،
اور نہ اس طرح کسی نے گرفتار کیا ہوگا
نہ اسکی قید وبند جیسی کسی کی قید وبند ہوگی
اور نہ اس کے باندھنے کی طرح کوئی باندھ سکے گا۔
يَٰٓأَيَّتُهَا ٱلنَّفْسُ ٱلْمُطْمَئِنَّةُ ﴿٢٧﴾
(ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح
(دوسری طرف ارشاد ہوگا) اے نفس مطمئن!
اے اطمینان والی جان
اے اطمینان پانے والی روح!
اے اطمینان پا جانے والے نفس،
اے نفس مطمئن
اے اطمینان والی روح
(ارشاد ہوگا) اے نفسِ مطمئن۔
ٱرْجِعِىٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةًۭ مَّرْضِيَّةًۭ ﴿٢٨﴾
اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی
چل اپنے رب کی طرف، اِس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے
اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی،
اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی
تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)،
اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس عالم میں کہ تواس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے
تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وه تجھ سے خوش
تو اس حالت میں اپنے پروردگار کی طرف چل کہ تواس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے۔
فَٱدْخُلِى فِى عِبَٰدِى ﴿٢٩﴾
پس میرے بندو ں میں شامل ہو
شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں
پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو،
تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا
پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا،
پھر میرے بندوں میں شامل ہوجا
پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا
پس تُو میرے (خاص) بندوں میں داخل ہو جا۔
وَٱدْخُلِى جَنَّتِى ﴿٣٠﴾
اور میری جنت میں داخل ہو
اور داخل ہو جا میری جنت میں
اور میری جنت میں آ،
اور میری بہشت میں داخل ہو جا
اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا،
اور میری جنت میں داخل ہوجا
اور میری جنت میں چلی جا
اور میری جنت میں داخل ہو جا۔