Setting
Surah The Poets [Ash-Shuara] in Urdu
طسٓمٓ ﴿١﴾
طسمۤ
ط س م
طٰسم
طٰسٓمٓ
طا، سین، میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
طسم ۤ
طٰسم
طا، سین، میم۔
تِلْكَ ءَايَٰتُ ٱلْكِتَٰبِ ٱلْمُبِينِ ﴿٢﴾
یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں
یہ کتاب مبین کی آیات ہیں
یہ آیتیں ہیں روشن کتا ب کی
یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں
یہ (حق کو) واضح کرنے والی کتاب کی آیتیں ہیں،
یہ ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں
یہ آیتیں روشن کتاب کی ہیں
یہ ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔
لَعَلَّكَ بَٰخِعٌۭ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا۟ مُؤْمِنِينَ ﴿٣﴾
شاید تو اپنی جان ہلاک کرنے والا ہے اس لیے کہ وہ ایمان نہیں لاتے
اے محمدؐ، شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے
کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے غم میں کہ وہ ایمان نہیں لائے
(اے پیغمبرﷺ) شاید تم اس (رنج) سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے اپنے تئیں ہلاک کردو گے
(اے حبیبِ مکرّم!) شاید آپ (اس غم میں) اپنی جانِ (عزیز) ہی دے بیٹھیں گے کہ وہ ایمان نہیں لاتے،
کیا آپ اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈال دیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لارہے ہیں
ان کے ایمان نہ ﻻنے پر شاید آپ تو اپنی جان کھودیں گے
شاید آپ (اس غم میں) جان دے دیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔
إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ ءَايَةًۭ فَظَلَّتْ أَعْنَٰقُهُمْ لَهَا خَٰضِعِينَ ﴿٤﴾
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانی نازل کریں کہ اس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں
ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کر سکتے ہیں کہ اِن کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں
اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ان پر کوئی نشانی اتاریں کہ ان کے اونچے اونچے اس کے حضور جھکے رہ جائیں
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے نشانی اُتار دیں۔ پھر ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے (ایسی) نشانی اتار دیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھکی رہ جائیں،
اگر ہم چاہتے تو آسمان سے ایسی آیت نازل کردیتے کہ ان کی گردنیں خضوع کے ساتھ جھک جاتیں
اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں خم ہو جاتیں
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتاریں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں۔
وَمَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍۢ مِّنَ ٱلرَّحْمَٰنِ مُحْدَثٍ إِلَّا كَانُوا۟ عَنْهُ مُعْرِضِينَ ﴿٥﴾
اور ان کے پاس رحمنٰ کی طرف سے کوئی نئی بات نصیحت کی ایسی نہیں آئی کہ وہ اس سے منہ نہ موڑ لیتے ہوں
اِن لوگوں کے پاس رحمان کی طرف سے جو نئی نصیحت بھی آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں
اور نہیں آتی ان کے پاس رحمٰان کی طرف سے کوئی نئی نصیحت مگر اس سے منہ پھیر لیتے ہیں
اور ان کے پاس (خدائے) رحمٰن کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی مگر یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں
اور ان کے پاس (خدائے) رحمان کی جانب سے کوئی نئی نصیحت نہیں آتی مگر وہ اس سے رُوگرداں ہو جاتے ہیں،
لیکن ان کی طرف جب بھی خدا کی طرف سے کوئی نیا ذکر آتاہے تو یہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں
اور ان کے پاس رحمٰن کی طرف سے جو بھی نئی نصیحت آئی یہ اس سے روگردانی کرنے والے بن گئے
اور جب بھی ان کے پاس خدائے رحمن کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
فَقَدْ كَذَّبُوا۟ فَسَيَأْتِيهِمْ أَنۢبَٰٓؤُا۟ مَا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ ﴿٦﴾
سو یہ جھٹلاتو چکے اب ان کے پاس اس چیز کی حقیقت آئے گی جس پر ٹھٹھا کیا کرتے تھے
اب کہ یہ جھٹلا چکے ہیں، عنقریب اِن کو اس چیز کی حقیقت (مختلف طریقوں سے) معلوم ہو جائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں
تو بیشک انہوں نے جھٹلایا تو اب ان پر آیا چاہتی ہیں خبریں ان کے ٹھٹھے کی
سو یہ تو جھٹلا چکے اب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوگی جس کی ہنسی اُڑاتے تھے
سو بیشک وہ (حق کو) جھٹلا چکے پس عنقریب انہیں اس امر کی خبریں پہنچ جائیں گی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے،
یقینا انہوں نے تکذیب کی ہے تو عنقریب ان کے پاس اس بات کی خبریں آجائیں گی جس کا یہ لوگ مذاق اڑا رہے تھے
ان لوگوں نے جھٹلایا ہے اب ان کے پاس جلدی سے اس کی خبریں آجائیں گی جس کے ساتھ وه مسخرا پن کر رہے ہیں
بےشک یہ جھٹلا چکے ہیں تو عنقریب ان کے سامنے اس چیز کی خبریں آئیں گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔
أَوَلَمْ يَرَوْا۟ إِلَى ٱلْأَرْضِ كَمْ أَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍۢ كَرِيمٍ ﴿٧﴾
کیا وہ زمین کو نہیں دیکھتے ہم نے اس میں ہر ایک قسم کی کتنی عمدہ چیزیں اُگائی ہیں
اور کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں؟
کیا انہوں نے زمین کو نہ دیکھا ہم نے اس میں کتنے عزت والے جوڑے اگائے
کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں ہر قسم کی کتنی نفیس چیزیں اُگائی ہیں
اور کیا انہوں نے زمین کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس میں کتنی ہی نفیس چیزیں اگائی ہیں،
کیا ان لوگوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے کس طرح عمدہ عمدہ چیزیں اُگائی ہیں
کیا انہوں نے زمین پر نظریں نہیں ڈالیں؟ کہ ہم نے اس میں ہر طرح کے نفیس جوڑے کس قدر اگائے ہیں؟
کیا انہوں نے زمین کی طرف (غور سے) نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی کثرت سے عمدہ نباتات اگائی ہیں۔
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٨﴾
البتہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں
یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں،
کچھ شک نہیں کہ اس میں (قدرت خدا کی) نشانی ہے مگر یہ اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں
بیشک اس میں ضرور (قدرتِ الٰہیہ کی) نشانی ہے اور ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں،
اس میں ہماری نشانی ہے لیکن ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے
بے شک اس میں یقیناً نشانی ہے اور ان میں کے اکثر لوگ مومن نہیں ہیں
بےشک اس کے اندر ایک بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ ﴿٩﴾
اور بے شک تیرا رب زبردست رحم کرنے والا ہے
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
اور بیشک تمہارا رب ضرور وہی عزت والا مہربان ہے
اور تمہارا پروردگار غالب (اور) مہربان ہے
اور یقیناً آپ کا رب ہی تو غالب، مہربان ہے،
اور آپ کاپروردگار صاحبِ عزت بھی ہے اور صاحب هحکمت بھی ہے
اور تیرا رب یقیناً وہی غالب اور مہربان ہے
اور بےشک آپ کا پروردگار بڑا غالب، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰٓ أَنِ ٱئْتِ ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿١٠﴾
اور جب تیرے رب نے موسیٰ کو پکارا کہ اس ظالم قوم کے پاس جا
اِنہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسیٰؑ کو پکارا \"ظالم قوم کے پاس جا
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے موسیٰ کو ندا فرمائی کہ ظالم لوگوں کے پاس جا،
اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا کہ ظالم لوگوں کے پاس جاؤ
اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے موسٰی (علیہ السلام) کو نِدا دی کہ تم ظالموں کی قوم کے پاس جاؤ،
اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ کے پروردگار نے موسیٰ کو آواز دی کہ اس ظالم قوم کے پاس جاؤ
اور جب آپ کے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز دی کہ تو ﻇالم قوم کے پاس جا
(اے رسول(ص)) وہ وقت یاد کرو جب آپ کے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا کہ ظالم قوم کے پاس جاؤ۔
قَوْمَ فِرْعَوْنَ ۚ أَلَا يَتَّقُونَ ﴿١١﴾
فرعون کی قوم کے پاس کیا وہ ڈرتے نہیں
فرعون کی قوم کے پاس، کیا وہ ڈرتے نہیں؟\"
جو فرعون کی قوم ہے کیا وہ نہ ڈریں گے
(یعنی) قوم فرعون کے پاس، کیا یہ ڈرتے نہیں
(یعنی) قومِ فرعون کے پاس، کیا وہ (اللہ سے) نہیں ڈرتے،
یہ فرعون کی قوم ہے کیا یہ متقی نہ بنیں گے
قوم فرعون کے پاس، کیا وه پرہیزگاری نہ کریں گے
یعنی فرعون کی قوم کے پاس۔ کیا وہ نہیں ڈرتے؟
قَالَ رَبِّ إِنِّىٓ أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ ﴿١٢﴾
عرض کی اے میرے رب میں ڈرتا ہوں کہ مجھے جھٹلا دیں
اُس نے عرض کیا \"اے رب، مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے
عرض کی کہ اے میرے رب میں ڈرتا ہوں کہ مجھے جھٹلا ئیں گے،
انہوں نے کہا کہ میرے پروردگار میں ڈرتا ہوں کہ یہ مجھے جھوٹا سمجھیں
موسٰی (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے رب! میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے،
موسیٰ نے کہا کہ پروردگار میں ڈرتا ہوں کہ یہ میری تکذیب نہ کریں
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میرے پروردگار! مجھے تو خوف ہے کہ کہیں وه مجھے جھٹلا (نہ) دیں
موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔
وَيَضِيقُ صَدْرِى وَلَا يَنطَلِقُ لِسَانِى فَأَرْسِلْ إِلَىٰ هَٰرُونَ ﴿١٣﴾
اور میرا سینہ تنگ ہوجائے اور میری زبان نہ چلے پس ہارون کو پیغام دے
میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی آپ ہارونؑ کی طرف رسالت بھیجیں
اور میرا سینہ تنگی کرتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی تو توُ ہا رون کو بھی رسول کر،
اور میرا دل تنگ ہوتا ہے اور میری زبان رکتی ہے تو ہارون کو حکم بھیج کہ میرے ساتھ چلیں
اور (ایسے ناسازگار ماحول میں) میرا سینہ تنگ ہوجاتا ہے اور میری زبان (روانی سے) نہیں چلتی سو ہارون (علیہ السلام) کی طرف (بھی جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ساتھ) بھیج دے (تاکہ وہ میرا معاون بن جائے)،
میرا دل تنگ ہورہا ہے اور میری زبان رواں نہیں ہے یہ پیغام ہارون کے پاس بھیج دے
اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے میری زبان چل نہیں رہی پس تو ہارون کی طرف بھی وحی بھیج
اور میرا سینہ تنگ ہوتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی سو ہارون کے پاس (وحی) بھیج (کہ وہ میرا ساتھ دے)۔
وَلَهُمْ عَلَىَّ ذَنۢبٌۭ فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ ﴿١٤﴾
اور میرے ذمہ ان کا ایک گناہ بھی ہے سو میں ڈرتا ہوں کہ مجھے مار نہ ڈالیں
اور مجھ پر اُن کے ہاں ایک جرم کا الزام بھی ہے، اس لیے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے\"
اور ان کا مجھ پر ایک الزام ہے تو میں ڈرتا ہو ں کہیں مجھے کر دیں،
اور ان لوگوں کا مجھ پر ایک گناہ (یعنی قبطی کے خون کا دعویٰ) بھی ہے سو مجھے یہ بھی خوف ہے کہ مجھ کو مار ہی ڈالیں
اور ان کا میرے اوپر (قبطی کو مار ڈالنے کا) ایک الزام بھی ہے سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر ڈالیں گے،
اور میرے اوپر ان کاایک جرم بھی ہے تو مجھے خوف ہے کہ یہ مجھے قتل نہ کردیں
اور ان کا مجھ پر میرے ایک قصور کا (دعویٰ) بھی ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں وه مجھے مار نہ ڈالیں
اور ان لوگوں کا میرے ذمہ ایک جرم بھی ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔
قَالَ كَلَّا ۖ فَٱذْهَبَا بِـَٔايَٰتِنَآ ۖ إِنَّا مَعَكُم مُّسْتَمِعُونَ ﴿١٥﴾
فرمایا ہر گز نہیں تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ہم تمہارے ساتھ سننے والے ہیں
فرمایا \"ہرگز نہیں، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر، ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے
فرما یا یوں نہیں تم دو نوں میری آئتیں لے کر جا ؤ ہم تمھا رے ساتھ سنتے ہیں
فرمایا ہرگز نہیں۔ تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ہم تمہارے ساتھ سننے والے ہیں
ارشاد ہوا: ہرگز نہیں، پس تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ بیشک ہم تمہارے ساتھ (ہر بات) سننے والے ہیں،
ارشاد ہوا کہ ہرگز نہیںتم دونوں ہی ہماری نشانیوں کو لے کر جاؤ اور ہم بھی تمہارے ساتھ سب سن رہے ہیں
جناب باری نے فرمایا! ہرگز ایسا نہ ہوگا، تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ہم خود سننے والے تمہارے ساتھ ہیں
ارشاد ہوا ہرگز نہیں! تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ہم تمہارے ساتھ (سب کچھ) سن رہے ہیں۔
فَأْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُولَآ إِنَّا رَسُولُ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿١٦﴾
سو فرعون کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم پروردگار عالم کا پیغام لے کر آئے ہیں
فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہو، ہم کو رب العٰلمین نے اس لیے بھیجا ہے
تو فرعون کے پاس جاؤ پھر اس سے کہو ہم دونو ں اسکے رسل ہیں جو رب ہے سارے جہا ں کا،
تو دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم تمام جہان کے مالک کے بھیجے ہوئے ہیں
پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو: ہم سارے جہانوں کے پروردگار کے (بھیجے ہوئے) رسول ہیں،
فرعون کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم دونوں رب العالمین کے فرستادہ ہیں
تم دونوں فرعون کے پاس جاکر کہو کہ بلاشبہ ہم رب العالمین کے بھیجے ہوئے ہیں
پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ۔ اور اس سے کہو کہ ہم تمام جہانوں کے پروردگار کے رسول ہیں۔
أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ﴿١٧﴾
یہ کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے
کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے\"
کہ تو ہما رے ساتھ بنی اسرائیل کو چھوڑ دے
(اور اس لئے آئے ہیں) کہ آپ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دیں
(ہمارا مدعا یہ ہے) کہ تو بنی اسرائیل کو (آزادی دے کر) ہمارے ساتھ بھیج دے،
کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے
کہ تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو روانہ کردے
کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔
قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًۭا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ ﴿١٨﴾
کہا کیا ہم نےتمہیں بچپن میں پرورش نہیں کیا اورتو نے ہم میں اپنی عمر کے کئی سال گزارے
فرعون نے کہا \"کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا؟ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے
بو لا کیا ہم نے تمھیں اپنے یہاں بچپن میں نہ پالا اور تم نے ہما رے یہا ں اپنی عمر کے کئی برس گزارے، ف۲۰)
(فرعون نے موسیٰ سے کہا) کیا ہم نے تم کو کہ ابھی بچّے تھے پرورش نہیں کیا اور تم نے برسوں ہمارے ہاں عمر بسر (نہیں) کی
(فرعون نے) کہا: کیا ہم نے تمہیں اپنے یہاں بچپن کی حالت میں پالا نہیں تھا اور تم نے اپنی عمر کے کتنے ہی سال ہمارے اندر بسر کئے تھے،
اس نے کہا کیا ہم نے تمہیں بچپنے میں پالا نہیں ہے اور کیا تم نے ہمارے درمیان اپنی عمر کے کئی سال نہیں گزارے ہیں
فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن کے زمانہ میں اپنے ہاں نہیں پاﻻ تھا؟ اور تو نے اپنی عمر کے بہت سے سال ہم میں نہیں گزارے؟
فرعون نے کہا (اے موسیٰ) کیا تمہارے بچپن میں ہم نے تمہاری پرورش نہیں کی ہے؟ اور تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہم میں گزارے ہیں۔
وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ ٱلَّتِى فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿١٩﴾
اور تو اپنا وہ کرتوت کر گیا جوکر گیا اور تو ناشکروں میں سے ہے
اور اس کے بعد کر گیا جو کچھ کہ کر گیا، تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے\"
اور تم نے کیا اپنا وہ کام جو تم نے کیا اور تم نا شکر تھے
اور تم نے وہ کام کیا تھا جو کیا اور تم ناشکرے معلوم ہوتے ہو
اور (پھر) تم نے اپنا وہ کام کر ڈالا جو تم نے کیا تھا (یعنی ایک قبطی کو قتل کر دیا) اور تم ناشکر گزاروں میں سے ہو (ہماری پرورش اور احسانات کو بھول گئے ہو)،
اور تم نے وہ کام کیا ہے جو تم کرگئے ہو اور تم شکریہ ادا کرنے والوں میں سے نہیں ہو
پھر تو اپنا وه کام کر گیا جو کر گیا اور تو ناشکروں میں ہے
اور تو نے اپنی وہ حرکت بھی کی تھی جو کی تھی اور تو ناشکروں میں سے ہے۔
قَالَ فَعَلْتُهَآ إِذًۭا وَأَنَا۠ مِنَ ٱلضَّآلِّينَ ﴿٢٠﴾
کہا جب میں نے وہ کام کیا تھاتو میں بےخبر تھا
موسیٰؑ نے جواب دیا \"اُس وقت وہ کام میں نے نادانستگی میں کر دیا تھا
موسٰی نے فر ما یا میں نے وہ کام کیا جب کہ مجھے راہ کی خبر نہ تھی
(موسیٰ نے) کہاں (ہاں) وہ حرکت مجھ سے ناگہاں سرزد ہوئی تھی اور میں خطا کاروں میں تھا
(موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: جب میں نے وہ کام کیا میں بے خبر تھا (کہ کیا ایک گھونسے سے اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے)،
موسیٰ نے کہا کہ وہ قتل میں نے اس وقت کیا تھا جب میں قتل سے غافل تھا
(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں نے اس کام کو اس وقت کیا تھا جبکہ میں راه بھولے ہوئے لوگوں میں سے تھا
موسیٰ نے کہا: ہاں میں نے وہ کام اس وقت کیا تھا جب میں راستہ سے بھٹکا ہوا تھا۔
فَفَرَرْتُ مِنكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِى رَبِّى حُكْمًۭا وَجَعَلَنِى مِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿٢١﴾
پھر میں تم سے تمہارے ڈر کے مارے بھاگ گیا تب مجھے میرے رب نے دانائی عطا کی اور مجھے رسول بنایا
پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل کر لیا
تو میں تمھا رے یہا ں سے نکل گیا جب کے تم سے ڈرا تو میرے رب نے مجھے حکم عطا فرمایا اور مجھے پیغمبروں سے کیا،
تو جب مجھے تم سے ڈر لگا تو تم میں سے بھاگ گیا۔ پھر خدا نے مجھ کو نبوت وعلم بخشا اور مجھے پیغمبروں میں سے کیا
پھر میں (اس وقت) تمہارے (دائرہ اختیار) سے نکل گیا جب میں تمہارے (ارادوں) سے خوفزدہ ہوا پھر میرے رب نے مجھے حکمِ (نبوت) بخشا اور (بالآخر) مجھے رسولوں میں شامل فرما دیا،
پھر میں نے تم لوگوں کے خوف سے گریز اختیار کیا تو میرے رب نے مجھے نبوت عطا فرمائی اور مجھے اپنے نمائندوں میں سے قرار دے دیا
پھر تم سے خوف کھا کر میں تم میں سے بھاگ گیا، پھر مجھے میرے رب نے حکم و علم عطا فرمایا اور مجھے اپنے پیغمبروں میں سے کر دیا
تو جب میں تم سے ڈرا تو بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد میرے پروردگار نے مجھے علم و حکمت عطا کیا اور مجھے رسولوں میں سے قرار دے دیا۔
وَتِلْكَ نِعْمَةٌۭ تَمُنُّهَا عَلَىَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ﴿٢٢﴾
اور یہ احسان جو تو مجھ پر رکھتا ہے اسی لیے تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے
رہا تیرا احسان جو تو نے مجھ پر جتایا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا\"
اور یہ کوئی نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتاتا ہے کہ تو نے غَلام بناکر رکھے بنی اسرائیل
اور (کیا) یہی احسان ہے جو آپ مجھ پر رکھتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے
اور کیا وہ (کوئی) بھلائی ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے (اس کا سبب بھی یہ تھا) کہ تو نے (میری پوری قوم) بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا،
یہ احسان جو تربیت کے سلسلہ میں تو جتا رہا ہے تو تونے بڑا غضب کیا تھاکہ بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا
مجھ پر تیرا کیا یہی وه احسان ہے؟ جسے تو جتا رہا ہے جبکہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے
اور یہی (پرورش وغیرہ کا) وہ احسان ہے جو تو مجھے جتا رہا ہے جب کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿٢٣﴾
فرعون نے کہا رب العالمین کیا چیز ہے
فرعون نے کہا \"اور یہ رب العالمین کیا ہوتا ہے؟\"
فرعون بولا اور سارے جہان کا رب کیا ہے
فرعون نے کہا کہ تمام جہان مالک کیا
فرعون نے کہا: سارے جہانوں کا پروردگار کیا چیز ہے،
فرعون نے کہا کہ یہ ربّ العالمین کیا چیز ہے
فرعون نے کہا رب العالمین کیا (چیز) ہے؟
فرعون نے کہا اور یہ رب العالمین کیا چیز ہے۔
قَالَ رَبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَآ ۖ إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ ﴿٢٤﴾
فرمایا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے اگر تمہیں یقین آئے
موسیٰؑ نے جواب دیا \"آسمان اور زمین کا رب، اور اُن سب چیزوں کا رب جو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں، اگر تم یقین لانے والے ہو\"
موسیٰ نے فرمایا رب آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے، اگر تمہیں یقین ہو
کہا کہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب کا مالک۔ بشرطیکہ تم لوگوں کو یقین ہو
(موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: (وہ) جملہ آسمانوں کا اور زمین کا اور اُس (ساری کائنات) کا رب ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو،
موسیٰ نے کہا کہ زمین و آسمان اور اس کے مابین جو کچھ ہے سب کا پروردگار اگر تم یقین کرسکو
(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وه آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو
موسیٰ نے کہا وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے۔ اگر تم یقین کرنے والے ہو۔
قَالَ لِمَنْ حَوْلَهُۥٓ أَلَا تَسْتَمِعُونَ ﴿٢٥﴾
اپنے گرد والوں سے کہا کیا تم سنتے نہیں ہو
فرعون نے اپنے گرد و پیش کے لوگوں سے کہا \"سُنتے ہو؟\"
اپنے آس پاس والوں سے بولا کیا تم غور سے سنتے نہیں
فرعون نے اپنے اہالی موالی سے کہا کہ کیا تم سنتے نہیں
اس نے ان (لوگوں) سے کہا جو اس کے گرد (بیٹھے) تھے: کیا تم سن نہیں رہے ہو،
فرعون نے اپنے اطرافیوں سے کہا کہ تم کچھ سن رہے ہو
فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا کہ کیا تم سن نہیں رہے؟
فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا کیا تم سنتے نہیں ہو؟
قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ ءَابَآئِكُمُ ٱلْأَوَّلِينَ ﴿٢٦﴾
فرمایا تمہارا ور تمہارے پہلے باپ دادا کا رب ہے
موسیٰؑ نے کہا \"تمہارا رب بھی اور تمہارے ان آباء و اجداد کا رب بھی جو گزر چکے ہیں\"
موسیٰ نے فرمایا رب تمہارا اور تمہارے اگلے باپ داداؤں کا
(موسیٰ نے) کہا کہ تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا مالک
(موسٰی علیہ السلام نے مزید) کہا کہ (وہی) تمہارا (بھی) رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا (بھی) رب ہے،
موسیٰ نے کہا کہ وہ تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے باپ دادا کا بھی رب ہے
(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وه تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا پروردگار ہے
موسیٰ نے کہا وہ تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے اگلے آباء و اجداد کا بھی پروردگار۔
قَالَ إِنَّ رَسُولَكُمُ ٱلَّذِىٓ أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌۭ ﴿٢٧﴾
کہا بے شک تمہارا رسول جو تمہارے پاس بھیجا گیا ہے ضرور دیوانہ ہے
فرعون نے (حاضرین سے) کہا \"تمہارے یہ رسول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں، بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں\"
بولا تمہارے یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ضرور عقل نہیں رکھتے
(فرعون نے) کہا کہ (یہ) پیغمبر جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے باؤلا ہے
(فرعون نے) کہا: بیشک تمہارا رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور دیوانہ ہے،
فرعون نے کہا کہ یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ بالکل دیوانہ ہے
فرعون نے کہا (لوگو!) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو یقیناً دیوانہ ہے
فرعون نے کہا تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو بالکل دیوانہ ہے۔
قَالَ رَبُّ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَآ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٢٨﴾
فرمایا مشر ق مغرب اور جو ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے اگر تم عقل رکھتے ہو
موسیٰؑ نے کہا \"مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب، اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں\"
موسیٰ نے فرمایا رب پورب (مشرق) اور پچھم (مغرب) کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اگر تمہیں عقل ہو
موسیٰ نے کہا کہ مشرق اور مغرب اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب کا مالک، بشرطیکہ تم کو سمجھ ہو
(موسٰی علیہ السلام نے) کہا: (وہ) مشرق اور مغرب اور اس (ساری کائنات) کا رب ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اگر تم (کچھ) عقل رکھتے ہو،
موسیٰ نے کہا وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کا پرودگار ہے اگر تمہارے پاس عقل ہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا! وہی مشرق ومغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو
موسیٰ نے کہا کہ وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے اگر تم عقل سے کام لو۔
قَالَ لَئِنِ ٱتَّخَذْتَ إِلَٰهًا غَيْرِى لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ ٱلْمَسْجُونِينَ ﴿٢٩﴾
کہا اگر تو نے میرے سوا اور کوئی معبود بنایا تو تمہیں قید میں ڈال دوں گا
فرعون نے کہا \"اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو تجھے میں اُن لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں\"
بولا اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا ٹھہرایا تو میں ضرور تمہیں قید کردوں گا
(فرعون نے) کہا کہ اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تمہیں قید کردوں گا
(فرعون نے) کہا: (اے موسٰی!) اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تم کو ضرور (گرفتار کر کے) قیدیوں میں شامل کر دوں گا،
فرعون نے کہا کہ تم نے میرے علاوہ کسی خدا کو بھی اختیار کیا تو تمہیں قیدیوں میں شامل کردوں گا
فرعون کہنے لگا سن لے! اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں ڈال دوں گا
فرعون نے کہا کہ اگر تو نے میرے سوا کوئی معبود بنایا تو میں تمہیں قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔
قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكَ بِشَىْءٍۢ مُّبِينٍۢ ﴿٣٠﴾
فرمایا اگرچہ میں تیرے پاس ایک روشن چیز لے آؤں
موسیٰؑ نے کہا \"اگرچہ میں لے آؤں تیرے سامنے ایک صریح چیز بھی؟\"
فرمایا کیا اگرچہ میں تیرے پاس کوئی روشن چیز لاؤں
(موسیٰ نے) کہا خواہ میں آپ کے پاس روشن چیز لاؤں (یعنی معجزہ)
(موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: اگرچہ میں تیرے پاس کوئی واضح چیز (بطور معجزہ بھی) لے آؤں،
موسیٰ نے جواب دیا کہ چاہے میں کھلی ہوئی دلیل ہی پیش کردوں
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگرچہ میں تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں؟
موسیٰ نے کہا: اگرچہ میں تیرے پاس کوئی واضح نشانی بھی لے کر آؤں؟
قَالَ فَأْتِ بِهِۦٓ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ ﴿٣١﴾
کہا اگر تو سچا ہے تو وہ چیز لا
فرعون نے کہا \"اچھا تو لے آ اگر تو سچا ہے\"
کہا تو لاؤ اگر سچے ہو،
فرعون نے کہا اگر سچے ہو تو اسے لاؤ (دکھاؤ)
(فرعون نے) کہا: تم اسے لے آؤ اگر تم سچے ہو،
فرعون نے کہا وہ دلیل کیا ہے اگر تم سچےّ ہو تو پیش کرو
فرعون نے کہا اگر تو سچوں میں سے ہے تو اسے پیش کر
فرعون نے کہا: اچھا تو لے آ۔ اگر تو سچا ہے۔
فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِىَ ثُعْبَانٌۭ مُّبِينٌۭ ﴿٣٢﴾
پھر اس نےاپناعصا ڈال دیا سو اسی وقت وہ صریح اژدھا ہو گیا
(اس کی زبان سے یہ بات نکلتے ہی) موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک صریح اژدھا تھا
تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا جبھی وہ صریح اژدہا ہوگیا
پس انہوں نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ اسی وقت صریح اژدہا بن گئی
پس (موسیٰ علیہ السلام نے) اپنا عصا (زمین پر) ڈال دیا وہ اسی وقت واضح (طور پر) اژدھا بن گیا،
موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا اور وہ سانپ بن کر رینگنے لگا
آپ نے (اسی وقت) اپنی ﻻٹھی ڈال دی جو اچانک کھلم کھلا (زبردست) اﮊدہا بن گئی
اس پر موسیٰ نے اپنا عصا پھینک دیا تو ایک دم وہ کھلا ہوا اژدھا بن گیا۔
وَنَزَعَ يَدَهُۥ فَإِذَا هِىَ بَيْضَآءُ لِلنَّٰظِرِينَ ﴿٣٣﴾
اوراپنا ہاتھ نکالا سو اسی وقت وہ دیکھنے والوں کو چمکتا ہوا دکھائی دیا
پھر اُس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا
اور اپنا ہاتھ نکالا تو جبھی وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں جگمگانے لگا
اور اپنا ہاتھ نکالا تو اسی دم دیکھنے والوں کے لئے سفید (براق نظر آنے لگا)
اور (موسٰی علیہ السلام نے) اپنا ہاتھ (بغل میں ڈال کر) باہر نکالا تو وہ اسی وقت دیکھنے والوں کے لئے (چمک دار) سفید ہوگیا،
اور گریبان سے ہاتھ نکالا تو وہ سفید چمک دار نظر آنے لگا
اور اپنا ہاتھ کھینچ نکالا تو وه بھی اسی وقت ہر دیکھنے والے کو سفید چمکیلا نظر آنے لگا
اس نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ ایک دم دیکھنے والوں کیلئے چمک رہا تھا۔
قَالَ لِلْمَلَإِ حَوْلَهُۥٓ إِنَّ هَٰذَا لَسَٰحِرٌ عَلِيمٌۭ ﴿٣٤﴾
اپنے گرد کے سرداروں سے کہا کہ بے شک یہ بڑا ماہر جادوگر ہے
فرعون اپنے گرد و پیش کے سرداروں سے بولا \"یہ شخص یقیناً ایک ماہر جادوگر ہے
بولا اپنے گرد کے سرداروں سے کہ بیشک یہ دانا جادوگر ہیں،
فرعون نے اپنے گرد کے سرداروں سے کہا کہ یہ تو کامل فن جادوگر ہے
(فرعون نے) اپنے ارد گرد (بیٹھے ہوئے) سرداروں سے کہا: بلاشبہ یہ بڑا دانا جادوگر ہے،
فرعون نے اپنے اطراف والوں سے کہا کہ یہ تو بڑا ہوشیار جادوگر معلوم ہوتا ہے
فرعون اپنے آس پاس کے سرداروں سے کہنے لگا بھئی یہ تو کوئی بڑا دانا جادوگر ہے
فرعون نے اپنے اردگرد کے عمائدین سے کہا کہ یہ تو بڑا ماہر جادوگر ہے۔
يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِۦ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ ﴿٣٥﴾
چاہتا ہے کہ تمہیں تمہارے دیس سے اپنے جادو کے زور سےنکال دےپھر تم کیا رائے دیتے ہو
چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو ملک سے نکال دے اب بتاؤ تم کیا حکم دیتے ہو؟\"
چاہتے ہیں، کہ تمہیں تمہارے ملک سے نکال دیں اپنے جادو کے زور سے، تب تمہارا کیا مشورہ ہے
چاہتا ہے کہ تم کو اپنے جادو (کے زور) سے تمہارے ملک سے نکال دے تو تمہاری کیا رائے ہے؟
یہ چاہتا ہے کہ تمہیں اپنے جادو (کے زور) سے تمہارے ملک سے باہر نکال دے پس تم (اب اس کے بارے میں) کیا رائے دیتے ہو،
اس کا مقصد یہ ہے کہ جادو کے زور پر تمہیں تمہاری زمین سے نکال باہر کردے تو اب تمہاری رائے کیا ہے
یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سر زمین سے ہی نکال دے، بتاؤ اب تم کیا حکم دیتے ہو
یہ اپنے جادو (کے زور) سے تمہیں اپنے ملک سے باہر نکالنا چاہتا ہے۔ اب تم کیا رائے دیتے ہو؟
قَالُوٓا۟ أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَٱبْعَثْ فِى ٱلْمَدَآئِنِ حَٰشِرِينَ ﴿٣٦﴾
کہا اسےاور اس کے بھائی کو مہلت دو اور شہروں میں چپڑاسیوں کو بھیج دیجیئے
انہوں نے کہا \"اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجیے اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے
وہ بولے انہیں ان کے بھائی کو ٹھہرائے رہو اور شہروں میں جمع کرنے والے بھیجو،
انہوں نے کہا کہ اسے اور اس کے بھائی (کے بارے) میں کچھ توقف کیجیئے اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیئے
وہ بولے کہ تو اسے اور اس کے بھائی (ہارون کے حکمِ سزا سنانے) کو مؤخر کر دے اور (تمام) شہروں میں (جادوگروں کو بلانے کے لئے) ہرکارے بھیج دے،
لوگوں نے کہا کہ انہیں اور ان کے بھائی کو روک لیجئے اور شہروں میں جادوگروں کو اکٹھاکرنے والوں کو روانہ کردیجئے
ان سب نے کہا آپ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجئے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے
انہوں نے کہا اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجئے اور تمام شہروں میں جمع کرنے والے آدمی (ہرکارے) بھیجئے۔
يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيمٍۢ ﴿٣٧﴾
کہ تیرے پاس بڑے ماہر جادوگروں کو لے آئیں
کہ ہر سیانے جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں\"
کہ وہ تیرے پاس لے آئیں ہر بڑے جادوگر دانا کو
کہ سب ماہر جادوگروں کو (جمع کرکے) آپ کے پاس لے آئیں
وہ تیرے پاس ہر بڑے ماہرِ فن جادوگر کو لے آئیں،
وہ لوگ ایک سے ایک ہوشیار جادوگرلے آئیں گے
جو آپ کے پاس ذی علم جادو گروں کو لے آئیں
جو ہر بڑے جادوگر کو تمہارے پاس لے آئیں۔
فَجُمِعَ ٱلسَّحَرَةُ لِمِيقَٰتِ يَوْمٍۢ مَّعْلُومٍۢ ﴿٣٨﴾
پھر سب جادوگر ایک مقرر دن پر جمع کیے گئے
چنانچہ ایک روز مقرر وقت پر جادوگر اکٹھے کر لیے گئے
تو جمع کیے گئے جادوگر ایک مقرر دن کے وعدے پر
تو جادوگر ایک مقررہ دن کی میعاد پر جمع ہوگئے
پس سارے جادوگر مقررہ دن کے معینہ وقت پر جمع کر لئے گئے،
غرض وقت مقرر پر تمام جادوگر اکٹھا کئے گئے
پھر ایک مقرر دن کے وعدے پر تمام جادوگر جمع کیے گئے
چنانچہ تمام جادوگر ایک خاص مقررہ وقت پر جمع کر لئے گئے۔
وَقِيلَ لِلنَّاسِ هَلْ أَنتُم مُّجْتَمِعُونَ ﴿٣٩﴾
اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم بھی اکھٹے ہوتے ہو
اور لوگوں سے کہا گیا \"تم اجتماع میں چلو گے؟
اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہوگئے
اور لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ تم (سب) کو اکھٹے ہو کر جانا چاہیئے
اور (فرعون کی طرف سے) لوگوں کو کہا گیا کہ تم (اس موقع پر) جمع ہونے والے ہو،
اور ان لوگوں سے کہا گیا کہ تم سب اس بات پر اجتماع کرنے والے ہو
اور عام لوگوں سے بھی کہہ دیا گیا کہ تم بھی مجمع میں حاضر ہوجاؤ گے؟
اور عام لوگوں سے کہا گیا۔ کیا تم لوگ بھی (مقابلہ دیکھنے کیلئے) جمع ہوگے؟
لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ ٱلسَّحَرَةَ إِن كَانُوا۟ هُمُ ٱلْغَٰلِبِينَ ﴿٤٠﴾
تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں تو ہم انہی کی راہ پر رہیں
شاید کہ ہم جادوگروں کے دین ہی پر رہ جائیں اگر وہ غالب رہے\"
شاید ہم ان جادوگروں ہی کی پیروی کریں اگر یہ غالب آئیں
تاکہ اگر جادوگر غالب رہیں تو ہم ان کے پیرو ہوجائیں
تاکہ ہم جادوگروں (کے دین) کی پیروی کر سکیں اگر وہ (موسٰی اور ہارون پر) غالب آگئے،
شاید ہم لوگ ان ساحروں کا اتباع کرلیں اگر وہ غالب آگئے
تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں تو ہم ان ہی کی پیروی کریں
تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں تو ہم سب ان کی پیروی کریں۔
فَلَمَّا جَآءَ ٱلسَّحَرَةُ قَالُوا۟ لِفِرْعَوْنَ أَئِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ ٱلْغَٰلِبِينَ ﴿٤١﴾
پھر جب جادوگر آئے تو فرعون سے کہا اگر ہم غالب آگئے تو کیا ہمیں کوئی بڑا انعام ملے گا
جب جادوگر میدان میں آ گئے تو انہوں نے فرعون سے کہا \"ہمیں انعام تو ملے گا اگر ہم غالب رہے؟\"
پھر جب جادوگر آئے فرعون سے بولے کیا ہمیں کچھ مزدوری ملے گی اگر ہم غالب آئے،
جب جادوگر آگئے تو فرعون سے کہنے لگے اگر ہم غالب رہے تو ہمیں صلہ بھی عطا ہوگا؟
پھر جب وہ جادوگر آگئے (تو) انہوں نے فرعون سے کہا: کیا ہمارے لئے کوئی اُجرت (بھی مقرر) ہے اگر ہم (مقابلہ میں) غالب ہو جائیں،
اس کے بعد جب جادوگر اکٹھا ہوئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آگئے تو کیا ہماری کوئی اجرت ہوگی
جادوگر آکر فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا؟
تو جب جادوگر (میدان میں) آگئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں کچھ صلہ تو ملے گا۔
قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ إِذًۭا لَّمِنَ ٱلْمُقَرَّبِينَ ﴿٤٢﴾
کہا ہاں اور بیشک تم اس وقت مقربوں میں داخل ہو جاؤ گے
اس نے کہا \"ہاں، اور تم تو اس وقت مقربین میں شامل ہو جاؤ گے\"
بولا ہاں اور اس وقت تم میرے مقرب ہوجاؤ گے
فرعون نے کہا ہاں اور تم مقربوں میں بھی داخل کرلئے جاؤ گے
(فرعون نے) کہا: ہاں بیشک تم اسی وقت (اجرت والوں کی بجائے میرے) قربت والوں میں شامل ہو جاؤ گے (اور قربت کا درجہ اُجرت سے کہیں بلند ہے)،
فرعون نے کہا کہ بے شک تم لوگ میرے مقربین میں شمار ہوگے
فرعون نے کہا ہاں! (بڑی خوشی سے) بلکہ ایسی صورت میں تم میرے خاص درباری بن جاؤ گے
فرعون نے کہا: ہاں ضرور! اور تم اس وقت مقرب بارگاہ ہو جاؤگے۔
قَالَ لَهُم مُّوسَىٰٓ أَلْقُوا۟ مَآ أَنتُم مُّلْقُونَ ﴿٤٣﴾
موسیٰ نے ان سے کہا ڈالو جو تم ڈالتے ہو
موسیٰؑ نے کہا \"پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے\"
موسیٰ نے ان سے فرمایا ڈالو جو تمہیں ڈالنا ہے
موسیٰ نے ان سے کہا کہ جو چیز ڈالنی چاہتے ہو، ڈالو
موسٰی (علیہ السلام) نے ان (جادوگروں سے) فرمایا: تم وہ (جادو کی) چیزیں ڈال دو جو تم ڈالنے والے ہو،
موسیٰ نے ان لوگوں سے کہا کہ جو کچھ پھینکنا چاہتے ہو پھینکو
(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں سے فرمایا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے ڈال دو
موسیٰ نے ان سے کہا کہ تم پھینکو جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے۔
فَأَلْقَوْا۟ حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا۟ بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ ٱلْغَٰلِبُونَ ﴿٤٤﴾
پھر انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور کہا فرعون کے اقبال سے ہماری فتح ہے
انہوں نے فوراً اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے \"فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے\"
تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور بولے فرعون کی عزت کی قسم بیشک ہماری ہی جیت ہے،
تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور کہنے لگے کہ فرعون کے اقبال کی قسم ہم ضرور غالب رہیں گے
تو انہوں نے اپنی رسیاں اور اپنی لاٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے: فرعون کی عزت کی قسم! ہم ضرور غالب ہوں گے،
تو ان لوگوں نے اپنی رسیوں اور چھڑیوں کو پھینک دیا اور کہا کہ فرعون کی عزّت و جلال کی قسم ہم لوگ غالب آنے والے ہیں
انہوں نے اپنی رسیاں اور ﻻٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے عزت فرعون کی قسم! ہم یقیناً غالب ہی رہیں گے
چنانچہ انہوں نے اپنی رسیاں اور اپنی لاٹھیاں پھینک دیں اور کہا کہ فرعون کے جلال و اقبال کی قَسم ہم ہی غالب آئیں گے۔
فَأَلْقَىٰ مُوسَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ ﴿٤٥﴾
پھر موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا پھر وہ فوراً ہی نگلنے لگا جو انہوں نے جھوٹ بنایا تھا
پھر موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا
تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا جبھی وہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا
پھر موسیٰ نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ ان چیزوں کو جو جادوگروں نے بنائی تھیں یکایک نگلنے لگی
پھر موسٰی (علیہ السلام) نے اپنا ڈنڈا ڈال دیا تو وہ (اژدھا بن کر) فوراً ان چیزوں کو نگلنے لگا جو انہوں نے فریب کاری سے (اپنی اصل حقیقت سے) پھیر رکھی تھیں،
پھر موسیٰ نے بھی اپنا عصا ڈال دیا تو لوگوں نے اچانک کیا دیکھا کہ وہ سب کے جادو کو نگلے جارہا ہے
اب (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی ﻻٹھی میدان میں ڈال دی جس نے اسی وقت ان کے جھوٹ موٹ کے کرتب کو نگلنا شروع کردیا
پھر موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ایک دم ان کے بنائے ہوئے جھوٹ کو نگلنے لگا۔
فَأُلْقِىَ ٱلسَّحَرَةُ سَٰجِدِينَ ﴿٤٦﴾
پھر جادوگر سجدے میں گر پڑے
اس پر سارے جادوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے
اب سجدہ میں گرے،
تب جادوگر سجدے میں گر پڑے
پس سارے جادوگر سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے،
یہ دیکھ کر جادوگر سجدہ میں گر پڑے
یہ دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر بے اختیار سجدے میں گر گئے
(یہ معجزہ دیکھ کر) سب جادوگر سجدہ میں گر پڑے۔
قَالُوٓا۟ ءَامَنَّا بِرَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿٤٧﴾
کہا ہم رب العالمین پر ایمان لائے
اور بول اٹھے کہ \"مان گئے ہم رب العالمین کو
جادوگر، بولے ہم ایمان لائے اس پر جو سارے جہان کا رب ہے،
(اور) کہنے لگے کہ ہم تمام جہان کے مالک پر ایمان لے آئے
وہ کہنے لگے: ہم سارے جہانوں کے پروردگار پر ایمان لے آئے،
اور ان لوگوں نے کہا کہ ہم تو رب العالمین پر ایمان لے آئے
اورانہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم تو اللہ رب العالمین پر ایمان ﻻئے
اور کہنے لگے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لائے۔
رَبِّ مُوسَىٰ وَهَٰرُونَ ﴿٤٨﴾
جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے
موسیٰؑ اور ہارونؑ کے رب کو\"
جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے،
جو موسیٰ اور ہارون کا مالک ہے
(جو) موسٰی اور ہارون (علیہما السلام) کا رب ہے،
جو موسیٰ اور ہارون دونوں کا رب ہے
یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون کے رب پر
جو موسیٰ و ہارون کا رب ہے فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں یقیناً یہ تمہارا بڑا (جادوگر) ہے۔
قَالَ ءَامَنتُمْ لَهُۥ قَبْلَ أَنْ ءَاذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُۥ لَكَبِيرُكُمُ ٱلَّذِى عَلَّمَكُمُ ٱلسِّحْرَ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ۚ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَٰفٍۢ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٤٩﴾
کہا کیا تم میری اجازت سے پہلے ہی ایمان لے آئے بے شک وہ تمہارا استاد ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے سو تمہیں ابھی معلوم ہو جائے گا البتہ میں تمہارا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹ دوں گا اور تم سب کو سولی پر چڑھا دوں گا
فرعون نے کہا \"تم موسیٰؑ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے اچھا، ابھی تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے، میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں میں کٹواؤں گا اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا\"
فرعون بولا کیا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، بیشک وہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا تو اب جاننا چاہتے ہو مجھے قسم ہے! بیشک میں تمہارے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا اور تم سب کو سولی دوں گا
فرعون نے کہا کیا اس سے پہلے کہ میں تم کو اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے، بےشک یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے۔ سو عنقریب تم (اس کا انجام) معلوم کرلو گے کہ میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں اطراف مخالف سے کٹوا دوں گا اور تم سب کو سولی پر چڑھوا دوں گا
(فرعون نے) کہا: تم اس پر ایمان لے آئے ہو قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا، بیشک یہ (موسٰی علیہ السلام) ہی تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے، تم جلد ہی (اپنا انجام) معلوم کر لو گے، میں ضرور ہی تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں الٹی طرف سے کاٹ ڈالوں گا اور تم سب کو یقیناً سولی پر چڑھا دوں گا،
فرعون نے کہا کہ تم لوگ میری اجازت سے پہلے ہی ایمان لے آئے یہ تم سے بھی بڑا جادوگر ہے جس نے تم لوگوں کو جادو سکھایا ہے میں تم لوگوں کے ہاتھ پاؤں مختلف سمتوں سے کاٹ دوں گا اور تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا
فرعون نے کہا کہ میری اجازت سے پہلے تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقیناً یہی تمہارا وه بڑا (سردار) ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے، سو تمہیں ابھی ابھی معلوم ہوجائے گا، قسم ہے میں ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے طور پر کاٹ دوں گا اور تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا
جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے ابھی تمہیں (اس کا انجام) معلوم ہو جائے گا کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں کو مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا۔ اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا۔
قَالُوا۟ لَا ضَيْرَ ۖ إِنَّآ إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ ﴿٥٠﴾
کہا کچھ حرج نہیں بے شک ہم اپنے رب کے پاس پہنچنے والا ہوں گے
انہوں نے جواب دیا \"کچھ پرواہ نہیں، ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے
وہ بولے کچھ نقصان نہیں ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں
انہوں نے کہا کہ کچھ نقصان (کی بات) نہیں ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جانے والے ہیں
انہوں نے کہا: (اس میں) کوئی نقصان نہیں، بیشک ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں،
ان لوگوں نے کہا کہ کوئی حرج نہیں ہم سب پلٹ کر اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ جائیں گے
انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں، ہم تو اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ہی
انہوں نے کہا کوئی جرم نہیں ہم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں لوٹ جائیں گے۔
إِنَّا نَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَٰيَٰنَآ أَن كُنَّآ أَوَّلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥١﴾
ہمیں امید ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہوں کو معاف کر دے گا اس لیے کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں
اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں\"
ہمیں طمع ہے کہ ہمارا رب ہماری خطائیں بخش دے اس پر کہ سب سے پہلے ایمان لائے
ہمیں امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہ بخش دے گا۔ اس لئے کہ ہم اول ایمان لانے والوں میں ہیں
ہم قوی امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطائیں معاف فرما دے گا، اس وجہ سے کہ (اب) ہم ہی سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں،
ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار ہماری خطاؤں کو معاف کردے کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں
اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلےایمان والے بنے ہیں ہمیں امید پڑتی ہے کہ ہمارا رب ہماری سب خطائیں معاف فرما دے گا
ہمیں امید ہے کہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف کرے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایمان لا رہے ہیں۔
۞ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِىٓ إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ ﴿٥٢﴾
اور ہم نے موسی ٰکو حکم بھیجا کہ میرے بندوں کو رات کو لے نکل البتہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا
ہم نے موسیٰؑ کو وحی بھیجی کہ \"راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا\"
اور ہم نے موسٰی کو وحی بھیجی کہ راتوں را ت میرے بندو ں کو لے نکل بیشک تمھارا پیچھا ہو نا ہے، ف۵۵)
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو رات کو لے نکلو کہ (فرعونیوں کی طرف سے) تمہارا تعاقب کیا جائے گا
اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ تم میرے بندوں کو راتوں رات (یہاں سے) لے جاؤ بیشک تمہارا تعاقب کیا جائے گا،
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ کہ تمہارا پیچھا کیا جانے والا ہے
اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو نکال لے چل تم سب پیچھا کیے جاؤ گے
اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ کیونکہ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔
فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِى ٱلْمَدَآئِنِ حَٰشِرِينَ ﴿٥٣﴾
پھر فرعون نے شہروں میں چپڑاسی بھیجے
اس پر فرعون نے (فوجیں جمع کرنے کے لیے) شہروں میں نقیب بھیج دیے
اب فرعون نے شہروں میں جمع کرنے والے بھیجے
تو فرعون نے شہروں میں نقیب راونہ کئے
پھر فرعون نے شہروں میں ہرکارے بھیج دئیے،
پھر فرعون نے مختلف شہروں میں لشکر جمع کرنے والے روانہ کردیئے
فرعون نے شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیا
پس فرعون نے تمام شہروں میں (لشکر) جمع کرنے والے (ہرکارے) بھیجے۔
إِنَّ هَٰٓؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌۭ قَلِيلُونَ ﴿٥٤﴾
کہ یہ ایک تھوڑی سی جماعت ہے
(اور کہلا بھیجا) کہ \"یہ کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں
کہ یہ لوگ ایک تھوڑی جماعت ہیں،
(اور کہا) کہ یہ لوگ تھوڑی سی جماعت ہے
(اور کہا:) بیشک یہ (بنی اسرائیل) تھوڑی سی جماعت ہے،
کہ یہ تھوڑے سے افراد کی ایک جماعت ہے
کہ یقیناً یہ گروه بہت ہی کم تعداد میں ہے
(اور کہلا بھیجا کہ) یہ لوگ ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔
وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَآئِظُونَ ﴿٥٥﴾
اور انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے
اور انہوں نے ہم کو بہت ناراض کیا ہے
اور بیشک ہم سب کا دل جلاتے ہیں
اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں
اور بلاشبہ وہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں،
اور ان لوگوں نے ہمیں غصہ دلا دیا ہے
اور اس پر یہ ہمیں سخت غضب ناک کر رہے ہیں
اور انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے۔
وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَٰذِرُونَ ﴿٥٦﴾
اور بے شک ہم سب ہتھیار بند ہیں
اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکنا رہنا ہے\"
اور بیشک ہم سب چوکنے ہیں
اور ہم سب باسازو سامان ہیں
اور یقیناً ہم سب (بھی) مستعد اور چوکس ہیں،
اور ہم سب سارے سازوسامان کے ساتھ ہیں
اور یقیناً ہم بڑی جماعت ہیں ان سے چوکنا رہنے والے
اور بےشک ہم پورے محتاط اور چوکنا ہیں۔
فَأَخْرَجْنَٰهُم مِّن جَنَّٰتٍۢ وَعُيُونٍۢ ﴿٥٧﴾
پھر ہم نے انہیں باغوں اور چشموں سے نکال باہر کیا
اِس طرح ہم انہیں ان کے باغوں اور چشموں
تو ہم نے انہیں باہر نکالا باغوں اور چشموں،
تو ہم نے ان کو باغوں اور چشموں سے نکال دیا
پس ہم نے ان (فرعونیوں) کو باغوں اور چشموں سے نکال باہر کیا،
نتیجہ میں ہم نے ان کو باغات اور چشموں سے نکال باہر کردیا
بالﺂخر ہم نےانہیں باغات سے اور چشموں سے
پھر ہم نے انہیں (مصر کے) باغوں اور چشموں
وَكُنُوزٍۢ وَمَقَامٍۢ كَرِيمٍۢ ﴿٥٨﴾
اور خزانوں اور عمدہ مکانو ں سے
اور خزانوں اور ان کی بہترین قیام گاہوں سے نکال لائے
اور خزانوں اور عمدہ مکانوں سے،
اور خزانوں اور نفیس مکانات سے
اور خزانوں اور نفیس قیام گاہوں سے (بھی نکال دیا)،
اور خزانوں اور باعزّت جگہوں سے بھی
اور خزانوں سے۔ اور اچھے اچھے مقامات سے نکال باہر کیا
اور خزانوں اور شاندر عمدہ مکانوں سے نکال باہر کیا۔
كَذَٰلِكَ وَأَوْرَثْنَٰهَا بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ﴿٥٩﴾
اسی طرح ہوا اور ہم نے ان چیزوں کا بنی اسرائیل کو وارث بنایا
یہ تو ہوا اُن کے ساتھ، اور (دوسری طرف) بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث کر دیا
ہم نے ایسا ہی کیا اور ان کا وارث کردیا بنی اسرائیل کو
(ان کے ساتھ ہم نے) اس طرح (کیا) اور ان چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو کر دیا
(ہم نے) اسی طرح (کیا) اور ہم نے بنی اسرائیل کو ان (سب چیزوں) کا وارث بنا دیا،
اور ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں اور ہم نے زمین کا وارث بنی اسرائیل کو بنادیا
اسی طرح ہوا اور ہم نےان (تمام) چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا
ایسا ہی ہوا اور ہم نے ان چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا۔
فَأَتْبَعُوهُم مُّشْرِقِينَ ﴿٦٠﴾
پھر سورج نکلنے کے وقت ان کے پیچھے پڑے
صبح ہوتے ہی یہ لوگ اُن کے تعاقب میں چل پڑے
تو فرعونیوں نے ان کا تعاقب کیا دن نکلے،
تو انہوں نے سورج نکلتے (یعنی صبح کو) ان کا تعاقب کیا
پھر سورج نکلتے وقت ان (فرعونیوں) نے ان کا تعاقب کیا،
پھر ان لوگوں نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کا صبح سویرے پیچھا کیا
پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے
چنانچہ صبح تڑکے وہ لوگ (فرعونی) ان کے تعاقب میں نکلے۔
فَلَمَّا تَرَٰٓءَا ٱلْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَٰبُ مُوسَىٰٓ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ ﴿٦١﴾
پھر جب دونوں جماعتوں نےایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو پکڑے گئے
جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰؑ کے ساتھی چیخ اٹھے کہ \"ہم تو پکڑے گئے\"
پھر جب آمنا سامنا ہوا دونوں گروہوں کا موسیٰ والوں نے کہا ہم کو انہوں نے آلیا
جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو موسیٰ کے ساتھی کہنے لگے کہ ہم تو پکڑ لئے گئے
پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں (تو) موسٰی (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے کہا: (اب) ہم ضرور پکڑے گئے،
پھر جب دونوں ایک دوسرے کو نظر آنے لگے تو اصحاب موسیٰ نے کہا کہ اب تو ہم گرفت میںآجائیں گے
پس جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا، تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا، ہم تو یقیناً پکڑ لیے گئے
پس جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں (آمنے سامنے ہوئیں) تو موسیٰ کے ساتھیوں نے (گھبرا کر) کہا کہ بس ہم تو پکڑے گئے۔
قَالَ كَلَّآ ۖ إِنَّ مَعِىَ رَبِّى سَيَهْدِينِ ﴿٦٢﴾
کہا ہرگز نہیں میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ بتائے گا
موسیٰؑ نے کہا \"ہرگز نہیں میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا\"
موسیٰ نے فرمایا یوں نہیں بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے اب راہ دیتا ہے،
موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں میرا پروردگار میرے ساتھ ہے وہ مجھے رستہ بتائے گا
(موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: ہرگز نہیں، بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راہِ (نجات) دکھا دے گا،
موسیٰ نے کہا کہ ہرگز نہیں ہمارے ساتھ ہمارا پروردگار ہے وہ ہماری راہنمائی کرے گا
موسیٰ نے کہا، ہرگز نہیں۔ یقین مانو، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راه دکھائے گا
موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں! یقیناً میرا پروردگار میرے ساتھ ہے جو ضرور میری راہنمائی کرے گا۔
فَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ أَنِ ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْبَحْرَ ۖ فَٱنفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍۢ كَٱلطَّوْدِ ٱلْعَظِيمِ ﴿٦٣﴾
پھر ہم نےموسیٰ کو حکم بھیجا کہ اپنی لاٹھی کو دریا پر مار پھر پھٹ گیا پھر ہر ٹکڑا بڑے ٹیلے کی طرح ہو گیا
ہم نے موسیٰؑ کو وحی کے ذریعہ سے حکم دیا کہ \"مار اپنا عصا سمندر پر\" یکایک سمندر پھَٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہو گیا
تو ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار تو جبھی دریا پھٹ گیا تو ہر حصہ ہوگیا جیسے بڑا پہاڑ
اس وقت ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی دریا پر مارو۔ تو دریا پھٹ گیا۔ اور ہر ایک ٹکڑا (یوں) ہوگیا (کہ) گویا بڑا پہاڑ (ہے)
پھر ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا دریا پر مارو، پس دریا (بارہ حصوں میں) پھٹ گیا اور ہر ٹکڑا زبردست پہاڑ کی مانند ہو گیا،
پھر ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا دریا میں مار دیں چنانچہ دریا شگافتہ ہوگیا اور ہر حصہّ ایک پہاڑ جیسا نظر آنے لگا
ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی ﻻٹھی مار، پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا
سو ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنا عصا دریا پر مارو۔ چنانچہ وہ دریا پھٹ گیا اور (پانی کا) ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا۔
وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ ٱلْءَاخَرِينَ ﴿٦٤﴾
اور ہم نے اس جگہ دوسروں کو پہنچا دیا
اُسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے
اور وہاں قریب لائے ہم دوسروں کو
اور دوسروں کو وہاں ہم نے قریب کردیا
اور ہم نے دوسروں (یعنی فرعون اور اس کے ساتھیوں) کو اس جگہ کے قریب کر دیا،
اور دوسرے فریق کو بھی ہم نے قریب کردیا
اور ہم نے اسی جگہ دوسروں کو نزدیک ﻻ کھڑا کر دیا
اور ہم وہاں دوسرے فریق کو بھی نزدیک لائے۔
وَأَنجَيْنَا مُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُۥٓ أَجْمَعِينَ ﴿٦٥﴾
اورہم نے موسیٰ کی اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو نجات دی
موسیٰؑ اور اُن سب لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے، ہم نے بچا لیا
اور ہم نے بچالیا موسیٰ اور اس کے سب ساتھ والوں کو
اور موسیٰ اور ان کے ساتھ والوں کو تو بچا لیا
اور ہم نے موسٰی علیہ السلام کو (بھی) نجات بخشی اور ان سب لوگوں کو (بھی) جو ان کے ساتھ تھے،
اور ہم نے موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو نجات دے دی
اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دے دی
اور ہم نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔
ثُمَّ أَغْرَقْنَا ٱلْءَاخَرِينَ ﴿٦٦﴾
پھر ہم نے دوسروں کو غرق کر دیا
اور دوسروں کو غرق کر دیا
پھر دوسروں کو ڈبو دیا
پھر دوسروں کو ڈبو دیا
پھر ہم نے دوسروں (یعنی فرعونیوں) کو غرق کر دیا،
پھر باقی لوگوں کو غرق کردیا
پھر اور سب دوسروں کو ڈبو دیا
اور پھر ہم نے دوسرے فریق کو غرق کر دیا۔
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٦٧﴾
البتہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں
اس واقعہ میں ایک نشانی ہے، مگر اِن لوگوں میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے
بےشک اس (قصے) میں نشانی ہے۔ لیکن یہ اکثر ایمان لانے والے نہیں
بیشک اس (واقعہ) میں (قدرتِ الٰہیہ) کی بڑی نشانی ہے، اور ان میں سے اکثر لوگ مومن نہ تھے،
اس میں بھی ہماری ایک نشانی ہے اور بنی اسرائیل کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں تھی
یقیناً اس میں بڑی عبرت ہے اور ان میں کےاکثر لوگ ایمان والے نہیں
بےشک اس واقعہ میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ ﴿٦٨﴾
اور بے شک تیرا رب زبردست رحم کرنے والا ہے
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
اور بیشک تمہارا رب وہی عزت والا مہربان ہے
اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے
اور بیشک آپ کا رب ہی یقیناً غالب رحمت والا ہے،
اور تمہارا پروردگار صاحبِ عزّت بھی ہے اور مہربان بھی
اور بیشک آپ کا رب بڑا ہی غالب اور مہربان ہے؟
اور بےشک آپ کا پروردگار بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَٰهِيمَ ﴿٦٩﴾
اور انہیں ابراھیم کی خبر سنا دے
اور اِنہیں ابراہیمؑ کا قصہ سناؤ
اور ان پر پڑھو خبر ابراہیم کی
اور ان کو ابراہیم کا حال پڑھ کر سنا دو
اور آپ ان پر ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ (بھی) پڑھ کر سنا دیں،
اور انہیں ابراہیم کی خبر پڑھ کر سناؤ
انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی سنادو
اور آپ ان لوگوں کے سامنے ابراہیم (ع) کا قصہ بیان کیجئے۔
إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِۦ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٧٠﴾
جب اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس کو پوجتے ہو
جبکہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا تھا کہ \"یہ کیا چیزیں ہیں جن کو تم پوجتے ہو؟\"
جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا تم کیا پوجتے ہو
جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم کس چیز کو پوجتے ہو
جب انہوں نے اپنے باپ ٭ اور اپنی قوم سے فرمایا: تم کس چیز کو پوجتے ہو، ٭ (یہ حقیقی باپ نہ تھا، چچا تھا۔ اسی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پرورش کی تھی جس کی وجہ سے اسے باپ کہا کرتے تھے۔ اس کا نام آزر ہے جبکہ آپ کے حقیقی والد کا نام تارخ ہے۔)
جب انہوںنے اپنے مربی باپ اور قوم سے کہا کہ تم لوگ کس کی عبادت کررہے ہو
جبکہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟
جب انہوں نے اپنے باپ (یعنی چچا) اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کس چیز کی پرستش کرتے ہو؟
قَالُوا۟ نَعْبُدُ أَصْنَامًۭا فَنَظَلُّ لَهَا عَٰكِفِينَ ﴿٧١﴾
کہنے لگے ہم بتوں کو پوجتے ہیں پھر انہی کے گرد رہا کرتے ہیں
انہوں نے جواب دیا \"کچھ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں اور انہی کی سیوا میں ہم لگے رہتے ہیں\"
بولے ہم بتوں کو پوجتے ہیں پھر ان کے سامنے آسن مارے رہتے ہیں،
وہ کہنے لگے کہ ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور ان کی پوجا پر قائم ہیں
انہوں نے کہا: ہم بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور ہم انہی (کی عبادت و خدمت) کے لئے جمے رہنے والے ہیں،
ان لوگوں نے کہا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور انہی کی مجاوری کرتے ہیں
انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی، ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم تو بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور اس پر قائم ہیں۔
قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ ﴿٧٢﴾
کہا کیا وہ تمہاری بات سنتے ہیں جب تم پکارتے ہو
اس نے پوچھا \"کیا یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم انہیں پکارتے ہو؟
فرمایا کیا وہ تمہاری سنتے ہیں جب تم پکارو،
ابراہیم نے کہا کہ جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری آواز کو سنتے ہیں؟
(ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: کیا وہ تمہیں سنتے ہیں جب تم (ان کو) پکارتے ہو،
تو ابراہیم نے کہا کہ جب تم ان کو پکارتے ہو تو یہ تمہاری آواز سنتے ہیں
آپ نے فرمایا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وه سنتے بھی ہیں؟
ابراہیم نے کہا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری آواز سنتے ہیں۔
أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ ﴿٧٣﴾
یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں
یا یہ تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں؟\"
یا تمہارا کچھ بھلا برا کرتے ہیں
یا تمہیں کچھ فائدے دے سکتے یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟
یا وہ تمہیں نفع پہنچاتے ہیں یا نقصان پہنچاتے ہیں،
یہ کوئی فائدہ یا نقصان پہنچاتے ہیں
یا تمہیں نفع نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں
یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں؟
قَالُوا۟ بَلْ وَجَدْنَآ ءَابَآءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ ﴿٧٤﴾
کہنے لگے بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے
انہوں نے جواب دیا \"نہیں، بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے\"
بولے بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا،
انہوں نے کہا (نہیں) بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے
وہ بولے: (یہ تو معلوم نہیں) لیکن ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا تھا،
ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ داداکو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے
انہوں نے کہا یہ (ہم کچھ نہیں جانتے) ہم تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا
انہوں نے کہا بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسے ہی کرتے پایا ہے۔
قَالَ أَفَرَءَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ ﴿٧٥﴾
کہا کیا تمہیں خبر ہے جنہیں تم پوجتے ہو
اس پر ابراہیمؑ نے کہا \"کبھی تم نے (آنکھیں کھول کر) اُن چیزوں کو دیکھا بھی جن کی بندگی تم
فرمایا تو کیا تم دیکھتے ہو یہ جنہیں پوج رہے ہو،
ابراہیم نے کہا کیا تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے ہو
(ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: کیا تم نے (کبھی ان کی حقیقت میں) غور کیا ہے جن کی تم پرستش کرتے ہو،
ابراہیم نے کہا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو
آپ نے فرمایا کچھ خبر بھی ہے جنہیں تم پوج رہے ہو
ابراہیم نے کہا کیا تم نے ان چیزوں کی (اصل حقیقت) دیکھی ہے کہ جن کی تم
أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُمُ ٱلْأَقْدَمُونَ ﴿٧٦﴾
تم او رتمہارے پہلے باپ دادا جنہیں پوجتے تھے
اور تمہارے پچھلے باپ دادا بجا لاتے رہے؟
تم اور تمہارے اگلے باپ دادا
تم بھی اور تمہارے اگلے باپ دادا بھی
تم اور تمہارے اگلے آباء و اجداد (الغرض کسی نے بھی سوچا)،
تم اور تمہارے تمام بزرگان خاندان
تم اور تمہارے اگلے باپ دادا، وه سب میرے دشمن ہیں
اور تمہارے باپ دادا پرستش کرتے رہے ہیں؟ (کہ وہ کیا ہے؟)
فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّۭ لِّىٓ إِلَّا رَبَّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿٧٧﴾
سو وہ سوائے رب العالمین کے میرے دشمن ہیں
میرے تو یہ سب دشمن ہیں، بجز ایک رب العالمین کے
بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں مگر پروردگار عالم
وہ میرے دشمن ہیں۔ مگر خدائے رب العالمین (میرا دوست ہے)
پس وہ (سب بُت) میرے دشمن ہیں سوائے تمام جہانوں کے رب کے (وہی میرا معبود ہے)،
یہ سب میرے دشمن ہیں. رب العالمین کے علاوہ
بجز سچے اللہ تعالیٰ کے جو تمام جہان کا پالنہار ہے
بہرکیف یہ سب میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے۔
ٱلَّذِى خَلَقَنِى فَهُوَ يَهْدِينِ ﴿٧٨﴾
جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی مجھے راہ دکھاتا ہے
جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے
وہ جس نے مجھے پیدا کیا تو وہ مجھے راہ دے گا
جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے رستہ دکھاتا ہے
وہ جس نے مجھے پیدا کیا سو وہی مجھے ہدایت فرماتا ہے،
کہ جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور پھر وہی ہدایت بھی دیتا ہے
جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے
جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ پھر وہی میری راہنمائی کرتا ہے۔
وَٱلَّذِى هُوَ يُطْعِمُنِى وَيَسْقِينِ ﴿٧٩﴾
اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے
جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے
اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے
اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے
اور وہی ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے،
وہی کھانادیتا ہے اور وہی پانی پلاتا ہے
وہی ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے
اور وہ جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا بھی۔
وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿٨٠﴾
اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے
اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے
اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے
اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے
اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے،
اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی شفا بھی دیتا ہے
اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے
اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے۔
وَٱلَّذِى يُمِيتُنِى ثُمَّ يُحْيِينِ ﴿٨١﴾
اور وہ جو مجھے مارے گا پھر زندہ کرے گا
جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا
اور وہ مجھے وفات دے گا پھر مجھے زندہ کرے گا
اور جو مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا
اور وہی مجھے موت دے گا پھر وہی مجھے (دوبارہ) زندہ فرمائے گا،
وہی موت دیتا ہے اور پھر وہی زندہ کرتا ہے
اور وہی مجھے مار ڈالے گا پھر زنده کردے گا
اور جو مجھے موت دے گا اور پھر مجھے (دوبارہ) زندہ کرے گا۔
وَٱلَّذِىٓ أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِى خَطِيٓـَٔتِى يَوْمَ ٱلدِّينِ ﴿٨٢﴾
اور وہ جو مجھے امید ہے کہ میرے گناہ قیامت کے دن مجھے بخش دے گا
اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا\"
اور وہ جس کی مجھے آس لگی ہے کہ میری خطائیں قیامت کے دن بخشے گا
اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے گا
اور اسی سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ قیامت وہ میری خطائیں معاف فرما دے گا،
اور اسی سے یہ امید ہے کہ روزِ حساب میری خطاؤں کو معاف کردے
اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وه روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا
اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ جزا و سزا کے دن میری خطا معاف کر دے گا۔
رَبِّ هَبْ لِى حُكْمًۭا وَأَلْحِقْنِى بِٱلصَّٰلِحِينَ ﴿٨٣﴾
اے میرے رب مجھے کمال علم عطا فرما اور مجھے نیکیوں کے ساتھ شامل کر
(اِس کے بعد ابراہیمؑ نے دعا کی) \"اے میرے رب، مجھے حکم عطا کر اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ ملا
اے میرے رب مجھے حکم عطا کر اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے قرب خاص کے سزاوار ہیں
اے پروردگار مجھے علم ودانش عطا فرما اور نیکوکاروں میں شامل کر
اے میرے رب! مجھے علم و عمل میں کمال عطا فرما اور مجھے اپنے قربِ خاص کے سزاواروں میں شامل فرما لے،
خدایا مجھے علم و حکمت عطا فرما اور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کردے
اے میرے رب! مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں میں ملا دے
اے میرے پروردگار! مجھے (علم و حکمت) عطا فرما۔ اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما۔
وَٱجْعَل لِّى لِسَانَ صِدْقٍۢ فِى ٱلْءَاخِرِينَ ﴿٨٤﴾
اور آئندہ آنے والی نسلوں میں میرا ذکر خیر باقی رکھ
اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر
اور میری سچی ناموری رکھ پچھلوں میں
اور پچھلے لوگوں میں میرا ذکر نیک (جاری) کر
اور میرے لئے بعد میں آنے والوں میں (بھی) ذکرِ خیر اور قبولیت جاری فرما،
اور میرے لئے آئندہ نسلوں میں سچی زبان اور ذکر خیر قرار دے
اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ
اور آئندہ آنے والوں میں میرا ذکرِ خیر جاری رکھ۔
وَٱجْعَلْنِى مِن وَرَثَةِ جَنَّةِ ٱلنَّعِيمِ ﴿٨٥﴾
اور مجھے نعمت کے باغ کے وارثوں میں کر دے
اور مجھے جنتِ نعیم کے وارثوں میں شامل فرما
اور مجھے ان میں کر جو چین کے باغوں کے وارث ہیں
اور مجھے نعمت کی بہشت کے وارثوں میں کر
اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا دے،
اور مجھے جنت کے وارثوں میں سے قرار دے
مجھے نعمتوں والی جنت کے وارﺛوں میں سے بنادے
اور مجھے جنتِ نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔
وَٱغْفِرْ لِأَبِىٓ إِنَّهُۥ كَانَ مِنَ ٱلضَّآلِّينَ ﴿٨٦﴾
اور میرے باپ کو بخش دے کہ وہ گمراہوں میں سے تھا
اور میرے باپ کو معاف کر دے کہ بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے
اور میرے باپ کو بخش دے بیشک وہ گمراہ،
اور میرے باپ کو بخش دے کہ وہ گمراہوں میں سے ہے
اور میرے باپ کو بخش دے بیشک وہ گمراہوں میں سے تھا،
اور میرے مربی کو بخش دے کہ وہ گمراہوں میں سے ہے
اور میرے باپ کو بخش دے یقیناً وه گمراہوں میں سے تھا
اور میرے باپ (یعنی چچا) کی مغفرت فرما۔ بےشک وہ گمراہوں میں سے تھا۔
وَلَا تُخْزِنِى يَوْمَ يُبْعَثُونَ ﴿٨٧﴾
اور مجھے ذلیل نہ کر جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے
اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے
اور مجھے رسوا نہ کرنا جس دن سب اٹھائے جائیں گے
اور جس دن لوگ اٹھا کھڑے کئے جائیں گے مجھے رسوا نہ کیجیو
اور مجھے (اُس دن) رسوا نہ کرنا جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے،
اور مجھے اس دن رسوا نہ کرنا جب سب قبروں سے اٹھائے جائیں گے
اور جس دن کے لوگ دوباره جلائے جائیں مجھے رسوا نہ کر
اور جس دن لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے اس دن مجھے رسوا نہ کر۔
يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌۭ وَلَا بَنُونَ ﴿٨٨﴾
جس دن مال اور اولاد نفع نہیں دے گی
جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد
جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے،
جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکا گا اور نہ بیٹے
جس دن نہ کوئی مال نفع دے گا اور نہ اولاد،
جس دن مال اور اولاد کوئی کام نہ آئے گا
جس دن کہ مال اور اوﻻد کچھ کام نہ آئے گی
جس دن نہ مال فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔
إِلَّا مَنْ أَتَى ٱللَّهَ بِقَلْبٍۢ سَلِيمٍۢ ﴿٨٩﴾
مگر جو الله کے پاس پاک دل لے کر آیا
بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو\"
مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر
ہاں جو شخص خدا کے پاس پاک دل لے کر آیا (وہ بچ جائے گا)
مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا،
مگر وہ جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو
لیکن فائده واﻻ وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے
اور سوائے اس کے جو اللہ کی بارگاہ میں قلبِ سلیم کے ساتھ حاضر ہوگا۔
وَأُزْلِفَتِ ٱلْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٩٠﴾
اور پرہیز گاروں کے لیے جنت قریب لائی جائے گی
(اس روز) جنت پرہیزگاروں کے قریب لے آئی جائے گی
اور قریب لائی جائے گی جنت پرہیزگاروں کے لیے
اور بہشت پرہیزگاروں کے قریب کردی جائے گی
اور (اس دن) جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گے،
اور جس دن جنتّ پرہیزگاروں سے قریب تر کردی جائے گی
اور پرہیزگاروں کے لیے جنت بالکل نزدیک ﻻدی جائے گی
اور جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گی۔
وَبُرِّزَتِ ٱلْجَحِيمُ لِلْغَاوِينَ ﴿٩١﴾
اور دوزخ سرکشوں کے لیے ظاہر کی جائے گی
اور دوزخ بہکے ہوئے لوگوں کے سامنے کھول دی جائے گی
اور ظاہر کی جائے گی دوزخ گمراہوں کے لیے،
اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی
اور دوزخ گمراہوں کے سامنے ظاہر کر دی جائے گی،
اور جہنمّ کو گمراہوں کے سامنے کردیا جائے گا
اور گمراه لوگوں کے لیے جہنم ﻇاہر کردی جائے گی
اور دوزخ گمراہوں کے سامنے ظاہر کر دی جائے گی۔
وَقِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ ﴿٩٢﴾
اور انہیں کہا جائے گا کہاں ہیں جنہیں تم پوجتے تھے
اور ان سے پوچھا جائے گا کہ \"اب کہاں ہیں وہ جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کیا کرتے تھے؟
اور ان سے کہا جائے گا کہاں ہیں وہ جن کو تم پوجتے تھے،
اور ان سے کہا جائے گا کہ جن کو تم پوجتے تھے وہ کہاں ہیں؟
اور ان سے کہا جائے گا: وہ (بت) کہاں ہیں جنہیں تم پوجتے تھے،
اور جہنّمیوں سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جن کی تم عبادت کیا کرتے تھے
اور ان سے پوچھا جائے گا کہ جن کی تم پوجا کرتے رہے وه کہاں ہیں؟
اور ان سے کہا جائے گا کہ تمہارے وہ معبود کہاں ہیں جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے؟
مِن دُونِ ٱللَّهِ هَلْ يَنصُرُونَكُمْ أَوْ يَنتَصِرُونَ ﴿٩٣﴾
الله کے سوا کیا وہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں یا بدلہ لے سکتے ہیں
کیا وہ تمہاری کچھ مدد کر رہے ہیں یا خود اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں؟\"
اللہ کے سوا، کیا وہ تمہاری مدد کریں گے یا بدلہ لیں گے،
یعنی جن کو خدا کے سوا (پوجتے تھے) کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا خود بدلہ لے سکتے ہیں
اللہ کے سوا، کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا خود اپنی مدد کرسکتے ہیں؟ (کہ اپنے آپ کو دوزخ سے بچالیں)،
خدا کو چھوڑ کر وہ تمہاری مدد کریں گے یا اپنی مدد کریں گے
جو اللہ تعالیٰ کے سوا تھے، کیاوه تمہاری مدد کرتے ہیں؟ یا کوئی بدلہ لے سکتے ہیں
کیا وہ (آج) تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں یا وہ اپنا ہی بچاؤ کر سکتے ہیں؟
فَكُبْكِبُوا۟ فِيهَا هُمْ وَٱلْغَاوُۥنَ ﴿٩٤﴾
پھر وہ اور سب گمراہ اس میں اوندھے ڈال دیے جائیں گے
پھر وہ معبود اور یہ بہکے ہوئے لوگ
تو اوندھا دیے گئے جہنم میں وہ اور سب گمراہ
تو وہ اور گمراہ (یعنی بت اور بت پرست) اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے
سو وہ (بت بھی) اس (دوزخ) میں اوندھے منہ گرا دیئے جائیں گے اور گمراہ لوگ (بھی)،
پھر وہ سب مع تمام گمراہوں کے جہنّم میں منہ کے بل ڈھکیل دیئے جائیں گے
پس وه سب اور کل گمراه لوگ جہنم میں اوندھے منھ ڈال دیے جائیں گے
پھر وہ معبود اور (یہ) گمراہ لوگ۔
وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ ﴿٩٥﴾
اور شیطان کے سارے لشکروں کو بھی
اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس میں اُوپر تلے دھکیل دیے جائیں گے
اور ابلیس کے لشکر سارے
اور شیطان کے لشکر سب کے سب (داخل جہنم ہوں گے)
اور ابلیس کی ساری فوجیں (بھی واصل جہنم ہوں گی)،
اور ابلیس کے تمام لشکر والے بھی
اور ابلیس کے تمام کے تمام لشکر بھی، وہاں
اور ابلیس اور اس کے سارے لشکر اس (دوزخ) میں اندھے منہ ڈال دیئے جائیں گے۔
قَالُوا۟ وَهُمْ فِيهَا يَخْتَصِمُونَ ﴿٩٦﴾
اوروہ وہاں آپس میں جھگڑتے ہوئے کہیں گے
وہاں یہ سب آپس میں جھگڑیں گے اور یہ بہکے ہوئے لوگ (اپنے معبودوں سے) کہیں گے
کہیں گے اور وہ اس میں باہم جھگڑے ہوں گے،
وہ آپس میں جھگڑیں گے اور کہیں گے
وہ (گمراہ لوگ) اس (دوزخ) میں باہم جھگڑا کرتے ہوئے کہیں گے،
اور وہ سب جہنمّ میں آپس میں جھگڑا کرتے ہوئے کہیں گے
آپس میں لڑتے جھگڑتے ہوئے کہیں گے
اور وہ دوزخ میں باہم جھگڑتے ہوئے کہیں گے۔
تَٱللَّهِ إِن كُنَّا لَفِى ضَلَٰلٍۢ مُّبِينٍ ﴿٩٧﴾
الله کی قسم بیشک ہم صریح گمراہی میں تھے
کہ \"خدا کی قسم، ہم تو صریح گمراہی میں مبتلا تھے
خدا کی قسم بیشک ہم کھلی گمراہی میں تھے،
کہ خدا کی قسم ہم تو صریح گمراہی میں تھے
اللہ کی قسم! ہم کھلی گمراہی میں تھے،
کہ خدا کی قسم ہم سب کھلی ہوئی گمراہی میں تھے
کہ قسم اللہ کی! یقیناً ہم تو کھلی غلطی پر تھے
خدا کی قَسم ہم کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔
إِذْ نُسَوِّيكُم بِرَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿٩٨﴾
جب ہم تمہیں رب العالمین کے برابر کیا کرتے تھے
جبکہ تم کو رب العالمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے
جبکہ انہیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے،
جب کہ تمہیں (خدائے) رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے
جب ہم تمہیں سب جہانوں کے رب کے برابر ٹھہراتے تھے،
جب تم کو رب العالمین کے برابر قرار دے رہے تھے
جبکہ تمہیں رب العالمین کے برابر سمجھ بیٹھے تھے
جب تمہیں رب العالمین کے برابر قرار دیتے تھے۔
وَمَآ أَضَلَّنَآ إِلَّا ٱلْمُجْرِمُونَ ﴿٩٩﴾
اور ہمیں ان بدکاروں کے سوا کسی نے گمراہ نہیں کیا
اور وہ مجرم لوگ ہی تھے جنہوں نے ہم کو اس گمراہی میں ڈالا
اور ہمیں نہ بہکایا مگر مجرموں نے
اور ہم کو ان گنہگاروں ہی نے گمراہ کیا تھا
اور ہم کو (ان) مجرموں کے سوا کسی نے گمراہ نہیں کیا،
اور ہمیں مجرموں کے علاوہ کسی نے گمراہ نہیں کیا
اور ہمیں تو سوا ان بدکاروں کے کسی اور نے گمراه نہیں کیا تھا
اور ہم کو تو بس (بڑے) مجرموں نے گمراہ کیا تھا۔
فَمَا لَنَا مِن شَٰفِعِينَ ﴿١٠٠﴾
پھر کوئی ہماری سفارش کرنے والا نہیں
اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے
تو اب ہمارا کوئی سفارشی نہیں
تو (آج) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے
سو (آج) نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہے،
اب ہمارے لئے کوئی شفاعت کرنے والا بھی نہیں ہے
اب تو ہمارا کوئی سفارشی بھی نہیں
نہ اب ہمارا کوئی سفارشی ہے۔
وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍۢ ﴿١٠١﴾
اور نہ کوئی مخلص دوست ہے
اور نہ کوئی جگری دوست
اور نہ کوئی غم خوار دوست
اور نہ گرم جوش دوست
اور نہ کوئی گرم جوش دوست ہے،
اور نہ کوئی دل پسند دوست ہے
اور نہ کوئی (سچا) غم خوار دوست
اور نہ کوئی مخلص دوست۔
فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةًۭ فَنَكُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴿١٠٢﴾
پھر اگر ہمیں دوبارہ جانا ملے تو ہم ایمان والوں میں شامل ہوں
کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقع مل جائے تو ہم مومن ہوں\"
تو کسی طرح ہمیں پھر جانا ہوتا کہ ہم مسلمان ہوجاتے،
کاش ہمیں (دنیا میں) پھر جانا ہو تم ہم مومنوں میں ہوجائیں
سو کاش ہمیں ایک بار (دنیا میں) پلٹنا (نصیب) ہو جاتا تو ہم مومن ہوجاتے،
پس اے کاش ہمیں واپسی نصیب ہوجاتی تو ہم سب بھی صاحب هایمان ہوجاتے
اگر کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر جانا ملتا تو ہم پکے سچے مومن بن جاتے
کاش! ہم دوبارہ (دنیا میں) بھیجے جاتے تو ضرور ہم اہلِ ایمان سے ہو جاتے۔
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٠٣﴾
البتہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں
یقیناً اس میں ایک بڑی نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں بہت ایمان والے نہ تھے،
بےشک اس میں نشانی ہے اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں
بیشک اس (واقعہ) میں (قدرتِ الٰہیہ کی) بڑی نشانی ہے، اور ان کے اکثر لوگ مومن نہ تھے،
اس میں بھی ہماری ایک نشانی ہے اور ان کی اکثریت بہرحال مومن نہیں تھی
یہ ماجرا یقیناً ایک زبردست نشانی ہے ان میں سے اکثر لوگ ایمان ﻻنے والے نہیں
بےشک اس میں بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ ﴿١٠٤﴾
اور بے شک تیرا رب زبردست رحم کرنے والا ہے
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
اور بیشک تمہارا رب وہی عزت والا مہربان ہے،
اور تمہارا پروردگار تو غالب اور مہربان ہے
اور بیشک آپ کا رب ہی یقیناً غالب رحمت والا ہے،
اور تمہارا پروردگار سب پر غالب بھی ہے اور مہربان بھی ہے
یقیناً آپ کا پروردگار ہی غالب مہربان ہے
اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿١٠٥﴾
نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا
قوم نوحؑ نے رسولوں کو جھٹلایا
نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا
قوم نوح نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
نوح (علیہ السلام) کی قوم نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا،
اور نوح کی قوم نے بھی مرسلین کی تکذیب کی
قوم نوح نے بھی نبیوں کو جھٹلایا
نوح(ع) کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُونَ ﴿١٠٦﴾
جب ان کے بھائی نوح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں
یاد کرو جبکہ ان کے بھائی نوحؑ نے ان سے کہا تھا \"کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟
جبکہ ان سے ان کے ہم قوم نوح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں
جب ان سے ان کے بھائی نوح نے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں
جب ان سے ان کے (قومی) بھائی نوح (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو،
جب ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا کہ تم پرہیزگاری کیوں نہیں اختیار کرتے ہو
جبکہ ان کے بھائی نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تمہیں اللہ کا خوف نہیں!
جب کہ ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ ۔
إِنِّى لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌۭ ﴿١٠٧﴾
میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں
میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں
بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا بھیجا ہوا امین ہوں
میں تو تمہارا امانت دار ہوں
بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں،
میں تمہارے لئے امانت دار نمائندہ پروردگار ہوں
سنو! میں تمہاری طرف اللہ کا امانتدار رسول ہوں
بےشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١٠٨﴾
پس الله سے ڈرو اور میرا کہا مانو
لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو
تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو
سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،
پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
پس تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے اور میری بات ماننی چاہئے
سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿١٠٩﴾
اور میں تم سے اس پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے
میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے
اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے،
اور اس کام کا تم سے کچھ صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو خدائے رب العالمین ہی پر ہے
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف سب جہانوں کے رب کے ذمہ ہے،
اور میں اس تبلیغ کی کوئی اجر بھی نہیں چاہتا ہوں میری اجر ت تو رب العالمین کے ذمہ ہے
میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا بدلہ تو صرف رب العالمین کے ہاں ہے
اور میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١١٠﴾
سو الله سے ڈرو اور میرا کہا مانو
پس تم اللہ سے ڈرو اور (بے کھٹکے) میری اطاعت کرو\"
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،
تو خدا سے ڈرو اور میرے کہنے پر چلو
پس تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرادری کرو،
لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
پس تم اللہ کا خوف رکھو اور میری فرمانبرداری کرو
پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
۞ قَالُوٓا۟ أَنُؤْمِنُ لَكَ وَٱتَّبَعَكَ ٱلْأَرْذَلُونَ ﴿١١١﴾
انہوں نے کہا کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں حالانکہ تیرے تابع توکمینے لوگ ہوئے ہیں
انہوں نے جواب دیا \"“کیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں نے اختیار کی ہے؟\"
بولے کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں اور تمہارے ساتھ کمینے ہو ےٴ ہیں
وہ بولے کہ کیا ہم تم کو مان لیں اور تمہارے پیرو تو رذیل لوگ ہوتے ہیں
وہ بولے: کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں حالانکہ تمہاری پیروی (معاشرے کے) انتہائی نچلے اور حقیر (طبقات کے) لوگ کر رہے ہیں،
ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ پر کس طرح ایمان لے آئیں جبکہ آپ کے سارے پیروکار پست طبقہ کے لوگ ہیں
قوم نے جواب دیا کہ ہم تجھ پر ایمان ﻻئیں! تیری تابعداری تو رذیل لوگوں نے کی ہے
انہوں نے کہا ہم کس طرح تجھے مان لیں (اور اطاعت کریں) جبکہ رذیل لوگ تمہاری پیروی کر رہے ہیں۔
قَالَ وَمَا عِلْمِى بِمَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿١١٢﴾
کہا اور مجھے کیا خبر کہ وہ کیا کرتے تھے
نوحؑ نے کہا \"میں کیا جانوں کہ ان کے عمل کیسے ہیں
فرمایا مجھے کیا خبر ان کے کام کیا ہیں
نوح نے کہا کہ مجھے کیا معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں
(نوح علیہ السلام نے) فرمایا: میرے علم کو ان کے (پیشہ وارانہ) کاموں سے کیا سروکار،
نوح نے کہا کہ میں کیا جانوں کہ یہ کیا کرتے تھے
آپ نے فرمایا! مجھے کیا خبر کہ وه پہلے کیا کرتے رہے؟
آپ نے کہا مجھے اس کی کیا خبر (اور کیا غرض؟) جو وہ کرتے رہے ہیں؟
إِنْ حِسَابُهُمْ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّى ۖ لَوْ تَشْعُرُونَ ﴿١١٣﴾
ان کا حساب تو میرے رب ہی کے ذمہ ہے کاش کہ تم سمجھتے
ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے، کاش تم کچھ شعور سے کام لو
ان کا حساب تو میرے رب ہی پر ہے اگر تمہیں حِس ہو
ان کا حساب (اعمال) میرے پروردگار کے ذمے ہے کاش تم سمجھو
ان کا حساب تو صرف میرے رب ہی کے ذمہ ہے۔ کاش! تم سمجھتے (کہ حقیقی عزت و ذلت کیا ہے)،
ان کا حساب تو میرے پروردگار کے ذمہ ہے اگر تم اس بات کا شعور رکھتے ہو
ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے اگر تمہیں شعور ہو تو
ان کا حساب کتاب کرنا تو میرے پروردگار ہی کا کام ہے کاش تم شعور سے کام لیتے۔
وَمَآ أَنَا۠ بِطَارِدِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴿١١٤﴾
اور میں ایمان والوں کو دور کرنے والا نہیں ہوں
میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو ایمان لائیں ان کو میں دھتکار دوں
اور میں مسلمانوں کو دور کرنے والا نہیں
اور میں مومنوں کو نکال دینے والا نہیں ہوں
اور میں مومنوں کو دھتکارنے والا نہیں ہوں،
اور میں مومنین کو ہٹانے ولا نہیں ہوں
میں ایمان والوں کو دھکے دینے واﻻ نہیں
اور میں اہلِ ایمان کو دھتکارنے والا نہیں ہوں۔
إِنْ أَنَا۠ إِلَّا نَذِيرٌۭ مُّبِينٌۭ ﴿١١٥﴾
میں تو بس کھول کر ڈرانے والا ہوں
میں تو بس ایک صاف صاف متنبہ کر دینے والا آدمی ہوں\"
میں تو نہیں مگر صاف ڈر سنانے والا
میں تو صرف کھول کھول کر نصیحت کرنے والا ہوں
میں تو فقط کھلا ڈر سنانے والا ہوں،
میں تو صرف واضح طور پر عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ہوں
میں تو صاف طور پر ڈرا دینے واﻻ ہوں
میں تو صرف ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔
قَالُوا۟ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ يَٰنُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمَرْجُومِينَ ﴿١١٦﴾
کہنے لگے اے نوح اگر تو باز نہ آیا تو ضرور سنگسار کیا جائے گا
انہوں نے کہا \"اے نوحؑ، اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہو کر رہے گا\"
بولے اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو ضرور سنگسار کیے جاؤ گے
انہوں نے کہا کہ نوح اگر تم باز نہ آؤ گے تو سنگسار کردیئے جاؤ گے
وہ بولے: اے نوح! اگر تم (ان باتوں سے) باز نہ آئے تو تمہیں یقیناً سنگ سار کر دیا جائے گا،
ان لوگوں نے کہا کہ نوح اگر تم ان باتوں سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے
انہوں نے کہاکہ اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً تجھے سنگسار کردیا جائے گا
ان لوگوں نے کہا اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو تم ضرور سنگسار کر دیئے جاؤگے۔
قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِى كَذَّبُونِ ﴿١١٧﴾
کہا اے میرے رب میری قوم نے مجھے جھٹلایا ہے
نوحؑ نے دعا کی \"“اے میرے رب، میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا
عرض کی اے میرے رب میری قوم نے مجھے جھٹلایا
نوح نے کہا کہ پروردگار میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا
(نوح علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا،
نوح نے یہ سن کر فریاد کی کہ پروردگار میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے
آپ نے کہا اے میرے پروردگار! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا
آپ نے کہا اے میرے پروردگار! میری قوم نے تو مجھے جھٹلایا دیا ہے۔
فَٱفْتَحْ بَيْنِى وَبَيْنَهُمْ فَتْحًۭا وَنَجِّنِى وَمَن مَّعِىَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴿١١٨﴾
پس تو میرے اور ان کے درمیان فیصلہ ہی کر دے اور مجھے اور جو میرے ساتھ ایمان والے ہیں نجات دے
اب میرے اور ان کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے\"
تو مجھ میں اور ان میں پورا فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے ساتھ والے مسلمانوں کو نجات دے
سو تو میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ کردے اور مجھے اور جو میرے ساتھ ہیں ان کو بچا لے
پس تو میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے اور مجھے اور ان مومنوں کو جو میرے ساتھ ہیں نجات دے دے،
اب میرے اور ان کے درمیان کھلا ہوا فیصلہ فرما دے اور مجھے اور میرے ساتھی صاحبانِ ایمان کو نجات دے دے
پس تو مجھ میں اور ان میں کوئی قطعی فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے با ایمان ساتھیوں کو نجات دے
پس اب تو ہی میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما اور مجھے اور میرے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات دے۔
فَأَنجَيْنَٰهُ وَمَن مَّعَهُۥ فِى ٱلْفُلْكِ ٱلْمَشْحُونِ ﴿١١٩﴾
پھر ہم نے اسے اورجو اس کے ساتھ بھری کشتی میں تھے بچا لیا
آخرکار ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو ایک بھری ہوئی کشتی میں بچا لیا
تو ہم نے بچالیا اسے اور اس کے ساتھ والوں کو بھری ہوئی کشتی میں
پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، ان کو بچا لیا
پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں (سوار) تھے نجات دے دی،
پھر ہم نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ایک بھری ہوئی کشتی میں نجات دے دی
چنانچہ ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو بھری ہوئی کشتی میں (سوار کراکر) نجات دے دی
پس ہم نے انہیں اور جو اس بھری ہوئی کشتی میں ان کے ساتھ تھے سب کو نجات دی۔
ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ ٱلْبَاقِينَ ﴿١٢٠﴾
پھر ہم نے اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا
اور اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا
پھر اس کے بعد ہم نے باقیوں کو ڈبو دیا،
پھر اس کے بعد باقی لوگوں کو ڈبو دیا
پھر اس کے بعد ہم نے باقی ماندہ لوگوں کو غرق کر دیا،
اس کے بعد باقی سب کو غرق کردیا
بعد ازاں باقی کے تمام لوگوں کو ہم نے ڈبو دیا
پھر اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٢١﴾
البتہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں
یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے،
بےشک اس میں نشانی ہے اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے
بیشک اس (واقعہ) میں (قدرتِ الٰہیہ کی) بڑی نشانی ہے اور ان کے اکثر لوگ مومن نہ تھے،
یقینا اس میں بھی ہماری ایک نشانی ہے اور ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں تھی
یقیناً اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ ایمان ﻻنے والے تھے بھی نہیں
بےشک اس میں ایک بڑی نشانی ہے (مگر) ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لانے والے ہیں۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ ﴿١٢٢﴾
اور بے شک تیرا رب زبردست رحم کرنے والا ہے
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
اور بیشک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے،
اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے
اور بیشک آپ کا رب ہی یقیناً غالب رحمت والا ہے،
اور تمہارا پروردگار ہی سب پر غالب اور مہربان ہے
اور بیشک آپ کا پروردگار البتہ وہی ہے زبردست رحم کرنے واﻻ
اور آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
كَذَّبَتْ عَادٌ ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿١٢٣﴾
قوم عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا
عاد نے رسولوں کو جھٹلایا
عاد نے رسولوں کو جھٹلایا
عاد نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
(قومِ) عاد نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا،
اورقوم عاد نے بھی مرسلین کی تکذیب کی ہے
عادیوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا
(اسی طرح قوم) عاد نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلَا تَتَّقُونَ ﴿١٢٤﴾
جب ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے
یاد کرو جبکہ ان کے بھائی ہودؑ نے ان سے کہا تھا \"کیا تم ڈرتے نہیں؟
جبکہ ان سے ان کے ہم قوم ہود نے فرمایا کیا تم ڈرتے نہیں،
جب ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں
جب اُن سے اُن کے (قومی) بھائی ھود (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو،
جب ان کے بھائی ہود نے کہا کہ تم خورِ خدا کیوں نہیں پیدا کرتے ہو
جبکہ ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا کہ کیا تم ڈرتے نہیں؟
جبکہ ان کے بھائی ہود نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟
إِنِّى لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌۭ ﴿١٢٥﴾
البتہ میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں
میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں
بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں،
میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں
بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں،
میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں
میں تمہارا امانتدار پیغمبر ہوں
بےشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١٢٦﴾
پس الله سے ڈرو اور میرا کہا مانو
لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،
تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو
سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،
لہذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
پس اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو!
سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿١٢٧﴾
اور میں تم سے ا سپر کوئی مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے
میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے
اور میں تم سے اس پر کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب،
اور میں اس کا تم سے کچھ بدلہ نہیں مانگتا۔ میرا بدلہ (خدائے) رب العالمین کے ذمے ہے
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو فقط تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہے،
اور میں تو تم سے تبلیغ کا کوئی اجر بھی نہیں چاہتا ہوں میرا اجر صرف رب العالمین کے ذمہ ہے
میں اس پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا، میرا ﺛواب تو تمام جہان کے پروردگار کے پاس ہی ہے
اور میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔
أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ ءَايَةًۭ تَعْبَثُونَ ﴿١٢٨﴾
کیا تم ہر اونچی زمین پر کھیلنے کے لیے ایک نشان بناتے ہو
یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لا حاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو
کیا ہر بلندی پر ایک نشان بناتے ہو راہ گیروں سے ہنسنے کو
بھلا تم ہر اونچی جگہ پر نشان تعمیر کرتے ہو
کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار تعمیر کرتے ہو (محض) تفاخر اور فضول مشغلوں کے لئے،
کیا تم کھیل تماشے کے لئے ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار بناتے ہو
کیا تم ایک ایک ٹیلے پر بطور کھیل تماشا یادگار (عمارت) بنا رہے ہو
کیا تم ہر بلندی پر بے فائدہ ایک یادگار تعمیر کرتے ہو؟
وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ ﴿١٢٩﴾
اوربڑے بڑے محل بناتے ہو شاید کہ تم ہمیشہ رہو گے
اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے
اور مضبوط محل چنتے ہو اس امید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے
اور محل بناتے ہو شاید تم ہمیشہ رہو گے
اور تم (تالابوں والے) مضبوط محلات بناتے ہو اس امید پر کہ تم (دنیا میں) ہمیشہ رہو گے،
اور بڑے بڑے محل تعمیر کرتے ہو کہ شاید اسی طرح ہمیشہ دنیا میں رہ جاؤ
اور بڑی صنعت والے (مضبوط محل تعمیر) کر رہے ہو، گویا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو گے
اور تم بڑے بڑے محل تعمیر کرتے ہو شاید کہ تم ہمیشہ زندہ رہوگے۔
وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ ﴿١٣٠﴾
اورجب ہاتھ ڈالتے ہو تو بڑی سختی سےپکڑتے ہو
اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو جبّار بن کر ڈالتے ہو
اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی سے گرفت کرتے ہو
اور جب (کسی کو) پکڑتے ہو تو ظالمانہ پکڑتے ہو
اور جب تم کسی کی گرفت کرتے ہو تو سخت ظالم و جابر بن کر گرفت کرتے ہو،
اور جب حملہ کرتے ہو تو نہایت جابرانہ حملہ کرتے ہو
اور جب کسی پر ہاتھ، ڈالتے ہو تو سختی اور ﻇلم سے پکڑتے ہو
اور جب تم کسی پر حملہ کرتے ہو تو جبار و سرکش بن کر حملہ کرتے ہو؟
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١٣١﴾
پس الله سے ڈرو اور میرا کہا مانو
پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،
تو خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
سو تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری اختیار کرو،
اب اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو
پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
وَٱتَّقُوا۟ ٱلَّذِىٓ أَمَدَّكُم بِمَا تَعْلَمُونَ ﴿١٣٢﴾
اور اس سے ڈرو جس نے تمہاری ان چیزوں سے مدد کی ہے جنہیں تم بھی جانتے ہو
ڈرو اُس سے جس نے وہ کچھ تمہیں دیا ہے جو تم جانتے ہو
اور اس سے ڈرو جس نے تمہاری مدد کی ان چیزوں سے کہ تمہیں معلوم ہیں
اور اس سے جس نے تم کو ان چیزوں سے مدد دی جن کو تم جانتے ہو۔ ڈرو
اور اس (اللہ) سے ڈرو جس نے تمہاری ان چیزوں سے مدد کی جو تم جانتے ہو،
اور اس کا خوف پیدا کرو جس نے تمہاری ان تمام چیزوں سے مدد کی ہے جنہیں تم خوب جانتے ہو
اس سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمہاری امداد کی جنہیں تم جانتے ہو
اور اس ذات سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمہاری مدد کی ہے جنہیں تم جانتے ہو۔
أَمَدَّكُم بِأَنْعَٰمٍۢ وَبَنِينَ ﴿١٣٣﴾
چارپایوں اور اولاد سے
تمہیں جانور دیے، اولادیں دیں
تمہاری مدد کی چوپایوں اور بیٹوں،
اس نے تمہیں چارپایوں اور بیٹوں سے مدد دی
اس نے تمہاری چوپایہ جانوروں اور اولاد سے مدد فرمائی،
تمہاری امداد جانوروں اور اولاد سے کی ہے
اس نے تمہاری مدد کی مال سے اور اوﻻد سے
(یعنی) اس نے مویشیوں اور اولاد سے تمہاری مدد فرمائی۔
وَجَنَّٰتٍۢ وَعُيُونٍ ﴿١٣٤﴾
اور باغوں اور چشموں سے تمہیں مدد دی
باغ دیے اور چشمے دیے
اور باغوں اور چشموں سے،
اور باغوں اور چشموں سے
اور باغات اور چشموں سے (بھی)،
اور باغات اور چشموں سے کی ہے
باغات سے اور چشموں سے
اور باغات اور چشموں سے۔
إِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍۢ ﴿١٣٥﴾
میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے\"
بیشک مجھے تم پر ڈر ہے ایک بڑے دن کے عذاب کا
مجھ کو تمہارے بارے میں بڑے (سخت) دن کے عذاب کا خوف ہے
بیشک میں تم پر ایک زبردست دن کے عذاب کا خوف رکھتا ہوں،
میں تمہارے بارے میں بڑے سخت دن کے عذاب سے خوفزدہ ہوں
مجھے تو تمہاری نسبت بڑے دن کےعذاب کا اندیشہ ہے
میں تمہارے متعلق ایک بہت بڑے (سخت) دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
قَالُوا۟ سَوَآءٌ عَلَيْنَآ أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُن مِّنَ ٱلْوَٰعِظِينَ ﴿١٣٦﴾
کہنے لگے تو نصیحت کر یا نہ کر ہمارے لیے سب برابر ہے
انہوں نے جواب دیا \"تو نصیحت کر یا نہ کر، ہمارے لیے یکساں ہے
بولے ہمیں برابر ہے چاہے تم نصیحت کرو یا ناصحوں میں نہ ہو
وہ کہنے لگے کہ ہمیں خواہ نصیحت کرو یا نہ کرو ہمارے لئے یکساں ہے
وہ بولے: ہمارے حق میں برابر ہے خواہ تم نصیحت کرو یا نصیحت کرنے والوں میں نہ بنو (ہم نہیں مانیں گے)،
ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے لئے سب برابر ہے چاہے تم ہمیں نصیحت کرو یا تمہارا شمارنصیحت کرنے والوں میں نہ ہو
انہوں نے کہا کہ آپ وعﻆ کہیں یا وعﻆ کہنے والوں میں نہ ہوں ہم پر یکساں ہے
ان لوگوں نے کہا کہ تم نصیحت کرو یا نہ کرو۔ ہمارے لئے برابر ہے۔
إِنْ هَٰذَآ إِلَّا خُلُقُ ٱلْأَوَّلِينَ ﴿١٣٧﴾
یہ تو بس پہلے لوگوں کی ایک عادت ہے
یہ باتیں تو یوں ہی ہوتی چلی آئی ہیں
یہ تو نہیں مگر وہی اگلوں کی ریت
یہ تو اگلوں ہی کے طریق ہیں
یہ (اور) کچھ نہیں مگر صرف پہلے لوگوں کی عادات (و اطوار) ہیں (جنہیں ہم چھوڑ نہیں سکتے)،
یہ ڈرانا دھمکانا تو پرانے لوگوں کی عادت ہے
یہ تو بس پرانے لوگوں کی عادت ہے
یہ (ڈراوا) تو بس اگلے لوگوں کی عادت ہے۔
وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ﴿١٣٨﴾
اور ہمیں عذاب نہیں ہوگا
اور ہم عذاب میں مُبتلا ہونے والے نہیں ہیں\"
اور ہمیں عذاب ہونا نہیں
اور ہم پر کوئی عذاب نہیں آئے گا
اور ہم پر عذاب نہیں کیا جائے گا،
اور ہم پر عذاب ہونے والا نہیں ہے
اور ہم ہرگز عذاب نہیں دیے جائیں گے
اور ہم کبھی عذاب میں مبتلا ہونے والے نہیں ہیں۔
فَكَذَّبُوهُ فَأَهْلَكْنَٰهُمْ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩﴾
پھر انہو ں نے پیغمبر کو جھٹلایا تب ہم نے انہیں ہلاک کر دیا البتہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں
آخرکار انہوں نے اُسے جھٹلا دیا اور ہم نے ان کو ہلاک کر دیا یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں
تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم نے انہیں بلاک کیا بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے،
تو انہوں نے ہود کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا۔ بےشک اس میں نشانی ہے۔ اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے
سو انہوں نے اس کو (یعنی ھود علیہ السلام کو) جھٹلا دیا پس ہم نے انہیں ہلاک کر ڈالا، بیشک اس (قصہ) میں (قدرتِ الٰہیہ کی) بڑی نشانی ہے، اور ان میں سے اکثر لوگ مومن نہ تھے،
پس قوم نے تکذیب کی اور ہم نے اسے ہلاک کردیا کہ اس میں بھی ہماری ایک نشانی ہے ا ور ان کی اکثریت بہرحا ل مومن نہیں تھی
چونکہ عادیوں نے حضرت ہود کو جھٹلایا، اس لیے ہم نے انہیں تباه کردیا یقیناً اس میں نشانی ہے اور ان میں سے اکثر بے ایمان تھے
پس انہوں نے اس (ہود) کو جھٹلایا اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا بےشک اس میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لائے نہیں تھے۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ ﴿١٤٠﴾
اور بے شک تیرا رب زبردست رحم کرنے والا ہے
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
اور بیشک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے،
اور تمہارا پروردگار تو غالب اور مہربان ہے
اور بیشک آپ کا رب ہی یقیناً غالب رحمت والا ہے،
اور تمہارا پروردگار غالب بھی ہے اور مہربان بھی ہے
بیشک آپ کا رب وہی غالب مہربان
اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
كَذَّبَتْ ثَمُودُ ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿١٤١﴾
قوم ثمود نے پیغمبروں کو جھٹلایا
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا،
(اور) قوم ثمود نے بھی پیغمبروں کو جھٹلا دیا
(قومِ) ثمود نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا،
او قوم ثمود نے بھی مرسلین کی تکذیب کی
ﺛمودیوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
قومِ ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَٰلِحٌ أَلَا تَتَّقُونَ ﴿١٤٢﴾
جب ان سے ان کے بھائی صالح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں
یاد کرو جبکہ ان کے بھائی صالحؑ نے ان سے کہا \"کیا تم ڈرتے نہیں؟
جبکہ ان سے ان کے ہم قوم صا لح نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں،
جب ان سے ان کے بھائی صالح نے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں؟
جب ان سے ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو،
جب ان کے بھائی صالح نے کہا کہ تم لوگ خدا سے کیوں نہیں ڈرتے ہو
ان کے بھائی صالح نے ان سے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟
جبکہ ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟
إِنِّى لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌۭ ﴿١٤٣﴾
میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں
میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں
بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانتدار رسول ہوں،
میں تو تمہارا امانت دار ہوں
بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں،
میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں
میں تمہاری طرف اللہ کا امانت دار پیغمبر ہوں
میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١٤٤﴾
پس الله سے ڈرو اور میرا کہا مانو
لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،
تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو
پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،
لہذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
تو تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا کرو
سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿١٤٥﴾
اور میں تم سے اسپر کوئی مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے
میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے
اور میں تم سے کچھ اس پر اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے،
اور میں اس کا تم سے بدلہ نہیں مانگتا۔ میرا بدلہ (خدا) رب العالمین کے ذمے ہے
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کچھ معاوضہ طلب نہیں کرتا، میرا اجر تو صرف سارے جہانوں کے پروردگار کے ذمہ ہے،
اور میں تم سے اس کام کی اجرت بھی نہیں چاہتا ہوں میری اجرت تو خدائے رب العالمین کے ذمہ ہے
میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت تو بس پرودگار عالم پر ہی ہے
اور میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔
أَتُتْرَكُونَ فِى مَا هَٰهُنَآ ءَامِنِينَ ﴿١٤٦﴾
کیا تمہیں ان چیزو ں میں یہاں بے فکری سے رہنے دیا جائے گا
کیا تم اُن سب چیزوں کے درمیان، جو یہاں ہیں، بس یوں ہی اطمینان سے رہنے دیے جاؤ گے؟
کیا تم یہاں کی نعمتوں میں چین سے چھوڑ دیے جاؤ گے
کیا وہ چیزیں (تمہیں یہاں میسر) ہیں ان میں تم بےخوف چھوڑ دیئے جاؤ گے
کیا تم ان (نعمتوں) میں جو یہاں (تمہیں میسر) ہیں (ہمیشہ کے لئے) امن و اطمینان سے چھوڑ دیئے جاؤ گے،
کیا تم یہاں کی نعمتوں میں اسی آرام سے چھوڑ دیئے جاؤ گے
کیا ان چیزوں میں جو یہاں ہیں تم امن کے ساتھ چھوڑ دیے جاؤ گے
کیا تمہیں ان چیزوں میں جو یہاں ہیں امن و اطمینان سے چھوڑ دیا جائے گا۔
فِى جَنَّٰتٍۢ وَعُيُونٍۢ ﴿١٤٧﴾
یعنی باغوں اور چشموں میں
اِن باغوں اور چشموں میں؟
باغوں اور چشموں،
(یعنی) باغ اور چشمے
(یعنی یہاں کے) باغوں اور چشموں میں،
انہی باغات اور چشموں میں
یعنی ان باغوں اور ان چشموں
(یعنی) باغوں اور چشموں میں۔
وَزُرُوعٍۢ وَنَخْلٍۢ طَلْعُهَا هَضِيمٌۭ ﴿١٤٨﴾
اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کا خوشہ ملائم ہے
اِن کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں؟
اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کا شگوفہ نرم نازک،
اور کھیتیاں اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف ونازک ہوتے ہیں
اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کے خوشے نرم و نازک ہوتے ہیں،
اور انہی کھیتوں اور خرمے کے درختوں کے درمیان جن کی کلیاں نرم و نازک ہیں
اور ان کھیتوں اور ان کھجوروں کے باغوں میں جن کے شگوفے نرم و نازک ہیں
اور ان کھجوروں میں جن کے خوشے نرم اور خوب بھرے ہوئے ہیں۔
وَتَنْحِتُونَ مِنَ ٱلْجِبَالِ بُيُوتًۭا فَٰرِهِينَ ﴿١٤٩﴾
او رتم پہاڑوں کوتراش کر تکلف کے گھر بناتے ہو
تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ اُن میں عمارتیں بناتے ہو
اور پہاڑوں میں سے گھر تراشتے ہو استادی سے
اور تکلف سے پہاڑوں میں تراش خراش کر گھر بناتے ہو
اور تم (سنگ تراشی کی) مہارت کے ساتھ پہاڑوں میں تراش (تراش) کر مکانات بناتے ہو،
اور جو تم پہاڑوں کو کاٹ کر آسائشی مکانات تعمیر کررہے ہو
اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر پر تکلف مکانات بنا رہے ہو
اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر اتراتے ہوئے (یا مہارت سے) مکانات بناتے ہو۔
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١٥٠﴾
پس الله سے ڈرو اور میرا کہا مانو
اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،
تو خدا سے ڈرو اور میرے کہنے پر چلو
پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،
ایسا ہرگز نہیں ہوگا لہذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
وَلَا تُطِيعُوٓا۟ أَمْرَ ٱلْمُسْرِفِينَ ﴿١٥١﴾
اوران حد سے نکلنے والوں کا کہا مت مانو
اُن بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو
اور حد سے بڑھنے والوں کے کہنے پر نہ چلو
اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی بات نہ مانو
اور حد سے تجاوز کرنے والوں کا کہنا نہ مانو،
اور زیادتی کرنے والوں کی بات نہ مانو
بے باک حد سے گزر جانے والوں کی اطاعت سے باز آجاؤ
اور ان حد سے تجاوز کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو۔
ٱلَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴿١٥٢﴾
جو زمین میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے
جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے\"
وہ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور بناؤ نہیں کرتے
جو ملک میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے
جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور (معاشرہ کی) اصلاح نہیں کرتے،
جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیںاور اصلاح نہیں کرتے ہیں
جو ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے
جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔
قَالُوٓا۟ إِنَّمَآ أَنتَ مِنَ ٱلْمُسَحَّرِينَ ﴿١٥٣﴾
کہنے لگے تم پر تو کسی نے جادو کیا ہے
انہوں نے جواب دیا \"تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے
بولے تم پر تو جادو ہوا ہے
وہ کہنے لگے کہ تم تو جادو زدہ ہو
وہ بولے کہ تم تو فقط جادو زدہ لوگوں میں سے ہو،
ان لوگوں نے کہا کہ تم پر تو صرف جادو کردیا گیا ہے اور بس
وه بولے کہ بس تو ان میں سے ہے جن پر جادو کردیا گیا ہے
ان لوگوں نے کہا: (اے صالح) تم ان لوگوں میں سے ہو جن پر سخت (یا بار بار) جادو کر دیا گیا ہے۔
مَآ أَنتَ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُنَا فَأْتِ بِـَٔايَةٍ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ ﴿١٥٤﴾
توبھی ہم جیسا ایک آدمی ہے سو کوئی نشانی لے آ اگر تو سچا ہے
تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے لا کوئی نشانی اگر تو سچّا ہے\"
تم تو ہمیں جیسے آدمی ہو، تو کوئی نشانی لاؤ اگر سچے ہو
تم اور کچھ نہیں ہماری طرح آدمی ہو۔ اگر سچے ہو تو کوئی نشانی پیش کرو
تم تو محض ہمارے جیسے بشر ہو، پس تم کوئی نشانی لے آؤ اگر تم سچے ہو،
تم ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو لہذا اگر سچےّ ہو تو کوئی نشانی اور معجزہ لے آؤ
تو تو ہم جیسا ہی انسان ہے۔ اگر تو سچوں سے ہے تو کوئی معجزه لے آ
(اور) تم تو بس ہمارے جیسے ایک بندہ ہو۔ اگر تم سچے ہو تو کوئی معجزہ لاؤ۔
قَالَ هَٰذِهِۦ نَاقَةٌۭ لَّهَا شِرْبٌۭ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍۢ مَّعْلُومٍۢ ﴿١٥٥﴾
کہا یہ اونٹنی ہے اسکے پینے کا ایک دن ہے اور یک دن معین تمہارے پینے کے لیے ہے
صالحؑ نے کہا \"یہ اونٹنی ہے ایک دن اس کے پینے کا ہے اور ایک دن تم سب کے پانی لینے کا
فرمایا یہ ناقہ ہے ایک دن اس کے پینے کی باری اور ایک معین دن تمہاری باری،
صالح نے کہا (دیکھو) یہ اونٹنی ہے (ایک دن) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین روز تمہاری باری
(صالح علیہ السلام نے) فرمایا: (وہ نشانی) یہ اونٹنی ہے پانی کا ایک وقت اس کے لئے (مقرر) ہے اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی کی باری ہے،
صالح نے کہا کہ یہ ایک اونٹنی ہے ایک دن کا پانی اس کے لئے ہے اورایک مقرر دن کا پانی تمہارے لئے ہے
آپ نے فرمایا یہ ہے اونٹنی، پانی پینے کی ایک باری اس کی اور ایک مقرره دن کی باری پانی پینے کی تمہاری
صالح نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے ایک دن اس کے پانی پینے کا ہوگا اور ایک مقررہ دن کا پانی تمہارے پینے کیلئے ہوگا۔
وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوٓءٍۢ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيمٍۢ ﴿١٥٦﴾
اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں بڑے دن کا عذاب آ پکڑے گا
اس کو ہرگز نہ چھیڑنا ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تم کو آ لے گا\"
اور اسے برائی کے ساتھ نہ چھوؤ کہ تمہیں بڑے دن کا عذاب آلے گا
اور اس کو کوئی تکلیف نہ دینا (نہیں تو) تم کو سخت عذاب آ پکڑے گا
اور اِسے برائی (کے ارادہ) سے ہاتھ مت لگانا ورنہ بڑے (سخت) دن کا عذاب تمہیں آپکڑے گا،
اور خبردار اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تمہیں سخت دن کا عذاب گرفتار کرلے گا
(خبردار!) اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک بڑے بھاری دن کا عذاب تمہاری گرفت کر لے گا
اور خبردار اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا ورنہ تمہیں ایک بڑے دن کا عذاب آپکڑے گا۔
فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُوا۟ نَٰدِمِينَ ﴿١٥٧﴾
سو انہوں نے اس کے پاؤں کاٹ ڈالے پھر پشیمان ہوئے
مگر انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ دیں اور آخرکار پچھتاتے رہ گئے
اس پر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں پھر صبح کو پچھتاتے رہ گئے
تو انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر نادم ہوئے
پھر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں (سو اسے ہلاک کر دیا) پھر وہ (اپنے کئے پر) پشیمان ہو گئے،
پھر ان لوگوں نے اس کے پیرکاٹ دیئے او بعد میں بہت شرمند ہوئے
پھر بھی انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ ڈالیں، بس وه پشیمان ہوگئے
پس انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں پھر پشیمان ہوئے۔
فَأَخَذَهُمُ ٱلْعَذَابُ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٥٨﴾
پھر انہیں عذاب نے آ پکڑا البتہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں
عذاب نے انہیں آ لیا یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں
تو انہیں عذاب نے آلیا بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے،
سو ان کو عذاب نے آن پکڑا۔ بےشک اس میں نشانی ہے۔ اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے
سو انہیں عذاب نے آپکڑا، بیشک اس (واقعہ) میں بڑی نشانی ہے، اور ان میں سے اکثر لوگ مومن نہ تھے،
کہ عذاب نے انہیں گھیر لیا اور یقینا اس میں بھی ہماری ایک نشانی ہے اور ان کی اکثریت ایمان والی نہیں تھی
اور عذاب نے انہیں آ دبوچا۔ بیشک اس میں عبرت ہے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ مومن نہ تھے
پھر ان کو عذاب نے آپکڑا بےشک اس (واقعہ) میں ایک بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ ﴿١٥٩﴾
اوربے شک تیرا رب زبردست رحم کرنے والا ہے
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
اور بیشک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے،
اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے
اور بیشک آپ کا رب ہی بڑا غالب رحمت والا ہے،
اور تمہارا پروردگار سب پرغالب آنے والا اور صاحبِ رحمت بھی ہے
اور بیشک آپ کا رب بڑا زبردست اور مہربان ہے
اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿١٦٠﴾
لوط کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا
لوطؑ کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا
لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا،
(اور قوم) لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
قومِ لوط نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا،
اور قوم لوط نے بھی مرسلین کو جھٹلایا
قوم لوط نے بھی نبیوں کو جھٹلایا
قومِ لوط نے رسولوں کو جھٹلایا۔
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُونَ ﴿١٦١﴾
جب انہیں ان کے بھائی لوط نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں
یاد کرو جبکہ ان کے بھائی لوطؑ نے ان سے کہا تھا \"کیا تم ڈرتے نہیں؟
جب کہ ان سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا کیا تم نہیں ڈرتے،
جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے؟
جب ان سے ان کے (قومی) بھائی لوط (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو،
جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم خدا سے کیوں نہیں ڈرتے ہو
ان سے ان کے بھائی لوط (علیہ السلام) نے کہا کیا تم اللہ کا خوف نہیں رکھتے؟
جبکہ ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔
إِنِّى لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌۭ ﴿١٦٢﴾
میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں
میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں
بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانتدار رسول ہوں،
میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں
بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں،
میں تمہارے حق میں ایک امانتدار پیغمبر ہوں
میں تمہاری طرف امانت دار رسول ہوں
میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١٦٣﴾
پس الله سے ڈرو اور میرا کہا مانو
لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،
تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو
پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت اختیار کرو،
اللرُ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿١٦٤﴾
اورمیں تم سے اس پر کوئی مزودری نہیں مانگتا میری مزدوری تو بس اللهرب العالمین کے ذمہ ہے
میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے
اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جان کا رب ہے،
اور میں تم سے اس (کام) کا بدلہ نہیں مانگتا۔ میرا بدلہ (خدائے) رب العالمین کے ذمے ہے
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا، میرا اجر تو صرف تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہے،
اور میں تم سے اس امر کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہوں میرا اجر تو صرف پروردگار کے ذمہ ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے
میں تم سے اس پر کوئی بدلہ نہیں مانگتا میرا اجر تو صرف اللہ تعالیٰ پر ہے جو تمام جہان کا رب ہے
اور میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا میری اجرت تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے۔
أَتَأْتُونَ ٱلذُّكْرَانَ مِنَ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿١٦٥﴾
کیا تم دنیا کے لوگوں میں لڑکوں پر گرے پڑتے ہو
کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مَردوں کے پاس جاتے ہو
کیا مخلوق میں مردوں سے بدفعلی کرتے ہو
کیا تم اہل عالم میں سے لڑکوں پر مائل ہوتے ہو
کیا تم سارے جہان والوں میں سے صرف مَردوں ہی کے پاس (اپنی شہوانی خواہشات پوری کرنے کے لئے) آتے ہو،
کیا تم لوگ ساری دنیا میں صرف مُردوں ہی سے جنسی تعلقات پیدا کرتے ہو
کیا تم جہان والوں میں سے مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو
کیا تم دنیا جہان والوں میں سے (بدفعلی کیلئے) مَردوں کے پاس ہی جاتے ہو۔
وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُم مِّنْ أَزْوَٰجِكُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ ﴿١٦٦﴾
اور تمہارے رب نےجو تمہارے لیے بیویاں پیدا کر دی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو بلکہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو
اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو\"
اور چھوڑتے ہو وہ جو تمہارے لیے تمہارے رب نے جوروئیں بنائیں، بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو
اور تمہارے پروردگار نے جو تمہارے لئے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو
اور اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہو جو تمہارے رب نے تمہارے لئے پیدا کی ہیں، بلکہ تم (سرکشی میں) حد سے نکل جانے والے لوگ ہو،
اور ان ازواج کو چھوڑ دیتے ہو جنہیں پروردگار نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے حقیقتا تم بڑی زیادتی کرنے والے لوگ ہو
اور تمہاری جن عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا جوڑا بنایا ہے ان کو چھوڑ دیتے ہو، بلکہ تم ہو ہی حد سے گزر جانے والے
اور تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے جو بیویاں پیدا کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو۔ بلکہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔
قَالُوا۟ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ يَٰلُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُخْرَجِينَ ﴿١٦٧﴾
کہنے لگے اے لوط اگر تو ان باتوں سے باز نہ آیا تو ضرور تو نکال دیا جائے گا
انہوں نے کہا “اے لوطؑ، \"اگر تو اِن باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں اُن میں تو بھی شامل ہو کر رہے گا\"
بولے اے لوط! اگر تم باز نہ آئے تو ضرور نکال دیے جاؤ گے
وہ کہنے لگے کہ لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کردیئے جاؤ گے
وہ بولے: اے لوط! اگر تم (ان باتوں سے) باز نہ آئے تو تم ضرور شہر بدر کئے جانے والوں میں سے ہو جاؤ گے،
ان لوگوں نے کہا کہ لوط اگر تم اس تبلیغ سے باز نہ آئے تو اس بستی سے نکال باہر کردیئے جاؤ گے
انہوں نے جواب دیاکہ اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً نکال دیا جائے گا
ان لوگوں نے کہا: اے لوط (ع)! (اگر تم ان باتوں سے) باز نہ آئے تو تمہیں ضرور باہر نکال دیا جائے گا۔
قَالَ إِنِّى لِعَمَلِكُم مِّنَ ٱلْقَالِينَ ﴿١٦٨﴾
کہا میں تو تمہارے کام سے سخت بیزار ہوں
اس نے کہا \"تمہارے کرتوتوں پر جو لوگ کُڑھ رہے ہیں میں اُن میں شامل ہوں
فرمایا میں تمہارے کام سے بیزار ہوں
لوط نے کہا کہ میں تمہارے کام کا سخت دشمن ہوں
(لوط علیہ السلام نے) فرمایا: بیشک میں تمہارے عمل سے بیزار ہونے والوں میں سے ہوں،
انہوں نے کہا کہ بہرحال میں تمہارے عمل سے بیزار ہوں
آپ نے فرمایا، میں تمہارے کام سے سخت ناخوش ہوں
آپ نے کہا میں تمہارے (اس) کردار سے سخت نفرت کرنے والوں میں سے ہوں۔
رَبِّ نَجِّنِى وَأَهْلِى مِمَّا يَعْمَلُونَ ﴿١٦٩﴾
اے میرے رب مجھے اور میرے گھر والوں کو اس کے وبال سے نجات دے جو وہ کرتے ہیں
اے پروردگار، مجھے اور میرے اہل و عیال کو ان کی بد کرداریوں سے نجات دے\"
اے میرے رب! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے کام سے بچا
اے میرے پروردگار مجھ کو اور میرے گھر والوں کو ان کے کاموں (کے وبال) سے نجات دے
اے رب! تو مجھے اور میرے گھر والوں کو اس (کام کے وبال) سے نجات عطا فرما جو یہ کر رہے ہیں،
پروردگار ! مجھے اور میرے اہل کو ان کے اعمال کی سزا سے محفوظ رکھنا
میرے پروردگار! مجھے اور میرے گھرانے کو اس (وبال) سے بچالے جو یہ کرتے ہیں
اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے گھر والوں کو اس عمل (کے وبال) سے جو یہ کرتے ہیں نجات عطا فرما۔
فَنَجَّيْنَٰهُ وَأَهْلَهُۥٓ أَجْمَعِينَ ﴿١٧٠﴾
پھر ہم نے اسے اور اس کے سارے کنبے کو بچا لیا
آخرکار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل و عیال کو بچا لیا
تو ہم نے اسے اور اس کے سب گھر والوں کو نجات بخشی
سو ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو سب کو نجات دی
پس ہم نے ان کو اور ان کے سب گھر والوں کو نجات عطا فرما دی،
تو ہم نے انہیں اور ان کے اہل سب کو نجات دے دی
پس ہم نے اسے اور اس کے متعلقین کو سب کو بچالیا
چنانچہ ہم نے انہیں اور ان کے گھر والوں کو نجات عطا کی ہے۔
إِلَّا عَجُوزًۭا فِى ٱلْغَٰبِرِينَ ﴿١٧١﴾
مگر ایک بڑھیا جو پیچھے رہ گئی تھی
بجز ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی
مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی
مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی
سوائے ایک بوڑھی عورت کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی،
سوائے اس ضعیفہ کے کہ جو پیچھے رہ گئی
بجز ایک بڑھیا کے کہ وه پیچھے ره جانے والوں میں ہوگئی
سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔
ثُمَّ دَمَّرْنَا ٱلْءَاخَرِينَ ﴿١٧٢﴾
پھر ہم نے اور سب کو ہلاک کر دیا
پھر باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کر دیا
پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کردیا،
پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا
پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کر دیا،
پھر ہم نے ان لوگوں کو تباہ و برباد کردیا
پھر ہم نے باقی اور سب کو ہلاک کر دیا
پھر ہم نے دوسرے سب لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا۔
وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًۭا ۖ فَسَآءَ مَطَرُ ٱلْمُنذَرِينَ ﴿١٧٣﴾
اور ہم نے ان پر مینہ برسایا پھر ڈرائے ہوؤں پر بُرا مینہ برسا
اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جو اُن ڈرائے جانے والوں پر نازل ہوئی
اور ہم نے ان پر ایک برساؤ برسایا تو کیا ہی برا برساؤ تھا ڈرائے گئیوں کا،
اور ان پر مینھہ برسایا۔ سو جو مینھہ ان (لوگوں) پر (برسا) جو ڈرائے گئے برا تھا
اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی سو ڈرائے ہوئے لوگوں کی بارش کتنی تباہ کن تھی،
اور ان کے اوپر زبردست پتھروں کی بارش کردی جو ڈرائے جانے والوں کے حق میں بدترین بارش ہے
اور ہم نے ان پر ایک خاص قسم کا مینہ برسایا، پس بہت ہی برا مینہ تھا جو ڈرائے گئے ہوئے لوگوں پر برسا
اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی۔ سو کیا بڑی بارش تھی جو ڈرائے ہوؤوں پر برسی۔
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٧٤﴾
البتہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں
یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے،
بےشک اس میں نشانی ہے۔ اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے
بیشک اس (واقعہ) میں بڑی نشانی ہے اور ان کے اکثر لوگ مومن نہ تھے،
اور اس میں بھی ہماری ایک نشانی ہے اور ان کی اکثریت بہرحال مومن نہیں تھی
یہ ماجرا بھی سراسر عبرت ہے۔ ان میں سے بھی اکثر مسلمان نہ تھے
بےشک اس میں ایک بڑی نشانی ہے۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ ﴿١٧٥﴾
اوربیشک تیرا رب زبردست رحم کرنے والا ہے
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
اور بیشک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے،
اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے۔
اور بیشک آپ کا رب ہی بڑا غالب رحمت والا ہے،
اور تمہارا پروردگار عزیز بھی ہے اور رحیم بھی ہے
بیشک تیرا پروردگار وہی ہے غلبے واﻻ مہربانی واﻻ
اور یقیناً آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
كَذَّبَ أَصْحَٰبُ لْـَٔيْكَةِ ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿١٧٦﴾
بن والوں نے بھی پیعمبروں کو جھٹلایا
اصحاب الاَیکہ نے رسولوں کو جھٹلایا
بن والوں نے رسولوں کو جھٹلایا
اور بن کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
باشندگانِ ایکہ (یعنی جنگل کے رہنے والوں) نے (بھی) رسولوں کو جھٹلایا،
اور جنگل کے رہنے والوں نے بھی مرسلین کو جھٹلایا
اَیکہ والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا
ایکہ والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔
إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ ﴿١٧٧﴾
جب ان سے شعیب نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں
یاد کرو جبکہ شعیبؑ نے ان سے کہا تھا \"کیا تم ڈرتے نہیں؟
جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں،
جب ان سے شعیب نے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں؟
جب ان سے شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو،
جب ان سے شعیب نے کہا کہ تم خدا سے ڈرتے کیوں نہیں ہو
جبکہ ان سے شعیب (علیہ السلام) نے کہاکہ کیا تمہیں ڈر خوف نہیں؟
جبکہ ان کے بھائی شعیب (ع) نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟
إِنِّى لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌۭ ﴿١٧٨﴾
میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں
میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں
بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانتدار رسول ہوں،
میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں
بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں،
میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں
میں تمہاری طرف امانت دار رسول ہوں
بےشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١٧٩﴾
پس الله سے ڈرو اور میرا کہا مانو
لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو،
تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو
پس تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری اختیار کرو،
لہذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو
اللہ کا خوف کھاؤ اور میری فرمانبرداری کرو
سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿١٨٠﴾
اور میں تم سے اس پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے
میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے
اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے
اور میں اس کام کا تم سے کچھ بدلہ نہیں مانگتا میرا بدلہ تو خدائے رب العالمین کے ذمے ہے
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہے،
اور میں تم سے اس کام کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہوں کہ میرا اجر تو صرف رب العالمین کے ذمہ ہے
میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا، میرا اجر تمام جہانوں کے پالنے والے کے پاس ہے
میں تم سے اس (تبلیغ رسالت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میری اجرت تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے۔
۞ أَوْفُوا۟ ٱلْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا۟ مِنَ ٱلْمُخْسِرِينَ ﴿١٨١﴾
پیمانہ پورا دو اور نقصان دینے والے نہ بنو
پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو
ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو
(دیکھو) پیمانہ پورا بھرا کرو اور نقصان نہ کیا کرو
تم پیمانہ پورا بھرا کرو اور (لوگوں کے حقوق کو) نقصان پہنچانے والے نہ بنو،
اور دیکھو ناپ تول کو ٹھیک رکھو اور لوگوں کو خسارہ دینے والے نہ بنو
ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں میں شمولیت نہ کرو
(دیکھو) پورا ناپا کرو (پیمانہ بھرا کرو) اور نقصان پہنچانے والوں میں سے نہ ہو۔
وَزِنُوا۟ بِٱلْقِسْطَاسِ ٱلْمُسْتَقِيمِ ﴿١٨٢﴾
اور صحیح ترازو سے تولا کرو
صحیح ترازو سے تولو
اور سیدھی ترازو سے تولو،
اور ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو
اور سیدھی ترازو سے تولا کرو،
اور وزن کرو تو صحیح اور سچیّ ترازو سے تولو
اور سیدھی صحیح ترازو سے توﻻ کرو
اور صحیح ترازو سے تولا کرو (ڈنڈی سیدھی رکھا کرو)۔
وَلَا تَبْخَسُوا۟ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا۟ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿١٨٣﴾
اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور ملک میں فساد مچاتے نہ پھرو
اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو
اور لوگوں کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو
اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد نہ کرتے پھرو
اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم (تول کے ساتھ) مت دیا کرو اور ملک میں (ایسی اخلاقی، مالی اور سماجی خیانتوں کے ذریعے) فساد انگیزی مت کرتے پھرو،
اور لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کیا کرو اور روئے زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو
لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو بے باکی کے ساتھ زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو
اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔ اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔
وَٱتَّقُوا۟ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلْجِبِلَّةَ ٱلْأَوَّلِينَ ﴿١٨٤﴾
اور اس سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی خلقت کو بنایا
اور اُس ذات کا خوف کرو جس نے تمہیں اور گزشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے\"
اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو،
اور اس سے ڈرو جس نے تم کو اور پہلی خلقت کو پیدا کیا
اور اس (اللہ) سے ڈرو جس نے تم کو اور پہلی امتوں کو پیدا فرمایا،
اور اس خدا سے ڈرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والی نسلوں کو پیدا کیا ہے
اس اللہ کا خوف رکھو جس نے خود تمہیں اور اگلی مخلوق کو پیدا کیا ہے
اور اس (اللہ) سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی مخلوق کو پیدا کیا ہے۔
قَالُوٓا۟ إِنَّمَآ أَنتَ مِنَ ٱلْمُسَحَّرِينَ ﴿١٨٥﴾
کہنے لگے کہ تم پر تو کسی نے جادو کر دیا
انہوں نے کہا \"تو محض ایک سحرزدہ آدمی ہے
بولے تم پر جادو ہوا ہے،
وہ کہنے لگے کہ تم جادو زدہ ہو
وہ کہنے لگے: (اے شعیب!) تم تو محض جادو زدہ لوگوں میں سے ہو،
ان لوگوں نے کہا کہ تم تو صرف جادو زدہ معلوم ہوتے ہو
انہوں نے کہا تو تو ان میں سے ہے جن پر جادو کردیا جاتا ہے
ان لوگوں نے کہا کہ تم تو بس سخت سحر زدہ آدمی ہو۔
وَمَآ أَنتَ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُنَا وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ ٱلْكَٰذِبِينَ ﴿١٨٦﴾
اورتو بھی ہم جیسا ایک آدمی ہے اور ہمارے خیال میں تو تو جھوٹا ہے
اور تو کچھ نہیں مگر ایک انسان ہم ہی جیسا، اور ہم تو تجھے بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں
تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور بیشک ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں،
اور تم اور کچھ نہیں ہم ہی جیسے آدمی ہو۔ اور ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو
اور تم فقط ہمارے جیسے بشر ہی تو ہو اور ہم تمہیں یقیناً جھوٹے لوگوں میں سے خیال کرتے ہیں،
اور تم ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو اور ہمیں تو جھوٹے بھی معلوم ہوتے ہو
اور تو تو ہم ہی جیسا ایک انسان ہے اور ہم تو تجھے جھوٹ بولنے والوں میں سے ہی سمجھتے ہیں
اور تم ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو اور ہمیں تو جھوٹے بھی معلوم ہوتے ہو۔
فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًۭا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ ﴿١٨٧﴾
سو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے اگر تو سچا ہے
اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے\"
تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو اگر تم سچے ہو
اور اگر سچے ہو تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا کر گراؤ
پس تم ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو اگر تم سچے ہو،
اور اگر واقعا سچے ہو تو ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نازل کردو
اگر تو سچے لوگوں میں سے ہے تو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرادے
اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔
قَالَ رَبِّىٓ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿١٨٨﴾
کہا میرا رب خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو
شعیبؑ نے کہا \"میرا رب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو\"
فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے کوتک (کرتوت) ہیں
شعیب نے کہا کہ جو کام تم کرتے ہو میرا پروردگار اس سے خوب واقف ہے
(شعیب علیہ السلام نے) فرمایا: میرا رب ان (کارستانیوں) کو خوب جاننے والا ہے جو تم انجام دے رہے ہو،
انہوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے
کہاکہ میرا رب خوب جاننے واﻻ ہے جو کچھ تم کر رہے ہو
آپ نے کہا میرا پروردگار بہتر جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ ٱلظُّلَّةِ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿١٨٩﴾
پھر اسے جھٹلایا پھر انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا بے شک وہ بڑے دن کا عذاب تھا
انہوں نے اسے جھٹلا دیا، آخرکار چھتری والے دن کا عذاب ان پر آ گیا، اور وہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا
تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آلیا، بیشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا
تو ان لوگوں نے ان کو جھٹلایا، پس سائبان کے عذاب نے ان کو آ پکڑا۔ بےشک وہ بڑے (سخت) دن کا عذاب تھا
سو انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلا دیا پس انہیں سائبان کے دن کے عذاب نے آپکڑا، بیشک وہ زبردست دن کا عذاب تھا،
پھر ان لوگوں نے تکذیب کی تو انہیں سایہ کے دن کے عذاب نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ یہ بڑے سخت دن کا عذاب تھا
چونکہ انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا۔ وه بڑے بھاری دن کا عذاب تھا
پس ان لوگوں نے ان (شعیب (ع)) کو جھٹلایا تو سائبان والے دن کے عذاب نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ بےشک وہ ایک بڑے سخت دن کا عذاب تھا۔
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةًۭ ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٩٠﴾
البتہ اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں
یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں
بیشک اس میں ضرور نشانی ہے، اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے،
اس میں یقیناً نشانی ہے۔ اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے
بیشک اس (واقعہ) میں بڑی نشانی ہے اور ان کے اکثر لوگ مومن نہ تھے۔،
بیشک اس میں بھی ہماری ایک نشانی ہے اور ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں تھی
یقیناً اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں کےاکثر مسلمان نہ تھے
بےشک اس میں ایک بڑی نشانی ہے۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ ﴿١٩١﴾
اور بے شک تیرا رب زبردست رحم کرنے والا ہے
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی
اور بیشک تمہارار ب ہی عزت والا مہربان ہے،
اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے
اور بیشک آپ کا رب ہی بڑا غالب رحمت والا ہے،
اور تمہارا پروردگار بہت بڑا عزت والا اور مہربان ہے
اور یقیناً تیرا پروردگار البتہ وہی ہے غلبے واﻻ مہربانی واﻻ
اور بےشک آپ کا پروردگار بڑا غالب ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
وَإِنَّهُۥ لَتَنزِيلُ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿١٩٢﴾
اور یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے
یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے
اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے،
اور یہ قرآن (خدائے) پروردگار عالم کا اُتارا ہوا ہے
اور بیشک یہ (قرآن) سارے جہانوں کے رب کا نازل کردہ ہے،
اور یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل ہونے والا ہے
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے
اور بےشک یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔
نَزَلَ بِهِ ٱلرُّوحُ ٱلْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾
اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے
اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے
اسے روح الا مین لے کر اترا
اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اُترا ہے
اسے روح الامین (جبرائیل علیہ السلام) لے کر اترا ہے،
اسے جبریل امین لے کر نازل ہوئے ہیں
اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے
جسے روح الامین (جبرائیل) نے آپ کے دل پر اتارا ہے۔
عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ ٱلْمُنذِرِينَ ﴿١٩٤﴾
تیرے دل پر تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ہو
تاکہ تو اُن لوگوں میں شامل ہو جو (خدا کی طرف سے خلق خدا کو) متنبّہ کرنے والے ہیں
تمہارے دل پر کہ تم ڈر سناؤ،
(یعنی اس نے) تمہارے دل پر (القا) کیا ہے تاکہ (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو
آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں،
یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں
آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاه کر دینے والوں میں سے ہو جائیں
تاکہ آپ (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں۔
بِلِسَانٍ عَرَبِىٍّۢ مُّبِينٍۢ ﴿١٩٥﴾
صاف عربی زبان میں
صاف صاف عربی زبان میں
روشن عربی زبان میں،
اور (القا بھی) فصیح عربی زبان میں (کیا ہے)
(اس کا نزول) فصیح عربی زبان میں (ہوا) ہے،
یہ واضح عربی زبان میں ہے
صاف عربی زبان میں ہے
یہ کھلی ہوئی عربی زبان میں ہے۔
وَإِنَّهُۥ لَفِى زُبُرِ ٱلْأَوَّلِينَ ﴿١٩٦﴾
اور البتہ اس کی خبر پہلوں کی کتابوں میں بھی ہے
اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے
اور بیشک اس کا چرچا اگلی کتابوں میں ہے
اور اس کی خبر پہلے پیغمبروں کی کتابوں میں (لکھی ہوئی) ہے
اور بیشک یہ پہلی امتوں کے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے،
اور اس کا ذکر سابقین کی کتابوں میں بھی موجود ہے
اگلے نبیوں کی کتابوں میں بھی اس قرآن کا تذکره ہے
اور یہ پہلے لوگوں کی کتابوں میں (بھی) ہے۔
أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ ءَايَةً أَن يَعْلَمَهُۥ عُلَمَٰٓؤُا۟ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ﴿١٩٧﴾
کیا ان کے لیے نشانی کافی نہیں کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں
کیا اِن (اہلِ مکہ) کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں ہے کہ اِسے علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں؟
اور کیا یہ ان کے لیے نشانی نہ تھی کہ اس نبی کو جانتے ہیں بنی اسرائیل کے عالم
کیا ان کے لئے یہ سند نہیں ہے کہ علمائے بنی اسرائیل اس (بات) کو جانتے ہیں
اور کیا ان کے لئے (صداقتِ قرآن اور صداقتِ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) یہ دلیل (کافی) نہیں ہے کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء (بھی) جانتے ہیں،
کیا یہ نشانی ان کے لئے کافی نہیں ہے کہ اسے بنی اسرائیل کے علمائ بھی جانتے ہیں
کیا انہیں یہ نشانی کافی نہیں کہ حقانیت قرآن کو تو بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں
کیا یہ نشانی اس (اہل مکہ) کیلئے کافی نہیں ہے کہ اس (قرآن) کو بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں۔
وَلَوْ نَزَّلْنَٰهُ عَلَىٰ بَعْضِ ٱلْأَعْجَمِينَ ﴿١٩٨﴾
اور اگر ہم اسے کسی عجمی پر نازل کرتے
(لیکن اِن کی ہٹ دھرمی کا حال یہ ہے کہ) اگر اہم اسے کسی عجمی پر بھی نازل کر دیتے
اور اگر ہم اسے کسی غیر عربی شخص پر اتارتے،
اور اگر ہم اس کو کسی غیر اہل زبان پر اُتارتے
اور اگر ہم اسے غیر عربی لوگوں (یعنی عجمیوں) میں سے کسی پر نازل کرتے،
اور اگر ہم اسے کسی عجمی آدمی پر نازل کردیتے
اور اگر ہم اسے کسی عجمی شخص پر نازل فرماتے
اور اگر ہم اسے کسی عجمی (غیر عرب) پر نازل کرتے۔
فَقَرَأَهُۥ عَلَيْهِم مَّا كَانُوا۟ بِهِۦ مُؤْمِنِينَ ﴿١٩٩﴾
پھر وہ اسے ان کے سامنے پڑھتا تو بھی ایمان نہ لاتے
اور یہ (فصیح عربی کلام) وہ ان کو پڑھ کر سناتا تب بھی یہ مان کر نہ دیتے
کہ وہ انہیں پڑھ کر سناتا جب بھی اس پر ایمان نہ لاتے
اور وہ اسے ان (لوگوں کو) پڑھ کر سناتا تو یہ اسے (کبھی) نہ مانتے
سو وہ اس کو ان لوگوں پر پڑھتا تو (بھی) یہ لوگ اس پر ایمان لانے والے نہ ہوتے،
اور وہ انہیں پڑھ کر سناتا تو یہ کبھی ایمان لانے والے نہیں تھے
پس وه ان کے سامنے اس کی تلاوت کرتا تو یہ اسے باور کرنے والے نہ ہوتے
پھر وہ اسے پڑھ کر ان کو سناتا تب بھی وہ اس پر ایمان نہ لاتے۔
كَذَٰلِكَ سَلَكْنَٰهُ فِى قُلُوبِ ٱلْمُجْرِمِينَ ﴿٢٠٠﴾
اسی طرح ہم نے اس انکار کو گناہگاروں کے دل میں ڈال رکھا ہے
اِسی طرح ہم نے اس (ذکر) کو مجرموں کے دلوں میں گزارا ہے
ہم نے یونہی جھٹلانا پیرا دیا ہے مجرموں کے دلوں میں
اسی طرح ہم نے انکار کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیا
اس طرح ہم نے اس (کے انکار) کو مجرموں کے دلوں میں پختگی سے داخل کر دیا ہے،
اور اس طرح ہم نے اس انکار کو مجرمین کے دلوں تک جانے کا رستہ دے دیا ہے
اسی طرح ہم نے گناہگاروں کے دلوں میں اس انکار کو داخل کر دیا ہے
اسی طرح ہم نے اس (انکار) کو مجرموں کے دلوں میں داخل کر دیا ہے۔
لَا يُؤْمِنُونَ بِهِۦ حَتَّىٰ يَرَوُا۟ ٱلْعَذَابَ ٱلْأَلِيمَ ﴿٢٠١﴾
وہ دردناک عذاب دیکھے بغیر اس پر ایمان نہیں لائیں گے
وہ اس پر ایمان نہیں لاتے جب تک عذاب الیم نہ دیکھ لیں
وہ اس پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ دیکھیں دردناک عذاب،
وہ جب تک درد دینے والا عذاب نہ دیکھ لیں گے، اس کو نہیں مانیں گے
وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھ لیں،
کہ یہ ایمن لانے والے نہیں ہیں جب تک کہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں
وه جب تک دردناک عذابوں کو ملاحظہ نہ کرلیں ایمان نہ ﻻئیں گے
یہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک دردناک عذاب کو نہیں دیکھ لیں گے۔
فَيَأْتِيَهُم بَغْتَةًۭ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٢٠٢﴾
پھر وہ ان پر اچاناک آئے گا اور انہیں خبر بھی نہ ہوگی
پھر جب وہ بے خبری میں ان پر آ پڑتا ہے
تو وہ اچانک ان پر آجائے گا اور انہیں خبر نہ ہوگی،
وہ ان پر ناگہاں آ واقع ہوگا اور انہیں خبر بھی نہ ہوگی
پس وہ (عذاب) انہیں اچانک آپہنچے گا اور انہیں شعور (بھی) نہ ہوگا،
کہ یہ عذاب ان پر اچانک نازل ہوجائے اور انہیں شعور تک نہ ہو
پس وه عذاب ان کو ناگہاں آجائے گا انہیں اس کا شعور بھی نہ ہو گا
چنانچہ وہ (عذاب) اس طرح اچانک ان پر آجائے گا کہ انہیں احساس بھی نہ ہوگا۔
فَيَقُولُوا۟ هَلْ نَحْنُ مُنظَرُونَ ﴿٢٠٣﴾
پھر کہیں گے کیا ہمیں مہلت مل سکتی ہے
اُس وقت وہ کہتے ہیں \"کہ “کیا اب ہمیں کچھ مُہلت مِل سکتی ہے؟\"
تو کہیں گے کیا ہمیں کچھ مہلت ملے گی
اس وقت کہیں گے کیا ہمیں ملہت ملے گی؟
تب وہ کہیں گے: کیا ہمیں مہلت دی جائے گی،
اس وقت یہ کہیں گے کہ کیا ہمیں مہلت دی جاسکتی ہے
اس وقت کہیں گے کہ کیا ہمیں کچھ مہلت دی جائے گی؟
تب وہ کہیں گے کیا ہمیں مہلت مل سکتی ہے؟
أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ ﴿٢٠٤﴾
کیا ہمارے عذاب کو جلد چاہتے ہیں
تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں؟
تو کیا ہمارے عذاب کی جلدی کرتے ہیں،
تو کیا یہ ہمارے عذاب کو جلدی طلب کر رہے ہیں
کیا یہ ہمارے عذاب میں جلدی کے طلب گار ہیں،
تو کیا لوگ ہمارے عذاب کی جلدی کررہے ہیں
پس کیا یہ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں؟
کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کیلئے جلدی کر رہے ہیں۔
أَفَرَءَيْتَ إِن مَّتَّعْنَٰهُمْ سِنِينَ ﴿٢٠٥﴾
بھلا دیکھ اگر ہم انہیں چند سال فائدہ اٹھانے دیں
تم نے کچھ غور کیا، اگر ہم انہیں برسوں تک عیش کرنے کی مُہلت بھی دے دیں
بھلا دیکھو تو اگر کچھ برس ہم انہیں برتنے دیں
بھلا دیکھو تو اگر ہم ان کو برسوں فائدے دیتے رہے
بھلا بتائیے اگر ہم انہیں برسوں فائدہ پہنچاتے رہیں،
کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ہم انہیں کئی سال کی مہلت دے دیں
اچھا یہ بھی بتاؤ کہ اگر ہم نے انہیں کئی سال بھی فائده اٹھانے دیا
کیا تم دیکھتے ہو کہ اگر ہم انہیں کئی سال تک فائدہ اٹھانے کا موقع دیں۔
ثُمَّ جَآءَهُم مَّا كَانُوا۟ يُوعَدُونَ ﴿٢٠٦﴾
پھر ان کے پاس وہ عذاب آئے جس کا وعدہ دیے جاتے ہیں
اور پھر وہی چیز ان پر آ جائے جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے
پھر آئے ان پر جس کا وہ وعدہ دیے جاتے ہیں
پھر ان پر وہ (عذاب) آ واقع ہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے
پھر ان کے پاس وہ (عذاب) آپہنچے جس کا ان سے وعدہ کیا جار ہا ہے،
اور اس کے بعد وہ عذاب آئے جس کا وعدہ کیا گیا ہے
پھر انہیں وه عذاب آ لگا جن سے یہ دھمکائے جاتے تھے
پھر ان پر وہ عذاب آجائے جس سے انہیں ڈرایا جاتا تھا۔
مَآ أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا۟ يُمَتَّعُونَ ﴿٢٠٧﴾
تو جو انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے کیا ان کے کچھ کام بھی آئے گا
تو وہ سامانِ زیست جو ان کو ملا ہوا ہے اِن کے کس کام آئے گا؟
تو کیا کام آئے گا ان کے وہ جو برتتے تھے
تو جو فائدے یہ اٹھاتے رہے ان کے کس کام آئیں گے
(تو) وہ چیزیں (ان سے عذاب کو دفع کرنے میں) کیا کام آئیں گی جن سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے تھے،
تو بھی جو ان کو آرام دیا گیا تھا وہ ان کے کام نہ آئے گا
تو جو کچھ بھی یہ برتتے رہے اس میں سے کچھ بھی فائده نہ پہنچا سکے گا
تو وہ سب ساز و سامان جس سے وہ فائدہ اٹھاتے رہے تھے انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔
وَمَآ أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ إِلَّا لَهَا مُنذِرُونَ ﴿٢٠٨﴾
اور ہم نے ایسی کوئی بستی ہلاک نہیں کی جس کے لیے ڈرانے والے نہ آئے ہوں
(دیکھو) ہم نے کبھی کسی بستی کو اِس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ اُس کے لیے خبردار کرنے والے حق نصیحت ادا کرنے کو موجود تھے
اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہ کی جسے ڈر سنانے والے نہ ہوں،
اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہیں کی مگر اس کے لئے نصیحت کرنے والے (پہلے بھیج دیتے) تھے
اور ہم نے سوائے ان (بستیوں) کے جن کے لئے ڈرانے والے (آچکے) تھے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا،
اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لئے ڈرانے والے بھیج دیئے تھے
ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا ہے مگر اسی حال میں کہ اس کے لیے ڈرانے والے تھے
اور ہم نے کبھی کسی بستی کو اس وقت تک ہلاک نہیں کیا جب تک اس کے پاس عذاب الٰہی سے ڈرانے والے نہ آچکے ہوں۔
ذِكْرَىٰ وَمَا كُنَّا ظَٰلِمِينَ ﴿٢٠٩﴾
نصیحت دینے کے لیے اور ہم ظالم نہیں تھے
اور ہم ظالم نہ تھے
نصیحت کے لیے، اور ہم ظلم نہیں کرتے
نصیحت کردیں اور ہم ظالم نہیں ہیں
(اور یہ بھی) نصیحت کے لئے اور ہم ظالم نہ تھے،
یہ ایک یاد دہانی تھی اور ہم ہرگز ظلم کرنے والے نہیں ہیں
نصیحت کے طور پر اور ہم ﻇلم کرنے والے نہیں ہیں
نصیحت اور یاد دہانی کیلئے! اور ہم کبھی ظالم نہیں تھے۔
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ ٱلشَّيَٰطِينُ ﴿٢١٠﴾
اور قرآن کو شیطان لے کر نہیں نازل ہوئے
اِس (کتاب مبین) کو شیاطین لے کر نہیں اترے ہیں
او راس قرآن کو لے کر شیطان نہ اترے
اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نازل نہیں ہوئے
اور شیطان اس (قرآن) کو لے کرنہیں اترے،
اور اس قرآن کو شیاطین لے کر حاضر نہیں ہوئے ہیں
اس قرآن کو شیطان نہیں ﻻئے
اور اس (قرآن) کو شیطانوں نے نہیں اتارا۔
وَمَا يَنۢبَغِى لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ ﴿٢١١﴾
اور نہ یہ ان کا کام ہے اور نہ وہ اسے کر سکتے ہیں
نہ یہ کام ان کو سجتا ہے، اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں
اور وہ اس قابل نہیں اور نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں
یہ کام نہ تو ان کو سزاوار ہے اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں
نہ (یہ) ان کے لئے سزاوار ہے اور نہ وہ (اس کی) طاقت رکھتے ہیں،
یہ بات ان کے لئے مناسب بھی نہیں ہے اور ان کے بس کی بھی نہیں ہے
نہ وه اس کے قابل ہیں، نہ انہیں اس کی طاقت ہے
اور نہ ہی یہ ان کیلئے مناسب ہے اور نہ ہی وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں۔
إِنَّهُمْ عَنِ ٱلسَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ ﴿٢١٢﴾
وہ تو سننے کی جگہ سے بھی دور کر دیے گئے ہیں
وہ تو اس کی سماعت تک سے دُور رکھے گئے ہیں
وہ تو سننے کی جگہ سے دور کردیے گئے ہیں
وہ (آسمانی باتوں) کے سننے (کے مقامات) سے الگ کر دیئے گئے ہیں
بیشک وہ (اس کلام کے) سننے سے روک دیئے گئے ہیں،
وہ تو وحی کے سننے سے بھی محروم ہیں
بلکہ وه تو سننے سے بھی محروم کردیے گئے ہیں
وہ تو اس (وحی) کے سننے سے بھی معزول کئے جا چکے ہیں۔
فَلَا تَدْعُ مَعَ ٱللَّهِ إِلَٰهًا ءَاخَرَ فَتَكُونَ مِنَ ٱلْمُعَذَّبِينَ ﴿٢١٣﴾
سو الله کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار ورنہ تو بھی عذاب میں مبتلا ہو جائے گا
پس اے محمدؐ، اللہ کے ساتھ کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکارو، ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامل ہو جاؤ گے
تو اللہ کے سوا دوسرا خدا نہ پوج کہ تجھ پر عذاب ہوگا،
تو خدا کے سوا کسی اور معبود کو مت پکارنا، ورنہ تم کو عذاب دیا جائے گا
پس (اے بندے!) تو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پوجا کر ورنہ تو عذاب یافتہ لوگوں میں سے ہو جائے گا،
لہذا تم اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو مت پکارو کہ مبتلائے عذاب کردیئے جاؤ
پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی سزا پانے والوں میں سے ہوجائے
پس آپ اللہ کے ساتھ کسی اور الہ کو نہ پکاریں ورنہ آپ بھی سزا پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ ﴿٢١٤﴾
اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈرا
اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ
اور اے محبوب! اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ
اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو
اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرائیے،
اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے
اپنے قریبی رشتہ والوں کو ڈرا دے
اور (اے رسول) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (عذاب سے) ڈراؤ۔
وَٱخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ ٱتَّبَعَكَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴿٢١٥﴾
اور جو ایمان لانے والے تیرے ساتھ ہیں ان کے لیے اپنا بازو جھکا ئے رکھ
اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ
اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ اپنے پیرو مسلمانوں کے لیے
اور جو مومن تمہارے پیرو ہوگئے ہیں ان سے متواضع پیش آؤ
اور آپ اپنا بازوئے (رحمت و شفقت) ان مومنوں کے لئے بچھا دیجئے جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لی ہے،
اور جو صاحبانِ ایمان آپ کا اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکا دیجئے
اس کے ساتھ فروتنی سے پیش آ، جو بھی ایمان ﻻنے واﻻ ہو کر تیری تابعداری کرے
اور جو اہلِ ایمان آپ کی پیروی کریں ان کیلئے اپنا بازو جھکاؤ (ان کے ساتھ تواضع و فروتنی سے پیش آؤ)۔
فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّى بَرِىٓءٌۭ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٢١٦﴾
پھر اگر تیری نافرمانی کریں تو کہہ دے میں تمہارے کام سے بیزار ہوں
لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو ان سے کہو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذ مہ ہوں
تو اگر وہ تمہارا حکم نہ مانیں تو فرمادو میں تمہارے کاموں سے بے علاقہ ہوں،
پھر اگر لوگ تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں تمہارے اعمال سے بےتعلق ہوں
پھر اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو آپ فرما دیجئے کہ میں ان اعمالِ (بد) سے بیزار ہوں جو تم انجام دے رہے ہو،
پھر یہ لوگ آپ کی نافرمانی کریں تو کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں کے اعمال سے بیزار ہوں
اگر یہ لوگ تیری نافرمانی کریں تو تو اعلان کردے کہ میں ان کاموں سے بیزار ہوں جو تم کر رہے ہو
اور اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں اس سے بیزار ہوں جو کچھ تم کرتے ہو۔
وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱلْعَزِيزِ ٱلرَّحِيمِ ﴿٢١٧﴾
اور زبردست رحم والے پر بھروسہ کر
اور اُس زبردست اور رحیم پر توکل کرو
اور اس پر بھروسہ کرو جو عزت والا مہر والا ہے
اور (خدائے) غالب اور مہربان پر بھروسا رکھو
اور بڑے غالب مہربان (رب) پر بھروسہ رکھیے،
اور خدائے عزیز و مہربان پر بھروسہ کیجئے
اپنا پورا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھ
اور اس (پروردگار) پر بھروسہ کیجئے جو غالب ہے اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔
ٱلَّذِى يَرَىٰكَ حِينَ تَقُومُ ﴿٢١٨﴾
جو تجھے دیکھتا ہے جب تو اٹھتا ہے
جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو
جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو
جو تم کو جب تم (تہجد) کے وقت اُٹھتے ہو دیکھتا ہے
جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لئے) قیام کرتے ہیں،
جو آپ کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ قیام کرتے ہیں
جو تجھے دیکھتا رہتا ہے جبکہ تو کھڑا ہوتا ہے
جو آپ کو اس وقت دیکھتا ہے جب آپ کھڑے ہوتے ہیں۔
وَتَقَلُّبَكَ فِى ٱلسَّٰجِدِينَ ﴿٢١٩﴾
اور نمازیوں میں تیری نشست و برخاست دیکھتا ہے
اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے
اور نمازیوں میں تمہارے دورے کو
اور نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی
اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے،
اور پھر سجدہ گزاروں کے درمیان آپ کا اٹھنا بیٹھنا بھی دیکھتا ہے
اور سجده کرنے والوں کے درمیان تیرا گھومنا پھرنا بھی
اور جب آپ سجدہ کرنے والوں میں نشست و برخاست کرتے ہیں تب بھی دیکھتا ہے۔
إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ ﴿٢٢٠﴾
بیشک وہ سننے والا جاننے والا ہے
وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
بیشک وہی سنتا جانتا ہے
بےشک وہ سننے اور جاننے والا ہے
بیشک وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے،
وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے
وه بڑا ہی سننے واﻻ اور خوب ہی جاننے واﻻ ہے
بےشک وہ بڑا سننے والا، بڑا علم والا ہے۔
هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ ٱلشَّيَٰطِينُ ﴿٢٢١﴾
کیا میں تمہیں بتاؤں شیطان کس پر اترتے ہیں
لوگو، کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اُترا کرتے ہیں؟
کیا میں تمہیں بتادوں کہ کس پر اترتے ہیں شیطان،
(اچھا) میں تمیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اُترتے ہیں
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں،
کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں۔
تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍۢ ﴿٢٢٢﴾
ہر جھوٹے گناہگار پر اترتے ہیں
وہ ہر جعل ساز بدکار پر اُترا کرتے ہیں
اترتے ہیں بڑے بہتان والے گناہگار پر
ہر جھوٹے گنہگار پر اُترتے ہیں
وہ ہر جھوٹے (بہتان طراز) گناہگار پر اترا کرتے ہیں،
وہ ہر جھوٹے اور بدکردار پر نازل ہوتے ہیں
وه ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں
وہ ہر جھوٹ گھڑنے والے گنہگار پر اترتے ہیں۔
يُلْقُونَ ٱلسَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَٰذِبُونَ ﴿٢٢٣﴾
وہ سنی ہوئی باتیں پہنچاتے ہیں اوراکثر ان میں سے جھوٹے ہوتے ہیں
سُنی سُنائی باتیں کانوں میں پھونکتے ہیں، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں
شیطان اپنی سنی ہوئی ان پر ڈالتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں
جو سنی ہوئی بات (اس کے کام میں) لا ڈالتے ہیں اور وہ اکثر جھوٹے ہیں
جو سنی سنائی باتیں (ان کے کانوں میں) ڈال دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں،
جو فرشتوں کی باتوں پر کان لگائے رہتے ہیں اور ان میں کے اکثر لوگ جھوٹے ہیں
(اچٹتی) ہوئی سنی سنائی پہنچا دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں
جو ان (شیاطین) کی طرف کان لگائے رہتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔
وَٱلشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ ٱلْغَاوُۥنَ ﴿٢٢٤﴾
اور شاعروں کی پیروی تو گمراہ ہی کرتے ہیں
رہے شعراء، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں
اور شاعروں کی پیرو ی گمراہ کرتے ہیں
اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں
اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں،
اور شعرائ کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جو گمراہ ہوتے ہیں
شاعروں کی پیروی وه کرتے ہیں جو بہکے ہوئے ہوں
اور جو شعراء ہیں ان کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِى كُلِّ وَادٍۢ يَهِيمُونَ ﴿٢٢٥﴾
کیا تم نےنہیں دیکھاکہ وہ ہر میدان میں بھٹکتے پھرتے ہیں
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں
کیا تم نے نہ دیکھا کہ وہ ہر نالے میں سرگرداں پھرتے ہیں
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ (شعراء) ہر وادئ (خیال) میں (یونہی) سرگرداں پھرتے رہتے ہیں (انہیں حق میں سچی دلچسپی اور سنجیدگی نہیں ہوتی بلکہ فقط لفظی و فکری جولانیوں میں مست اور خوش رہتے ہیں)،
کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ ہر وادئی خیال میں چکر لگاتے رہتے ہیں
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں
کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرا کرتے ہیں۔
وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ ﴿٢٢٦﴾
اور جو وہ کہتے ہیں کرتے نہیں
اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں
اور وہ کہتے ہیں جو نہیں کرتے
اور کہتے وہ ہیں جو کرتے نہیں
اور یہ کہ وہ (ایسی باتیں) کہتے ہیں جنہیں (خود) کرتے نہیں ہیں،
اور وہ کچھ کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں
اور وه کہتے ہیں جو کرتے نہیں
اور وہ کہتے ہیں ایسی باتیں جو کرتے نہیں ہیں۔
إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَذَكَرُوا۟ ٱللَّهَ كَثِيرًۭا وَٱنتَصَرُوا۟ مِنۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا۟ ۗ وَسَيَعْلَمُ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓا۟ أَىَّ مُنقَلَبٍۢ يَنقَلِبُونَ ﴿٢٢٧﴾
مگروہ جو ایمان لائے اور نیک کام کیے اور الله کوبہت یاد کیا اور مظلوم ہونے کے بعد بدلہ لیا اور ظالموں کو ابھی معلوم ہو جائے گا کہ کس کروٹ پر پڑتے ہیں
بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا، اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں
مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور بکثرت اللہ کی یاد کی اور بدلہ لیا بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا اور اب جاننا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے
مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے اور خدا کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں
سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدح خواں بن گئے) اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعے اسلام اور مظلوموں کا دفاع کیا بلکہ ان کاجوش بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)، اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا عنقریب جان لیں گے کہ وہ (مرنے کے بعد) کونسی پلٹنے کی جگہ پلٹ کر جاتے ہیں،
علاوہ ان شعرائ کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے اور بہت سارا ذکر خدا کیا اور ظلم سہنے کے بعد اس کا انتقام لیا اور عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے
سوائے ان کے جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا، جنہوں نے ﻇلم کیا ہے وه بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں
سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا اور بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا انہوں نے بدلہ لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس جگہ لوٹ کر جا رہے ہیں؟