Setting
Surah The Star [An-Najm] in Urdu
وَٱلنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ﴿١﴾
ستارے کی قسم ہے جب وہ ڈوبنے لگے
قسم ہے تارے کی جبکہ وہ غروب ہوا
اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم! جب یہ معراج سے اترے
تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے،
قسم ہے ستارہ کی جب وہ ٹوٹا
قسم ہے ستارے کی جب وه گرے
قَسم ہے ستارے کی جبکہ وہ ڈوبنے لگے۔
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ﴿٢﴾
تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اورنہ بہکا ہے
تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے
تمہارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے
کہ تمہارے رفیق (محمدﷺ) نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں
تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے،
تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا
کہ تمہارے ساتھی نے نہ راه گم کی ہے نہ وه ٹیڑھی راه پر ہے
کہ تمہارا یہ ساتھی (پیغمبرِ اسلام(ص)) نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔
وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ ﴿٣﴾
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے
وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا
اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے،
اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے،
اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے
اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں
اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔
إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌۭ يُوحَىٰ ﴿٤﴾
یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے
یہ تو ایک وحی ہے جو اُس پر نازل کی جاتی ہے
وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے
یہ (قرآن) تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے
اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے،
اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے
وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے
وہ تو بس وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔
عَلَّمَهُۥ شَدِيدُ ٱلْقُوَىٰ ﴿٥﴾
بڑے طاقتور (جبرائیل) نے اسے سکھایا ہے
اُسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے
انہیں سکھایا سخت قوتوں والے طاقتور نے
ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا
ان کو بڑی قوّتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازا،
اسے نہایت طاقت والے نے تعلیم دی ہے
اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے
ان کو ایک زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔
ذُو مِرَّةٍۢ فَٱسْتَوَىٰ ﴿٦﴾
جو بڑا زور آور ہے پس وہ قائم ہوا (اصلی صورت میں)
جو بڑا صاحب حکمت ہے
پھر اس جلوہ نے قصد فرمایا
(یعنی جبرائیل) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے
جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوۂ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا،
وہ صاحبِ حسن و جمال جو سیدھا کھڑا ہوا
جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا
جو بڑا صاحبِ قدرت (یا بڑا دانا و حکیم) ہے پھر (وہ اپنی اصلی شکل میں) کھڑا ہوا۔
وَهُوَ بِٱلْأُفُقِ ٱلْأَعْلَىٰ ﴿٧﴾
اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے پر تھا
وہ سامنے آ کھڑا ہوا جبکہ وہ بالائی افق پر تھا
اور وہ آسمان بریں کے سب سے بلند کنارہ پر تھا
اور وہ (آسمان کے) اونچے کنارے میں تھے
اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)،
جب کہ وہ بلند ترین افق پر تھا
اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا
جبکہ وہ آسمان کے بلند ترین کنارہ پر تھا۔
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾
پھر نزدیک ہوا پھر اور بھی قریب ہوا
پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہو گیا
پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا پھر خوب اتر آیا
پھر قریب ہوئے اوراَور آگے بڑھے
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا٭، ٭ یہ معنی امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے الجامع الصحیح میں روایت کیا ہے، مزید حضرت عبد اﷲ بن عباس، امام حسن بصری، امام جعفر الصادق، محمد بن کعب القرظی التابعی، ضحّاک رضی اللہ عنہم اور دیگر کئی ائمہِ تفسیر کا قول بھی یہی ہے۔
پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا
پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا
پھر وہ قریب ہوا اور زیادہ قریب ہوا۔
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿٩﴾
پھر فاصلہ دو کمان کے برابر تھا یا اس سے بھی کم
یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا
تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم
تو دو کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم
پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)،
یہاں تک کہ دو کمان یا اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا
پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم
یہاں تک دو کمان کے برابریا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
فَأَوْحَىٰٓ إِلَىٰ عَبْدِهِۦ مَآ أَوْحَىٰ ﴿١٠﴾
پھر اس نے الله کےبندے کے دل میں القا کیا جو کچھ القا کیا دل نے
تب اُس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اُسے پہنچانی تھی
اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی
پھر خدا نے اپنے بندے کی طرف جو بھیجا سو بھیجا
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی،
پھر خدا نے اپنے بندہ کی طرف جس راز کی بات چاہی وحی کردی
پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی
پس اس (اللہ) نے اپنے بندہ (خاص) کی طرف وحی کی جو وحی کی۔
مَا كَذَبَ ٱلْفُؤَادُ مَا رَأَىٰٓ ﴿١١﴾
جھوٹ نہیں کہا تھا جو دیکھا تھا
نظر نے جو کچھ دیکھا، دل نے اُس میں جھوٹ نہ ملایا
دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا
جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ مانا
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا،
دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا
دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا
(رسول(ص) کے) دل نے جھوٹ نہیں کہا (جھٹلایا نہیں) جو کچھ (مصطفٰی(ص) کی) آنکھ نے دیکھا۔
أَفَتُمَٰرُونَهُۥ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ﴿١٢﴾
پھر جو کچھ اس نے دیکھا تم اس میں جھگڑتے ہو
اب کیا تم اُس چیز پر اُس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے؟
تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑ تے ہو
کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو؟
کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا،
کیا تم اس سے اس بات کے بارے میں جھگڑا کررہے ہو جو وہ دیکھ رہا ہے
کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں
کیا تم لوگ آپ(ص) سے اس بات پر جھگڑتے ہو جو کچھ انہوں نے دیکھا۔
وَلَقَدْ رَءَاهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿١٣﴾
اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے
اور ایک مرتبہ پھر اُس نے
اور انہوں نے تو وہ جلوہ دوبار دیکھا
اور انہوں نے اس کو ایک بار بھی دیکھا ہے
اور بیشک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)٭، ٭ یہ معنی ابن عباس، ابوذر غفاری، عکرمہ التابعی، حسن البصری التابعی، محمد بن کعب القرظی التابعی، ابوالعالیہ الریاحی التابعی، عطا بن ابی رباح التابعی، کعب الاحبار التابعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ عنہم اور دیگر ائمہ کے اَقوال پر ہے۔
اور اس نے تو اسے ایک بار اور بھی دیکھا ہے
اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا
اور آپ(ص) نے ایک بار اور بھی۔
عِندَ سِدْرَةِ ٱلْمُنتَهَىٰ ﴿١٤﴾
سدرة المنتہیٰ کے پاس
سدرۃالمنتہیٰ کے پاس اُس کو دیکھا
سدرة المنتہیٰ کے پاس
پرلی حد کی بیری کے پاس
سِدرۃ المنتہٰی کے قریب،
سدرِالمنتہیٰ کے نزدیک
سدرةالمنتہیٰ کے پاس
اترتے ہوئے سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا۔
عِندَهَا جَنَّةُ ٱلْمَأْوَىٰٓ ﴿١٥﴾
جس کے پاس جنت الماویٰ ہے
جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے
اس کے پاس جنت الماویٰ ہے،
اسی کے پاس رہنے کی جنت ہے
اسی کے پاس جنت الْمَاْوٰى ہے،
جس کے پاس جنت الماویٰ بھی ہے
اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے
جہاں جنت الماوی (آرام سے رہنے کا بہشت) ہے۔
إِذْ يَغْشَى ٱلسِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ﴿١٦﴾
جب کہ اس سدرة پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا (یعنی نور)
اُس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا
جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا
جب کہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا
جب نورِ حق کی تجلیّات سِدرَۃ (المنتہٰی) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیں٭، ٭ یہ معنی بھی امام حسن بصری رضی اللہ عنہ و دیگر ائمہ کے اقوال پر ہے۔
جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا
جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی
جب کہ سدرہ پر چھا رہا تھا (وہ نور) جو چھا رہا تھا۔
مَا زَاغَ ٱلْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ﴿١٧﴾
نہ تو نظر بہکی نہ حد سے بڑھی
نگاہ نہ چوندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی
آنکھ نہ کسی طرف پھر نہ حد سے بڑھی
ان کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ (حد سے) آگے بڑھی
اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)،
اس وقت اس کی آنکھ نہ بہکی اور نہ حد سے آگے بڑھی
نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی
نہ آنکھ چندھیائی اور نہ حدسے بڑھی۔
لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ ءَايَٰتِ رَبِّهِ ٱلْكُبْرَىٰٓ ﴿١٨﴾
بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں
اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں
بیشک اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں
انہوں نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کی کتنی ہی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں
بیشک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں،
اس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیان دیکھی ہیں
یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں
یقیناً آپ(ص) نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔
أَفَرَءَيْتُمُ ٱللَّٰتَ وَٱلْعُزَّىٰ ﴿١٩﴾
پھر کیا تم نے لات اور عزیٰ کو بھی دیکھاہے
اب ذرا بتاؤ، تم نے کبھی اِس لات، اور اِس عزیٰ
تو کیا تم نے دیکھ ا لات اور عزیٰ
بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا
کیا تم نے لات اور عزٰی (دیویوں) پر غور کیا ہے،
کیا تم لوگوں نے لات اور عذٰی کو دیکھا ہے
کیا تم نے ﻻت اور عزیٰ کو دیکھا
کیا تم نے کبھی لات و عزیٰ۔
وَمَنَوٰةَ ٱلثَّالِثَةَ ٱلْأُخْرَىٰٓ ﴿٢٠﴾
اور تیسرے منات گھٹیا کو (دیکھا ہے)
اور تیسری ایک اور دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور بھی کیا؟
اور اس تیسری منات کو
اور تیسرے منات کو (کہ یہ بت کہیں خدا ہوسکتے ہیں)
اور اُس تیسری ایک اور (دیوی) منات کو بھی (غور سے دیکھا ہے؟ تم نے انہیں اﷲ کی بیٹیاں بنا رکھا ہے؟)،
اور منات جو ان کا تیسرا ہے اسے بھی دیکھا ہے
اور منات تیسرے پچھلے کو
اور تیسرے منات کو کبھی دیکھا ہے (ان کی اصلیت میں غور کیا ہے؟)
أَلَكُمُ ٱلذَّكَرُ وَلَهُ ٱلْأُنثَىٰ ﴿٢١﴾
کیا تمہارے لیے بیٹے اور اس کے لیے بیٹیاں ہیں
کیا بیٹے تمہارے لیے ہیں اور بیٹیاں خدا کے لیے؟
کیا تم کو بیٹا اور اس کو بیٹی
(مشرکو!) کیا تمہارے لئے تو بیٹے اور خدا کے لئے بیٹیاں
(اے مشرکو!) کیا تمہارے لئے بیٹے ہیں اور اس (اﷲ) کے لئے بیٹیاں ہیں،
تو کیا تمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس کے لئے لڑکیاں ہیں
کیا تمہارے لیے لڑکے اور اللہ کے لیے لڑکیاں ہیں؟
کیا تمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس(اللہ) کے لئے لڑکیاں؟
تِلْكَ إِذًۭا قِسْمَةٌۭ ضِيزَىٰٓ ﴿٢٢﴾
تب تو یہ بہت ہی بری تقسیم ہے
یہ تو بڑی دھاندلی کی تقسیم ہوئی!
جب تو یہ سخت بھونڈی تقسیم ہے
یہ تقسیم تو بہت بےانصافی کی ہے
(اگر تمہارا تصور درست ہے) تب تو یہ تقسیم بڑی ناانصافی ہے،
یہ انتہائی ناانصافی کی تقسیم ہے
یہ تو اب بڑی بےانصافی کی تقسیم ہے
یہ تقسیم تو بڑی ظالمانہ ہے۔
إِنْ هِىَ إِلَّآ أَسْمَآءٌۭ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَمَا تَهْوَى ٱلْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَآءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ ٱلْهُدَىٰٓ ﴿٢٣﴾
یہ تو صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیے ہیں جن پر خدا نے کوئی سندبھی نہیں اتاری وہ محض وہم اور اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کے ہاں سے ہدایت آ چکی ہے
دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے اِن کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں حالانکہ اُن کے رب کی طرف سے اُن کے پاس ہدایت آ چکی ہے
وہ تو نہیں مگر کچھ نام کہ تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کی کوئی سند نہیں اتاری، وہ تو نرے گمان اور نفس کی خواہشوں کے پیچھے ہیں حالانکہ بیشک ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آئی
وہ تو صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لئے ہیں۔ خدا نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ یہ لوگ محض ظن (فاسد) اور خواہشات نفس کے پیچھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے
مگر (حقیقت یہ ہے کہ) وہ (بت) محض نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اﷲ نے ان کی نسبت کوئی دلیل نہیں اتاری، وہ لوگ محض وہم و گمان کی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں حالانکہ اُن کے پاس اُن کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے،
یہ سب وہ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے طے کرلئے ہیں خدا نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے - درحقیقت یہ لوگ صرف اپنے گمانوں کا اتباع کررہے ہیں اور جو کچھ ان کا دل چاہتا ہے اور یقینا ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے
دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ان کے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ یہ لوگ تو صرف اٹکل کے اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اور یقیناً ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آ چکی ہے
یہ نہیں ہیں مگر صرف چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادانے رکھ لئے ہیں جس پر اللہ نے کوئی دلیل (سند) نہیں نازل کی یہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشاتِ نفس کی حالانکہ ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے ہدایت و رہنمائی آچکی۔
أَمْ لِلْإِنسَٰنِ مَا تَمَنَّىٰ ﴿٢٤﴾
پھر کیا انسان کو وہی مل جاتا ہے جس کی تمنا کرتا ہے
کیا انسان جو کچھ چاہے اس کے لیے وحی حق ہے
کیا آدمی کو مل جائے گا جو کچھ وہ خیال باندھے
کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے
کیا انسان کے لئے وہ (سب کچھ) میسّر ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے،
کیا انسان کو وہ سب مل سکتا ہے جس کی آرزو کرے
کیا ہر شخص جو آرزو کرے اسے میسر ہے؟
کیا انسان کو وہ چیز مل سکتی ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے؟
فَلِلَّهِ ٱلْءَاخِرَةُ وَٱلْأُولَىٰ ﴿٢٥﴾
پس آخرت اور دنیا الله ہی کے اختیار میں ہے
دنیا اور آخرت کا مالک تو اللہ ہی ہے
تو آخرت اور دنیا سب کا مالک اللہ ہی ہے
آخرت اور دنیا تو الله ہی کے ہاتھ میں ہے
پس آخرت اور دنیا کا مالک تو اﷲ ہی ہے،
بس اللہ ہی کے لئے دنیا اور آخرت سب کچھ ہے
اللہ ہی کے ہاتھ ہے یہ جہان اور وه جہان
پس اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے آخرت بھی اور دنیا بھی (یعنی انجام بھی اور آغاز بھی)۔
۞ وَكَم مِّن مَّلَكٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ لَا تُغْنِى شَفَٰعَتُهُمْ شَيْـًٔا إِلَّا مِنۢ بَعْدِ أَن يَأْذَنَ ٱللَّهُ لِمَن يَشَآءُ وَيَرْضَىٰٓ ﴿٢٦﴾
اور بہت سے فرشتے آسمان میں ہیں کہ جن کی شفاعت کسی کے کچھ بھی کام نہیں آتی مگر اس کے بعدکہ الله جس کے لیے چاہے اجازت دے اور پسند کرے
آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں، اُن کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اُس کی اجازت نہ دے جس کے لیے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے
اور کتنے ہی فرشتے ہیں آسمانوں میں کہ ان کی سفارش کچھ کام نہیں آتی مگر جبکہ اللہ اجازت دے دے جس کے لیے چاہے اور پسند فرمائے
اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی مگر اس وقت کہ خدا جس کے لئے چاہے اجازت بخشے اور (سفارش) پسند کرے
اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں (کہ کفّار و مشرکین اُن کی عبادت کرتے اور ان سے شفاعت کی امید رکھتے ہیں) جِن کی شفاعت کچھ کام نہیں آئے گی مگر اس کے بعد کہ اﷲ جسے چاہتا ہے اور پسند فرماتا ہے اُس کے لئے اِذن (جاری) فرما دیتا ہے،
اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کسی کے کام نہیں آسکتی ہے جب تک خدا .... جس کے بارے میں چاہے اور اسے پسند کرے .... اجازت نہ دے دے
اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اجازت دے دے
اور آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتی مگر بعد اس کے کہ اللہ جس کے لئے چاہے اجازت دے اور پسند کرے۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْءَاخِرَةِ لَيُسَمُّونَ ٱلْمَلَٰٓئِكَةَ تَسْمِيَةَ ٱلْأُنثَىٰ ﴿٢٧﴾
بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ فرشتوں کے عورتوں کے سے نام رکھتے ہیں
مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ فرشتوں کو دیویوں کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں
بیشک وہ جو آخرت پر ایمان رکھتے نہیں ملائکہ کا نام عورتوں کا سا رکھتے ہیں
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ فرشتوں کو (خدا کی) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں
بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کر دیتے ہیں،
بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں وہ ملائکہ کے نام لڑکیوں جیسے رکھتے ہیں
بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وه فرشتوں کا زنانہ نام مقرر کرتے ہیں
بےشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
وَمَا لَهُم بِهِۦ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ ۖ وَإِنَّ ٱلظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ ٱلْحَقِّ شَيْـًۭٔا ﴿٢٨﴾
اور اس بات کو کچھ بھی نہیں جانتے محص وہم پر چلتے ہیں اوروہم حق بات کی جگہ کچھ بھی کام نہیں آتا
حالانکہ اس معاملہ کا کوئی علم انہیں حاصل نہیں ہے، وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں، اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا
اور انہیں اس کی کچھ خبر نہیں، وہ تو نرے گمان کے پیچھے ہیں، اور بیشک گمان یقین کی جگہ کچھ کام نہیں دیتا
حالانکہ ان کو اس کی کچھ خبر نہیں۔ وہ صرف ظن پر چلتے ہیں۔ اور ظن یقین کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا
اور انہیں اِس کا کچھ بھی علم نہیں ہے، وہ صرف گمان کے پیچھے چلتے ہیں، اور بیشک گمان یقین کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا،
حالانکہ ان کے پاس اس سلسلہ میں کوئی علم نہیں ہے یہ صرف وہم و گمان کے پیچھے چلے جارہے ہیں اور گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے
حاﻻنکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں وه صرف اپنے گمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور بیشک وہم (و گمان) حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں دیتا
حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے وہ مخصوص ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور ظنِ حق کے مقابلہ میں ذرا بھی کام نہیں دے سکتا۔
فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّىٰ عَن ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا ﴿٢٩﴾
پھر تم اس کی پرواہ نہ کرو جس نے ہماری یاد سے منہ پھیر لیا ہے اور صرف دنیا ہی کی زندگی چاہتا ہے
پس اے نبیؐ، جو شخص ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے، اور دنیا کی زندگی کے سوا جسے کچھ مطلوب نہیں ہے، اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو
تو تم اس سے منہ پھیر لو، جو ہماری یاد سے پھرا اور اس نے نہ چاہی مگر دنیا کی زندگی
تو جو ہماری یاد سے روگردانی اور صرف دنیا ہی کی زندگی کا خواہاں ہو اس سے تم بھی منہ پھیر لو
سو آپ اپنی توجّہ اس سے ہٹا لیں جو ہماری یاد سے رُوگردانی کرتا ہے اور سوائے دنیوی زندگی کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا،
لہذا جو شخص بھی ہمارے ذکر سے منہ پھیرے اور زندگانی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے آپ بھی اس سے کنارہ کش ہوجائیں
تو آپ اس سے منھ موڑ لیں جو ہماری یاد سے منھ موڑے اور جن کا اراده بجز زندگانیٴ دنیا کے اور کچھ نہ ہو
(اے رسول(ص)) آپ اس سے رُوگردانی کیجئے! جو ہمارے ذکر سے رُوگردانی کرتا ہے اور جو زندگانئ دنیا کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا۔
ذَٰلِكَ مَبْلَغُهُم مِّنَ ٱلْعِلْمِ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِۦ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ ٱهْتَدَىٰ ﴿٣٠﴾
ان کی سمجھ کی یہیں تک رسائی ہے بے شک آپ کا رب اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے راستہ سے بہکا اور اس کو بھی خوب جانتا ہے جو راہ پر آیا
اِن لوگوں کا مبلغ علم بس یہی کچھ ہے، یہ بات تیرا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ اُس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور کون سیدھے راستے پر ہے
یہاں تک ان کے علم کی پہنچ ہے بیشک تمہارا خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے جس نے راہ پائی،
ان کے علم کی انتہا یہی ہے۔ تمہارا پروردگار اس کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے رستے سے بھٹک گیا اور اس سے بھی خوب واقف ہے جو رستے پر چلا
اُن لوگوں کے علم کی رسائی کی یہی حد ہے، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اُس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جِس نے ہدایت پا لی ہے،
یہی ان کے علم کی انتہا ہے اور بیشک آپ کا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بہک گیا ہے اور کون ہدایت کے راستہ پر ہے
یہی ان کے علم کی انتہا ہے۔ آپ کا رب اس سے خوب واقف ہے جو اس کی راه سے بھٹک گیا ہے اور وہی خوب واقف ہےاس سے بھی جو راه یافتہ ہے
ان لوگوں کامبلغ علم یہی ہے (ان کے علم کی رسائی کی حد یہی ہے) آپ(ص) کا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا کون ہے؟ اور وہی بہتر جانتا ہے کہ راہِ راست پر کون ہے؟
وَلِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ لِيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ أَسَٰٓـُٔوا۟ بِمَا عَمِلُوا۟ وَيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ أَحْسَنُوا۟ بِٱلْحُسْنَى ﴿٣١﴾
اور الله ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے تاکہ براکرنے والوں کو ان کے بدلہ دے اور نیکی کرنے والوں کو نیک بدلہ دے
اور زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور اُن لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے
اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں تاکہ برائی کرنے والوں کو ان کے کیے کا بدلہ دے اور نیکی کرنے والوں کو نہایت اچھا صلہ عطا فرمائے،
اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے (اور اس نے خلقت کو) اس لئے (پیدا کیا ہے) کہ جن لوگوں نے برے کام کئے ان کو ان کے اعمال کا (برا) بدلا دے اور جنہوں نے نیکیاں کیں ان کو نیک بدلہ دے
اور اﷲ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ جن لوگوں نے برائیاں کیں انہیں اُن کے اعمال کا بدلہ دے اور جن لوگوں نے نیکیاں کیں انہیں اچھا اجر عطا فرمائے،
اوراللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کے کل اختیارات ہیں تاکہ وہ بدعمل افراد کو ان کے اعمال کی سزادے سکے اور نیک عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا اچھا بدلہ دے سکے
اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ اللہ تعالیٰ برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے
اور جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ اللہ ہی کا ہے تاکہ وہ برا کام کرنے والوں کو ان کے (برے) کاموں کا بدلہ دے اور نیک کرنے والوں کو اچھی جزا عطا کرے۔
ٱلَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَٰٓئِرَ ٱلْإِثْمِ وَٱلْفَوَٰحِشَ إِلَّا ٱللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَٰسِعُ ٱلْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌۭ فِى بُطُونِ أُمَّهَٰتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوٓا۟ أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ ٱتَّقَىٰٓ ﴿٣٢﴾
وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہیں مگر صغیرہ گناہوں سے بے شک آپ کا رب بڑی وسیع بخشش والا ہے وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب کہ تمہیں زمین سے پیدا کیا تھا اور جب کہ تم اپنی ماں کے پیٹ میں بچے تھے پس اپنے آپ کو پاک نہ سمجھو وہ پرہیزگار کو خوب جانتا ہے
جو بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں، الا یہ کہ کچھ قصور اُن سے سرزد ہو جائے بلاشبہ تیرے رب کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے وہ تمھیں اُس وقت سے خوب جانتا ہے جب اُس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں ابھی جنین ہی تھے پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے
وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے بیشک تمہارے رب کی مغفرت وسیع ہے، وہ تمہیں خوب جانتا ہے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں حمل تھے، تو آپ اپنی جانوں کو ستھرا نہ بتاؤ وہ خوب جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں
جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ بےشک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے۔ وہ تم کو خوب جانتا ہے۔ جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچّے تھے۔ تو اپنے آپ کو پاک صاف نہ جتاؤ۔ جو پرہیزگار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے
جو لوگ چھوٹے گناہوں (اور لغزشوں) کے سوا بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، بیشک آپ کا رب بخشش کی بڑی گنجائش رکھنے والا ہے، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہاری زندگی کی ابتداء اور نشو و نما زمین (یعنی مٹی) سے کی تھی اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جَنیِن (یعنی حمل) کی صورت میں تھے، پس تم اپنے آپ کو بڑا پاک و صاف مَت جتایا کرو، وہ خوب جانتا ہے کہ (اصل) پرہیزگار کون ہے،
جو لوگ گناہانِ کبیرہ اور فحش باتوں سے پرہیز کرتے ہیں (گناہان صغیرہ کے علاوہ) بیشک آپ کا پروردگار ان کے لئے بہت وسیع مغفرت والا ہے وہ اس وقت بھی تم سب کے حالات سے خوب واقف تھا جب اس نے تمہیں خاک سے پیدا کیا تھا اور اس وقت بھی جب تم ماں کے شکم میں جنین کی منزل میں تھے لہذا اپنے نفس کو زیادہ پاکیزہ قرار نہ دو وہ متقی افراد کو خوب پہچانتا ہے
ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی۔ سوائے کسی چھوٹے سے گناه کے۔ بیشک تیرا رب بہت کشاده مغفرت واﻻ ہے، وه تمہیں بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے۔ پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو، وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے
جو کہ بڑے گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں مگر یہ کہ کچھ ہلکے گناہ سر زد ہو جائیں۔ بےشک آپ کا پروردگار وسیع مغفرت والا ہے وہ تمہیں (اس وقت سے) خوب جانتا ہے جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین کی صورت میں تھے پس تم اپنے آپ کی پاکی کے دعوے نہ کرو۔ وہ (اللہ) بہتر جانتا ہے کہ واقعی پرہیزگار کون ہے؟
أَفَرَءَيْتَ ٱلَّذِى تَوَلَّىٰ ﴿٣٣﴾
بھلا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیر لیا
پھر اے نبیؐ، تم نے اُس شخص کو بھی دیکھا جو راہ خدا سے پھر گیا
تو کیا تم نے دیکھا جو پھر گیا
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیر لیا
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے (حق سے) منہ پھیر لیا،
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا ہے جس نے منہ پھیر لیا
کیا آپ نے اسے دیکھا جس نے منھ موڑ لیا
(اے رسول(ص)) کیا آپ(ص) نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے رُوگردانی کی۔
وَأَعْطَىٰ قَلِيلًۭا وَأَكْدَىٰٓ ﴿٣٤﴾
اور تھوڑا سا دیا اور سخت دل ہو گیا
اور تھوڑا سا دے کر رک گیا
اور کچھ تھوڑا سا دیا اور روک رکھا
اور تھوڑا سا دیا (پھر) ہاتھ روک لیا
اور اس نے (راہِ حق میں) تھوڑا سا (مال) دیا اور (پھر ہاتھ) روک لیا،
اور تھوڑا سا راسِ خدا میں دے کر بند کردیا
اور بہت کم دیا اور ہاتھ روک لیا
اس نے تھوڑا سا (مال) دیا اور پھر ہاتھ روک لیا۔
أَعِندَهُۥ عِلْمُ ٱلْغَيْبِ فَهُوَ يَرَىٰٓ ﴿٣٥﴾
کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے
کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھ رہا ہے؟
کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے تو وہ دیکھ رہا ہے
کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے
کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے،
کیا اس کے پاس علم غیب ہے جس کے ذریعے وہ دیکھ رہا ہے
کیا اسے علم غیب ہے کہ وه (سب کچھ) دیکھ رہا ہے؟
کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے پس وہ دیکھ رہا ہے؟
أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِى صُحُفِ مُوسَىٰ ﴿٣٦﴾
کیا اسے ان باتوں کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں
کیا اُسے اُن باتوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰؑ کے صحیفوں
کیا اسے اس کی خبر نہ آئی جو صحیفوں میں ہے موسیٰ کے
کیا جو باتیں موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں ان کی اس کو خبر نہیں پہنچی
کیا اُسے اُن (باتوں) کی خبر نہیں دی گئی جو موسٰی (علیہ السلام) کے صحیفوں میں (مذکور) تھیں،
یا اسے اس بات کی خبر ہی نہیں ہے جو موسٰی علیھ السّلام کے صحیفوں میں تھی
کیا اسے اس چیز کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے
کیا اسے اس بات کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ (ع) کے صحیفوں میں ہے۔
وَإِبْرَٰهِيمَ ٱلَّذِى وَفَّىٰٓ ﴿٣٧﴾
اورابراھیم کے جس نے (اپنا عہد) پورا کیا
اور اُس ابراہیمؑ کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہیں جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟
اور ابراہیم کے جو پورے احکام بجالایا
اور ابراہیمؑ کی جنہوں نے (حق طاعت ورسالت) پورا کیا
اور ابراہیم (علیہ السلام) کے (صحیفوں میں تھیں) جنہوں نے (اﷲ کے ہر امر کو) بتمام و کمال پورا کیا،
یا ابراہیم علیھ السّلام کے صحیفوں میں تھی جنہوں نے پورا پورا حق ادا کیا ہے
اور وفادار ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں میں تھا
اور اس ابراہیم (ع) کے صحیفوں میں جس نے وفاداری کا حق ادا کر دیا۔
أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌۭ وِزْرَ أُخْرَىٰ ﴿٣٨﴾
وہ یہ کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
\"یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسری کا بوجھ نہیں اٹھاتی
یہ کہ کوئی شخص دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،
کوئی شخص بھی دوسرے کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے
کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا
کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو کرتا ہے
اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے
اور یہ کہ آدمی نہ پاے گا مگر اپنی کوشش
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)،
اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے
اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
وَأَنَّ سَعْيَهُۥ سَوْفَ يُرَىٰ ﴿٤٠﴾
اور یہ کہ اس کی کوشش جلد دیکھی جائے گی
اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی
اور یہ کہ اس کی کو شش عنقر یب دیکھی جاے گی
اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی
اور یہ کہ اُس کی ہر کوشش عنقریب دکھا دی جائے گی (یعنی ظاہر کر دی جائے گی)،
اور اس کی کوشش عنقریب اس کے سامنے پیش کردی جائے گی
اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی
اور اس کی سعی و کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔
ثُمَّ يُجْزَىٰهُ ٱلْجَزَآءَ ٱلْأَوْفَىٰ ﴿٤١﴾
پھر اسے پورا بدلہ دیا جائے گا
اور اس کی پوری جزا اسے دی جائے گی
پھر اس کا بھرپور بدلا دیا جائے گا
پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا
پھر اُسے (اُس کی ہر کوشش کا) پورا پورا بدلہ دیا جائے گا،
اس کے بعد اسے پورا بدلہ دیا جائے گا
پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا
اور پھر اسے پوری جزا دی جائے گی۔
وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ ٱلْمُنتَهَىٰ ﴿٤٢﴾
اوریہ کہ سب کو آپ کے رب ہی کی طرف پہنچتا ہے
اور یہ کہ آخر کار پہنچنا تیرے رب ہی کے پاس ہے
اور یہ کہ بیشک تمہارے رب ہی کی طرف انتہا ہے
اور یہ کہ تمہارے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے
اور یہ کہ (بالآخر سب کو) آپ کے رب ہی کی طرف پہنچنا ہے،
اور بیشک سب کی آخری منزل پروردگار کی بارگاہ ہے
اور یہ کہ آپ کے رب ہی کی طرف پہنچنا ہے
اور یہ کہ سب کی انتہا آپ(ص) کے پروردگار کی طرف ہے۔
وَأَنَّهُۥ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَىٰ ﴿٤٣﴾
اور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اوررلاتا ہے
اور یہ کہ اُسی نے ہنسایا اور اُسی نے رلایا
اور یہ کہ وہی ہے جس نے ہنسایا اور رلایا
اور یہ کہ وہ ہنساتا اور رلاتا ہے
اور یہ کہ وہی (خوشی دے کر) ہنساتا ہے اور (غم دے کر) رُلاتا ہے،
اور یہ کہ اسی نے ہنسایا بھی ہے اور ----- فِلایا بھی ہے
اور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اور وہی رﻻتا ہے
بےشک وہی ہنساتا ہے اور رلاتا ہے۔
وَأَنَّهُۥ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْيَا ﴿٤٤﴾
اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے
اور یہ کہ اُسی نے موت دی اور اُسی نے زندگی بخشی
اور یہ کہ وہی ہے جس نے مارا اور جِلایا
اور یہ کہ وہی مارتا اور جلاتا ہے
اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جِلاتا ہے،
اور وہی موت و حیات کا دینے والا ہے
اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے
اور وہی مارتا ہے اور جِلاتا ہے۔
وَأَنَّهُۥ خَلَقَ ٱلزَّوْجَيْنِ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰ ﴿٤٥﴾
اور یہ کہ اسی نے جوڑا نر اور مادہ کا پیدا کیا ہے
اور یہ کہ اُسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا
اور یہ کہ اسی نے دو جوڑے بنائے نر اور مادہ
اور یہ کہ وہی نر اور مادہ دو قسم (کے حیوان) پیدا کرتا ہے
اور یہ کہ اُسی نے نَر اور مادہ دو قِسموں کو پیدا کیا،
اور اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا ہے
اور یہ کہ اسی نے جوڑا یعنی نر ماده پیدا کیا ہے
اور یہ کہ اسی نے نر اور مادہ کے جوڑے پیدا کئے۔
مِن نُّطْفَةٍ إِذَا تُمْنَىٰ ﴿٤٦﴾
ایک بوند سے جب کہ وہ ٹپکائی جائے
ایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے
نطفہ سے جب ڈالا جائے
(یعنی) نطفے سے جو (رحم میں) ڈالا جاتا ہے
نطفہ (ایک تولیدی قطرہ) سے جبکہ وہ (رَحمِ مادہ میں) ٹپکایا جاتا ہے،
اس نطفہ سے جو رحم میں ڈالا جاتا ہے
نطفہ سے جبکہ وه ٹپکایا جاتا ہے
(وہ بھی) ایک نطفہ سے (جو رحم میں) ٹپکایا جاتا ہے۔
وَأَنَّ عَلَيْهِ ٱلنَّشْأَةَ ٱلْأُخْرَىٰ ﴿٤٧﴾
اور یہ کہ دوسری بارزندہ کر کے اٹھانا اسی کے ذمہ ہے
اور یہ کہ دوسری زندگی بخشنا بھی اُسی کے ذمہ ہے
اور یہ کہ اسی کے ذمہ ہے پچھلا اٹھانا (دوبارہ زندہ کرنا)
اور یہ کہ (قیامت کو) اسی پر دوبارہ اٹھانا لازم ہے
اور یہ کہ (مرنے کے بعد) دوبارہ زندہ کرنا (بھی) اسی پر ہے،
اور اسی کے ذمہ دوسری زندگی بھی ہے
اور یہ کہ اسی کے ذمہ دوباره پیدا کرنا ہے
اور بیشک دوبارہ پیدا کرنا اسی (اللہ) کے ذمہ ہے۔
وَأَنَّهُۥ هُوَ أَغْنَىٰ وَأَقْنَىٰ ﴿٤٨﴾
اور یہ کہ وہی غنی اور سرمایہ دار کرتا ہے
اور یہ کہ اُسی نے غنی کیا اور جائداد بخشی
اور یہ کہ اسی نے غنیٰ دی اور قناعت دی
اور یہ کہ وہی دولت مند بناتا اور مفلس کرتا ہے
اور یہ کہ وہی (بقدرِ ضرورت دے کر) غنی کر دیتا ہے اور وہی (ضرورت سے زائد دے کر) خزانے بھر دیتا ہے،
اور اسی نے مالدار بنایا ہے اور سرمایہ عطا کیا ہے
اور یہ کہ وہی مالدار بناتا ہے اور سرمایہ دیتا ہے
اور یہ کہ وہی سرمایہ دار بناتا ہے اور وہی فقیر و نادار بناتا ہے۔
وَأَنَّهُۥ هُوَ رَبُّ ٱلشِّعْرَىٰ ﴿٤٩﴾
اور یہ کہ وہی شعریٰ کا رب ہے
اور یہ کہ وہی شعریٰ کا رب ہے
او ریہ کہ وہی ستارہ شِعریٰ کا رب ہے
اور یہ کہ وہی شعریٰ کا مالک ہے
اور یہ کہ وہی شِعرٰی (ستارے) کا رب ہے (جس کی دورِ جاہلیت میں پوجا کی جاتی تھی)،
اور وہی ستارہ شعریٰ کا مالک ہے
اور یہ کہ وہی شعریٰ (ستارے) کا رب ہے
اور یہ کہ وہ شعریٰ نامی ستارے کا پروردگار ہے۔
وَأَنَّهُۥٓ أَهْلَكَ عَادًا ٱلْأُولَىٰ ﴿٥٠﴾
اور یہ کہ اسی نے عاد اولیٰ کو ہلاک کیا تھا
اور یہ کہ اُسی نے عاد اولیٰ کو ہلاک کیا
اور یہ کہ اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا
اور یہ کہ اسی نے عاد اول کو ہلاک کر ڈالا
اور یہ کہ اسی نے پہلی (قومِ) عاد کو ہلاک کیا،
اور اسی نے پہلے قوم عاد کو ہلاک کیا ہے
اور یہ کہ اس نے عاد اول کو ہلاک کیا ہے
اور یہ کہ اسی نے عادِ اول (قومِ ہود) کو ہلاک کیا۔
وَثَمُودَا۟ فَمَآ أَبْقَىٰ ﴿٥١﴾
اور ثمود کو پس اسے باقی نہ چھوڑا
اور ثمود کو ایسا مٹایا کہ ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑا
اور ثمود کو تو کوئی باقی نہ چھوڑا
اور ثمود کو بھی۔ غرض کسی کو باقی نہ چھوڑا
اور (قومِ) ثمود کو (بھی)، پھر (ان میں سے کسی کو) باقی نہ چھوڑا،
اور قوم ثمود کو بھی پھر کسی کو باقی نہیں چھوڑا ہے
اور ﺛمود کو بھی (جن میں سے) ایک کو بھی باقی نہ رکھا
اور ثمود کو بھی اس طرح ہلاک کیا کہ کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔
وَقَوْمَ نُوحٍۢ مِّن قَبْلُ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا۟ هُمْ أَظْلَمَ وَأَطْغَىٰ ﴿٥٢﴾
اور اس سے پہلے نوح کی قوم کو بے شک وہ زیادہ ظالم اور زيادہ سرکش تھے
اور اُن سے پہلے قوم نوحؑ کو تباہ کیا کیونکہ وہ تھے ہی سخت ظالم و سرکش لوگ
اور ان سے پہلے نوح کی قوم کو بیشک وہ ان سے بھی ظالم اور سرکش تھے
اور ان سے پہلے قوم نوحؑ کو بھی۔ کچھ شک نہیں کہ وہ لوگ بڑے ہی ظالم اور بڑے ہی سرکش تھے
اور اس سے پہلے قومِ نوح کو (بھی ہلاک کیا)، بیشک وہ بڑے ہی ظالم اور بڑے ہی سرکش تھے،
اور قوم نوح کو ان سے پہلے .کہ وہ لوگ بڑے ظالم اور سرکش تھے
اور اس سے پہلے قوم نوح کو، یقیناً وه بڑے ﻇالم اور سرکش تھے
اوران سب سے پہلے قومِ نوح(ع) کو بھی (برباد کیا) بےشک وہ بڑے ظالم اور بڑے سرکش تھے۔
وَٱلْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَىٰ ﴿٥٣﴾
اور الٹی بستی کو اس نے دے ٹپکا
اور اوندھی گرنے والی بستیوں کو اٹھا پھینکا
اور اس نے الٹنے والی بستی کو نیچے گرایا
اور اسی نے الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا
اور (قومِ لُوط کی) الٹی ہوئی بستیوں کو (اوپر اٹھا کر) اُسی نے نیچے دے پٹکا،
اور اسی نے قوم لوط کی اُلٹی بستیوں کو پٹک دیا ہے
اور مؤتفکہ (شہر یا الٹی ہوئی بستیوں کو) اسی نے الٹ دیا
(لوط (ع)) کی الٹی ہوئی ان (بستیوں) کو بھی دے مارا۔
فَغَشَّىٰهَا مَا غَشَّىٰ ﴿٥٤﴾
پس اس پر وہ (تباہی) چھا گئی جوچھا گئی
پھر چھا دیا اُن پر وہ کچھ جو (تم جانتے ہی ہو کہ) کیا چھا دیا
تو اس پر چھایا جو کچھ چھایا
پھر ان پر چھایا جو چھایا
پس اُن کو ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا (یعنی پھر اُن پر پتھروں کی بارش کر دی گئی)،
پھر ان کو ڈھانک لیا جس چیز نے کہ ڈھانک لیا
پھر اس پر چھا دیا جو چھایا
پس ان (بستیوں) کو ڈھانک لیا اس (آفت) نے جس نے ڈھانک لیا۔
فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارَىٰ ﴿٥٥﴾
پس اپنے رب کی کون کون سی نعمت میں تو شک کرے گا
پس اے مخاطب، اپنے رب کی کن کن نعمتوں میں تو شک کرے گا؟\"
تو اے سننے والے اپنے رب کی کون سی نعمتوں میں شک کرے گا،
تو (اے انسان) تو اپنے پروردگار کی کون سی نعمت پر جھگڑے گا
سو (اے انسان!) تو اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں میں شک کرے گا،
اب تم اپنے پروردگار کی کس نعمت پر شک کررہے ہو
پس اے انسان تو اپنے رب کی کس کس نعمت کے بارے میں جھگڑے گا؟
پس تو اے مخاطب اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں میں شک کرے گا۔
هَٰذَا نَذِيرٌۭ مِّنَ ٱلنُّذُرِ ٱلْأُولَىٰٓ ﴿٥٦﴾
یہ بھی ایک ڈرانے والا ہے پہلے ڈرانے والوں میں سے
یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے
یہ ایک ڈر سنانے والے ہیں اگلے ڈرانے والوں کی طرح
یہ (محمدﷺ) بھی اگلے ڈر سنانے والوں میں سے ایک ڈر سنانے والے ہیں
یہ (رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی) اگلے ڈر سنانے والوں میں سے ایک ڈر سنانے والے ہیں،
بیشک یہ پیغمبر بھی اگلے ڈرانے والوں میں سے ایک ڈرانے والا ہے
یہ (نبی) ڈرانے والے ہیں پہلے ڈرانے والوں میں سے
یہ (رسول(ص)) بھی ڈرانے والا ہے پہلے ڈرانے والے (رسولوں(ع)) سے۔
أَزِفَتِ ٱلْءَازِفَةُ ﴿٥٧﴾
آنے والی قریب آ پہنچی
آنے والی گھڑی قریب آ لگی ہے
پاس آئی پاس آنے والی
آنے والی (یعنی قیامت) قریب آ پہنچی
آنے والی (قیامت کی گھڑی) قریب آپہنچی،
دیکھو قیامت قریب آگئی ہے
آنے والی گھڑی قریب آ گئی ہے
قریب آنے والی (قیامت) قریب آگئی ہے۔
لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ ٱللَّهِ كَاشِفَةٌ ﴿٥٨﴾
سوائے الله کے اسے کوئی ہٹانے والا نہیں
اللہ کے سوا کوئی اُس کو ہٹا نے والا نہیں
اللہ کے سوا اس کا کوئی کھولنے والا نہیں
اس (دن کی تکلیفوں) کو خدا کے سوا کوئی دور نہیں کرسکے گا
اﷲ کے سوا اِسے کوئی ظاہر (اور قائم) کرنے والا نہیں ہے،
اللہ کے علاوہ کوئی اس کا ٹالنے والا نہیں ہے
اللہ کے سوا اس کا (وقت معین پر کھول) دکھانے واﻻ اور کوئی نہیں
اللہ کے سوا اس کا کوئی ہٹانے والانہیں ہے۔
أَفَمِنْ هَٰذَا ٱلْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ ﴿٥٩﴾
پس کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو
اب کیا یہی وہ باتیں ہیں جن پر تم اظہار تعجب کرتے ہو؟
تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو
اے منکرین خدا) کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو؟
پس کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو،
کیا تم اس بات سے تعجب کررہے ہو
پس کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو
کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو؟
وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ ﴿٦٠﴾
اور ہنستے ہو اور روتے نہیں
ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟
اور ہنستے ہو اور روتے نہیں
اور ہنستے ہو اور روتے نہیں؟
اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو،
اور پھر ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو
اور ہنس رہے ہو؟ روتے نہیں؟
اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔
وَأَنتُمْ سَٰمِدُونَ ﴿٦١﴾
اور تم کھیل رہے ہو
اور گا بجا کر انہیں ٹالتے ہو؟
اور تم کھیل میں پڑے ہو،
اور تم غفلت میں پڑ رہے ہو
اور تم (غفلت کی) کھیل میں پڑے ہو،
اور تم بالکل غافل ہو
(بلکہ) تم کھیل رہے ہو
اور تم غفلت میں مدہوش ہو۔
فَٱسْجُدُوا۟ لِلَّهِ وَٱعْبُدُوا۟ ۩ ﴿٦٢﴾
پس الله کے آگے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو
جھک جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ
تو اللہ کے لیے سجدہ اور اس کی بندگی کرو
تو خدا کے آگے سجدہ کرو اور (اسی کی) عبادت کرو
سو اﷲ کے لئے سجدہ کرو اور (اُس کی) عبادت کرو،
( اب سے غنیمت ہے) کہ اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو
اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور (اسی) کی عبادت کرو
پس اللہ کے لئے سجدہ کرو اور(اسی کی) عبادت کرو۔