Setting
Surah The Pen [Al-Qalam] in Urdu
نٓ ۚ وَٱلْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ ﴿١﴾
نۤ قلم کی قسم ہے اور اس کی جو اس سے لکھتے ہیں
ن، قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں
قلم اور ان کے لکھے کی قسم
نٓ۔ قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں اس کی قسم
نون (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، قلم کی قَسم اور اُس (مضمون) کی قَسم جو (فرشتے) لکھتے ہیں،
نۤ, قلم اور اس چیز کی قسم جو یہ لکھ رہے ہیں
ن، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ کہ وه (فرشتے) لکھتے ہیں
نون! قَسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ لوگ لکھتے ہیں۔
مَآ أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍۢ ﴿٢﴾
آپ الله کے فضل سے دیوانہ نہیں ہیں
تم اپنے رب کے فضل سے مجنوں نہیں ہو
تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں
کہ (اے محمدﷺ) تم اپنے پروردگار کے فضل سے دیوانے نہیں ہو
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں،
آپ اپنے پروردگار کی نعمت کے طفیل مجنون نہیں ہیں
تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے
کہ آپ(ص) اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے دیوانے نہیں ہیں۔
وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍۢ ﴿٣﴾
اور آپ کے لیے تو بے شمار اجر ہے
اور یقیناً تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں
اور ضرور تمہارے لیے بے انتہا ثواب ہے
اور تمہارے لئے بے انتہا اجر ہے
اور بے شک آپ کے لئے ایسا اَجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا،
اور آپ کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے
اور بے شک تیرے لیے بے انتہا اجر ہے
اور بےشک آپ(ص) کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم ہو نے والانہیں ہے۔
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍۢ ﴿٤﴾
اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خلق ہیں
اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو
اور بیشک تمہاری خُو بُو (خُلق) بڑی شان کی ہے
اور اخلاق تمہارے بہت (عالی) ہیں
اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)،
اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں
اور بیشک تو بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہے
اور بےشک آپ(ص) خلقِ عظیم کے مالک ہیں۔
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ ﴿٥﴾
پس عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے
عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے
تو اب کوئی دم جاتا ہے کہ تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے
سو عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور یہ (کافر) بھی دیکھ لیں گے
پس عنقریب آپ (بھی) دیکھ لیں گے اور وہ (بھی) دیکھ لیں گے،
عنقریب آپ بھی دیکھیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے
پس اب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے
عنقریب آپ بھی دیکھیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔
بِأَييِّكُمُ ٱلْمَفْتُونُ ﴿٦﴾
کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے
کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے
کہ تم میں کون مجنون تھا،
کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے
کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے،
کہ دیوانہ کون ہے
کہ تم میں سے کون فتنہ میں پڑا ہوا ہے
کہ تم میں سے کون جُنون میں مبتلا ہے۔
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِۦ وَهُوَ أَعْلَمُ بِٱلْمُهْتَدِينَ ﴿٧﴾
بے شک آپ کا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بہکا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے
تمہارا رب اُن لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں، اور وہی ان کو بھی اچھی طرح جانتا ہے جو راہ راست پر ہیں
بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکے، اور وہ خوب جانتا ہے جو راہ پر ہے،
تمہارا پروردگار اس کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے رستے سے بھٹک گیا اور ان کو بھی خوب جانتا ہے جو سیدھے راستے پر چل رہے ہیں
بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے، اور وہ ان کو (بھی) خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں،
آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بہک گیا ہے اور کون ہدایت یافتہ ہے
بیشک تیرا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو خوب جانتا ہے، اور وه راه یافتہ لوگوں کو بھی بخوبی جانتا ہے
بےشک آپ(ص) کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ اس کی راہ سے بھٹکا ہواکون ہے؟ اور وہی انہیں خوب جانتا ہے جو ہدایت یافتہ ہیں۔
فَلَا تُطِعِ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿٨﴾
پس آپ جھٹلانےوالوں کا کہا نہ مانیں
لہٰذا تم اِن جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آؤ
تو جھٹلانے والوں کی بات نہ سننا،
تو تم جھٹلانے والوں کا کہا نہ ماننا
سو آپ جھٹلانے والوں کی بات نہ مانیں،
لہذا آپ جھٹلانے والوں کی اطاعت نہ کریں
پس تو جھٹلانے والوں کی نہ مان
تو آپ(ص) جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانیں۔
وَدُّوا۟ لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴿٩﴾
وہ تو چاہتے ہیں کہ کہیں آپ نرمی کریں تو وہ بھی نرمی کریں
یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں
وہ تو اس آرزو میں ہیں کہ کسی طرح تم نرمی کرو تو وہ بھی نرم پڑجائیں،
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم نرمی اختیار کرو تو یہ بھی نرم ہوجائیں
وہ تو چاہتے ہیں کہ (دین کے معاملے میں) آپ (بے جا) نرمی اِختیار کر لیں تو وہ بھی نرم پڑ جائیں گے،
یہ چاہتے ہیں کہ آپ ذرا نرم ہوجائیں تو یہ بھی نرم ہوجائیں
وه تو چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں
وہ (کفار) تو چاہتے ہیں کہ آپ(ص) (اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں) ڈھیلے پڑجائیں تو وہ بھی (مخالفت میں) ڈھیلے ہو جائیں۔
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍۢ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾
اور ہر قسمیں کھانے والے ذلیل کا کہا نہ مان
ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے
اور ہر ایسے کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں کھانے والا ذلیل
اور کسی ایسے شخص کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے
اور آپ کسی ایسے شخص کی بات نہ مانیں جو بہت قَسمیں کھانے والا اِنتہائی ذلیل ہے،
اور خبردار آپ کسی بھی مسلسل قسم کھانے والے ذلیل
اور تو کسی ایسے شخص کا بھی کہا نہ ماننا جو زیاده قسمیں کھانے واﻻ
اور آپ(ص) ہرگز ہر اس شخص کا کہنا نہ مانیں جو بہت (جھوٹی) قَسمیں کھانے والا ہے (اور) ذلیل ہے۔
هَمَّازٍۢ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِيمٍۢ ﴿١١﴾
جو طعنے دینے والا چغلی کھانے والا ہے
طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے
بہت طعنے دینے والا بہت اِدھر کی اُدھر لگاتا پھرنے والا
طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا
(جو) طعنہ زَن، عیب جُو (ہے اور) لوگوں میں فساد انگیزی کے لئے چغل خوری کرتا پھرتا ہے،
عیب جو اور اعلٰی درجہ کے چغلخور
بے وقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور
جو بڑی نکتہ چینی کرنے والا (اور) چلتا پھرتا چغل خور ہے۔
مَّنَّاعٍۢ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾
نیکی سے روکنے والا حد سے بڑھاہوا گناہگار ہے
بھلائی سے روکتا ہے، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے، سخت بد اعمال ہے، جفا کار ہے
بھلائی سے بڑا روکنے والا حد سے بڑھنے والا گنہگار
مال میں بخل کرنے والا حد سے بڑھا ہوا بدکار
(جو) بھلائی کے کام سے بہت روکنے والا بخیل، حد سے بڑھنے والا سرکش (اور) سخت گنہگار ہے،
مال میں بیحد بخل کرنے والے, تجاوز گناہگار
بھلائی سے روکنے واﻻ حد سے بڑھ جانے واﻻ گنہگار
کارِ خیر سے بڑا منع کرنے والا، حد سے بڑھنے والا (اور) بڑا گنہگار ہے۔
عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿١٣﴾
بڑا اجڈ اس کے بعد بد اصل بھی ہے
اور اَن سب عیوب کے ساتھ بد اصل ہے
درشت خُو اس سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا
سخت خو اور اس کے علاوہ بدذات ہے
(جو) بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہے٭، ٭ یہ آیات ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جتنے ذِلت آمیز اَلقاب باری تعالیٰ نے اس بدبخت کو دئیے آج تک کلامِ اِلٰہی میں کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اَقدس میں گستاخی کی، جس پر غضبِ اِلٰہی بھڑک اٹھا۔ ولید نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ایک کلمہ بولا تھا، جواباً باری تعالیٰ نے اُس کے دس رذائل بیان کیے اور آخر میں نطفۂ حرام ہونا بھی ظاہر کر دیا، اور اس کی ماں نے بعد ازاں اِس اَمر کی بھی تصدیق کر دی۔ (تفسیر قرطبی، رازی، نسفی وغیرھم)
بدمزاج اور اس کے بعد بدنسل کی اطاعت نہ کریں
گردن کش پھر ساتھ ہی بے نسب ہو
سخت مزاج ہے اور ان (سب بری صفتوں) کے علاوہ وہ بداصل بھی ہے۔
أَن كَانَ ذَا مَالٍۢ وَبَنِينَ ﴿١٤﴾
اس لئے کہ وہ مال اور اولاد والا ہے
اِس بنا پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے
اس پر کہ کچھ مال اور بیٹے رکھتا ہے،
اس سبب سے کہ مال اور بیٹے رکھتا ہے
اِس لئے (اس کی بات کو اہمیت نہ دیں) کہ وہ مال دار اور صاحبِ اَولاد ہے،
صرف اس بات پر کہ یہ صاحب همال و اولاد ہے
اس کی سرکشی صرف اس لیے ہے کہ وه مال واﻻ اور بیٹوں واﻻ ہے
یہ سب کچھ اس بناء پر ہے کہ وہ مالدار اور اولاد والا ہے۔
إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ءَايَٰتُنَا قَالَ أَسَٰطِيرُ ٱلْأَوَّلِينَ ﴿١٥﴾
جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے پہلوں کی کہانیاں ہیں
جب ہماری آیات اُس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں
جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں کہتا ہے کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں
جب اس کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ اگلے لوگوں کے افسانے ہیں
جب اس پر ہماری آیتیں تلاوت کی جائیں (تو) کہتا ہے: یہ (تو) پہلے لوگوں کے اَفسانے ہیں،
جب اس کے سامنے آیات هالۤہیہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہہ دیتا ہے کہ یہ سب اگلے لوگوں کی داستانیں ہیں
جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ تو اگلوں کے قصے ہیں
جب اس کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔
سَنَسِمُهُۥ عَلَى ٱلْخُرْطُومِ ﴿١٦﴾
عنقریب ہم اس کی ناک پر داغ لگائیں گے
عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے
قریب ہے کہ ہم اس کی سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں گے
ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے
اب ہم اس کی سونڈ جیسی ناک پر داغ لگا دیں گے،
ہم عنقریب اس کی ناک پر نشان لگادیں گے
ہم بھی اس کی سونڈ (ناک) پر داغ دیں گے
ہم عنقریب اس کی سونڈ (نا ک) پر داغ لگائیں گے۔
إِنَّا بَلَوْنَٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ أَصْحَٰبَ ٱلْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا۟ لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ﴿١٧﴾
بے شک ہم نے ان کو آزمایا ہے جیسا کہ ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ ضرور صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ لیں گے
ہم نے اِن (اہل مکہ) کو اُسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا، جب اُنہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے
بیشک ہم نے انہیں جانچا جیسا اس باغ والوں کو جانچا تھا جب انہوں نے قسم کھائی کہ ضرور صبح ہوتے اس کھیت کو کاٹ لیں گے
ہم نے ان لوگوں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی۔ جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے
بے شک ہم ان (اہلِ مکہ) کی (اُسی طرح) آزمائش کریں گے جس طرح ہم نے (یمن کے) ان باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قَسم کھائی تھی کہ ہم صبح سویرے یقیناً اس کے پھل توڑ لیں گے،
ہم نے ان کو اسی طرح آزمایا ہے جس طرح باغ والوں کو آزمایا تھا جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ صبح کو پھل توڑ لیں گے
بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے
ہم نے ان (کفارِ مکہ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا جب انہوں نے قَسم کھائی تھی کہ وہ صبح سویرے ضرور اس کا پھل توڑ لیں گے۔
وَلَا يَسْتَثْنُونَ ﴿١٨﴾
اور انشاالله بھی نہ کہا تھا
اور وہ کوئی استثناء نہیں کر رہے تھے
اور انشاء اللہ نہ کہا
اور انشاء الله نہ کہا
اور انہوں نے (اِن شاء اللہ کہہ کر یا غریبوں کے حصہ کا) اِستثناء نہ کیا،
اور انشائ اللہ نہیں کہیں گے
اور انشاءاللہ نہ کہا
اور انہوں نے کوئی استثناء نہیں کیا تھا (انشاء اللہ نہیں کہا تھا)۔
فَطَافَ عَلَيْهَا طَآئِفٌۭ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَآئِمُونَ ﴿١٩﴾
پھر تو اس پر رات ہی میں آپ کے رب کی طرف سے ایک جھونکا چل گیا درآنحالیکہ وہ سونے والے تھے
رات کو وہ سوئے پڑے تھے کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک بلا اس باغ پر پھر گئی
تو اس پر تیرے رب کی طرف سے ایک پھیری کرنے والا پھیرا کر گیا اور وہ سوتے تھے،
سو وہ ابھی سو ہی رہے تھے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے (راتوں رات) اس پر ایک آفت پھر گئی
پس آپ کے رب کی جانب سے ایک پھرنے والا (عذاب رات ہی رات میں) اس (باغ) پر پھر گیا اور وہ سوتے ہی رہے،
تو خدا کی طرف سے راتوں رات ایک بلا نے چکر لگایا جب یہ سب سورہے تھے
پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو ہی رہے تھے
پھر (راتوں رات) جب کہ وہ لوگ ابھی سوئے ہوئے تھے آپ(ص) کے پروردگار کی طرف سے ایک آفت چکر لگا گئی۔
فَأَصْبَحَتْ كَٱلصَّرِيمِ ﴿٢٠﴾
پھر وہ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہو گیا
اور اُس کا حال ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی فصل ہو
تو صبح رہ گیا جیسے پھل ٹوٹا ہوا
تو وہ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی
سو وہ (لہلہاتا پھلوں سے لدا ہوا باغ) صبح کو کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہوگیا،
اور سارا باغ جل کر کالی رات جیسا ہوگیا
پس وه باغ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی
تو وہ (باغ) کٹی ہوئی فصل کی طرح ہوگیا۔
فَتَنَادَوْا۟ مُصْبِحِينَ ﴿٢١﴾
پھر وہ صبح کو پکارنے لگے
صبح اُن لوگوں نے ایک دوسرے کو پکارا
پھر انہوں نے صبح ہوتے ایک دوسرے کو پکارا،
جب صبح ہوئی تو وہ لوگ ایک دوسرے کو پکارنے لگے
پھر صبح ہوتے ہی وہ ایک دوسرے کو پکارنے لگے،
پھر صبح کو ایک نے دوسرے کو آواز دی
اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں
پس انہوں نے صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو آواز دی۔
أَنِ ٱغْدُوا۟ عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰرِمِينَ ﴿٢٢﴾
کہ اپنے کھیت پر سویرے چلو اگر تم نے پھل توڑنا ہے
کہ اگر پھل توڑنے ہیں تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف نکل چلو
کہ تڑکے اپنی کھیتی چلو اگر تمہیں کاٹنی ہے،
اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو
کہ اپنی کھیتی پر سویرے سویرے چلے چلو اگر تم پھل توڑنا چاہتے ہو،
کہ پھل توڑنا ہے تو اپنے اپنے کھیت کی طرف چلو
کہ اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو
کہ اگر تم نے پھل توڑنا ہے تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف چلو۔
فَٱنطَلَقُوا۟ وَهُمْ يَتَخَٰفَتُونَ ﴿٢٣﴾
پھر وہ آپس میں چپکے چپکے یہ کہتے ہوئے چلے
چنانچہ وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے
تو چلے اور آپس میں آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے کہ
تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے
سو وہ لوگ چل پڑے اور وہ آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے،
پھر سب گئے اس عالم میں کہ آپس میں راز دارانہ باتیں کررہے تھے
پھر یہ سب چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے
تو وہ اس حال میں چل پڑے کہ چپکے چپکے ایک دوسرے سے کہتے جاتے تھے۔
أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا ٱلْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌۭ ﴿٢٤﴾
کہ تمہارے باغ میں آج کوئی محتاج نہ آنے پائے
کہ آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں نہ آنے پائے
ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے باغ میں آنے نہ پائے،
آج یہاں تمہارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے
کہ آج اس باغ میں تمہارے پاس ہرگز کوئی محتاج نہ آنے پائے،
کہ خبردار آج باغ میں کوئی مسکین داخل نہ ہونے پائے
کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائے
کہ خبردار! آج تمہارے پاس اس باغ میں کوئی مسکین نہ آنے پا ئے۔
وَغَدَوْا۟ عَلَىٰ حَرْدٍۢ قَٰدِرِينَ ﴿٢٥﴾
اور وہ سویرے ہی بڑے اہتمام سے پھل توڑنے کی قدرت کا خیال کر کے چل پڑے
وہ کچھ نہ دینے کا فیصلہ کیے ہوئے صبح سویرے جلدی جلدی اِس طرح وہاں گئے جیسے کہ وہ (پھل توڑنے پر) قادر ہیں
اور تڑکے چلے اپنے اس ارادہ پر قدرت سمجھتے
اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جا پہنچے (گویا کھیتی پر) قادر ہیں
اور وہ صبح سویرے (پھل کاٹنے اور غریبوں کو اُن کے حصہ سے محروم کرنے کے) منصوبے پر قادِر بنتے ہوئے چل پڑے،
اور روک تھام کا بندوبست کرکے صبح سویرے پہنچ گئے
اور لپکے ہوئے صبح صبح گئے۔ (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پاگئے
اور وہ اس (مسکین کو کچھ نہ دینے) پر قادر سمجھ کر نکلے۔
فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوٓا۟ إِنَّا لَضَآلُّونَ ﴿٢٦﴾
پس جب انہوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگےکہ ہم تو راہ بھول گئے ہیں
مگر جب باغ کو دیکھا تو کہنے لگے \"ہم راستہ بھول گئے ہیں
پھر جب اسے بولے بیشک ہم راستہ بہک گئے
جب باغ کو دیکھا تو (ویران) کہنے لگے کہ ہم رستہ بھول گئے ہیں
پھر جب انہوں نے اس (ویران باغ) کو دیکھا تو کہنے لگے: ہم یقیناً راستہ بھول گئے ہیں (یہ ہمارا باغ نہیں ہے)،
اب جو باغ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم تو بہک گئے
جب انہوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے
اور جب باغ کو (برباد) دیکھا تو کہا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔
بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ﴿٢٧﴾
بلکہ ہم تو بدنصیب ہیں
نہیں، بلکہ ہم محروم رہ گئے\"
بلکہ ہم بے نصیب ہوئے
نہیں بلکہ ہم (برگشتہ نصیب) بےنصیب ہیں
(جب غور سے دیکھا تو پکار اٹھے: نہیں نہیں،) بلکہ ہم تو محروم ہو گئے ہیں،
بلکہ بالکل سے محروم ہوگئے
نہیں نہیں بلکہ ہماری قسمت پھوٹ گئی
بلکہ ہم محروم ہو گئے ہیں۔
قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ ﴿٢٨﴾
پھر ان میں سے اچھے آدمی نے کہا کیامیں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم کس لیے تسبیح نہیں کرتے
اُن میں جو سب سے بہتر آدمی تھا اُس نے کہا \"میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟\"
ان میں جو سب سے غنیمت تھا بولا کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ تسبیح کیوں نہیں کرتے
ایک جو اُن میں فرزانہ تھا بولا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟
ان کے ایک عدل پسند زِیرک شخص نے کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم (اللہ کا) ذِکر و تسبیح کیوں نہیں کرتے،
تو ان کے منصف مزاج نے کہا کہ میں نے نہ کہا تھا کہ تم لوگ تسبیح پروردگار کیوں نہیں کرتے
ان سب میں جو بہتر تھا اس نے کہا کہ میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے؟
جو ان میں سے بہتر آدمی تھا اس نے کہا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ (خدا کی) تسبیح کیوں نہیں کرتے؟
قَالُوا۟ سُبْحَٰنَ رَبِّنَآ إِنَّا كُنَّا ظَٰلِمِينَ ﴿٢٩﴾
انہوں نے کہا ہمارا رب پاک ہے بے شک ہم ظالم تھے
و ہ پکار اٹھے پاک ہے ہمارا رب، واقعی ہم گناہ گار تھے
بولے پاکی ہے ہمارے رب کو بیشک ہم ظالم تھے،
(تب) وہ کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار پاک ہے بےشک ہم ہی قصوروار تھے
(تب) وہ کہنے لگے کہ ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہم ہی ظالم تھے،
کہنے لگے کہ ہمارا رب پاک و بے نیاز ہے اور ہم واقعا ظالم تھے
تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ﻇالم تھے
(تب) انہوں نے کہا کہ پاک ہے ہمارا پروردگار بےشک ہم ظالم تھے۔
فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۢ يَتَلَٰوَمُونَ ﴿٣٠﴾
پھر ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر آپس میں ملامت کرنے لگے
پھر اُن میں سے ہر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگا
اب ایک دوسرے کی طرف ملامت کرتا متوجہ ہوا
پھر لگے ایک دوسرے کو رو در رو ملامت کرنے
سو وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم ملامت کرنے لگے،
پھر ایک نے دوسرے کو ملامت کرنا شروع کردی
پھر وه ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے آپس میں ملامت کرنے لگے
پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم لعنت ملامت کرنے لگے۔
قَالُوا۟ يَٰوَيْلَنَآ إِنَّا كُنَّا طَٰغِينَ ﴿٣١﴾
انہوں نے کہا ہائے افسوس بے شک ہم سرکش تھے
آخر کو انہوں نے کہا \"افسوس ہمارے حال پر، بے شک ہم سرکش ہو گئے تھے
بولے ہائے خرابی ہماری بیشک ہم سرکش تھے
کہنے لگے ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے
کہنے لگے: ہائے ہماری شامت! بے شک ہم ہی سرکش و باغی تھے،
کہنے لگے کہ افسوس ہم بالکل سرکش تھے
کہنے لگے ہائے افسوس! یقیناً ہم سرکش تھے
(اور) کہنے لگے وائے ہو ہم پر! بےشک ہم سرکش ہو گئے تھے۔
عَسَىٰ رَبُّنَآ أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًۭا مِّنْهَآ إِنَّآ إِلَىٰ رَبِّنَا رَٰغِبُونَ ﴿٣٢﴾
شاید ہمارا رب ہمارے لیے اس سے بہتر باغ بدل دے بے شک ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے ہیں
بعید نہیں کہ ہمارا رب ہمیں بدلے میں اِس سے بہتر باغ عطا فرمائے، ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں\"
امید ہے ہمیں ہمارا رب اس سے بہتر بدل دے ہم اپنے رب کی طرف رغبت لاتے ہیں
امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے ہم اپنے پروردگار کی طرف سے رجوع لاتے ہیں
امید ہے ہمارا رب ہمیں اس کے بدلہ میں اس سے بہتر دے گا، بے شک ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں،
شائد ہمارا پروردگار ہمیں اس سے بہتر دے دے کہ ہم اس کی طرف رغبت کرنے والے ہیں
کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے دے ہم تو اب اپنے رب سے ہی آرزو رکھتے ہیں
امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہمیں اس (باغ) کے بدلے اس سے بہتر باغ عطا کر دے ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
كَذَٰلِكَ ٱلْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ ٱلْءَاخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ﴿٣٣﴾
عذاب یونہی ہوا کرتا ہے اور البتہ آخرت کا عذاب تو کہیں بڑھ کر ہے کاش وہ جانتے
ایسا ہوتا ہے عذاب اور آخرت کا عذاب اِس سے بھی بڑا ہے، کاش یہ لوگ اِس کو جانتے
مار ایسی ہوتی ہے اور بیشک آخرت کی مار سب سے بڑی، کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے
(دیکھو) عذاب یوں ہوتا ہے۔ اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش! یہ لوگ جانتے ہوتے
عذاب اسی طرح ہوتا ہے، اور واقعی آخرت کا عذاب (اِس سے) کہیں بڑھ کر ہے، کاش! وہ لوگ جانتے ہوتے،
اسی طرح عذاب نازل ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب تو اس سے بڑا ہے اگر انہیں علم ہو
یوں ہی آفت آتی ہے اور آخرت کی آفت بہت بڑی ہے۔ کاش انہیں سمجھ ہوتی
اسی طرح عذاب آتا ہے اور آخرت کا عذاب تو (اس سے بھی) بہت بڑا ہے کاش کہ یہ لوگ جانتے۔
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّٰتِ ٱلنَّعِيمِ ﴿٣٤﴾
بے شک پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے ہاں نعمت کے باغ ہیں
یقیناً خدا ترس لوگوں کے لیے اُن کے رب کے ہاں نعمت بھری جنتیں ہیں
بیشک ڈر والوں کے لیے ان کے رب کے پاس چین کے باغ ہیں
پرہیزگاروں کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں نعمت کے باغ ہیں
بے شک پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والے باغات ہیں،
بیشک صاحبانِ تقویٰ کے لئے پروردگار کے یہاں نعمتوں کی جنّت ہے
پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں
بےشک پرہیزگاروں کیلئے ان کے پروردگار کے ہاں نعمت و آسائش کے باغات ہیں۔
أَفَنَجْعَلُ ٱلْمُسْلِمِينَ كَٱلْمُجْرِمِينَ ﴿٣٥﴾
پس کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح کر دیں گے
کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں کا سا کر دیں؟
کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کا سا کردیں
کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کی طرف (نعمتوں سے) محروم کردیں گے؟
کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح (محروم) کر دیں گے،
کیا ہم اطاعت گزار وں کو مجرموں جیسا بنا دیں
کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناه گاروں کے کردیں گے
کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی مانند کر دیں گے؟
مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿٣٦﴾
تمہیں کیا ہوگیا کیسا فیصلہ کر رہے ہو
تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، تم کیسے حکم لگاتے ہو؟
تمہیں کیا ہوا کیسا حکم لگاتے ہو
تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی تجویزیں کرتے ہو؟
تمہیں کیا ہو گیا ہے، کیا فیصلہ کرتے ہو،
تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسا فیصلہ کر رہے ہو
تمہیں کیا ہوگیا، کیسے فیصلے کر رہے ہو؟
تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟
أَمْ لَكُمْ كِتَٰبٌۭ فِيهِ تَدْرُسُونَ ﴿٣٧﴾
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ پڑھتے ہو
کیا تمہارے لیے کوئی کتاب ہے اس میں پڑھتے ہو،
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں (یہ) پڑھتے ہو
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم (یہ) پڑھتے ہو،
یا تمہاری کوئی کتاب ہے جس میں یہ سب پڑھا کرتے ہو
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟
کیا تمہارے پاس کوئی (آسمانی) کتاب ہے جس میں تم (یہ) پڑھتے ہو؟
إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ ﴿٣٨﴾
کہ بے شک تمہیں آخرت میں ملے گا جو تم پسند کرتے ہو
کہ تمہارے لیے ضرور وہاں وہی کچھ ہے جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو؟
کہ تمہارے لیے اس میں جو تم پسند کرو،
کہ جو چیز تم پسند کرو گے وہ تم کو ضرور ملے گی
کہ تمہارے لئے اس میں وہ کچھ ہے جو تم پسند کرتے ہو،
کہ وہاں تمہاری پسند کی ساری چیزیں حاضر ملیں گی
کہ اس میں تمہاری من مانی باتیں ہوں؟
کہ تمہارے لئے اس میں وہ کچھ ہے جو تم پسند کرتے ہو؟
أَمْ لَكُمْ أَيْمَٰنٌ عَلَيْنَا بَٰلِغَةٌ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۙ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ ﴿٣٩﴾
کیا تمہارے لیے ہم نے قسمیں کھا لی ہیں جو قیامت تک چلی جائيں گی کہ بے شک تمہیں وہی ملے گا جو تم حکم کرو گے
یا پھر کیا تمہارے لیے روز قیامت تک ہم پر کچھ عہد و پیمان ثابت ہیں کہ تمہیں وہی کچھ ملے گا جس کا تم حکم لگاؤ؟
یا تمہارے لیے ہم پر کچھ قسمیں ہیں قیامت تک پہنچتی ہوئی کہ تمہیں ملے گا جو کچھ دعویٰ کرتے ہو
یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن تک چلی جائیں گی کہ جس شے کا تم حکم کرو گے وہ تمہارے لئے حاضر ہوگی
یا تمہارے لئے ہمارے ذِمّہ کچھ (ایسے) پختہ عہد و پیمان ہیں جو روزِ قیامت تک باقی رہیں (جن کے ذریعے ہم پابند ہوں) کہ تمہارے لئے وہی کچھ ہوگا جس کا تم (اپنے حق میں) فیصلہ کرو گے،
یا تم نے ہم سے روزِ قیامت تک کی قسمیں لے رکھی ہیں کہ تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جس کا تم فیصلہ کرو گے
یا تم نے ہم سے کچھ قسمیں لی ہیں؟ جو قیامت تک باقی رہیں کہ تمہارے لیے وه سب ہے جو تم اپنی طرف سے مقرر کر لو
یا کیا تم نے ہم سے کچھ قَسمیں لی ہیں کہ قیامت میں تمہارے لئے وہی کچھ ہے جس کا تم حکم لگاؤ گے (فیصلہ کرو گے؟)
سَلْهُمْ أَيُّهُم بِذَٰلِكَ زَعِيمٌ ﴿٤٠﴾
ان سے پوچھیئے کون سا ان میں اس بات کا ذمہ دار ہے
اِن سے پوچھو تم میں سے کون اِس کا ضامن ہے؟
تم ان سے پوچھو ان میں کون سا اس کا ضامن ہے
ان سے پوچھو کہ ان میں سے اس کا کون ذمہ لیتا ہے؟
ان سے پوچھئے کہ ان میں سے کون اس (قسم کی بے ہودہ بات) کا ذِمّہ دار ہے،
ان سے پوچھئے کہ ان سب باتوں کا ذمہ دار کون ہے
ان سے پوچھو تو کہ ان میں سے کون اس بات کا ذمہدار (اور دعویدار) ہے؟
ان سے پوچھئے کہ ان میں سے کون ان (بےبنیاد باتوں) کا ضامن ہے؟
أَمْ لَهُمْ شُرَكَآءُ فَلْيَأْتُوا۟ بِشُرَكَآئِهِمْ إِن كَانُوا۟ صَٰدِقِينَ ﴿٤١﴾
کیا ان کے معبود ہیں پھر اپنے معبودوں کو لے آئيں اگر وہ سچے ہیں
یا پھر اِن کے ٹھیرائے ہوئے کچھ شریک ہیں (جنہوں نے اِس کا ذمہ لیا ہو)؟ یہ بات ہے تو لائیں اپنے شریکوں کو اگر یہ سچے ہیں
یا ان کے پاس کچھ شریک ہیں تو اپنے شریکوں کو لے کر آئیں اگر سچے ہیں
کیا (اس قول میں) ان کے اور بھی شریک ہیں؟ اگر یہ سچے ہیں تو اپنے شریکوں کو لا سامنے کریں
یا ان کے کچھ اور شریک (بھی) ہیں؟ تو انہیں چاہئے کہ اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر وہ سچے ہیں،
یا ان کے لئے شرکائ ہیں تو اگر یہ سچے ہیں تو اپنے شرکائ کو لے آئیں
کیا ان کے کوئی شریک ہیں؟ تو چاہئے کہ اپنے اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر یہ سچے ہیں
یا انکے کچھ آدمی (ہمارے) شریک ہیں؟ تو اگر وہ سچے ہیں تو پھر اپنے وہ شریک پیش کریں۔
يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍۢ وَيُدْعَوْنَ إِلَى ٱلسُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ ﴿٤٢﴾
جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدہ کرنے کو بلائے جائیں گے تو وہ نہ کر سکیں گے
جس روز سخت وقت آ پڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے
جس دن ایک ساق کھولی جائے گی (جس کے معنی اللہ ہی جانتا ہے) اور سجدہ کو بلائے جائیں گے تو نہ کرسکیں گے
جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائے گا اور کفار سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے
جس دن ساق (یعنی اَحوالِ قیامت کی ہولناک شدت) سے پردہ اٹھایا جائے گا اور وہ (نافرمان) لوگ سجدہ کے لئے بلائے جائیں گے تو وہ (سجدہ) نہ کر سکیں گے،
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور انہیں سجدوں کی دعوت دی جائے گی اور یہ سجدہ بھی نہ کرسکیں گے
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو (سجده) نہ کر سکیں گے
(وہ دن یاد کرنے کے لائق ہے) جب پنڈلی کھولی جائے گی (یعنی سخت وقت ہوگا) اور ان (کافروں) کو سجدہ کیلئے بلایا جائے گا تو (اس وقت) وہ سجدہ نہیں کر سکیں گے۔
خَٰشِعَةً أَبْصَٰرُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌۭ ۖ وَقَدْ كَانُوا۟ يُدْعَوْنَ إِلَى ٱلسُّجُودِ وَهُمْ سَٰلِمُونَ ﴿٤٣﴾
ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی ان پر ذلت چھا رہی ہو گی اوروہ پہلے (دنیا میں) سجدہ کے لیے بلائے جاتے تھے حالانکہ وہ صحیح سالم ہوتے تھے
اِن کی نگاہیں نیچی ہوں گی، ذلت اِن پر چھا رہی ہوگی یہ جب صحیح و سالم تھے اُس وقت اِنہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا (اور یہ انکار کرتے تھے)
نیچی نگاہیں کیے ہوئے ان پر خواری چڑھ رہی ہوگی، اور بیشک دنیا میں سجدہ کے لیے بلائے جاتے تھے جب تندرست تھے
ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی حالانکہ پہلے (اُس وقت) سجدے کے لئے بلاتے جاتے تھے جب کہ صحیح وسالم تھے
ان کی آنکھیں (ہیبت اور ندامت کے باعث) جھکی ہوئی ہوں گی (اور) ان پر ذِلت چھا رہی ہوگی، حالانکہ وہ (دنیا میں بھی) سجدہ کے لئے بلائے جاتے تھے جبکہ وہ تندرست تھے (مگر پھر بھی سجدہ کے اِنکاری تھے)،
ان کی نگاہیں شرم سے جھکی ہوں گی ذلّت ان پر چھائی ہوگی اور انہیں اس وقت بھی سجدوں کی دعوت دی جارہی تھی جب یہ بالکل صحیح و سالم تھے
نگاہیں نیچی ہوں گی اور ان پر ذلت و خواری چھارہی ہوگی، حاﻻنکہ یہ سجدے کے لیے (اس وقت بھی) بلائے جاتے تھے جب کہ صحیح سالم تھے
ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی (اور) ان پر ذلت چھائی ہوگی حالانکہ انہیں اس وقت (بھی دنیا میں) سجدہ کی دعوت دی جاتی تھی جب وہ صحیح و سالم تھے۔
فَذَرْنِى وَمَن يُكَذِّبُ بِهَٰذَا ٱلْحَدِيثِ ۖ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٤٤﴾
پس مجھے اور اس کلام کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دو ہم انہیں بتدریج (جہنم کی طرف) لے جائے گے اس طور پر کہ انہیں خبر بھی نہیں ہو گی
پس اے نبیؐ، تم اِس کلام کے جھٹلانے والوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو ہم ایسے طریقہ سے اِن کو بتدریج تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ اِن کو خبر بھی نہ ہوگی
تو جو اس بات کو جھٹلاتا ہے اسے مجھ پر چھوڑ دو قریب ہے کہ ہم انہیں آہستہ آہستہ لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر نہ ہوگی،
تو مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دو۔ ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی
پس (اے حبیبِ مکرم!) آپ مجھے اور اس شخص کو جو اس کلام کو جھٹلاتا ہے (اِنتقام کے لئے) چھوڑ دیں، اب ہم انہیں آہستہ آہستہ (تباہی کی طرف) اس طرح لے جائیں گے کہ انہیں معلوم تک نہ ہوگا،
تو اب مجھے اور اس بات کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دو ہم عنقریب انہیں اس طرح گرفتار کریں گے کہ انہیں اندازہ بھی نہ ہوگا
پس مجھے اور اس کلام کو جھٹلانے والے کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح آہستہ آہستہ کھینچیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا
پس (اے رسول(ص)) آپ(ص) مجھے اور اس کو چھوڑ دیں جو اس کتاب کو جھٹلاتا ہے ہم انہیں اس طرح بتدریج تباہی کی طرف لے جائیںگے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔
وَأُمْلِى لَهُمْ ۚ إِنَّ كَيْدِى مَتِينٌ ﴿٤٥﴾
اور ہم انکو ڈھیل دیتے ہیں بے شک ہماری تدبیر زبردست ہے
میں اِن کی رسی دراز کر رہا ہوں، میری چال بڑی زبردست ہے
اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، بیشک میری خفیہ تدبیر بہت پکی ہے
اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں میری تدبیر قوی ہے
اور میں اُنہیں مہلت دے رہا ہوں، بے شک میری تدبیر بہت مضبوط ہے،
اور ہم تو اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں کہ ہماری تدبیر مضبوط ہے
اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، بیشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے
اور میں انہیں مہلت دے رہا ہوں۔ بےشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔
أَمْ تَسْـَٔلُهُمْ أَجْرًۭا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍۢ مُّثْقَلُونَ ﴿٤٦﴾
کیا آپ ان سے کچھ اجرت مانگتے ہیں کہ جس کا تاوان کا ان پر بوجھ پڑ رہا ہے
کیا تم اِن سے کوئی اجر طلب کر رہے ہو کہ یہ اس چٹی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہوں؟
یا تم ان سے اجرت مانگتے ہو کہ وہ چٹی کے بوجھ میں دبے ہیں
کیا تم ان سے کچھ اجر مانگتے ہو کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے
کیا آپ ان سے (تبلیغِ رسالت پر) کوئی معاوضہ مانگ رہے ہیں کہ وہ تاوان (کے بوجھ) سے دبے جا رہے ہیں،
کیا آپ ان سے مزدوری مانگ رہے ہیں جو یہ اس کے تاوان کے بوجھ سے دبے جارہے ہیں
کیا تو ان سے کوئی اجرت چاہتا ہے جس کے تاوان سے یہ دبے جاتے ہیں
کیا آپ(ص) ان سے کوئی اجرت طلب کرتے ہیں کہ وہ اس تاوان کے بوجھ تلے دبےجاتے ہیں؟
أَمْ عِندَهُمُ ٱلْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ ﴿٤٧﴾
یا ان کے پاس غیب کی خبر ہے کہ وہ اسے لکھ لیتے ہیں
کیا اِن کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں؟
یا ان کے پاس غیب ہے کہ وہ لکھ رہے ہیں
یا ان کے پاس غیب کی خبر ہے کہ (اسے) لکھتے جاتے ہیں
کیا ان کے پاس علمِ غیب ہے کہ وہ (اس کی بنیاد پر اپنے فیصلے) لکھتے ہیں،
یا ان کے پاس کوئی غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں
یا کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے وه لکھتے ہوں
یا کیا ان کے پاس غیب ہے سو جسے وہ لکھ رہے ہیں؟
فَٱصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ ٱلْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌۭ ﴿٤٨﴾
پھر آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کریں اور مچھلی والے جیسے نہ ہوجائیں جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا اور وہ بہت ہی غمگین تھا
پس اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو اور مچھلی والے (یونس علیہ اسلام) کی طرح نہ ہو جاؤ، جب اُس نے پکارا تھا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
تو تم اپنے رب کے حکم کا انتظار کر و اور اس مچھلی والے کی طرح نہ ہونا جب اس حال میں پکارا کہ اس کا دل گھٹ رہا تھا
تو اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو اور مچھلی (کا لقمہ ہونے) والے یونس کی طرح رہو نا کہ انہوں نے (خدا) کو پکارا اور وہ (غم و) غصے میں بھرے ہوئے تھے
پس آپ اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر فرمائیے اور مچھلی والے (پیغمبر یونس علیہ السلام) کی طرح (دل گرفتہ) نہ ہوں، جب انہوں نے (اللہ کو) پکارا اس حال میں کہ وہ (اپنی قوم پر) غم و غصہ سے بھرے ہوئے تھے،
اب آپ اپنے پروردگار کے حکم کے لئے صبر کریں اور صاحب هحوت جیسے نہ ہوجائیں جب انہوں نے نہایت غصّہ کے عالم میں آواز دی تھی
پس تو اپنے رب کے حکم کا صبر سے (انتظار کر) اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جا جب کہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی
پس آپ(ص) اپنے پروردگار کے فیصلے تک صبر کریں اور مچھلی والے (جنابِ یونس(ع)) کی طرح نہ ہوں جب انہوں نے اس حال میں (اپنے پروردگار کو) پکارا کہ وہ غم و غصہ سے بھرے ہوۓ تھے (یا مغموم تھے)۔
لَّوْلَآ أَن تَدَٰرَكَهُۥ نِعْمَةٌۭ مِّن رَّبِّهِۦ لَنُبِذَ بِٱلْعَرَآءِ وَهُوَ مَذْمُومٌۭ ﴿٤٩﴾
اگر اس کے رب کی رحمت اسے نہ سنبھال لیتی تو وہ برے حال سے چٹیل میدان میں پھینکا جاتا
اگر اس کے رب کی مہربانی اُس کے شامل حال نہ ہو جاتی تو وہ مذموم ہو کر چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا
اگر اس کے رب کی نعمت اس کی خبر کو نہ پہنچ جاتی تو ضرور میدان پر پھینک دیا جاتا الزام دیا ہوا
اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے اور ان کا حال ابتر ہوجاتا
اگر ان کے رب کی رحمت و نعمت ان کی دستگیری نہ کرتی تو وہ ضرور چٹیل میدان میں پھینک دئیے جاتے اور وہ ملامت زدہ ہوتے (مگر اللہ نے انہیں ا س سے محفوط رکھا)،
کہ اگر انہیں نعمت پروردگار نے سنبھال نہ لیا ہوتا تو انہیں چٹیل میدان میں برے حالوں میں چھوڑ دیا جاتا
اگر اسے اس کے رب کی نعمت نہ پالیتی تو یقیناً وه برے حالوں میں چٹیل میدان میں ڈال دیا جاتا
اگر ان کے پروردگار کا فضل و کرم ان کے شاملِ حال نہ ہوتا تو انہیں اس حال میں چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتا کہ وہ مذموم ہوتے۔
فَٱجْتَبَٰهُ رَبُّهُۥ فَجَعَلَهُۥ مِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ﴿٥٠﴾
پس اسے اس کے رب نے نوازا پھر اسے نیک بختو ں میں کر دیا
آخرکار اُس کے رب نے اسے برگزیدہ فرما لیا اور اِسے صالح بندوں میں شامل کر دیا
تو اسے اس کے رب نے چن لیا اور اپنے قربِ خاص کے سزاواروں (حقداروں) میں کرلیا،
پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کرکے نیکوکاروں میں کرلیا
پھر ان کے رب نے انہیں برگزیدہ بنا لیا اور انہیں (اپنے قربِ خاص سے نواز کر) کامل نیکو کاروں میں (شامل) فرما دیا،
پھر ان کے رب نے انہیں منتخب کرکے نیک کرداروں میں قرار دے دیا
اسے اس کے رب نے پھر نوازا اور اسے نیک کاروں میں کر دیا
مگر ان کے پروردگار نے انہیں منتخب کر لیا اور انہیں (اپنے) نیکوکار بندوں سے بنا دیا۔
وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَٰرِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا۟ ٱلذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُۥ لَمَجْنُونٌۭ ﴿٥١﴾
اور بالکل قریب تھا کہ کافر آپ کو اپنی تیز نگاہوں سے پھسلا دیں جب کہ انہوں نے قرآن سنا اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے
جب یہ کافر لوگ کلام نصیحت (قرآن) سنتے ہیں تو تمہیں ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ گویا تمہارے قدم اکھاڑ دیں گے، اور کہتے ہیں یہ ضرور دیوانہ ہے
اور ضرور کافر تو ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا اپنی بد نظر لگا کر تمہیں گرادیں گے جب قرآن سنتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ضرور عقل سے دور ہیں،
اور کافر جب (یہ) نصیحت (کی کتاب) سنتے ہیں تو یوں لگتے ہیں کہ تم کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں گے اور کہتے یہ تو دیوانہ ہے
اور بے شک کافر لوگ جب قرآن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ آپ کو اپنی (حاسدانہ بد) نظروں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے،
اور یہ کفاّر قرآن کو سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ عنقریب آپ کو نظروں سے پھسلادیں گے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانے ہیں
اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں، جب کبھی قرآن سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے
اور جب کافر ذکر (قرآن) سنتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی (تیز و تند) نظروں سے آپ(ص) کو (راہِ راست) سے پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ ضرور دیوانہ ہے۔
وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌۭ لِّلْعَٰلَمِينَ ﴿٥٢﴾
اور حالانکہ یہ قرآن تمام دنیا کے لیے صرف نصیحت ہے
حالانکہ یہ تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے
اور وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہاں کے لیے
اور (لوگو) یہ (قرآن) اہل عالم کے لئے نصیحت ہے
اور وہ (قرآن) تو سارے جہانوں کے لئے نصیحت ہے،
حالانکہ یہ قرآن عالمین کے لئے نصیحت ہے اور بس
در حقیقت یہ (قرآن) تو تمام جہان والوں کے لیے سراسر نصیحت ہی ہے
حالانکہ وہ (قرآن) تو تمام جہانوں کیلئے نصیحت ہے۔