Setting
Surah The cloaked one [Al-Muddathir] in Urdu
يَٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾
اے کپڑے میں لپٹنے والے
اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے
اے بالا پوش اوڑھنے والے!
اے (محمدﷺ) جو کپڑا لپیٹے پڑے ہو
اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)،
اے میرے کپڑا اوڑھنے والے
اے کپڑا اوڑھنے والے
اے چادر اوڑھنے والے (رسول(ص))۔
قُمْ فَأَنذِرْ ﴿٢﴾
اٹھو پھر (کافروں کو) ڈراؤ
اٹھو اور خبردار کرو
کھڑے ہوجاؤ پھر ڈر سناؤ
اُٹھو اور ہدایت کرو
اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں،
اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ
کھڑا ہوجا اور آگاه کردے
اٹھئے اور (لوگوں کو عذابِ الٰہی) سے ڈرائیے۔
وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ﴿٣﴾
اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو
اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو
اور اپنے رب ہی کی بڑائی بولو
اور اپنے پروردگار کی بڑائی کرو
اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں،
اور اپنے رب کی بزرگی کا اعلان کرو
اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر
اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے۔
وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴿٤﴾
اور اپنے کپڑے پاک رکھو
اور اپنے کپڑے پاک رکھو
اور اپنے کپڑے پاک رکھو
اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو
اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں،
اور اپنے لباس کو پاکیزہ رکھو
اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر
اور اپنے کپڑے پاک رکھئے۔
وَٱلرُّجْزَ فَٱهْجُرْ ﴿٥﴾
اورمیل کچیل دور کرو
اور گندگی سے دور رہو
اور بتوں سے دور رہو،
اور ناپاکی سے دور رہو
اور (حسبِ سابق گناہوں اور) بتوں سے الگ رہیں،
اور برائیوں سے پرہیز کرو
ناپاکی کو چھوڑ دے
اور (بتوں کی) نجاست سے دور رہیے۔
وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ ﴿٦﴾
اوربدلہ پانے کی غرض سے احسان نہ کرو
اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے
اور زیادہ لینے کی نیت سے کسی پر احسان نہ کرو
اور (اس نیت سے) احسان نہ کرو کہ اس سے زیادہ کے طالب ہو
اور (اس غرض سے کسی پر) احسان نہ کریں کہ اس سے زیادہ کے طالب ہوں،
اور اس طرح احسان نہ کرو کہ زیادہ کے طلب گار بن جاؤ
اور احسان کرکے زیاده لینے کی خواہش نہ کر
اور (کسی پر) احسان نہ کیجئے زیادہ حاصل کرنے کیلئے۔
وَلِرَبِّكَ فَٱصْبِرْ ﴿٧﴾
اوراپنے رب کے لیے صبر کرو
اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو
اور اپنے رب کے لیے صبر کیے رہو
اور اپنے پروردگار کے لئے صبر کرو
اور آپ اپنے رب کے لئے صبر کیا کریں،
اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو
اور اپنے رب کی راه میں صبر کر
اور اپنے پروردگار کیلئے صبر کیجئے۔
فَإِذَا نُقِرَ فِى ٱلنَّاقُورِ ﴿٨﴾
پھر جب صور میں پھونکا جائے گا
اچھا، جب صور میں پھونک ماری جائے گی
پھر جب صور پھونکا جائے گا
جب صور پھونکا جائے گا
پھر جب (دوبارہ) صور میں پھونک ماری جائے گی،
پھر جب صور پھونکا جائے گا
پس جب کہ صور میں پھونک ماری جائے گی
اور جب صور پھونکا جائے گا۔
فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍۢ يَوْمٌ عَسِيرٌ ﴿٩﴾
پس وہ اس دن بڑا کٹھن دن ہو گا
وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا
تو وہ دن کڑا (سخت) دن ہے،
وہ دن کا مشکل دن ہوگا
سو وہ دن (یعنی روزِ قیامت) بڑا ہی سخت دن ہوگا،
تو وہ دن انتہائی مشکل دن ہوگا
تو وه دن بڑا سخت دن ہوگا
تو وہ دن بڑا سخت دن ہوگا۔
عَلَى ٱلْكَٰفِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍۢ ﴿١٠﴾
کافروں پر وہ آسان نہ ہو گا
کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا
کافروں پر آسان نہیں
(یعنی) کافروں پر آسان نہ ہوگا
کافروں پر ہرگز آسان نہ ہوگا،
کافروں کے واسطے تو ہر گز آسان نہ ہوگا
جو کافروں پر آسان نہ ہوگا
اور کافروں پر آسان نہ ہوگا۔
ذَرْنِى وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًۭا ﴿١١﴾
مجھے اور اس کو چھوڑ دو کہ جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا
چھوڑ دو مجھے اور اُس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے
اسے مجھ پر چھوڑ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا
ہمیں اس شخص سے سمجھ لینے دو جس کو ہم نے اکیلا پیدا کیا
آپ مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا (اِنتقام لینے کے لئے) چھوڑ دیں،
اب مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جس کو میں نے اکیلا پیدا کیا ہے
مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے
مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دیجئے جسے میں نے تنہا پیدا کیا۔
وَجَعَلْتُ لَهُۥ مَالًۭا مَّمْدُودًۭا ﴿١٢﴾
اوراس کوبڑھنے والا مال دیا
بہت سا مال اُس کو دیا
اور اسے وسیع مال دیا
اور مال کثیر دیا
اور میں نے اسے بہت وسیع مال مہیا کیا تھا،
اور اس کے لئے کثیر مال قرار دیا ہے
اور اسے بہت سا مال دے رکھا ہے
اور اسے پھیلا ہوا (فراواں) مال و زر دیا۔
وَبَنِينَ شُهُودًۭا ﴿١٣﴾
اور حاضر رہنے والے بیٹے دیئے
اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے
اور بیٹے دیے سامنے حاضر رہتے
اور (ہر وقت اس کے پاس) حاضر رہنے والے بیٹے دیئے
اور (اس کے سامنے) حاضر رہنے والے بیٹے (دئیے) تھے،
اور نگاہ کے سامنے رہنے والے بیٹے قرار دیئے ہیں
اور حاضر باش فرزند بھی
اور پاس حاضر رہنے والے بیٹے دے۔
وَمَهَّدتُّ لَهُۥ تَمْهِيدًۭا ﴿١٤﴾
اور اس کے لیے ہر طرح کا سامان تیار کر دیا
اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی
اور میں نے اس کے لیے طرح طرح کی تیاریاں کیں
اور ہر طرح کے سامان میں وسعت دی
اور میں نے اسے (سامانِ عیش و عشرت میں) خوب وُسعت دی تھی،
اور ہر طرح کے سامان میں وسعت دے دی ہے
اور میں نے اسے بہت کچھ کشادگی دے رکھی ہے
اور اس کیلئے (سرداری کا) ہر قِسم کا سامان مہیا کیا۔
ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ ﴿١٥﴾
پھر وہ طمع کرتا ہے کہ میں اور بڑھا دوں
پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں
پھر یہ طمع کرتا ہے کہ میں اور زیادہ دوں
ابھی خواہش رکھتا ہے کہ اور زیادہ دیں
پھر (بھی) وہ حرص رکھتا ہے کہ میں اور زیادہ کروں،
اور پھر بھی چاہتا ہے کہ اور اضافہ کردوں
پھر بھی اس کی چاہت ہے کہ میں اسے اور زیاده دوں
پھر بھی وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے زیادہ دوں۔
كَلَّآ ۖ إِنَّهُۥ كَانَ لِءَايَٰتِنَا عَنِيدًۭا ﴿١٦﴾
ہرگز نہیں بےشک وہ ہماری آیات کا سخت مخالف ہے
ہرگز نہیں، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے
ہرگز نہیں وہ تو میری آیتوں سے عناد رکھتا ہے،
ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ ہماری آیتیں کا دشمن رہا ہے
ہرگز (ایسا) نہ ہوگا، بے شک وہ ہماری آیتوں کا دشمن رہا ہے،
ہرگز نہیں یہ ہماری نشانیوں کا سخت دشمن تھا
نہیں نہیں، وه ہماری آیتوں کا مخالف ہے
ہرگز نہیں وہ تو ہماری آیتوں کا سخت مخالف ہے۔
سَأُرْهِقُهُۥ صَعُودًا ﴿١٧﴾
عنقریب میں اسے اونچی گھاٹی پر چڑھاؤں گا
میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواؤں گا
قریب ہے کہ میں اسے آگ کے پہاڑ صعود پر چڑھاؤں،
ہم اسے صعود پر چڑھائیں گے
عنقریب میں اسے سخت مشقت (کے عذاب) کی تکلیف دوں گا،
تو ہم عنقریب اسے سخت عذاب میں گرفتار کریں گے
عنقریب میں اسے ایک سخت چڑھائی چڑھاؤں گا
میں عنقریب (دوزخ کی) ایک سخت چڑھائی پر اسے چڑھا دوں گا۔
إِنَّهُۥ فَكَّرَ وَقَدَّرَ ﴿١٨﴾
بے شک اس نے سوچا اور اندازہ لگایا
اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی
بیشک وہ سوچا اور دل میں کچھ بات ٹھہرائی
اس نے فکر کیا اور تجویز کی
بے شک اس نے سوچ بچار کی اور (دِل میں) ایک تجویز مقرر کر لی،
اس نے فکر کی اور اندازہ لگایا
اس نے غور کرکے تجویز کی
اس نے سوچا اور ایک بات تجویز کی۔
فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿١٩﴾
پھر اسے الله کی مار اس نے کیسا اندازہ لگایا
تو خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی
تو اس پر لعنت ہو کیسی ٹھہرائی،
یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی
بس اس پر (اللہ کی) مار (یعنی لعنت) ہو، اس نے کیسی تجویز کی،
تو اسی میں مارا گیا کہ کیسا اندازہ لگایا
اسے ہلاکت ہو کیسی (تجویز) سوچی؟
سو وہ غارت ہو اس نے کیسی بات تجویز کی؟
ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿٢٠﴾
پھر اسے الله کی مار اس نے کیسا اندازہ لگایا
ہاں، خدا کی مار اُس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی
پھر اس پر لعنت ہو کیسی ٹھہرائی،
پھر یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی
اس پر پھر (اللہ کی) مار (یعنی لعنت) ہو، اس نے کیسی تجویز کی،
پھر اسی میں اور تباہ ہوگیا کہ کیسا اندازہ لگایا
وه پھر غارت ہو کس طرح اندازه کیا
پھر وہ غارت ہو اس نے کیسی بات تجویز کی؟
ثُمَّ نَظَرَ ﴿٢١﴾
پھر اس نے دیکھا
پھر (لوگوں کی طرف) دیکھا
پھر نظر اٹھا کر دیکھا،
پھر تامل کیا
پھر اس نے (اپنی تجویز پر دوبارہ) غور کیا،
پھر غور کیا
اس نے پھر دیکھا
پھر اس نے دیکھا۔
ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ﴿٢٢﴾
پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بنایا
پھر پیشانی سیکڑی اور منہ بنایا
پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا،
پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑ لیا
پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا،
پھر تیوری چڑھا کر منہ بسور لیا
پھر تیوری چڑھائی اور منھ بنایا
پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بنایا۔
ثُمَّ أَدْبَرَ وَٱسْتَكْبَرَ ﴿٢٣﴾
پھر پیٹھ پھیر لی اور تکبر کیا
پھر پلٹا اور تکبر میں پڑ گیا
پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا،
پھر پشت پھیر کر چلا اور (قبول حق سے) غرور کیا
پھر (حق سے) پیٹھ پھیر لی اور تکبّر کیا،
پھر منہ پھیر کر چلا گیا اور اکڑ گیا
پھر پیچھے ہٹ گیا اور غرور کیا
پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا۔
فَقَالَ إِنْ هَٰذَآ إِلَّا سِحْرٌۭ يُؤْثَرُ ﴿٢٤﴾
پھر کہا یہ تو ایک جادو ہے جو چلا آتا ہے
آخرکار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلا آ رہا ہے
پھر بولا یہ تو وہی جادو ہے اگلوں سے سیکھا،
پھر کہنے لگا کہ یہ تو جادو ہے جو (اگلوں سے) منتقل ہوتا آیا ہے
پھر کہنے لگا کہ یہ (قرآن) جادو کے سوا کچھ نہیں جو (اگلے جادوگروں سے) نقل ہوتا چلا آرہا ہے،
اور آخر میں کہنے لگا کہ یہ تو ایک جادو ہے جو پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے
اور کہنے لگا تو یہ صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے
پھر کہا کہ یہ تو محض جادو ہے جو پہلوں سے نقل ہوتا ہوا آرہا ہے۔
إِنْ هَٰذَآ إِلَّا قَوْلُ ٱلْبَشَرِ ﴿٢٥﴾
یہ تو ہو نہ ہو آدمی کا کلام ہے
یہ تو یہ ایک انسانی کلام ہے
یہ نہیں مگر آدمی کا کلام
(پھر بولا) یہ (خدا کا کلام نہیں بلکہ) بشر کا کلام ہے
یہ (قرآن) بجز اِنسان کے کلام کے (اور کچھ) نہیں،
یہ تو صرف انسان کا کلام ہے
سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں ہے
یہ نہیں ہے مگر آدمی کا کلام۔
سَأُصْلِيهِ سَقَرَ ﴿٢٦﴾
عنقریب اس کو دوزخ میں ڈالوں گا
عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا
کوئی دم جاتا ہے کہ میں اسے دوزخ میں دھنساتا ہوں،
ہم عنقریب اس کو سقر میں داخل کریں گے
میں عنقریب اسے دوزخ میں جھونک دوں گا،
ہم عنقریب اسے جہنمّ واصل کردیں گے
میں عنقریب اسے دوزخ میں ڈالوں گا
میں عنقریب اسے دوزخ میں جھونکوں گا۔
وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا سَقَرُ ﴿٢٧﴾
اور آپ کو کیا خبر کہ دوزخ کیا ہے
اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ؟
اور تم نے کیا جانا دوزخ کیا ہے،
اور تم کیا سمجھے کہ سقر کیا ہے؟
اور آپ کو کس نے بتایا ہے کہ سَقَر کیا ہے،
اور تم کیا جانو کہ جہنمّ کیا ہے
اور تجھے کیا خبر کہ دوزخ کیا چیز ہے؟
اور تم کیا سمجھو کہ دوزخ کیا ہے؟
لَا تُبْقِى وَلَا تَذَرُ ﴿٢٨﴾
نہ باقی رکھے اور نہ چھوڑے
نہ باقی رکھے نہ چھوڑے
نہ چھوڑے نہ لگی رکھے
(وہ آگ ہے کہ) نہ باقی رکھے گی اور نہ چھوڑے گی
وہ (ایسی آگ ہے جو) نہ باقی رکھتی ہے اور نہ چھوڑتی ہے،
وہ کسی کو چھوڑنے والا اور باقی رکھنے والا نہیںہے
نہ وه باقی رکھتی ہے نہ چھوڑتی ہے
وہ نہ (کوئی چیز) باقی رکھتی ہے اور نہ چھوڑتی ہے۔
لَوَّاحَةٌۭ لِّلْبَشَرِ ﴿٢٩﴾
آدمی کو جھلس دے
کھال جھلس دینے والی
آدمی کی کھال اتار لیتی ہے
اور بدن جھلس کر سیاہ کردے گی
(وہ) جسمانی کھال کو جھلسا کر سیاہ کر دینے والی ہے،
بدن کو جلا کر سیاہ کردینے والا ہے
کھال کو جھلسا دیتی ہے
وہ کھال کو جھلس دینے والی ہے۔
عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ ﴿٣٠﴾
اس پر انیس (فرشتے) مقرر ہیں
انیس کارکن اُس پر مقرر ہیں
اس پر اُنیس داروغہ ہیں
اس پر اُنیس داروغہ ہیں
اس پر اُنیس (١٩ فرشتے داروغے مقرر) ہیں،
اس پر انیس فرشتے معین ہیں
اور اس میں انیس (فرشتے مقرر) ہیں
اس پر اُنیس فرشتے (دارو غے) مقرر ہیں۔
وَمَا جَعَلْنَآ أَصْحَٰبَ ٱلنَّارِ إِلَّا مَلَٰٓئِكَةًۭ ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةًۭ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لِيَسْتَيْقِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ وَيَزْدَادَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِيمَٰنًۭا ۙ وَلَا يَرْتَابَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌۭ وَٱلْكَٰفِرُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًۭا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ ٱللَّهُ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِىَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ ﴿٣١﴾
اور ہم نے دوزخ پر فرشتے ہی رکھے ہیں اور ان کی تعداد کافروں کے لیے آزمائش بنائی ہے تاکہ جن کو کتاب دی گئی ہے وہ یقین کر لیں اور ایمان داروں کا ایمان بڑھے اورتاکہ اہلِ کتاب اور ایمان دار شک نہ کریں اور تاکہ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے اورکافر یہ کہیں کہ الله کی اس بیان سے کیاغرض ہے اور الله اس طرح سے جسے چاہتاہے گمراہ کر تا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور آپ کے رب کے لشکروں کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اور دوزخ (کا حال بیان کرنا) صرف آدمیوں کی نصیحت کے لیے ہے
ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں، اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے، تاکہ اہل کتاب کو یقین آ جائے اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے، اور اہل کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اِس عجیب بات سے کیا مطلب ہو سکتا ہے اِس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اس دوزخ کا ذکر اِس کے سوا کسی غرض کے لیے نہیں کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو
اور ہم نے دوزخ کے داروغہ نہ کیے مگر فرشتے، اور ہم نے ان کی یہ گنتی نہ رکھی مگر کافروں کی جانچ کو اس لیے کہ کتاب والوں کو یقین آئے اور ایمان والوں کا ایمان بڑھے اور کتاب والوں اور مسلمانوں کو کوئی شک نہ رہے اور دل کے روگی (مریض) اور کافر کہیں اس اچنبھے کی بات میں اللہ کا کیا مطلب ہے، یونہی اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور ہدایت فرماتا ہے جسے چاہے، اور تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور وہ تو نہیں مگر آدمی کے لیے نصیحت،
اور ہم نے دوزخ کے داروغہ فرشتے بنائے ہیں۔ اور ان کا شمار کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کیا ہے (اور) اس لئے کہ اہل کتاب یقین کریں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو اور اہل کتاب اور مومن شک نہ لائیں۔ اور اس لئے کہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے اور (جو) کافر (ہیں) کہیں کہ اس مثال (کے بیان کرنے) سے خدا کا مقصد کیا ہے؟ اسی طرح خدا جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ تو بنی آدم کے لئے نصیحت ہے
اور ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے ہی مقرر کئے ہیں اور ہم نے ان کی گنتی کافروں کے لئے محض آزمائش کے طور پر مقرر کی ہے تاکہ اہلِ کتاب یقین کر لیں (کہ قرآن اور نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق ہے کیونکہ ان کی کتب میں بھی یہی تعداد بیان کی گئی تھی) اور اہلِ ایمان کا ایمان (اس تصدیق سے) مزید بڑھ جائے، اور اہلِ کتاب اور مومنین (اس کی حقانیت میں) شک نہ کر سکیں، اور تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے اور کفار یہ کہیں کہ اس (تعداد کی) مثال سے اللہ کی مراد کیا ہے؟ اسی طرح اللہ (ایک ہی بات سے) جسے چاہتا ہے گمراہ ٹھہراتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے، اور آپ کے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور یہ (دوزخ کا بیان) اِنسان کی نصیحت کے لئے ہی ہے،
اور ہم نے جہنمّ کا نگہبان صرف فرشتوں کو قرار دیا ہے اور ان کی تعداد کو کفار کی آزمائش کا ذریعہ بنادیا ہے کہ اہل کتاب کو یقین حاصل ہوجائے اور ایمان والوں کے ایمان میں اضافہ ہوجائے اور اہل کتاب یا صاحبانِ ایمان اس کے بارے میں کسی طرح کا شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں مرض ہے اور کفار یہ کہنے لگیں کہ آخر اس مثال کا مقصد کیا ہے اللہ اسی طرح جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور اس کے لشکروں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے یہ تو صرف لوگوں کی نصیحت کا ایک ذریعہ ہے
ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں۔ اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں، اوراہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے اور اہل کتاب اور اہل ایمان شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وه اور کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراه کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہ تو کل بنی آدم کے لیے سراسر پند ونصیحت ہے
اور ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے بنائے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد کو کافروں کیلئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ اہلِ کتاب یقین کریں اور اہلِ ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے اور اہلِ کتاب اور اہلِ ایمان شک و شبہ نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور کافر لوگ کہیں گے کہ اس بیان سے اللہ کی کیا مراد ہے؟ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور یہ (دوزخ کا) بیان نہیں ہے مگر انسانوں کے لئے نصیحت۔
كَلَّا وَٱلْقَمَرِ ﴿٣٢﴾
نہیں نہیں قسم ہے چاند کی
ہرگز نہیں، قسم ہے چاند کی
ہاں ہاں چاند کی قسم،
ہاں ہاں (ہمیں) چاند کی قسم
ہاں، چاند کی قَسم (جس کا گھٹنا، بڑھنا اور غائب ہو جانا گواہی ہے)،
ہوشیار ہمیں چاند کی قسم
سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کی
ہرگز نہیں! قَسم ہے چاند کی۔
وَٱلَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ ﴿٣٣﴾
اور رات کی جب وہ ڈھلے
اور رات کی جبکہ وہ پلٹتی ہے
اور رات کی جب پیٹھ پھیرے،
اور رات کی جب پیٹھ پھیرنے لگے
اور رات کی قَسم جب وہ پیٹھ پھیر کر رخصت ہونے لگے،
اور جاتی ہوئی رات کی قسم
اور رات کی جب وه پیچھے ہٹے
اور رات کی جب وہ جانے لگے۔
وَٱلصُّبْحِ إِذَآ أَسْفَرَ ﴿٣٤﴾
اور صبح کی جب وہ روشن ہوجائے
اور صبح کی جبکہ وہ روشن ہوتی ہے
اور صبح کی جب اجا لا ڈالے
اور صبح کی جب روشن ہو
اور صبح کی قَسم جب وہ روشن ہو جائے،
اور روشن صبح کی قسم
اور صبح کی جب کہ روشن ہو جائے
اور صبح کی جب وہ روشن ہو جائے۔
إِنَّهَا لَإِحْدَى ٱلْكُبَرِ ﴿٣٥﴾
کہ وہ (دوزخ) بڑی بڑی مصیبتوں میں سے ایک ہے
یہ دوزخ بھی بڑی چیزوں میں سے ایک ہے
بیشک دوزخ بہت بڑی چیزوں میں کی ایک ہے،
کہ وہ (آگ) ایک بہت بڑی (آفت) ہے
بے شک یہ (دوزخ) بہت بڑی آفتوں میں سے ایک ہے،
یہ جہنمّ بڑی چیزوں میں سے ایک چیز ہے
کہ (یقیناً وه جہنم) بڑی چیزوں میں سے ایک ہے
وہ (دوزخ) بڑی چیزوں میں سے ایک بڑی چیز ہے۔
نَذِيرًۭا لِّلْبَشَرِ ﴿٣٦﴾
انسان کو ڈرانے والی ہے
انسانوں کے لیے ڈراوا
آدمیوں کو ڈراؤ،
(اور) بنی آدم کے لئے مؤجب خوف
انسان کو ڈرانے والی ہے،
لوگوں کے ڈرانے کا ذریعہ
بنی آدم کو ڈرانے والی
(جو) انسانوں کیلئے ڈراوا ہے۔
لِمَن شَآءَ مِنكُمْ أَن يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ ﴿٣٧﴾
تم میں سے ہر ایک کے لیے خواہ کوئی اس کے آگے آئے یا پیچھے ہٹے
تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے ڈراوا جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہ جانا چاہے
اسے جو تم میں چاہے، کہ آگے آئے یا پیچھے رہے
جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہنا چاہے
(یعنی) اس شخص کے لئے جو تم میں سے (نیکی میں) آگے بڑھنا چاہے یا جو (بدی میں پھنس کر) پیچھے رہ جائے،
ان کے لئے جو آگے پیچھے ہٹنا چاہیں
(یعنی) اسے جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہے
یعنی تم میں سے (ہر اس) شخص کیلئے جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہے۔
كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ﴿٣٨﴾
ہر شخص اپنے اعمال کے سبب گروی ہے
ہر متنفس، اپنے کسب کے بدلے رہن ہے
ہر جان اپنی کرنی (اعمال) میں گروی ہے،
ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گرو ہے
ہر شخص اُن (اَعمال) کے بدلے جو اُس نے کما رکھے ہیں گروی ہے،
ہر نفس اپنے اعمال میں گرفتار ہے
ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے
ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے۔
إِلَّآ أَصْحَٰبَ ٱلْيَمِينِ ﴿٣٩﴾
مگر داہنے والے
دائیں بازو والوں کے سوا
مگر دہنی طرف والے
مگر داہنی طرف والے (نیک لوگ)
سوائے دائیں جانب والوں کے،
علاوہ اصحاب یمین کے
مگر دائیں ہاتھ والے
سوائے دائیں ہاتھ والے (جنتیوں) کے۔
فِى جَنَّٰتٍۢ يَتَسَآءَلُونَ ﴿٤٠﴾
باغوں میں ہو ں گے ایک دوسرے سے پوچھیں گے
جو جنتوں میں ہوں گے وہاں وہ،
باغوں میں پوچھتے ہیں،
(کہ) وہ باغہائے بہشت میں (ہوں گے اور) پوچھتے ہوں گے
(وہ) باغات میں ہوں گے، اور آپس میں پوچھتے ہوں گے،
وہ جنتوں میں رہ کر آپس میں سوال کررہے ہوں گے
کہ وه بہشتوں میں (بیٹھے ہوئے) گناه گاروں سے
جو بہشت کے باغوں میں ہوں گے۔
عَنِ ٱلْمُجْرِمِينَ ﴿٤١﴾
گناہگارو ں کی نسبت
مجرموں سے پوچھیں گے
مجرموں سے،
(یعنی آگ میں جلنے والے) گنہگاروں سے
مجرموں کے بارے میں،
مجرمین کے بارے میں
سوال کرتے ہوں گے
(اور) مجرموں سے سوال و جواب کرتے ہوں گے۔
مَا سَلَكَكُمْ فِى سَقَرَ ﴿٤٢﴾
کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا
\"تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟\"
تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی،
کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟
(اور کہیں گے:) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی،
آخر تمہیں کس چیز نے جہنمّ میں پہنچادیا ہے
تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈاﻻ
کہ تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟
قَالُوا۟ لَمْ نَكُ مِنَ ٱلْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾
وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے
وہ کہیں گے \"ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے
وہ بولے ہم نماز نہ پڑھتے تھے،
وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے
وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے،
وہ کہیں گے کہ ہم نماز گزار نہیں تھے
وه جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے
وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ ٱلْمِسْكِينَ ﴿٤٤﴾
اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے
اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے
اور مسکین کو کھانا نہ دیتے تھے
اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے
اور ہم محتاجوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے،
اور مسکین کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے
نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے
اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔
وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ ٱلْخَآئِضِينَ ﴿٤٥﴾
اور ہم بکواس کرنے والوں کے ساتھ بکواس کیاکرتے تھے
اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے
اور بیہودہ فکر والوں کے ساتھ بیہودہ فکریں کرتے تھے،
اور اہل باطل کے ساتھ مل کر (حق سے) انکار کرتے تھے
اور بیہودہ مشاغل والوں کے ساتھ (مل کر) ہم بھی بیہودہ مشغلوں میں پڑے رہتے تھے،
لوگوں کے بفِے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے
اور ہم بحﺚ کرنے والے (انکاریوں) کا ساتھ دے کر بحﺚ مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے
اور بےہودہ باتیں کرنے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی بےہودہ کام کرتے تھے۔
وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ ٱلدِّينِ ﴿٤٦﴾
اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے
اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے
اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلاتے رہے،
اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے
اور ہم روزِ جزا کو جھٹلایا کرتے تھے،
اور روزِ قیامت کی تکذیب کیا کرتے تھے
اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے
اور ہم جزا و سزا کے دن کو جھٹلاتے تھے۔
حَتَّىٰٓ أَتَىٰنَا ٱلْيَقِينُ ﴿٤٧﴾
یہاں تک کہ ہمیں موت آ پہنچی
یہاں تک کہ ہمیں اُس یقینی چیز سے سابقہ پیش آ گیا\"
یہاں تک کہ ہمیں موت آئی،
یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی
یہاں تک کہ ہم پر جس کا آنا یقینی تھا (وہ موت) آپہنچی،
یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی
یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی
یہاں تک کہ یقینی چیز (موت) ہمارے سامنے آگئی۔
فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَٰعَةُ ٱلشَّٰفِعِينَ ﴿٤٨﴾
پس ان کو سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی
اُس وقت سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی
تو انہیں سفارشیوں کی سفارش کام نہ دے گی
(تو اس حال میں) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی
سو (اب) شفاعت کرنے والوں کی شفاعت انہیں کوئی نفع نہیں پہنچائے گی،
تو انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی
پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی
تو ایسے لوگوں کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
فَمَا لَهُمْ عَنِ ٱلتَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ ﴿٤٩﴾
پسانہیں کیا ہو گیا کہ وہ نصیحت سے منہ موڑرہے ہیں
آخر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ اِس نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں
تو انہیں کیا ہوا نصیحت سے منہ پھیرتے ہیں
ان کو کیا ہوا ہے کہ نصیحت سے روگرداں ہو رہے ہیں
تو ان (کفّار) کو کیا ہوگیا ہے کہ (پھر بھی) نصیحت سے رُوگردانی کئے ہوئے ہیں،
آخر انہیں کیا ہوگیا ہے کہ یہ نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں
انہیں کیا ہو گیا ہے؟ کہ نصیحت سے منھ موڑ رہے ہیں
سو انہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ نصیحت سے رُوگردانی کرتے ہیں؟
كَأَنَّهُمْ حُمُرٌۭ مُّسْتَنفِرَةٌۭ ﴿٥٠﴾
گویا کہ وہ بدکنے والے گدھے ہیں
گویا یہ جنگلی گدھے ہیں
گویا وہ بھڑکے ہوئے گدھے ہوں،
گویا گدھے ہیں کہ بدک جاتے ہیں
گویا وہ بِدکے ہوئے (وحشی) گدھے ہیں،
گویا بھڑکے ہوئے گدھے ہیں
گویا کہ وه بِدکے ہوئے گدھے ہیں
گویا وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں۔
فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍۭ ﴿٥١﴾
جو شیر سے بھاگے ہیں
جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑے ہیں
کہ شیر سے بھاگے ہوں
(یعنی) شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں
جو شیر سے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں،
جو شیر سے بھاگ رہے ہیں
جو شیر سے بھاگے ہوں
جوشیر سے (ڈر کر) بھاگے جا رہے ہیں۔
بَلْ يُرِيدُ كُلُّ ٱمْرِئٍۢ مِّنْهُمْ أَن يُؤْتَىٰ صُحُفًۭا مُّنَشَّرَةًۭ ﴿٥٢﴾
بلکہ ہر ایک آدمی ان میں سے چاہتا ہے کہ اسے کھلے ہوئے صحیفے دیئے جائیں
بلکہ اِن میں سے تو ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اُس کے نام کھلے خط بھیجے جائیں
بلکہ ان میں کا ہر شخص چاہتا ہے کہ کھلے صحیفے اس کے ہاتھ میں دے دیے جائیں
اصل یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھلی ہوئی کتاب آئے
بلکہ ان میں سے ہر ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ اُسے (براہِ راست) کھلے ہوئے (آسمانی) صحیفے دے دئیے جائیں،
حقیقتا ان میں ہر آدمی اس بات کا خواہش مند ہے کہ اسے کِھلی ہوئی کتابیں عطا کردی جائیں
بلکہ ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں
بلکہ ان میں سے ہر ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دے دی جائیں۔
كَلَّا ۖ بَل لَّا يَخَافُونَ ٱلْءَاخِرَةَ ﴿٥٣﴾
ہرگز نہیں بلکہ وہ آخرت سے نہیں ڈرتے
ہرگز نہیں، اصل بات یہ ہے کہ یہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے
ہرگز نہیں بلکہ ان کو آخرت کا ڈر نہیں
ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو آخرت کا خوف ہی نہیں
ایسا ہرگز ممکن نہیں، بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) وہ لوگ آخرت سے ڈرتے ہی نہیں،
ہرگز نہیں ہوسکتا اصل یہ ہے کہ انہیں آخرت کا خوف ہی نہیں ہے
ہرگز ایسا نہیں (ہوسکتا بلکہ) یہ قیامت سے بے خوف ہیں
ایسا نہیں ہے بلکہ وہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔
كَلَّآ إِنَّهُۥ تَذْكِرَةٌۭ ﴿٥٤﴾
ہرگز نہیں بے شک یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے
ہرگز نہیں، یہ تو ایک نصیحت ہے
ہاں ہاں بیشک وہ نصیحت ہے،
کچھ شک نہیں کہ یہ نصیحت ہے
کچھ شک نہیں کہ یہ (قرآن) نصیحت ہے،
ہاں ہاں بیشک یہ سراسر نصیحت ہے
سچی بات تو یہ ہے کہ یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے
ہرگز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے۔
فَمَن شَآءَ ذَكَرَهُۥ ﴿٥٥﴾
(پس جو چاہے اس کو یاد کر لے
اب جس کا جی چاہے اس سے سبق حاصل کر لے
تو جو چاہے اس سے نصیحت لے،
تو جو چاہے اسے یاد رکھے
پس جو چاہے اِسے یاد رکھے،
اب جس کا جی چاہے اسے یاد رکھے
اب جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے
جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔
وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُ ۚ هُوَ أَهْلُ ٱلتَّقْوَىٰ وَأَهْلُ ٱلْمَغْفِرَةِ ﴿٥٦﴾
اور کوئی بھی یاد نہیں کر سکتا مگر جبکہ الله ہی چاہے وہی جس سے ڈرنا چاہیے اوروہی بخشنے والا ہے
اور یہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے الا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے وہ اس کا حق دار ہے کہ اُس سے تقویٰ کیا جائے اور وہ اس کا اہل ہے کہ (تقویٰ کرنے والوں کو) بخش دے
اور وہ کیا نصیحت مانیں مگر جب اللہ چاہے، وہی ہے ڈرنے کے لائق اور اسی کی شان ہے مغفرت فرمانا،
اور یاد بھی تب ہی رکھیں گے جب خدا چاہے۔ وہی ڈرنے کے لائق اور بخشش کا مالک ہے
اور یہ لوگ (اِسے) یاد نہیں رکھیں گے مگر جب اللہ چاہے گا، وُہی تقوٰی (و پرہیزگاری) کا مستحق ہے اور مغفرت کا مالک ہے،
اور یہ اسے یاد نہ کریں گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے کہ وہی ڈرانے کا اہل اور مغفرت کا مالک ہے
اور وه اس وقت نصیحت حاصل کریں گے جب اللہ تعالیٰ چاہے، وه اسی ﻻئق ہے کہ اس سے ڈریں اور اس ﻻئق بھی کہ وه بخشے
اور وہ اس سے نصیحت حاصل نہیں کریں گے مگر یہ کہ اللہ چاہے وہی اس کا حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور وہی اس قابل ہے کہ مغفرت فرمائے۔