Setting
Surah Those who drag forth [An-Naziat] in Urdu
وَٱلنَّٰزِعَٰتِ غَرْقًۭا ﴿١﴾
جورڑوں میں گھس کر نکالنے والوں کی قسم ہے
قسم ہے اُن (فرشتوں کی) جو ڈوب کر کھینچتے ہیں
قسم ان کی کہ سختی سے جان کھینچیں
ان (فرشتوں) کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں
ان (فرشتوں) کی قَسم جو (کافروں کی جان ان کے جسموں کے ایک ایک انگ میں سے) نہایت سختی سے کھینچ لاتے ہیں۔ (یا:- توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو مادہ کے اندر گھس کر کیمیائی جوڑوں کو سختی سے توڑ پھوڑ دیتی ہیں)،
قسم ہے ان کی جو ڈوب کر کھینچ لینے والے ہیں
ڈوب کر سختی سے کھینچنے والوں کی قسم!
قَسم ہے ان (فرشتوں) کی جو (جسم میں ڈوب کر) سختی سے (جان) کھینچتے ہیں۔
وَٱلنَّٰشِطَٰتِ نَشْطًۭا ﴿٢﴾
اور بند کھولنے والوں کی
اور آہستگی سے نکال لے جاتے ہیں
اور نرمی سے بند کھولیں)
اور ان کی جو آسانی سے کھول دیتے ہیں
اور ان (فرشتوں) کی قَسم جو (مومنوں کی جان کے) بند نہایت نرمی سے کھول دیتے ہیں۔ (یا:- توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو مادہ کے اندر سے کیمیائی جوڑوں کو نہایت نرمی اور آرام سے توڑ دیتی ہیں)،
اور آسانی سے کھول دینے والے ہیں
بند کھول کر چھڑا دینے والوں کی قسم!
اور قَسم ہے آہستگی اور آسانی سے (جان) نکالنے والوں کی۔
وَٱلسَّٰبِحَٰتِ سَبْحًۭا ﴿٣﴾
اورتیزی سے تیرنے والوں کی
اور (اُن فرشتوں کی جو کائنات میں) تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں
اور آسانی سے پیریں
اور ان کی جو تیرتے پھرتے ہیں
اور ان (فرشتوں) کی قَسم جو (زمین و آسمان کے درمیان) تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں۔ (یا:- توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو آسمانی خلا و فضا میں بلا روک ٹوک چلتی پھرتی ہیں)،
اور فضا میں پیرنے والے ہیں
اور تیرنے پھرنے والوں کی قسم!
اور قَسم ہے (فضاؤں کے اندر) تیر نے پھرنے والوں کی۔
فَٱلسَّٰبِقَٰتِ سَبْقًۭا ﴿٤﴾
پھر دوڑ کر آگے بڑھ جانے والوں کی
پھر (حکم بجا لانے میں) سبقت کرتے ہیں
پھر آگے بڑھ کر جلد پہنچیں
پھر لپک کر آگے بڑھتے ہیں
پھر ان (فرشتوں) کی قَسم جو لپک کر (دوسروں سے) آگے بڑھ جاتے ہیں۔ (یا:- پھر توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو رفتار، طاقت اور جاذبیت کے لحاظ سے دوسری لہروں پر سبقت لے جاتی ہیں)،
پھر تیز رفتاری سے سبقت کرنے والے ہیں
پھر دوڑ کر آگے بڑھنے والوں کی قسم!
پھر قَسم ہے (تعمیلِ حکم میں) ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والوں کی۔
فَٱلْمُدَبِّرَٰتِ أَمْرًۭا ﴿٥﴾
پھر ہر امر کی تدبیر کرنے والوں کی
پھر (احکام الٰہی کے مطابق) معاملات کا انتظام چلاتے ہیں
پھر کام کی تدبیر کریں
پھر (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتے ہیں
پھر ان (فرشتوں) کی قَسم جو مختلف اُمور کی تدبیر کرتے ہیں۔ (یا:- پھر توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو باہمی تعامل سے کائناتی نظام کی بقا کے لئے توازن و تدبیر قائم رکھتی ہیں)،
پھر امور کا انتظام کرنے والے ہیں
پھر کام کی تدبیر کرنے والوں کی قسم!
پھر قَسم ہے ہر امر کا بندوبست کرنے والوں کی (کہ قیامت برحق ہے)۔
يَوْمَ تَرْجُفُ ٱلرَّاجِفَةُ ﴿٦﴾
جس دن کانپنے والی کانپے گی
جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا جھٹکا
کہ کافروں پر ضرور عذاب ہوگا جس دن تھر تھرائے گی تھرتھرانے والی
(کہ وہ دن آ کر رہے گا) جس دن زمین کو بھونچال آئے گا
(جب انہیں اس نظامِ کائنات کے درہم برہم کردینے کا حکم ہوگا تو) اس دن (کائنات کی) ہر متحرک چیز شدید حرکت میں آجائے گی،
جس دن زمین کو جھٹکا دیا جائے گا
جس دن کانپنے والی کانپے گی
جس دن تھرتھرانے والی (زمین وغیرہ) تھرتھرائے گی۔
تَتْبَعُهَا ٱلرَّادِفَةُ ﴿٧﴾
اس کے پیچھے آنے والی پیچھے آئے گی
اور اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا پڑے گا
اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی
پھر اس کے پیچھے اور (بھونچال) آئے گا
پیچھے آنے والا ایک اور زلزلہ اس کے پیچھے آئے گا،
اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا لگے گا
اس کے بعد ایک پیچھے آنے والی (پیچھے پیچھے) آئے گی
اس کے پیچھے ایک اور آنے والی (مصیبت) آئے گی۔
قُلُوبٌۭ يَوْمَئِذٍۢ وَاجِفَةٌ ﴿٨﴾
کئی دل اس دن دھڑک رہے ہوں گے
کچھ دل ہوں گے جو اُس روز خوف سے کانپ رہے ہوں گے
کتنے دل اس دن دھڑکتے ہوں گے،
اس دن (لوگوں) کے دل خائف ہو رہے ہوں گے
اس دن (لوگوں کے) دل خوف و اضطراب سے دھڑکتے ہوں گے،
اس دن دل لرز جائیں گے
(بہت سے) دل اس دن دھڑکتے ہوں گے
کچھ دل اس دن کانپ رہے ہوں گے۔
أَبْصَٰرُهَا خَٰشِعَةٌۭ ﴿٩﴾
ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی
نگاہیں اُن کی سہمی ہوئی ہوں گی
آنکھ اوپر نہ اٹھا سکیں گے
اور آنکھیں جھکی ہوئی
ان کی آنکھیں (خوف و ہیبت سے) جھکی ہوں گی،
آنکھیں خوف سے جھکیِ ہوں گی
جن کی نگاہیں نیچی ہوں گی
ان کی آنکھیں (شدتِ خوف سے) جھکی ہوئی ہوں گی۔
يَقُولُونَ أَءِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِى ٱلْحَافِرَةِ ﴿١٠﴾
وہ کہتے ہیں کیا ہم پہلی حالت میں لوٹائے جائیں گے
یہ لوگ کہتے ہیں \"کیا واقعی ہم پلٹا کر پھر واپس لائے جائیں گے؟
کافر کہتے ہیں کیا ہم پھر الٹے پاؤں پلٹیں گے
(کافر) کہتے ہیں کیا ہم الٹے پاؤں پھر لوٹ جائیں گے
(کفّار) کہتے ہیں: کیا ہم پہلی زندگی کی طرف پلٹائے جائیں گے،
یہ کفاّر کہتے ہیں کہ کیا ہم پلٹ کر پھر اس دنیا میں بھیجے جائیں گے
کہتے ہیں کہ کیا ہم پہلی کی سی حالت کی طرف پھر لوٹائے جائیں گے؟
وہ (کافر لوگ) کہتے ہیں کیا ہم پہلی حالت میں (الٹے پاؤں) واپس لائے جائیں گے؟
أَءِذَا كُنَّا عِظَٰمًۭا نَّخِرَةًۭ ﴿١١﴾
کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے
کیا جب ہم کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے؟\"
کیا ہم جب گلی ہڈیاں ہوجائیں گے
بھلا جب ہم کھوکھلی ہڈیاں ہو جائیں گے (تو پھر زندہ کئے جائیں گے)
کیا جب ہم بوسیدہ (کھوکھلی) ہڈیاں ہو جائیں گے (تب بھی زندہ کیے جائیں گے)،
کیا جب ہم کھوکھلی ہڈیاں ہوجائیں گے تب
کیا اس وقت جب کہ ہم بوسیده ہڈیاں ہو جائیں گے؟
کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں ہو جائیں گے؟
قَالُوا۟ تِلْكَ إِذًۭا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌۭ ﴿١٢﴾
کہتے ہیں کہ یہ تو اس وقت خسارہ کا لوٹنا ہوگا
کہنے لگے \"یہ واپسی تو پھر بڑے گھاٹے کی ہوگی!\"
بولے یوں تو یہ پلٹنا تو نرا نقصان ہے
کہتے ہیں کہ یہ لوٹنا تو (موجب) زیاں ہے
وہ کہتے ہیں: یہ (لوٹنا) تو اس وقت بڑے خسارے کا لوٹنا ہوگا،
یہ تو بڑے گھاٹے والی واپسی ہوگی
کہتے ہیں کہ پھر تو یہ لوٹنا نقصان ده ہے
کہتے ہیں یہ (واپسی) تو بڑے گھاٹے کی ہوگی۔
فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌۭ وَٰحِدَةٌۭ ﴿١٣﴾
پھر وہ واقعہ صرف ایک ہی ہیبت ناک آواز ہے
حالانکہ یہ بس اتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی
تو وہ نہیں مگر ایک جھڑکی
وہ تو صرف ایک ڈانٹ ہوگی
پھر تو یہ ایک ہی بار شدید ہیبت ناک آواز کے ساتھ (کائنات کے تمام اَجرام کا) پھٹ جانا ہوگا،
یہ قیامت تو بس ایک چیخ ہوگی
(معلوم ہونا چاہئے) وه تو صرف ایک (خوفناک) ڈانٹ ہے
حالانکہ اس (واپسی) کیلئے ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی۔
فَإِذَا هُم بِٱلسَّاهِرَةِ ﴿١٤﴾
پس وہ اسی وقت میدان میں آ موجود ہوں گے
اور یکایک یہ کھلے میدان میں موجود ہوں گے
جبھی وہ کھلے میدان میں آپڑے ہوں گے
اس وقت وہ (سب) میدان (حشر) میں آ جمع ہوں گے
پھر وہ (سب لوگ) یکایک کھلے میدانِ (حشر) میں آموجود ہوں گے،
جس کے بعد سب میدان هحشر میں نظر آئیں گے
کہ (جس کے ﻇاہر ہوتے ہی) وه ایک دم میدان میں جمع ہو جائیں گے
پھر وہ کھلے ہوئے میدان (قیامت) میں موجود ہوں گے۔
هَلْ أَتَىٰكَ حَدِيثُ مُوسَىٰٓ ﴿١٥﴾
کیا آپ کو موسیٰ کا حال معلوم ہوا ہے
کیا تمہیں موسیٰؑ کے قصے کی خبر پہنچی ہے؟
کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی
بھلا تم کو موسیٰ کی حکایت پہنچی ہے
کیا آپ کے پاس موسٰی (علیہ السلام) کی خبر پہنچی ہے،
کیا تمہارے پاس موسٰی کی خبر آئی ہے
کیا موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر تمہیں پہنچی ہے؟
(اے رسول(ص)) کیا آپ(ص) کو موسیٰ(ع) کے قصہ کی خبر پہنچی ہے؟
إِذْ نَادَىٰهُ رَبُّهُۥ بِٱلْوَادِ ٱلْمُقَدَّسِ طُوًى ﴿١٦﴾
جب کہ مقدس وادی طویٰ میں اس کے رب نے اسےپکارا
جب اس کے رب نے اُسے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا
جب اسے اس کے رب نے پاک جنگل طویٰ میں ندا فرمائی،
جب اُن کے پروردگار نے ان کو پاک میدان (یعنی) طویٰ میں پکارا
جب ان کے رب نے طوٰی کی مقدّس وادی میں انہیں پکارا تھا،
جب ان کے رب نے انہیں طویٰ کی مقدس وادی میں آواز دی
جب کہ انہیں ان کے رب نے پاک میدان طویٰ میں پکارا
جب ان کے پروردگار نے طویٰ کی مقدس وادی میں انہیں پکارا تھا۔
ٱذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُۥ طَغَىٰ ﴿١٧﴾
فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ اس نے سرکشی کی ہے
کہ \"فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے
کہ فرعون کے پاس جا اس نے سر اٹھایا
(اور حکم دیا) کہ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو رہا ہے
(اور حکم دیا تھا کہ) فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو گیا ہے،
فرعون کی طرف جاؤ وہ سرکش ہوگیا ہے
(کہ) تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے
کہ جاؤ فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔
فَقُلْ هَل لَّكَ إِلَىٰٓ أَن تَزَكَّىٰ ﴿١٨﴾
پس کہو کیا تیری خواہش ہے کہ تو پاک ہو
اور اس سے کہہ کیا تو اِس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے
اس سے کہہ کیا تجھے رغبت اس طرف ہے کہ ستھرا ہو
اور (اس سے) کہو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے؟
پھر (اس سے) کہو: کیا تیری خواہش ہے کہ تو پاک ہو جائے،
اس سے کہو کیا یہ ممکن ہے تو پاکیزہ کردار ہوجائے
اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے
پس اس سے کہو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے؟
وَأَهْدِيَكَ إِلَىٰ رَبِّكَ فَتَخْشَىٰ ﴿١٩﴾
اور میں تجھے تیرے رب کی طرف راہ بتاؤں کہ تو ڈرے
اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اُس کا) خوف تیرے اندر پیدا ہو؟\"
اور تجھے تیرے رب کی طرف راہ بتاؤں کہ تو ڈرے
اور میں تجھے تیرے پروردگار کا رستہ بتاؤں تاکہ تجھ کو خوف (پیدا) ہو
اور (کیا تو چاہتا ہے کہ) میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے،
اور میں تجھے تیرے رب کی طرف ہدایت کروں اور تیرے دل میں خوف پیدا ہوجائے
اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راه دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے
اور (کیا تو چاہتا ہے کہ) میں تیرے پروردگار کی طرف تیری راہنمائی کروں تو تُو (اس سے) ڈرے؟
فَأَرَىٰهُ ٱلْءَايَةَ ٱلْكُبْرَىٰ ﴿٢٠﴾
پس اس نے اس کو بڑی نشانی دکھائی
پھر موسیٰؑ نے (فرعون کے پاس جا کر) اُس کو بڑی نشانی دکھائی
پھر موسیٰ نے اسے بہت بڑی نشانی دکھائی
غرض انہوں نے اس کو بڑی نشانی دکھائی
پھر موسٰی (علیہ السلام) نے اسے بڑی نشانی دکھائی،
پھر انہوں نے اسے عظیم نشانی دکھلائی
پس اسے بڑی نشانی دکھائی
پس موسیٰ(ع) نے (وہاں جا کر) اسے ایک بہت بڑی نشانی دکھائی۔
فَكَذَّبَ وَعَصَىٰ ﴿٢١﴾
تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی
مگر اُس نے جھٹلا دیا اور نہ مانا
اس پر اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی،
مگر اس نے جھٹلایا اور نہ مانا
تو اس نے جھٹلا دیا اور نافرمانی کی،
تو اس نے انکار کردیا اور نافرمانی کی
تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی
تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔
ثُمَّ أَدْبَرَ يَسْعَىٰ ﴿٢٢﴾
پھر کوشش کرتا ہوا واپس لوٹا
پھر چالبازیاں کرنے کے لیے پلٹا
پھر پیٹھ دی اپنی کوشش میں لگا
پھر لوٹ گیا اور تدبیریں کرنے لگا
پھر وہ (حق سے) رُوگرداں ہو کر (موسٰی علیہ السلام کی مخالفت میں) سعی و کاوش کرنے لگا،
پھر منہ پھیر کر دوڑ دھوپ میں لگ گیا
پھر پلٹا دوڑ دھوپ کرتے ہوئے
پھر وہ پلٹا (اور مخالفانہ سرگرمیوں میں) کوشاں ہو گیا۔
فَحَشَرَ فَنَادَىٰ ﴿٢٣﴾
پھر اس نے سب کو جمع کیا پھر پکارا
اور لوگوں کو جمع کر کے اس نے پکار کر کہا
تو لوگوں کو جمع کیا پھر پکارا،
اور (لوگوں کو) اکٹھا کیا اور پکارا
پھر اس نے (لوگوں کو) جمع کیا اور پکارنے لگا،
پھر سب کو جمع کیا اور آواز دی
پھر سب کو جمع کرکے پکارا
یعنی (لوگوں کو) جمع کیا اور پکار کر کہا۔
فَقَالَ أَنَا۠ رَبُّكُمُ ٱلْأَعْلَىٰ ﴿٢٤﴾
پھر کہا کہ میں تمہارا سب سے برتر رب ہوں
\"میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں\"
پھر بولا میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں
کہنے لگا کہ تمہارا سب سے بڑا مالک میں ہوں
پھر اس نے کہا: میں تمہارا سب سے بلند و بالا رب ہوں،
اور کہا کہ میں تمہارا رب اعلیٰ ہوں
تم سب کا رب میں ہی ہوں
کہ میں تمہارا سب سے بڑا پرورگار ہوں۔
فَأَخَذَهُ ٱللَّهُ نَكَالَ ٱلْءَاخِرَةِ وَٱلْأُولَىٰٓ ﴿٢٥﴾
پھر الله نے اس کو آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا
آخرکار اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا
تو اللہ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا
تو خدا نے اس کو دنیا اور آخرت (دونوں) کے عذاب میں پکڑ لیا
تو اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کی (دوہری) سزا میں پکڑ لیا،
تو خدا نے اسے دنیا و آخرت دونو ںکے عذاب کی گرفت میں لے لیا
تو (سب سے بلند وباﻻ) اللہ نے بھی اسے آخرت کے اور دنیا کے عذاب میں گرفتار کرلیا
پس اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کے (دوہرے) عذاب میں پکڑا۔
إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَعِبْرَةًۭ لِّمَن يَخْشَىٰٓ ﴿٢٦﴾
بے شک اس میں اس کے لیے عبرت ہے جو ڈرتا ہے
درحقیقت اِس میں بڑی عبرت ہے ہر اُس شخص کے لیے جو ڈرے
بیشک اس میں سیکھ ملتا ہے اسے جو ڈرے
جو شخص (خدا سے) ڈر رکھتا ہے اس کے لیے اس (قصے) میں عبرت ہے
بیشک اس (واقعہ) میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو (اللہ سے) ڈرتا ہے،
اس واقعہ میں خوف خدا رکھنے والوں کے لئے عبرت کا سامان ہے
بیشک اس میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو ڈرے
بےشک اس (قصہ) میں بڑی عبرت ہے ہر اس شخص کیلئے جو (خدا سے) ڈرے۔
ءَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ ٱلسَّمَآءُ ۚ بَنَىٰهَا ﴿٢٧﴾
کیا تمہارا بنانا بڑی بات ہے یا آسمان کا جس کو ہم نے بنایا ہے
کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اُس کو بنایا
کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارا بنانا مشکل یا آسمان کا اللہ نے اسے بنایا،
بھلا تمہارا بنانا آسان ہے یا آسمان کا؟ اسی نے اس کو بنایا
کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا (پوری) سماوی کائنات کا، جسے اس نے بنایا،
کیا تمہاری خلقت آسمان بنانے سے زیادہ مشکل کام ہے کہ اس نے آسمان کو بنایا ہے
کیا تمہارا پیدا کرنا زیاده دشوار ہے یا آسمان کا؟ اللہ تعالیٰ نے اسے بنایا
کیا تم لوگوں کا (دوبارہ) پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے؟ یا آسمان کا؟ اللہ نے اس کو بنایا۔
رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّىٰهَا ﴿٢٨﴾
ا سکی چھت بلند کی پھر اس کو سنوارا
اُس کی چھت خوب اونچی اٹھائی پھر اُس کا توازن قائم کیا
اس کی چھت اونچی کی پھر اسے ٹھیک کیا
اس کی چھت کو اونچا کیا اور پھر اسے برابر کر دیا
اس نے آسمان کے تمام کرّوں (ستاروں) کو (فضائے بسیط میں پیدا کر کے) بلند کیا، پھر ان (کی ترکیب و تشکیل اور افعال و حرکات) میں اعتدال، توازن اور استحکام پیدا کر دیا،
اس کی چھت کو بلند کیا اور پھر برابر کردیا ہے
اس کی بلندی اونچی کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا
اور اس کی چھت کو بلند کیا پھر اس کو درست کیا۔
وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَىٰهَا ﴿٢٩﴾
اور اس کی رات اندھیری کی اور اس کے دن کو ظاہر کیا
اور اُس کی رات ڈھانکی اور اُس کا دن نکالا
اس کی رات اندھیری کی اور اس کی روشنی چمکائی
اور اسی نے رات کو تاریک بنایا اور (دن کو) دھوپ نکالی
اور اُسی نے آسمانی خلا کی رات کو (یعنی سارے خلائی ماحول کو مثلِ شب) تاریک بنایا، اور (اِس خلا سے) ان (ستاروں) کی روشنی (پیدا کر کے) نکالی،
اس کی رات کو تاریک بنایا ہے اور دن کی روشنی نکال دی ہے
اسکی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو نکالا
اور اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو ظاہر کیا۔
وَٱلْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَىٰهَآ ﴿٣٠﴾
اور اس کے بعد زمین کو بچھا دیا
اِس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا
اور اس کے بعد زمین پھیلائی
اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا
اور اُسی نے زمین کو اِس (ستارے: سورج کے وجود میں آجانے) کے بعد (اِس سے) الگ کر کے زور سے پھینک دیا (اور اِسے قابلِ رہائش بنانے کے لئے بچھا دیا)،
اس کے بعد زمین کا فرش بچھایا ہے
اور اس کے بعد زمین کو (ہموار) بچھا دیا
اس کے بعد زمین کو بچھایا۔
أَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَمَرْعَىٰهَا ﴿٣١﴾
اس سے اس کا پانی اور اس کا چارا نکالا
اُس کے اندر سے اُس کا پانی اور چارہ نکالا
اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکا لا
اسی نے اس میں سے اس کا پانی نکالا اور چارا اگایا
اسی نے زمین میں سے اس کا پانی (الگ) نکال لیا اور (بقیہ خشک قطعات میں) اس کی نباتات نکالیں،
اس میں سے پانی اور چارہ نکالا ہے
اس میں سے پانی اور چاره نکالا
اور اس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔
وَٱلْجِبَالَ أَرْسَىٰهَا ﴿٣٢﴾
او رپہاڑوں کو خوب جما دیا
اور پہاڑ اس میں گاڑ دیے
اور پہاڑوں کو جمایا
اور اس پر پہاڑوں کابوجھ رکھ دیا
اور اسی نے (بعض مادوں کو باہم ملا کر) زمین سے محکم پہاڑوں کو ابھار دیا،
اور پہاڑوں کو گاڑ دیا ہے
اور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑ دیا
اور پہاڑوں کو اس میں گاڑا۔
مَتَٰعًۭا لَّكُمْ وَلِأَنْعَٰمِكُمْ ﴿٣٣﴾
تمہارے لیے اور تمہارے چار پایوں کے لیے سامان حیات ہے
سامان زیست کے طور پر تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے
تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کو،
یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے فائدے کے لیے (کیا)
(یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کے لئے (کیا)،
یہ سب تمہارے اور جانوروں کے لئے ایک سرمایہ ہے
یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے (ہیں)
تمہارے اور تمہارے مو یشیوں کے لئے سامانِ زندگی کے طور پر۔
فَإِذَا جَآءَتِ ٱلطَّآمَّةُ ٱلْكُبْرَىٰ ﴿٣٤﴾
پس جب وہ بڑا حادثہ آئے گا
پھر جب وہ ہنگامہ عظیم برپا ہوگا
پھر جب آئے گی وہ عام مصیبت سب سے بڑی
تو جب بڑی آفت آئے گی
پھر اس وقت (کائنات کے) بڑھتے بڑھتے (اس کی انتہا پر) ہر چیز پر غالب آجانے والی بہت سخت آفتِ (قیامت) آئے گی،
پھر جب بڑی مصیبت آجائے گی
پس جب وه بڑی آفت (قیامت) آجائے گی
پس جب بڑی آفت (قیامت) آئے گی۔
يَوْمَ يَتَذَكَّرُ ٱلْإِنسَٰنُ مَا سَعَىٰ ﴿٣٥﴾
جس دن انسان اپنے کیے کو یاد کرے گا
جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا
اس دن آدمی یاد کرے گا جو کوشش کی تھی
اس دن انسان اپنے کاموں کو یاد کرے گا
اُس دن انسان اپنی (ہر) کوشش و عمل کو یاد کرے گا،
جس دن انسان یاد کرے گا کہ اس نے کیا کیا ہے
جس دن کہ انسان اپنے کیے ہوئے کاموں کو یاد کرے گا
جس دن انسان یاد کرے گا جو کچھ اس نے کیا ہوگا۔
وَبُرِّزَتِ ٱلْجَحِيمُ لِمَن يَرَىٰ ﴿٣٦﴾
اور ہر دیکھنے والے کے لیے دوزخ سامنے لائی جائے گی
اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی
اور جہنم ہر دیکھنے والے پر ظاہر کی جائے گی
اور دوزخ دیکھنے والے کے سامنے نکال کر رکھ دی جائے گی
اور ہر دیکھنے والے کے لئے دوزخ ظاہر کر دی جائے گی،
اور جہنم کو دیکھنے والوں کے لئے نمایاں کردیا جائے گا
اور (ہر) دیکھنے والے کے سامنے جہنم ﻇاہر کی جائے گی
اور (ہر) دیکھنے والے کیلئے دوزخ ظاہر کر دی جائے گی۔
فَأَمَّا مَن طَغَىٰ ﴿٣٧﴾
سو جس نے سرکشی کی
تو جس نے سرکشی کی تھی
تو وہ جس نے سرکشی کی
تو جس نے سرکشی کی
پھر جس شخص نے سرکشی کی ہوگی،
پھر جس نے سرکشی کی ہے
تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی)
پس جس شخص نے سرکشی کی ہوگی۔
وَءَاثَرَ ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا ﴿٣٨﴾
اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی
اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی
اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی
اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھا
اور دنیاوی زندگی کو (آخرت پر) ترجیح دی ہوگی،
اور زندگانی دنیا کو اختیار کیا ہے
اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی (ہوگی)
اور (آخرت پر) دنیٰوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی۔
فَإِنَّ ٱلْجَحِيمَ هِىَ ٱلْمَأْوَىٰ ﴿٣٩﴾
سو بے شک اس کا ٹھکانا دوزخ ہی ہے
دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی
تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے،
اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے
تو بیشک دوزخ ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا،
جہنم ّاس کا ٹھکانا ہوگا
اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے
تو اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ وَنَهَى ٱلنَّفْسَ عَنِ ٱلْهَوَىٰ ﴿٤٠﴾
اور لیکن جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتارہا اور اس نے اپنے نفس کو بری خواہش سے روکا
اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا
اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا
اور جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا اور جی کو خواہشوں سے روکتا رہا
اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا،
اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے
ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا
اور جو شخص اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری سے ڈرتا رہا ہوگا اور (اپنے) نفس کو (اس کی) خواہش سے روکا ہوگا۔
فَإِنَّ ٱلْجَنَّةَ هِىَ ٱلْمَأْوَىٰ ﴿٤١﴾
سو بے شک اس کا ٹھکانا بہشت ہی ہے
جنت اس کا ٹھکانا ہوگی
تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے
اس کا ٹھکانہ بہشت ہے
تو بیشک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا،
تو جنّت اس کا ٹھکانا اور مرکز ہے
تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے
تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔
يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلسَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَىٰهَا ﴿٤٢﴾
آپ سے قیامت کی بابت پوچھتے ہیں کہ اس کا قیام کب ہوگا
یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ \"آخر وہ گھڑی کب آ کر ٹھیرے گی؟\"
تم سے قیامت کو پوچھتے ہیں کہ وہ کب کے لیے ٹھہری ہوئی ہے،
(اے پیغمبر، لوگ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہو گا؟
(کفّار) آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا،
پیغمبر لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا ٹھکانا کب ہے
لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں
یہ لوگ آپ(ص) سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب کھڑی (برپا) ہوگی۔
فِيمَ أَنتَ مِن ذِكْرَىٰهَآ ﴿٤٣﴾
آپ کو اس کےذکر سے کیا واسطہ
تمہارا کیا کام کہ اس کا وقت بتاؤ
تمہیں اس کے بیان سے کیا تعلق
سو تم اس کے ذکر سے کس فکر میں ہو
تو آپ کو اس کے (وقت کے) ذکر سے کیا غرض،
آپ اس کی یاد کے بارے میں کس منزل پر ہیں
آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق؟
آپ(ص) کا اس کے وقت بتانے سے کیا تعلق؟
إِلَىٰ رَبِّكَ مُنتَهَىٰهَآ ﴿٤٤﴾
اس کے علم کی انتہا آپ کے رب ہی کی طرف ہے
اس کا علم تو اللہ پر ختم ہے
تمہارے رب ہی تک اس کی انتہا ہے،
اس کا منتہا (یعنی واقع ہونے کا وقت) تمہارے پروردگار ہی کو (معلوم ہے)
اس کی انتہا تو آپ کے رب تک ہے (یعنی ابتداء کی طرح انتہاء میں بھی صرف وحدت رہ جائے گی)،
اس کے علم کی ا نتہائ آپ کے پروردگار کی طرف ہے
اس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے
اس کی انتہا تو بس آپ(ص) کے پروردگار پر ہے۔
إِنَّمَآ أَنتَ مُنذِرُ مَن يَخْشَىٰهَا ﴿٤٥﴾
بے شک آپ تو صرف اس کو ڈرانے والے ہیں جو اس سے ڈرتا ہے
تم صرف خبردار کرنے والے ہو ہر اُس شخص کو جو اُس کا خوف کرے
تم تو فقط اسے ڈرا نے والے ہو جو اس سے ڈرے،
جو شخص اس سے ڈر رکھتا ہے تم تو اسی کو ڈر سنانے والے ہو
آپ تو محض اس شخص کو ڈر سنانے والے ہیں جو اس سے خائف ہے،
آپ تو صرف اس کا خوف رکھنے والوں کو اس سے ڈرانے والے ہیں
آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاه کرنے والے ہیں
آپ(ص) تو بس ڈرانے والے ہیں اس شخص کو جو اس سے ڈرے۔
كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوٓا۟ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحَىٰهَا ﴿٤٦﴾
جس دن اسے دیکھ لیں گے (تو یہی سمجھیں گے کہ دنیا میں) گویا ہم ایک شام یا اس کی صبح تک ٹھیرے تھے
جس روز یہ لوگ اسے دیکھ لیں گے تو انہیں یوں محسوس ہوگا کہ (یہ دنیا میں یا حالت موت میں) بس ایک دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھیرے ہیں
گویا جس دن وہ اسے دیکھیں گے دنیا میں نہ رہے تھے مگر ایک شام یا اس کے دن چڑھے،
جب وہ اس کو دیکھیں گے (تو ایسا خیال کریں گے) کہ گویا (دنیا میں صرف) ایک شام یا صبح رہے تھے
گویا وہ جس دن اسے دیکھ لیں گے تو (یہ خیال کریں گے کہ) وہ (دنیا میں) ایک شام یا اس کی صبح کے سوا ٹھہرے ہی نہ تھے،
گویا جب وہ لوگ اسے دیکھیں گے تو ایسا معلوم ہوگاجیسے ایک شام یا ایک صبح دنیامیں ٹھہرے ہیں
جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی (دنیا میں) رہے ہیں
جس دن یہ لوگ اس (قیامت) کو دیکھیں گے تو (انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ) وہ (دنیا میں) نہیں ٹھہرے تھے۔ مگر ایک شام یا اس کی ایک صبح۔